یہ حقیقت ہے
 

٢٠۔ شیعہ؛ امام مہدی منتظرکے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں
٢٠۔ شیعہ؛ امام مہدی منتظرکے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ،کیونکہ اس بارے میں کثیر روایات رسول اسلام سے نقل ہوئیں ہیںکہ وہ اولاد فاطمہۖ سے ہوںگے ، اور امام حسین ـکے نویں فرزند ہیں، کیونکہ امام حسین ـ کے آٹھویں فرزند (آٹھویں پشت میں) امام حسن عسکری ہیں جن کی وفات ٢٦٠ھ میں ہوئی، اور آپ کو خدا نے صرف ایک بیٹا عنایت کیا تھا جس کا نام محمد تھا چنانچہ آپ ہی امام مہدی ہیںجن کی کنیت ابو القاسم ہے۔ (١)
…………………
(١)عامہ کی صحاح ستہ اور ان کے علاوہ دوسری کتابوں میں موجود ہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا :
''سیظہرفی آخرالزمان رجل من ذریتی اسمہ اسمی، وکنیتہ کنیتی،یملأ الارض عدلاًوقسطاً کماملئت ظلماًوجوراً''
آخری زمانے میں میری ذریت سے ایک شخص ظاہر ہوگا جس کا نام میرا نام ہوگا ، اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی ، وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی .

آپ کو مؤثق مسلمانوں نے دیکھا ہے، اور آپ کی ولادت ، خصوصیات اور امامت نیز آپ کی امامت پرآپ کے والدکی طرف سے نص کی خبر دی ہے ، آپ اپنی ولادت کے پانچ سال بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگئے ، کیونکہ دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن خدا وند متعال نے آپ کو اس لئے ذخیرہ کرکے رکھا ہے تاکہ آخری زمانے میں عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت قائم کریں ، اور زمین کو ظلم و فساد سے پاک کر دیں بعد اس کے کہ وہ اس سے بھری ہوئی ہوگی ۔
اور یہ کوئی عجیب و غریب بات نہیں کہ آ پ کی عمر اس قدر طولانی کیسیہوگئی؟ کیونکہ قرآن مجید ا س وقت بھی حضرت عیسی ـ کے زندہ ہونے کی خبر د ے رہا ہے ، جبکہ ان کی ولادت کو اس وقت ٢٠٠٥ سال ہونے چاہتے ہیں، اسی طرح حضرت نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال زندہ رہے اور اپنی قوم کو اﷲ کی طرف دعوت دیتے رہے، اور حضرت خضر نبی ـ بھی ابھی تک موجودہیں ،کیونکہ اﷲ تعالی ہر شۓ پر قادر ہے ، اس کی مشیت پوری ہونے والی ہے، جسے کوئی ٹال نہیں سکتا ، کیا اس نے حضرت یونس ـ کے بارے میں یہ نہیں فرمایا ہے:
( فَلَوْلَا اَنَّہُ کَاْ نَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ٭ لَلَبِثَ فِی بَطْنِہ اِلٰی یَوْمِ
یُبْعَثُوْنَ)(١)
پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ، تو روز قیامت تک اسی کے شکم میں رہ جاتے ۔
چنانچہ اہل سنت کے اکثربزرگ اور جلیل القدر علماء امام مہدی(عج) کی ولادت اور ان کے وجود کے قائل ہیں، اور انھوںنے ان کے اوصاف و والدین کے نام کا ذکر کیا ہے ، مثلاً:
١لف۔ عبد المؤمن شبلنجی اپنی کتاب'' نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار '' میں۔
ب۔ ابن حجر ہیثمی مکی شافعی نے اپنی کتاب'' الصواعق المحرقة'' میں کہتے ہیں : ابو القاسم محمد الحجة کی عمر ان کے والد کی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی لیکن خدا نے اسی سن میں آپ کوحکمت عطا کی اور ان کا نام قائم منتظر ہے ۔
ج۔ قندوزی حنفی بلخی نے اپنی کتاب ''ینابیع المؤدة '' میں اس کا تذکرہ کیا ہے جو دورخلافت عثمانیہ ترکی میں( استانہ) سے شائع ہوئی تھی۔
د۔سید محمد صدیق حسن قنوجی بخاری نے اپنی کتاب '' الاذاعة لما کان وما یکون بین یدی الساعة ''میں اسے لکھا ہے ۔
یہ ہیں متقدمین علماء کے اقوال ، اور متاخرین میں سے ڈاکٹر مصطفی رافعی نے اپنی
…………………
(١)سورۂ صافات، آیت٣ ١٤، ١٤٤.

کتاب '' اسلامنا '' میں لکھا ہے،چنانچہ جب انھوں نے مسئلہ ٔ ولادت کی بحث کی ہے تو بڑی طول و تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے، اور اس بارے میں ان تمام ا عتراضات اور شبہات کے جواب دئے ہیںجو اس مقام پر ذکر کئے جاتے ہیں ۔

