اہلبیت (ع) والوں کے صفات
” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا“ ( سورہٴ ابراہیم آیت 36)۔
1260۔ رسول اکرم ۔ ہر متقی انسان میرے وابستگان میں شمار ہوتاہے۔ (الفردوس 1 ص 418 / 1691 روایت انس بن مالک)
1261۔ انس ! رسول اکرم سے دریافت کیا گیا کہ آل محمد سے کون افراد مراد ہیں؟
فرمایا ہر متقی اور پرہیزگار۔
پروردگار نے فرمایا ہے کہ اس کے اولیاء صرف متقین ہیں۔( المعجم الاوسط 3 ص 338 / 2332)۔
1262۔ ابوعبیدہ امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو ہم سے محبت کرے وہ ہم اہلبیت(ع) سے ہے تو میں نے عرض کی میں آپ پر قربان میں بھی آپ سے ہوں؟
فرمایا بیشک کیا تم نے حضرت ابراہیم (ع) کا قول نہیں سناہے کہ جو میرا اتباع کرے وہ مجھ سے ہے۔( تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 32)۔
1263۔ امام صادق (ع)! جو تم میں سے تقویٰ اختیار کرے اور نیک کردار ہوجائے وہ ہم اہلبیت سے ہے ۔ راوی نے عرض کی کہ آپ سے فرزند رسول ؟
فرمایا بیشک ہم سے ، کیا تم نے پروردگار کا ارشاد نہیں سناہے کہ ” جو ان سے محبت کرے گا وہ ان سے ہوگا“ ( مائدہ 51)۔
اور حضرت ابراہیم (ع) نے کہا ہے کہ جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا، ( دعائم الاسلام 1 ص 62 ، تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 33 روایت محمد الحلبئ)۔
1264 ۔ حسن بن موسیٰ الوشاء البغدادی، میں خراسان میں امام رضا (ع) کی مجلس میں حاضر تھا اور زید بن موسیٰ بھی موجود تھے جو مجلس میں موجود ایک جماعت پر فحر کررہے تھے کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں اور حضرت دوسری قوم سے گفتگو کررہے تھے، آپ نے زید کی بات سنی تو فوراً متوجہ ہوگئے۔
فرمایا ۔ زید ! تمھیں کوفہ کے بقالوں کی تعریف نے مغرور بنادیا ہے، دیکھو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی عصمت کا تحفظ کیا تو خدا نے ان کی ذریت پرجہنم کو حرام کردیا لیکن یہ شرف صرف حسن (ع) و حسین (ع) اور بطن فاطمہ (ع) سے پیدا ہونے والوں کے لئے ہے۔
ورنہ اگر موسیٰ بن جعفر (ع) خدا کی اطاعت میں دن میں روزہ رکھیں رات میں نمازیں پڑھیں اور تم اس کی معصیت کرو اور اس کے بعد دونوں روز قیامت حاضر ہوں اور تم ان سے زیادہ نگاہ پروردگار میں عزیز ہوجاؤ، یہ ناممکن ہے ، کیا تمھیں نہیں معلوم کہ امام زین العابدین (ع) فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے نیک کردار کے لئے دہرا اجر ہے اور بدکردار کے لئے دہرا عذاب ہے۔
حسن وشاء کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت نے میری طرف رخ کرکے فرمایا۔
حسن ! تم اس آیت کو کس طرح پڑھتے ہو؟
” پروردگار نے کہا کہ اے نوح (ع) یہ تمھارے اہل سے نہیں ہے، یہ عمل غیر صالح ہے۔( ہود نمبر 46)۔
تو میں نے عرض کی کہ بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح “ اور بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح“ اور اس طرح فرزند نوح ماننے انکار کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ۔
وہ نوح (ع) کا بیٹا تھا لیکن جب خدا کی معصیت کی تو خدا نے فرزندی سے خارج کردیا۔
یہی حال ہمارے چاہنے والوں کا ہے کہ جو خدا کی اطاعت نہ کرے گا وہ ہم سے نہ ہوگا اور تم اگر ہماری اطاعت کروگے تو ہم اہلبیت(ع) میں شمار ہوجاؤگے۔(معانی الاخبار 106 /1 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 232 / 1)۔
