توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات کی رد
الف:انبیاء سے توسل قرآن میں ثابت ہے
١۔ رسول اکرم ۖسے توسل پر حکم قرآن :
انبیاء علیہم السلام سے ان کی زندگی میں شفاعت طلب کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شیعہ عقائد سے کسی قسم کاکوئی تضاد نہیں پایاجاتا ۔ جیساکہ خداوند متعال کا فرمان ہے :
(وَلَوْ َنَّہُمْ ِذْ ظَلَمُوا َنفُسَہُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَحِیمًا)(1)
ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول ۖ بھی ان کے حق
--------------
(1) سورۂ نساء : ٦٤.
میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔
٢۔ پیغمبر ۖسے ان کی زندگی اور اس کے بعد توسل کا ثابت ہونا :
اردن کے اہل سنت عالم دین محمود سعید ممدوح توسل کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنت کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
اس آیت شریفہ ( ِذْ ظَلَمُوا َنفُسَہُمْ ...)
میں گناہگاروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بخشش کے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو واسطہ اور شفیع قرار دیں ۔ یہ حکم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیات اور اس کے بعد دونوں حالتوں کو شامل ہے اور اگر کوئی اسے فقط آنحضرت ۖ کی حیات تک محدود کرنا چاہے تو وہ غلطی کا شکار ہوا اور راستہ سے اتر گیا اس لئے کہ جب بھی کوئی فعل حرف شرط کے بعد آتا ہے تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے اور کسی عبارت کے مفہوم کے عام اور کلی ہونے کی سب سے واضح ترین صورت یہی ہے جیساکہ کتاب ( ارشاد الفحول ) کے صفحہ نمبر ٢٢ پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
استاد محترم علامہ محقق سید عبد اللہ صدیق غماری لکھتے ہیں : یہ آیت شریفہ عموم رکھتی ہے اور حیات وممات دونوں کو شامل ہوگی اور ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معین کرنا دلیل کا محتاج ہے جوموجود نہیں ہے ۔
قرآنی آیات کی شرح اور اس مقدس کتاب کی تفسیر کرنے والے حضرات نے بھی اس آیت شریفہ سے عموم ہی سمجھا ہے اس لئے کہ تمام مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں عتبیٰ سے ایک اعرابی شخص کے قبر پیغمبر ۖ کے پاس آنے کی داستان نقل کی ہے ۔
ابن کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ''السلام علیک یا رسول اللہ... ''.(١)
٣۔ مالک کا توسل کے جواز پر قرآن سے استدلال
ایک مرتبہ جب عباسی خلیفہ منصور دوانقی مسجد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں زیارت میں مشغول تھا اور بلند آواز سے سلام اور دعا پڑھ رہا تھا تو اہل سنت کے امام مالک سے پوچھا :
''استقبل القبلة وادعوا ام استقبل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) و ادعو''.
کیا زیارت کے بعد قبلہ کا رخ کرکے خد اکو پکاروںیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی طرف منہ کر کے دعا کروں ؟
امام مالک نے کہا :
--------------
(١)رفع المنارةفی تخریج احادیث التوسل و الزیارة : ٥٧.
''ولم تصرف وجھک عنہ وھو وسیلتک ووسیلة ابیک آدم الی اللہ تعالیٰ ؟ بل استقبل واستشفع بہ فیشفعہ اللہ فیک ''
پیغمبر ۖ سے اپنا چہرہ کیوں موڑنا چاہتے ہو جب کہ وہ تو آپ اور آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی وسیلہ ہیں بلکہ قبر آنحضرت کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور ان سے شفاعت طلب کروخدا وند متعال ان کی شفاعت کو قبول کرتا ہے اس لئے کہ اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
(وَلَوْ َنَّہُمْ ِذْ ظَلَمُوا َنفُسَہُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَحِیمًا)(١)
ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول ۖ بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔(٢)
٤۔ برادران یوسفۖ کا حضرت یعقوب علیہ السلام سے توسل :
قرآن مجید نے جناب یوسف علیہ السلام کی داستان میں ان کے بھائیوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
(یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا ِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ )(٣)
--------------
(١) سورۂ نساء : ٦٤. (٢) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ١: ٢٨.
(٣) سورۂ یوسف: ٩٧.
بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا : (قَالَ سَوْفَ َسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی )(١)
میں عنقریب تمہارے حق میں دعا کروں گا ۔
ب: بعثت سے پہلے آنحضرت ۖ سے توسل
١۔ آنحضرت ۖ کی خلقت سے پہلے ان سے توسل :
رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خلقت سے پہلے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کا ان سے توسل اور انھیں وسیلہ قرار دینا ایک مسلم اور غیر قابل انکار مسئلہ ہے چونکہ کتب اہل سنت کے اندر اس موضوع پر اس قدر صحیح روایات موجو دہیں جو انبیاء وا ولیاء سے کسی بھی قسم کے توسل کے شرک ہونے کے وہابی نظریہ کی ہر طرح کی توجیہ و تاویل کا راستہ مسدود کر دیتی ہیں جن میں سے چند ایک روایات کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں :
اہل سنت کے بزرگ عالم دین حاکم نیشاپوری اپنی کتاب (٢)میںعمر بن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا:
''لما اقترف آدم الخطیئة قال: یا رب اسئلک بحق محمد
--------------
(١) سورۂ یوسف: ٩٨ .
(٢) المستدرک علی الصحیحین .٢:٦٧٢۔٤٢٢٧اور٢:٦١٥تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، طبعہ دارالمعرفت بیروت
لما غفرت لی . فقال اللہ تعالیٰ : یا آدم وکیف عرفت محمد ا ً ولم اخلقہ ؟ قال: یا رب لانک لما خلقتنی بیدک ، ونفخت فی من روحک ، رفعت راسی ، فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، فعرفت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک ؛''.
جب حضرت آدم علیہ السلام مصیبت میں مبتلاہوئے تو خد اوند متعال کو رسول اکرم کا واسطہ دے کر بخشش طلب کی ۔
خداوند متعال نے فرمایا : اے آدم ! تو نے محمد ۖ کو کیسے پہچانا جب کہ ابھی تو ہم نے اسے خلق ہی نہیں کیا ؟
حضرت آدم نے عرض کیا: جب تونے مجھے خلق کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا میری نظر عرش پر پڑی تو دیکھا کہ عرش کے ستونوں پر لکھا ہے :
''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' میں سمجھ گیا کہ محمد ۖ آپ کی محبوب ترین ہستی ہیں اسی لئے تو ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے
''فقال اللہ: صدقت یا آدم انہ لا حب الخلق ، اذا سئالتنی بحقہ فقد غفرت لک ، ولولا محمد ما خلقتک''.
خدا وند متعال نے فرمایا: ہاں! تونے سچ کہا کہ وہ پوری مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور اب جب تو نے مجھے اس کا واسطہ دیا ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا اور اگر محمدۖ کو خلق نہ کیا ہوتا تو تجھے بھی خلق نہ کرتا ۔
حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :ھذا حدیث صحیح الاسناد''(١)اس حدیث کی سندصحیح ہے :
بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں اس حدیث کونقل کیا ہے۔(٢)
ذہبی اس کتاب کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ پوری کتاب ہدایت اور نور ہے اسی طرح طبرانی نے اپنی کتاب معجم صغیر(٣)اور سبکی نے شفاء السقام (٤)میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے ، سمہودی نے وفاء الوفاء (٥)اور قسطلانی نے بھی المواہب نیة (٦)میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔
2۔ آنحضر تۖ کی شیر خوارگی میں جناب عبد المطلب کا ان سے توسل :
اہل سنت کے معروف عالم شہرستانی اپنی کتاب ملل ونحل میں لکھتے ہیں :
جب سرزمین مکہ کو قحط نے اپنی لپیٹ میں لیا اور بادلوں نے برسنے سے انکار
--------------
(١)مستدرک علی الصحیحین ٢: ٤٢٢٧٦٧٢و٢: ٦١٥، تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، دار المعرفة بیروت .
(٢) دلائل النبوة ٥: ٤٨٩.
(٣)معجم صغیر٢:٨٢.
(٤)شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :١٢٠
(٥) وفاء الوفاء ٤: ٣٧١.
(٦) المواہب اللدنیة ٤: ٥٩٤.
