27:گناہان کبیرہ اورصغیرہ کےبارے میں
٢٧۔ شیعہ جعفری فرقے زنا ، لواط، سود خوری ، نفس محترمہ کا قتل ، شراب نوشی ، جوا ، بلوہ وبغاوت ، مکروفریب بازی،دھوکہ دھڑی ،ذخیرہ اندوزی ،ناپ تول میں کمی کرنا ، غصب ، چوری ، خیانت ، کینہ و کھوٹ، رقص و غنا ، اتہام ،بہتان ، تہمت ، چغل خوری ، فساد پھیلانا ، مومن کواذیت دینا ، غیبت کرنا ،گالم گلوج ، کذب و بہتان اور ان کے علاوہ تمام گناہان کبیرہ و صغیرہ کو حرام جانتے ہیں، اور ہمیشہ ا ن گناہوں سے دور رہتے ہیں اور حتی الامکان ان سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،اور ان کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ہر ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہیں ، جیسے تصنیف و تالیف ، کتابوں کی نشر و اشاعت کرنا ، اخلاقی اور تربیتی رسالے ، مجالس ، اجتماع اور جلسے وغیرہ قائم کرنا ، یانماز جمعہ کے خطبے اور دوسری چیزیں وغیرہ …
٢٨۔ اخلاقی فضائل اور مکارم اخلاق
٢٨۔ اخلاقی فضائل اور مکارم اخلاق کی نہایت اہمیت دیتے ہیں ،اور موعظہ وغیرہ سے عشق کرتے ہیں، اور ان کے سننے کیلئے دلچسپی سے حاضر ہوتے ہیں ، اور اس کے لئے اپنے گھروں ، مسجدوں ، پارکوں اور میدانوں میںجلسے ، مجالس اور اجتماعات مناسبت یا غیر مناسبت کے مواقع پر منعقد کرتے ہیں ، اسی بنا پر عظیم فوائد و مطالب پر مشتمل وہ دعائیں پڑھتے ہیں جو اس سلسلے میں رسول اسلام اور اہل بیت عصمت و طہارت سے نقل ہوئی ہیں، جیسے دعائے کمیل ، دعائے ابو حمزہ ، دعائے سمات ، دعائے جوشن کبیر ، دعائے مکارم اخلاق ، دعائے افتتاح ، ( جوماہ رمضان میں پڑھی جاتی ہے ) وہ ان ادعیہ اور رفیع مضامین پر مشتمل مناجات کو نہایت خشوع وخضوع اور ایک خاص گریہ و زاری کے ساتھ پڑھتے ہیں ، کیونکہ یہ دعائیں نفس کو پاکیزہ بناتی ہیں اوران کے ذریعہ انسان اﷲ سے قریب ہوتا ہے ۔
یہ تمام دعائیں موسوعةا لادعیہ( معجم ادعیہ) میں جمع کی گئی ہیں، اسی طرح یہ کتب ادعیہ میں بھی موجود ہیں جو ان کے درمیان رائج ہیں۔
29:جنت البقیع
٢٩۔ اور شیعہ نبی اکرم ۖ، اہل بیت (ع) اور آپ کی پاک ذریت جو جنت البقیع اور مدینہ منورہ میں مدفون ہیں ان کی قبروں کا احترام کرتے ہیں ، جن میں امام حسن مجتبی ، امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، اور امام جعفر صادق (ع)ہیں۔
اور نجف اشرف میں امام علی ـ کا مرقد ہے ، اور کربلا میں امام حسین ـ اور آپ کے بھائی ،آپ کی اولاد اورآپ کے چچا کی اولاد اور آپ کے ا صحاب و انصار( جو آپ کے ساتھ یوم عاشورہ شہید ہوئے تھے)کی قبریں ہیں۔
اور سامرہ میں امام ہادی ( علی نقی)، امام حسن عسکری کے روضے ہیں، اور کاظمین میں امام جواد اور امام کاظم کے مراقد جو سب کے سب عراق میں ہیں ،اور ایران کے شہر مشہدمیں امام رضا ـ کا مرقد ہے ، اور قم و شیراز( ایران) میں ان اماموں کے بیٹوں اور بیٹیوں کے مرقد ہیں ، اور دمشق (شام) میں کربلا کی شیر دل خاتون جناب سیدہ ٔزینب کا روضہ ہے ، اور قاہرہ مصر میں مرقد سیدہ نفیسہ ہے ( یہ بھی کریمہ ٔ اہل بیت ہیں) ۔
بہر حال ان تمام روضوں اورمقبروں کااحترام کرنا رسول کے پاس و لحاظ کی بنا پرہے ، کیونکہ ہر شخص اپنی اولاد میں باقی اور محفوظ رہتا ہے ، اور کسی کی اولاد کا اکرام کرنا خوداس کا احترام کرنے کے برابر ہے ، جیساکہ قرآن کریم نے آل عمران ، آل یٰسین ، آل ابراہیم اور آل یعقوب ، کی مدح فرمائی ہے ، اور ان کی قدر و منزلت کو رفیع قرار دیا ہے حالانکہ ان میں سے بعض انبیاء بھی نہیں تھے۔
(ذُرِّیَّةً بَعْضُہَاْ مِنْ بَعْضٍ)(١)
یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے ۔
اسی لئے قرآن مجید نے ان پر اعتراض نہیں کیا، جن لوگوں نے یہ کہا تھا :
(لَنَتََّخِذَنَّ عَلَیْہِمْ مَسْجِداً) (٢)
انھوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے ۔
یعنی ہم اصحاف کہف کے مراقد پر مسجد بنائیں گے ، تاکہ ان کے پاس خدا کی عبادت کی جائے ،اور اﷲ نے ان کے عمل کو شرک نہیں کہا ، کیونکہ مسلمان مؤمن صرف اﷲ ہی کیلئے رکوع، سجدہ اور عبادت کرتا ہے ،اور وہ ان پاک ومطہر اولیاء کی ضریح کے قریب صرف اس لئے جاتاہے کیونکہ ان اولیاء کی وجہ سے وہ مکان مقدس ہوگیا ہے ،جیسے ابراہیم ـ کی بناپر مقام ابراہیم کو قداست و کرامت حاصل ہے ،
…………………
(١)آل عمران ، آیت ٣٤.
