ظلم پر تنبیہ
1102۔ رسول اکرم ! ویل ہے میرے اہلبیت(ع) کے دشمنوں کے لئے جو ان پر اپنے کو مقدم رکھتے ہیں ، انھیں نہ میری شفاعت حاصل ہوگی اور نہ میرے پروردگار کی جنت کو دیکھ سکیں گے۔( امالی شجری 1 ص 154)۔
1103۔ رسول اکرم (ع)! اس پر اللہ کا شدید غضب ہوگا جو میری عترت کے بارے میں مجھے ستائے گا ۔( کنز العمال 12 ص 93 / 34143، الجامع الصغیر 1 ص 158 / 1045)۔
1104۔ رسول اکرم ! اس پر میرا اور اللہ کا غضب شدید ہوگا جو میرا خون بہائے گا اور مجھے میری عترت کے بارے میں ستائے گا ۔( امالی صدوق (ر) ص 377 / 7 ، الجعفریات ص 183 روایت اسماعیل بن موسیٰ ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 27 / 11 ، مقتل الحسین خوارزمی 2 ص 84 ، صحیفة الرضا (ع) ص 155 / 99، روایت احمد بن عامر الطای ، مسند زید ص 465 ، ذخائر العقبئ ص 39 )۔
1105۔ رسول اکرم ۔ ایہا الناس ! کل میرے پاس اس انداز سے نہ آنا کہ تم دنیا کو سمیٹے ہوئے ہو اور میرے اہلبیت(ع) پریشان حال ، مظلوم ، مقہور ہوں اور ان کا خون بہہ رہا ہو۔( خصائص الائمہ ص 74)۔
1106۔ رسول اکرم ! جس نے میرے اہلبیت (ع) کو برا بھلا کہا میں اس سے بری اور بیزار ہوں ۔( ینابیع المودہ 2 ص 378 / 74)۔
1107۔ رسول اکرم ! جس نے مجھے میرے اہل کے بارے میں اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ہے۔( کنز العمال 12 ص 103 / 34197 از ابونعیم)۔
1108۔ رسول اکرم ! چھ افراد ہیں جن پر میری بھی لعنت ہے اور خدا کی بھی لعنت ہے اور ہر نبی کی لعنت ہے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا ، قضا و قدر کا انکار کرنے والا، لوگوں پر زبردستی حاکم بن کر صاحب عزت کو ذلیل اور ذلیلوں کو صاحب عزّت بنانے والا، میری سنت کو ترک کردینے والا، میری عترت کے بارے میں حرام خدا کو حلال بنالینے والا اور حرم خدا کی بے حرمتی کرنے والا ۔( مستدرک حاکم 2 ص 572 / 3940 روایت عبیداللہ بن عبدالرحمان بن عبداللہ بن موہب ، المعجم الکبیر 3 ص 126 / 2883 ، المعجم الاوسط 2ص 186 / 1667 ، روایت عائشہ، شرح الاخبار 1 ص 494 / 878 روایت سفیان ثوری، خصال صدوق (ر) 338 / 41 روایت عبداللہ بن میمون)۔
1109۔ رسول اکرم ! پانچ افراد ہیں جن پر میری بھی لعنت ہے اور ہر نبی کی لعنت ہے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا، میری سنت کا ترک کرنے والا ، قضائے الہی کا انکار کرنے والا میری عترت کی حرمت کو ضائع کرنے والا، مال غنیمت پر قبضہ کرکے اسے حلال کرلینے والا ۔( کافی 2 ص293 / 14 روایت میسّر)۔
1110۔ زید بن علی (ع) ! اپنے والد بزرگوار کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) نے مسجد میں روز جمعہ عمر بن الخطاب کو منبر پر دیکھا تو فرمایا کہ میرے باپ کے منبر پر سے اترآ۔ تو عمر رونے لگے اور کہا فرزند سچ کہتے ہو، یہ تمھارے باپ کا منبر ہے، میرے باپ کا نہیں ہے۔
حضرت علی (ع) نے واقعہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ میں نے نہیں سکھایاہے! عمر نے کہا یہ سچ ہے، ابوالحسن ! میں آپ کو الزام نہیں دے رہاہوں، یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے اور آپ کو منبر پر لے جاکر پہلو میں بٹھایا اور خطبہ شروع کیا اور کہا ! ایہا الناس ! میں نے تمھارے پیغمبر کو یہ کہتے سناہے کہ مجھے میری عترت و ذریت کے ذیل میں محفوظ رکھو، جو ان کے ذیل میں مجھے محفوظ رکھے گا خدا اس کی حفاظت کرے گا اور جو ان کے بارے میں مجھے اذیت دے گا اس پر خدا کی لعنت، خدا کی لعنت، خدا کی لعنت۔( امالی طوسی (ر) ص 703 / 1504)۔
1111۔ رسول اکرم ! پروردگار کا غضب یہودیوں پر شدید ہوا کہ عزیز کو اس کا بیٹا بنادیا اور نصاریٰ پہ شدید ہوا کہ مسیح کو بیٹا بنادیا اور اس پر بھی شدید ہوگا جو میرا خون بہائے گا اور مجھے میری عترت کے بارے میں ستائے گا ۔( کنز العمال 1 ص 267 / 1343 روایت ابوسعید خدری)۔
1112۔ ابوسعید خدری ! جب جنگ احد میں رسول اکرم کا چہرہ زخمی ہوگیا اور دندان مبارک ٹوٹ گئے تو آپ نے ہاتھ اٹھاکر فرمایا خدا کا غضب یہودیوں پر شدید ہوا جب عزیز کو اس کا بیٹا بنادیا اور عیسائیوں پر شدید ہوا جب مسیح کو اس کا بیٹا بنادیا اور اب اس پر شدید ہوگا جس نے میرا خون بہایا اور مجھے میری عترت کے بارے میں اذیت دی ۔( امالی طوسی (ر) 142 / 231 ، تفسیر عیاشی 2ص 86 / 43 ، بشارة المصطفیٰ ص 280 روایت فضل بن عمرو، کنز العمال 10 ص 435 / 30050 نقل از ابن النجار)۔
ظالم پر جنّت کا حرام ہونا
1113۔ رسول اکرم ! پروردگار نے جنت کو حرام قرار دیدیاہے اس پر جو میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرے۔ ان سے جنگ کرے ، ان پر حملہ کرے یا انھیں گالیاں دے۔ (ذخائر العقبئص 20 ، ینابیع ا لمودہ 2 ص 119 / 344)۔
1114۔ رسول اکرم ! میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرنے والوں اور میری عترت کے بارے میں مجھے اذیت دینے والوں پر جنت حرام ہے۔( تفسیر قرطبی 16 ص 22 ، کشاف 3 ص 402 ، سعد السعود ص 141 ، کشف الغمہ 1 ص 106 ، لباب الانساب 1 ص215 ، العمدة ص 53 ، فرائد السمطین 2 ص 278 / 542۔
واضح رہے کہ کشف الغمہ نے عترتی کے بجائے عشیرتی نقل کیا ہے جو غالباً اشتباہ ہے۔
1115۔ رسول اکرم ، جنت حرام کردی گئی ہے اس پر جو میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرے، ان سے جنگ کرے، ان کے خلاف کسی کی مدد کرے اور انھیں برا بھلا کہے ” ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصّہ نہیں ہے اور نہ خدا ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف رخ کرے گا اور نہ انھیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہوگا، آل عمران آیت 77 ( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 34 / 65 امالی طوسی 164 / 272 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 120۔
1116۔ امام علی (ع) ! خدا کی قسم میں اپنے انھیں کوتاہ ہاتھوں سے تمام اپنے دشمنوں کو حوض کوثر سے ہنکاؤں گا اور تمام دوستوں کو سیراب کروں گا ۔( بشارة المصطفیٰ ص 95 روایت ابوالاسود الدئلی ، کشف الغمہ 2 / 15)۔
1117۔ امام علی (ع) ! میں رسول اکرم کے ہمراہ حوض کوثر پر ہوں گا اور میری عترت میرے ہمراہ ہوں گی اور ہم سب اپنے دشمنوں کو ہنکائیں گے اور اپنے دوستوں کو سیراب کریں گے اور جو شخص ایک گھونٹ پی لے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہوگا۔( غرر الحکم ص 3763 ، تفسیر فرات کوفی 367 / 499)۔
