خصائص علوم اہلبیت (ع)
1۔ خزانہ دار علوم الہیہ
347۔ رسول اکرم ! پروردگار نے اہلبیت (ع) کے بارے میں فرمایاہے کہ یہ سب تمھارے بعد میرے علوم کے خزانہ دار ہیں ۔( کافی 1 ص 193 / 4 ، بصائر الدرجات 105 / 12 ، روایت ابوحمزہ ثمالی از امام (ع) باقر)۔ 348۔ امام باقر (ع) خدا کی قسم ہم زمین و آسمان میں اللہ کے خزانہ دار ہیں لیکن اس کے خزانہٴ علم … کے خزانہ دار نہ کہ سونے اور چاندی کے ۔( کافی 1 ص 192 / 2)۔
349 ۔ امام باقر (ع) ! ہم علم خدا کے خزانہ دار اور وحی الہی کے ترجمان ہیں۔
(کافی 1 ص 192 / 3 روایت سدیر 1 ص 269/6 اس مقام پر وحی کے بجائے امر کا لفظ ہے، اعلام الوریٰ ص 277 روایت سدیر)۔
350 ۔ امام باقر (ع) ! پروردگار کے لئے ایک علم خاص ہے اور ایک علم عام، علم خاص وہ ہے جس کی اطلاع ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین کو بھی نہیں ہے، اور علم عام وہ ہے جسے اس نے ملائکہ اور مرسلین کو عنایت فرمادیاہے اور ہم تک یہ علم رسول اکرم کے ذریعہ پہچاہے۔( التوحید 138 / 14 روایت ابن سنان از امام صادق ، بصائر الدرجات 111 / 12 روایت حنان کندی)۔
351۔ امام صادق (ع) ! ہم انبیاء کے وارث ہیں اور ہمارے پاس حضرت موسیٰ کا عصا ہے، ہم زمین میں پروردگار کے خزانہ دار ہیں لیکن سونے چاندی کے نہیں ۔( تفسیر فرات کوفی 107 / 101 از ابراہیم )۔
352۔ امام صادق (ع) ! ہم علم کے شجر ہیں اور نبی کے اہلبیت (ع) ہمارے گھر میں جبریل کے نزول کی جگہ ہے اور ہم علم الہی کے خزانہ دار ہیں، ہم وحی خدا کے معدن ہیں اور جوہمارا اتباع کرے گا وہ نجات پائے گا اورجو ہم سے الگ ہوجائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا، یہی پروردگار کا عہد ہے۔( امالی (ر) صدوق 252 / 15 ، بشارة المصطفی ص 54 از ابوبصیر ، روضة الواعظین ص 299 بصائر الدرجات ص 103 باب 19)۔
2 ۔ ظرف علم الہی
353۔ امام زین العابدین (ع) ! ہم خدا کے ابواب ہیں اور ہمیں صراط مستقیم ہیں، ہمیں اس کے علم کے ظرف ہیں اور ہمیں اس کی وحی کے ترجمان ، ہمیں توحید کے ارکان ہیں اور ہمیں اس کے اسرار کے مرکز (معانی الاخبار 35 / 5 ، ینابیع المودة 3 ص359 /1 روایت ثابت ثمالی)۔
354۔ اما م صادق (ع) ! ہم امر الہی کے والی ، علم الہی کے خزانہ دار اور وحی خدا کے ظروف ہیں۔( کافی 1 ص 192 /1 ، بصائر الدرجات 61 / 3 ، 105/8 روایت عبدالرحمان بن کثیر)۔
355۔ امام صادق (ع) ۔ پروردگار نے ہمیں اپنے لئے منتخب کیا ہے اور تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے ، ہمیں وحی کا امین اور زمین میں اپنا خزانہ بنایاہے ، ہمیں اس کے اسرار کے محل اور اس کے علم کے ظرف ہیں۔(بصائر الدرجات 62 /7 ، روایت عباد بن سلیمان)۔
356۔ وہب بن منبہ راوی ہیں کہ پروردگار نے جناب موسیٰ کی طرف وحی کی کہ محمد اور ان کے اوصیاء کے ذکر سے متمسک رہو کہ یہ سب میرے علم کے خزانہ دار ۔ میرے حکمت کے ظروف اور میرے نور کے معدن ہیں۔( بحار 51 / ص 149 / 24)۔
357۔جناب فاطمہ صغریٰ نے واقعہ کربلا کے بعد اہل کوفہ سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا، اے اہل کوفہ ! اے اہل مکاری و غداری و فریب کاری ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کے ذریعہ پروردگار نے تمھارا امتحان لیاہے اور بہترین امتحان لیاہے، اس نے اپنے علم و فہم کا مرکز ہمیں بنایاہے اور ہم اس کے علم کا ظرف ، فہم و حکمت کا محل اور زمین میں بندوں پر اس کی حجت میں اس نے ہمیں اپنی کرامت سے مکرم بنایاہے اور اپنے نبی (ع) کے ذریعہ تمام مخلوقات سے افضل قرار دیا ہے۔( احتجاج 2 ص 106 ، ملہوف 195 ، مشیر الاحزان 87 ، بغیر ذکر ظرف فہم)۔
3۔ ورثہ علوم انبیاء
358 ۔ رسول اکرم ، روئے زمین پر پہلے وصی جناب ہبة اللہ بن آدم (ع) تھے، اس کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں تھا جس کا کوئی وصی نہ رہاہو، جبکہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور ان میں سے پانچ اولوالعزم تھے نوح (ع) ، ابراہیم (ع) ، موسی ٰ (ع) ، عیسیٰ (ع) ، محمد ۔
علی بن ابی طالب محمد کے لئے ہبة اللہ تھے اور انھیں تمام اوصیاء اور سابق کے اولیاء کا ورثہ ملا تھا جس طرح کہ محمد تمام انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔( کافی 1 ص 224 / 2 از عبدالرحمٰان بن کثیر ، بصائر الدرجات 121/1 ، عبدالرحمان بن کبیر ، اعلام الدین ص 464)۔
359۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ جو علوم لے کر آدم (ع) آئے تھے اور جس کے ذریعہ تمام انبیاء کو فضیلت حاصل ہوئی ہے سب کے سب خاتم النبیین کی عترت میں پائے جاتے ہیں تو آخر تم لوگ کدھر بہک رہے ہو اور کدھر چلے جارہے ہو؟ (ارشاد 1 ص 232 ، تفسیر عیاشی 1 ص 102 / 300 ا ز مسعدہ بن صدقہ تفسیر قمی 2 ص 367 از ابن اذینہ)۔
360۔ امام صادق (ع) ! ہم سب انبیاء کے وارث ہیں، رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو زیر کساء لے کر ایک ہزار کلمات کی تعلیم دی اور ان پر ہر کلمہ سے ہزار کلمات روشن ہوگئے ۔ ( خصال ص 651 / 49 از ذریح المحاربی )۔
361۔امام باقر (ع)! آدم (ع) جو علم لے کر آئے تھے وہ واپس نہیں گیا بلکہ یہیں اس کی وراثت چلتی رہی اور حضرت علی (ع) اس امت کے عالم تھے اور ہم میں سے کوئی عالم دنیا سے نہیں جاتاہے مگر یہ کہ اپنا جیسا عالم چھوڑ کر جاتاہے یا جیسا خدا چاہتاہے۔( کافی 1 ص 222/ 2 از زرارہ و فضیل ، کمال الدین 223 / 14 از فضیل )۔
کمال الدین میں یہ اضافہ بھی ہے کہ علم وراثت میں چلتا رہتاہے اور جو علم یا جو آثار انبیاء و مرسلین اس گھر کے باہر سے حاصل ہوں ، وہ سب باطل ہیں ۔!
362۔ امام باقر (ع) ! ایھا النّاس ۔ تمھارے پیغمبر کے اہلبیت (ع) کو پروردگار نے اپنی کرامت سے مشرف کیاہے اور اپنی ہدایت سے معزز بنادیاہے، اپنے دین کے لئے مخصوص کیا ہے اور اپنے علم سے فضیلت عطا کی ہے پھر اپنے علم کا محافظ اور امین قرار دیاہے۔
اہلبیت (ع) امام ، داعی دین ، قائد، ہادی ، حاکم، قاضی ، ستارہ ٴ ہدایت، اسوہٴ حسنہ، عترت طاہرہ، امت وسط ، صراط واضح ، سبیل مستقیم ، زینت نجباء اور ورثہ انبیاء ہیں،۔( تفسیر فرات کوفی ص 337 ، 460 از فضل بن یوسف القصبانی )۔
363۔ابوبصیر ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کیا آپ حضرات رسول اکرم کے وارث ہیں؟ فرمایا بیشک میں نے عرض کی کہ رسول اکرم تو تمام انبیاء کے وارث اور ان کے علوم کے عالم تھے؟ فرمایا بیشک ( ہم بھی ایسے ہی ہی ) ( کافی 1 ص 47 / 3 ، رجال کشی 1 ص 408 / 298 ، بصائر الدرجات 269 / 1 ، دلائل الامامہ 226 / 153 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 184 ، الخرائج والجرائح 2 ص 711 / 8 فصول مہمہ ص 215 ۔
364 ۔ امام صادق ! حضرت علی عالم تھے اور علم ان کی وراثت میں چلتارہتاہے کہ جب کوئی عالم مرتاہے تو اس کے بعد اسی علم کا وارث آجاتاہے یا جو خدا چاہتاہے-( کافی 1 ص 221 /1 ، علل الشرائع ص 591 / 40 ، بصائر الدرجات 118 / 2 ، الامامة والتبصرہ ص 225 / 75 از محمد بن مسلم کمال الدین 223 / 13)۔
365 ۔ امام صادق (ع)! جو علم حضرت آدم (ع) کے ساتھ آیاتھا وہ واپس نہیں گیا اور کوئی بھی عالم مرتاہے تو اس کے علم کا ورث موجود رہتاہے ، یہ زمین کسی وقت بھی عالم سے خالی نہیں ہوتی ۔( کافی 1 ص 223 / 8 کمال الدین 224 / 19، بصائر الدرجات 116 / 9 از حارث بن المغیرہ)۔
366۔ ضریس کناسی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تا اور ابوبصیر بھی موجود تھے کہ حضرت نے فرمایا کہ داؤد علوم انبیاء کے وارث تھے اور ہم حضرت محمد کے وارث ہیں ، ہمارے پاس حضرت ابراہیم (ع) کے صحیفے اور حضرت موسیٰ (ع) کی تختیاں سب موجود ہیں ۔
367۔ ابوبصیر نے عرض کی کہ حضور یہ تو واقعی علم ہے، فرمایا یہ علم نہیں ہے، علم وہ جو روز و شب روزانہ اور ساعت بہ ساعت تازہ ہوتا رہتا ہے۔( کافی 1 ص 225 /4،بصائر الدرجات 135/1)۔
368 ۔ امام ہادی ! در زیارت جامعہ، سلام ہو ائمہ ہدیٰ پر چو تاریکیوں کے چراغ ہدایت ، علم ، صاحبان عقل ، ارباب فکر ، پناہ گاہ خلائق ، ورثہ انبیاء، مثل اعلیٰ ، دعوتِ خیر اور دنیا و آخرت سب پر اللہ کی حجت ہیں اور انھیں پر رحمت و برکات ہوں ۔( تہذیب 6 ص 96 / 177)۔
4۔ ان کی حدیث حدیث رسول ہے
369۔ امام باقر (ع) ! سوال کیا گیا کہ اگر آپ کی حدیث کو بلاسند بیان کریں تو اس کی سند کیا ہے؟ فرمایا ایسی حدیث کی سند یہ ہے کہ میں نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے رسول اکرم سے نقل کیا ہے اور آپ نے جبریل سے نقل کیا ہے۔( ارشاد 2 ص 167 ، الخرائج و الجرائح 2 ص 893 ، روضة الواعظین ص 226)۔
370۔ امام باقر (ع) ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جنھیں علم خدا سے عالم بنایا گیا ہے اور ہم نے اس کی حکمت سے حاصل کیا ہے اور قول صادق کو سناہے لہذا ہمارا اتباع کرو تا کہ ہدایت حاصل کرلو۔( مختصر بصائر الدرجات ص 63 ، بصائر الدرجات 514 / 34از جابر بن یزید)۔
371۔ امام باقر (ع) ! اگر ہم اپنی رائے سے حدیث بیان کرتے تو اسی طرح گمراہ ہوجاتے جس طرح پہلے والے گمراہ ہوگئے تھے، ہم اس دلیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جسے پروردگار نے اپنے پیغمبر کو عطا کیاہے اور انھوں نے ہم سے بیان کیا ہے۔(اعلام الوریٰ ص 294 ، اختصاص ص 281 از فضیل بن یسار) ۔
372۔ جابر ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے عرض کیا کہ جب آپ کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی سندبھی بیان فرمادیں؟ فرمایا ہماری ہر حدیث کی سند ، والد محترم جد بزرگوار، ان کے والد محترم، پیغمبر اسلام اور آخر میں جبریل امین ہیں۔(امالی مفید 42 /10 ، حلیة الابرار 2 ص95)۔
373۔ امام صادق (ع) ، ہماری حدیث ہمارے والد کی حدیث ہے ، ان کی حدیث ہمارے جد کی حدیث ہے، ان کی حدیث امام حسین (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث امام حسن (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث امیر المؤمنین (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث رسول اللہ کی حدیث ہے اور رسول اللہ کی حدیث قول پروردگار ہے۔( کافی 1 ص 53 / 14 از حماد بن عثمان، روضة الواعظین ص 233)۔
374۔ امام صادق (ع) ! اللہ نے ہماری ولایت کو فرض قرار دیاہے اور ہماری محبت کو واجب کیا ہے، خدا گواہ ہے کہ ہم اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ہیں اور نہ اپنی رائے سے کام کرتے ہیں ، ہم وہی کہتے ہیں ٍو ہمارے پروردگار نے کہا ہے۔( امالی مفید 60 / 4 از محمد بن شریح)۔
375 ۔ امام موسیٰ کاظم (ع) نے خلف بن حماد کوفی کے سخت ترین سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں رسول اکرم اور جبریل کے حوالہ سے بیان کررہا ہوں۔( کافی 3 ص 94 / 1)۔
376۔ امام رضا (ع) ! ہم ہمیشہ اللہ اوررسول کی طرف سے بیان کرتے ہیں ۔( رجال کشی 2 ص 490 / 401 از یونس بن عبدالرحمان)۔
5 ۔ اعلم الناس
