یہ حقیقت ہے
 

10:نزول قرآن کے بارے میں شیعوں کانظریہ
١٠۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم حضرت محمد مصطفی ۖ پر جبرئیل امین کے ذریعہ نازل ہوا ، جسے کچھ بزرگ صحابہ نے رسول اسلام حضرت محمد مطفی ۖ کے دور نبوت میں ہی آپ کے حکم سے تدوین کیا ،جن میں سر فہرست حضرت علی بن ابی طالب ـہیں ،ان حضرات نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ اس کو لفظ بہ لفظ بھی یاد کیا اور اس کے حروف و کلمات نیز سورے اور آیات کی تعداد بھی مشخص اور معین کردی ، اس طرح یہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل تک منتقل ہوتا آرہا ہے ، اور آج مسلمانوں کے تمام فرقے رات و دن اس کی تلاوت کرتے ہیں ، نہ اس میں کوئی زیادتی ہوئی اور نہ ہی کوئی کمی، یہ ہر قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ ہے ، شیعہ حضرات کے یہاں اس بارے میں بھی متعدد چھوٹی اور بڑی کتابیں موجودہیں ۔(١)

11:خلافت کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ
١١۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب حضرت محمد مصطفی ۖ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آ پ نے حضرت علی ـ کو تمام مسلمانوں کی رہبری کیلئے اپنا خلیفہ اور لوگوں کے لئے امام کے طورپر منصبوب کیا ، تاکہ علی ان کی سیاسی قیادت اورفکری راہنمائی فرمائیں، اور ان کی مشکلوں کو حل کریں ، اور ان کے نفوس کا تزکیہ اور ان کی تربیت کریں،اور یہ سب خدا کے حکم سے مقام غدیر خم میں رسول کی حیات کے آخری دور اور حج آخر کے بعد،ان مسلمان حاجیوں کے جم غفیر کے درمیان انجام پایاجو آپ کے ساتھ اسی وقت حج کرکے واپس آرہے تھے ، جن کی تعداد بعض روایات کی بناپر ایک لاکھ تک پہنچتی ہے ، اور اس مناسبت پر متعدد آیتیں نازل ہوئیں ۔ (٢)
…………………
(١)تاریخ قرآن ؛ زنجانی . التمہید فی علوم القرآن ؛ مؤلفہ محمد ہادی معرفت . وغیرہ وغیرہ .
(٢) (یا اَیُّہٰاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ َاِلَیکَ مِنْ رَبِّک وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّاس)سورہ مائدہ ،آیت ٦٧.
دوسری آیت:یہ آیت بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی :
(اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وْرَضِیْتُ لَکُمُ اْلِاسْلامَ دِیْناً)سورہ مائدہ ، آیت ٣.
( اَلْیَوْمَ یَئِسَ الًّذِیْنَ کَفَرُوْا، مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَاْ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ)سورہ مائدہ ، آیت ٣.
نیز یہ آیت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے :
(سَئَلَ سَائِل بِعَذَاْبٍ وَاْقعٍ ٭ لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہُ دَاْفِع ) سورہ معارج ، آیت ٢.

اس کے بعد نبی اکرم ۖ نے علی ـ کے ہاتھوں پر لوگوں سے بیعت طلب کی، چنانچہ تمام لوگوں نے علی کی بیعت کی اور ان بیعت کرنے والوں میں سب سے آگے مہاجرین و انصار کے بزرگ اور مشہور صحابہ تھے، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :کتاب'' الغدیر''جس میں علامہ امینی نے مسلمانوں کے تفسیری اور تاریخی مصادر و مآخذ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔

