غلو پر تنبیہ
1230۔ امام علی (ع)! خبردار ہمارے بارے میں غلو نہ کرنا، یہ کہو کہ ہم بندہ ہیں اور خدا ہمارا رب ہے، اس کے بعد جو چاہو ہماری فضیلت بیان کرو، (خصال 614 /10 روایت ابوبصیر و محمدبن مسلم عن الصادق (ع) ، غرر الحکم نمبر 2740 ، تحف العقول 104 ، نوادر الاخبار ص 137)۔
1231۔ اما م حسین (ع)! ہم سے اسلام کی محبت میں محبت رکھو کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ خبردار میرے حق سے زیادہ میری تعریف نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے رسول بنانے سے پہلے بندہ بنایاہے۔( المعجم الکبیر 3 ص 128 / 2889 روایت یحییٰ بن سعید)۔
1232۔ امام صادق (ع)! جس نے ہمیں نبی قرار دیا اس پر خدا کی لعنت ہے اور جس نے اس مسئلہ میں شک کیا اس پر بھی خدا کی لعنت ہے۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 540 روایت حسن وشاء)۔
1233۔ امام صادق (ع)! ان غالیوں میں بعض ایسے جھوٹے ہیں کہ شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت ہے۔( رجال کشی (ر) 2 ص 587 / 536 روایت ہشام بن سالم )۔
1234 ۔ مفضل بن عمر ! میں اور قاسم شریکی اور نجم بن حطیم اور صالح بن سہل مدینہ میں تھے اور ہم نے ربوبیت کے مسئلہ میں بحث کی تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس بحث کا فائدہ کیا ہے، ہم سب امام سے قریب ہیں اور زمانہ بھی تقیہ کا نہیں ہے، چلو، چل کر انھیں سے فیصلہ کرالیں۔
چنانچہ جیسے ہی وہاں پہنچے حضرت بغیر رداء اور نعلین کے باہر نکل آئے اور عالم یہ تھا کہ غصہ سے سرکے سارے بال کھڑے تھے۔
فرمایا ، ہرگز نہیں ۔
ہرگز نہیں، اے مفضل ، اے قاسم، اے نجم، ہم خدا کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔( کافی 8 ص 231 / 303)۔
1235۔ امام صادق (ع)! غالیوں کی مذمت کرتے ہوئے۔
خدا کی قسم، ہم صرف اس کے بندہ ہیں جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور منتخب کیا ہے، ہمارے اختیار میں نہ کوئی نفع ہے اور نہ نقصان، مالک اگر رحمت کرے تو یہ اس کی رحمت ہے اور اگر عذاب کرے تو یہ بندوں کا عمل ہے، خدا کی قسم ہماری خدا پر کوئی حجت نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی پروانہ برائت ہے، ہمیں موت بھی آتی ہے، ہم دفن بھی ہوتے ہیں ہم قبر سے دوبارہ نکالے بھی جائیں گے، ہمیں عرصہ محشر میں کھڑا کرکے ہم سے حساب بھی لیا جائے گا ۔( رجال کشی 2 ص 49 / 403 روایت عبدالرحمان بن کثیر )۔
1236۔ صالح بن سہل، میں امام صادق (ع) کے بارے میں ان کے رب ہونے کا قائل تھا تو ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا تو دیکھتے ہی فرمایا صالح ! خدا کی قسم ہم بندہٴ مخلوق ہیں اور ہمارا ایک رب ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اور نہ کریں تو وہ ہم پر عذاب بھی کرسکتاہے ۔( رجال کشی 2 ص 632 / 632، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 219)۔
1237۔ اسماعیل بن عبدالعزیز ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ اسماعیل وضو کیلئے پانی رکھو میں نے رکھدیا تو حضرت وضو کے لئے داخل ہوئے ، میں سوچنے لگا کہ میں تو ان کے بارے میں یہ خیالات رکھتاہوں اور یہ وضو کررہے ہیں۔
اتنے میں حضرت نکل آئے اور فرمایا اسماعیل ! طاقت سے اونچی عمارت نہ بناؤ کہ گر پڑے، ہمیں مخلوق قراردو، اس کے بعد جو چاہو کہو۔( بصائر الدرجات 236 / 5 ، الخرائج والجرائح 2 ص 735 / 45 ، الثاقب نی المناقب 452 / 330 ، کشف الغمہ 2 ص 403)۔