377۔رسول اکرم ! میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ۔ اگر تم ان دونوں کو اختیار کرلوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت اہلبیت (ع) ، ایہا الناس ! میری بات سنو! میں نے یہ پیغام پہنچادیاہے کہ تم سب عنقریب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوگے تو میں سوال کروں گا کہ تم نے ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور یہ ثقلین کتاب خدا اور میرے اہلبیت (ع) ہیں ، خبردار ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ ہلاک ہوجاؤ اور انھیں پڑھانے کی کوشش بھی نہ کرنا کہ یہ تم سب سے زیادہ علم والے ہیں۔( کافی 1 ص 294 / 3 از عبدالحمید بن ابی الدیلم از امام صادق (ع) ، تفسیر عیاشی 1 ص 250 / 169 ۔ از ابوبصیر)۔
378۔ رسول اکرم ! یاد رکھو کہ میری عترت کے نیک کردار اور میرے خاندان کے پاکیزہ نفس افراد بچوں میں سب سے زیادہ ہوشمند اور بزرگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم ہوتے ہیں، خبردار انھیں تعلیم نہ دینا کہ یہ تم سب سے اعلم ہیں۔ یہ نہ تمھیں ہدایت کے درواز ہ سے باہر لے جائیں گے اور نہ گمراہی کے دروازہ میں داخل کریں گے۔ ( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 204 /171 احتجاج2 ص 236 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 1 ص276 ازامام صادق (ع) )۔
379۔ امام علی (ع) ! اصحاب پیغمبر میں حافظان حدیث جانتے ہیں کہ آپ نے فرمایاہے کہ میں اور میرے اہلبیت (ع) سب پاک و پاکیزہ ہیں، ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ گمراہ ہوجاؤ اور ان کی مخالفت نہ کرنا کہ جاہل رہ جاؤ اور انھیں پڑھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے اعلم ہیں اور بزرگی میں تمام لوگوں سے اعلم اور کمسنی ہیں تمام بچوں سے زیادہ ہوشمند ہوتے ہیں 0تفسیر قمی 1 ص 4 اثبات الہداة 1 ص 631 / 724)۔
380۔جابر بن یزید، ایک طویل حدیث کے ذیل میں نقل کرتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اثنائے گفتگو امام محمد باقر (ع) بھی آگئے ، بچپنے کا زمانہ تھا اور سر پہ گیسو تھے لیکن جابر نے دیکھا تو کانپنے لگے اور جسم کے رنگٹے کھڑے ہوگئے، غور سے دیکھنے کے بد کہا فرزند ! ذرا آگے بڑھو؟ آپ آگے بڑھے، پھر کہا ذرا پیچھے ہٹیں،آپ پیچھے ہٹے، جابر نے یہ دیکھ کر کہا کہ رب کعبہ کی قسم بالکل رسول اکرم کا انداز ہے اور پھر سوال کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟…فرمایا محمد (ع) ! میری جان قربان ، یقیناً آپ ہی باقر (ع) ہیں؟ فرمایا بیشک تو اب اس امانت کو پہنچا دو جو رسول اللہ نے تمھارے حوالہ کی ہے! جابر نے کہا مولا ! حضور نے مجھے بشارت دی تھی کہ آپ کی ملاقات تک زندہ رہوں گا اور فرمایا تھا کہ جب ملاقات ہوجائے تو میرا سلام کہہ دینا لہذا پیغمبر اکرم کا سلام لیلیں۔
امام باقر (ع) نے فرمایا جابر ! رسول اکرم پر میرا سلام جب تک زمین و آسمان قائم رہیں اور تم پر بھی میرا سلام جس طرح تم نے میرا سلام پہنچایاہے اس کے بعد جابر برابر آپ کی خدمت میں آتے رہے اور آپ سے علم حاصل کرتے رہے، ایک مرتبہ آپ نے جابر سے کوئی سوال کیا تو جابر نے کہا کہ میں رسول اللہ کے حکم کی خلافت ورزی نہیں کرسکتاہوں، آپ نے خبر دی ہے کہ آپ اہلبیت (ع) کے تمام ائمہ ہداة بچپنے میں سب سے زیادہ ہوشمند اور بڑے ہوکر سب سے زیادہ اعلم ہوتے ہیں اور کسی کو حق نہیں ہے کہ آپ حضرات کو تعلیم دے کہ آپ سب سے زیادہ اعلم ہوتے ہیں۔
امام باقر (ع) نے فرمایا کہ میرے جد نے سچ فرمایاہے، میں اس مسئلہ کو تم سے بہتر جانتاہوں جو میں نے دریافت کیا ہے اور مجھے بچپنے ہی سے حکمت عطا کردی گئی ہے اور یہ سب ہم اہلبیت (ع) پر پروردگار کا فضل و کرم ہے۔( کمال الدین 253 / 3)۔
381۔ جبلہ بن المصفح نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ امام علی (ع) نے فرمایا کہ اے برادر بنی عام جو چاہو مجھ سے سوال کرو کہ ہم اہلبیت (ع) خدا و رسول کے ارشادات کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔( الطبقات الکبریٰ 6 ص 240)۔
382۔ امام علی (ع) ! ہمارے علم کی گہرائیوں پر غور کرنے والے کے علم کا آخری انجام جہالت ہے۔( الطبقات الکبریٰ 6 ص 240)۔
382۔ امام علی (ع) ! ہمارے علم کی گہرائیوں پر غور کرنے والے کے علم کا آخری انجام جہالت ہے۔( شرح نہج البلاغہ معتزلی 20 ص 307 / 515)۔
383۔ امام باقر (ع) نے سلمہ بن کہیل اور حکم بن عتیبہ سے فرمایا کہ جاؤ مشرق و مغرب کے چکر لگا آؤ کوئی علم صحیح ایسا نہ پاؤگے جو ہم اہلبیت (ع) کے گھر سے نکلا ہو۔( کافی 1 ص 299 / 3 ، بصائر الدرجات 10 ، ابومریم)۔
384۔ ابوبصیر ناقل ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا کہ حکم بن عتیبہ ان لوگوں میں سے ہے جس کے بارے میں ارشاد قدرت ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں، اس سے کہہ دو کہ جائے مشرق و مغرب کے چکر لگائے ، خدا کی قسم کہیں علم نہ ملے گا مگر یہ کہ اسی گھر سے نکلا ہوگا جس میں جبریل کا نزول ہوتاہے۔( بصائر الدرجات 9 ص 2 ، کافی 1 ص 299 /4 روایت مضمرہ)۔
385۔ امام باقر (ع) کسی شخص کے پاس نہ کوئی حرف حق ہے اور نہ حرف راست اور نہ کوئی صحیح فیصلہ کرنا جانتاہے مگر یہ کہ وہ علم ہم اہلبیت (ع) ہی کے گھر سے نکلاہے اور جب بھی امور میں اختلاف نظر آئے تو سمجھ لو کہ غلطی قوم کی طرف سے ہے اور حرف راست حضرت علی (ع) کی طرف سے ہے۔( کافی 1 ص 399 / 1 ، بصائر الدرجات 519 / 12 ، المحاسن 1 ص 243 / 448 ، امالی مفید 96 /6 روایت محمد بن مسلم)۔
386۔ زرارہ ! میں امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک مرد کوفی نے امیر المومنین (ع) کے اس ارشاد کے بارے میں دریافت کیا کہ جو چاہو پوچھ لو ، میں تمھیں بتاسکتاہوں! فرمایا کہ بیشک کسی شخص کے پاس کوئی علم نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا مصدر امیر المومنین (ع) کا علم ہے، لوگ جد ھر چاہیں چلے جائیں بالآخر مصدر یہی گھر ثابت ہوگا ۔( کافی 1 ص 399 / 2)۔
387۔ امام باقر (ع) ! جو علم بھی اس گھر سے نکلا ہوسمجھ لو کہ باطل اور بیکار ہے۔(مختصر بصائر الدرجات 62 ، بصائر الدرجات 511 / 21 از فضیل بن یسار)۔
388۔ عبداللہ بن سلیمان ! میں نے امام باقر (ع) کو اس وقت فرماتے سنا ہے جب آپ کے پاس بصرہ کا عثمان اعمیٰ نامی شخص موجود تھا اور آپ نے فرمایا کہ حسن بصری کا خیال ہے کہ جو لوگ اپنے علم کو پوشیدہ رکھتے ہیں ان کی بدبو سے اہل جہنم کو بھی اذیت ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن آل فرعون بھی ہلاک ہوگیا حالانکہ جناب نوح کے زمانہ سے علم ہمیشہ پوشیدہ رہاہے اور حسن بصری سے کہہ دو کہ داہنے بائیں بائیں ہر جگہ دیکھ لے اس گھر کے علاوہ کہیں علم نہ ملے گا ۔( کافی 1 ص 51 / 15 ، احتجاج 2 ص 193 / 212)۔
389 ۔ ابوبصیر ! میں نے امام باقر (ع)سے سوال کیا کہ ولدالزنا کی گواہی جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا نہیں … میں نے عرض کی کہ حکم بن عتبہ تو اسے جائز جانتاہے؟ فرمایا، خدایا اس کے گناہ کو معاف نہ کرنا ، پروردگار نے قرآ ن کو اس کے اور اس کی قوم کے لئے ذکر نہیں قرار دیا ہے، اس سے کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب دیکھ لے ، علم صرف اس گھر میں ملے گا جس میں جبریل کا نزول ہوتاہے) کافی 1 ص 400 / 5)۔
390۔ امام صادق (ع) نے یونس سے فرمایا کہ اگر علم صحیح درکار ہے تو اہلبیت(ع) سے حاصل کرو کہ اس کا علم ہمیں کو دیا گیا ہے اور ہمیں حکمت کی شرح اور حرف آخر عطا کیا گیاہے، پروردگار نے ہمیں منتخب کیا ہے اور وہ سب کچھ عطا کردیا ہے جو عالمین میں کسی کو نہیں دیا ہے۔( بحار الانوار 26 ص 158 /5 الصراط المستقیم 2 ص 157 ، اثبات الہداة 1 ص 602 از یونس بن ظبیان)۔
391۔ امام صادق (ع) کے پاس ایک جماعت حاضر تھی جب آ پ نے فرمایا کہ حیرت انگیز بات ہے کہ لوگوں نے رسول اکرم سے علم حاصل کیا اور عالم بن گئے اور ہدایت یافتہ ہوگئے اور ان کا خیال ہے کہ اہلبیت (ع) نے حضور کا علم نہیں لیا ہے، حالانکہ ہم اہلبیت(ع) ان کی ذریت ہیں اور وحی ہمارے ہی گھر میں نازل ہوئی ہے اور علم ہمارے ہی گھر سے نکل کر لوگوں تک گیاہے! کیا ان کا خیال ہے کہ یہ سب عالم اور ہدایت یافتہ ہوگئے ہیں اور ہم جاہل او ر گمراہ رہ گئے ہیں ، یہ تو بالکل امر محال ہے( کافی 1 ص 398 /1 ، امالی مفید 122 / 6 ، بصائر الدرجات 12 / 3 روایت یحیئ بن عبداللہ)۔
392۔ امام رضا (ع) ! انبیاء اور ائمہ وہ ہیں جنھیں پروردگار توفیق دیتاہے اور اپنے علم و حکمت کے خزانہ سے وہ سب کچھ عنایت کردیتاہے جو کسی کو نہیں دیتا ہے ان کا علم تمام اہل زمانہ کے علم سے بالاتر ہوتاہے جیسا کہ ارشاد قدرت ہے ” کیا جو شخص حق کی ہدایت دیتاہے وہ زیادہ پیروی کا حقدار ہے یا وہ شخص جو اس وقت تک ہدایت بھی نہیں پاتاہے جب تک اسے ہدایت نہ دی جائے، آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے اور تم کیا فیصلہ کررہے ہو“۔(یونس آیت 35)۔
دوسرے مقام پرارشاد ہوتاہے” جسے حکمت دیدی جائے اسے خیر کثیر دیدیا گیا ہے۔(بقرہ آیت 269)۔
پھر جناب طالوت کے بارے میں ارشا د ہوا ہے کہ ” اللہ نے انھیں تم سب میں منتخب قرار دیا ہے اور علم و جسم کی طاقت میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جس کو چاہتاہے ملک عنایت کرتاہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور صاحب علم بھی ہے۔بقرہ آیت 247 “ کافی 1 ص 202 / 1 ، کمال الدین 280 / 31 ، امالی صدوق 540 / 1 عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 221 /1 ، معانی الاخبار 100 /2 ، تحف العقول ص 441 ، احتجاج 2 ص 445 / 310 روایت عبدالعزیز بن مسلم )۔
6۔ راسخون فی العلم
393۔ اما م علی (ع) ! کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ ہمارے بجائے وہی ” راسخوں فی العلم“ ہیں حالانکہ یہ صریحی جھوٹ ہے اور ہمارے اوپر ظلم ہے کہ خدا نے ہمیں بلند بنایاہے اور انھیں پست قرار دیا ہے، ہمیں علم عنایت فرمایاہے اور انھیں اس علم سے الگ رکھاہے، ہمیں اپنی بارگاہ میں داخل کیا ہے اور انھیں دور رکھاہے، ہمارے ہی ذریعہ ہدایت حاصل کی جاتی ہے، اور تایکیوں میں روشنی تلاش کی جاتی ہے۔(نہج البلاغہ خطبہ 124 مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 285 ، غرر الحکم ص 2826)۔
394۔امام علی (ع) ! پروردگار نے امت پر اولیاء امر کی اطاعت کو واجب قرار دیاہے کہ وہ اسکے دین کے ساتھ قیام کرنے والے ہیں جس طرح کہ اس نے رسول کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے” اطیعوا للہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم“ اس کے بعد ان اولیاء امر ، کی منزلت کی وضاحت تاویل قرآن کے ذریعہ کی ہے” و لو ردوہ الی الرسول و الیٰ اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم“( نساء آیت 83) اگر یہ لوگ مسائل کو رسول اور اولی الامر کی طرف پلٹا دیتے تو دیکھتے کہ یہ حضرات تمام امور کے استنباط کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اور ان کے علاوہ ہر شخص تاویل قرآن کے علم سے بے خبر ہے، اس لئے کہ یہی راسخون فی العلم“ آل عمران آیت 7 ( بحار 69 ص 79 / 29)۔