1118۔ انس بن مالک ! میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جب سورہٴ کوثر نازل ہوچکا تھا اور میں نے دریافت کیا حضور یہ کوثر کیا ہے؟ فرمایا جنت میں ایک نہر ہے جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے، کوئی اس سے پینے والا پیاسا نہ ہوگا اور کوئی اس سے منہ دھونے والا غبار آلود نہ ہوگا لیکن وہ شخص سیراب نہیں ہوسکتا جس نے میرے عہد کو توڑ دیا ہے اور میرے اہلبیت (ع) کو قتل کیاہے۔( المعجم الکبیر 3 ص 126 / 2882)۔
1119۔ علی بن ابی طلحہ غلام بنئامیہ ! معاویہ بن ابی سفیان نے حج کیا اور اس کے ساتھ معاویہ بن خدیج بھی تھا جو سب سے زیادہ علی (ع) کو گالیاں دیا کرتا تھا مدینہ میں مسجد پیغمبر کے پاس سے گذرا تو حسن (ع) چند افراد کے ساتھ بیٹھے تھے، لوگوں نے کہا کہ یہ معاویہ بن خدیج ہے جو حضرت علی (ع) کو گالیاں دیتاہے فرمایا اسے بلاؤ؟ ایک شخص نے آکر بلایا، اس نے کہا کس نے بلایا ہے؟ کہا حسن (ع) بن علی (ع) نے۔
وہ آیا اور آکر سلام کیا، حضرت حسن (ع) بن علی (ع) نے کہا کہ تیرا ہی نام معاویہ بن خدیج ہے؟
اس نے کہا بیشک …؟
فرمایا تو ہی حضرت علی (ع) کو گالیاں دیتاہے؟
وہ شرمند ہ ہوکر خاموش ہوگیا
آپ نے فرمایا ، آگاہ ہوجا کہ اگر تو حوض کوثر پر وارد ہوا جس کا کوئی امکان نہیں ہے تو دیکھے گا کہ حضرت علی (ع) کمر کو کسے ہوئے منافقین کو یوں ہنکار ہے ہوں گے جس طرح چشمہ سے اجنبی اونٹ ہنکائے جاتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ ” رسوائی اور ناکامی افترا پردازوں کا مقدر ہے“۔ سورہ طٰہ آیت 61 ( المعجم الکبیر 3 ص 91/ 2758 ، سیر اعلام النبلاء 3 ص 39)۔
ظالم کا عذاب
1120۔ رسول اکرم ! ویل ہے میرے اہلبیت(ع) کے ظالموں کے لئے ، ان پر درک اسفل میں منافقین کے ساتھ عذاب کیا جائے گا ۔ (صحیفة الرضا (ع) 122/ 80 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 47 / 177 ، مقتل الحسین (ع) خوارزمی 2 ص 83 ، مناقب ابن المغازلی 66 / 94 ، جامع الاحادیث قمی ص 128 ، ینابیع المودة 2 ص 326 / 950 ، ربیع الابرار 2 ص 828 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 743)۔
1121۔ رسول اکرم ! جنت میں تین درجات ہیں اور جہنم میں تین طبقات … جہنم کے پست ترین طبقہ میں وہ ہوگا جو دل سے ہم سے نفرت کرے اور زبان اور ہاتھ سے ہمارے خلاف دشمن کی مدد کرے اور دوسرے طبقہ میں وہ ہوگا جو دل سے نفرت کرے اور صرف زبان سے مخالفت کرے اورتیسرے طبقہ میں وہ ہوگا جو صرف دل نفرت کرے۔( محاسن ص 251 / 472 روایت ابوحمزہ ثمالی)۔
1122۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے دل سے بغض رکھے گا اور زبان او ر ہاتھ سے ہمارے خلاف امداد کرے گا وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ جہنم میں ہوگا اور جو بغض رکھ کر صرف زبان سے ہمارے خلاف امداد کرے گا وہ بھی جہنم میں ہوگا اور جو صرف دل سے بغض رکھے گا اور زبان یا ہاتھ سے مخالفت نہ کرے گا وہ بھی جہنم ہی میں ہوگا ۔( خصال 629 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، تحف العقول ص 119 ، شرح الاخبار 1 ص 165 / 120 / 3 ص 121 ، جامع الاخبار 496 / 1377 ، ص 506 / 1400)۔
1123۔ امام زین العابدین (ع) ! کربلائے معلیٰ اور امام حسین (ع) کی زیارت کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے ، پروردگار آسمان، زمین، پہاڑ ، دریا اور تمام مخلوقات کو مخاطب کرکے فرماتاہے کہ میری عزت و جلال کی قسم ! میں اپنے رسول کا خون بہانے والوں ، اس کی توہین کرنے والوں، اس کی عترت کو قتل کرنے والوں، اس کے عہد کو توڑنے والوں اور اس کے اہلبیت (ع) پر ظلم کرنے والوں پر ایسا عذاب کروں گا جو ظالمین میں کسی پر نہ کیا ہوگا ۔( کامل الزیارات ص 264 ، روایت قدامہ بن زائدہ)۔
مظالم کے بارے میں اخبار رسول
1124۔ رسول اکرم ! افسوس آل محمد کے بچوں پر کیسا ظلم ہونے والا ہے اس حاکم کی طرف سے جسے دولت کی بنیاد پر حاکم بنادیا جائے گا۔( الفردوس 4 ص 307 / 7147 ، الجامع الصغیر 2 ص 718 / 6939 نقل از ابن عساکر روایت سلمہ بن الاکوع، کنز العمال 14 ص 593 / 39679 روایت اصبغ بن نباتہ، بشارة المصطفیٰ ص 203 روایت ابوطاہر)۔
1125۔ رسول اکرم ! روز قیامت قرآن ، مسجد اور عترت اس طرح فریاد کریں گے کہ قرآن کہے گا خدایا ان لوگوں نے پارہ پارہ کیا ہے اور جلایاہے اور مسجد کہے گی خدایا انہوں نے مجھے خراب بنادیاہے اور غیر آباد چھوڑ دیاہے اور عترت کہے گی خدایا انہوں نے مجھے نظر انداز کیا ہے ، قتل کیا ہے اور آوارہ وطن کردیاہے اور میں سب کی طرف سے وکالت کے لئے گھٹنہ ٹیک دوں گا تو آواز آئے گی کہ یہ میرے ذمہ ہے اور میں اس محاسبہ کے لئے تم سے اولیٰ ہے۔( کنز العمال 11 ص 193 / 31190 نقل از طبرانی و ابن حنبل و سعید بن منصور، خصال صدوق (ر) 175 / 232 روایت جابر)۔
1126۔ رسول اکرم ! عنقریب میرے اہلبیت (ع) میرے بعد میری امت کی طرف سے قتل اور آوارہ وطنی کا شکار ہوں گے اور ان کے سب سے بدتر دشمن بنوامیہ ، بنو مغیرہ اور بنو مخروم ہوں گے۔( مستدرک حاکم 4 ص 534 / 8500 ، الملاحم والفتن ص 28 روایت ابوسعید خدری، اثبات الہداة 2 ص 263 / 177)۔
1127۔ جابر از امام باقر (ع) ! جب آیت ” یوم ندعو کل اناس بامامھم “ نازل ہوئی تو مسلمانوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ تمام لوگوں کے امام نہیں ہیں ؟ فرمایا میں تمام لوگوں کے لئے رسول ہوں اور میرے بعد میرے اہلبیت(ع) میں سے اللہ کی طرف سے کچھ امام ہوں گے جو لوگوں میں قیام کریں گے تو لوگ انھیں جھٹلائیں گے اور حکام کفر و ضلالت اور ان کے مرید ان پر ظلم کریں گے۔
اس وقت جو ان سے محبت کرے گا، ان کا اتباع کرے گا اور ان کی تصدیق کرے گا وہ مجھ سے ہوگا، میرے ساتھ ہوگا، مجھ سے ملاقات کرے گا اور جو ان پر ظلم کرے گا، انھیں جھٹلائے گا وہ نہ مجھ سے ہوگا اور نہ میرے ساتھ ہوگا بلکہ میں اس سے بری اور بیزار ہوں۔ ( کافی 1 ص 215 /1 محاسن 1ص 254 / 480 ، بصائر الدرجات 33/1)۔
1128۔ رسول اکرم ! حسن (ع) و حسین(ع) اپنی امت کے امام ہوں گے اپنے پدر بزرگوار ہے کہ بعد اور یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کی والدہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور ان کے باپ سید الوصیین ہیں اور حسین (ع) کی اولاد میں نو امام ہوں گے جن میں نواں ہماری اولاد کا قائم ہوگا ان سب کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی معصیت میری معصیت ہے۔میں ان کے فضائل کے منکر اور ان کے احترام کے ضائع کرنے والوں کے خلاف روز قیامت فریاد کروں گا اور خدا میری ولایت اور میری عترت اور ائمہ امت کی نصرت کے لئے کافر ہے اور وہی ان کے حق کے منکرون سے انتقام لینے والا ہے و سیعلم الذین ظلموا ایَّ منقلب ینقلبون ( شعراء ص 227 ،( کمال الدین ص 260 /6 فرائد السمطین 1 ص 54 / 19 روایت حسین بن خالد)۔