1238۔ کامل التمار ! میں ایک دن امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ آپ نے فرمایا، کامل ! ہمارا ایک رب قرار دو جس کی طرف ہماری بازگشت ہے، اس کے بعد جو چاہو بیان کرو۔
میں نے کہا کہ آپ کا بھی رب قرار دیں جو آپ کا مرجح ہو اور اس کے بعد چاہیں کہیں تو بچا کیا ؟
یہ سن کر آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آخر کیا کہنا چاہتے ہو، خدا کی قسم ہمارے علم میں سے ایک الف سے زیادہ تم تک نہیں پہنچاہے۔(مختصر بصائر الدرجات ص 59 ، بصائر الدرجات 507 / 8)۔
1239۔ امام صادق (ع) ! خبردار غالی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاہے وہ تمھاری جیسی بات کرتاہو اور مجہول الحال کے یپچھے اور کھلم کھلا فاسق کے پیچھے چاہے میانہ روہی کیوں نہ ہو ۔( تہذیب 3 ص 31 / 109 روایت خلف بن حماد ، الفقیہ 1 ص 379 / 1110)۔
1240 ۔ امام صادق (ع) !اپنے نوجوانوں کے بارے میں غالیوں سے ہوشیار رہنا یہ انھیں برباد نہ کرنے پائیں کہ غالی بدترین خلق خدا ہیں، جو خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور بندوں کو خدا بناتے ہیں، خدا کی قسم ، غالی یہود ونصاریٰ اور مجوس و مشرکین سے بھی بدتر ہیں ۔( امالی طوسی (ر) 650/ 1349 روایت فضل بن یسار)۔
1241۔ امام رضا (ع)! ہم آل محمد و ہ نقطہٴ اعتدال ہیں جسے غالی پانہیں سکتاہے اور پیچھے رہنے والا اس سے آگے جا نہیں سکتاہے۔( کافی 1 ص 101 / 3 روایت ابراہیم بن محمد النخزار و محمد بن الحسین )۔
غالیوں سے برأت
1242۔ امام علی (ع)! خدایا میں غالیوں سے بری اوربیزار ہوں جس طرح کہ عیسیٰ (ع) بن مریم نصاریٰ سے بیزار تھے۔
خدایا انھیں بے سہارا کردے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا (امالی طوسی (ر) 650 / 1350 روایت اصبغ بن نباتہ، مناقب ابن شہر آشوب ! ص 263)۔
1243۔ امام علی (ع)۔ خبردار ہمارے بارے میں بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرنا، اس کے بعد ہمارے بارے میں جو چاہو کہہ سکتے ہو کہ تم ہماری حد تک نہیں پہنچ سکتے ہو اور ہوشیار رہو کہ ہمارے بارے میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے غلو کیا کہ میں غلو کرنے والوں سے بری اور بیزار ہوں۔(احتجاج 2 ص 453 / 314 ، تفسیر عسکری 50 / 24)۔
1244۔ زین العابدین (ع)! یہودیوں نے عزیر سے محبت کی اور جو چاہا کہہ دیا تو نہ ان کا عزیز سے کوئی تعلق رہا اور نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق رہا، یہی حال محبت عیسیٰ میں نصاریٰ کا ہوا ، ہم بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں، ہمارے چاہنے والوں میں بھی ایک قوم پیدا ہوگی جو ہمارے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں جیسی بات کہے گی تو نہ ان کا ہم سے کوئی تعلق ہوگا اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا ۔( رجال کشی (ر) 1 ص 336 / 191 روایت ابوخالد کابلی)۔
1245 ۔ الہروی ! میں نے امام (ع) رضا سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! یہ آخر لوگ آپ کی طرف سے کیا نقل کررہے ہیں؟
فرمایا کیا کہہ رہے ہیں؟
عرض کی کہ لوگ کہہ رہے ہیں آپ حضرات لوگوں کو اپنا بندہ تصور کررہے ہیں ! آپ نے فرمایا کہ خدایا، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے اور حاضر و غائب کے جاننے والے ! تو گواہ ہے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور نہ میرے آباء و اجداد نے کہی ہے ، تجھے معلوم ہے کہ اس امت کے مظالم ہم پر کس قدر زیادہ ہیں یہ ظلم بھی انھیں میں سے ایک ہے۔
اس کے بعد میری طرف رخ کرکے فرمایا، عبدلاسلام ! اگر سارے بندے ہمارے ہی بندے اور غلام ہیں تو ہم انھیں کس کے ہاتھ فروخت کریں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے سچ فرمایا۔