395۔ یزید بن معاویہ ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے آیت کریمہ” و ما یعلم تاویلہ الا اللہ و الراسخون فی العلم“ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ پورے قرآن کی تاویل کا راز خدا اور راسخون فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتاہے۔ رسول اکرم ان تمام افراد میں سب سے افضل ہیں کہ پروردگار نے انھیں تمام تنزیل اور تاویل کا علم عنایت فرمایاہے اور کوئی ایسی شے نازل نہیں کی جس کی تاویل کا علم انھیں نہ دیا اور پھر ان کے اوصیاء کو عنایت فرمایاگیا اور جب جاہلوں نے یہ سوال کیا کہ ہم کیا کریں ؟ تو ارشاد ہوا ” یقولون امنا بہ کل من عند ربنا “ تمھاری شان یہ ہے کہ سب پر ایمان لے آو اور کہو کہ سب پروردگار کی طرف سے ہے۔
دیکھو قرآن میں خاص بھی ہے اور عالم بھی، ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ، محکم بھی ہے اور متشابہ بھی اور راسخون فی العلم ان تمام امور کو بخوبی جانتے ہیں ۔( تفسیر عیاشی 1 ص 164 / 6، کافی 1 ص 213 / 2 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 107 ، بصائر الدرجات ص 204 /8 ، تفسیر قمی 1 ص 96 ، مجمع البیان 2 ص 701)۔
396۔امام صادق (ع) ! ہم ہی راسخون فی العلم ہیں اور ہمیں تاویل قرآن کے جاننے والے ہیں ۔( کافی 1 ص 213 / 1 ، بصائر الدرجات 5 ص 204۔
تفسیر عیاشی 1 ص 164 /8 تاویل الآیات الظاہرہ ص 106 از ابوبصیر)۔
397۔ امام صادق (ع) ! راسخون فی العلم امیر المومنین (ع) ہیں اور انکے بعد کے ائمہ ۔( کافی 1 ص 213 /3 روایت عبدالرحمان بن کثیر )۔
7۔ معدن العلم
398۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت(ع) رحمت کی کلید، رسالت کا محل ، ملائکہ کے نزول کی منزل اور علم کے معدن ہیں۔( فرائد السمطین 1 ص 44 /9 از ابن عباس)۔
399۔حمید بن عبداللہ بن یزید المدنی ناقل ہے کہ رسول اکرم کے سامنے ایک فیصلہ کا ذکر کیا گیا جو علی (ع) بن ابی طالب (ع) نے صادر کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم اہلبیت(ع) کے گھر میں حکمت قرار دی ہے۔(فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 654/ 1113، شرح الاخبار 2 ص 309 / 631)۔
400۔ امام علی (ع) ! ہم شجرہٴ نبوت ، محل رسالت ، منزل ملائکہ ، معدن علم چشمہ حکمت ہیں ، ہمارا دوست اور مددگار ہمیشہ منتظر رحمت رہتاہے اور ہمارا دشمن اور بغض رکھنے والا ہمیشہ عذاب کے انتظار میں رہتاہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 109 ، غرر الحکم 10005)۔
401۔ امام علی (ع) نے مدینہ میں ایک خطبہ کے دوران فرمایا، آگاہ ہوجاؤ ! قسم اس پروردگار کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور ذی روح کو پیدا کیا ہے اگر تم لوگ علم کو اس کے معدن سے حاصل کرتے اور پانی کو اس کی شیرنی کے ساتھ پیتے اور خیر کا ذخیرہ اس کے مرکز سے حاصل کرتے اور واضح راستہ کو اختیار کرتے اور حق کے منہاج پر گامزن ہوتے تو تمھیں صحیح راستہ مل جاتا اور نشانیاں واضح ہوجاتیں اور اسلام روشن ہوجاتا۔( کافی 8 ص 32 / 5 )۔
402۔امام حسین (ع) ! میں نہیں جانتا کہ لوگ ہم سے کس بات پر عداوت رکھتے ہیں جبکہ ہم رحمت کے گھر ، نبوت کے شجر اور علم کے معدن ہیں۔( نزہة الناظرہ85 / 21)۔
403۔ امام زین العابدین (ع) ! لوگ ہم سے کسی بات پر بیزار ہیں ، ہم تو خدا کی قسم کے شجرہ میں ہیں، رحمت کے گھر ، حلم کے معدن اور ملائکہ کی آمد و رفت کے مرکز ہیں۔( کافی 1 ص 221 /1 روایت ابوالجاروڈ، نزہة الناظر 85 / 21)۔
204۔ امام باقر (ع)(ع) ! کتاب خدا اور سنت پیغمبر کا علم ہمارے مہدی کے دل میں اسی طرح ظاہر ہوگا، جس طرح بہترین زمین پر زراعت کا ظہور ہوتاہے لہذا شخص بھی اس وقت تک باقی رہ جائے اور ان سے ملاقات کرے وہ سلام کرے، سلام ہو تو پر اے اہلبیت (ع) رحمت و نبوت و معدن علم و مرکز رسالت ! ( کمال الدین ص 603 /18 روایت جابر ، بحار الانوار 52 / 307 / 16 نقل از العدد القویہ)۔
405۔ امام باقر (ع) ! وہ درخت جس کی اصل رسول اللہ ہیں اور فرع امیر المومنین (ع) ڈالی جناب فاطمہ (ع) ہیں اور پھل حسن (ع) و حسین (ع) … یہ نبوت کا شجر اور رحمت کی پیداوار ہے، یہ سب حکمت کی کلید، علم کا معدن، رسالت کا محل، ملائکہ کی منزل، اسرار الہیہ کے امانتدار ، امانت پروردگار کے حامل، خدا کے حرم اکبر اور اس کے بیت العتیق اور حرم ہیں۔(الیقین ص 318 ، تفسیر فرات 395 / 527 ) اس میں نبت الرحمہ کے بجائے بیت الرحمہ ہے اور حرم کے بجائے ذمہ کی لفظ ہے اور روایت زیاد بن المنذر سے ہے)۔
406۔ امام صادق (ع) ! امام علی (ع) بن الحسین (ع) زوال آفتاب کے بعد نماز ادا کرکے یہ دعا پڑھا کرتے تھے ” خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو نبوت کے شجر رسالت کامحل ، ملائکہ کی منزل، علم کا معدن اور وحی کے اہلبیت (ع) ہیں (جمال الاسبوع ص 250 ، مصباح المتہجد ص 361)۔ نوٹ! اس موضوع کے ذیل میں احقاق الحق 10 ص 409 کا مطالعہ بھی کیا جاسکتاہے جہاں امام صادق (ع) ، امام کاظم (ع) اور امام رضا (ع) کے حوالہ سے اس تعبیر کا ذکر کیا گیاہے۔
8۔ زندگانی علم
407۔ امیر المومنین (ع) آل محمد کے صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، یہ حضرات علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں، ان کا حلم ان کے علم کی خبر دے گا اور ان کا ظاہر ان کے باطن کے بارے میں بتائے گا اور ان کی خاموشی ان کے نطق کی حکمت کی دلیل ہے، یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف کرتے ہیں، اسلام کے ستون ہیں اور تحفظ کے وسائل ، انھیں کے ذریعہ حق اپنی منزل پر واپس آیاہے اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیاہے۔
اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی ہے۔ انھوں نے دین کو پورے شعور کے ساتھ محفوظ کیا ہے اور صرف سماعت اور روایت پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اور اس کی رعایت و حفاظت کرنے والے بہت کم ہیں۔( نہج البلاغہ خطبہ 239 ، تحف العقول 22)۔
408۔ امام علی (ع) (ع)! یاد رکھو کہ تم ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے ہو جبتک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور میثاق کتاب کو اس وقت تک اختیار نہیں کرسکتے ہو جب تک اس عہد کے توڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور اس سے متمسک نہیں ہوسکتے ہو جب تک نظر انداز کرنے والوں کی معرفت نہ حاصل کرلو لہذاہدایت کو اس کے اہل سے حاصل کرو کہ یہی لوگ علم کی زندگی ہیں اور جہالت کی موت، یہی وہ ہیں جن کا حکم ان کے علم کی خبر دے گا اور ان کی خاموشی ان کے تکلم کا پتہ دے گی، ان کا ظہر ان کے باطن کی بہترین دلیل ہے ، یہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں یہ دین ان کے درمیان ایک سچا گواہ اور ایک خاموش ترجمان ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 147 ، کافی 8 ص 390 / 586 روایت محمد بن الحسین)۔
ابواب علوم اہلبیت(ع)
1۔ علم الکتاب
409۔ابوسعید خدری ! میں نے رسول اکرم سے آیت شریفہ ” و من عندہ علم الکتاب“ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ اس سے میرا بھائی علی (ع) بن ابی طالب مراد ہے۔( شواہد التنزیل 1 ص 400 / 422)۔
410۔ ابوسعید خدری ! میں نے رسول اکرم سے ارشاد احدیت ” قال الذین عندہ علم من الکتاب“ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ میرے بھائی سلیمان بن داود کا وصی تھا، پھر دریافت کیا کہ ” قل کفی باللہ شہیدا بینئ و بینکم و من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے تو فرمایا کہ یہ میرا بھائی علی (ع) بن ابی طالب ہے۔( امالی صدوق (ر) 453 / 3)۔
411۔ امام علی (ع) نے آیت شریفہ و من عندہ علم الکتاب کے ذیل میں فرمایا کہ میں وہ ہوں جس کے پاس کل کتاب کا علم ہے۔( بصائر الدرجات 216 / 21)۔
412 ۔ امام حسین (ع) ! ہم وہ ہیں جن کے پاس کل کتاب کا علم اور اس کا بیان موجود ہے اور ہمارے علاوہ ساری مخلوقات میں کوئی ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہم اسرار الہیہ کے اہل ہیں ۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 / 52 از اصبغ بن نباتہ)۔
413۔ عبداللہ بن عطاء ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ادھر سے عبداللہ بن سلام کے فرزند کا گذر ہوگیا ، میں نے عرض کی کہ میری جان آ پر قربان، کیا یہ مصداق ”الذی عندہ علم الکتاب“ کا فرزند ہے؟ فرمایا ہرگز نہیں ، اس سے مراد علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں جن کے بارے مین بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔( مناقب ابن المغازلی 314 / 358 ، شواہد التنزیل 1 ص 402 / 425 ، ینابیع المودہ 11 ص 305 ، العمدة ص 290 / 476 ، تفسیر عیاشی 2 ص 220 ، /77 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 29 )۔
414۔ امام محمد باقر (ع) ! آیت شریفہ قل کفی کے ذیل میں فرمایا کہ اس سے مراد ہم اہلبیت (ع) ہیں اور علی (ع) ہمارے اول و افضل اور رسول اکرم کے بعد سب سے بہتر ہیں۔( کافی 1 ص 229 /6 ، تفسیر عیاشی 2 ص 220 / 76 ، روایت برید بن معاویہ ، بصائر الدرجات 214 /7 روایت عبدالرحمان بن کثیر از امام صادق (ع) )۔
415۔ عبدالرحمان بن کثیر نے امام صادق (ع) سے آیت شریفہ ”قال الدی عندہ علم من الکتاب“ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ہم وہ ہیں جن کے پاس ساری کتاب کا علم ہے۔ ( کافی 1 ص 229 / 5 ص 257 / 3 از سدیر ، بصائر الدرجات 21 / 2)۔
416۔ ابوالحسن محمد بن یحییٰ الفارسی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابونو اس نے امام (ع) رضا کو مامون کے یہاں سے سواری پر نکلتے دیکھا تو قریب جاکر سلام عرض کیا اور کہا کہ فرزند رسول میں نے آپ حضرات کے بارے میں کچھ شعر لکھے ہیں اور چاہتاہوں کہ آپ سماعت فرمالیں ، فرمایا سناؤ۔
ابونو اس نے اشعار پیش کئے۔
” یہ اہلبیت (ع) وہ افراد ہیں جن کا لباس کردار بالکل پاک و صاف ہے اور ان کا ذکر جہاں بھی آتاہے صلوات کے ساتھ آتاہے۔
جو شخص بھی اپنی نسبت علی (ع) سے نہ رکھتاہو اس کے لئے زمانہ میں کوئی شے باعث فخر نہیں ہے۔
اے اہلبیت (ع) ! پروردگار نے جب مخلوقات کو خلق کیا ہے تو تمھیں کو منتخب اور مصطفی قرار دیاہے۔
تمھیں ملاء اعلیٰ ہو اور تمھارے ہی پاس علم الکتاب ہے اور تمام سوروں کے مضامین ہیں“۔
یہ سنکر حضرت نے فرمایا کہ ایسے شعر تم سے پہلے کسی نے نہیں کہے ہیں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 143 / 10 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 366)۔
2۔ تاویل قرآن
417۔ رسول اکرم ! میرے بعد علی (ع) ہی لوگوں کو تاویل قرآن کا علم دیں گے اور انھیں باخبر بنائیں گے۔( شواہد التنزیل 1 ص 39 / 28 از انس)۔