1129۔ جنادہ بن ابی امیہ ! میں حضرت حن(ع) بن علی (ع) کے پاس مرض الموت میں وارد ہوا جب آپ کے سامنے طشت رکھا تھا اومعاویہ کے زہر کے اثر سے مسلسل خون تھوک رہے تھے میں نے عرض کی حضور ! یہ کیا صورت حال ہے، آپ علاج کیوں نہیں کرتے؟
فرمایا: عبداللہ! موت کا کیا علاج ہے؟
میں نے کہا ” اِنَّا للہ ِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ راَجِعُون“ اس کے بعد آپ نے میری طرف رخ کرکے فرمایا یہ رسول اکرم کا ہم سے عہد ہے کہ اس امر کے مالک علی (ع) و فاطمہ (ع) کی اولاد سے کل بارہ امام ہوں گے اور ہر ایک زہریا تلوار سے شہید کیا جائے گا، اس کے بعد طشت اٹھا لیا گیا اور آپ ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔(کفایةالاثر ص 226 ، الصراط المستقیم 2 ص 128)۔
1130۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) کو دیکھ کر گریہ فرمایا اور فرمایا کہ تم میرے بعد مستضعف ہوگے۔ (معانی الاخبار 79 / 1)۔
1131۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم کا آخری وقت تھا، آپ غش کے عالم میں تھے تو فاطمہ (ع) نے رونا شروع کیا ، آپ نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ فاطمہ (ع) کہہ رہی ہیں، آپ کے بعد میرا کیا ہوگا ؟ تو فرمایا کہ تم سب میرے بعد مستضعف ہوگے ۔( دعائم الاسلام 1 ص 225 ، ارشاد 1 ص 184 ، امالی مفید (ر) 212/2 ، مسند ابن حنبل 1 ص 257 / 26940 ، المعجم الکبیر 25 ص 23 / 32)۔
1132۔ رسول اکرم نے بنی ہاشم سے فرمایا کہ تم سب میرے بعد مستضعف ہوگے(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 61 / 244 روایت حسن بن عبداللہ از امام رضا (ع) ، کفایتہ الاثر ص 118 روایت ابوایوب)۔
1133۔ ابن عباس ! حضرت علی (ع) نے رسول اکرم سے عرض کی کہ کیا آپ عقیل کو دوست رکھتے ہیں ؟ فرمایا دوہری محبت ! اس لئے بھی کہ ابوطالب ان سے محبت کرتے تھے اور اس لئے بھی کہ ان کافرزند تمھارے لال کی محبت میں قتل کیا جائے گا اور مومنین کی آنکھیں اس پر اشکبار ہوں گے اور ملائکہ مقربین نماز جنازہ ادا کریں گے، یہ کہہ کر حضرت نے رونا شروع کیا ، یہاں تک کہ آنسؤوں کی دھار سینہ تک پہنچ گئی اور فرمایا کہ میں خدا کی بارگاہ میں اپنی عترت کے مصائب کی فریاد کروں گا۔( امالی صدوق (ر) 111/3)۔
1134۔ انس بن مالک ! میں رسول اکرم کے ساتھ علی (ع) بن ابی طالب (ع) کے پاس عیادت کے لئے گیا تو وہاں ابوبکر و عمر بھی موجود تھے، دونوں ہٹ گئے اور حضور بیٹھ گئے تو ایک نے دوسرے سے کہا عنقریب یہ مرنے والے ہیں ! حضرت نے فرمایا یہ شہید ہوں گے اور اس وقت تک دنیا سے نہ جائیں گے جب تک ان کا دل رنج و الم سے مملو نہ ہوجائے ۔( مستدرک حاکم 3 ص 150 / 4673 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3ص 74 / 1118 ص 267 / 1343 )۔
1135۔ جابر ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائے گا ، پھر قتل کیا جائے اور تمھاری داڑھی تمھارے سر کے خون سے رنگین ہوگی ۔( المعجم الکبیر 2 ص 247 / 2038 ، المعجم الاوسط 7 ص 218 / 7318 ، دلائل النبوة ابونعیم ص553 / 491 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 ص 268 / 1345)۔
1136۔ عائشہ ! میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے علی (ع) کو گلے سے لگایا ، بوسہ دیا اور فرمایا ، میرے ماں باپ قربان اس یکتا شہید پر جو تنہائی میں شہید کیا جائے گا۔( مسند ابویعلی ٰ 4 ص 318 / 4558 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)3 ص 285 / 1376 ، مناقب خوارزمی ص 65 / 34 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 220)۔
1137۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم میرے ہاتھ کو پکڑے ہوئے مدینہ کی گلیوں میں چل رہے تھے کہ ہمارا گذرا ایک باغ کی طرف سے ہوا، میں نے عرض کی کہ حضور کس قدر حسین یہ باغ ہے؟
فرمایا ، تمھارے لئے جنت میں اس سے بہتر ہے ، پھر دوسرے باغ کو دیکھ کر میں نے پھر تعریف کی اور آپ نے پھر وہی فرمایا، یہاں تک کہ ہمارا گذر سات باغات کے پاس سے ہوا اور ہر مرتبہ میں نے بھی وہی کہا اور حضرت نے بھی وہی جواب دیا ۔
یہاں تک کہ جب تنہائی کی منزل تک پہنچ گئے تو آپ نے مجھے گلے سے لگایا اوربیساختہ رونے لگے ، میں نے عرض کی حضور ! یہ رونے کا سبب کیا ہے؟ فرمایا لوگوں کے دلوں میں کینے ہیں، جو میرے بعد ظاہر ہوں گے ؟
میں نے عرض کی حضور ! میرا دین سلامت رہے گا ؟
فرمایا بیشک ! ( سنن ابویعلی 1 ص 285 / 561 ، تاریخ بغداد 12 ص 398 ، مناقب خوارزمی ص 65 / 35 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)ص 321 / 827 ، 831 ، ایضاح ص 454 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 653 / 1109)۔
1138۔ رسول اکرم ! میرا فرزند حسن (ع) زہر سے شہید کیا جائے گا ۔( کتاب سلیم بن قیس 2 ص 838 روایت عبداللہ بن جعفر ، الخرائج و الجرائح 3 ص 1143 / 55 ، عوالی اللئالی 1 ص 199 / 14)۔
1139۔ ام سلمہ ! رسول اکرم ایک دن سونے کے لئے لیٹے اور پھر گھبرا کر اٹھ گئے۔
پھر لیٹ کر سوگئے پھر چونک کر اٹھ گئے ، پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی ہوا اور اب جو اٹھے تو آپ کے ہاتھوں میں ایک سرخ مٹی تھی جسے بوسہ دے رہے تھے ، میں نے عرض کی حضور ! یہ خاک کیسی ہے؟
فرمایا مجھے جبریل نے خبردی ہے کہ میرا یہ حسین (ع) سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا ، میں نے جبریل سے کہا کہ مجھے وہ خاک دکھلادو تو انھوں نے یہ مٹی دی ہے۔( مستدرک حاکم 4 ص 440 / 8202 ، المعجم الکبیر 3 ص 109 / 2821 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 173 / 221 ، اعلام الوریٰ ص 43)۔
1140۔ سحیم از انس بن حارث ، میں نے رسول اکرم سے سناہے کہ میرا یہ فرزند سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا لہذا جو اس وقت تک رہے اس کا فرض ہے کہ اس کی نصرت کرے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انس بن حارث امام حسین (ع) کے ساتھ شہید ہوگئے ۔( دلائل النبوة ابونعیم 554 / 493 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 239 / 283 ، اصابہ 1 ص 271 / 266 ، اسدالغابہ 1 ص 288 / 246 ، البدایتہ والنہایتہ 8 ص 199 ، مقتل الحسین خوارزمی 1 ص 159 ، ذخائر العقبیٰ ص 146)۔
1141۔ انس بن مالک ! فرشتہ باران نے مالک سے اذن طلب کیا کہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب اذن مل گیا تو آپ نے ام سلمہ سے فرمایا کہ دیکھو دروازہ سے کوئی داخل نہ ہونے پائے، اتنے میں حسین (ع) آگئے ام سلمہ نے روکا لیکن وہ داخل ہوگئے اور کبھی حضور کی پشت پر ، کبھی کاندھوں پر کبھی گردون پر ۔!
فرشتہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟
فرمایا بیشک ، کہا لیکن اسے تو آپ کی امت قتل کردے گی اور آپ چاہیں تو میں وہ جگر بھی دکھلادوں؟
یہ کہہ کر ہاتھ مارا اور ایک سرخ مٹی لاکر دیدی، ام سلمہ نے آپ سے لے کر چادر میں رکھ لیا۔
اس روایت کے ایک راوی ثابت کا بیان ہے کہ وہ خاک کربلا کی خاک تھی ۔( مسند ابن حنبل 4 ص 482 / 13539 ، المعجم الکبیر 3 ص 106 / 2813 ،مسند ابویعلی ٰ 3 ص 370 / 3389 ، دلائل النبوة ابونعیم 553 / 492 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 168 / 217 ، مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 160 ، ذخائر العقبیٰ ص146)۔
1142۔ام سلمہ ! ایک دن پیغمبر اسلام میرے گھر میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے فرمایا خبردار کوئی گھر میں آنے نہ پائے، میں دیکھتی رہی کہ اچانک حسین (ع) داخل ہوگئے اور میں نے رسول اکرم کی صدائے گریہ سنی ، اب جو دیکھا تو حسین (ع) آپ کی گود میں تھے اور پیغمبر ان کی پیشانی کو پونچھ رہے تھے، میں نے عرض کی کہ مجھے نہیں معلوم ہوسکا کہ یہ کب آگئے، آپ نے فرمایا کہ جبریل یہاں حاضر تھے، انھوں نے پوچھا کیا آپ حسین (ع) سے محبت کرتے ہیں ؟
میں نے کہا بیشک !
جبرئیل نے کہا مگر آپ کی امت اسے کربلا نامی زمین پر قتل کردے گی اور انھوں نے یہ خاک بھی دکھلائی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حسین (ع) نزغہ میں گھر کر اس سرزمین پر پہنچے تو دریافت کیا کہ اس زمین کا نام کیا ہے؟
اور جب لوگوں نے کربلا بتایا تو فرمایا کہ خدا و رسول نے سچ فرمایاہے” یہ کرب و بلا کی زمین ہے“ ۔( المعجم الکبیر 3 ص 108 / 2819)۔
1143۔ عبداللہ بن بخی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ حضرت علی (ع) کے ہمراہ سفر تھے اور طہارت کے منتظم تھے، جب صفین جاتے ہوئے آپ نینویٰ پہنچے تو آپ نے فرمایا ۔ عبداللہ صبر ، ابوعبداللہ صبر !
میں نے عرض کی حضور یہ کیا ہے ؟
فرمایا کہ میں ایک دن رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، میں نے عرض کی حضور خیر تو ہے کیا کسی نے اذیت دی ہے؟
فرمایا ابھی میرے پاس سے جبریل گئے ہیں اور یہ بتاکر گئے ہیں کہ میرا حسین (ع) فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا اور اگر آپ چاہیں تو میں وہ خاک دکھلا سکتاہوں اور یہ کہہ کر ایک مٹھی خاک مجھے دی اور میں اسے دیکھ کر ضبط نہ کرسکا۔( مسند احمد بن حنبل العقبئ ص 184 /648 ، المعجم الکبیر 3 ص 105 / 2811 ، مسند ابویعلی ٰ 1 ص 206 / 358 ، ذخائر العقبئٰ ص 148، مناقب کوفی 2ص 253 /19 ، الملاحم والفتن ص 104 باب 24 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص165 ۔ 171)
1144۔ محمد بن عمرو بن حسن ! میں حسین (ع) کے ساتھ نہر کربلا کے کنارہ تھا کہ آپ نے شمر کو دیکھ کر فرمایا کہ خدا و رسول نے سچ فرمایا تھا جب رسول اکرم نے خبردی تھی کہ میں کتے کو دیکھ رہاہوں جو میرے اہلبیت(ع) کے خون کو چاٹ رہاہے، اور شمر مبروص تھا۔( الخصائص الکبریٰ السیوطی 2 ص 125)۔
1145۔ امام علی (ع)! رسول اکرم ہمارے گھر تشریف لے آئے تو ہم نے حلوہ تیار کیا اور ام سلمہ نے ایک کاسہ شیر ، مکھن اور کھجور فراہم کیا ، ہم سب نے مل کر کھایا ، میں نے حضرت کا ہاتھ دھلایا، آپ نے روبقبلہ ہوکر دعا فرمائی اور پھر زمین کی طرف جھک کر بے ساختہ رونے لگے، ہم گھبرا گئے کہ کس طرح دریافت کریں اچانک حسین (ع) آگئے اور بڑھ کر کہا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟
فرمایا آج تمھارے بارے میں وہ سناہے جو کبھی نہ سنایا گیا تھا۔
ابھی جبریل امین آئے تھے اور انھوں نے بتایا کہ تم سب قتل کئے جاؤگے اور سب کے مقتل بھی الگ الگ ہوں گے ، میں نے تمھارے حق میں دعا کی اور میں اس خبر سے مخزون ہوگیا ۔
حسین (ع) نے عرض کی کہ جب سب الگ الگ ہوں گے تو ہماری قبر کی زیارت اور نگرانی کون کرے گا ؟
فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہوگا جو میرے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہے گا اور جب روز قیامت ہوگا اس گروہ کو دیکھ کر اس کا بازو تھام کر اسے ہول و مصیبت محشورسے نجات دلاؤں گا۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 2 ص 166 ، بشارة المصطفیٰ ص 195 روایت محمد بن الحسین ازامام زین العابدین (ع) ، اعلام الوریٰ ص 44)۔
مظالم بر اہلبیت (ع)
1146۔ امام حسن (ع)! امیر المومنین (ع) کی شہادت کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے میرے جد رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ اسرار امامت کے ذمہ دار میرے اہلبیت(ع) میں سے بارہ افراد ہوں گے اور سب قتل کئے جائیں گے یا انھیں زہر دیا جائیگا ، (کفایتہ الاثر ص 160 روایت ہشام بن محمد)۔
1147 ۔ امام علی (ع)! … یہاں تک کہ جب پروردگار نے اپنے رسول کو بلالیا تو ایک قوم الٹے پاؤں پلٹ گئی اور انھیں مختلف راستوں نے ہلاک کردیا اور انھوں نے اندرونی جذبات پر اعتماد کیا اور غیر قرابتدار کے ساتھ تعلق پیدا کیا اور جس سے مودت کا حکم دیا گیا تھا اسے نظر انداز کردیا، عمارت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ تعمیر کردیا، یہ لوگ ہر غلط بات کا معدن تھے اور ہر ہلاکت میں پڑ جانے والے کے دروازہ تھے۔( نہج البلاغہ خطبہ 150)۔
1148۔ منہال بن عمرو ! معاویہ نے امام حسن (ع) سے مطالبہ کیا کہ منبر پر جاکر اپنا نسب بیان کریں، آپ نے منبر پر جاکر حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ۔
” قریش سارے عرب پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں اور عرب عجم پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں اور عجم بھی عرب کا احترام کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں لیکن افسوس کہ سب دوسروں سے ہمارے حق کا مطالبہ کررہے ہیں اور خود ہمارا حق نہیں دے رہے ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 12)۔
1149۔ حبیب بن یسار ! امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد زید بن ارقم دروازہ مسجد پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگوں نے یہ کام کیا ہے، میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے خود رسول اکرم کو یہ فرماتے سناہے کہ میں تم دونوں (حسن(ع) و حسین (ع) ) اور صالح المومنین کو خدا کے حوالہ کررہاہوں۔
لوگوں نے ابن زیاد سے کہا کہ زید بن ارقم یہ حدیث بیان کررہے ہیں ؟ اس نے کہا کہ بوڑھے ہوگئے ہیں اور عقل چلی گئی ہے۔( المعجم الکبیر 5 ص 185 / 5037 امالی طوسی (ر) ص 252 / 450 ، شرح الاخبار 3 ص 170 / 1116 ۔ 1117)۔
