ازدوا ج پیغمبر ا کرم اور مفہوم اہلبیت (ع)
1 ۔ ام سلمہ (ع)
1 ۔ عطا ء بن یسار نے جناب ام سلمہ(ع) سے روایت کی ہے کہ آیت ” اِنّمَا یُرِید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا ۔ میرے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ ”خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں“۔ (مستدرک علی الصحیحین 3 ص 158 / ص 4705 ، سنن کبریٰ 2 ص 214 / ص 2861 )۔
2 ۔ عطاء بن یسار راوی ہیں کہ جناب ام سلمہ (ع) نے فرمایا کہ آیت انّما یرید اللہ …… میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جس کے بعد ام سلمہ (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟ تو آپ نے فرمایا تم ” اَھلِی خَیْر“ ہو اور یہ اہلبیت (ع) ہیں خدایا میرے اہل زیادہ حقدار ہیں۔
( یہ لفظ مستدرک میں اسی طرح وارد ہوا ہے حالانکہ بظاہر غلط ہے اور اصل لفظ ہے ” علیٰ خیر“ جس طرح کہ دیگر روایات میں وارد ہوا ہے)۔
3 ۔ ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جس کے بعد میں نے عرض کی کہ یا رسول (ع) اللہ کیا میں اہلبیت میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے اور تم ازدواج رسول میں ہو۔ (تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ص 70 ، ص 127 ، حالات امام حسین (ع) ص 73 ، ص 106 تاریخ بغداد ص 9 ص 126 ، المعجم الکبیر 3 ص 52 / 2662)۔
4 ۔ ابوسعید حذری جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے ان کے سرپر ایک خیبری چادر اوڑھادی اور فرمایا خدایا یہ ہیں میرے اہلبیت (ع) لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور اس طرح پاک رکھنا جو تطہیر کا حق ہے۔ جس کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا میں ان میں سے نہیں ہوں؟ تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔( تفسیر طبری 22 ص 7)۔
5 ۔ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور میں دروازہ پر بیٹھی تھی ، جب میں نے پوچھا کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے اور تم ازواج رسول میں ہو، اس وقت گھر میں رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) اور حسین (ع) تھے ” رضی اللہ عنہم“ ( تفسیر طبری 22 ص 7)۔
6 ۔ ابوہریرہ نے جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول اکرم کے پاس ایک پتیلی لے کر آئیں جس میں عصیدہ (حلوہ) تھا اور اسے ایک سینی میں رکھے ہوئے تھیں، اور اسے رسول اکرم کے سامنے رکھدیا۔
تو آپ نے فرمایا کہ تمھارے ابن عم اور دونوں فرزندکہاں ہیں ؟ عرض کی گھر میں ہیں فرمایا سب کو بلاؤ تو فاطمہ (ع) نے گھر آکر علی (ع) سے کہا کہ آپ کو اور آپ کے دونوں فرزندوں کو پیغمبر اکرم نے طلب فرمایاہے۔
جس کے بعد ام سلمہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جیسے ہی سب کو آتے دیکھا بستر سے چادر اٹھاکر پھیلادی اور اس پر سب کو بٹھاکر اطراف سے پکڑ کر اوڑھادیا اور داہنے ہاتھ سے طرف پروردگار اشارہ کیا مالک یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری 22 ص 7)۔
7۔ حکیم بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کے سامنے علی (ع) کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ آیت تطہیرانھیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ رسول اکرم میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، اتنے میں فاطمہ (ع) آگئیں تو میں انھیں روک نہ سکی، پھر حسن (ع) آگئے تو انھیں بھی نانا اور ماں کے پاس جانے سے روک نہ سکی، پھر حسین (ع) آگئے تو انھیں بھی منع نہ کرسکی اور جب سب ایک فرش پر بیٹھ گئے تو حضور نے اپنی چادر سب کے سر پر ڈال دہی اور کہا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ اور میں ؟ تو حضور نے ہاں نہیں کی اور فرمایا کہ تمہارا انجام خیر ہے( تفسیر طبری 22 ص 8)۔
8 ۔ شہر بن حوشب جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) پر چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
جس پر میں نے عرض کی کہ کیا میں بھی انھیں میں سے ہوں ؟ تو فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے ( مسند احمد بن حنبل 10 ص 197 / 26659 ، سنن ترمذی 5 ص 699 /3871 ، مسند ابویعلیٰ 6 ص290 / 6985 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 62 / ص88 تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 65 ص 118 )۔
واضح رہے کہ ترمذی میں انا منہم کے بجائے انا معہم؟ ہے اور آخری تین مدارک میں خاصتی کے بجائے حامتی ہے۔
9 ۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے راوی ہیں کہ فاطمہ (ع) بنت رسول پیغمبر اکرم کے پاس حسن (ع) و حسین (ع) کو لے کر آئیں تو آپ کے ہاتھ میں حسن (ع) کے واسطے ایک برمہ (پتھر کی بانڈی) تھا جسے سامنے لاکر رکھدیا تو حضور نے دریافت کیا کہ ابوالحسن (ع) کہاں ہیں، فاطمہ (ع) نے عرض کی کہ گھر میں ہیں ! تو آپ نے انھیں بھی طلب کرلیا اور پانچوں حضرات بیٹھ کر کھانے لگے۔
جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضور نے آج مجھے شریک نہیں کیا جبکہ ہمیشہ شریک طعام فرمایا کرتے تھے ، اس کے بعد جب کھانے سے فارغ ہوئے تو حضور نے سب کو ایک کپڑے میں جمع کرلیا اور دعا کی کہ خدایا ان کے دشمن سے دشمنی کرنا اور ان کے دوست سے دوستی فرمانا۔ (مسند ابویعلی 6 ص 264 / 6915 ، مجمع الزوائد 9 ص 262 / 14971 )
10 ۔ شہر بن حوشب نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ اپنے شوہر اور فرزندوں کو بلاؤ اور جب سب آگئے تو ان پر ایک فدک کے علاقہ کی چادر اوڑھادی اور سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا خدایا یہ سب آل محمد ہیں لہذا اپنی رحمت و برکات کو محمد و آل محمد کے حق میں قرار دینا کہ تو قابل حمد اور مستحق مجد ہے۔
اس کے بعد میں نے چادر کو اٹھاکر داخل ہونا چاہا تو آپ نے میرے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل 10 ص 228 / 26808۔ المعجم الکبیر 3 ص 53 / 2664 ۔ 23 ص 336 / 779 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 64 ص 93، حالات امام حسن (ع) 65 ، ص 116 67 ،ص 120 ، مسند ابویعلی ٰ 6 ص 248 / 6876 ۔
11 ۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم میرے پاس تھے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے، میں نے ان کے لئے غذا تیار کی اور سب کھاکر لیٹ گئے تو پیغمبر اکرم نے ایک عبا یا چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری 22 ص 6 )۔
12 ۔ زوجہ پیغمبر جناب ام سلمہ کے غلام عبداللہ بن مغیرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آیت تطہیر ان کے گھر میں نازل ہوئی جبکہ رسول اکرم نے مجھے حکم دیا کہ میں علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کروں اور میں نے سب کو طلب کرلیا ، آپ نے داہنا ہاتھ علی (ع) کے گلے میں ڈال دیا اور بایاں ہاتھ حسن (ع) کے گلے میں ، حسین (ع) کو گود میں بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو سامنے، اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہل اور میری عترت ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طریقہ سے پاک و پاکیزہ رکھنا … اور یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو میں نے عرض کی کہ پھر میں ؟ تو فرمایا کہ انشاء اللہ تم خیر پر ہو ۔( امالی طوسی (ر) 263 / 482 ۔ تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 67 / 97 لیکن اس میں راوی کا نام عبداللہ بن معین ہے جیسا کہ امالی کے بعض نسخوں میں پایا جاتاہے)
13 ۔ عطا ابن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جس نے جناب ام سلمہ کو یہ بیان کرتے سنا تھا کہ رسول اکرم ان کے گھر میں تھے اور فاطمہ (ع) ایک برمہ (ہانڈی) لیکر آئیں جس میں ایک مخصوص غذا تھی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوگئیں تو حضرت نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بچوں کو بلاؤ اور جب سب آگئے اور کھانا کھالیا تو ایک بستر پر لیٹ گئے جس پر خیبری چادر بچھی ہوئی تھی اور میں حجرہ میں مشغول نماز تھی تو آیت تطہیر نازل ہوئی اور آپ نے اس چادر کو سب کے اوپر ڈھانک دیا اور ایک ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا ، خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا ۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے اس گھر میں سرڈال کر گذارش کی کہ کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہوں یا رسول اللہ ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے، تمہارا انجام بخیر ہے ۔(مسند احمد بن حنبل 10 ص 177 / 26570۔ فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 587 / 994 ۔ تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 68 ص 123 ، مناقب ابن مغازلی 304 / 348 ، مناقب امیر المومنین کوفی 2 ص 161 / 638 بروایت ابویعلی ٰ کندی)۔
14 ۔ عمرہ بنت افعلی کہتی ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کو یہ کہتے سنا کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جبکہ گھر میں سات افراد تھے۔
جبرئیل ، میکائیل، رسول اللہ ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) ۔
میں گھر کے دروازہ پر تھی ، میں نے عرض کی حضور کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو ، اہلبیت (ع) میں نہیں ہو ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 69 ص 102 ، 68 ص 101 ، در منثور 6 ص 604 از ابن مردویہ ، خصال 403 / 113 ، امالی صدوق (ر) 381 / 4 روضة الواعظین ص 175، تفسیر فرات کوفی 334 / 454 ،از ابوسعید)۔
15 ۔ امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے امام زین العابدین (ع) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے فرمایا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں اس دن نازل ہوئی ہے جس دن میری باری تھی اور رسول اکرم میرے گھرمیں تھے، جب آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو بلایا اور جبریل بھی آگئے آپ نے اپنی خیبری چادر سب پر اوڑھاکر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا جس کے بعد جبریل نے عر ض کی کہ میں بھی آپ سے ہوں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ ہاں تم ہم سے ہوا ہے جبریل … اور پھر ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ اور میں بھی آپ کے اہلبیت (ع) میں ہوں اور یہ کہہ کر چادر میں داخل ہونا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو، تمہارا انجام بخیر ہے ، لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو جس کے بعد جبریل نے کہا کہ یا محمد ! اس آیت کو پڑھو ” انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا“ کہ یہ آیت نبی ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کے بارے میں ہے ( امالی طوسی (ر) 368 / 783 از علی بن علی بن رزین)۔
2 ۔ عائشہ
16 ۔ صفیہ بنت شیبہ عائشہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم ایک صبح گھر سے برآمد ہوئے جب آپ سیاہ بالوں والی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور اتنے میں حسن (ع) آگئے تو آپ نے انھیں بھی داخل کرلیا، پھر حسین (ع) آگئے اور انھیں بھی لے لیا ، پھر فاطمہ (ع) آگئیں تو انھیں بھی شامل کرلیا اور پھر علی (ع) آگئے تو انھیں بھی داخل کرلیا، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی ( صحیح مسلم 4 / 1883 / 2424 ، المستدرک 3 ص 159 / 4707 ، تفسیر طبری 22 ص 60 اس روایت میں صرف امام حسن (ع) کا ذکر ہے، السنن الکبری ٰ 2 ص 212 / 2858 ، المصنف ابن ابی شیبہ 7 ص 502 / 39 مسند اسحاق بن راہویہ 3 ص 278 / 1271 ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 63 / 113 )
17 ۔ عوام بن حوشب نے تمیمی سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا توانھوں نے یہ روایت بیان کی کہ میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے علی (ع) ۔ حسن (ع) ۔ حسین (ع) کو بلایا اور فرمایا کہ خدا یہ میرے اہلبیت (ع)ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔ (امالی صدوق (ر) 5 ص 382)
18 ۔ جمیع بن عمیر کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت عائشہ بنت ابی بکر کی خدمت میں حاضر ہوا تو میری والدہ نے سوال کیا کہ آپ فرمائیں رسول اکرم کی محبت علی (ع) کے ساتھ کیسی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ تمام مردوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ نے انھیں اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو اپنی ردا میں داخل کرکے فرما یا کہ خدا یا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
جس کے بعد میں نے چاہا کہ میں بھی چادر میں سرڈال دوں تو آپ نے منع کردیا تو میں نے عرض کی کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟ تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو، بیشک تم خیر پر ہو ، (تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 164 ، 642 ، شواہد التنزیل 2 ص 61 / 682 ، 684 ، العمدة 40 / 23 مجمع البیان 8/ 559 ۔
واضح رہے کہ تاریخ دمشق میں راوی کا نام عمیر بن جمیع لکھا گیا ہے جو کہ تحریف ہے اور اصل جمیع بن عمیر ہے جیسا کہ دیگر تمام مصادر میں پایا جاتاہے اور ابن حجر نے تہذیب میں تصریح کی ہے کہ جمیع بن عمیر التیمی الکوفی نے عائشہ سے روایت کی ہے اور ان سے عوام بن حوشب نے نقل کیا ہے ۔!