418۔ امام علی (ع) ! مجھ سے کتاب الہی کے بارے میں جو چاہو دریافت کرلو کہ کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ دن میں نازل ہوئی ہے یا رات میں ، صحرا میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر ( الطبقات الکبریٰ 2 ص 338 ، تاریخ الخلفاء ص 218 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 ص 21 / 1039 ، تفسیر عیاشی 2ص 383 / 31 روایت ابوالطفیل ، امالی صدوق 227 / 13 ، امالی مفید 152 /3)۔
419۔ امام علی (ع) ! مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں دریافت کرو، خدا کی قسم کوئی آیت دن میں یا رات میں ، سفر میں یا حضر میں ایسی نازل نہیں ہوئی جسے رسول اکرم نے مجھے سنایا نہ ہو اور اس کی تاویل نہ بتائی ہو۔
یہ سن کر ابن الکواء بول پڑا کہ بسا اوقات آپ موجود بھی نہ ہوتے تھے اور آیت نازل ہوتی تھی۔؟
فرمایا کہ رسول اکرم اسے محفوظ رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حاضر ہوتا تھا تو مجھے سنادیا کرتے تھے اور فرماتے تھے یا علی (ع) ! اللہ نے تمھارے بعد یہ آیات نازل کی ہیں اور ان کی یہ تاویل ہے اور مجھے تنزیل و تاویل دونوں سے باخبر فرمادیا کرتے تھے(امالی طوسی (ر) 523 /1158 ، بشارة المصطفیٰ ص 219 از مجاشعی از امام رضا (ع) ، الاحتجاج 1 ص 617 / 140 از امام صادق (ع) ، کتاب سلیم بن قیس ص 214)۔
420 ۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم پر کوئی بھی آیت قرآن نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ مجھے سنابھی دیا اور لکھا بھی دیا اور میں نے اپنے قلم سے لکھ لیا اور پھر مجھے اس کی تاویل و تفسیر سے بھی باخبر فرما دیا اور ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہ اور خاص و عام بھی بتادئے۔( کافی 1 ص 64 / 1 ) ، خصال ص 217 / 131 ، کمال الدین 284 / 37 ، تفسیر عیاشی 1 ص 253 از کتاب سلیم بن قیس)۔
421۔ عبداللہ بن مسعود ! قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے اور ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور علی (ع) بن ابی طالب (ع) کے پاس ظاہر کا علم بھی ہے اور باطن کا علم بھی ہے۔( حلیة الاولیاء 1 ص 65 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 / 25 / 1048 ، ینابیع المودہ 1 ص 215 / 24)۔
422۔ امام حسن (ع) نے معاویہ کے دربار میں فرمایا کہ میں بہترین کنیز خدا اور سیدّہ النساء کا فرزند ہوں ، مجھے رسول اکرم نے علم خدا کی غذا دی ہے اور تاویل قرآن اور مشکلات احکام سے باخبر کیا ہے، ہمارے لئے غالب آنے والی عزت بلندترین کلمہ اور فخر و نورانیت ہے۔( احتجاج 2 ص 47)۔
423۔ امام باقر (ع) ! کسی شخص کے امکان میں نہیں ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس تمام قرآن کے ظاہر و باطن کا علم ہے،سوائے اوصیاء پیغمبر اسلام کے ۔( کافی 1 ص 228 / 2 ، بصائر الدرجات 193 از جابر)۔
424۔ امام باقر (ع) جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ اس نے سارا قرآن تنزیل کے مطابق جمع کیا ہے وہ جھوٹا ہے… قرآن کو تنزیل کے مطابق صرف حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے جمع کیا ہے اور ان کی اولاد نے محفوظ رکھا ہے۔( کافی 1 ص 228 /1 از جابر)۔
425۔ فضیل بن یسار ! میں نے امام باقر (ع) سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ قرآن کی ہدایت میں ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ، آخر ظاہر و باطن سے مراد کیا ہے ؟ فرمایا اس سے مراد تاویل قرآن ہے جس کا ایک حصہ گذرچکاہے اور ایک حصہ مستقبل میں پیش آنے والاہے، قرآن کا سلسلہ شمس و قمر کی طرح چلتارہے گا اور جب کوئی واقعہ پیش آجائے گا قرآن منطبق ہوجائے گا ، پروردگار نے فرمایا ہے کہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا اور راسخوں فی العلم کو ہے اور راسخون سے مراد ہم لوگ ہیں۔(تفسیر عیاشی 1 ص11 /5 ، بصائر الدرجات 203 /2)۔
426۔ ابوالصباح ! خدا کی قسم مجھ سے امام باقر (ع) نے فرمایاہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو تنزیل و تاویل دونوں کا علم دیا ہے اور انھوں نے سب علی (ع) بن ابیطالب (ع) کے حوالہ کردیاہے اور پھر یہ علم ہمیں دیا گیاہے۔( کافی 7 ص 442 / 15 ، تہذیب 8 ص 286 ، 1052 ، تفسیر عیاشی 1 ص 17 /13)۔
427 ۔ امام علی نقی (ع) نے صاحب الامر کی زیارت کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ خدایا تمام ائمہ راشدین، قائدین ہادیین، سادات معصومین (ع) ، اتقیاء ابرار پر رحمت نازل فرما جو سکون و وقار کی منزل ، علم کے خزانہ دار، حلم کی انتہاء ، بندوں کے منتظم ، شہروں کے ارکان ،نیکی کے راہنما، صاحبان عقل و بزرگی ، شریعت کے علماء ، کردار کے زہاد، تاریکی کے چراغ ، حکمت کے چشمے، نعمتوں کے مالک ، امتوں کے محافظ ، تنزیل کے ساتھی ، تاویل کے امین و ولی ، وحی کے ترجمان و دلائل تھے۔( بحار الانوار 102 /180)۔
3۔ اسم اعظم
428۔ امام علی (ع) ! قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جاندار کو پیدا کیا کہ میں زمین و آسمان کے ملکوت میں وہ اختیارات رکھتاہوں کہ اگر تمھیں اس کے ایک حصّہ کا بھی علم ہوجائے تو تم برداشت نہیں کرسکتے ہو۔ پروردگار کے 72 اسم اعظم ہیں جن میں سے آصف بن برخیا کو ایک معلوم تھا اور اس کے پڑھتے ہی زمینیں پست ہوگئیں اور انھوں نے ملک سبا سے تخت بلقیس اٹھالیا اور پھرزمینیں برابر ہوگئیں اور ہمارے پاس کل 72 اسماء کا علم ہے، صرف ایک نام ہے جسے خدا نے اپنے علم غیب کا حصہ بناکر رکھاہے۔( بحار الانوار 27 / 37 / 5 ، البرہان 2 ص 490 / 2 روایت سلمان فارسی)۔
429۔ امام صادق (ع) ! جناب عیسیٰ بن مریم کو دو حرف عطا ہوئے تھے جن سے سارا کام کررہے تھے اور جناب موسیٰ کو چار حرف عطا ہوئے تھے۔
حضرت ابراہیم کو 8 حرف ملے تھے اور حضرت نوح کو 15 حرف اور حضرت آدم کو 25 حرف اور اللہ نے حضرت محمد کے لئے سب جمع کردئے مالک کے 73 ، اسم اعظم ہیں جن میں سے 72 ، اپنے پیغمبر کو عنایت فرمائے ہیں اور ایک اپنی ذات کے لئے مخصوص کرلیا ہے۔( کافی 1 ص 230 /2) بصائر الدرجات 208 / 2 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 479 روایت ہارون بن الجہم)۔
430۔ امام ہادی (ع) ! اللہ کے اسم اعظم 73 ہیں آصف بن برخیا کے پاس ایک تھا جس کا حوالہ دینے سے ملک سبا تک کی زمینیں پست ہوگئیں اور انھوں نے تخت بلقیس کو اٹھاکر جناب سلیمان کے سامنے پیش کردیا اور اس کے بعد پھر ایک لمحہ میں برابر ہوگئیں اور ہمارے پاس ان میں سے 72 ہیں8 صرف ایک نام خدا نے اپنے لئے مخصوص کرر کھاہے۔( کافی 1 ص 230 / 3 مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 406 ، اثبات الوصیّہ 254 روایت علی بن محمد النوفلی)۔
4۔ جملہ لغات
431۔ امام علی (ع) ! یزدجرد کی بیٹئ سے نام دریافت کرنے پر جب اس نے اپنا نام جہاں بانو بتایا تو فرمایا کہ نہیں شہر بانو اور یہ بات بھی فارسی زبان میں فرمائی ۔( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 65)۔
432۔سماعہ بن مہران نے بعض شیوخ کے حوالہ سے امام باقر (ع) کے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب دہلیز میں پہنچا تو سنا کہ آپ سریانی زبان میں کچھ پڑھ رہے ہیں اور گریہ فرمارہے ہیں یہانتک کہ ہم لوگوں پر بھی گریہ طاری ہوگیا ۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 195)۔
433- موسی بن اکیل النمیری کا بیان ہے کہ ہم امام (ع) باقر کے دروازہ پر اذن باریابی کے لئے حاضرہوئے تو عبرانی زبان میں ایک دردناک آواز سنائی دی اور حاضری کے بعد ہم نے دریافت کیا کہ اس کا قاری کون تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے ایلیا کی مناجات یاد آگئی تو مجھ پر گریہ طاہری ہوگیا۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 195)۔
434۔احمد بن قابوس نے اپنے والد کے حوالہ سے امام صادق (ع) کے بارے میں نقل کیاہے کہ آپ کے پاس اہل خراسان کی ایک جماعت حاضر ہوئی تو آپ نے بغیر کسی تمہید کے فرمایا کہ جو شخص بھی مال جس قدر جمع کرے گا اللہ اس پر اسی اعتبار سے عذاب کرے گا… تو ان لوگوں نے عرض کی کہ ہم عربی زبان نہیں جانتے ہیں تو آپ نے فارسی میں فرمایا:
ہر کہ درم اندوز و جزایش دوزخ باشد․
435۔ ابوبصیر ! میں نے حضرت ابوالحسن (ع) سے عرض کی کہ میں آپ پر قربان، امام کی معرفت کا ذریعہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ بہت سے اوصاف ہیں جنمیں پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے پدر بزرگوار کی طرف سے اس کے بارے میں اشارہ ہوتاہے تا کہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے اور اس سے سوال کیا جائے اور وہ جواب دے گا اور اگر دریافت نہ کیا جائے تو خود ابتدا کرے اور مستقبل کے حالات سے بھی آگاہ کرے اور ہر زبان میں کلام کرسکے!
ابو محمد ! میں تمھارے اٹھنے سے پہلے تم کو ایک علامت دیدینا چاہتاہوں… چنانچہ ابھی میں اٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ ایک مرد خراسانی وارد ہوگیا اور اس نے عربی میں کلام شروع تو آپ نے اسے فارسی میں جواب دیا ۔
مرد خراسانی نے کہا کہ میں نے فارسی میں اس لئے کلام نہیں کیا کہ شائد آپ اسے نہ جانتے ہوں تو آپ نے فرمایا۔ سبحان اللہ !
اگر میں تمھارا جواب نہ دے سکوں تو میری فضیلت ہی کیا ہے۔
دیکھو ! ابومحمد! امام پر کسی انسان، پرندہ ، جانور اور ذیروح کا کلام مخفی نہیں ہوتاہے اور اگر کسی میں یہ کمالات نہ ہوں تو وہ امام نہیں ہے۔( کافی 1 ص 285 /7 ، ارشاد 2 ص 224 ، دلائل الامامة 337 /294 ، قرب الاسناد 339 / 1224)۔
436۔ ابوالصلت ہروی ! امام رضا تمام لوگوں سے ان کی زبان میں کلام فرماتے تھے اور سب سے زیادہ فصیح زبان بولتے تھے کہ سب سے زیادہ واقف لغات تھے، میں نے ایک دن عرض کیا یابن رسول اللہ ! مجھے آپ کے اس قدر زبانیں جاننے پر تعجب ہوتاہے تو فرمایا کہ ابوالصلت ! میں مخلوقات پر خدا کی حجت ہوں اور خدا کسی ایسے شخص کو حجت نہیں بناسکتاہے جو قوم کی زبان سے باخبر نہ ہو کیا تم نے امیر المومنین (ع) کا یہ کلام نہیں سنا ہے کہ ہمیں قول فیصل کا علم دیا گیا ہے اور قول فیصل معرفت لغات کے علاوہ اور کیاہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 228 / 3)۔
437۔ ابوہاشم جعفری کا بیان ہیں کہ میں مدینہ میں تھا جب واثق باللہ کے زمانہ میں وہاں سے بغاء کا گذر ہوا تو امام ابوالحسن نے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو تا کہ میں دیکھوں کہ ان ترکوں نے کیا انتظام کررکھاہے۔ ہم لوگ حضرت کے ساتھ باہر نکلے تو اس کی فوجیں گذررہی تھیں، ایک نزکی سامنے سے گذرا تو آپ نے اس سے ترکی زبان میں کلام کیا ، وہ گھوڑے سے اتر پڑا اور آپ کی سواری کے قدموں کو چومنے لگا، ہم لوگوں نے اسے قسم دے کر پوچھا کہ اس شخص نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کیا یہ نبی ہے؟
ہم لوگوں نے کہا نہیں !
