24:سجدہ گاہ کے بارے میں
٢٤۔ اور شیعہ زمین اورمٹی یا کنکڑ اور پتھریا زمین کے اجزاء اور نباتات وغیرہ پرسجدہ کرتے ہیں، اور دری ،قالین یا چادر اور کپڑے اور کھائی جانے والی چیزوںاور زیورات پر سجدہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس سلسلے میں کثیر تعداد میں شیعہ و سنی کتابوں میں روایتیں وارد ہوئیں ہیں ،کیونکہ رسول خدا ۖکاطریقہ یہ تھا کہ آپ مٹی اور زمین پر سجدہ کرتے تھے ، بلکہ آپ مسلمانوں کو حکم بھی یہی دیتے تھے ، چنانچہ ایک روز جناب بلال نے اپنے عمامے کی کورپر جلا دینے والی گرمی سے بچنے کی بناپر سجدہ کیا ، تورسول اسلام نے بلال کے عمامہ کو پیشانی سے ا لگ کردیا، اور فرمایا:
''ترِّب جبینک یا بلال ''
اے بلال! اپنی پیشانی کو زمین پر رکھو؟
اسی طرح کی روایت صہیب اور رباح کے بارے میں نقل کی گئی ہے ، جب فرمایا :
'' ترب وجہک یا صہیب ! و ترب وجہک یا رباح ''
اے صہیب اور اے رباح ! اپنی پیشانی کو زمین پر رکھو؟
دیکھئے: صحیح بخاری و کنزالعمال یاالمصنف؛ مؤلفہ عبد الرزاق الصنعانی، یا السجود علی الارض؛ مؤلفہ کاشف الغطاء .
اور نبی اکرم ۖنے اس جگہ یہ ارشاد فرمایا :(جیساکہ صحیح بخاری وغیرہ میں آیاہے۔)
''جعلت لی الارض مسجداًوطہوراً''
میرے لئے زمین کو مسجد اور طاہر و مطہر بنایا گیا ہے ۔
اور پھر مٹی پر سجدہ کرنا اور پیشانی کو زمین پر رکھنا یہی خدا کے سامنے سجدہ کرنے کا سب سے مناسبطریقہہے ، کیونکہ معبود کے سامنے یہی خشوع اور خضوع کا سب سے اچھا طریقہ ہے،اسی طرح خاک پر سجدہ کرنا انسان کو اس کی اصل حقیقت کی یا دلاتا ہے کہ وہ اسی سے وجود میں آیا ہے ،کیا خدا نے نہیں فرمایا :
(مِنْہَاْخَلَقْنٰاکُمْ وَفِیْہَاْنُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَاْ نُخْرِجُکُمْ تَاْرَةًاُخْرٰی)(١)
اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے ، اور اسی میں پلٹا کر لیجائیں گے ، اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے ۔
بیشک سجدہ خضوع کی آخری حد کا نام ہے ، اور خضوع کی آخری منزل مصلے(جائے نماز) فرش ،کپڑے ، اور قیمتی جواہر پر سجدہ کرکے حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ بدن کی اشرف ترین جگہ یعنی پیشانی کو پست ترین جگہ یعنی مٹی پر رکھے ۔(٢)
البتہ اس مٹی کوپاک ہونا چاہیئے ، اسی طہارت کی تاکید کی بناپر شیعہ لوگ اپنے ساتھ مٹی کا پاک ڈھیلا (جیسے سجدہ گاہ وغیرہ) رکھتے ہیں، اور بعض او قات یہ مٹی تبرک کے طور پر مقدسجگہ سے لیتے ہیں ، جیسے زمین کربلا ، جس میں فرزند رسول حضرت امام حسین ـ شہید کردئے گئے ، جیسا کہ بعض صحابہ مکہ کے کنکڑاور پتھر وغیرہ کو سفر میں سجدے کیلئے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ (٣)
…………………
(١)سورۂ طہ ٥٥.
(٢)دیکھئے : المصنف ؛ صنعانی.
(٣)دیکھئے : الیواقیت والجواہر؛ شعرانی انصاری مصری، جو دسویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں.
