د: آنحضرت ۖ کی رحلت کے بعد ان سے توسل
١۔ ابوبکر کا آنحضرت ۖسے توسل :
جب مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کی خبر
پھیلی اور ابو بکر اس سے مطلع ہوئے تو اپنی رہائش گاہ سنح سے نکلے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے گھر پہنچے ، مسجد میں داخل ہوئے اور کسی سے بات کئے بغیر سیدھے حضرت عائشہ کے پاس گیے ۔ دیکھا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا بدن مبارک ایک چادر میں لپٹا ہوا ہے بدن مبارک کے پاس بیٹھے اور چہرۂ مبارک سے کپڑا ہٹا یا اور اپنے کو اس پر گرا کر بوسے لیتے ہوئے گریہ کرنا شروع کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو خطاب کرتے ہوئے کہا :
یانبی اللہ !خدا نے آپ کے مقدرمیں دوبارموت نہیں لکھی بلکہ ایک ہی بارلکھی تھی جو آگئی اورآپ اس دنیا سے گزرگئے۔
''با بی انت یا نبی اللہ، لا یجمع اللہ علیک موتتین ، اما الموتة التی کتبت علیک فقد متھا''.(١)
مفتی مکہ مکرمہ زینی دحلان نے اس حدیث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے :
''قال ابو بکر: طبت حیا ومیتا، وانقطع بموتک مالم ینقطع للانبیاء قبلک ، فعظمت عن الصفہ ، وجللت عن البکاء ، ولو ان موتک کان اختیاراً لجدنا لموتک بالنفوس ، اذکرنا یا محمد ! عند ربک ولنکن علی بالک''.(٢)
--------------
(١ )صحیح بخاری ٢:٧٠، کتاب الجنائز ، باب االدخول علی المیت بعد الموت ٥: ١٤٣ ، کتاب المغازی ، باب مرضی النبی ۖ
(٢) الدرر السنیة فی الرد علی الوہابیة:٣٤ ، طبع استنبول ، سیرۂ زینی دحلان ٣: ٣٩١ ، طبع مصر .
ابو بکر نے کہا : یا رسول اللہ ۖ! آپ کی زندگی و موت پاک و طاہر اور بابرکت تھی آپ کی موت سے وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا ہے ۔ آپ کا مقام و منزلت اس قدر عظیم ہے کہ ناقابل توصیف ہے اور ہمیں رونے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر آپ کی موت ہمارے اختیار میں ہوتی تو ہم اپنی جانیں قربان کرکے آپ کو بچالیتے ۔
یامحمد ۖ! اپنے رب کے پاس ہمیں یاد رکھنا اور ہمیں فراموش نہ کرنا ۔
٢۔حضرت علی علیہ السلام کا پیغمبر ۖ سے توسل :
جب امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے جسم اطہر کو غسل دے رہے تھے تو آنحضرت ۖ کو خطاب کرتے ہوئے عرض کیا :
بأبی انت وامی یا رسول اللہ ! لقد تقطع بموتک مالم ینقطع بموت غیرک من النبوة ، والانباء ، واخبار السماء ، الی ان قال: بابی انت وامی اذکرنا عند ربک واجعلنا من بالک ''.(١)
یا رسول اللہ ۖ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔آپ ۖکے انتقال سے نبوت الٰہی ،احکام اور آسمانی اخبار کا سلسلہ منقطع ہو گیا جوا پ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا ...
میرے ماں باپ آپ پر قربان۔خدا کی بارگاہ میں ہمارا بھی ذکر کیجئے گا اور
اپنے دل میں ہمارا بھی خیال رکھئے گا ۔
--------------
(١)نہج البلاغہ خطبہ ٢٣٥.