اس کے بعد فرمایا کہ خدا نے جو ہمیں حق ولایت دیاہے کیا تم اس کے منکر ہو؟
میں نے عرض کیا کہ معاذ اللہ ۔ میں یقیناً آپ کی ولایت کا اقرار کرنے والاہوں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 184 / 6)۔
گویا ظالموں نے اس حق ولایت الہیہ کی غلط توجیہہ کرکے اس کا مطلب یہ نکال لیا اور اسے اہلبیت (ع) کو بدنام کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ جوادی
1246۔ الحسن بن الجہم ! میں ایک دن مامون کے دربار میں حاضر ہوا تو حضرت علی بن موسی الرضا (ع) بھی موجود تھے اور بہت سے فقہاء ور علماء علم کلام بھی موجود تھے، ان میں سے بعض افراد نے مختلف سوالات کئے اور مامون نے کہا کہ یا اباالحسن ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ایک قوم آپ کے بارے میں غلو کرتی ہے اور حد سے آگے نکل جاتی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ میرے والد بزرگوار حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) نے اپنے والد جعفر (ع) بن محمد (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد محمد (ع) بن علی (ع)سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حسین بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ خبردار مجھے میرے حق سے اونچا نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایاہے اور اس کا ارشاد ہے ” کسی بشر کی یہ مجال نہیں ہے کہ خدا اسے کتاب و حکمت و نبوت عطا کرے اور وہ بندوں سے یہ کہہ دے کہ خدا کو چھوڑ کر میری بندگی کرو، ان سب کا یپغام یہ ہوتاہے کہ اللہ والے نبو کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اسے پڑھتے ہو اور وہ یہ حکم بھی نہیں دے سکتاہے کہ ملائکہ یا انبیاء کو ارباب قرار دیدو، کیا وہ مسلمانوں کو کفر کا حکم دے سکتاہے۔( آل عمران آیت 79 ، 80)۔
اور حضرت علی (ع) نے فرمایاہے کہ میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور اس میں میرا کوئی قصور نہ ہوگا، حد سے آگے نکل جانے والا دوست اور حد سے گرا دینے والا دشمن اور میں خدا کی بارگاہ میں غلو کرنے والوں سے ویسے ہی برأت کرتاہوں جس طرح عیسٰی نے نصاریٰ سے برائت کی تھی۔
جب پروردگار نے فرمایا کہ ” عیسیٰ (ع)! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیاہے کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو اور انھوں نے عرض کی کہ خدایا تو خدائے بے نیاز ہے اور میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں کوئی خلاف حق بات کہوں، اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے خود ہی معلوم ہے کہ تو میرے دل کے راز بھی جانتاہے اور میں تیرے علم کو نہیں جانتاہوں، تو تمام غیب کا جاننے والا ہے، میں نے ان سے وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے اور میں ان کا نگراں تھا جب تک ان کے درمیان رہا، اس کے بعد جب تو نے میری مدت عمل پوری کردی تو اب تو ان کا نگراں ہے اور ہر شے کا شاہد اور نگراں ہے“۔ (مائدہ نمبر 116 ، 117)۔
اور پھر مالک نے خود اعلان کیاہے کہ مسیح بن مریم صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہیں اور یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔( مائدہ نمبر 75)۔ ” مسیح بندہ خدا ہونے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ملائکہ مقربین اس بات کا انکار کرسکتے ہیں۔( نساء 172)۔