1150۔ یعقوبی جناب فاطمہ (ع) کی وفات کے ذیل میں بیان کرتاہے کہ زنان قریش اور ازواج پیغمبر آپ کے پاس آئیں اور مزاج دریافت کیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں تمھاری دنیا سے بیزار ہوں اورتمھارے فراق سے خوش ہوں، میں خدا و رسول سے ملاقات کروں گی اس حال میں کہ تمھاری طرف سے رنج و غم لے کر جارہی ہوں ، میرے حق کا تحفظ نہیں کیا گیا اور میرے ذمہ کی رعایت نہیں کی گئی ، نہ وصیت پیغمبر کو قبول کیا گیا ہے اور نہ ہماری حرمت کو پہنچانا گیا ہے۔( تاریخ یعقوبی 2 ص115)۔
1151۔ اما م حسین (ع) جب جناب فاطمہ (ع) کا انتقال ہوا اور امیر المومنین (ع) نے خاموشی سے انھیں دفن کرکے نشانِ قبر کو مٹا دیا تو مڑ کر قبر رسول کو دیکھا اور آواز دی ” سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول ، میرا اور آپ کی اس دختر کا جو آپ کے پاس آرہی ہے اور آپ سے ملاقات کے لئے تہہ خاک آرام کررہی ہے پروردگار نے بہت جلد اسے آپ سے ملادیا ، لیکن اب میرا صبر بہت دشوار ہے اور میری قوت برداشت ساتھ چھوڑ رہی ہے ، میں صرف آپ کے فراق کو دیکھ کر دل کو تسلی دے رہاہوں کہ میں نے آپ کو بھی سپرد خاک کیاہے اور آپ نے میرے سینہ پر سر رکھ کر دنیا کو خیر باد کہاہے۔ اِنَّا للہ ِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ لیجئے آپ کی امانت واپس ہوگئی اور فاطمہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئیں ۔ اب یہ آسان و زمین کس قدر بڑے نظر آرہے ہیں یا رسول اللہ ! اب میرا حزن و ملال دائمی ہے اور میری راتیں صرف بیداری میں گذریں گی، یہ رنج میرے دل سے جانے والا نہیں ہے جب تک میں بھی آپ کے گھر نہ آجاؤں بڑادر دناک غم ہے اور بڑا دل دکھانے والا درد ہے، کتنی جلدی ہم میں جدائی ہوگئی ، اب اللہ ہی سے اس کی فریاد ہے، عنقریب آپ کی بیٹی بیان کرے گا کہ آپ کی امت نے اس کا حق مارنے پر کس طرح اتفاق کرلیا تھا، آپ اس سے دریافت کریں اور مکمل حالات معلوم کرلیں، کتنے ہی ایسے رنجیدہ دستم رسیدہ ہیں جن کے پاس عرض حال کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے ، عنقریب فاطمہ (ع) سب بیان کریں گی اور خدا فیصلہ کرے گا کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والاہے۔
یہ الوداع کہنے والے کا سلام ہے جو نہ رنجیدہ ہے اور نہ بیزار ، اب اگر آپ سے رخصت ہورہاہے تو کسی ملال کی بناپر نہیں ہے اور اگر یہیں رہ جاؤں تو یہ صابرین سے ہونے والے وعدہ سے بدظنی کی بناپر نہیں ہے۔( کافی 1 ص 459 / 3 ، امالی مفید (ر) ص 281 / 7، امالی طوسی (ر) 109 / 166 ، بشارة المصطفیٰ ص 258 روایت علی بن محمد الہرمزانی ، نہج البلاغہ خطبہ نمبر 202)۔
1152۔ عبدالرحمان بن ابی نعم ! ایک مرد عراقی نے عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ اگر کپڑے میں مچھر کا خون لگ جائے تو کیا کرنا ہوگا؟ تو ابن عمر نے کہا کہ ذرا اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کررہاہے جبکہ ان عراقیوں نے فرزند رسول کا خون بہادیاہے جس کے بارے میں میں نے خود رسول اکرم سے سناہے کہ حسن (ع) و حسین (ع) اس دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔( سنن ترمذی 5 ص 657 / 3770 ، مسند ابن حنبل 2 ص 405 / 5679 ، ص 452 / 5947 ، الادب المفرد 38 / 85 ، المعجم الکبیر 3 ص 127 / 2884 ، ذخائر العقبئ ص 124 ، مسند ابویُعلیٰ 5 ص 287 / 5713 ، اسد الغابہ ص 2 / 26 ، امالی صدوق 123 /12 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 75 ، صحیح بخاری 3 ص 371 / 3543 ، خصائص نسائی ص 259 / 144 ، الادب المفرد 259 / 144 ، انساب الاشراف 3 ص 227 / 85 ، حلیة الاولیاء 5 ص 70 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 36 / 58 ، 60)۔
1153۔ منہال بن عمرو ! میں امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کرکے مزاج دریافت کیا تو فرمایا کہ تم شیعہ ہوکہ ہمارے صبح و شام سے باخبر نہیں ہو؟ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آل فرعون کے درمیان بنئ اسرائیل کی مثال ہیں کہ ان کے بچوں کو ذبح کیا جارہا تھا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ رسول اکرم کے بعد بہترین خلائق کو منبروں سے گالیاں دی جارہی ہیں اور ان کے سب و شتم پر اموال عطا کئے جارہے ہیں ، ہمارے چاہنے والوں کے حقوق اس محبت کے جرم میں پامال کئے جارہے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ سارے عرب کے درمیان قریش کا احترام ہورہاہے کہ پیغمبران میں سے ہیں اور اس طرح لوگوں سے ہمارا حق لیا جارہاہے اور ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جارہاہے آؤ ، آؤدیکھو یہ ہیں ہمارے صبح و شام ( جامع الاخبار 238 / 607 ، تفسیر قمی 1ص 134 روایت عاصم بن حمید عن الصادق (ع) ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 169 ، مشیر الاحزان ص 105)۔
1154۔ امام باقر (ع) ! جو شخص بھی ہمارے اوپر ہونے والے ظلم ، ہمارے حق کی پامالی اور ہماری پریشانیوں کو نہ پہچانے وہ بھی ان لوگوں کا شریک ہے جنھوں نے ہمارے اوپر ظلم ڈھائے ہیں۔( ثواب الاعمال ص 248 / 6 روایت جابر)۔
1155۔ منہال بن عمرو ! میں امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے سلام کرکے مزاج دریافت کیا ؟ فرمایا کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیاہے کہ تم ہمارے حالات کا اندازہ کرسکو جب کہ ہماری مثال امت میں بنئ اسرائیل جیسی ہے جن کے بچے ذبح کردیے جاتے تھے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور یہی حال اب ہمارا ہے کہ ہمارے بچوں کو ذبح کردیا جاتاہے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتاہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب نے عجم پر برتری کا اظہار کیا اور جب انھوں نے دلیل پوچھی تو کہا کہ محمد عرب تھے اور سب نے تسلیم کرلیا، اس کے بعد قریش نے عرب پر اپنی فضیلت کا اظہار کیا اور انھوں نے بھی یہی دلیل بیان کی کہ محمد ہم میں سے تھے اور سب نے مان لیا، تو اگر بات یہی ہے تو گویا ہمارا سب پر احسان ہے کہ ہم رسول اکرم کی ذریّت اور ان کے اہلبیت (ع) ہیں اور اس میں ہمارا کوئی شریک نہیں ہے۔
یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں تو آپ اہلبیت (ع) سے محبت کرتاہوں، فرمایا اگر ایسا ہے تو بلاء کی چادر اختیار کرلو کہ بلاء کی رفتار ہماری اور ہمارے چاہنے والوں کی طرف وادی کے سیلاب سے زیادہ تیزتر ہے، بلائیں پہلے ہم پر نازل ہوتی ہیں اور اس کے بعد تم پر اور سکون و آرام کا آغاز بھی پہلے ہم سے ہوگا ، اس کے بعد تم کو حاصل ہوگا۔( امالی طوسی (ر) 154 / 255 ، بشارة المصطفیٰ ص 89)۔