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں
آیت تطہیر کے نزول کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کا جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ آیت جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور اس کا خود حضرت عائشہ نے بھی اقرار کیا ہے جیسا کہ ابوعبداللہ الحدبی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے سوال کیا کہ آیت ” انما یرید اللہ “ کہاں نازل ہوئی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ بیت ام سلمہ میں ! ( تفسیر فرات کوفی 334 / 455)
دوسری روایت میں جناب ام سلمہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر خود عائشہ سے دریافت کروگے تو وہ بھی یہی کہیں گی کہ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ ( تفسیر فرات الکوفی 334)
شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن النعمان فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے روایت کی ہے کہ اس آیت کے بارے میں عمر سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ عائشہ سے دریافت کرو اور عائشہ نے فرمایا کہ میری بہن ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے لہذا انھیں اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم ہے۔ ( الفصول المختارہ ص 53 ، 54)
مذکورہ بالا اور عبداللہ بن جعفر کی روایت سے واضح ہوتاہے کہ جناب ام سلمہ کے علاوہ عائشہ اور زینب جیسے افراد اس واقعہ کے عینی شاہد بھی ہیں اور انھوں نے ام سلمہ کی طرح چادر میں داخلہ کی درخواست بھی کی ہے اور حضور نے انکار فرمادیا ہے لہذا بعض محدثین کا یہ احتمال دینا کہ یہ واقعہ متعدد بار مختلف مقامات پر پیش آیاہے ، ایک بعید از قیاس مسئلہ ہے۔
اصحاب پیغمبر اور مفہوم اہلبیت (ع)
1 ۔ ابوسعید خدری (ع)
19 ۔ عطیہ نے ابوسعید الخدری سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ یہ آیت پانچ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، میں ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ،حسین (ع) ۔(تفسیر طبری 12 / 6، در منثور 6 ص 604 ، العمدة 39 ص21)۔
20۔ عطیہ نے ابوسعید خدری سے آیت تطہیر کے بارے میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو جمع کرکے سب پر ایک چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، خدایا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
اس وقت ام سلمہ دروازہ پر تھیں اور انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم خیر پر ہو، یا تمہارا انجام بخیر ہے، ( تاریخ بغداد 10 ص 278 ، شواہد التنزیل 2 ص 38 / 657 ۔ 2 ص 139 / 774 ، تنبیہ الخواطر 1 ص 23)۔
21 ۔ ابوایوب الصیرفی کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ کوفی کو یہ بیان کرتے ہوئے سناہے کہ میں نے ابوسعید خدری سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ آیت رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن اور حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔( امالی طوسی (ر) 248 / 438 ۔ المعجم الکبیر 3 ص 56 / 2673، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 75 / 108 ، اسباب نزول قرآن 368 / 696 )۔
2 ۔ ابوبرزہ اسلمی
22 ۔ ابوبرزہ کا بیان ہے کہ میں نے ، 17 مہینہ تک رسول اکرم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ اپنے گھر سے نکل کر فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آتے تھے اور فرماتے تھے، نماز ! خدا تم پر رحمت نازل کرے اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے ( مجمع الزوائد 9 ص 267 / 14986 )۔
3 ۔ ابوالحمراء
23 ۔ ابوداؤد نے ابوالحمراء سے نقل کیا ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام کے دور میں سات مہینہ تک مدینہ میں حفاظتی فرض انجام دیا ہے اور میں دیکھتا تھا کہ حضور طلوع فجر کے وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آکر فرماتے تھے ، الصلٰوة الصلٰوة ، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔ ( تفسیر طبری 22 ص 6)۔
4 ۔ ابولیلیٰ انصاری
24 ۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اپنے والد کے حوالہ سے پیغمبر اسلام کا یہ ارشا د نقل کیا ہے کہ آپ نے علی (ع) مرتضیٰ سے فرمایا کہ میں سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوگا اور اس کے بعد تم اور حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) … خدا یا یہ سب میرے اہل ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ، خدایا ان کی نگرانی اور حفاظت فرمانا، تو ان کا ہوجا ، ان کی نصرت اور امداد فرما… انھیں عزت عطا فرما اور یہ ذلیل نہ ہونے پائیں اور مجھے انھیں میں زندہ رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ ( امالی طوسی (ر) ص 352 / 272 ، مناقب خوارزمی 62 / 31)۔
5 ۔ انس بن مالک
25 ۔ انس بن مالک کا بیان ہے کہ رسول اکرم 6 ماہ تک فاطمہ (ع) کے درواز ہ سے نماز صبح کے وقت گذرتے تھے، الصلٰوة یا اہل البیت … اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے( سنن ترمذی 5 ص 352 / 3206 ، مسند احمد بن حنبل 4 ص 516 / 13730 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2/761 / 1340 ، مستدرک 3 / 172 / 4748 ، المعجم الکبیر 3 / 65 / 2671 ، المصنف 7/427 ، تفسیر طبری 22 ص 6 اس کتاب میں اذاخرج کے بجائے کلما خرج ہے کہ جب بھی نماز کے لئے نکلتے تھے)۔
6 ۔ براء بن عازب
26 ۔ براء بن عازب کا بیان ہے کہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) رسول اکرم کے دروازہ پر آئے تو آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میری عترت ہے ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 / 437 / 944 ، شواہد التنزیل 2 / 26 / 645)۔
7۔ ثوبان
27۔ سلیمان المبنہی نے غلام پیغمبر اسلام ثوبان سے نقل کیا ہے کہ حضور جب بھی سفر فرماتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ (ع) سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ (ع) سے ملاقات کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک غزوہ سے واپس آئے تو دروازہ پر ایک پردہ دیکھا اور حسن (ع) حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کے کڑے … تو گھر میں داخل نہیں ہوئے، جناب فاطمہ (ع) فوراً سمجھ گئیں اور پردہ کو اتار دیا اور بچوں کے کڑے بھی اتارلئے اور توڑ دیے، بچے روتے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے دونوں سے لے لیا اور مجھ سے فرمایا کہ اسے لے جاکر مدینہ کے فلاں گھر والوں کو دیدو کہ میں اپنے اہلبیت (ع) کے بارے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ یہ ان نعمتوں سے زندگانی دنیا میں استفادہ کریں، پھر فرمایا ثوبان جاؤ فاطمہ (ع) کے لئے ایک عصب (…) کا ہار اور بچوں کے لئے دو عاج ( ہاتھی دانت) کے کڑے خرید کر لے آؤ ( سنن ابی داؤد 4/ 87 / 4213 ، مسند احمد بن حنبل 8/ 320 / 22426، السنن الکبری ٰ 1 / 41 / 91 ، احقاق الحق 10 /234 ، 291)۔
واضح رہے کہ روایت کے جملہ تفصیلات کی ذمہ داری راوی پر ہے، مصنف کا مقصد صرف لفظ اہلبیت (ع) کا استعمال ہے،
جوادی ۔
28۔ ابوہریرہ اور ثوبان دونوں نے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم اپنے سفر کی ابتدا اور انتہا بیتِ فاطمہ (ع) پر فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے پدر بزرگوار اور شوہر نامدار کی خاطر ایک خیبری چادر کا پردہ ڈال دیا جسے دیکھ کر حضور آگے بڑھ گئے اور آپ کے چہر ہ پر ناراضگی کے اثرات ظاہر ہوئے اور منبر کے پاس آکر بیٹھ گئے، فاطمہ (ع) کو جیسے ہی معلوم ہوا انھوں نے ہار ۔ بُندے اور کڑے سب اتار دیے اور پردہ بھی اتارکر بابا کی خدمت میں بھیج دیا اور عرض کی کہ اسے راہ خدا میں تقسیم کردیں، آپ نے یہ دیکھ کر تین بار فرمایا، یہ کارنامہ ہے۔ فاطمہ (ع) پر ان کا باپ قربان ۔ آل محمد کو دنیا سے کیا تعلق ہے، یہ سب آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا دوسرے افراد کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ ( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 343)۔
نوٹ: تفصیلات کے اعتبار کے لئے حضرت ابوہریرہ کا نام ہی کافی ہے ۔
جوادی
8 ۔ جابر بن عبداللہ انصاری
29۔ ابن ابی عتیق نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) اور ان کے دونوں فرزندوں کو بلاکر ایک چادر اوڑھادی اور فرمایا ، خدا یا یہ میرے اہل ہیں، یہ میرے اہل ہیں، (شواہد التنزیل 2/ 28 / 647 ، مجمع البیان 8/ 560 ، احقاق الحق 2 ص 55 نقل از عوالم العلوم)۔
30 ۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے گھر میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آیت تطہیر نازل ہوگئی اور آپ نے حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو طلب کرکے اپنے سامنے بٹھایا اور علی (ع) کو پس پشت بٹھایا اور فرمایا ، خدایا یہ میرے اہلبیت ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا۔
ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں ؟ فرمایا تمھارا انجام بخیر ہے۔
تو میں نے عرض کی ، حضور ا! اللہ نے اس عترت طاہرہ اور ذریّت طیبہ کو یہ شرف عنایت فرمایاہے کہ ان سے ہر رجس کو دور رکھاہے ، تو آپ نے فرمایا ، جابر ایسا کیوں نہ ہوتا، یہ میری عترت ہیں اور ان کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے ، یہ میرا بھائی سید الاولیاء ہے۔