لہذا جو بھی انبیاء کے بارے میں ربوبیت کا ادعا کرے گا یا ائمہ کو رب یا نبی قرار دے گا یا غیر امام کو امام قرار دے گا ہم اس سے بری اور بیزار رہیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 200 / 1)۔
1247۔ امام رضا (ع) مقام دعا میں ! خدایا میں ہر طاقت و قوت کے ادعاء سے بری ہوں اور طاقت و قوت تیرے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے میں ان تمام لوگوں سے بھی بری ہوں جو ہمارے حق سے زیادہ دعویٰ کرتے ہیں اور ان سے بھی بری ہوں جو وہ کہتے ہیں جو ہم نے اپنے بارے میں نہیں کیاہے۔
خدایا خلق و امر تیرے لئے ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
خدایا ! تو ہمارا بھی خالق ہے اور ہمارے آباء و اجداد کا بھی خالق ہے۔
خدایا ربوبیت کے لئے تیرے علاوہ کوئی سزاوار نہیں ہے اور الوہیت تیرے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے۔
خدایا ان نصاریٰ پر لعنت فرما جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹا دیا اور ایسے ہی تمام عقیدہ والوں پر لعنت فرما۔
خدایا ہم تیرے بندے اورتیرے بندوں کی اولاد ہیں، تیرے بغیر اپنے واسطے نفع، نقصان، موت و حیات اور حشر و نشر کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔
خدایا ! جس نے یہ خیال کیا کہ ہم ارباب ہیں ہم ان سے بیزار ہیں اور جس نے یہ کہا کہ تخلیق ہمارے ہاتھ میں ہے یا رزق کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ہم اس سے بھی بیزار ہیں جس طرح عیسیٰ (ع) نصاریٰ سے بیزار تھے۔
خدایا ہم نے انھیں ان خیالات کی دعوت نہیں دی ہے لہذا ان کے مہملات کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا اور ہمیں معاف کردینا ۔
خدایا زمین پر ان کافروں کی آبادیوں کو باقی نہ رکھنا کہ اگر یہ رہ گئے تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی فاجر اور کافر ہوگی۔( الاعتقادات ، صدوق (ر) ص 99)۔
غالیوں کا کفر
1248۔ رسول اکرم ! میری امت کے دو گروہ ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارے اہلبیت(ع) سے جنگ کرنے والے اور دین میں غلو کرکے حد سے باہر نکل جانے والے۔( الفقیہ 3 ص 408 / 2425)۔
1249۔ امام صادق (ع)! کم سے کم وہ بات جو انسان کو ایمان سے باہر نکال دیتی ہے یہ ہے کہ کسی غالی کے پاس بیٹھ کر اس کی بات سنے اور پھر تصدیق کردے۔
میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد ماجد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایاہے کہ میری امت کے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے غالی اور قدریہ ۔( خصال 72 / 109 روایت سالم)۔
غالی:
وہ لوگ جو کسی بھی ہستی کو اس کی حد سے آگے بڑھادیتے ہیں اور بندہ کے بارے میں خالق و رازق ہونے کا عقیدہ پیدا کرلیتے ہیں۔
قدریہ
جو لوگ کہ خیر و شر سب کا ذمہ دار خدا کو قرار دیتے ہیں یا بقولے تقدیر الہی کے سرے سے منکر ہیں۔
تشبیہ
جو لوگ خالق کو مخلوق کی شبیہ اور اس کے صفات کو مخلوقات کے صفات جیسا قرار دیتے ہیں انھیں مشبہ کہا جاتاہے۔
تفویض
کائنات کے تمام اختیارات کو بندہ کے حوالہ کرکے خدا کو معطل کردینا۔
1250۔ امام (ع) صادق نے مفضل سے ابوالخطاب کے اصحاب اور دیگر غالیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، مفضل ! خبردار ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور مصافحہ و تعلقات نہ رکھنا ۔( رجال کشی (ر) 2 ص 586 / 525)۔