12:عصمت اور وسیع علم
١٢۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ چونکہ - رسول اکرم ۖ کے بعد-امام کی ذمہ داری وہی ہے جو نبی کی ہوتی ہے جیسے امت کی قیادت و ہدایت ، تعلیم و تربیت ، تبیین احکام اوران کی مشکلات کا حل کرنا ، نیز سماجی اہم امور کا حل کرنا،لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام اور خلیفہ ایسا ہونا چاہیئے کہ لو گ اس پر بھروسہ اور اعتبار کرتے ہوں ، تاکہ وہ امت کو امن و امان کے ساحل تک پہونچا جا سکے ، پس امام تمام صلاحیتوں اور صفات میں نبی جیسا ہونا چاہیئے ، (جیسے عصمت اور وسیع علم )کیونکہ امام کے فرائض بھی نبی کی طرح ہوتے
ہیں، البتہ وحی اور نبوت کے علاوہ ، کیونکہ نبوت حضرت محمد بن عبداﷲ ۖپر ختم ہوگئی، آپ ہی خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں ، نیز آپ کا دین خاتم الادیان ، اور آپ کی شریعت خاتم الشرائع اور کتاب خاتم الکتب ہے ،نہ آپ کے بعد کوئی نبی ، اور نہ آپ کے دین کے بعد کوئی دین ،اور اسی طرح نہ آپ کی شریعت کے بعد کوئی شریعت آئیگی۔ ( شیعوں کے پاس اس میدان میں بھی متعدداور متنوع ضخیم اور فکری واستدلالی کتابیں موجود ہیں.)

13:تسلسل امامت کا عقیدہ
١٣۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امت کو سیدھی راہ پر چلا نے والے معصوم قائد اور ولی کی ضرورت اس بات کی مقتضی اور طلبگار ہے کہ رسول کے بعد امامت اور خلافت کا منصب صرف علی پر ہی نہ ٹھہر جائے ، بلکہ قیادت کے اس سلسلے کو طویل مدت تک قائم رہنا ضروری ہے، تاکہ اسلام کی جڑیں مضبوط اور اس کی بنیادیں محفوظ ہوجائیں ، اور جو خطرات اس کے اصول اور قواعد ہی کو نہیں بلکہ ہر الٰہی عقیدے ، اور خدائی نظام کے سامنے منھ کھولے کھڑے ہیں ان سے اس کو پچایا جا سکے اور اس کے لئے تمام ائمہ(مختلف و متعدد دور میں امت کی رہبری کرکے اپنی سیرت ، تجربات اور مہارت کا) ایسا عملی نمونہ اور پروگرام پیش کر سکیںجس کی مدد سے تمام حالات میں بعد میں چلتی رہی۔

14:بارہ اماموں کا عقیدہ
١٤۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد بن عبد اﷲ ۖ نے اسی سبب اور اسی بلند پایہ حکمت کی بنا پر اﷲ کے حکم کی خاطر علی ـ کے بعد گیارہ امام معین فرمائے،لہٰذا حضرت علی ـ کو ملاکر کل بارہ امام ہیں ، جیساکہ ان کی تعداد کے بارے میں نبی اکرم ۖکی حدیثوں میں وضاحت کے علاوہ تذکرہ بھی ہے کہ ان سب کا تعلق قبیلہ قریش سے ہوگاجیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- البتہ ان کے اسماء اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں ہے- :
''…عن رسول اﷲ ۖ؛ان الدین لایزال ماضیاًقائماًعزیزاًمنیعاًماکان فیہم اثناعشرامیراًاوخلیفةً،کلہم من قریش''
بخاری اور مسلم دونوں نے رسول خداۖ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : بیشک دین اسلام اس وقت تک غالب، قائم اور مضبوط رہے گا جب تک اس میں بارہ امیر یا بارہ خلیفہ رہیں گے ، یہ سب قریش سے ہوں گے ۔
( بعض نسخوں میں بنی ہاشم بھی آیا ہے ،اور کتب صحاح ستہ کے علاوہ دوسری کتب فضائل و مناقب و شعر و ادب میں ان حضرات کے اسماء بھی مذکور ہیں .)
یہ احادیث اگر چہ ائمہ اثنا عشر( جوکہ علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہم السلام ہیں ) کے بارے میں پر نص نہیں ہیں لیکن یہ تعداد اسی پر منطبق ہوتی ہے جو شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں ، اور اس کی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی مگر صرف وہی جو شیعہ کہتے ہیں ۔ (١)
…………………
(١) : خلفاء النبی؛ مؤلفہ حائری بحرانی .