(٢)کہف ، آیت ٢١.
چنانچہ خدا فرماتاہے :
(وَاْتَّخِذُوْامِنْ مَقَاْمِ اِبْرَاْہِیْمَ مُصَلًّی ) (١)
اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصلے بناؤ۔
پس جو شخص مقام ابراہیم کے پیچھے نمازپڑھے تو وہ ایسا نہیں ہے کہ وہ مقام ابراہیم کی عبادت کرتا ہے ، یاجو صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے، وہ انھیں اﷲ سمجھ کر نہیں آیاہے کہ وہ ان دونوں پہاڑوں کی عبادت کر رہا ہو ، بلکہ یہ اس لئے ہے کہ اﷲ نے ان کو اپنی عبادت کے لئے مبارک و مقدس جگہ قرار دیا ہے ،نتیجةً وہ بھی آخرمیں اﷲ کی طرف منسوب ہیں ،بیشک معین ایام اور جگہیں مقدس ہیں ، جیسے یوم عرفہ ، منی و عرفات کا میدان ، اور ان کی قداست کی وجہ ان کا اﷲ کی طرف منسوب ہونا ہے۔
30:اہل بیت رسالت(ع) کے مبارک روضوں کےبارے میں
٣٠۔ اسی سبب کی بنا پر شیعہ بھی( دیگر مسلمین کی طرح) شان رسول اکرم ۖ و آل رسول کے محافظ اوراس کا ادراک کرنے والے ہیں اہل بیت رسالت(ع) کے مبارک روضوں کی بڑے اہتمام سے زیارت کرتے ہیں تاکہ اس سے ان کی تکریم ہو ، اور ان سے عبرت حاصل کریں ، اور ان کے ساتھ پھر سے عہد کریں ، اور اس اقدار کی مزید پابندی کریں جس کیلئے انھوں نے جہاد کیا،اور اسی کی حفاظت میں شہید ہوگئے ، کیونکہ ان مشاہد مقدسہ کے زائرین اپنی زیارتوں میں اہل مراقد کے فضائل اور ان کے جہاد ہی کا ذکر کرتے ہیں یا انھوں نے جو نمازیں قائم کیں اور زکاة ادا کی اس کا تذکرہ رتے
…………………
(١)سورہ ٔ بقرہ، آیت ١٢٥.
ہیں ، نیز انھوں نے اس راستہ میں جو اذیتیں اور مشقتیں اٹھائیں ہیں ان کو بیان کرتے ہیں ،جیساکہ رسول خدا ۖ کو اپنی مظلوم ذریت سے جو ہمدردی تھی اس کی وجہ سے آپ نے بھی ان کا غم منایا ہے جیساکہ :
جناب حمزہ کی شہادت پر آنحضرت نے فرمایا:
''ولٰکن حمزة لا بواکی لہ ''ہائے حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ؟! جیسا کہ کتب تاریخ وسیرت میں نقل کیا گیا ہے ۔
کیا رسول خدا ۖ نے اپنے عزیز بیٹے ابراہیم کی موت پر گریہ نہیں کیا ؟ کیا آپ بقیع میں قبروں کی زیارت کرنے نہیں جاتے تھے ؟ کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا:
''زورواالقبورفانہاتذکرکم بالآخرة '' (١)
قبروں کی زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت تمھیں آخرت کی یاد دلاتی ہے ۔
بیشک ائمہ اہل بیت (ع) کی قبروں کی زیارت اور ان کی سیرت طیبہ اور راہ خدا میں ان کے جہادی کارنامے آئندہ نسل کو ان عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو ان ذوات مقدسہ نے اسلام اور مسلمین کے راستے میں پیش کی ہیں، اس سے ان کے اندر راہ خدا میں شہادت ،شجاعت و جواں مردی اور ایثار و قربانی کی روح بیدار ہوتی ہے ۔
بیشک یہ عمل انسانیت ، تہذیب و تمدن اور عقل کے عین مطابق عمل ہے ، کیونکہ تمام
…………………
سبکی شافعی کی کتاب ؛شفاء السقام،ص١٠٧ پراور اسی کی مثل سنن ابن ماجہ جلد١، صفحہ ١١٧، میں نقل ہوا ہے.
امتیں اپنے بزرگوںاور تہذیب و تمدن کے بانیوں کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں اور ان سے مربوط تاریخوں کو بہر صورت اورہر حال میں باقی رکھنے کی کوشش کرتی ہیں ، کیونکہ یہ ان کی عزت اور افتخار کا باعث ہوتی ہیں ، اور ان کے ذریعہ امتوں کا رجحان ان کی اقدار کے بارے میں ا ور ان کی اہمیت کے بارے میں اورزیادہ ہوتا ہے ۔
یہی وہ چیز ہے جسے قرآن مجید نے چاہا ہے جب اس نے اپنی آیات میں انبیائ، اولیائ، صالحین اور ان کے حالات کا بڑے اہتمام کے ساتھ تذکرہ کیا ہے ۔
|