1251۔ امام صادق (ع)! خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے کہ وہ میرے والد پر بہتان باندھتا تھا، خدا نے اسے لوہے کا مزہ چھکادیا، خدا ان تمام افراد پر لعنت کرے جو ہمارے بارے میں وہ کہیں جو ہم خود نہیں کہتے ہیں اور خدا ان افراد پر لعنت کرے جو ہمیں اس اللہ کی بندگی سے الگ کردیں جس نے ہماری تخلیق کی ہے اور جس کی بارگاہ میں ہم کو واپس جاناہے اور جس کے قبضہ قدرت میں ہماری پیشانیاں ہیں۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 542 روایت ابن مسکان)۔
1252۔ ہاشم جعفری ! میں نے امام رضا (ع) سے غالیوں اور تفویض والوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ غالی کافر ہیں اور تفویض کرنے والے مشرک ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھتا ہے یا کھاتا پیتاہے یا تعلقات رکھتاہے یا شادی بیاہ کا رشتہ کرتاہے یا انھیں پناہ دیتاہے یا ان کے پاس امانت رکھتاہے یا ان کی بات کی تصدیق کرتاہے یا ایک لفظ سے ان کی مدد کرتاہے وہ ولایت خدا ولایت رسول اور ولایت اہلبیت (ع) سے خارج ہے۔ ( عیون اخبار الرضا 2 ص 203 / 4)۔
1253۔ حسین بن خالد امام رضا (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص تشبیہ اور جبر کا عقیدہ رکھتاہے وہ کافر و مشرک ہے اور ہم دنیا و آخرت میں اس سے بیزار ہیں ابن خالد ! ہماری طرف سے تشبیہ اور جبر کے بارے میں غالیوں نے بہت سی روایتیں تیار کی ہیں اور ان کے ذریعہ عظمت پروردگار کو گھٹایا ہے لہذا جو ان سے محبت کرے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے وہی ہمارا دوست ہے، جو ان کا موالی ہے وہ ہمارا عدو ہے اور جو ان کا عدو ہے وہی ہمارا موالی ہے جس نے ان سے تعلق رکھا اس نے ہم سے قطع تعلق کیا اور جس نے ان سے قطع تعلق کیا اس نے ہم سے تعلق پیدا کیا ۔
جس نے ان سے بدسلوکی کی اس نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا اور جس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس نے ہمارے ساتھ برا سلوک کیا ، جس نے ان کا احترام کیا اس نے ہماری توہین کی اور جس نے ان کی توہین کی اس نے ہمارا احترام کیا ، جس نے انھیں قبول کرلیا اس نے ہمیں رد کردیا اور جس نے انھیں رد کردیا اس نے ہمیں قبول کرلیا، جس نے ان کے ساتھ احسان کیا اس نے ہمارے ساتھ برائی کی اور جس نے ان کے ساتھ برائی کی اس نے ہمارے ساتھااحسان کیا ، جس نے ان کی تصدیق کی اس نے ہماری تکذیب کی اور جس نے ان کی تکذیب کی اس نے ہماری تصدیق کی ، جس نے انھیں عطا کیا اس نے ہمیں محروم کیا اور جس نے انھیں محروم کیا اس نے ہمیں عطا کیا ۔
فرزند خالد ! جو ہمارا شیعہ ہوگا وہ ہرگز انھیں اپنا دوست اور مددگار نہ بنائے گا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 143 / 45 ، التوحید ص 364 ، الاحتجاج 2 ص 400)۔
غالیوں کی ہلاکت
1254۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، حد سے زیادہ تعریف کرنے والا اور بیہود ہ افترا پردازی کرنے والا۔( السنتہ لابن ابی عاصم 475 / 1005)۔
1255۔ امام علی (ع)! میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے، افراط کرنے والا غالی اور دشمنی رکھنے والا کینہ پرور، (فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 571 / 964 روایت ابن مریم ، نہج البلاغہ حکمت نمبر 117 ، خصائص الائمہ ص 124 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 20 ص 220)۔
1256۔ امام علی (ع) عنقریب میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوجائیں گے، افراط کرنے والا دوست جسے محبت غیر حق تک کھینچ لے جائے گی اور گھٹانے والا دشمن جسے بغض ناحق خیالات تک لے جائے گا، میرے بارے میں بہترین افراد اعتدال والے ہیں لہذا تم سب اسی راستہ کو اختیار کرو۔ ( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 127)۔