بیگانوں کے اوصاف
1265۔ رسول اکرم ! جو شخص ہنسی خوشی ذلت کا اقرار کرلے وہ ہم اہلبیت (ع) سے نہیں ہے۔( تحف العقول ص 58)۔
1266۔ رسول اکرم ! جو ہمارے بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے فضل کی معرفت نہ رکھتاہو وہ ہم اہلبیت(ع) سے نہیں ہے( جامع الاحادیث قمی ص 112 روایت طلحہ بن زید ، الجعفریات ص 183 ، امالی مفید 18 / 6 روایت ابوالقاسم محمد بن علی ابن الحنفیہ ، کافی 2 ص 165 / 2 روایت احمد بن محمد)۔
1267۔ رسول اکرم ! جو بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( مسند ابن حنبل 1ص554 /2329 روایت ابن عباس)۔
1268۔ رسول اکرم ! ایہا الناس ۔ ہم اہلبیت(ع) وہ ہیں جنھیں پروردگار نے ان امور سے محفوظ رکھاہے کہ ہم نہ فتنہ کرتے ہیں اور نہ فتنہ میں مبتلا ہوتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ کہانت کرتے ہیں، نہ جادو کرتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں نہ بدعت کرتے ہیں نہ شک و ریب میں مبتلا ہوتے ہیں، نہ حق سے روکتے ہیں نہ نفاق کرتے ہیں لہذا اگر کسی میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں تو اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور خدا بھی اس سے بیزار ہے اور ہم بھی بیزار ہیں اور جس سے خدا بیزار ہوجائے اسے جہنم میں داخل کردے گا جو بدترین منزل ہے۔ (تفسیر فرات کوفی 307 / 412 روایت عبداللہ بن عباس)۔
1269۔ رسول اکرم ! جس کی اذیت سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ رہے وہ ہم سے نہیں ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 24 / 2 روایت ابراہیم بن ابی محمود عن الرضا (ع) ، عوالی اللئالی 1 ص 259 / 33)۔
1270۔ رسول اکرم ! جو ہم کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے۔( مسند ابن حنبل 5 ص 544 16489 روایت ابی بردہ بن ینار۔ سنن ابن ماجہ 2 ص 49 / 2224، مستدرک حاکم 11 ص 2153 ، کافی 5 ص 160 / 1 تہذیب 7 ص 12 / 48 روایت ہشام بن سالم عن الصادق (ع) )
1271۔ رسول اکرم ! جو کسی مسلمان کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے۔( الفقیہ 3 ص 273 / 3986 ، عیون اخبار الرضا 2 ص 29/ 26 ، مسند زید ص 489 ، فقہ الرضا (ع) ص 369)۔
1272۔ رسول اکرم ! جو امانت میں خیانت کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 5 ص 133/7 روایت سکونی عن الصادق (ع) )۔
1273۔ امام صادق (ع)! یاد رکھو کہ جو ہمسایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص 668 / 11 ،روایت ابی الربیع الشامی)۔
1274۔ امام صادق (ع)! جو نماز شب نہ پڑھے وہ ہم سے نہیں ہے۔( المقنع ص 131 المقنعہ ص 119 ، روضة الواعظین ص 321)۔
1275۔ امام صادق (ع)! اگر شہر میں ایک لاکھ آدمی ہیں اور کوئی ایک بھی اس سے زیادہ متقی ہے تو وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص78 / 10 روایت علی بن ابی زید)۔
1276۔ امام صادق (ع) ! وہ ہم سے نہیں ہے جو دنیا کو آخرت کے لئے چھوڑ دے یا آخرت کو دنیا کے لئے چھوڑ دے۔( الفقیہ3 ص 156 / 3568 ، فقہ الرضا (ع) ص 337)۔
1277۔ امام صادق (ع) ! جو زبان سے ہمارے موافق ہو اور اعمال و آثار میں ہمارے خلاف ہو وہ ہم سے نہیں ہے۔( مشکوة الانوار ص 70 ، مستطرفات السرائر 147 / 21 روایت محمد بن عمر بن حنظلہ)۔