٣۔ بادیہ نشین عرب کا رسول خدا ۖکی قبر مبارک سے توسل :
تمام مذاہب اسلامی کے مولفین نے اعرابی کے قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی زیارت سے مشرف ہونے کی داستان کو اپنی کتب میں لکھا اور اسے عظمت و احترام سے یاد کیا ہے اور اسے زیارت کا عالی ترین نمونہ شمار کیا ہے ۔
یہ داستان ابن عساکر نے تاریخ دمشق ، ابن جوزی نے میثر الغرام الساکن میں اور دوسرے مولفین نے محمد بن حرب ہلالی سے نقل کی ہے کہ وہ کہتا ہے :
میں مدینہ منورہ گیا تو آنحضرت کی قبر مبارک پہ پہنچا زیارت کے بعد قبر آنحضرت ۖ کے سامنے بیٹھ گیا ، اتنے میں ایک بادیہ نشین عرب وارد ہوا اور قبر رسول کی زیارت کے بعد آپ ۖ کو خطاب کرکے کہنے لگا :
اے خدا کے بہترین پیغمبر ! خدا وند متعال نے وہ کتاب آپ ۖ پر نازل فرمائی جس میں حق اور سچ کے سوا کچھ اور نہیں اور اس میں فرمایا :
(وَلَوْ َنَّہُمْ ِذْ ظَلَمُوا َنفُسَہُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَحِیمًا)(١)
ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول ۖ بھی ان کے حق
--------------
(١) سورۂ نساء : ٦٤.
میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔
اورمیں اب آیا ہوں کہ تجھے واسطہ قرار دے کر خد اوند متعال سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کروں اور پھر گریہ کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا :
یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہ
فطاب من طیبھن القاع والاکم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
اے وہ بہترین ذات جو زمین کی تہہ میں دفن ہو چکی ہے زمین اور اس کے اطراف کے پہاڑ تیرے وسیلہ سے پاک وپاکیزہ ہوگئے ہے ۔
میری جان قربان اس قبر پر جس کے ساکن آپ ہیں وہ قبر جس میں عفت و پاکیزگی اور جود وکرم مدفون ہیں ۔
اس کے بعد خدا سے مغفرت طلب کی اور مسجد سے باہر چلا گیا ۔
محمد بن حرب ہلالی کہتا ہے :
میں نے خواب میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھا آپ ۖ نے مجھ سے فرمایا: اس اعرابی شخص کو تلاش کرکے یہ بشارت دے کہ خداوند متعال نے میری شفاعت کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے ۔
میں نیند سے اٹھا اور اس کے پیچھے گیا لیکن اسے ڈھونڈنہ سکا ۔(١)
--------------
(١) دفع الشبة عن الرسول ، حصنی : ١٤٣ ؛ الاحکام السلطانیة ماوردی : ١٠٩ ؛ شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :١٥١؛ الدرر السنیة ١: ٢١.
٤۔حضرت ابو ایوب انصاری کا قبر پیغمبر ۖپر آنا:
حاکم نیشاپوری اور احمد بن حنبل نے داؤد بن ابو صالح سے حضرت ابو ایوب انصاری کے قبر رسول کی زیارت کے لئے آنے اور مروان اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی داستان کو یوں بیان کیا ہے :
اموی خلیفہ مروان بن حکم (١)متوفیٰ ٦٣ ہجری نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر بیٹھا اپنا چہرہ اس پر رکھے ہوئے ہے مروان نے اس کو گردن سے پکڑ اور کہا : تجھے معلوم ہے کہ کیاکر رہا ہے؟ جب غور کیا تو دیکھا بو ایوب انصاری ہیں ۔
انھوںنے جواب دیا : ''نعم جئت رسول اللہ ]صلی اللہ علیہ وسلم ولم آت الحجر ، سمعت رسول اللہ ]صلی اللہ علیہ وسلم [ یقول: لا تبکوا علی الدین اذا ولیہ اھلہ ، ولکن ابکوا علیہ اذا ولیہ غیراہلہ''(٢)
ہاں ! میں رسول خدا ۖ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ میں نے
--------------
(١) مروان بن حکم بن ابو العاص بن امیہ ہجرت کے دوسال بعدپیدا ہوا عثمان کی حکومت میں دفتری امور اس کے حوالے تھے معاویہ کے دور حکومت میں مدینہ کا حاکم بنا اور معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد خلیفہ بنا نوماہ حکومت کی اور ٦١ یا ٦٣ ہجری میں مر ا۔ تہذیب الکمال مزی ٢٧: ٣٨٩.