اور یہ میرے فرزند بہترین فرزند ہیں اور یہ میری بیٹي تمام عورتوں کی سردار ہے اور یاد رکھو کہ مہدی بھی ہمیں میں سے ہوگا ( کفایة الاثر ص 66)۔
9 ۔ زید بن ارقم
31 ۔ یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے حدیث ثقلین کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ میں نے دریافت کیا کہ آخر یہ اہلبیت (ع) کون ہیں ، کیا یہ ازواج ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، عورت تو مرد کے ساتھ ایک عرصہ تک رہتی ہے ، اس کے بعد اگر طلاق دیدی تو اپنے گھر اور اپنی قوم کی طرف پلٹ جاتی ہے ” اور رشتہ ختم ہوجاتاہے“… اہلبیت (ع) وہ قرابتدار ہیں جن پر صدقہ حرام کردیا گیا ہے ( صحیح مسلم 4 ص 37 /1874)۔
10 ۔ زینب بنت ابی سلمہ
32۔ ابن لہیعہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عمرو بن شعیب نے نقل کیا ہے کہ وہ زینب بنت ابی سلمہ کے یہاں وارد ہوئے تو انھوں نے یہ قصہ بیان کیا کہ رسول اکرم ام سلم ہکے گھر میں تھے کہ حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) آگئیں، آپ نے حسن (ع) کو ایک طرف بٹھایا اور حسین کو دوسری طرف ، فاطمہ (ع) کو سامنے جگہ دی اور پھر فرمایا کہ رحمت و برکات الہی تم اہلبیت (ع) کے لئے ہے، وہ پروردگار حمید بھی ہے اور مجید بھی ہے(المعجم الکبیر 24 ص 281 / 713 ) ۔
11 ۔ سعد بن ابی وقاص
33۔ عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ یہ میرے اہل ہیں( صحیح مسلم 4 / 32 / 1871 سنن ترمذی 5 / 225 / 2999 ، مسند ابن حنبل 1 / 391 / 1608 ، مستدرک 3/ 163 / 4719 ، السنن الکبریٰ 7 ص 101 / 13392 ، الدرالمنثور 2 ص 233 ، تاریخ دمشق حالات اما م علی (ع) 1 ص 207 / 271 ، امالی طوسی (ر) ص 307 / 616)۔
34 ۔ عامر بن سعد نے سعد سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور ان کے فرزندوں کو چادر میں لے کر فرمایا کہ خدایا یہی میرے اہل اور اہلبیت (ع) ہیں (مستدرک 3 ص 159 / 4708 السنن الکبریٰ 7 ص 101 / 13391، تفسیر طبری 33 / 8 ، الدرالمنثور 6 ص 605)۔
35۔ سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ میں منزل ذی طویٰ میں معاویہ کے پاس موجود تھا جب سعد بن وقاص نے وارد ہوکر سلام کیا اور معاویہ نے قوم سے خطاب کرکے کہا کہ یہ سعد بن ابی وقاص ہیں جو علی (ع) کے دوستوں میں ہیں اور قوم نے یہ سن کر سر جھکالیا اور علی (ع) کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا ، سعد رونے لگے تو معاویہ نے پوچھا کہ آخر رونے کا سبب کیا ہے؟ سعد نے کہا کہ میں کیونکر نہ رؤوں ، رسول اکرم کے ایک صحابی کو گالیاں دی جارہی ہیں اور میری مجبوری ہے کہ میں روک بھی نہیں سکتاہوں !
جبکہ علی (ع) میں ایسے صفات تھے کہ اگر میرے پاس ایک بھی صفت ہوتی تو دنیا اور مافیہا سے بہتر سمجھتا!۔
یہ کہہ کر اوصاف علی (ع) کو شمار کرنا شروع کردیا … اور کہا کہ پانچویں صفت یہ ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے علی (ع) حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلاکر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ( امالی طوسی (ر) ص 598 / 1243)۔
36 ۔ سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ جب معاویہ نے انھیں امیر بنایا تو یہ سوال کیا کہ آخر تم ابوتراب کو گالیاں کیوں نہیں دیتے ہو؟ تو انھوں نے کہا کہ جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنھیں رسول اکرم نے فرمایاہے ۔ میں انھیں بر انہیں کہہ سکتاہوں اور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہوجاتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی … ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں۔ (سنن ترمذی 5 ص 638 / 3724 ، خصائص امیرالمؤمنین (ع) للنسائی 44 / 9 شواہد التنزیل 332 / 36 ، تفسیر عیاشی 1 ص 177 / 69)۔
12 ۔ صبیح مولیٰ ام سلمہ
37۔ ابراہیم بن عبدالرحمن بن صبیح مولی ٰ ام سلمہ نے اپنے جد صبیح سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اکرم کے دروازہ پر حاضر تھا جب علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) آئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، حضرت باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تم سب خیر پر ہو، اس کے بعد آپ نے اپنی خیبری چادر ان سب کو اوڑھا دی اور فرمایا کہ جو تم سے جنگ کرے میری اس سے جنگ ہے اور جو تم سے صلح کرے میری اس سے صلح ہے ( المعجم الاوسط 3 / 407 / 2854، اسد الغابہ 3 / 7 /2481)۔
13۔ عبداللہ بن جعفر
38۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے رحمت کو نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا میرے پاس بلاؤ میرے پاس بلاؤ … صفیہ نے کہا یا رسول اللہ کس کو بلانا ہے؟ فرمایا میرے اہلبیت (ع) علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن، حسین (ع)۔
چنانچہ سب کو بلاگیا اور آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھادی اور ہاتھ اٹھاکر فرمایا خدایا یہ میری آل ہے لہذا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس کے بعد آیت تطہیر نازل ہوگئی (مستدرک 3 ص 160 / 4709 ۔ شواہد التنزیل 2 ص 55 / 675 ، اس روایت میں صفیہ کے بجائے زینب کا ذکر ہے)۔
39۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر طیار نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ نے جبریل کو آسمان سے نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا کہ میرے پاس کون بلادے گا ، میرے پاس کون بلادے گا …؟ زینب (ع) نے کہا کہ میں حاضر ہوں کسے بلانا ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، فاطمہ (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) کو بلاؤ ۔!
پھر آپ نے حسن (ع) کو داہنی طرف ، حسین (ع) کو بائیں طرف اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھاکر سب پر ایک چادر ڈال دی اور فرمایا خدایا ہر نبی کے اہل ہوتے ہیں اور میرے اہل یہ افراد ہیں جس کے بعد آیت تطہیر نازل ہوگئی اور زینب (ع) نے گزارش کی کہ میں چادر میں داخل نہیں ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو انش تم خیر پر ہو ۔ (شواہد التنزیل 2 ص53 / 673 ، فرائد السمطین 2/ 18 / 362 ، العمدة 04 / 24 ، احقاق الحق 9 ص 52 )۔
14 ۔ عبدالبہ بن عباس
40۔ عمرو بن میمون کا بیان ہے کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا تھا کہ نو افراد کی جماعت وارد ہوگئی اور ان لوگوں نے کہا کہ یا آپ ہمارے ساتھ چلیں یا یہیں تنہائی کا انتظام کریں؟ ابن عباس نے کہا کہ میں ہی تم لوگوں کے ساتھ چل رہاہوں۔ اس زمانہ میں ان کی بینائی ٹھیک تھی اور نابینا نہیں ہوئے تھے، چنانچہ ساتھ گئے اور ان لوگوں نے آپس میں گفتگو شروع کردی، مجھے گفتگو کی تفصیل تو نہیں معلوم ہے، البتہ ابن عباس دامن جھاڑتے ہوئے اور اف اور تف کہتے ہوئے واپس آئے، افسوس یہ لوگ اس کے بارے میں برائیاں کررہے ہیں جس کے پاس دس ایسے فضائل ہیں جو کسی کو حاصل نہیں ہیں۔
یہ اس کے بارے میں کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں رسول اکرم نے فرمایا تھا کہ عنقریب اس شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا اور وہ خدا و رسول کا چاہنے والا ہوگا … یہاں تک کہ یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ حضور نے اپنی چادر علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) پر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی ۔( مستدرک 3 / 143 / 4652 ، مسند ابن حنبل 1 / 708 / 3062 ، خصائص نسائی 70 / 23 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) / 189 / 250 ۔
41 ۔ عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے حسن (ع) و حسین (ع) اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو بلاکر ان پر چادر ڈال دی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت اور اقرباء ہیں، ان سے رجس کو دو رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 1 ص 184 / 249 ، شواہد التنزیل 2 / 50 / 670 ، احقاق الحق 15 ص 628 ۔ 631)۔
42 ۔ سعید بن جبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ خدا یا اگر تیرے کسی بھی نبی کے ورثہ اور اہلبیت (ع) ہیں تو علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) میرے اہلبیت (ع) اور میرے سرمایہ ہیں لہذاان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا۔
43۔ سعید بن المسیب نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول اکرم تشریف فرماتھے اور آپ کے پاس علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے کہ آپ نے دعا فرمائی خدایا تجھے معلوم ہے کہ یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں لہذا ان کے دوست سے محبت کرنا اور ان کے دشمن سے دشمنی رکھنا ، جو ان سے موالات رکھے تو اس سے محبت کرنا جو ان سے دشمنی کرتے تو اس سے دشمنی کرنا ، ان کے مددگاروں کی مدد کرنا اور انھیں ہر رجس سے پاک رکھنا ، یہ گناہ سے محفوظ رہیں اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کرتے رہا۔
اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ بلندکیا اور فرمایا خدایا میں تجھے گواہ کرکے کہہ رہاہوں کہ میں ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں، ان سے صلح رکھنے والے کی مجھ سے صلح ہے اور ان سے جنگ کرنے والے سے میری جنگ ہے، میں ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان کے دوستوں کا دوست ہوں۔ (امالی صدوق (ر) 393 / 18 ، بشارة المصطفیٰ ص 177)۔