1278۔ ابوالربیع شامی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو گھر اصحاب سے چھلک رہا تھا جہاں شام ، خراسان اور دیگر علاقوں کے افراد موجود تھے کہ مجھے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملی، ایک مرتبہ حضرت ٹیک لگاکر بیٹھے اور فرمایا کہ اے شیعہ آل محمد ! یاد رکھو کہ وہ ہم سے نہیں ہے جو غصہ میں نفس پر قابو نہ پاسکے اور ساتھی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے، حسن اخلاق اور حسن رفاقت اور حسن مزاج کا مظاہرہ نہ کرے۔
اے شیعہ آل محمد ! جہاں تک ممکن ہو خدا سے ڈرو، اس کے بعد ہر قوت و طاقت اللہ ہی کے سہارے ہے۔( کافی 2 ص637 / 2 ، الفقیہ 2 ص 274 /2423 ، المحاسن 2 ص 102 / 270 ، تحف العقول ص 380 ، مستطرفات السرائر 61/ 33)۔
1279۔ امام صادق (ع)! پروردگار عالم نے تم پر ہماری محبت اور موالات واجب قرار دی ہے اور ہماری اطاعت کو فرض قرار دیا ہے لہذا جو ہم سے ہے اسے ہماری اقتدا کرنی چاہیئے اور ہماری شان ورع و تقویٰ، سعی عمل، ہر شخص کی امانت کی واپسی ، صلہٴ رحم، مہمان نوازی، درگذر ہے اور جو ہماری اقتدا نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔(اختصاص ص 241)۔
1280۔ امام کاظم (ع)! وہ ہم سے نہیں ہے جو روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ کرے کہ اگر عمل اچھا کیاہے تو خدا سے اضافہ کی دعا کرے اور اگر برا کیا ہے تو استغفار اور توبہ کرے۔( کافی 2 ص 453 / 2 ، روایت ابراہیم بن عمریمانی، تحف العقول ص 396 ، اختصاص ص 26 ، 243 ، مشکٰوة الانوار 70 / 247 ، الزہد للحسین بن سعید ص 76 / 203۔
1281۔ امام رضا (ع) ! جو ہم سے قطع تعلق رکھے یا تعلقات رکھنے والے سے قطع تعلق کرلے یا ہماری مذمت کرنے والے کی تعریف کرے یا مخالف کا احترام کرے وہ ہم سے نہیں ہے اور ہم بھی اس سے نہیں ہیں۔( صفات الشیعہ 85 / 10 روایت ابن فضال)۔
1282۔ الہروی! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ فرزند رسول ! ذرا جنت و جہنم کے بارے میں فرمائیے کہ کیا ان کی تخلیق ہوچکی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ بیشک ! رسول اکرم شب معراج جنت میں جاچکے ہے اور جہنم کو دیکھ چکے ہیں۔
میں نے عرض کی کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں علم خدا میں ہیں لیکن ان کی تخلیق نہیں ہوئی ہے ، فرمایا یہ لوگ ہم سے نہیں ہیں اور نہ ہم ان سے ہیں جس نے جنت و جہنم کی خلقت کا انکار کیا اس نے رسول اکرم کو جھٹلایا اور ہماری تکذیب کی اور اس کا ہماری ولایت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لئے جہنم ہے جس کے بارے میں پروردگار نے فرمایاہے کہ ” یہ وہ جہنم ہے جس کو مجرمین جھٹلارہے تھے اب اس کے اور کھولتے پانی کے درمیان چکر لگارہے ہیں۔( رحمان 43 ، 44 (توحید 18/21 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 116 / 3 ، احتجاج 2 ص 381 / 286)۔
اہلبیت(ع) والوں کی ایک جماعت
1۔ ابوذر
1283۔ رسول اکرم ! ابوذر ۔ تم ہم اہلبیت (ع) سے ہو۔( امالی طوسی (ر) 525 / 1162 ، مکارم الاخلاق 2 ص 363 / 2661 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 51 روایت ابوذر)۔
2 ۔ ابوعبیدہ