اس نے کہا کہ اس نے مجھے اس نام سے پکارا ہے جو میرے بچپنے میں میرے ملک میں رکھا گیا تھا اور اسے آج تک کوئی نہیں جانتاہے۔ (اعلام الوریٰ ص 343 ، الثاقب فی المناقب 538 / 478 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 408)۔
438۔ علی بن مہزیار نے امام ہادی (ع) کے حالات میں نقل کیا ہے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فارسی میں کلام شروع کردیا۔( بصائر الدرجات 333/1)۔
439۔ علی بن مہزیار، میں نے حضرت ابوالحسن ثالت( امام علی نقی (ع) )کی خدمت میں اپنے غلام کو بھیجا جو صقلابی (رومی) تھا، وہ یہاں سے انتہائی حیرت زدہ واپس آیا، میں نے پوچھا خیر تو ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ تو مجھ سے صقلابی زبان کی طرح باتیں کررہے تھے اور میں سمجھ گیا کہ مجھ سے اس زبان میں اس لئے باتیں کررہے تھے کہ دوسرے غلام نہ سمجھنے پائیں۔(اختصاص ص 289 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 408 ، کشف الغمہ 3 ص 179)۔
440۔ ابوحمزہ نصیر الخادم کا بیان ہے کہ میں نے امام عسکری (ع) کو بارہا غلاموں سے ان کی زبان میں بات کرتے سناہے کبھی رومی کبھی صقلابی تو حیرت زدہ ہوکر کہا کہ آخر ان کی ولادت مدینہ میں ہوئی ہے اور امام نقی (ع) کے انتقال تک باہر نہیں نکلے ہیں تو اس قدر زبانیں کس طرح جانتے ہیں ؟
ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت نے میری طرف رخ کرکے فرمایا پروردگار نے اپنی حجت کو ہر طریقہ سے واضح فرمایاہے اور وہ اسے تمام لغات، اجل ، حوادث سب کا علم عطا کرتاہے، ورنہ ایسا نہ ہوتا تو اس میں اور قوم میں فرق ہی کیا رہ جاتا۔( کافی 1 ص 509 /11، روضة الواعظین ص273 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 428 ، الخرائج والجرائح 1 ص 436 /14 ، کشف الغمہ 3 ص 202 ، اعلام الوریٰ ص 256 ، بصائر الدرجات ص 333)۔
5۔ منطق الطیر
441۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی زبان کا اسی طرح علم دیا گیا ے جیسے سلیمان بن داؤد کو دیا گیا ہے اور ہم برو بحر کے تمام جانوروں کی زبان جانتے ہیں،( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 54 ، بصائر الدرجات 343 / 12 از زرارہ)۔
442۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا جو خدا کا عظیم فضل ہے۔( اثبات الوصیہ ص 160 ، اختصاص ص 193 از محمد بن مسلم)۔
443۔ علی بن ابی حمزہ ! حضرت ابوالحسن کے غلاموں میں سے ایک شخص نے آکر حضرت سے درخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا نوش فرمائیں؟
حضرت اٹھے اور اٹھ کر اس کے ساتھ گھر تک گئے، وہاں ایک تخت رکھا تھا، اس پر بیٹھ گئے، اس کے نیچے کبوتر کا ایک جوڑا تھا، نر نے مادہ سے کچھ باتیں کیں ، صاحب خانہ دان، کھانا لانے چلاگیا اور جب پلٹ کر آیا تو حضرت مسکرانے لگے، اس نے عرض کی حضور ہمیشہ خوش رہیں اس وقت ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ یہ کبوتر کبوتری سے باتیں کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تو میری محبوبہ ہے اور مجھے کائنات میں اس شخص کے علاوہ تجھ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے ! اس نے کہا کیا حضور اس کی باتیں سمجھتے ہیں ! فرمایا بیشک ہمیں پرندوں کی گفتگو اور دنیا کی ہر شے کا علم دیا گیا ہے۔( بصائر الدرجات 346/ 25 ، مختصربصائر الدرجات ص 114 ، الخرائج والجرائح 2 ص 833 / 49 اختصاص ص 293)۔
434 ۔ علی بن اسباط ! میں حضرت ابوجعفر (ع) کے ساتھ کوفہ سے برآمد ہوا، آپ ایک خچر پر سوار تھے اور ایک بھیڑوں کے گلے کے قریب سے گذرے تو ایک بکری گلہ سے الگ ہوکر دوڑتی ہوئی آپ کے پاس شور مچاتی ہوئی آئی، آپ ٹھہر گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس کے چروا ہے کو بلاؤں میں نے اسے حاضر کردیا، آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ بکری تمھاری شکایت کررہی ہے کہ اس میں دو آدمیوں کا حصّہ ہے اور تو اس پر ظلم کرکے سارا دودھ دوہ لیتاہے تو جب شام کو گھر واپس جائے گی تو مالک دیکھے گا کہ اس میں بالکل دودھ نہیں ہے اور اذیت کرے گا تو دیکھ خبردار آئندہ ایسا ظلم نہ کرنا ورنہ میں تیری بربادی کی بددعا کردوں گا؟
اس نے فوراً توحید و رسالت کی گواہی کے ساتھ امام کے وصی رسول ہونے کا کلمہ پڑھ لیا اور عرض کیا کہ حضور کو یہ علم کہاں سے ملاہے فرمایا ہم علم غیب و حکمت الہی کے خزانہ دار ہیں اور انبیاء کے وصی اور اللہ کے محترم بندے ہیں۔( الثاقب فی المناقب 522 / 255)
445۔ عبداللہ بن سعید ! مجھ سے محمد بن علی بن عمر التنونی نے بیان کیا کہ میں نے حضرت محمد بن علی (ع) کو ایک بیل سے بیات کرتے دیکھا جب وہ سرہلارہا تھا تو میں نے کہا کہ میں اس طرح نہ مانوں گا جب تک اسے یہ حکم نہ دیں کہ وہ آپ سے کلام کرے؟
آپ نے فرمایا کہ ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا ہے، اس کے بعد بیل کو حکم دیا کہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کہے اس نے فوراً کہہ دیا اور آپ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔( دلائل الامامة 40 / 356)۔
6۔ ماضی و مستقبل
446۔ امام علی (ع) اگر قرآن مجید میں یہ آیت نہ ہوتی کہ ” اللہ جس چیز کو چاہتاہے محو کردیتاہے اور جس کو چاہتاہے باقی رکھتاہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے، تو میں تمھیں تمام گذشتہ اور آئندہ قیامت تک ہونے والے حالات سے باخبر کردیتا۔( التوحید 305 /1 ، امالی صدوق (ر) ص 280 /1 الاختصاص ص 235 ، الاحتجاج 1 ص 610 بروایت اصبغ بن نباتہ، تفسیر عیاشی 2 ص 215 /59 ، قرب الاسناد 354 / 1266)۔
447۔ امام صادق (ع) ! اے وہ خدا جس نے ہم کو تمام ماضی اور آئندہ کا علم دیا ہے اور انبیاء کے علم کا وارث بنایاہے، ہم پر تمام گذشتہ امتوں کا سلسلہ ختم کیا ہے اور ہمیں وصایت کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔( بصائر الدرجات 129 / 3 بروایت معاویہ بن وہب)۔
448۔ معاویہ بن وہب ! میں نے امام صادق (ع) کے دروازہ پر اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت مصلیٰ پر ہیں۔ میں تھہر گیا جب نماز تمام ہوگئی تو دیکھا کہ آپ نے مناجات شروع کردی، ” اے وہ پروردگار جس نے ہمیں مخصوص کرامت عطا فرمائی ہے اور وصیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ہم سے شفاعت کا وعدہ کیاہے اور ہمیں تمام ماضی اور مستقبل کا علم عطا فرمایاہے اور لوگوں کے دلوں کو ہماری طرف جھکادیاہے، خدایا ہمیں اور ہمارے برادران ایمانی کو اور قبر حسین (ع) کے تمام زائروں کو بخش دے۔( کافی 4 ص 582 /11 ، کامل الزیارات ص 116)۔
449۔ سیف تمار ! میں ایک جماعت کے ساتھ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے تین مرتبہ خانہ کعبہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ اگر میں موسی ٰ (ع) اور خضر (ع) کے درمیان حاضر ہوتا تو دونوں کو بتاتا کہ میں ان سے بہتر جانتاہوں اور وہ باتیں بتاتا جو ان کے پاس نہیں تھیں، اس لئے کہ موسیٰ (ع) اور خضر کو گذشتہ کا علم دیاگیا تھا۔( انھیں مستقبل اور قیامت تک کے حالات کا علم نہیں دیا گیاتھا اور ہمیں یہ سب رسول اللہ سے وراثت میں ملا ہے۔( کافی 1 ص 260 / 1 ، بصائر الدرجات 129 /1 ، 230 / 4 ، دلائل الامامة ص 280 / 218)۔
450۔ حارث بن المغیرہ امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا کہ میں آسمان و زمین کی تمام اشیاء جنت و جہنم کی تمام اشیاء ، ماشی اور مستقبل کی تمام اشیاء کا علم رکھتاہوں، اور پھر یہ کہہ کر خاموش ہوگئے جیسے سننے والے کو یہ بات بری معلوم ہورہی ہے اور اس کی اس طرح وضاحت فرمائی کہ یہ سب مجھے کتاب خدا سے معلوم ہواہے کہ اس میں ہر شے کا بیان پایا جاتاہے۔( کافی 1 ص 261 / 2 ، بصائر الدرجات 128 / 5 ، 128 / 6 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 249)۔
451۔امام صادق (ع) ! ہم اولاد رسول اس عالم میں پیدا ہوئے ہیں کہ ہمیں کتاب خدا،ابتدائے آفرینش اور قیامت تک کے حالات کا علم تھا، اور اس کتاب میں آسمان و زمین، جنت و جہنم ، ماضی و مستقبل سب کا علم موجود ہے اور ہمیں اس طرح معلوم ہے جس طرح ہاتھ کی ہتھیلی ، پروردگار کا ارشاد ہے کہ اس قرآن میں ہر شے کا بیان موجود ہے۔( کافی 1 ص 61/8، بصائر الدرجات 197 /2 ، ینابیع المودة 1 /80/20 ، روایت عبدالاعلیٰ بن اعین ، تفسیر عیاشی 2 ص 266 / 65)۔
452۔ امام رضا (ع) ! کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب کا اظہار صرف اپنے پسندیدہ بندوں پر کرتاہے اور رسول اکرم اس کے پسندیدہ بندہ تھے اور ہم سب انھیں کے وارث ہیں جن کو خدا نے اپنے غیب پر مطلع فرمایاہے اور تمام ماضی اور مستقبل کا علم دیا ہے( ا لخرائج و الجرائح 1 ص 343 روایت محمد بن الفضل الہاشمی)۔
453 ، عبداللہ بن محمد الہاشمی ! میں مامون کے دربار میں ایک دن حاضر ہوا تو اس نے مجھے روک لیا اور سب کو باہر نکال دیا ، پھر کھانا منگوایا اور ہم دونوں نے کھایا ، اور خوشبو لگائی ، پھر ایک پردہ ڈال دیا اور مجھے حکم دیا کہ صاحب طوس کا مرثیہ سناؤ۔
میں نے شعر پڑھا۔
” خدا سرزمین طوس پر اور اس کے ساکن پر رحمت نازل کرے جو عترت مصطفی میں تھا اور ہمیں رنج و غم دے کر رخصت ہوگیا “ مامون یہ سن کر رونے لگا اور مجھ سے کہا کہ عبداللہ ! میرے اور تمھارے گھرانے والے مجھے ملامت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن الرضا (ع) کو ولی عہد کیوں بنادیا ، سنو میں تم سے ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کررہاہوں ، ایک دن میں نے حضرت رضا (ع) سے کہا کہ میں آپ پر قربان، آپ کے آباء و اجداد موسیٰ بن جعفر (ع) ، جعفر (ع) بن محمد، محمد بن علی (ع) ، علی بن الحسین (ع) کے پاس تمام گذشتہ اور آئندہ قیامت تک کا علم تھا اور آپ انھیں کے وصی اور وارث ہیں اور آپ کے پاس انھیں کا علم ہے ، اب مجھے ایک ضرور ت ہے آپ اسے حل کریں۔
فرمایا بتاؤ ! میں نے کہا کہ یہ زاہر یہ میرے لئے ایک مسئلہ بن گئی ہے، میں اس پر کسی کنیز کو مقدم نہیں کرسکتا، لیکن یہ متعدد بار حاملہ ہوچکی ہے اور اس کا اسقاط ہوچکاہے، اب پھر حاملہ ہے، اب مجھے کوئی ایسا علاج بتائیں کہ اب اسقاط نہ ہونے پائے۔
آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں، اس مرتبہ اسقاط نہیں ہوگا اور ایسا بچہ پیدا ہوگا جو بالکل اپنی ماں کی شبیہ ہوگا اور اس کی ایک انگلی داہنے ہاتھ میں زیادہ ہوگی اور ایک بائیں پیرمیں۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ بیشک خدا ہر شے پر قادر ہے۔
اس کے بعد زاہریہ کے یہاں بالکل ویسا ہی بچہ پیدا ہوا جیسا حضرت رضا (ع) نے فرمایا تھا تو بتاؤ اس علم و فضل کے بعد کس کو حق ہے کہ ان کو پرچم ہدایت قرار دینے پر میری ملامت کرسکے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 223 / 43 ، الغیبتہ الطوسی 74 / 81 روایت محمد بن عبداللہ بن الحسن الا فطس ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 333)۔
7۔ اموات و آفات
454۔ امام علی (ع) (ع)! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جنھیں اموات ، حوادث روزگار اور انساب کا علم عطا کیا گیاہے کہ اگر ہم میں سے کسی ایک کو بھی پل پر کھڑا کردیا جائے اور ساری امت کو گذار دیا جائے تو وہ ہر ایک کے نام اور نسب کو بتاسکتا ہے۔( بصائر الدرجات 268 / 12 روایت اصبغ بن بناتہ)۔
455۔ امام زین العابدین (ع) ! ہمارے پاس جملہ اموات اور حوادث کا علم ہے، حرف آخر ہمارا ہے اور انساب عرب اور موالید اسلام سب ہمیں معلوم ہیں، (بصائر الدرجات 266 / 3 روایت عبدالرحمان بن ابی بحران عن الرضا (ع) 267/4 روایت عمار بن ہارون عن الباقر (ع) ، تفسیر فرات 396 / 527 ، الیقین 318 / 121 روایت زیاد بن المنذر عن الباقر (ع))۔
456۔ اسحاق بن عمار ! میں نے عبدصالح کو اپنی موت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے سنا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ کیا یہ اپنے شیعوں کی موت کے بارے میں بھی جانتے ہیں ، آپ نے غضبناک انداز سے میری طرف دیکھا اور فرمایا اسحاق ! رشید ہجری کو اموات اور حواد ث کا علم تھا تو امام تو اس سے اولیٰ ہوتاہے۔
اسحاق ، دیکھو جو کچھ کرناہے کرلو کہ تمھاری زندگی تمام ہورہی ہے اور تم و سال کے اندر مرجاؤگے اور تمھارے برادران اور اہل خانہ بھی تمھارے بعد چند ہی دنوں میں آپس میں منتشر ہوجائیں گے اور ایک دوسرے سے خیانت کریں گے یہاں تک کہ دشمن طعنے دیں گے ، یہ تمھارے دل میں کیا تھا؟ میں نے عرض کی کہ میں اپنے غلط خیالات کے بارے میں مالک کی بارگاہ میں استغفار کرتاہوں۔
اس کے بعد چند دن نہ گذرے تھے کہ اسحاق کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ بنی عمار نے لوگوں کے مال کے ساتھ قیام کیا اور آخر میں افلاس کا شکار ہوگئے۔( کافی 1 ص 484 /7 ، بصائر الدرجات 265 / 13 ، دلائل الامامتہ 325 / 277 ، الخرائج والجرائح 2 ص 712 ، 9)۔
457۔ امام رضا (ع) نے عبداللہ بن جندب کے خط میں لکھا کہ حضرت محمد اس دنیا میں پروردگار کے امین تھے، اس کے بعد جب ان کا انتقال ہوگیا تو ہم اہلبیت (ع) ان کے وارث ہیں، ہم زمین خدا پر اس کے اسرار کے امانتدار ہیں اور ہمارے پاس تمام اموات اور حوادث روزگار اور انساب عرب اور موالید اسلام کا علم موجود ہے۔( تفسیر قمی 2 ص 104 ، مختصر بصائر الدرجات 174 ، بصائر الدرجات 267 /5)۔
8۔ ارض و سماء
458۔ رسول اکرم ! فضا میں کوئی پرندہ پر نہیں مارتاہے مگر ہمارے پاس اس کا علم ہوتاہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 32 / 54 روایت داؤد بن سلیمان الفراء عن الرضا (ع) ، صحیفة الرضا (ع) 62 / 100 روایت احمد بن عامر الطائ عن الرضا (ع) )۔
459۔ ابوحمزہ ! میں نے امام باقر (ع) کی زبان سے یہ سناہے کہ حقیقی عالم جاہل نہیں ہوسکتاہے کہ ایک شے کا عالم ہو اور ایک شے کا جاہل پروردگار اس بات سے اجلّ و ارفع ہے کہ وہ کسی بندہ کی اطاعت واجب کرے اور اسے آسمان و زمین کے علم سے محروم رکھے، یہ ہرگز نہیں ہوسکتاہے۔(کافی 1 ص 262 /6)۔
460۔ امام صادق (ع) ! پروردگار اس بات سے اجل و اعلیٰ ہے کہ وہ کسی بندہ کو بندوں پر حجت قرار دے اور پھر آسمان و زمین کے اخبار کو پوشیدہ رکھے۔( بصائر الدرجات 126/6 روایت صفوان)۔
461۔ امام صادق (ع) ! اللہ کی حکمت اور اس کے کرم کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایسے بندہ کی اطاعت واجب قرار دے جس سے آسمان و زمین کے صبح و شام کو پوشیدہ رکھے۔( بصائر الدرجات 125 / 5 روایت مفضل بن عمر)۔
9۔ حوادث روز و شب
462۔ سلمہ بن محرز ! میں نے اما م باقر (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ ہمارے علوم میں تفسیر قرآن و احکام قرآن ، علم تغیرات و حوادث زمانہ سب شامل ہیں پروردگار جب کسی قوم کے لئے خیر چاہتاہے تو انھیں سنادیتاہے اور اگر کسی ایسے کو سنادے جو سننا نہیں چاہتاہے تو منھ پھیر لے گا جیسے کہ سنا ہی نہیں ہے ، یہ کہہ کر خاموش ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر فرمایا اگر مناسب ظرف اور مطمئن ماحول مل جاتا تو میں اور کچھ بیان کرتا لیکن فی الحال اللہ ہی سے طلب امداد کررہاہوں۔
463۔ ضریس ۔ ہم اور ابوبصیر امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ابوبصیر نے علم اہلبیت (ع) کے بارے میں سوال کیا اور آپ نے فرمایا کہ ہمارا عالم خاص غیبت کا علم نہیں رکھتاہے اور اگر خدا اس کے حوالہ کردیتا تو تمھارا ہی جیسا ہوتا لیکن اسے دن کو رات کی باتیں بتادی جاتی ہیں اور رات کو دن کے امور سے آگاہ کردیا جاتاہے اور یونہی قیامت تک کے حالات سے باخبر کردیا جاتاہے۔( مختصر بصائر الدرجات 113)۔( بصائر الدرجات 325 /2 ، الخرائج و الجرائح 2 ص 831 /47)۔
464۔ حمران بن الحسین ! میں نے امام صادق (ع) سے سوال کیا … کیا آپ کے پاس توریت ، انجیل ، زبور ، صحف ابراہیم (ع) و موسی ٰ (ع) کا بھی علم ہے؟
فرمایا بیشک !