44 ۔ ابن عباس حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے عقد کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے دونوں کو سینہ سے لگاکر فرمایا کہ خدایا یہ دونوں مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں… خدایا جس طرح تو نے مجھ سے رجس کو دور رکھاہے اور مجھے پاکیزہ بنایاہے، اسی طرح انھیں بھی طیب و طاہر رکھنا ۔( معجم کبیر 24 ص 134 / 362 ۔22/ 412 / 1022 ، المصنف عبدالرزاق 5/ 489 / 9782)۔
15 ۔ عمر بن ابی سلمہ
45 ۔ عطاء بن ابی ریاح نے عمر بن ابی سلمہ (پروردہٴ رسالتمآب) سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر رسول اکرم پر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب آپ نے فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کیا اور سب پر ایک چادر اوڑھادی اور علی (ع) پس پشت بیٹھے تھے انھیں بھی چادر شامل کرلیا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
جس کے بعد ام سلمہ نے فرمایا کہ یا نبی اللہ کیا میں بھی انھیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری اپنی ایک جگہ ہے اور تمھارا انجام بخیر ہونے والا ہے(سنن ترمذی) 5/663 / 3787 اسدالغابہ 2/ 17 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 71 / 104 ، تفسیر طبری 22 /8 احقاق الحق 3 ص 528 2 ص 510)۔
16 ۔ عمر بن الخطاب
46 ۔ عیسی بن عبداللہ بن مالک نے عمر بن الخطاب سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اکرم کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو، یہ ایسا حوض ہے جس کی وسعت صنعاء سے بصریٰ کے برابر ہے اور اس میں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے ہوں گے اور جب تم لوگ وارد ہوگے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، یاد رکھو سبب اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور ایک تمھارے پاس ہے، اس سے وابستہ رہنا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا اور دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں، خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ۔
میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ آپ کی عترت کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے اہلبیت(ع) اولاد علی (ع) و فاطمہ (ع) ہیں، جن میں سے نو حسین (ع) کے صلب سے ہوں گے ، یہ سب ائمہ ابرار ہوں گے اور یہی میری عترت ہے جو میرا گوشت اور میرا خون ہے۔ (کفایة الاثر ص 91 ، تفسیر برہان ، 1/9 نقل از ابن بابویہ در کتاب النصوص علی الائمة)۔
17۔ واثلہ بن الاسقع
47۔ابو عمار نے واثلہ بن الاسقع سے نقل کیا ہے کہ میں علی (ع) کے پاس آیا اور انھیں نہ پاسکا تو فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہ رسول اکرم کے پاس انھیں مدعو کرنے گئے ہیں۔ اتنے میں دیکھا کہ حضور کے ساتھ آرہے ہیں، دونوں حضرات گھر میں داخل ہوئے اور میں بھی ساتھ میں داخل ہوگیا ، آپ نے حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے اپنے زانو پر بٹھایا اور فاطمہ (ع) اور ان کے شوہر کو اپنے سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت کرکے فرمایا کہ یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں، خدایا میرے اہلبیت (ع) زیادہ حقدار ہیں۔( مستدرک 3 / 159 / 4706 ۔ 451 / 3559)۔
48 ۔ شدادابوعمار ناقل ہیں کہ میں واثلہ بن الاسقع کے پاس وارد ہوا جبکہ ایک قوم وہاں موجود تھی، اچانک علی (ع) کا ذکر آگیا اور سب نے انھیں بُرابھلا کہا تو میں نے بھی کہہ دیا ، اس کے بعد جب تما م لوگ چلے گئے تو واثلہ نے پوچھا کہ تم نے کیوں گا لیاں دیں۔ میں نے کہا کہ سب دے رہے تھے تو میں نے بھی دیدیں۔ واثلہ نے کہا کیا میں تمھیں بتاؤں کہ میں نے رسول اکرم کے یہاں کیا منظر دیکھا ہے؟ میں نے اشتیاق ظاہر کیا … تو فرمایا کہ میں فاطمہ (ع) کے گھر علی (ع) کی تلاش میں گیا تو فرمایا کہ رسول اکرم کے پاس گئے ہیں، میں انتظار کرتارہا یہاں تک کہ حضور مع علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کے تشریف لائے اور آپ دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) و حسین (ع) کو زانو پر اور سب پر ایک چادر ڈال کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی اور دعاکی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور میرے اہلبیت زیادہ حقدار ۔ (فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 577 ، مسند احمد بن حنبل 6 / 45 ، المصنف ابن ابی شیبہ، العمدة 40 / 25 ، معجم کبیر 3 / 49 / 2670 ، 2669)۔
49 ۔ شداء بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے واثلہ بن الاسقع سے اس وقت سنا جب امام حسین (ع) کا سرلایا گیا اور انھوں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ خداکی قسم میں ہمیشہ علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) سے محبت کرتا رہوں گا کہ میں نے ام سلمہ کے مکان میں حضور سے بہت سی باتیں سنی ہیں، اس کے بعد اس کی تفصیل اس طرح بیان کی کہ میں ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا جب آپ ام سلمہ کے گھر میں تھے اتنے میں حسن (ع) آگئے آپ نے انھیں داہنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا ، پھر حسین (ع) آگئے اور انھیں بائیں زانو پر بٹھاکر بوسہ دیا ، پھر فاطمہ آگئیں انھیں سامنے بٹھایا اور پھر علی (ع) کو طلب کیا اور اس کے بعد سب پر ایک خیبری چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی … تو میں نے واثلہ سے پوچھا کہ یہ رجس کیا ہے ؟ فرمایا ۔ خدا کے بارے میں شک ۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 / 672 / 1149 ، اسدالغابہ 2 / 27 ، العمدة 34 / 15 )۔
50 ۔ ابوعمار الشداد واثلہ بن الاسقع سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) کو داہنے بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو بائیں، حسن (ع) و حسین (ع) کو سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر اوڑھاکر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں اور اہلبیت (ع) کی بازگشت تیری طرف ہے نہ کہ جہنم کی طرف ( مسند ابویعلی 6 / 479 / 7448 ، نثر الدرا/ 236 ، السنن الکبریٰ 2 /217 / 2870)۔
51۔ ابوالازہر واثلہ بن الاسقع سے نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو چادر کے نیچے جمع کرلیا تو دعا کی کہ خدایا تو نے اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو ابراہیم اور آل ابراہیم کے لئے قرار دیا ہے اور یہ سب مجھ سے ہیں ان سے ہوں لہذا اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو میرے اور ان کے لئے بھی قرار دیدے۔
(مناقب خوارزمی 63 / 32 ، کنز العمال 13 / 603 / 37544 ، 12 / 101 /34186)
اہلبیت (ع) اور مفہوم لفظ اہلبیت (ع)
52 ۔ موسیٰ بن عبدر بہ کا بیان ہے کہ میں نے امیر المومنین (ع) کی زندگی میں امام حسین (ع) کو مسجد پیغمبر میں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) تم لوگوں کے لئے باعث امان ہیں لہذا ان سے میری وجہ سے محبت کرو او ران سے متمسک ہوجاؤ تا کہ گمرا ہ نہ ہوسکو۔
پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ کے اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا کہ علی (ع) اور میرے دونوں نواسے اور نو اولاد حسین (ع) جو ائمہ معصوم اور امانتدار مذہب ہوں گے ، آگاہ ہوجاؤ کہ یہی میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت ہیں جن کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے ۔ (کفایہ الاثر ص 171)۔
53۔ امام صادق (ع) نے اپنے آباء کرام کے واسطہ سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جاتاہوں ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت جو میرے اہلبیت (ع) ہیں، یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں اور اس حقیقت کو دو انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر واضح کیا ، جس کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری نے اٹھ کر دریافت کیا کہ حضور آپ کی عترت کو ن ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، حسین (ع) ، حسین (ع) اور قیامت تک اولاد حسین (ع) کے امام ( کمال الدین ص 244 معانی الاخبار 5 / 91)۔
54 ۔ امام صادق (ع) سے ان کے آباء کرام کے واسطہ سے نقل کیا گیاہے کہ امیر المؤمنین (ع) سے رسول اکرم کے اس ارشاد گرامی کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتاہوں ایک کتاب خدا اور ایک عتر ت… تو عترت سے مراد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، نو اولاد حسین (ع) کے امام جن کا نواں مہدی اور قائم ہوگا، یہ سب کتاب خدا سے جدا نہ ہوں گے اور نہ کتاب خدا ان سے جدا ہوگی یہاں تک کہ رسول اکرم کے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں۔( کمال الدین 240 / 64 ، معانی الاخبار 90 /4 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 57 / 25 ۔
55 ۔ امیر المؤمنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم آرام فرمارہے تھے اور آپ نے اپنے پہلو میں مجھے اور میری زوجہ فاطمہ (ع) اور میرے فرزند حسن (ع) و حسین (ع) کو بھی جگہ دیدی اور سب پر ایک عبا اوڑھادی تو پروردگار نے آیت تطہیر نازل فرمادی اور جبریل نے گذارش کی کہ میں بھی آپ ہی حضرات سے ہوں جس کے بعد وہ چھٹے ہوگئے۔( خصال صدوق (ر) بروایت مکحول)۔