1156۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت ابوجعفر محمد بن علی (ع) نے بعض اصحاب سے فرمایا کہ تمھیں اندازہ ہے کہ قریش نے ہم پر کس طرح ظلم اور ہجوم کیاہے اور ہمارے شیعوں اور دوستوں نے کس قدر مظالم کا سامنا کیا ہے؟ رسول اکرم یہ فرماکر دنیا سے گئے تھے کہ ہم تمام لوگوں سے اولیٰ ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام قریش نے ہمارے خلاف اتفاق کرلیا اور خلافت کو اس کے مرکز سے جدا کردیا ، ہمارے حق اور ہماری محبت کے ذریعہ انصار کے سامنے استدلال کیا اور پھر خود ہی قبضہ کرلیا اور ایک دوسرے کے حوالہ کرتا رہا یہانتک کہ جب خلافت پلٹ کر ہمارے گھر آئی تو قریش نے بیعت کر توڑ کر جنگ کا بازار گرم کردیا اور صاحب امر انھیں مصائب کا سامنا کرتے کرتے شہید کردیا گیا ۔
اس کے بعد امام حسن (ع) کی بیعت کی گئی اور ان سے عہد کیا گیا لیکن ان سے بھی غداری کی گئی اور انھیں بھی تنہا چھوڑ دیا گیا ، یہاں تک کہ عراق والوں نے حملہ کرکے خنجر سے ان کے پہلو کو زخمی کردیا اور ان کا سارا سامان لوٹ لیا اور گھر کی کنیزوں کے زیور ات تک لے لئے، جس کے نتیجہ میں آپ نے معاویہ سے صلح کرلی تا کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی کا تحفظ کرسکیں جو کہ تعداد میں انتہائی قلیل تھے۔
اس کے بعد ہم اہلبیت (ع) کو مسلسل حقیر و ذلیل بنایا جاتارہا، ہمیں وطن سے نکالا گیا اور مبتلائے مصائب کیا گیا ، نہ ہماری زندگی محفوظ رہی اور نہ ہمارے چاہنے والوں کی زندگی ۔! جھوٹ بولنے والے اور ہمارے حق کا انکار کرنے والے اپنے کذب و انکار کی وجہ سے بلندترین درجات حاصل کرتے رہے اور ہر مقام پر حکام ظلم کے یہاں تقرب حاصل کرتے رہے، جھوٹی حدیثیں تیار کیں اور ہماری طرف سے وہ باتیں نقل کیں جونہ ہم نے کہی تھیں اور نہ کی تھیں تا کہ لوگوں کوہم سے متنفر اور بیزار بناسکیں۔
یہ کام زیادہ تیزی سے معاویہ کے دور حکومت میں امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد ہوا اور ہمارے شیعوں کا ہر مقام پر قتل عام ہوا، ان کے ہاتھ پاؤں تہمتوں کی بناپر کاٹ دئے گئے اور جو بھی ہماری محبت کا نام لیتا تھا اسے گرفتار کرلیا جاتاہے اور اس کے اموال کولوٹ کر گھر کو گرا دیا جاتا تھا۔
اس کے بعد بلاؤں میں اور اضافہ ہوتا رہا ، یہاں تک کہ عبیداللہ بن زیاد کا دور آیا اور پھر حجاج کے ہاتھ میں حکومت آئی جس نے طرح طرح سے قتل کیا اور تہمتوں پر زندانوں کے حوالہ کردیا اور حالت یہ ہوگئی کہ کسی بھی انسان کے لئے زندیق اور کافر کہا جانا شیعہ علی (ع) کہے جانے سے زیادہ بہتر اور محبوب عمل تھا۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 11 ص 43)۔ 1157۔ حمزہ بن حمران ! میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے عرض کی کوفہ سے ! آپ نے گریہ شروع کردیا یہاں تک کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی ، میں نے عرض کی فرزند رسول (ع) ! اس قدر گریہ کا سبب کیا ہے؟
فرمایا مجھے میرے چچا زیدا اور ان کے ساتھ ہونے والے مظالم یاد آگئے۔
میں نے عرض کی کہ وہ کیا مظالم یاد آگئے ؟
فرمایا کہ ان کی شہادت کا وہ منظر یاد آگیا جب ان کی پیشانی میں تیر پیوست ہوگیا اور بیٹا آکر باپ سے لپٹ گیا کہ بابا مبارک ہو، آپ اس شان سے رسول اکرم ، حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوں گے ۔ فرمایا بیشک ۔
اس کے بعد یحیٰ نے لوہا ر کو بلاکر پیشانی سے تیر نکلوا یا اور جناب زید کی روح جسم سے پرواز کر گئی اور یحیئ نے لاش کو ایک نہر کے کنارہ سپرد لحد کر کے اس پر نہر کا پانی جاری کردیا تا کہ کسی کو اطلاع نہ ہونے پائے لیکن ایک سندی غلام نے یہ منظر دیکھ لیا اور یوسف بن عمر کو اطلاع کردی اور اس نے لاش کو قبر سے نکلوا کر سولی پر لٹکا دیا اور اس کے بعد نذر آتش کرکے خاکستر کو ہوا میں اڑادیا ، خدا ان کے قاتل اور انھیں تنہا چھوڑ دینے والوں پر لعنت کرے۔
ہم تو ان مصائب کی فریاد خدا کی بارگاہ میں کرتے ہیں جہاں اولاد رسول کو مرنے کے بعد بھی نشانہ ستم بنایا گیا اور پھر پروردگار ہی سے دشمنوں کے مقابلہ میں طالب امداد ہیں کہ وہی بہترین مدد کرنے والاہے۔( امالی صدوق (ر) 321 / 3 ، امالی طوسی (ر) 434 / 973)۔
1158۔ محمد بن الحسن ، محمد بن ابراہیم کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ اولاد حسن (ع) میں بعض افراد کو منصور کے سامنے لایا گیا تو اس نے محمد بن ابراہیم کو دیکھ کر کہا کہ تم ہی دیباج اصغر کہے جاتے ہو؟ فرمایا بیشک ۔
اس نے کہا کہ خدا کی قسم تمھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح ابتک کسی کو قتل نہیں کیا ہے… اور یہ کہہ کر ایک کھوکھلے ستون کے اندر کھڑا کرکے ستوں کو بند کرادیا اور وہ زندہ دفن کردئے گئے۔( تاریخ طبری 7 ص 546 ، مقاتل الطالبیین ص 181)۔
1159۔ محمدبن اسماعیل ! میں نے اپنے جد موسیٰ بن عبداللہ سے سناہے کہ ہمیں ایسے اندھیرے قید خانہ میں رکھا گیا تھا کہ اوقات نماز کا اندازہ بھی علی بن الحسن بن الحسن بن الحسن (ع) کی قرآن کے پاروں کی تلاوت سے کیا جاتا تھا۔( مقاتل الطالبیین ص 176)۔
1160۔ موسیٰ بن عبداللہ بن موسیٰ ! علی بن الحسن کا انتقال منصور کے قیدخانہ میں حالت سجدہ میں ہوا ہے جب عبداللہ نے کہا کہ میرے بھتیجے کو جگاؤ ایسا معلوم ہوتاہے کہ سجدہ میں نیند آگئی ہے اور لوگوں نے حرکت دی تو معلوم ہوا کہ روح جسم سے جدا ہوچکی ہے اور عبداللہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ اللہ تم سے راضی رہے، میرے علم کے مطابق تمھیں اس طرح کی موت کا خوف تھا۔( مقاتل الطابیین ص 176)۔
1161۔ محمد بن المنصور نے یحیئ بن الحسین بن زید کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ میں اپنے چچا عیسیٰ بن زید کو دیکھنا چاہتاہوں کہ میرے جیسے انسان کے لئے یہ بڑا عیب ہے کہ اپنے ایسے محترم بزرگ سے ملاقات نہ کرے تو انھوں نے ٹال دیا اور ایک مدت تک یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ مجھے یہ خوف ہے کہ انھیں یہ ملاقات گراں گذرے اورا س کے زیر اثر وہ جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں جہاں ان کا قیام ہے۔
لیکن میں برابر اصرار کرتا رہا اور اپنے اشتیاق کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ راضی ہوگئے اور مجھے تیار کرکے کوفہ روانہ کردیا اور فرمایا کہ کوفہ پہنچ کر نبی حیّ کے مکانات دریافت کرنا اور وہاں فلاں کوچہ میں جاکر دیکھنا کہ درمیان کوچہ ان ان صفات کا ایک گھر نظر آئے گا مگر تم اس گھر کے پاس نہ تھہرنا بلکہ دور جاکر کھڑے ہوجانا ، عنقریب تم دیکھوگے کہ مغرب کے وقت ایک ضعیف آدمی آرہاہے اور اس کا چہرہ چمک رہاہے، پیشانی پر سجدہ کا نشان ہے اور ایک اونی کرتا پہنے ہوئے ایک اونٹ پر سقائی کا کام انجام دے رہا ہے اور جب بھی کوئی قدم اٹھاتاہے برابر ذکر خدا کرتا رہتاہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تم یہ دیکھ کر سلام کرنا اور معانقہ کرنا ۔