(٢) مستدر ک علی الصحیحین ٤: ٥١٥؛ مسند احمد ٥: ٤٢٢؛ تاریخ مدینہ دمشق ٥٧: ٢٤٩؛ مجمع الزوائد ٥: ٢٤٥.
آنحضرت ۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب اہل لوگ دین کی سر پرستی کریں تو اس وقت پر مت رونا بلکہ اس وقت رونا جب نااہل اس کی سر پرستی کرنے لگیں ۔
٥۔ حضر ت بلال بن حارث کا قبر پیغمبر سے توسل :
بیہقی اور دیگر نے نقل کیا ہے :
''اصاب الناس قحط فی زمن عمر رضی اللہ عنہ ، فجاء رجل الی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال: یا رسول اللہ ! ھلک الناس ، استسق لامتک ، فاتاہ رسول صلی اللہ الیہ وآلہ وسلم اللہ علیہ وسلم فی المنام ، فقال: ائت عمر فاقراہ منی السلام ، واخبرہ انھم مسقون ، قل لہ : علیک الکیس .
قال: فاتی الرجل فاخبرہ ، فکبی عمر رضی اللہ عنہ ، وقال: یا رب ما آلوا الا ما عجزت عنہ ''(١)
عمر کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوئے تو ایک شخص قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پر آیا ور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ ! لوگ مر رہے ہیں اپنی امت کے لئے طلب باران فرمائیں ۔ اس شخص نے خواب میں رسول خدا ۖکو دیکھا
--------------
(١) دلائل النبوة بیہقی ٧: ٤٧ باب ماجاء فی رویة النبی ۖ فی المنام، المصنف ابن ابی شبیہ ٧: ٤٨٢ تاریخ دمشق ٤٤: ٣٤٦ و ٥٦ : ٤٨٩ ، الاستیعاب ٣: ١١٤٩ ، تاریخ اسلام ٣: ٢٧٣ ،ا لبدایة والنہایة ٧: ١٠٥، وحوادث سال ١٨ ، الاصابہ٦: ٢١٦ ؛ فتح الباری ٢: ٤١٢ ، باب سوال الناس الامام الاستسقاء ، اذا قحطوا کنز العمال٨: ٤٣١.
آپ نے اس سے فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اسے جا کرمیرا سلام پہنچاؤ اور کہو کہ بہت جلد سیراب ہوگے اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ اپنی سخاوت کو بڑھا دو ۔
وہ شخص عمر کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا : عمر نے سن کر رونا شروع کیا اور کہا: خدایا! میں نے کوشش کی لیکن عاجز رہا ۔
ابن حجرلکھا ہے :'' وروی ابن ابی شیبة باسناد صحیح'' ابن ابی شبیہ نے اس روایت کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے ...اور جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے صحابی بلال بن حارث تھے ۔(١)
نیز ابن کثیر نے لکھا ہے : ''وھذا اسناد صحیح ''اس روایت کی سند صحیح ہے ۔(٢)
مفتی اعظم مکہ مکرمہ زینی دحلان لکھتے ہیں :
بیہقی اور ابن ابو شبیہ نے سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے :
عمر کی خلافت کے زمانہ میں لوگ قحط سا لی میں مبتلا ہو ئے تو ایک شخص بنام بلال بن حارث صحابی پیغمبر ۖ قبر آنحضرت ۖ کے پاس گئے اور ان سے خطاب کر کے عرض کیا :
یا رسول اللہ ! آپ ۖکی امت ہلاک ہو رہی ہے ان کے لئے باران رحمت کی
--------------
(١)فتح الباری ٢: ٤١٢، باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذاقحطوا .
(٢)البدایة والنہایة ٧: ١٠٥ ، وقائع سال ١٨ .