56 ۔ امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ رسول اکرم نے مجھے اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو ام سلمہ کے گھر میں جمع کیا اور سب کو ایک چادر میں داخل کرلیا اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے گذارش کی کہ میں بھی شامل ہوجاؤں؟ تو فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں سے ہو اور خیر پر ہو اور اس بات کی تین مرتبہ تکرار فرمائی ( شواہد التنزیل 2 / 52 )۔
57 ۔ امیر المؤمنین (ع) ہی کا ارشاد ہے کہ میں رسول اکرم کے پاسس ام سلمہ کے گھر میں وارد ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ یا علی (ع) یہ آیت تمھارے، میرے دونوں فرزند اور تمھاری اولاد کے ائمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(کفایة الاثر ص 156 از عیسی بن موسیٰ الہاشمی …)۔
58۔ امام حسن (ع) کا بیان ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اکرم نے ہم سب کو جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے نیچے جمع فرمایا اور دعا کی کہ خدایا یہ سب میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔( مناقب ابن مغازلی ص 372 ، امالی طوسی (ر) 559 / 1173 ، مجمع البیان 8/ 560 بروایت زاذان)۔
59 ۔ امام صادق (ع) نے اپنے پدر بزرگوار اور جد امجد کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے آیت تطہیر کی شان نزول اس طرح نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے مجھے، میرے بھائی ، والدہ اور والد کو جمع کیا اور جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے اندر لے لیا اور یہ دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں، یہ میری عترت اور میرے اہل ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد جناب ام سلمہ نے گزارش کی کہ کیا میں بھی داخل ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا خدا تم پر رحمت نازل کرے، تم خیر پر ہو اور تمہارا انجام بخیر ہے لیکن یہ شرف صرف میرے ا ور ان افراد کے لئے ہے۔
یہ واقعہ ام سلمہ کے گھرمیں پیش آیا جس دن حضور ان کے گھر میں تھے۔ ( امالی طوسی (ر) 564 / 2274 بروایت عبدالرحمان بن کثیر ، ینابیع المودہ 3 / 368)۔
60 ۔ امام حسن (ع) نے اپنے اکی خطبہ میں ارشاد فرمایا ، عراق و الو ! ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو۔ ہم تمھارے اسیر اور مہمان ہیں ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں آیہٴ تطہیر نازل ہوئی ہے… اور اس کے بعد اسقدر تفصیل سے خطبہ ارشاد فرمایا کہ ساری مسجد میں ہر شخص گریہ و زاری میں مشغول ہوگیا ۔ معجم کبیر 3 ص 96 / 2761 ، مناقب ابن مغازلی 382 / 431 ، تاریخ دمشق حالات اما م حسن (ع) 180 / 304 بروایت ابی جمیلہ)۔
61 ۔ امام حسین (ع) نے مروان بن الحکم سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ دو ر ہوجا۔ تو رجس ہے اور ہم اہلبیت (ع) مرکز طہارت ہیں، اللہ نے ہمارے بارے میں آیت تطہیر نازل کی ہے ۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 185 ، الفتوح 5 ص 17)۔
62 ۔ ابوالدیلم کا بیان ہے کہ اما م زین العابدین (ع)نے ایک مرد شامی سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ کیا تو نے سورہٴ احزاب میں آیہٴ تطہیر نہیں پڑھی ہے تو اس نے کہا کہ کیا آپ وہی ہیں ؟ فرمایا بیشک ( تفسیر طبری 22 / 8)۔
63 ۔ ابونعیم نے ایک جماعت کے حوالہ سے نقل کیا ہے جو کربلا کے اسیروں کے ساتھ تھی کہ جب ہم دمشق پہنچے اور عورتوں اور قیدیوں کو بے نقاب داخل کیا گیا تو اہل شام نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے اتنے حسین قیدی نہیں دیکھے ہیں، تم لوگ کہاں کے رہنے والے ہو تو سکینہ (ع) بنت الحسین (ع) نے فرمایا ہم آل محمد کے قیدی ہیں، جس کے بعد سب کو مسجد کے زینہ پر کھڑا کردیا گیا اور انھیں کے درمیان حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) بھی تھے، آپ کے پاس ایک بوڑھا آدمی آیا اور کہنے لگا ، خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے گھر والوں کو قتل کردیا اور فتنہ کی سینگ کاٹ دی ، اور پھر یونہی بُرا بھلا کہتا رہا ، یہاں تک کہ جب خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا تو نے کتاب خدا پڑھی ہے؟ اس نے کہا بے شک پڑھی ہے ! فرمایا کیا آیت مودت پڑھی ہے ؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی قرابتدار ان پیغمبر ہیں ۔
فرمایا ۔ کیا آیت ” آت ذا القربیٰ حقہ “ پڑھی ہے؟ کہا بیشک ! ۔ فرمایا ہم وہی اقربا ہیں۔
فرمایا کیا آیت تطہیر پڑھی ہے؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی اہلبیت (ع) ہیں۔
یہ سن کر شامی نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا اور کہا خدایا میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور دشمنان آل محمد سے بیزاری کا اظہار کرتاہوں اور ان کے قاتلوں سے برائت کرتاہوں، میں نے قرآن ضرور پڑھا تھا لیکن سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ حضرات وہی ہیں ۔(امالی صدوق (ر) 141 ، الاحتجاج 2 / 120 ، ملہوف 176 ، مقتل خوارزمی 2 ص 61)۔
64 ۔ امام محمد باقر (ع) نے آیت تطہیر کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ آیت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کا نزول ام سلمہ کے گھر میں ہوا ہے جب حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ایک خیبری رداکے اندر لے لیا اور خود بھی اس میں داخل ہوکر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں تو نے وعدہ کیا ہے لہذا اب ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر فائز رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے درخواست کی کہ مجھے بھی شامل فرمالیں؟ تو آپ نے فرمایا تمھارے لئے یہ بشارت ہے کہ تمھارا انجام خیر ہے۔
اور ابوالجارود نے جناب زین بن علی (ع) بن الحسین (ع) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بعض جہلاء کا خیال ہے کہ یہ آیت ازواج کے بارے میں ہوئی ہے حالانکہ یہ جھوٹ اور افترا ہے، اگر مقصود پروردگار ازواج ہوتیں تو آیت کے الفاظ ” عنکن“ ، ” یطہرکن“ ہوتے اور کلام مونث کے انداز میں ہوتا جس طرح کہ دیگر الفاظ ایسے ہیں ” واذکرون “ ، ” بیوتکن“ ، ”تبرجن“ ، ” لستن“ …! (تفسیر قمی 2 ص 193 )۔
65 ۔ اما م جعفر صادق (ع) نے ایک طویل حدیث میں آیہ تطہیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع)تھے جنھیں رسول اکرم نے ام سلمہ کے گھر میں ایک چادر میں جمع کیا اور فرمایا کہ خدا یا ہر نبی کے اہل اور ثقل ہوتے ہیں اور میرے اہلبیت (ع) اور میرا سرمایہ یہی افراد ہیں، جس کے بعد ام سلمہ نے سوال کیا کہ کیا میں آ پ کے اہل میں نہیں ہوں؟تو آپ نے فرمایا کہ بس یہی میرے اہل اور میرا سرمایہ ہیں۔( کافی 1 / 287 از ابوبصیر)
66 ۔ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ آل محمد کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ذریت رسول !
میں نے پوچھا کہ پھر اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا ائمہ اوصیاء۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ عترت کون ہیں ؟ فرمایا اصحاب کساء پھر عرض کی کہ امت کون ہے ؟ فرمایا وہ مومن جنھوں نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی ہے اور ثقلین سے تمسک کیا ہے یعنی کتاب خدا اور عترت و اہلبیت (ع) سے وابستہ رہے ہیں جن سے پروردگار نے رجس کو دور رکھا ہے اور انھیں پاک و پاکیزہ بنایاہے، یہی دونوں پیغمبر کے بعد امت میں آپ کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔( امالی صدوق (ر) 200 / 10 ، روضہ الواعظین ص 294)۔
67۔ عبدالرحمان بن کثیر کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) سے دریافت کیا کہ آیت تطہیر سے مراد کون حضرات ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت رسول اکرم حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حضرت حسن (ع) و حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اکرم کے بعد حضرت علی (ع) ، ان کے بعد امام حسن (ع) اس کے بعد امام حسین (ع) ۔ اس کے بعد تاویلی اعتبارسے تمام ائمہ جن میں سے امام زین العابدین (ع) بھی امام تھے اور پھر ان کی اولاد میں اوصیاء کا سلسلہ رہا جن کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت خدا کی نافرمانی ہے۔( علل الشرائع 2 ص 205 ، الاماصة و التبصرة 177 / 29)۔
68 ۔ ریان بن الصلت کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) مرو میں مامون کے دربار میں تشریف لائے تو وہاں خراسان اور عراق والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
یہاں تک کہ مامون نے دریافت کیا کہ عترت طاہرہ سے مراد کون افراد ہیں؟
امام رضا (ع) نے فرمایا کہ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے، اور رسول اکرم نے فرمایا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ وارد ہوجائیں ۔ دیکھو خبردار اس کا خیال رکھنا کہ میرے اہل کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو اور انھیں پڑھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے زیادہ عالم اور فاضل ہیں۔ درباری علماء نے سوال اٹھادیا کہ ذرا یہ فرمائیں کہ یہ عترت آل رسول ہے یا غیر آل رسول ہے؟ فرمایا یہ آل رسول ہی ہے لوگوں نے کہا کہ رسول اکرم سے تو یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ میری امت ہی میری آل ہے اور صحابہ کرام بھی یہی فرماتے رہے ہیں کہ آل محمد امت پیغمبر کا نام ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا ذرا یہ بتاؤ آل رسول پر صدقہ حرام ہے یا نہیں ؟ سب نے کہا بیشک !