1284۔ ابوالحسن ! ابوعبیدہ کی زوجہ ان کے انتقال کے بعد امام صادق (ع) کی خدمت میں آئی اور کہا کہ میں اس لئے رورہی ہوں کہ انھوں نے غربت میں انتقال کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ غریب نہیں تھے، وہ ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں۔( مستطرفات السرائر 40 /4)۔
3۔ راہب بلیخ
1285۔ حبہ عرنی ! جب حضرت علی (ع) بلیخ نامی جگہ پر فرات کے کنارہ اترے تو ایک راہب صومعہ سے نکل آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ہے اور اسے اصحاب عیسیٰ بن مریم نے لکھاہے، میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتاہوں ،فرمایا وہ کہاں ہے لاؤ، اس نے کہا اس کا مفہوم یہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اس خدا کا فیصلہ ہے جواس نے کتاب میں لکھ دیا ہے کہ وہ مکہ والوں میں ایک رسول بھیجنے والا ہے جو انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا، اللہ کا راستہ دکھائے گا اور نہ بداخلاق ہوگا اور نہ تند مزاج اور نہ بازاروں میں چکر لگانے والا ہوگا، وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا بلکہ عفو و درگذر سے کام لے گا، اس کی امت میں وہ حمد کرنے والے ہوں گے جو ہر بلندی پر شکر پروردگار کریں گے اور ہر صعود و نزول پر حمد خدا کریں گے، ان کی زبانیں تہلیل و تکبیر کے لئے ہموار ہوں گی۔
خدا اسے تمام دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دے گا اور جب اس کا انتقال ہوگا تو امت میں اختلاف پیدا ہوگا، اس کے بعد پھر اجتماع ہوگا اور ایک مدت تک باقی رہے گا، اس کے بعد ایک شخص کنارہٴ فرات سے گذرے گا جو نیکیوں کا حکم دینے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہوگا، حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا ، دنیا اس کی نظر میں تیز و تند ہواؤں میں راکھ سے زیادہ بے قیمت ہوگی اور موت اس کے لئے پیاس میں پانی پینے سے بھی زیادہ آسان ہوگی، اندر خوف خدا رکھتا ہوگا اور باہر پروردگار کا مخلص بندہ ہوگا خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوگا۔
اس شہر کے لوگوں میں سے جو اس نبی کے دور تک باقی رہے گا اور اس پر ایمان لے آئے اس کے لئے جنت اور رضائے خدا ہوگی اور جو اس بندہ نیک کوپالے اس کا فرض ہے کہ اس کی امداد کرے کہ اس کے ساتھ قتل شہادت ہے اور اب میں آپ کے ساتھ رہوں گا اور ہرگز جدا نہ ہوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہر غم میں شرکت کرلوں۔
یہ سن کر حضرت علی (ع) رو دیے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے نظر انداز نہیں کیا ہے اور تمام نیک بندوں کی کتابوں میں میرا ذکر کیا ہے۔
راہب یہ سن کر بے حد متاثر ہوا اور مستقل امیر المومنین (ع) کے ساتھ رہنے لگا یہاں تک کہ صفین میں شہید ہوگیا تو جب لوگوں نے مقتولین کو دفن کرنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ راہب کو تلاش کرو۔ اور جب مل گیا تو آپ نے نماز جنازہ ادا کرکے دفن کردیا اور فرمایا کہ یہ ہم اہلبیت (ع) سے ہے اور اس کے بعد بار بار اس کے لئے استغفار فرمایا۔ (مناقب خوارزمی ص 242 ، وقعة صفین ص 147)۔
4۔ سعد الخیر (ر)
1286۔ابوحمزہ ! سعد بن عبدالملک جو عبدالعزیز بن مروان کی اولاد میں تھے اور امام باقر (ع) ! انھیں سعد الخیر کے نام سے یاد کرتے تھے، ایک دن امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعورتوں کی طرح گریہ کرنا شروع کردیا۔