البتہ شیعہ نہ اس پر اصرار کرتے ہیں، اور نہ اس چیز پرہمیشہ پابند رہتے ہیں ، بلکہ وہ ہر پاک مٹی اور پتھر کے اوپر بغیر کسی اشکال اور تردد کے سجدہ کرتے ہیں ، جیسے مسجد نبوی اور مسجد الحرام کے فرش اور وہاں پر لگے ہوئے پتھر ۔
اسی طرح شیعہ نماز میں اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر نہیں رکھتے ، کیونکہ رسول اسلام نے نماز میں یہ کام انجام نہیں دیا ،اور یہ بات قطعی نص صریح سے ثابت نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ سنی مالکی حضرات بھی یہ فعل انجام نہیں دیتے ہیں۔(١)
25:وضوکے بارے میں
٢٥۔ شیعہ فرقہ وضو میں دونوں ہاتھوں کو اوپرکی جانب سے کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھوتے ہیں، اوراس کے برخلاف نہیں کرتے ، کیونکہ یہ طریقہ انھوں نے اپنے ائمہ سے اخذ کیا ہے ، اور ائمہ (ع) نے اس کو رسول خدا ۖ سے اخذ کیا ہے ، اور اہل بیت اپنے جد کی باتوں کو دوسروں سے بہتر طریقے سے جانتے ہیںکہ ان کے جد یہ کام کیسے کیا کرتے تھے ، جیساکہ رسول خدا ۖ بھی اسی طرح انجام دیتے تھے ، اور انھوں نے آیہ ٔ وضو کی یہ تفسیر کی ہے کہ ''الیٰ'' آیہ ٔ وضو: (٢)
میں''مع'' کے معنی میں آیا ہے ، جیسا کہ شافعی صغیر نے اپنی کتاب نہایة المحتاج میںیہی ذکر کیا ہے اسی طرح یہ لوگ اپنے پیروں اور سر کو دھونے کے بجائے ان کا مسح
…………………
(١)دیکھئے : صحیح البخاری ، صحیح مسلم ، سنن بیہقی .
مالکیوں کے رائے سے آگاہی کیلئے دیکھئے : بدایة المجتہد ''مؤلفہ ابن رشد قرطبی.
(٢) سورہ ٔ مائدہ ، آیت ٦.
کرتے ہیں ، جس کاسبب ہم نے اوپر ذکر کیا ہے،اور یہی طریقہ ابن عبا س کا تھا جیسا کہ انھوں نے کہا ہے :
''الوضوغسلتان،ومسحتان ''اومغسولان وممسوحان ''
وضو صرف دو چیزوں کا دھونا ہے اور دو ہی چیزوں کا مسح کرنا ہے۔
( دیکھئے : سنن ، مسانید ، تفسیر فخر رازی ، آیہ ٔ وضو کی تفسیر کے ذیل میں ).
26:متعہ (وقتی شادی)کے بارے میں
٢٦۔ شیعہ کہتے ہیں کہ متعہ (وقتی شادی) کرنا نص قرآنی کی بناپر جائز ہے، کیونکہ خدا ارشاد فرماتا ہے :
(فَمَاْاسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَةً)(١)
پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انھیں بطور فریضہ دے دے۔
یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان رسول کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، اور تمام صحابہ عہد خلافت حضرت عمر کے نصف دور تک متعہ کرتے تھے۔
کیونکہ متعہ بھی شرعی شادی ہے جو دائمی شادی کے مندرجہ ذیل احکام میں بالکل اسی کی طرح ہے :
الف: ۔متعہ میں بھی عورت شوہر دار نہ ہونا چاہیئے ، اور صیغوں کا اسی طرح پڑھنا ضروری ہے کہ ایجاب عورت کی جانب سے اور قبول مرد کی طرف سے ہو۔
ب: ۔دائمی شادی کی طرح متعہ میں بھی عورت کو کچھ مال دینا ضروری ہے جسے
…………………
(١)سورہ ٔ نساء ، آیت ٢٤.