فرمایا پھر کیا امت پر بھی صدقہ حرام ہے ؟ عرض کی نہیں۔
فرمایا یہی دلیل ہے کہ امت اور ہے اور آل رسول اور ہے۔
(امالی صدوق (ر) 1 ص 422 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 229)۔
اہلبیت (ع) پر پیغمبر اکرم کا سلام اور ان کے لئے مخصوص حکم نماز
69 ۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اسلام کا بیان ہے کہ حضور طلوع فجر کے وقت خانہٴ علی (ع) و فاطمہ (ع) کے پاس سے گذرتے تھے اور فرماتے تھے۔
”السلام علیکم اہل البیت“الصلوة الصلوة اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے ہیں۔( اسد الغابہ 6/74/27 58)
اسی کتاب کے صفحہ 66 پر اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں نے مدینہ میں قیام کے دوران چھ ماہ تک یہ منظر دیکھاہے۔
70۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اکرم کا بیان ہے کہ حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ زہر ا پر آکر فرماتے تھے” السلام علیکم یا اہل البیت (ع) و رحمة اللہ و برکاتہ“ اور وہ حضرات اندر سے جوواب دیتے تھے” وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ“ اس کے بعد آپ فرماتے تھے الصلوة رحمکم اللہ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔
راوی کہتاہے کہ میں نے ابوالحمراء سے پوچھا کہ اس گھر میں کون کون تھا تو بتایا کہ علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) ۔ حسن (ع) ۔ حسین (ع)۔(شواہد التنزیل 2/74 / 694)۔
71 ۔ امام علی (ع) کا بیان ہے کہ رسول اکرم ہر صبح ہمارے دروازہ پر آکر فرماتے تھے ” نماز ۔ خدا رحمت نازل کرے۔ نماز اور اس کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( امالی مفید (ر) 4/318 ، امالی طوسی (ر) 89 / 138 بشارة المصطفیٰ ص 264 بروایت حارث )۔
72۔ امام صادق (ع) نے اپنے والد اور جد بزرگوار کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے معاویہ سے صلح کے موقع پر حالات سے بحث کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ رسول اکرم آیہٴ تطہیر کے نزول کے بعد تمام زندگی نماز صبح کے وقت ہمارے دروازہ پر آکر فرمایا کرتے تھے ” نماز ۔ خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔ انما یرید اللہ … ( امالی طوسی (ر)565 / 1174 از عبدالرحمٰن بن کثیر ۔ ینابیع المودة 3 ص 386)۔
ینابیع المودة میں یہ تذکرہ بھی ہے کہ یہ کام آیت ” و امرا ھلک بالصلوة“ کے نزول کے بعد ہوا کرتا تھا۔
73 ۔ امام صادق (ع)نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ہر صبح کے وقت درواز ہ علی (ع) و فاطمہ (ع) پر کھڑے ہوکر فرماتے تھے کہ ” تمام تعریفیں احسان کرنے والے ۔ کرم کرنے والے ۔ نعمتیں نازل کرنے والے اور فضل و افضال کرنے والے پروردگار کے لئے ہیں جس کی نعمتوں ہی سے نیکیاں درجہٴ کمال تک پہنچتی ہیں۔ وہ ہر ایک کی آواز سننے والا ہے اور سارا کام اس کی نعمتوں سے انجام پاتاہے، اس کے احسانات ہمارے پاس بہت ہیں، ہم جہنم سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور صبح و شام یہی پناہ چاہتے ہیں، نماز اے اہلبیت (ع) خدا تم سے ہر رجس کو دور رکھنا چاہتاہے اور تمھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا چاہتاہے ۔ (امالی صدوق 124 / 14 از اسماعیل بن ابی زیاد السکونی)۔
74۔ تفسیر علی بن ابراہیم میں آیت کریمہ ” و امر اھلک بالصلوة“ کے بار ے میں نقل کیا گیا ہے کہ پروردگار نے خصوصیت کے ساتھ اپنے اہل کو نماز کا حکم دینے کے لئے فرمایاہے تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آل محمد کی ایک مخصوص حیثیت ہے جو دوسرے افراد کو حاصل نہیں ہے۔
اس کے بعد جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) پر آکر فرماتے تھے” السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ“ اور اندر سے جواب آتا تھا ” و علیک السلام یا رسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتہ۔
اس کے بعد آپ دروازہ کا باز و تھام کر فرمایا کرتے تھے” الصلوة الصلوة یرحمکم اللہ “ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور یہ کام مدینہ کی زندگی میں تاحیات انجام دیتے رہے۔ اور ابوالحمراء خادم پیغمبر کا بیان ہے کہ میں اس عمل کا مستقل شاہد ہوں ۔( تفسیر طبری 22/ص7، درمنثور 6 ص 403 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 60 ، مختصر تاریخ دمشق 7/ 119 ، کنز العمال 13 ص 645 ، شواہد التنزیل 2 ص 18 ، ینابیع المودة 1 ص 229 ، مناقب خوارزمی 60 فصل پنجم، تفسیر فرات کوفی ص 331 ، کشف الغمہ 1 ص 40 فصل تفسیر آل و اہل ، احقاق الحق 2 ص 501 ، 562 ، 3 ص 513 ، 531 ص 1 / 69، 14 ص 40 ، 105 ، 18 ص 359 ، 382 ، بحار الانوار 35 ص 206)۔
تحقیق احادیث سلام پیغمبر اسلام
کھلی ہوئی بات ہے کہ اس واقعہ کو اکا بر محدثین نے مختلف شخصیات کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور اس طرح یہ واقعہ تاریخی مسلمات میں شامل ہے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جن شخصیات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان میں خود اہلبیت علیہم السلام شامل ہیں ( امالی صدوق (ر) 1 ص 429 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 240 ، ینابیع المودة 2 ص 59 ، مقتل خوارزمی 1 ص 67 ، تفسیر فرات کوفی ص 339۔
صحابہ کرام میں ابوسعید خدری ہیں۔(درمنثور 6 ص 606 ، المعجمع الکبیر 3 ص 56 / 2671 ، 2674 ، مناقب خوارزمی 60 ص 280 ، شواہد التنزیل 2 ص 46 ، مجمع البیان 7 ص 59)۔
انس بن مالک ہیں اور عبداللہ بن عباس ہیں ۔( درمنثور 6 ص 606 ، احقاق الحق 9 ص 56)۔
اس کے بعد یہ مسئلہ کہ یہ واقعہ کتنی مرتبہ پیش آیاہے۔؟ اس سلسلہ میں تین طرح کی روایات ہیں۔
قسم اول! وہ روایات جن میں روزانہ سرکار دو عالم کا یہ طرز عمل نقل کیا گیا ہے کہ جب نماز صبح کے لئے مسجد کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر کھڑی ہوکر سلام کرکے ، آیت تطہیر کی تلاوت فرماکر انھیں قیام نماز کی دعوت دیا کرتے تھے۔
قسم دوم ! وہ روایات ہیں جن میں راوی نے متعدد بار اس عمل کے مشاہدہ کا ذکر کیا ہے ۔( در منثور 6 ص 606 ، تفسیر طبری 22 / 6 ، تاریخ کبیر 8 ص 725 امالی طوسی 251 ، 447 ، شواہد التنزیل 2 ص 81 / 700۔
قسم سوم ! وہ روایات ہیں جن میں روزانہ کے معمول کا ذکر نہیں ہے بلکہ معینہ ایام کا ذکر ہے اور یہ بات قسم اول سے مختلف ہے، معینہ ایام کے بارے میں بھی بعض روایات میں 40 دن کا ذکر ہے۔( در منثور 6 ص 606 ، مناقب خوارزمی ص 60 / 28 ، مالی صدوق (ر) 1 ص 429 )۔
بعض روایات میں ایک ماہ کا ذکر ہے۔( اسدالغابہ 5 ص 381 / 5390 مسند ابوداؤد طیالسی ص 274)۔
بعض روایات میں چھ ما ہ کا ذکر ہے۔( تفسیر طبری 22 ص6، درمنثور 6 ص 606 ینابیع المودة 2 ص119 ، ذخائر العقبيٰ ص 24 ، العمدہ ص 45 ۔
بعض روایات میں آٹھ ماہ کا ذکر ہے۔( درمنثور 6 ص 606 کفایة الطالب ص 377)۔
بعض روایات میں 9 ماہ کا ذکر ہے۔( مناقب خوارزمی 60 / 29 مشکل الآثار 1 ص 337 ، العمدة 41 /27 ، ذخائر العقبيٰ ص25 ، کفایة الطالب ص 376۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ پہلی اور دوسری قسم میں کسی طرح کا تضاد نہیں ہے اور انھیں دونوں قسموں سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ قسم سوم کی تمام روایات اگر اپنی اصلی حالت پر باقی ہیں اور ان میں کسی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے تو ان کا مقصد بھی افراد کے مشاہدہ کا تذکرہ ہے۔اعداد کا محدود کردینا نہیں ہے جو بات عقل و منطق کے مطابق ہے کہ ہر شخص کا مشاہدہ الگ الگ ہوسکتاہے۔
جس کا مقصد یہ ہے کہ رسول اکرم لفظ اہل البیت (ع) اور لفظ اہل کی وضاحت کے لئے ایک مدت تک روزانہ نماز صبح کے وقت در علی (ع) وفاطمہ (ع) پر آکر انھیں اہل البیت (ع) کہہ کر سلام کیا کرتے تھے اور آیت تطہیر کی تلاوت کرکے نماز کی دعوت دیا کرتے تھے اور دنوں کا اختلاف صرف رایوں کے مشاہدہ کا فرق ہے، اس سے اصل عدد کے انحصار کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
البتہ بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس عمل کا آیت تطہیر سے نہیں بلکہ آیت ” و امرا ھلک بالصلوة“ سے تعلق تھا جیسا کہ ابوسعید خدری سے نقل کیا گیا ہے کہ حضور آیت نماز کے نزول کے بعد آٹھ ماہ تک در فاطمہ (ع) پر آکر فرمایا کرتے تھے” الصلٰوة رحمکم اللہ اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔( در منثورہ ص 613 ، اخراج ابن مردویہ ، ابن عساکر، ابن النجار)۔
جس کے بارے میں علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے کہ اس روایات سے ظاہر ہوتاہے کہ آیت ” و امر اھلک بالصلٰوة “ مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، حالانکہ یہ کہنے والا کوئی نہیں ہے لہذا واقعہ کا تعلق آیت تطہیر سے ہے آیت نماز سے نہیں ہے… مگر یہ کہ اس واقعہ کی اس طرح تاویل کی جائے کہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی لیکن حضور نے عمل مدینہ میں کیا ہے جو بات الفاظ روایات سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ (تفسیر المیزان 14 ص 242)۔
عدد ائمہ اہلبیت (ع)
75 ۔ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم سے جمعہ کے دن ” رجم ِاسلمی کی شام“ یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دین یونہی قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا تم پر میرے بارہ خلفاء قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا تم پر میرے بارہ خلفا ء نہ گذر جائیں جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔( صحیح مسلم 3 / 1453 ، مسند ابن حنبل 7/ 410 / 20869 ، مسند ابویعلی ٰ 6 / 473 / 7429 ۔ آخر الذکر دونوں روایات میں ” یا“ کے بجائے ” اور “ کا ذکر کیا گیا ہے۔
76۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو یہ کہتے سناہے کہ امت کے بارہ امیر ہوں گے، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں سن نہیں سکا تو میرے والد نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہ تھا کہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (صحیح بخاری 6 /2640 / 6796)۔
77۔جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سناہے کہ یہ امر دین یونہی چلتا رہے گا جب تک بارہ افراد کی حکومت رہے گی اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نے سن سکا تو والد سے دریافت کیا اور انھوں نے بتایا کہ ” کلھم من قریش“ فرمایا تھا۔ ( صحیح مسلم 3 ص 1452 خصال 473 / 27)۔
78۔ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ امیر ہوں گے، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا اور قریب والے سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ” کلھم من قریش“ کہا تھا۔( سنن ترمذی 4 ص501 /2223 ، مسند ابن حنبل 7/ 430 / 20995)۔
79۔جابر بن سمرہ ! میں نے رسول اکرم کی زبان سے سنا کہ اسلام بارہ خلفاء تک باعزّت رہے گا، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا تو والد سے دریافت کیا اور انھوں نے فرمایا کہ ” کلھم من قریش“ فرمایا تھا۔( صحیح مسلم 3 ص 1453 ، مسند ابن حنبل 7/ 412 / 20882، سنن ابی داؤد 4 / 106 / 4280 )۔
80۔ ابوجحیفہ کا بیان ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں تھا جب آپ نے فرمایا کہ میرے امت کے امور درست رہیں گے یہاں تک کہ بارہ خلیفہ گذر جائیں، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سن سکا تو میں نے چچا سے دریافت کیا جو میرے سامنے کھڑے تھے تو انھوں نے بتایا کہ کلھم من قریش فرما یا تھا۔( مستدرک 716 / 6589 ، المعجم الکبیر 22 / 120 / 308 ، تاریخ کبیر 8/ 411 / 5320 ، امالی صدوق(ر) 255 /8)۔
81 ۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آگاہ ہوجاؤ یہ امر دین تمام نہ ہوگا جب تک بارہ خلیفہ نہ گذر جائیں، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں سمجھ نہ سکا تو اپنے والد سے دریافت کیا اور انھوں نے بتایا کہ آپ نے کلھم من قریش فرمایا تھا( تاریخ واسط ص 98 ، خصال ص 1670)۔
82 ۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اکرم کے پاس تھا جب آپ سے یہ ارشاد سنا کہ میرے بارہ خلیفہ ہوں گے ، اس کے بعد آپ کی آواز دھیمی ہوگئی اور میں نہ سن سکا تو بابا سے دریافت کیا کہ یہ دھیرے سے کیا فرمایا تھا تو انھوں نے بتایا کہ ” کلھم من بني ھاشم“ فرمایا تھا۔( ینابیع المودة 3 ص 290 ، احقاق الحق 13 ص 30)۔
83 ۔ مسروق کا بیان ہے کہ یہ سب عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے اور وہ قرآن پڑھا رہے تھا کہ ایک شخص نے دریافت کرلیا ” یا ابا عبدالرحمٰان ! کیا آپ نے کبھی حضور سے دریافت کیا ہے کہ اس ا مت میں کتنے خلفاء حکومت کریں گے ! تو ابن مسعود نے کہا کہ جب سے میں عراق سے آیاہوں آج تک کسی نے یہ سوال نہیں کیا لیکن تم نے پوچھ لیا ہے تو سنو ! میں نے حضور سے دریافت کیا تھا تو انھوں نے فرمایا تھا بارہ ۔ جتنے بني اسرائیل کے نقیب تھے۔( مسند ابن حنبل 2 ص 55 / 3781 ، مستدرک 4 ص 546 / 8529)۔
84 ۔ابوسعید نے امام (ع) باقر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ میری اولاد میں بارہ نقیب پیدا ہوں گے جو سب کے سب طیّب و طاہر اور خدا کی طرف سے صاحبان فہم او ر محدّث ہوں گے، ان کا آخری حق کے ساتھ قیام کرنے والا ہوگا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔( کافی 1 ص 534/18)۔
85 ۔ ابن عباس نے ” والسماء ذات البروج“ کی تفسیر میں رسول اکرم سے نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ سماء میری ذات ہے اور بروج میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت کے ائمہ ہیں جن کے اول علی (ع) ہیں اور آخر مہدی ہوں گے اور کل کے کل 12 ہوں گے ۔(ینابیع المودة 3 ص 254)۔
86۔ امام باقر (ع) نے اپنے والد کے والد کے حوالہ سے امام حسین (ع) سے نقل کیا ہے کہ میں اپنے برادر امام حسن (ع) کے ساتھ جد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہم دونوں کو زانو پر بٹھالیا اور بوسہ دے کر فرمایا کہ میرے ماں باپ قربان ہوجائیں تم جیسے صالح اماموں پر خدا نے تمھیں میری اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کی نسل میں منتخب قرار دیا ہے اور اے حسین (ع) تمھارے صلب سے نواماموں کا انتخاب کیا ہے جن میں کانواں قائم ہوگا اور سب کے سب فضل و منزلت میں پیش پروردگار ایک جیسے ہوں گے ۔ (کمال ادین 269 / 12 از ابوحمزہ ثمالی )۔
87 ۔ امام (ع) باقر ہی سے نقل کیا گیا ہے کہ آل محمد کے بارہ امام سب کے سب وہ ہوں گے جن سے ملائکہ باتیں کریں گے اور سب اولاد رسول اور اولاد علی (ع) میں ہوں گے، والدین سے مراد رسول اکرم اور حضرت علی (ع) ہی ہیں۔
( کافی 1 ص 525 ، من لا یحضرہ الفقیہ 4/179 /5406 ، خصال ص 466، عیون اخبار الرضا ص 40 امالی صدوق (ر) 97 ، کمال الدین ص 206 ، ارشاد 2 ص 345 ، کفایة الاثر 69 از انس بن مالک ص 143 ، از امام علی (ع) ص 187 از عائشہ ص 193 از جناب فاطمہ (ع) ص 180 از ام سلمہ ص 244 از اامام باقر (ع) ، اعلام الوریٰ ص 361 ، الغیبة طوسی (ر) ص 92 ، احتجاج طبرسی (ر) 1 ص 169 کامل الزیارات ص 52 ، روضة الواعظین ص 115 ، کتاب سلیم بن قیس الہلالی 2 ص 616 ، الیقین ابن طاؤس ص 244 ، فرائد السمطین 2 ص329 ، بشارة المصطفیٰ ص 192 ، اختصاص ص 233 ، جامع الاخبار ص 61 ، احقاق الحق 2 ص 353 4 ص 103794 ۔ 356 ، 5 ص 493 7 ص 477 ، 13 ص 1 ۔74، 19 ص 628 ، 20 ص 538 ۔
تحقیق احادیث عدد ائمہ (ع)
ان احادیث کا مضمون 75 ء سے 83 ء تک اہل سنت کے مصادر سے نقل کیا گیاہے اور انھیں احادیث کا تذکرہ شیعہ مصادر میں بھی پایا جاتاہے۔ شیخ صدوق (ر) نے خصال میں اس مضمون کی 32 ، احادیث کا تذکرہ کیاہے جس طرح کہ مسند احمد بن حنبل میں جابر بن سمرہ سے تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں اور اس طرح اصل مضمون متفق علیہ ہے اور تفصیلات کا اختلاف غالباً سیاسی مقاصد کے تحت پیدا کیا گیاہے۔
# جہاں بعض روایات میں لفظ بعدی حذف کردیا گیاہے۔
# بعض میں لفظ کو امیر سے بدل دیا گیاہے۔
# بعض میں خلیفہ کے بجائے قیّم یا ملک کہا گیاہے۔(معجم کبیر 2 ص 196 / 1794 ،) خصال ص 471 /19۔
# بعض میں قیامت تک اسلام کے مسائل کو بارہ خلفاء سے مربوط کیا گیا ہے اور بعض میں قیامت کا ذکر نکال دیا گیاہے۔
# بعض میں مصالح امت کو خلفاء کی ولایت سے مربوط کیا گیاہے اور بعض میں اس نکتہ کو نظر انداز کردیا گیاہے۔
# بعض روایات میں اسلامی سماج کے جملہ معاملات کو ان حضرات کی ولایت سے متعلق کیا گیاہے اور بعض میں اس کے بیان سے پہلو تہی کی گئی ہے۔
# اور اسطرح مختلف سیاسی حالات نے مختلف طرح کی ترمیم کرادی ہے لیکن مجموعی طورپر دو باتوں پر اتفاق پایا جاتاہے۔
1۔ سرکار دو عالم (ع) نے ان افراد کی تعیین کردی ہے جو ایک طویل مدت تک اسلامی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں۔
2۔ جن ائمہ کی قیادت کو سرکار دو عالم کی تائید حاصل ہے۔ ان کی تعداد بارہ ہے، نہ کم ہے اور نہ زیادہ۔
اور اس طرح روایات شیعہ کو دیکھنے کے بعد یہ حقیقت اور واضح تر ہوجاتی ہے کہ ان حضرات نے ائمہ کے اسماء گرامی اور ان کے جملہ صفات و کمالات کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کی وضاحت کا ایک تذکرہ ص 84 سے 87 تک ہوچکاہے اور ایک تذکرہ آئندہ فصل میں کیا جائے گا۔
اس کے بعد اس نکتہ کا اضافہ بھی کیا جاسکتاہے کہ سرکار دو عالم (ع) نے یہ بات حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی ہے۔(مسند ابن حنبل 7 ص 405 / 20840)۔
اور میدان عرفات یا منیٰ میں فرمائی ہے یا دونوں جگہ تکرار فرمائی ہے۔(مسند ابن حنبل 7 ص 429 / 20991)۔
اور یہی وہ مواقع ہیں جہاں حدیث ثقلین کا بھی تذکرہ فرمایاہے جو اس بات کی علامت ہے کہ قریش سے مراد یہی ائمہ اہلبیت (ع) ہیں جیسا کہ امیر المؤمنین (ع) نے اپنے خطبہ ص 144 میں فرمایاہے کہ ائمہ قریش بني ہاشم ہی میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ یہ منصب کسی کے لئے نہیں ہے اور نہ کسی قبیلہ میں ایسے صالح حکام پیدا ہوسکتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ روایات میں ان خلفاء کے اوصاف و کمالات کے تذکرہ کا نظر انداز کردینا صرف سیاسی مصالح کی بنیاد پر تھا جس کی وضاحت اس نکتہ سے بھی ہوسکتی ہے کہ بارہ خلفاء ائمہٴ اہلبیت (ع) کے علاوہ اور کسی مقام پر پیدا نہیں ہوئے ہیں اور اگر اس نکتہ کو بحدّ تواتر نقل ہونے والی حدیث ثقلین سے جوڑ دیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے اور مزید ثابت ہوجاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے مستقبل کی قیادت کے جملہ علامات اور نشانات کا تذکرہ کردیا تھا اور کسی طرح بھی مسئلہ کو مشتبہہ نہیں رہنے دیا تھا۔
اور بعض علماء محققین نے اس حقیقت کو اس طرح بھی واضح کیا ہے کہ ائمہ قریش سے مراد ” خلفاء راشدین “ کو لیا جائے تو ان کی تعداد بارہ سے کم ہے اور ان میں خلفاء بني امیہ کو جوڑ لیا جائے تو یہ عدد بارہ سے کہیں زیادہ ہوجاتاہے اور ان میں خلافت کی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ سب ظالم اور نالائق تھے اور ایسا انسان خلیفہٴ رسول نہیں ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ ان کا شمار بني ہاشم میں نہیں ہوتاہے اور بعض روایات میں بني ہاشم کی تصریح موجود ہے۔