دعا فرمائیں ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو خواب میں دیکھا کہ فرمایا : لوگوں سے کہہ دو باران رحمت کا نزول ہوگا ۔
اس روایت میں خواب سے آنحضرت کی دنیوی زندگی کے بعد ان سے توسل کے جائز ہونے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ حکم شرعی کے اثبات کے لئے خواب کافی نہیں چونکہ ممکن ہے خواب دیکھنے والا اس میں اشتباہ کر بیٹھے اور اسے اچھے طریقے سے یاد نہ رکھ سکے ۔
بلکہ اس روایت میں ایک صحابی کے عمل سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کا قبر پیغمبرۖ پر آنا اور طلب رحمت کی درخواست کرنا یہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی رحلت کے بعد توسل کے جائز ہونے کی دلیل ہے اور شرعی معیار کو بیان کر رہا ہے کہ خدا وند متعال سے تقرب کا سب سے بہترین طریقہ آنحضرت ۖ سے توسل ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی ان کی خلقت سے پہلے انھیں وسیلہ قرار دیا ۔(١)
٦۔ عثمان بن حنیف کی راہنمائی سے ایک پریشان شخص کا آنحضرتۖ سے توسل کرنا :
طبرانی اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص اپنی مشکل کو حل کرنے کی خاطر تیسرے خلیفہ عثمان کے پاس آتا جاتا رہتا لیکن اس نے اس پر توجہ نہ کی تو وہ عثمان
--------------
(١) الدرر السنیة ١: ٩.
بن حنیف کے پاس گیا اور اس سے شکایت کی ۔ عثمان بن حنیف نے اس سے کہا :
وضو کر کے مسجد میں جاؤ اور نماز پڑھنے کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کرو اور کہو :''اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بنیبک محمد نبی الرحمة ، یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فیقضی لی حاجتی ، وتذکر حاجتک''.
خدایا ! میں تجھے تیرے نبی رحمت محمد ۖ کا واسطہ دیتا ہوں اور اے محمد ! میں آپ کے وسیلے سے اپنی حاجت خداسے طلب کر ر ہاہوں اور پھر اپنی حاجت بیان کر ۔
اس شخص نے عثمان بن حنیف کی نصیحت پر عمل کیااور پھر عثمان بن عفان خلیفہ مسلمین کے پاس گیا جیسے ہی اس کے خادم کی نظر پڑی تو ا سے انتہائی احترام سے عثمان کے پاس لایا ۔ خلیفہ نے اسے اپنے پاس بتھایا اور اس کی مشکل بر طرف کردی .
وہ خلیفہ کے پا س سے سیدھا عثما ن بن حنیف کے پاس پہنچا اسے ساری داستان سنائی اور اس کا شکریہ اداکیا ۔
عثمان بن حنیف نے کہا:
خدا کی قسم ! یہ تو سل میں نے اپنے پاس سے بیان نہیں کیا بلکہ ایک مرتبہ آنحضرت ۖ کے پاس موجود تھا تو ایک نابنیا شخص آیا اور دعا کا تقاضا کیا تو آنحضرت ۖ نے اسے یہی توسل تعلیم فرمایا جس کی برکت سے اس نابینا کی بینائی پلٹ آئی ۔(١)
--------------
(١)معجم صغیر طبرانی ١: ١٨٣، طبع المکتبة السلیفة.
مبارکپوری متوفیٰ ١٣٥٣ ہجری اپنی کتاب تحفة الاحوذی جو کہ صحیح ترمذی کی شرح ہے اس میں لکھتا ہے :
شیخ عبد الغنی دہلوی متوفیٰ ١٢٩٦ ہجری نے ''انجاح الحاجة علی سنن ابن ماجہ ''میں لکھا ہے :
ہمارے استاد شیخ محمد عابد سندھی متوفیٰ ١٢٥٧ ہجری نے اپنا رسالہ ''طوالع الانوار علی الدر المختار ''میں کہا ہے :
نابینا شخص والی حدیث آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ان کی حیات میں توسل کے جائز ہونے کی دلیل ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ان کی رحلت کے بعد توسل کے جائز ہونے کی دلیل اس شخص کی داستان ہے جو عثمان بن عفان کے پاس اپنی حاجت کے لئے رفت آمد کرتا اور آنحضرت ۖ کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوگئی ۔(١)
شوکانی متوفی ١٢٥٥ ہجری لکھتا ہے :
یہ حدیث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کے جائز ہونے پر دلالت کررہی ہے لیکن بشرطیکہ معتقد ہوں کہ تمام کام خدا وند متعال کے وسیلہ سے انجام پاتے ہیں اور وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے نہیں چاہتا مانع ایجاد کردیتا ہے ۔ جس چیز کا وہ ارادہ کرتا ہے وہی محقق ہو تی ہے اور جس چیز کا ارادہ نہ کرے وہ
کبھی وقوع پذیر نہ ہوگی ۔(2)
--------------
(١)تحفة الاحوذی ١٠: ٣٤.