حضرت نے فرمایا کہ سعد ! اس رونے کا سبب کیا ہے؟
عرض کی ۔ کس طرح نہ روؤں جبکہ میرا شمار قرآن مجید میں شجرہٴ ملعونہ میں کیا گیا ہے۔
فرمایا کہ تم اس میں سے نہیں ہو، تم اموی ہو لیکن ہم اہلبیت (ع) میں ہو۔
کیا تم نے قرآن مجید میں جناب ابراہیم (ع) کا یہ قول نہیں سناہے۔
” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا“ (اختصاص ص 85)۔
5 ۔ سلمان (ر)
1287 ۔رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں اور مخلص ہیں لہذا انھیں اپنے لئے اختیار کرلو۔( مسند ابویعلی ٰ 6 ص 177 / 6739 روایت سعد الاسکاف عن الباقر (ع) ، الفردوس 2 ص 337/ 3532)۔
1288۔ ابن شہر آشوب ! لوگ خندق کھود رہے تھے اور گنگنارہے تھے، صرف سلمان (ر) اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے اور زبان سے معذور تھے کہ رسول اکرم نے دعا فرمائی ۔
خدایا سلمان (ر) کی زبان کی گروہ کھول دے چاہے دو شعر ہی کیوں نہ ہوں چنانچہ سلمان (ر) نے یہ اشعار شروع کردیے۔
میرے پاس زبان عربی نہیں ہے کہ میں شعر کہوں، میں تو پروردگار جو پسندیدہ اور تمام فخر کا حامل ہے۔
اپنے دشمن کے مقابلہ میں اور نبی طاہر کے دشمن کے مقابلہ میں، وہ پیغمبر جو پسندیدہ اور تمام فخر کا حامل ہے۔
تا کہ جنت میں قصر حاصل کرسکوں اور ان حوروں کے ساتھ رہوں جو چاند کی طرح روشن چہرہ ہوں۔
مسلمانوں میں یہ سن کر شور مچ گیا اور سب نے سلمان کو اپنے قبیلہ میں شامل کرنا چاہا تو رسول اکرم نے فرمایا کہ سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں ۔( مناقب 1 ص 85)۔
1289 ۔ رسول اکرم ۔ سلمان (ر) ! تم ہم اہلبیت (ع) سے ہو اور اللہ نے تمھیں اول و آخر کا علم عنایت فرمایاہے اور کتاب اول و آخر کو بھی عطا فرمایا ہے۔( تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 203 روایت زید بن ابی اوفیٰ)۔
1290۔ امام علی (ع)! سلمان (ر) نے اوّل و آخر کا سارا علم حاصل کرلیاہے اور وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوسکتاہے اور وہ ہم اہلبیت(ع) سے ہیں ۔( تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 201 روایت ابوالبختری ، امالی صدوق (ر) ص 209 /8 روایت مسیب بن نجیہ، اختصاص ص11 ، رجال کشی (ر) 1 ص 52 / 25 روایت زرار، الطرائف 119 / 183 روایت ربیعہ السعدی، الدرجات الرفیعہ ص 209 روایت ابوالبختری)۔
1291۔ ابن الکواء ! یا امیر المومنین (ع) ! ذرا سلمان (ر) فارسی کے بارے میں فرمائیے؟ فرمایا کیا کہنا، مبارک ہو، سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں، اور تم میں لقمان حکیم جیسا اور کون ہے، سلمان (ر) کو اول و آخر سب کا علم ہے۔( احتجاج 1 ص 616 / 139 روایت اصبغ بن نباتہ، الغارات 1 ص 177 روایت ابوعمرو الکندی، تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 204)۔
1292 ۔ امام باقر (ع) ! ابوذر سلمان (ر) کے پاس آئے اور وہ پتیلی میں کچھ پکارہے تھے، دونوں محو گفتگو تھے کہ اچانک پتیلی الٹ گئی اور ایک قطرہ سالن نہیں گرا، سلمان (ر) نے اسے سیدھا کردیا ، ابوذر (ر) کو بے حد تعجب ہوا ، دوبارہ پھر ایسا ہی ہوا تو ابوذر دہشت زدہ ہوکر سلمان (ر) کے پاس سے نکلے اور اسی سوچ میں تھے کہ اچانک امیر المومنین (ع) سے ملاقات ہوگئی ۔
فرمایا ابوذر (ر) ! سلمان (ر) کے پاس سے کیوں چلے آئے اور یہ چہرہ پر دہشت کیسی ہے!