یہی حال اس وقت ہوگا جب ان خلفاء سے مراد خلفاء بني عباس کو لے لیا جائے کہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ ہے اور ان کے کردار میں بھی ظلم و ستم کی کوئی کم نہیں ہے اور انھوں نے یہ آیت مودت کی کوئی پرواہ کی ہے اور نہ حدیث کساء کی ۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ خلفاء قریش سے مراد صرف ائمہ اہلبیت (ع) ہیں جو اپنے زمانہ میں سب سے اعلم، افضل، اکمل، اورع، اتقی، اکمل و اجمل تھے، نہ نسب میں کوئی ان کا جیسا بلند اور نہ حسب میں کوئی ان سے افضل و برتر، یہ خدا کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقرب اور رسول اکرم سے سب سے زیادہ قریب تر تھے۔
اس حقیقت کی تائید حدیث ثقلین اور دیگر احادیث صحیحہ سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ملاصدرا علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ خلفاء قریش کی روایات برادران اہلسنّت کے صحاح اور اصول میں موجود ہے اور ان کی سندیں بھی مذکور ہیں اور ان کے علاوہ و ہ صحاح و مسانید کی روایات بھی ہیں جن میں اس حقیقت کا ذکر کیا گیاہے کہ میرے بعد ائمہ میری عترت سے ہوں گے۔
ان کی تعداد نقباء بني اسرائیل کے برابر ہوگی اور نوحسین (ع) کے صلب سے ہوں گے، جنھیں پروردگار نے میرے علم و فہم کا وارث بنایاہے اور ان کا نواں مہدی ہوگا۔
اور پھر صحاح ستہ میں یہ روایات بھی ہیں کہ مہدی میری عترت میں اولاد فاطمہ (ع) میں ہوگا اور ہ ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور دنیا اس وقت تک فنا نہ ہوگی جب تک عرب میں میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حکومت نہ کرے جس کا نام میرا نام ہوگا۔
یا اگر عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ میری نسل سے اس شخص کو بھیج دے جس کا نام میرا نام ہوگا اور ہ ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا۔
چنانچہ شارح مشکٰوة نے بھی لکھا ہے کہ اس قسم کی روایات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت صرف قریش کا حصہ ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہوسکتی ہے اور یہ حکم رہتی دنیا تک جاری رہے گا چاہے دو ہی افراد باقی رہ جائیں۔
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی عقل میں فتور اور آنکھ میں اندھاپن نہیں ہے تو وہ اس حقیقت کا بہر حال اعتراف کرے گا کہ رسول اکرم کے بعد ان کے خلفاء یہی بارہ امام ہیں جو سب قریش سے ہیں، انھیں سے دین کا قیام اور اسلام کا استحکام ہے اور یہ عدد اور یہ اوصاف و کمالات ائمہ اثنا عشر کے علاوہ کہیں نہیں پائے جاتے ہیں لہذا یہی سرکار دو عالم کے خلفاء و اولیاء ہیں اور انھیں کا قیام دنیا تک رہنا ضروری ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی ہے۔
اسماء ائمہ اہلبیت (ع)
88۔جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ میں جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے ایک تختی رکھی تھی جس میں آپ کی اولاد کے اولیاء کے نام درج تھے چنانچہ میں نے کل بارہ نام دیکھے جن میں سے ایک قائم تھا اور تین محمد تھے اور چار علی (ع) ۔( الفقیہ 4 ص 180 / 5408 ، کافی 1 ص 532 /9 ، کمال الدین 269/ 13 ، ارشاد 2 /346 ، فرائد السمطین 2 / 139 ) ان تمام روایات کے راوی ابوالجارود ہیں جنھوں نے امام باقر (ع) سے نقل کیا ہے اور کافی میں چار علی (ع) کے بجائے تین کا ذکر ہے اور یہ اشتباہ ہے یا اس سے مراد اولاد فاطمہ کے علی ہیں کہ وہ بہر حال تین ہی ہیں اگرچہ اس طرح اولاد فاطمہ (ع) کے اولیاء کے اولیاء بارہ نہیں ہیں بلکہ گیارہ ہی ہیں اور ایک مولائے کائنات ہیں واللہ اعلم ۔ جوادی۔
89۔ جابر بن یزید الجعفی کا بیان ہے کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری کی زبان سے سناہے کہ جب آیت اولی الامر نازل ہوئی تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ہم نے خدا و رسول کو پہچان بھی لیا اور ان کی اطاعت بھی کی تو یہ اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو آپ کی اطاعت کے ساتھ ملادیا گیاہے؟ تو فرمایا کہ جابر ! یہ سب میرے خلفاء اور میرے بعد مسلمانوں کے ائمہ ہیں جن میں سے اول علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں، اس کے بعد حسن (ع) پھر حسین (ع) پھر علی (ع) بن الحسین (ع) پھر محمد بن علی (ع) جن کا نام توریت میں باقر (ع) ہے اور اے جابر عنقریب تم ان سے ملاقات کروگے اور جب ملاقات ہوجائے تو میرا سلام کہہ دینا۔ اس کے بعد جعفر (ع) بن محمد (ع) ۔ پھر موسی بن جعفر (ع) ، پھر علی (ع) بن موسی ٰ (ع) ، پھر محمد (ع) بن علی (ع) پھر علی (ع) بن محمد ، پھر حسن (ع) پھر میرا ہمنام و ہم کنیت جو زمین میں خدا کی حجت اور بندگان خدا میں بقیة الله ہوگا یعنی فرزند حسن (ع)بن علی (ع) ، یہی دو ہوگا جسے پروردگار مشرق و مغرب پر فتح عنایت کرے گا اور اپنے شیعوں سے اس طرح غائب رہے گا کہ اس غیبت میں ایمان پر صرف وہی افراد قائم رہ جائیں گے جن کے دل کا پروردگار نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہوگا۔(کمال الدین 253 /3، مناقب ابن شہر آشوب 1 ص282 ، کفایة الاثر ص53)۔
90۔ جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ جندل بن جنادہ بن جبیر الیہودی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک طویل گفتگو کے دوران عرض کی کہ خدا کے رسول ذرا اپنے اوصیاء کے بارے میں باخبر کریں تا کہ میں ان سے متمسک رہ سکوں۔ تو فرمایا کہ میرے اوصیاء بارہ ہوں گے۔ جندل نے عرض کی کہ یہی تو میں نے توریت میں پڑھاہے لیکن ذرا ان کے نام تو ارشاد فرمائیں؟
فرمایا اول سید الاوصیاء ابوالائمہ علی (ع) اس کے بعد ان کے دو فرزند حسن (ع) و حسین (ع) ، دیکھو ان سب متمسک رہنا اور خبردار تمھیں جاہلوں کا جہل دھوکہ میں نہ مبتلا کردے۔ اس کے بعد جب علی بن الحسین (ع) کی ولادت ہوگی تو تمھاری زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا اور تمھاری آخری غذا دودھ ہوگی۔
جندل نے کہا کہ حضور میں نے توریت میں ایلیا۔ شبر،شبیر پڑھا ہے، یہ تو علی (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) ہوگئے تو ان کے بعد والوں کے اسماء ہیں؟ فرمایا حسین (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) جن کا لقب زین العابدین (ع) ہوگا۔ اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب باقر (ع) ہوگا۔ اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب تقی (ع) و زکی ہوگا، اس کے بعد ان کے فرزند علی (ع) جن کا لقب نقی (ع) اور ہادی (ع) ہوگا، اس کے بعد ان کے فرزند حسن (ع) جن کا لقب عسکری (ع) ہوگا، اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب مہدی (عج) ، قائم (عج) ہوگا، جو پہلے غائب ہوں گے پھر ظہور کریں گے اور ظہور کے بعد ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، خوشا بحال ان کا جو ان کی غیبت میں صبر کرسکیں اور ان کی محبت پر قائم رہ سکیں یہی وہ افراد ہیں جن کے بارے میں پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ حزب اللہ میں اور حزب اللہ کامیاب ہونے والا ہے اور یہی وہ متقین ہیں جو غیبت پر ایمان رکھنے والے ہیں( ینابیع المودة 2 ص 283 /2)۔
91۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ ایک یہودی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جسے نعثل کہا جاتا تھا اور اس نے کہا کہ یا محمد میرے دل میں کچھ شبہات ہیں، ان کے بارے میں سوال کرنا چاہتاہوں… ذرا یہ فرمائیے کہ آپ کا وصی کون ہوگا ، اس لئے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتاہے جس طرح ہمارے پیغمبر موسیٰ بن عمران نے یوشع بن نون کو اپنا وصی نامزد کیا تھا۔؟ فرمایا کہ میرا وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہوگا اور ان کے بعد میرے دونوا سے حسن (ع) و حسین (ع) ہوں گے، اس کے بعد صلب حسین (ع) سے نو ائمہ ابرار ہوں گے۔
اس نے کہایا محمد! ذرا ان کے نام بھی ارشاد فرمائیں ؟ فرمایا کہ حسین (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، ان کے بعد ان کے فرزند محمد(ع) ، ان کے بعد ان کے فرزند جعفر (ع)… جعفر (ع) کے بعد ان کے فرزند موسیٰ (ع)… موسیٰ (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، علی (ع) کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) ، محمد (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، علی (ع) کے بعد ان کے فرزند حسن (ع) ، اس کے بعد حجت بن الحسن (ع) یہ کل بارہ امام ہیں جن کا عدد بنياسرائیل کے نقیبوں کے برابر ہے۔
اس نے دریافت کیا کہ ان سب کی جنت میں کیا جگہ ہوگی ؟ فرمایا میرے ساتھ میرے درجہ ہیں۔( فرائد السمطین 2 ص 133 ، 134 / 430)۔
92۔ نضر بن سوید نے عمرو بن ابی المقدام سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کو میدان عرفات میں دیکھا کہ لوگوں کو بآواز بلند پکاررہے ہیں اور فرمارہے ہیں ایہا الناس ! رسول اکرم قوم کے قائد تھے ، ان کے بعد علی (ع) بن ابی طالب (ع) تھے، اس کے بعد حسن (ع) پھر حسین (ع) پھر علی (ع) بن الحسین (ع) پھر محمد (ع) بن علی (ع) اور پھر میں ہوں اور یہ باتیں چاروں طرف رخ کرکے تین مرتبہ دہرائی۔ ( کافی 1 ص 286 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 40 ، الفقیہ 4 ، ص 180 / 5408 ، کمال الدین 1 ص 250 ، 285 ، الغیبتہ النعمانی ص 57، مناقب ابن المغازلی ص 304 ، احقاق الحق 4 ص 83 ، 13 ص 49 ، کفایة الاثر ص 149 ، 150 ، 177 ، 264 300 ، 306۔
|