(2)تحفة الذاکرین : ١٦٢.
٧۔حضرت بلال مؤزن پیغمبر ۖ کا آپ کی قبر سے توسل :
حضرت بلال مؤذن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) عمر کے دور خلافت میں شام چلے گئے اور وہاں پر سکونت پذیر ہوگئے ایک رات خواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھا کہ وہ فرمارہے ہیں :
''ماھذہ الجفوةیا بلال ؟!اما آن لک ان تزورنی یا بلال ؟ فانتبہ حزینا وجلا خائفا ، فرکب راحلتہ وقصدالمدینة فاتی قبر النبی ] ۖ[، فجعل یبکی عندہ ویمرغ وجھہ علیہ،فاقبل الحسن والحسین ]علیہماالسلام [فجعل یضمھماویقبلھما''. (1)
اے بلال ! یہ کیسی جفا تو نے ہمارے حق میں روا رکھی ہے ؟ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تو میری زیارت کرے ؟
حضرت بلال خوف اور گھبراہٹ کی حالت میں نیند سے اٹھے جلدی سے اپنی سواری آمادہ کی اور مدینہ منورہ قبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف حرکت کی ۔
جب مدینہ منورہ میں قبر رسول کے پاس پہنچے تو گریہ کرتے ہوئے اپنی
--------------
(1) اسد الغابة فی معرفة الصحابة ١: ٢٨.
صورت کو قبر پر ملنا شروع کیا اتنے میں حسن وحسین (علیہما السلام)کو دیکھا کہ وہ اپنے نانا کی قبر مبارک کی طرف آرہے ہیں انھیں آغوش میں لیا اور بوسے دینے لگے ۔
٨۔ حنبلیوں کے بزرگ کا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسل ہونا :
اہل سنت کے بہت بڑے عالم دین خطیب بغدادی لکھتے ہیں :
ابو علی خلال متوفیٰ ٢٤٢ ہجری کہتا ہے :(١)
''ماہمتنی امر فقصدت قبر موسیٰ بن جعفر فتوسلت بہ الا سھل اللہ تعالیٰ لی ما احب ''.(٢)
مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی قبر پر جاکر متوسل ہوتااور مشکل برطرف ہو جاتی۔
٩۔ قبر امام علی رضا علیہ السلام ، بزرگان اہل سنت کی زیارت گاہ :
محمد بن مومل کہتا ہے :
اہل حدیث کے امام ابن حزیمہ اور بہت سے اساتیذ و بزرگان کے ہمراہ طوس
--------------
(١)مزی نے یعقوب بن شیبہ کا قول نقل کیا ہے کہ''کان ثقة، ثبتا ، متقنا'' ابو علی خلال ثقہ ، محکم اور قابل اعتماد شخص تھا اسی طرح اس نے اس کی وثاقت کو نسائی اور خطیب بغدادی سے بھی نقل کیا ہے . تہذیب الکمال ٦: ٢٦٣.
(٢) تاریخ بغداد ١: ١٣٣ ، طبع الکتب العلمیة ، بیروت ، تحقیق مصطفی عطا .