وہ تم سے گھبرائیں گے اور خوف زدہ ہوں گے لیکن تم فوراً اپنا شجرہٴ نسب بیان کردینا، انھیں یہ سن کر سکون ہوگا اور تم سے تاویر گفتگو کرتے رہیں گے اور ہم لوگوں کے بارے میں تفصیلات دریافت کریں گے اور اپنے حالات بتائیں گے لیکن تم ان کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہرنا اور نہ لمبی گفتگو کرنا بلکہ فوراً خداحافظ کہہ دینا کہ وہ تم سے معذرت کریں گے کہ آئندہ ملاقات کے لئے نہ آنا اور تم اس کے مطابق عمل کرنا ورنہ وہ تم سے چھپ جائیں گے اور گھبراکر جگہ بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے جو ان کے لئے باعث مشقت عمل ہوگا۔
میں اپنے دل میں یہ عزم لے کر روانہ ہوا کوفہ پہنچ کر عصر کے بعد بنئحی کے علاقہ میں گیا اور گلی کے کنارہ دروازہ کو پہچان کر دور بیٹھ گیا کہ غروب کے بعدایک اونٹ ہنکانے والے کو دیکھا جس میں بابا کے بیان کر وہ تمام صفات موجود تھے اور ہر قدم پر مسلسل ذکر خدا کررہا تھا اور آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔
میں نے اٹھ کر معانقہ کیا، وہ خوفزدہ ہوگئے، میں نے کہا کہ چچا میں یحیئ بن الحسین بن زید، آپ کا بھتیجا ہوں۔
انھوں نے کلیجہ سے لگالیا اور رونے لگے اور اس قدر روئے جیسے ہلاک ہوجائیں گے، اس کے بعد اونٹ کو بٹھادیا اور میرے پاس بیٹھ کر ایک ایک فرد خاندان مرد، عورت ، بچہ کے بارے میں دریافت کرنے لگے، میں نے سب کا حال بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ فرزند ! میں اسی اونٹ پر سقائی کا کام کررہاہوں، جس قدر اجرت ملتی ہے، اونٹ کا کرایہ دے کر باقی سے بچوں کی پرورش کرتاہوں اور اگر کسی دن کچھ نہیں بچتاہے تو آبادی کے باہر جاکر جو سبزی و غیرہ لوگ پھینک دیتے ہیں، اس کو اٹھا کر کھالیتاہوں۔
میں نے یہیں ایک شخص کی لڑکی سے شادی کی ہے لیکن اسے نہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں اور اس سے ایک بیٹئ بھی پیدا ہوچکی ہے جو اب بلوغ کی منزل میں ہے لیکن اسے بھی نہیں معلوم کہ میں کون ہوں؟
ایک مرتبہ اس کی ماں نے کہا کہ محلہ کے فلاں سقاء کے بیٹے نے پیغام دیا ہے لہذا اس بچی کا عقد کردیجئے، اس کے حالات ہم لوگوں سے بہترہیں اور پھر اصرار بھی کیا لیکن میں نہ بتاسکا کہ یہ بات ہمارے لئے جائز نہیں ہے اور وہ ہمارا کفو نہیں ہے، وہ برابر اصرار کرتی رہی اور میں خدا سے دعا کرتا رہا کہ اس مشکل سے نجات دلادے کہ اتفاقاً اس بچی کا انتقال ہوگیا اور آج مجھے اس سے زیادہ کسی امر کا صدمہ نہیں ہے کہ اسے رسول اکرم سے اپنی قرابت کا علم بھی نہ ہوسکا ۔
اس کے بعد مجھے قسم دلائی کہ میں واپس چلا جاؤں اور دوبارہ پھر ان کے پاس نہ جاؤں اور یہ کہہ کر مجھے رخصت کردیا ، اس کے بعد جب بھی میں انھیں دیکھنے اس جگہ پر گیا وہ نظر نہیں آئے اور یہی میری آخری ملاقات تھی۔ ( مقاتل الطالبیین ص 345)۔
واضح رہے کہ اسلام میں کفو ہونے کے لئے اتحاد حیثیت و مذہب ضروری ہے اور جہت ممکن ہے کہ وہ بچہ سقا اہلبیت (ع) کے مسلک پر نہ رہاہو یا اس میں کوئی ایسا نقص رہا ہو جو اس بچی کے کفو بننے سے مانع رہا ہو ورنہ اس بچی کی ماں بھی خاندان اہلبیت(ع) سے نہیں تھی۔!
1162۔ منذر بن جعفر العبدی نے اپنے والد کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں صالح بن حیّ کے دونوں فرزند حسن اور علی (ع) ، عبدر بہ بن علقمہ اور جناب بن نسطا س سب عیسیٰ بن زید کے ہمراہ حج کے سفر پر نکلے اور عیسیٰ جمالوں کے لباس میں تقیہ کی زندگی گذار رہے تھے، ایک رات ہم لوگ مکہ میں مسجد الحرام میں جمع ہوئے تو عیسیٰ بن زید اور حسن بن صالح نے سیرت کے مسائل پر گفتگو شروع کردی اور ایک مسئلہ میں دونوں میں اختلاف ہوگیا، دوسرے دن عبد ر بہ بن علقمہ آئے تو کہا کہ تمھارا مسئلہ حل ہوگیا ہے سفیان ثوری آگئے ہیں ان سے دریافت کرلو، چنانچہ اٹھ کر مسجد میں ان کے پاس آئے اور سلام کرکے مسئلہ دریافت کیا تو سفیان نے کہا کہ اس کا جواب میرے بس سے باہر ہے کہ اس کا تعلق سلطان وقت سے ہے۔
حسن نے انھیں متوجہ کیا کہ یہ سوال کرنے والے عیسیٰ بن زید ہیں ، انھوں نے جناب بن نسطاس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور انھوں نے بھی تصدیق کردی کہ یہ عیسیٰ بن زید ہیں توسفیان ثوری نے انھیں سینہ سے لگالیا اور بے تحاشہ رونا شروع کردیا اور آخر میں اپنے انداز جواب کی معذرت کی اور روتے روتے مسئلہ کا جواب دیدیا اور پھر ہم لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ اولاد فاطمہ سے محبت اور ان کے مصائب پر گریہ ہر اس انسان کیلئے لازم ہے جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان پایا جاتاہے، اور اس کے بعد پھر عیسی بن زید سے کہا کہ جاؤاپنے کو ان ظالموں سے پوشیدہ کرو کہیں تم پر کوئی مصیبت نازل نہ ہوجائے، یہ سن کر ہم لوگ اٹھ گئے اور سب متفرق ہوگئے ۔ (مقاتل الطالبیین ص 351)۔
1163۔ علی بن جعفر الاحمر ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ ہم لوگ ( میں ، عیسیٰ بن زید، حسن بن صالح ، علی بن صالح بن حیّ، اسرائیل بن یونس، بن ابی اسحاق ، جناب بن نسطاس) زید یوں کی ایک جماعت کے ساتھ کوفہ میں ایک گھر میں جمع ہوتے تھے کہ کسی شخص نے مہدی کے یہاں جاسوسی کردی اور اس نے کوفہ کے عامل کو پیغام بھیج دیا کہ ہماری کڑی نگرانی کی جائے اوراگر ایسے کسی اجتماع کی اطلاع ملے تو سب کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دیا جائے۔
ایک رات ہم لوگ سب جمع تھے کہ عامل کوفہ کو خبر ہوگئی اور اس نے ہمارے اوپر حملہ کردیا اور قوم نے یہ محسوس کرتے ہی چھت سے چھلانگ لگادی اور میرے علاوہ سب فرار کرگئے، ظالموں نے مجھے گرفتار کرکے مہدی کے پاس بھیجدیا، میں اس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھے دیکھتے ہی حرام زادہ کہہ کر خطاب کیا اور کہا کہ تو عیسیٰ بن زید کے ساتھ اجتماع کرتاہے اور انھیں میرے خلاف اقدام پر آمادہ کرتاہے۔
میں نے کہا مہدی ! تجھے خدا سے شرم نہیں آتی ہے اور نہ اس کا خوف ہے، تو شریف زادیوں کی اولاد کو حرام زادہ کہتاہے اور ان پر تہمت زنا لگاتاہے جبکہ تیرا فرض تھا کہ تیرے سامنے کوئی جاہل اور احمق اس طرح کے کلمات استعمال کرے تو اسے منع کرے۔
اس نے دوبارہ وہی گالی دی اور اب اٹھ کر مجھے زمین پر پٹک دیا اور ہاتھ پاؤں سے گھونسہ لات کرنے لگا اور گالیاں دینے لگا میں نے کہا کہ واقعا بہت بہادر آدمی ہے کہ مجھ جیسے بوڑھے کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتاہے جس میں اپنے دفاع کی بھی طاقت نہیں ہے۔
اس نے مجھے قید خانہ میں ڈال دیا اور سختی کرنے کا حکم دیدیا، مجھے زنجیروں میں جکڑ کر قید کردیا گیا اور میں برسوں قیدخانہ میں رہا، یہاں تک کہ جب اسے اطلاع ملی کہ عیسیٰ بن زید کا انتقال ہوگیا ہے تو مجھے طلب کیا اور کہنے لگا کہ تو ہے کون؟
میں نے کہا کہ مسلمان ہوں۔
اس نے کہا اعرابی ؟
میں نے کہا نہیں
اس نے کہا پھر کیا ہے؟
میں نے کہا کہ میرا باپ کوفہ کے کسی شخص کا غلام تھا، اس نے اسے آزاد کردیا تھا۔
کہا کہ عیسیٰ بن زید مرگئے!