ابوذر (ر) نے سارا واقعہ بیان کیا ۔
فرمایا ابوذر ! اگر سلمان (ر) اپنے تمام معلم کا اظہار کردیں تو تم ان کے قاتل کے لئے دعائے رحمت کروگے اور ان کی کرامت کو برداشت نہ کرسکوگے۔
دیکھو! سلمان (ر) اس زمین پر خدا کا دروازہ ہیں، جو انھیں پہچان لے وہ مومن ہے اور جو انکار کردے وہ کافر ہے ۔ سلمان (ر) ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں ( رجال کشی 1 ص 59 / 33 روایت جابر)۔
1293۔ حسن بن صہیب امام باقر (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت کے سامنے سلمان (ر) فارسی کا ذکر آیا تو فرمایا خبردار انھیں سلمان (ر) فارسی مت کہو، سلمان (ر) محمد ی کہو کہ وہ ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں ۔( رجال کشی 1 ص 54 / 26 ، 71 / 42 روایت محمد بن حکیم، روضة الواعظین ص 310)۔
6 ۔ عمر بن یزید
1294۔ عمر بن یزید ! امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابن یزید ! خدا کی قسم تم ہم اہلبیت (ع) سے ہو، میں نے عرض کیا ، میں آپ پر قربان ، آل محمد سے؟ فرمایا بیشک انھیں کے نفس سے؟
عرض کیا کہ انھیں کے نفس سے؟ فرمایا بیشک انھیں کے نفس سے ! کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی ہے” یقیناً ابراہیم سے قریب تر ان کے پیرو تھے اور پھر یہ پیغمبر اور صاحبان ایمان ہیں اور اللہ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے“ آل عمران نمبر 68۔
اور پھر یہ ارشاد الہی ” جس نے میرا ا تباع کیا وہ مجھ سے ہے اور جس نے نافرمانی کی تو بیشک خدا غفور رحیم ہے۔ ابراہیم آیت 36 (امالی طوسی (ر) 45 / 53 ، بشارة المصطفیٰ ص 68)۔
7 ۔ عیسیٰ بن عبداللہ قمی
1295۔ یونس ! میں مدینہ میں تھا تو ایک کوچہ میں امام صادق (ع) کا سامنا ہوگیا، فرمایا یونس ! جاؤ دیکھو دروازہ پر ہم اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص کھڑا ہے میں دروازہ پر آیا تو دیکھا کہ عیسیٰ بن عبداللہ بیٹھے ہیں، میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔
فرمایا میں قم کا ایک مسافر ہوں
ابھی چند لمحہ گذرے تھے کہ حضرت تشریف لے آئے اور گھر میں مع سواری کے داخل ہوگئے۔
پھر مجھے دیکھ کر فرمایا کہ دونوں آدمی اندر آو اور پھر فرمایا یونس ! شائد تمھیں میری بات عجیب دکھائی دی ہے۔
دیکھو عیسیٰ بن عبداللہ ہم اہلبیت (ع) سے ہیں ۔
میں نے عرض کی میری جان قربان یقیناً مجھے تعجب ہوا ہے کہ عیسیٰ بن عبداللہ تو قم کے رہنے والے ہیں ۔ یہ آپ کے اہلبیت (ع) میں کس طرح ہوگئے۔
فرمایا یونس ! عیسیٰ بن عبداللہ ہم میں سے ہیں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔( امالی مفید 140 /6 ، اختصاص ص 68 ، رجا ل کشی 2 ص 624/ 607)۔
1296 ۔ یونس بن یعقوب ! عیسیٰ بن عبداللہ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر جب چلے گئے تو آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ انھیں دوبارہ بلاؤ۔
اس نے بلایا اور جب آگئے تو آپ نے انھیں کچھ وصیتیں فرمائیں اور پھر فرمایا، عیسیٰ بن عبداللہ ! میں نے اس لئے نصیحت کی ہے کہ قرآن مجید نے اہل کو نماز کا حکم دینے کا حکم دیاہے اور تم ہمارے اہلبیت (ع) میں ہو۔
دیکھو جب آفتاب یہاں سے یہاں تک عصر کے ہنگام پہنچ جائے، تو چھ رکعت نماز ادا کرنا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا اور پیشانی کا بوسہ بھی دیا ، ( اختصاص ص 195 ، رجال کشی 2 ص 625 / 610)۔
8 ۔ فضیل بن یسار
1297 ۔ امام صادق (ع) ! خدا فضیل بن یسار پر رحمت نازل کرے کہ وہ اہلبیت (ع) سے تھے ۔( الفقیہ 4 ص 441 ، رجال کشی 2 ص 473 / 381 روایت ربعی بن عبداللہ فضیل بن یسار کے غسل دینے والے کے حوالہ سے!۔
9 ۔ یونس بن یعقوب
1298۔ یونس بن یعقوب! مجھ سے امام صادق (ع) یا امام رضا (ع) نے کوئی مخفی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ تم ہمارے نزدیک متہم نہیں ہو، تم ایک شخص ہو جو ہم اہلبیت (ع) سے ہو، خدا تمھیں رسول اکرم اور اہلبیت (ع) کے ساتھ محشور کرے اور خدا انش ایسا کرنے والا ہے۔( رجال کشی 2 ص 685 / 724)۔
والحمدللہ ربا لعالمین
28 ۔ ربیع الاول 1418ء ھ
صبح 5 بجے گلف ایر واپسی از لندن
|