میں نے عرض کیا کہ یہ تو بہت بڑا علم ہے، فرمایا حمران ! شب و روز پیدا ہونے والے حوادث کا علم بھی ہمارے پاس ہے اور یہ اس سے عظیم تر ہے، وہ ماضی ہے اور یہ مستقبل ۔( بصائر الدرجات 140 / 5)۔
465۔ محمد بن مسلم ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ میں نے ابوالخطاب کی زبانی ایک بات سنی ہے؟
فرمایا وہ کیا ہے؟
میں نے عرض کی ، ان کا کہناہے کہ آپ حضرات حلال و حرام اور قضایا کو فیصل کرنے کا علم رکھتے ہیں۔
آپ خاموش ہوگئے۔ پھر جب میں نے چلنے کا ارادہ کیا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا ، دیکھو محمد ! یہ علم قرآن اور علم حلال و حرام اس علم کے پہلو بہ پہلو ہے جو ہمارے پاس حوادث روز و شب کے بارے میں ہے۔ (بصائر الدرجات 394/11 ، اختصاص 314)۔
466۔ امام صادق (ع)ہمارے یہاں کوئی رات ایسی نہیں آتی ہے جب ساری کائنات کا اور اس کے حوادث کا علم نہ ہو ، ہمارے پاس جنات کا بھی علم اور ملائکہ کے خواہشات کا بھی علم ہے۔( کامل الزیارات 328 روایت عبداللہ بن بکر الارجانی)۔
منشاء علوم
1۔ تعلیم پیغمبر اسلام
467۔ امام علی (ع) ! میں جب رسول اکرم سے کسی علم کا سوال کرتا تھا تو مجھے عطا فرما دیتے تھے اور اگر خاموش رہ جاتا تھا تو از خود ابتدا فرماتے تھے۔( سنن ترمذی 5 ص 637 / 3722 ، ص 640 / 3729 ، مستدرک حاکم 3 ص 135 ، 4630 ، اسدالغابہ 4 ص 104 ، خصائص نسائی 221 ، /119 ، امالی صدوق (ر) 202 /13 روایت عبداللہ بن عمرو بن ہند الحبلی العمدة 283 / 461 ، کافی 1 ص 64 /1 احتجاج 1 ص 616 / 139 ، روضة الواعظین ص 308 ، غرر الحکم 3779 ، 7236، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 45۔
468۔ محمد بن عمر بن علی (ع) ! امام علی (ع) سے دریافت کیا گیا کہ تمام اصحاب میں سب سے زیادہ احادیث رسول آپ کے پاس کیوں ہیں؟ تو فرمایا کہ میں جب حضرت سے سوال کرتا تھا تو مجھے باخبر کردیا کرتے تھے اور جب چپ رہتا تھا تو از خود ابتدا فرماتے تھے۔( الطبقات الکبریٰ 2 ص 338 ، الصواعق المحرقہ ص 123 ، تاریخ الخلفاء ص 202)۔
469۔ ام سلمہ ! جبریل امین جو کچھ رسول اکرم کے حوالہ کرتے تھے حضرت اسے علی (ع) کے حوالہ کردیا کرتے تھے۔( مناقب ابن المغازلی ص 253 /302)۔
470۔ امام علی (ع) ! اصحاب میں ہر ایک کو جرات اور توفیق بھی نہ ہوتی تھی کہ رسول اکرم سے کلام کرسکیں، سب انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی دیہاتی یا مسافر آکر دریافت کرے تو وہ بھی سن لیں، لیکن میرے سامنے جو مسئلہ بھی آتا تھا میں اس کے بارے میں سوال کرلیتا تھا اور اسے محفوظ کرلیتا تھا۔( نہج البلاغہ خطب ص 210)۔
471۔ امام علی (ع)! جب بعض اصحاب نے کہا کہ کیا آپ کے پاس علم غیب بھی ہے؟ تو مسکرا کر اس مرد کلبی سے فرمایا کہ یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے استفادہ ہے، علم غیب سے مراد قیامت کا علم ہے اور ان کا علم ہے جن کا ذکر سورہ ٴ لقمان کی آیت 14 میں ہے۔
” بیشک خدا کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش کے قطرے برساتاہے اور وہی پیٹ کے اندر بچہ کے حالات جانتاہے اور کسی نفس کو نہیں معلوم کہ کل کیا حاصل کرے گا اور نہ یہ معلوم ہے کہ کس سرزمین پر موت آئے گی“۔
پروردگار ان تفصیلات کو جانتاہے کہ پیٹ کے اندر لڑکاہے یا لڑکی، پھر وہ حسین ہے یا بدصورت، پھر سخی ہے یا بخیل ، پھر شقی ہے یا نیک بخت ، پھر جہنم کا کندہ بنے گا یا جنت میں انبیاء کا رفیق، یہ وہ علم غیب ہے جسے پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں جانتاہے، اس کے علاوہ جس قدر بھی علم ہے اسے مالک نے اپنے نبی کو تعلیم کیاہے اور انھوں نے میرے حوالہ کردیا ہے اور میرے حق میں دعا کی ہے کہ میرے سینہ میں محفوظ ہوجائے۔اور میرے پہلو سے نکل کر باہر نہ جانے پائے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 128)۔
472۔ امام علی (ع) ! اہلبیت (ع) پیغمبر مالک کے راز کے محل ، اس کے امر کی پناہ گاہ، اس کے علم کا ظرف ، اس کے حکم کا مرجع ، اس کی کتابوں کی آماجگاہ، اور اس کے دین کے پہاڑ میں ، انھیں کے ذریعہ اس نے دین کی ہر کجی کو سیدھا کیاہے اور ا س کے جوڑ بند کے رعشہ کو دور کیا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص2)۔
473۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جنھیں مالک کے علم سے علم ملاہے اور اس کے حکم سے ہم نے اخذ کیا ہے اور قول صادق سے سناہے تو اگر ہمارا اتباع کروگے تو ہدایت پاجاؤگے، (مختصر بصائر الدرجات ص 63 ، بصائر الدرجات 514 / 34 روایت جابر بن یزید)۔
474۔ امام صادق (ع) ! حضرت علی (ع) بن ابی طالب کا علم رسول اللہ کے علم سے تھا اور ہم نے ان سے حاصل کیا ہے۔( اختصاص ص 279 ، بصائر الدرجات 295 /1 روایت ابویعقوب الاحول)۔
2۔ اصول علم
475۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے پاس علم کی کنجیاں، حکمت کے ابواب ، مسائل کی روشنی اور حرف فصیل ہے۔( محاسن 1 ص 316 /629 روایت ابوالطفیل، بصائر الدرجات 364/10)۔
476۔ امام باقر (ع) ! اگر ہم لوگوں کے درمیان ذاتی رائے اور خواہش سے فتویٰ دیتے تو ہم بھی ہلاک ہوجاتے، ہمارے فتاویٰ کی بنیاد آثار رسول اکرم اور اصول علم ہیں جو ہم کو بزرگوں سے وراثت میں ملے ہیں اور ہم انھیں اس طرح محفوظ کئے ہوئے ہیں جس طرح اہل دنیا سونے چاندی کے ذخیروں کو محفو ظ کرتے ہیں۔( بصائر الدرجات 300 / 4 روایت جابر، الاختصاص 280 روایت جابر بن یزید)۔
477۔ امام صادق (ع) (ع)! اگر پروردگار نے ہماری اطاعت واجب نہ کی ہوتی اور ہماری مودت کا حکم نہ دیا ہوتا تو نہ ہم تم کو اپنے دروازہ پر کھڑا کرتے اور نہ گھر میں داخل ہونے دیتے ، خدا گواہ ہے کہ ہم نہ اپنی خواہش سے بولتے ہیں ور نہ اپنے رائے سے فتویٰ دیتے ہیں، ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار نے کہا ہے اور جس کے اصول ہمارے پاس ہیں اور ہم نے انھیں ذخیرہ بناکر رکھاہے جس طرح یہ اہل دنیا سونے چاندی کے ذخیرہ رکھتے ہیں۔(بصائر الدرجات 301 / 10 روایت محمد بن شریح)۔
478۔ محمد بن مسلم ! امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ رسول اکرم نے لوگوں کو بہت کچھ عطا فرمایاہے لیکن ہم اہلبیت (ع) کے پاس تمام علوم کی اصل ، ان کا سرا، ان کی روشنی اور ان کا وہ وسیلہ ہے جس سے علوم کو برباد ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔( اختصاص ص 308 ، بصائر الدرجات 313 / 6)۔
3۔ کتب انبیاء
479۔ امام صادق (ع) ! ہمارے پاس موسیٰ کی تختیاں اور ان کا عصا موجود ہے اور ہمیں تمام انبیاء کے وارث ہیں۔( کافی 1 ص 231 / 2 ، بصائر الدرجات 183 / 34 ، اعلام الوریٰ ص 277 روایت ابوحمزہ الثمالی)۔
480۔ ابوبصیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ اے ابومحمد ! پروردگار نے کسی نبی کو کوئی ایسی چیز نہیں دی ہے جو حضرت محمد کو نہ دی ہو ، انھیں تمام انبیاء (ع) کے کمالات سے سرفراز فرمایاہے اور ہمارے پاس وہ سارے صحیفے موجود ہیں جنھیں ” صحف ابراہیم (ع) و موسیٰ (ع) “ کہا گیاہے۔
میں نے عرض کی کیا یہ تختیاں ہیں ؟ فرمایا بیشک۔( کافی 1 ص 225 / 5 ، بصائر الدرجات 136 / 5)۔
481۔ امام کاظم (ع) ! بریہ سے گفتگو کرتے ہوئے جب اس نے سوال کیا کہ آپ کا توریت و انجیل اور کتب انبیاء سے کیا تعلق ہے؟ فرمایا وہ سب ہمارے پاس ان کی وراثت میں محفوظ ہیں اور ہم انھیں اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح ان انبیاء نے پڑھاتھا، پروردگار کسی ایسے شخص کو زمین میں اپنی حجت نہیں قرار دے سکتا جس سے سوال کیا جائے تو وہ جواب میں کہدے کہ مجھے نہیں معلوم ہے۔( کافی 1 ص 227 /2 روایت ہشام بن الحکم)۔
482۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم تک صحف ابراہیم (ع) و موسیٰ (ع) پہنچائے گئے تو آپ نے حضرت علی (ع) کو ان کا امین بنادیا اور انھوں نے حضرت حسن (ع) کو بنایا اور انھوں نے حضرت حسین (ع) کو بنایا اور انھوں نے حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کو بنایا۔ اور انھوں نے حضرت محمد بن علی (ع) کو بنایا اور انھوں نے مجھے بنایا۔ چنانچہ وہ سب میرے پاس رہے یہاں تک کہ میں نے اپنے اس فرزند کو کمسنی ہی میں امانتدار بنادیا اور وہ سب اس کے پاس محفو ظ ہیں۔( الغیبة النعمانی 325 /2 ، رجال کشی 2 ص 643 / 663 روایت فیض بن مختار)۔
483۔ عبداللہ بن سنان نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت سے اس آیت کریمہ ” لقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر“ کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ زبور اور ذکر کیاہے؟ تو فرمایاکہ ذکر اللہ کے پاس ہے اور زبور وہ ہے جس کو داؤد پر نازل کیا گیاہے اور ہر نازل ہونے والی کتاب ، علم کے پاس محفوظ ہے اور ہم اہل علم ہیں۔( کافی 1 ص 225 / 6 ، بصائر الدرجات 136 /6)۔
4۔ کتاب امام علی (ع)
484۔ ام سلمہ ! رسول اکرم نے علی (ع) کو اپنے گھر میں بٹھاکر ایک بکری کی کھال طلب کی اور علی (ع) نے اس پر اول سے آخر تک لکھ لیا۔( الامامة والتبصرہ 174 /28 مدینتہ المعاجز 2 ص 248 / 529 ، بصائر الدرجات 163 / 4)۔
485 ۔ ام سلمہ ! رسول اکرم نے ایک کھا طلب کرکے علی (ع) بن ابی طالب کو دی اور حضرت بولتے رہے اور علی (ع) لکھتے رہے یہاں تک کہ کھال کا ظاہر ، باطن ، سب پُر ہوگیا۔( ادب الاملاء والاستملاء سمعانی ص 12)۔
486۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو طلب کیا اور ایک دفتر منگوایا اور پھر سب کچھ لکھوادیا۔( الاختصاص ص 275 روایت حنان بن سدیر)۔
487۔ امام علی (ع) ! علم ہمارے گھر میں ہے اور ہم اس کے اہل میں اور وہ ہمارے پاس اور سے آخر تک سب موجود ہے اور قیامت تک کوئی ایسا حادثہ ہونے والا نہیں ہے جسے رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کے خط سے لکھوانہ دیا ہو یہاں تک کہ خراش لگانے کا تاوان بھی مذکور ہے۔( الاحتجاج 2 ص 63 /155 روایت ابن عباس)۔