دائمی شادی میں مہر کہتے ہیں ،اور متعہ میں اجر کہتے ہیں،جیساکہ قرآنی نص کے مطابق ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔
ج:۔ دائمی شادی کی طرح متعہ میں بھی مرد سے جدا ہونے کی صورت میں عورت پر عدہ رکھنا ضروری ہے۔
د:۔ متعہ میں بھی مفارقت کے بعد عورت پر دائمی عقد کی طرح عدہ ضروری ہے، اسی طرح متعہ سے وجود میں آنے والی اولاد بھی دائمی شادی کی طرح متعہ کرنے والے مرد( باپ) سے ملحق ہوگی ، نیز متعہ میں بھی دائمی عقد کی طرح عورت ایک مرد سے زیادہ مردوں سے ایک وقت میں متعہ نہیں کرسکتی ۔
ھ:۔ متعہ میں دائمی عقد کی طرح باپ اور اولاد نیز اولاد اور ماں کو ایک دوسرے کی میراث ملے گی ۔
متعہ ؛دائمی شادی سے حسب ذیل چند امور میں فرق کرتا :
الف:۔متعہ میں مدت معین ہوتی ہے ، لیکن دائمی شادی میں مدت معین نہیں ہوتی ۔
ب:۔ متعہ والی عورت کا نفقہ مرد پر واجب نہیں ہے،عورت مرد سے میراث لینے کا حق نہیں رکھتی ۔
ج:۔متعہ کرنے والے زوجہ و شوہرکے درمیان میراث نہیں ہوتی ۔
د: ۔ متعہ میں طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ مقررہ مدتتمام ہونے کے بعد یا طرفین کے اتفاق سے بقیہ مدت بخشنے کے بعد خود بخود جدائی ہوجائے گی ۔
اس طرح کی شادی کی تشریع کرنے کی چندحکمت ہیں:
اولاً:جائز اور مشروط طریقہ سے عورت و مرد کی جنسی احتیاج کا راستہ فراہم کرنا ہے ، تاکہ جو لوگ بعض اسباب کی بناپر دائمی شادی نہیں کر سکتے ، یا جو لوگ زوجہ کی وفات یا کسی اور سبب کی بنا پر عورت سے محروم ہوچکے ہیں ، یا عورت ان اسباب کی بناپر مرد سے محروم ہوگئی ہو ، اور یہ لوگ زندگی کو شرافت اور راحت کے ساتھ گزارنا چاہتے ہوں تو متعہ ان کیلئے آسان راستہ ہے ۔
ثانیاً:متعہ در اصلسماجی عظیم مشکلات کو حل کرنے کیلئے تشریع کیا گیا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اخلاقیبرائیوں میں مبتلا نہ ہوپائے ۔
کبھی اس متعہ کے ذریعہ انسان شادی سے پہلے جائز طریقہ سے ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان سکتا ہے ،( جو ممکن ہے آئندہ کیلئے مفید اور نتیجہ بخش ہو) اور اس کے بعد انسان فعل حرام میں مبتلا ہونیسے محفوظ رہتا ہے ، اسی طرح زنا ، جنسی دباؤ اور رسوائی یا دوسرے حرام امور میں مبتلا نہ ہو ، جیسے مشت زنی ،کیونکہ جو ایک زوجہ پر صبر نہیں کر سکتا ، یا اقتصادی او رمعیشتی مشکلات کی بنا پر،یا ایک سے زیادہ عورتوں کا خرچہ نہیں چلا سکتا وغیرہ وغیرہ اور وہ حرام کام بھی نہیں کرنا چاہتا تواس کے لئے یہ آسان راستہ ہے ۔
بہرحال یہ شادی بھی قرآن اور حدیث سے مستند ہے ، اور صحابہ نے اس پر ایک زمانے تک عمل کیا ہے ،چنانچہ اگر یہ شادی زنا شمار کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا، رسول اور صحابہ نے زنا کو حلال سمجھا ، اور اس کے انجام دینے والے ایک زمانے تک زنا کرتے رہے !!العیاذ باﷲ.
مزید یہ کہ اس حکم کا نسخ ہونا بھی معلوم نہیں ہے، کیونکہ اس کا نسخ ہونا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ، اور نہ کوئی قطعی و صریح دلیل اس پر موجود ہے۔(١)
بہر حال شیعہ اما میہ اس شادی کو نص قرآن اور سنت رسول کی بناپر مباح سمجھتے ہیں، لیکن دائمی شادی اورتشکیل خانوادہ یعنی اپنا گھر آباد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ ایسی شادی قوی اور سالم معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے ، اور موقت شادی کی طرف زیادہ رغبت نہیں رکھتے جسے شریعت میں متعہ کہتے ہیں ،اگرچہ (جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ) یہ حلال اور جائز ہے ۔
اور اس مقام پر یہ ذکر کردینا بھی مناسب ہے کہ شیعہ امامیہ( کتاب و سنت اور تعلیم ائمہ اہل بیت (ع) پر عمل پیرا ہونے کی بناپر)عورت کے حقوق کا احترام کرتے ہیں ،اور انہیںبڑی اہمیت دیتے ہیں ،اور عورت کے مقام و مرتبہ ، ان کے حقوق بالخصوص ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے پر ،ملکیت،نکاح،طلاق، گود لینے اور پرورش کرنے،دودھ پلانے جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ، عبادات اور معاملات کیلئے نہایت اعلی احکام ، جو ان کے ائمہ سے نقل ہوئے ہیں وہ سب ان کی فقہ میں پائے جاتے ہیں.
…………………
(١) اس سلسلے میں ان تمام احادیث کی طرف رجوع کیا جائے جو مختلف اسلامی مذاہب کی کتب صحاح وسنن اورمعتبر مسانید میں نقل کی گئی ہیں .
|