21:فروع دین کے بارے میں
٢١۔ جعفری فرقہ والے لوگ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں ، اوراپنے مال میں سے زکات و خمس ادا کرتے ہیں ، اور مکۂ مکرمہ جاکر ایک بار بطور واجب حج بیت اﷲ الحرام کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی مستحب عمرہ و حج ادا کرتے رہتے ہیں ، اورنیکیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں،اور برائیوں سے روکتے ہیں، اور اولیائے خدا و رسول سے محبت کرتے ہیں، اور خدا و رسول کے دشمنوں سے دشمنی کرتے ہیں ،اور اﷲ کی راہ میں ہر اس کافر و مشرک سے جہاد کرتے ہیں جو اسلام کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہو،اور ہر اس حاکم سے جنگ کرتے ہیں، جو قہر و غلبہ کے ذریعہ امت مسلمہ پر مسلط ہوگیا ہے، اور دین اسلام(جوکہ دین حنیف ہے)کی موافقت کرتے ہوئے تمام اقتصادی ،سماجی اور گھریلو مشغلوں اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ، جیسے تجارت ، اجارہ ، نکاح ، طلاق ،میراث ، تربیت و پرورش، رضاعت اور حجاب وغیرہ ۔
اور ان سب چیزوں کے احکام کو اجتہاد کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں، جنھیں متقی اور پرہیزگار علماء ،کتاب،صحیح سنت اوراہل بیت(ع)سے ثابت شدہ احادیث اور عقل و اجماع کے ذریعہ استنباط کرتے ہیں ۔

22:نماز اور اسے اوقات کے بارے میں
٢٢۔ اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام یومیہ فرائض کے اوقات معین ہیں، اور یومیہ نماز کے لئے پانچ وقت ہیں : فجر، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء ، اور افضل یہ ہے کہ ہر نماز کو اس کے مخصوص وقت میں انجام دیا جائے ، مگر یہ کہ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھاجا سکتاہے ،کیونکہ رسول خدا ۖ نے کسی عذر ، مرض، بارش اور سفر کے بغیر ان نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا تھا ، جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے، اور یہ امت مسلمہ کی سہولت کیلئے کیا گیا ہے خاص طور سے ہمارے زمانے میں ایک فطری اور عام بات ہے ۔

23:آذان کے بارے میں
٢٣۔ شیعہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اذان دیتے ہیں ، البتہ جب جملۂ '' حی علی الفلاح''آ تا ہے تو اس کے بعد جملۂ ''حی علی خیر العمل ''بھی پڑھتے ہیں، کیونکہ رسول خدا ۖ کے دور میں یہ حصہ اذان میں کہا جاتا تھا ، لیکن بعد میں حضرت عمر نے اپنے اجتہاد کی بناپر اس کی یہ علت بتاتے ہوئے کہ چونکہ اس سے مسلمان جہاد کرنے سے رک جائیں گے اس کو اذان سے حذف کر دیا ، ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اس سے یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ نماز ہی بہترین عمل ہے،لہٰذا جہاد کی طرف پھر کوئی رغبت نہیں کریگا، اس لئے اسے اذان سے حذف کردیا جائے تو بہتر ہے -جیساکہ علامہ قوشچی اشعری نے اپنی کتاب'' شرح تجریدالاعتقاد '' میںاور المصنف میں، کندی، کنز العمال میں، متقی ہندی.وغیرہ نے اسے نقل کیاہے-اس کے علاوہ حضرت عمرنے ایک اورجملہ کااضافہ کیاہے: ''الصلاةخیرمن النوم ''جبکہ یہ جملہ رسول اسلام کے زمانہ میں نہیں تھا ۔ (دیکھئے : کتب حدیث و تاریخ) .جبکہ عبادت اور اس کے مقدَّمات اسلام میں شارع کے امر اور اس کے اذن پر موقوف ہیں ، یعنی شریعت میں ہر عمل کیلئے قرآن اور سنت سے نص خاص یا نص عام موجود ہو، اور اگر کسی عمل کی نص نہ ہو تو وہ مردود اور بدعت ہے،جسے اسکے انجام دینے والے کے منہ پر مار دیا جائے گا ، کیونکہ عبادت میں کسی چیز کی زیادتی یا کمی ممکن نہیں ہے ، بلکہ تمام شرعی امور میں کسی کی ذاتی رائے کا کوئی دخل نہیں ہے ،البتہ شیعہ حضرات جو ''اشہدان محمداًرسول اﷲ'' کے بعد '' اشہد ان علیاً ولی اﷲ'' کہتے ہیں تو یہ ان روایات کی بنا پر ہے جو رسول خدا ۖ اور اہل بیت (ع)سے نقل کی گئی ہیں ، اور ان میں یہ تصریح موجود ہے کہ محمد رسول اﷲ کہیں ذکر نہیں ہوا ،یا باب جنت پر نہیں لکھا گیا مگر اس کے ساتھ علی ولی اﷲ ضرور تھا، اور یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ شیعہ علی کو نبی بھی نہیں سمجھتے چہ جائیکہ وہ آپ کی ربوبیت اور الوہیت کا(العیاذ باﷲ) عقیدہ رکھتے ہوں ،لہٰذاتوحید و رسالت کی شہادت کے بعد تیسری شہادت( علی ولی اﷲ) کہنا جائز ہے ، اس امید میں کہ یہ بھی مطلوب پرور دگار ہو، البتہ اس کو جزء اور وجوب کے قصد سے انجام نہ دے، یہی شیعوں کے اکثر علماء کا فتوی ہے۔
پس یہ زیادتی بغیر قصد جزئیت کے انجام دی جائے گی ، جیسا کہ ہم نے کہا ہے،لہٰذا یہ ایسا نہیں کہ شرع میں اس کی کوئی اصل نہ ہو ،اس لئے یہ بدعت ہے۔