488۔ امام حسن (ع) ! جب آپ سے تجارت کے معاملہ میں خیار کے ذیل میں حضرت علی (ع) کی رائے دریافت کی گئی تو آپ نے ایک زرد رنگ کا صحیفہ نکالا جسمیں اس مسئلہ میں حضرت علی (ع) کی رائے کا ذکر تھا۔( العلل ابن حنبل 1 ص 346 / 639)۔
489۔ امام باقر (ع) ! کتاب علی (ع) میں ہر وہ شے موجود ہے جس کی کبھی ضرورت پڑسکتی ہے ، یہاں تک کہ خراش کا تاوان اور ارش کا ذکر بھی موجود ہے۔( بصائر الدرجات 164 / 5 ، روایت عبداللہ بن میمون)۔
490۔ امام محمد (ع) باقر ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ جو کچھ میں بول رہاہوں تم لکھتے جاؤ… عرض کی یا رسول اللہ ! کیا آپ کو میرے بھول جانے کا خطرہ ہے ؟ فرمایا تمھارے بارے میں نسیان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ تمھیں حافظہ عطا کرے اور نسیان سے محفوظ رکھے لیکن پھر بھی تم لکھو تا کہ تمھارے ساتھیوں کے کام آئے۔
میں نے عرض کی حضور یہ میرے شرکاء اور ساتھی کون ہیں ؟ فرمایا تمھاری اولاد کے ائمہ ” جن کے ذریعہ سے میری امت پر بارش رحمت ہوگی اور ان کی دعا قبول کی جائے گی اور بلاؤں کو دفع کیا جائے گا اور آسمان سے رحمت کا نزول ہوگا ، ان میں اول یہ حسن (ع) ہیں، اس کے بعد حسین (ع) اور پھر ان کی اولاد کے ائمہ (ع) ( امالی صدق (ر) 327 / 1 ، کمال الدین 206 / 21 ، بصائر الدرجات167 / 22 ، روایات ابو الطفیل)۔
491۔ عذا فرالصیرفی ! میں حکم بن عتیبہ کے ساتھ امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا تو حکم نے حضرت سے سوالات شروع کردیے اور وہ ان کا احترام کیا کرتے تھے ایک مسئلہ پر دونوں میں اختلاف ہوگیا تو آپ نے اپنے فرزند سے فرمایا کہ ذرا کتاب علی (ع) تو لے کر آؤ۔ وہ ایک لپٹی ہوئی عظیم کتاب لے آئے اور حضرت اسے کھول کر پڑھنے لگے، یہاں تک کہ وہ مسئلہ نکال لیا اور فرمایا یہ حضرت علی (ع) کا خط ہے اور رسول اللہ کا املاء ہے۔
اور پھر حکم کی طرف رخ کرکے فرمایا اے ابومحمد ! تم یا سلمہ یا ابوالمقدام جد ہر چاہو مشرق و مغرب میں چلے جاؤ، خدا کی قسم اس قوم سے زیادہ محکم کہیں نہ پاؤگے جس کے گھر میں جبریل کا نزول ہوتا تھا۔(رجال نجاشی 2 ص 261 /967)۔
492۔ امام باقر (ع) ! ہم نے کتاب علی (ع) میں رسول اکرم کا یہ ارشاد دیکھاہے کہ جب لوگ زکٰوة روک لیں گے تو زمین بھی اپنی برکتوں کو روک لے گی۔(کافی 3 ص 505 /17 روایت ابوحمزہ)۔
493۔ محمد بن مسلم ! مجھے حضرت امام باقر (ع) نے وہ صحیفہ پڑھوایا جس میں میراث کے مسائل درج تھے اور اسے رسول اکرم نے املاء کیا تھا اور حضرت علی (ع) نے لکھا تھا اور اس میں یہ تصریح تھی کہ سہام میں عول واقع نہیں ہوسکتاہے اور حصے اصل مال سے زیادہ نہیں ہوسکتے ہیں۔( تہذیب 9 ص 247/ 5959)۔
494۔ ابوالجارود نے امام باقر (ع) سے روایت کی ہے کہ جب امام حسین (ع) کا آخری وقت آیا تو آپ نے اپنی دختر فاطمہ بنت الحسین (ع) کو بلاکر ایک ملفوف کتاب اور ایک ظاہری و صیت عنایت کی اور اس وقت حضرت علی بن الحسین (ع) شدید بیماری کے عالم میں تھے، اس لئے جناب فاطمہ (ع) نے بعد میں ان کے حوالہ کردیا اور وہ بعد میں ہمارے پاس آگئی۔
میں نے عرض کی میں آپ پر قربان ، آخر اس کتاب میں ہے کیا ؟ فرمایا ہر وہ شے جس کی اولاد آدم کو ابتدائے خلقت سے فناء دنیا تک ضرورت ہوسکتی ہے، خدا کی قسم اس میں تمام حدود کا ذکر ہے یہانتک کہ خراش لگانے کا تاوان لکھ دیا گیا ہے۔( کافی 1 ص 303 / 1 ، بصائر الدرجات 48 / 9 ، الامامة والتبصرہ 197 / 51 ، آخر الذکر و کتابوں میں وصیت ظاہر اور وصیت باطن کا ذکر ہے)۔
495۔ عبدالملک ! امام محمد باقر (ع) نے اپنے فرزند امام صادق (ع) سے کتاب علی (ع) کا مطالبہ کیا تو حضرت جاکر لے آئے ، وہ کافی ضخیم لپٹی ہوئی تھی اور اس میں لکھا بھی تھا کہ اگر کسی عورت کا شوہر مرجائے تو اسے مرد کی جائیداد میں سے حصہ نہیں ملے گا … اور حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا کہ واللہ اس کتاب کو حضرت علی (ع) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور رسول اللہ نے املاء کیا ہے۔( بصائر الدرجات 165 / 14)۔
496۔ یعقوب بن میثم التمار( غلام امام زین العابدین (ع)) کا بیان ہے کہ میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کی ، فرزند رسول ! میں نے اپنے والد کی کتابوں میں دیکھاہے کہ امیر المومنین (ع) نے میرے والد میثم سے فرمایا تھا کہ میں نے محمد رسول اکرم سے سناہے کہ آپ نے آیت مبارکہ ان الذین آمنوا و عملوا لصالحات اولئک ھم خیر البریہ کے ذیل میں میری طرف رخ کرکرے فرمایا تھا کہ یا علی (ع) ! یہ تم اور تمھاری شیعہ ہیں اور تم سب کا آخری موعد حوض کوثر ہے، جہاں سب روشن پیشانی کے ساتھ سرمہٴ نورلگائے، تاج کرامت سر پر رکھے ہوئے حاضر ہوں گے۔
تو حضر نے فرمایا کہ بیشک ایسا ہی کتاب علی (ع) میں بھی لکھاہے۔ (امالی طوسی (ر) 405 /909 تاویل الآیات الظاہرہ ص 801 ، البرہان 4 ص 490 /2)۔
497۔ امام صادق (ع) ! ہمارے پاس وہ علمی ذخیرہ ہے کہ ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں اور تمام لوگ ہمارے محتاج ہیں، ہمارے پاس ایک کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء کیا ہے اور حضرت علی (ع) نے لکھاہے۔ یہ وہ صحیفہ ہے جس میں سارے حلال و حرام کا ذکر ہے اور تم ہمارے سامنے کوئی امر بھی لے آؤ، اگر تم نے لے لیا ہے تو ہمیں وہ بھی معلوم ہے اور اگر چھوڑ دیا ہے تو اس کا بھی علم ہے۔( کافی 1 ص 241 /6 روایت بکر بن کرب الصیرفی)۔
498۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو ایک صحیفہ عنایت فرمایا جس پر بارہ مہریں لگی ہوئی تھیں اور فرمایا کہ پہلی مہر کو توڑو اور اس پر عمل کرو پھر امام حسن (ع) سے فرمایا کہ تم دوسری مہر کو توڑو اور اس پر عمل کرو ، پھر حضرت حسین (ع) سے فرمایا کہ تم تیسری مہر کو توڑ و اور اس پر عمل کرو، پھر فرمایا کہ اولاد حسین (ع) میں ہر ایک کا فرض ہے کہ ایک ایک کو توڑے اور اس پر عمل کرے۔( الغیبتہ النعمانی 54 / 4 روایت یونس بن یعقوب)۔
499۔معلیٰ بن خنیس ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ محمد بن عبداللہ بن الحسن بن الحسن بن علی (ع) آگئے اور حضرت کو سلام کرکے چلے گئے تو حضرت کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، میں نے عرض کی حضور آج تو بالکل نئی بات دیکھ رہا ہوں ؟ فرمایا مجھے اس لئے رونا آگیا کہ انکھوں ایسے امر کی طرف منسوب کیا جاتاہے جو ان کا حق نہیں ہے، میں نے کتاب علی (ع) میں ان کا ذکر نہ خلفاء میں دیکھا ہے اور نہ بادشاہوں میں ۔( کافی 8 ص 395 ، 594 ، بصائر الدرجات 168 / 1) واضح رہے کہ بصائر میں ان کا نام محمد بن عبداللہ بن حسن درج کیا گیا ہے۔
500۔ عبدالرحمان بن ابی عبداللہ ! میں نے امام صادق (ع) سے سوال کیا کہ اگر مرد و عورت دونوں کے جنازے جمع ہوجائیں تو کیا کرنا ہوگا؟ فرمایا کہ کتاب علی (ع) میں یہ ہے کہ مرد کا جنازہ مقدم کیا جائے گا۔( کافی 3 ص ص175 /6 ، استبصار 1 ص 472 /1826۔
501۔ امام صادق ! کتاب علی (ع) میں اس امر کا ذکر ہے کہ کتے کی دیت 40 درہم ہوتی ہے، ( خصال539/9 روایت عبدالاعلیٰ بن الحسین)۔
5۔ مصحف فاطمہ (ع)
502۔ ابوبصیر نے امام صادق (ع) کی زبانی نقل کیا ہے کہ ہمارے پا س مصحف فاطمہ (ع) ہے اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کی حضور یہ کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ ایک صحیفہ ہے جو حجم میں اس قرآن کا تین گناہے اور اس قرآن کا کوئی حرف اس میں شامل نہیں ہے۔( کافی 1 ص 239 /1)۔
503۔ امام صادق (ع) ! مصحف (ع) فاطمہ (ع) وہ ہے جس میں اس کتاب خدا کی کوئی شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک صحیفہ ہے جس میں وہ الہامات الہیہ ہیں جو بعد وفات پیغمبر جناب فاطمہ (ع) کو عنایت کئے گئے تھے۔( بصائر الدرجات 159 / 27 روایت ابو حمزہ)۔
504 ۔ امام صادق (ع) نے ولید بن صبیح سے فرمایا کہ ولید ! میں نے مصحف فاطمہ (ع) کو دیکھا ہے۔اس میں فلاں کی اولاد کے لئے جوتیوں کی گرد سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔( بصائر الدرجات 161/ 32)۔
505۔ حماد بن عثمان ! میں نے امام صادق (ع) سے سناہے کہ 128 ء ھ میں زندیقوں کا دور دورہ ہوگا اور یہ بات میں نے مصحف فاطمہ (ع) میں دیکھی ہے۔
میں نے عرض کی حضور یہ مصحف فاطمہ (ع) کیاہے؟ فرمایا کہ رسول اکرم کے انتقال کے بعد جناب فاطمہ (ع) بے حد محزون و مغموم تھیں اور اس غم کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جان سکتا تھا تو پروردگار عالم نے ایک ملک کو ان کی تسلّی اور تسکین کے لئے بھیج دیا جو ان سے باتیں کرتا تھا۔
انھوں نے اس امر کا ذکر امیر المومنین (ع) سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب جب کوئی آئے اور اس کی آواز سنائی دے تو مجھے مطلع کرنا ۔ تو میں نے حضرت کو اطلاع دی اور آپ نے تمام آوازوں کو محفوظ کرلیا اور اس طرح ایک صحیفہ تیار ہوگیا۔ پھر فرمایا اس میں حلال و حرام کے مسائل نہیں ہیں بلکہ قیامت تک کے حالات کا ذکر ہے۔( کافی 1 ص 240 /2 ، بصائر الدرجات 157 / 18 ، کافی 1 ص 238 ، باب ذکر صحیفہ و جفر و جامعہ و مصحف فاطمہ (ع) اور بصائر الدرجات، باب صحیفہ جامعہ و باب الکتب و باب اعطاء و جامعہ و مصحف فاطمہ (ع) ، بحار الانوار 26 باب جہالت علوم ائمہ و کتب ائمہ، روضة الواعظین ص 232۔
6۔ جامعہ
506۔ابوبصیر امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا اے ابومحمد! ہمارے پاس جامعہ ہے اور تم کیا جانو کہ یہ جامعہ کیاہے ؟ میں نے عرض کی حضور بتادیں کہ کیا ہے؟
فرمایا کہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول رسول اکرم کے ہاتھوں سے ستر ہاتھ ہے اور اس میں وہ سب کچھ ہے جسے حضرت (ع) نے فرمایاہے اور حضرت علی (ع) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، اس میں تمام حلال و حرام اور مسائل انسانیہ کا ذکر ہے یہاں تک کہ خراش کا تاوان تک درج ہے یہ جان قربان، آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے ، حضرت نے میرا ہاتھ دیا اور فرمایا کہ اس عمل کا تاوان بھی اس کے اندر موجود ہے۔
میں نے عرض کی حضور یہ تو واقعاً علم ہے!