میں علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کی قبر پہ گئے'' فرایت من تعظیمہ یعنی ابن خزیمة لتلک البقعة ، تواضعہ لھا و تضرعہ عندھا ماتحیرنا '' میں نے دیکھا کہ ابن خزیمہ نے اس روضہ کی انتہائی تعظیم کی ، اس کی اس تواضع اور عاجزی کو دیکھ کر ہم حیرت زدہ رہ گئے ۔(١)
طوس میں علی بن موسیٰ رضا (علیہما السلام )کی قبر مبارک ہارون الرشید کی قبر کے پاس ہے وہ ایک مشہور زیارت گاہ ہے جس کی میں نے کئی بار زیارت کی ہے ۔
''وما حلت بی شدة فی وقت مقامی بطوس فزرت قبر علی بن موسیٰ الرضا صلوات اللہ علی جدہ وعلیہ ، ودعوت اللہ ازا لتھا عنی الا استجیب لی وزالت عنی تلک الشدة، وھذا شیء جربتہ مرارا فوجدتہ کذلک '' .(٢)
میں جتنی مدت طوس میں رہا جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو علی بن موسیٰ رضا ( علیہماالسلام ) کی قبر کی زیارت کرتا اور خداوند متعال سے مشکل کے دور ہونے کی دعا کرتا ۔ بہت جلد وہ مشکل حل ہو جاتی میں نے اسے کئی بار تجربہ کیا ۔
خداوند متعال ہمیں محمد اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کی محبت پر موت دے ۔
١٠۔امام شافعی کا ابو حنیفہ کی قبر سے توسل :
حنفیوں کے امام ابو حنیفہ کی قبر بغداد کے علاقہ اعظمیہ میں عام و خاص کے
--------------
(١)تہذیب التہذیب ٧: ٣٣٩. (٢)الثقات ٨: ٤٥٧.
لئے زیارت گاہ بن ہوئی ہے خطیب بغدادی اور اہل سنت کے بزرگ علما علی بن میمون سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے امام شافعی سے سنا :
''انی لاتبرک بابی حنیفة واجیء الی قبرہ فی کل یوم یعنی زائرا ، فاذا عرضت لی حاجة صلیت رکعتین وجئت الی قبرہ وسالت اللہ تعالیٰ الحاجة عندہ فما تبعد عنی حتی تقضی ''.(١)
میں ہر روز ابو حنیفہ کی قبر پہ جاتا اور اس سے تبرک حاصل کرتا ہوں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتا ہوں بلا فاصلہ حاجت پوری ہو جاتی ہے ۔
--------------
(١)تاریخ بغداد ١: ١٣٥ ؛ وخوارزمی ،در مناقب ابی حنیفہ ٢: ١٩٩ و منتظم ابن جوزی١٦: ١٠٠.
والسلام علیکم ورحمة اللہ برکاتہ
١١ذی الحجة ٢٠٠٨ء دن گیارہ بج کر ٢٥ منٹ پر کتاب مکمل ہوئی
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ کے اہداف
٭تعلیمات محمد وآل محمد کی نشرواشاعت
٭مبلغین کی تربیت
٭ مذہب حقہ پرہونے والے اعتراضات کے جوابات
٭فن ترجمہ وتحقیق سے آشنائی
٭غریب مؤمنین کی مدد
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ کی مطبوعات
١۔الصواعق الالھیة فی الرد علی الوھابیة
٢۔وہابی افکار کا ردّ(تیرہ موضوعات پر مشتمل مستند کتاب)
٣۔اعمال ماہ رمضان المبارک
٤۔آگ اورخانہ زہراء سلام اللہ علیھا
٥۔القول الاظھرفی مناقب الصدیق الاکبر
٦۔نماز تراویح سنت یابدعت؟
٧۔نماز ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟
٨۔ندائے ولایت (اشھد ان علیا ولی اللہ )
٩۔مذہب شیعہ پرہونے والے اعتراضات کے جوابات
١٠۔نظریہ عدالت صحابہ (قرآن وسنّت کی روشنی میں)
١١۔شرح چہل حدیث امام مہدی علیہ السلام
١٢۔ شیعیان علی اہل سنّت کی نظر میں
١٣۔ گنہگار عورتیں
١٤۔ عقد امّ کلثوم
|