میں نے کہا کہ یہ عظیم ترین مصیبت ہے، اللہ ان پر رحمت نازل کرے، واقعاً بڑے عابد ، زاہد، اطاعت خدا میں زحمت برداشت کرنے والے اور اس راہ میں ا نتہائی نڈر تھے۔
اس نے کہا کہ کیا تمھیں ان کی وفات کا علم نہیں تھا؟
میں نے کہا کہ معلوم ہے۔
کہا کہ پھر مجھے مبارکباد کیوں نہیں دی ؟
میں نے کہا کہ میں ایسی بات کی مبارکباد کس طرح دیتا کہ اگر رسول اکرم زندہ ہوتے تو ہرگز اس بات کو پسند نہ کرتے وہ تادیر سر جھکائے خاموش رہا اور پھر کہنے لگا کہ تمھارے جس میں سزا کی طاقت نہیں ہے اور میں کوئی ایسی سزا دینا نہیں چاہتا جس سے تم مرجاؤ اور اللہ نے مجھے میرے دشمن عیسئ بن زید سے بچا لیا ہے لہذا جاؤ یہاں سے چلے جاؤ لیکن خدا تمھارا نگہبان نہ ہوگا۔
اور یاد رکھو کہ اگر مجھے اطلاع ملی کہ تم نے پھر وہی کا م شروع کردیا ہے تو خدا کی قسم تمھاری گردن اڑادوں گا۔
میں یہ سن کر کوفہ چلا آیا اور مہدی نے ربیع سے کہا کہ دیکھتے ہو یہ شخص کس قدر بے خوف اور باہمت ہے۔ خدا کی قسم صاحبان بصیرت ایسے ہی ہوتے ہیں ۔( مقاتل الطالبیین ص 352)۔ 1164۔ امام کاظم (ع)! دعا کرتے ہیں … خدایا پیغمبر اسلام کے اہلبیت(ع) پر رحمت نازل فرما جو ہدایت کے امام ، اندھیروں کے چراغ ، مخلوقات پر تیرے امین ، بندوں میں تیرے مخلص، زمین پر تیری حجّت، شہروں میں تیرے منارہٴ ہدایت، بلاؤں میں صبر کرنے والے، رضاؤں کے طلب کرنے والے، وعدہ کو وفا کرنے والے، عبادتوں میں شک یا انکار نہ کرنے والے، تیرے اولیاء اور تیرے اولیاء کی اولاد، تیرے علم کے خزانہ دار، جنھیں تو نے ہدایت کی کلید، اندھیروں کا چراغ قرار دیاہے، تیری صلوات و رحمت و رضا انھیں کے لئے ہے۔
خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما … اور اپنے بندوں میں منارہٴ ہدایت، اپنی ذات کی طرف دعوت دینے والے تیرے امر کے ساتھ قیام کرنے والے اور تیرے رسول کا پیغام پہنچانے والے پر بھی ، اور خدایا جب اسے ظاہر کرنا تو اس کے وعدہ کو پورا کردینا اور اس کے اصحاب و انصار کو جمع کردیناا ور اس کے مددگاروں کو طاقت عطا فرمانا اور اسے آخری منزل امید تک پہنچا دینا اور اس کے سوالات کو عطا کردینا اور اس کے ذریعہ محمد و آل محمد کے حالات کی اصلاح کردینا اس ذلت، توہین اور مصائب کے بعد جو رسول اکرم کے بعد نازل ہوئی ہیں کہ انھیں قتل کیا گیا ، وطن سے باہر نکالا گیا ، خوفزدہ حالت میں منتشر کردیا گیا ، انھوں نے تیری رضا اور اطاعت کی خاطر اذیت اور تکذیب کا سامنا کیا اور تمام مصائب پر صبر کیا اور ہر حال میں راضی رہے اور تیری بارگاہ میں ہمیشہ سراپا تسلیم رہے۔
خدایا ان کے قائم کے ظہور میں تعجیل فرما، اس کی امداد فرما اور اس کے ذریعہ اس دین کی امداد فرما جس میں تغیر و تبدل پیدا کردیا گیا ہے اور ان امور کو پھر سے زندہ کردے جو مٹادئے گئے ہیں اور نبی اکرم کے بعد بدل دئے گئے ہیں ۔( جمال الاسبوع ص 186)۔
1165۔ ابوالصلت عبدالسلام بن صالح الہروی ، میں نے امام رضا (ع) کو یہ فرماتے سناہے کہ خدا کی قسم ہم میں کا ہر شخص شہید کیا جانے والا ہے… تو کسی نے دریافت کرلیا کہ آپ کو کون قتل کرے گا ؟
فرمایا کہ میرے زمانہ کا بدترین انسان، جو مجھ کو زہر دے گا اور پھر بلا و غربت میں دفن کیا جاؤں گا۔( الفقیہ 2 ص 585 / 3192، امالی صدوق (ر) 61 / 8، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 256 / 9 ، جامع الاخبار 93 / 150 روضة الواعظین ص 257 ،مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 209)۔
1166۔ امام رضا (ع) ! خدا کا شکر ہے جس نے ہم میں اس کو محفوظ رکھاہے جس کو لوگوں نے برباد کردیا ہے اور اسے بلند رکھاہے جسے لوگوں نے پست بنادیا ہے، یہانتک کہ ہمیں کفر کے منبروں پر اسی سال تک گالیاں دی گئیں، ہمارے فضائل کو چھپایا گیا ، ہمارے خلاف جھوٹ بولنے کے لئے اموال خرچ کئے گئے، مگر خدا نے یہی چاہا کہ ہمارا ذکر بلندر ہے اورہمارے فضائل آشکار ہوجائیں، خدا کی قسم ایسا ہماری وجہ سے نہیں ہوا ہے، رسول اکرم اور ان کی قرابت کی برکت سے ہوا ہے کہ اب ہمارا مسئلہ اور ہماری روایات ہی ہمارے بعد پیغمبر کی بہترین دلیل ہوں گی ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 164 / 26 روایت محمد بن ابی الموج بن الحسین الرازی )۔
1167۔ امام عسکری (ع) ! بنی امیہ نے اپنی تلواریں ہماری گردنوں پر دو وجہوں سے چلائی ہیں ۔
ایک یہ کہ انھیں معلوم تھا کہ خلافت میں ان کا کوئی حق نہیں ہے اور ہم نے دعویٰ کردیا اور وہ اپنے مرکز تک پہنچ گئی تو ان کا کیا ہوگا۔
اور دوسرے یہ کہ انھوں نے متواتر اخبار سے یہ معلوم کرلیا تھا کہ ہمارے قائم کے ذریعہ ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے اور انھیں یقین تھا کہ وہ ظالم و جابر ہیں، چنانچہ انھوں نے کو شش کی کہ اہلبیت (ع) رسول کو قتل کردیا جائے، ان کی نسلوں کو فنا کردیا جائے تا کہ اس طرح ان کا قائم دنیا میں نہ آنے پائے مگر پروردگار نے طے کرلیا کہ بغیر کسی اظہار و انکشاف کے اپنے نور کو مکمل کردے گا چاہے یہ بات کفار کو کسی قدر ناگوار کیوں نہ ہو۔( اثبات الہداة 3 ص 570 / 685 روایت عبداللہ بن الحسین بن سعید الکاتب)۔ 1168۔ دعائے ندبہ ، حضرت محمد و علی (ع) کے گھرانہ کے پاکیزہ کردار افراد پر گریہ اور ندبہ کرنے والوں کو ندبہ کرنا چاہئے، ان کے غم میں آنسؤوں کو بہنا چاہئے، صدائے نالہ و شیون کو بلند ہونا چاہئے، آواز فریاد کو سنائی دینا چاہئے۔
کہاں ہیں حسن (ع) ؟
کہاں ہیں حسین (ع) ؟
کہاں ہیں اولاد حسین (ع) ؟
ایک کے بعد ایک نیک کردار اور ایک کے بعد ایک صداقت شعار ،
کہاں ہیں ایک کے بعد ایک سبیل ہدایت اور ایک کے بعد ایک منتخب روزگار۔
کہاں ہیں طلوع کرنے والے سورج؟
اور کہاں ہیں چمکنے والے چاند؟
کہاں ہیں روشن ستارے؟
اور کہاں ہیں دین کے پرچم اور علم کے ستون؟
(بحار الانوار 102 / 107 نقل از مصباح الزائر ( مخطوط) محمد بن علی بن ابی قرة از کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری)۔
اس مقام پر تصریح کی گئی ہے کہ یہ دعا امام عصر (ع) سے نقل کی گئی ہے اور اس کا چاروں عیدیوں میں پرھنا مستحب ہے۔
عیدالفطر
عیدالاضحیٰ
عید غدیر
روز جمعہ !
|