فرمایا بیشک یہ علم ہے لیکن یہ وہ علم نہیں ہے؟( کافی 1 ص 239 /1 ،بصائر الدرجات 143 / 4)۔
507۔ ابوعبیدہ ! ایک شخص نے امام صادق (ع) سے علم جفر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک بیل کی کھال ہے جس میں سارا علم بھرا ہوا ہے عرض کی اور جامعہ ؟
فرمایا یہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول ستر ہاتھ ہے ، کھال پر لکھا گیاہے اور اس میں لوگوں کے تمام مسائل حیات کا حل موجود ہے یہاں تک کہ خراش بدن کا تاوان تک لکھا ہوا ہے۔( کافی 1 ص 241 /5 ، بصائر الدرجات 153 / 6)۔
508 ، امام صادق (ع) ! جامعہ تک آکے ابن شبرمہ کا علم بھٹک گیا ، یہ رسول اللہ کا املاء ہے اور امیر المومنین (ع) کی تحریر ، جامعہ نے کسی شخص کے لئے مجال سخن نہیں چھوڑ ی ہے اور اس میں سارا حلال و حرام موجود ہے۔
مولف ! مذکورہ روایات میں جامعہ کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، یہی اوصاف روایات میں کتاب علی (ع) کے بھی ہیں لہذا عین ممکن ہے کہ جامعہ کتاب علی (ع) ہی کا دوسرا نام ہو۔(واللہ العالم)۔
509۔ ابوبصیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ ہمارے پاس جفر ہے اور لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے؟ میں نے عرض کی حضور (ع) ! ارشاد فرمائیں فرمایا ایک کھال کا ظرف ہے جس میں تمام انبیاء و اوصیاء کے علوم ہیں اور بنئ اسرائیل کے علماء کا علم بھی ہے؟۔
میں نے عرض کی حضور (ع) یہ تو واقعاً علم ہے ! فرمایا بیشک لیکن یہ وہ علم نہیں ہے جو ہمارے پاس ہے۔( کافی 1 ص 239 / 1)۔
510۔حسین بن ابی العلاء ! میں نے امام صادق (ع) سے سنا کہ ہمارے پاس جفر ابیض ہے۔!
تو میں نے عرض کی کہ حضور (ع) ! اس میں کیا ہے؟
فرمایا زبور داؤد (ع) ، توریت موسی ٰ (ع) ، انجیل عیسیٰ (ع) ، صحف ابراہیم (ع) اور جملہ حلال و حرام جو مصحف فاطمہ (ع) اور قرآن مجید نہیں ہیں ، اس میں لوگوں کے ان تمام مسائل کا ذکر ہے جن میں لوگ ہمارے محتاج ہیں اور ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں ، اس میں کوڑا ، نصف ، ربع ، خراش تک کا ذکر ہے۔( کافی 1 ص 240 /3 ، بصائر الدرجات 150 /1)۔
511۔ امام رضا (ع) نے علامات امام کے ذیل میں فرمایا کہ امام کے پاس جفر اکبر و اصغر ہوتاہے جو بکری اور بھیڑ کی کھال پر ہے اور اس میں کائنات کے تمام علوم یہاں تک کہ خراش کے تاوان تک کا ذکر ہے اور کوڑے نصف ، ربع کا بھی ذکر ہے اور امام کے پاس مصحف فاطمہ (ع) بھی ہوتاہے۔( الفقیہ 4 ص 419 / 5914 روایت حسن بن فضال)۔
7حقیقت جفر
علم جعفر کی حقیقت اور اس کے مفہوم کے بارے میں علماء اعلام میں سجید اختلاف پایا جاتاہے اور ہر شخص نے ایک نئے اندار سے اسکی تشریح و تفسیر کی ہے جس کے تفصیلات کی یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے، خلاصہٴ روایات یہ ہے کہ علم جفر اوصیاء پیغمبر اسلام کے علوی کی بنیادوں میں شمار ہوتاہے اور اس سے مراد وہ صندوق ہے جس میں تمام انبیاء سابقین کے صحیفے، رسول اکرم امیر المومنین (ع) ، جناب فاطمہ (ع) کے کتب و رسائل اور رسول اکرم کے اسلحے محفوظ ہیں، اس کو جفرا بیض اور جفرا حمر بھی کہا جاتاہے اور در حقیقت یہ ایک کتب خانہ اور خزانہ ہے جو اہلبیت (ع) کے خصوصیات میں ہے اور انھیں کو یکے بعد دیگرے وراثت میں ملتاہے، اور آج ام حجت العصر (ع) کے پاس محفوظ ہے۔ (کافی 1 ص 240 / 3 ، بحار 26 ص 18 / 1 ، 26 / 37 /68 ، 47 ص 26 /26 ، 52 ص 313/7)۔
کیفیت علوم اہلبیت (ع)
1۔ اذا شاؤ اعلموا
520۔ امام صادق (ع) !امام جب جس چیز کو جاننا چاہتاہے جان لیتاہے( کافی 1 ص 258 /1 ، بصائر الدرجات 315 /3 روایات ابوالربیع و روایت دوم از یزید بنفرقد النہدی)۔
521۔ عمار الساباطی ! میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ کیا امام کے پاس غیب کا علم ہوتاہے؟ فرمایا جب وہ کسی شے کو جاننا چاہتاہے تو پروردگار اسے علم عطا کردیتاہے۔( کافی 1 ص 217 /4 ، بصائر الدرجات 315 /4 ، اختصاص 286)۔
522۔ امام ہادی (ع) ! پروردگار نے کسی شخص کو اپنے غیب پر مطلع نہیں کیا مگر جس رسول کو اس نے پسند فرمالیا، تو جو کچھ رسول اکرم کے پاس تھا وہ بھی عالم ( امام) کے پاس ہے اور جس پر پروردگار نے اسے مطلع کیا اس کی اطلاع بھی ان کے اوصیاء کے پاس ہے تا کہ زمین حجّت خدا سے خالی نہ رہے جس کا علم اس کے یہاں کی صداقت اور اس کی عدالت کے جواز کی دلیل ہے۔( کشف الغمہ 3 ص 177 روایت فتح بن یزید الجرجانی)۔
2۔ بست و کشاد
523۔ امام صادق (ع) ۔ ہمارے علم و عدم علم کی بنیاد خدائی بست و کشاد پر ہے وہ جب چاہتاہے ہم جان لیتے ہیں اور وہ نہ چاہے تو نہیں جان سکتے ہیں امام دوسرے افراد کی طرح پیدا بھی ہوتاہے، صحتمند اور بیمار بھی ہوتاہے۔کھاتا پیتا بھی ہے، اس کے یہاں بول و براز بھی ہوتاہے، وہ خوش اور رنجیدہ بھی ہوتاہے، وہ ہنستا اور روتا بھی ہے، وہ مرتا اور دفن بھی ہوتاہے اور اس کے علم میں اضافہ بھی ہوتاہے لیکن اس کا امتیاز دو چیزوں میں ہے، ایک علم اور ایک قبولیت دعا، امام تمام حوادث کی ان کے وقوع سے پہلے اطلاع دے سکتاہے کہ اس کے پاس رسول اکرم کا عہد ہوتاہے جو اسے وراثت میں ملتاہے۔( خصال 528 /3)۔
524۔ معمر بن خلاد ! ایک مرد فارس نے امام ابوالحسن (ع) سے دریافت کیا کہ کیا آپ حضرات غیب بھی جانتے ہیں ؟ فرمایا خدا ہمارے لئے علم کو کشادہ کردیتاہے تو سب کچھ جان لیتے ہیں لیکن وہ روک دے تو کچھ نہیں جان سکتے ہیں، یہ ایک راز خدا ہے جو اس نے جبریل کے حوالہ کیا اور جبریل نے پیغمبر اسلام تک پہنچا دیا اور انھوں نے جس کے چاہا حوالہ کردیا۔( کافی 1 ص 256 /1)۔
3۔ اضافہٴ علم
525۔ زرارہ ! میں نے امام محمد (ع) باقر کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر پروردگار ہمارے علم میں مسلسل اضافہ نہ کرتا رہتا تو وہ بھی ختم ہوجاتا۔ میں نے عرض کی تو کیا آپ حضرات کو رسول اکرم سے بھی زیادہ دیدیا جاتاہے؟ فرمایا خدا جب بھی دینا چاہتاہے تو پہلے رسول اکرم پر پیش کرتاہے اس کے بعد ائمہ کو ملتاہے اور اسی طرح ہم تک پہنچا ہے۔( کافی 1 ص 255 /3 ، اختصاص ص 312 ، بصائر الدرجات 394/8)۔
526۔ ابوبصیر! میں نے امام صادق (ع) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر ہمارے علم میں مسلسل اضافہ نہ ہوتا تو اب تک خرچ ہوچکاہوتا۔
میں نے عرض کی کہ کیا اس شے کا اضافہ ہوتاہے جو رسول اکرم کے پاس نہ تھی؟ فرمایا کہ جب خدا کو دینا تھا تو پہلے رسول اکرم کو باخبر کیا ، اس کے بعد حضرت علی (ع) اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے ائمہ کو ، یہاں تک کہ معاملہ صاحب الامر تک پہنچ گیا۔( امالی طوسی 409 /920 ، اختصاص ص 313 ، بصائر الدرجات 392 /2 روایات یونس بن عبدالرحمان)۔
527۔عبداللہ بن بکیر! میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ میں نے ابوبصیر کو آپ کی طرف سے بیان کرتے سنا ہے کہ اگر خدا مسلسل ہمارے علم میں اضافہ نہ کرتا تو وہ بھی ختم ہوجاتا ۔ فرمایا بیشک۔
میں نے عرض کی تو کیا کسی ایسی شے کا اضافہ ہوتاہے جو رسول اکرم کے پاس نہ تھی؟ فرمایا ہرگز نہیں ، رسول اکرم کو علم وحی کے ذریعہ دیا جاتاہے اور ہمارے پاس بذریعہ حدیث آتاہے۔( امالی الطوسی (ر) 409/ 919)۔
528۔ امام صادق (ع) ! خدا کی بارگاہ سے جو چیز بھی نکلتی ہے پہلے رسول اکرم کے پاس آتی ہے، اس کے بعد امیر المومنین (ع) کے پاس ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے ائمہ کے پاس تا کہ ہمارا آخر اول سے اعلم نہ ہونے پائے، (کافی 1 ص 255 /4 ، اختصاص ص 313 ، بصائر الدرجات 392 /2 روایات یونس بن عبدالرحمان)۔
529۔ سلیمان الدیلمی ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ میں نے یہ فقرہ بار بار آپ سے سناہے کہ اگر ہمارے یہاں مسلسل اضافہ نہ ہوتا تو سب خرچ ہوگیا ہوتا تو سارا حلال و حرام تو رسول اکرم پر نازل ہوچکاہے، اب اضافہ کس شے میں ہوتاہے؟ فرمایا حلال و حرام کے علاوہ ہر شے میں۔
میں نے عرض کی تو کیا ایسی شے کا اضافہ ہوتاہے جو رسول اکرم کے پسا نہ رہی ہو؟ فرمایا ہرگز نہیں ، علم جب بھی خدا کے پاس سے نکلتاہے تو پہلے ملک رسول اکرم کے پاس آتاہے اور کہتاہے کہ اے محمد ! آپ کے پروردگار کا ایسا ایسا ارشاد ہے ! اب آپ ہی اسے علی (ع) کے حوالہ کردیں، پھر علی (ع) سے کہا جاتاہے کہ حسن (ع) کے حوالہ کردیں اور اسی طرح یکے بعد دیگرے ائمہ کے پاس آتاہے اور یہ ناممکن ہے کہ کسی امام کے پاس کوئی ایسا علم ہو جو رسول اکرم یا سابق کے امام کے پاس نہ رہاہو۔( اختصاص ص 313 ، بصائر الدرجات 393 /5 ، کافی 1 ص 254، بحار الانوار 26 ص 86 باب نمبر 3)۔
|