1257۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! تمھارے اندر ایک عیسیٰ (ع) بن مریم کی مشابہت بھی ہے کہ انھیں قوم نے دوست رکھا تو دوستی میں اس قدر افراط سے کام لیا کہ بالآخر ہلاک ہوگئے اور ایک قوم نے دشمنی میں اس قدر زیادتی کی کہ وہ بھی ہلاک ہوگئے، ایک قوم حد اعتدال میں رہی اور اس نے نجات حاصل کرلی ، ( امالی طوسی (ر) ص 345 روایت عبید اللہ بن علی ، تفسیر فرات ص 404 کشف الغمہ 1 ص 321)۔
1258۔ امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم نے فرمایا کہ تم میں ایک عیسیٰ (ع) کی مثال بھی پائی جاتی ہے کہ یہودیوں نے ان سے دشمنی کی تو ان کی ماں کے بارے میں بکواس شروع کردی اور نصاریٰ نے محبت کی تو انھیں وہاں پہنچا دیا جو ان کی جگہ نہیں تھی۔
دیکھو میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوں گے، حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو میری وہ تعریف کرے گاجو مجھ میں نہیں ہے اور مجھ سے دشمنی کرنے والا جسے عداوت الزام تراشی پر آمادہ کردے گی ۔( مسند ابن حنبل 1 ص 336 / 1376 ، صواعق محرقہ ص 123 ، مسند ابویعلیٰ 1 ص 274 / 530 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 237 / 742 ، امالی طوسی (ر) 256 / 462 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 63 / 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 560۔
غلو کی جعلی روایات
1259۔ ابراہیم بن ابی محمود ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! ہمارے پاس امیر المومنین (ع) کے فضائل اور آپ کے فضائل میں بہت سے روایات میں جنھیں مخالفین نے بیان کیا ہے اور آپ حضرات نے نہیں بیان کیاہے کیا ہم ان پر اعتماد کرلیں؟
فرمایا ابن ابی محمود، مجھے میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد اور اپنے جد کے حوالہ سے بتایا ہے کہ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی بات پر اعتماد کیا گویا اس کا بندہ ہوگیا، اب اگر متکلم اللہ کی طرف سے بول رہاہے تو یہ اللہ کا بندہ ہوگا اوراگر ابلیس کی بات کہہ رہاہے تو یہ ابلیس کا بندہ ہوگا۔
اس کے بعد فرمایا، ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں بہت روایات وضع کی ہیں اور انھیں تین قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک حصہ غلو کاہے، دوسرے میں ہمارے امر کی توہین ہے اور تیسرے میں ہمارے دشمنوں کی برائیوں کی صراحت ہے۔
لوگ جب غلو کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ربوبیت کے قائل ہیں اور جب تقصیر کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے بارے میں یہی عقیدہ قائم کرلیتے ہیں اورجب ہمارے دشمنوں کی نام بنام برائی سنتے ہیں تو ہمیں نام بنام گالیاں دیتے ہیں جبکہ پروردگار نے خود فرمایا ہے کہ غیر خدا کی عبادت کرنے والوں کے معبودوں کو برا نہ کہو ورنہ وہ عداوت میں بلاکسی علم کے خدا کو بھی برا کہیں گے۔
ابن ابی محمود! جب لوگ داہنے بائیں جارہے ہوں تو جو ہمارے راستہ پر رہے گا ہم اس کے ساتھ رہیں گے اور جو ہم سے الگ ہوجائیگا ہم اس سے الگ ہوجائیں گے، کم سے کم وہ بات جس سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتاہے یہ ہے کہ ذرہ کو گٹھلی کہہ دے اور اسی کو دین بنالے اور اس کے مخالف سے برات کا اعلان کردے۔
ابن ابی محمو د! جو کچھ میں نے کہا ہے اسے یاد رکھنا کہ اسی میں نے دنیا و آخرت کا سارا خیر جمع کردیاہے۔(عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 304 / 63، بشارة المصطفیٰ ص 221)۔
|