کر دیا تو اہل مکہ کے لئے زندگی کرنا ناگزیر ہوگیا ۔ جناب عبد المطلب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا :
''یارب !بحق ھذا الغلام ورماہ ثانیا وثالثا وکان یقول : بحق ھذا الغلام اسقنا غیثا ، مغیثا، دائما، ھاطلا، فلم یلبث ساعة ان طبق السحاب وجہ السماء ، وامطر حتی خافوا علی المسجد ''.(١)
خدا یا اس بچے کا واسطہ اپنی رحمت کا نزول فرما: ابھی تھوری ہی دیر گذری تھی کہ مکہ پر بادل چھانے لگے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ ڈرگئے کہ کہیں خانہ کعبہ سیلاب میں ہی نہ بہہ جائے ۔
ابن حجرکہتا ہے :
جب عبد المطلب نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا واسطہ دے کر بارش طلب کی تو سرداران مکہ عبد اللہ بن جد عان اور حرب بن امیہ حضرت عبد المطلب کے پاس آئے اور کہنے لگی :''ھنیائً لک ! ابا البطحاء ''(٢)اے حجاز کے باپ تجھے یہ بچہ مبارک ہو ۔
اسی طرح ابن حجر یہ بھی لکھتا ہے :
--------------
(١)الملل والنحل ٢: ٢٤٩.
(٢) الاصابة فی تمییز الصحابة٨:١٣٦ ، ترجمہ رقیقة بنت ابی صیفی بن ہاشم .
ابو طالب کا یہ شعر اسی داستان سے متعلق ہے :
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
نمال الیتامی عصمة للارامل (١)
وہ سفید چہرے والے جس کے صدقے میں بادل یتیموں ، بیواؤں اور بے چاروں پرر حمت برساتے ہیں ۔
٣۔جناب ابو طالب کا آنحضرت کے بچپن میں ان سے توسل
ابن عساکر اور دیگر نے ابو عرفہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :
جب مکہ پر قحط سالی چھائی تو لوگ ابو طالب کے پاس جمع ہوئے اور ان سے کہنے لگے :اب پورے مکہ پر قحط طاری ہو چکا ہے لوگوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے خدا سے رحمت طلب کریں !
ابو طالب نے ایک چھوٹے سے بچے کو ہمراہ لیا جو وہی پیغمبر گرامی ۖ تھے آفتاب کی مانند چمکتے ہوئے بچوں کے حلقے میںباہر نکلے خانہ کعبہ کے پاس پہنچے اور رسول خدا ۖ کا واسطہ دے کر باران رحمت طلب کی ۔ یہاں تک کہ بادل اکٹھے ہوئے اور بارش برسنے لگی جس سے صحراؤں میں بھی پانی جمع ہو گیا ۔ اس وقت ابو طالب نے اپنا مشہور شعر پڑھا:
وابیض یستسقی الغمام بوجہ
ثمال الیتامی عصمة للارامل (٢)
--------------
(١) فتح الباری ٢: ٤١٢ و دلائل النبوة ٢: ١٢٦.
(٢) مختصر تاریخ دمشق . ابن منظور .١: ١٦٢ خصائص الکبریٰ سیوطی١: ٨٦ وسیرہ نبویہ زینی دحلان ١: ٤٣.
٤۔ یہودیوں کا بعثت سے پہلے آنحضرت سے توسل :
اہل سنت مفسرین و محدثین نے سورہ ٔ بقرہ کی آیت نمبر ٨٩ (١)کے ذیل میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے :
خیبر کے یہودی قبیلہ غطفان کے ساتھ جنگ میں جب شکست کا احساس کرتے تو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کرتے اورکہا کرتے :''انا نسئلک بحق النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخر الزمان لا تنصرنا علیھم ''.(٢)
خدا یا! تجھے نبی امی کا واسطہ دیتے ہیں جس کی بعثت کی بشارت تونے ہمیں دی
بشارت توبت ہمیںدی ہے کہ ہمیں فتح نصیب فرما۔
وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو وسیلہ قرار دیتے لیکن جب آنحضرت
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )رسالت پر مبعوث ہوئے تو انھوں نے انکار کر دیا ۔
--------------
(١) (وَلَمَّا جَائَہُمْ کِتَاب مِنْ عِنْدِ اﷲِ مُصَدِّق لِمَا مَعَہُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَہُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہِ فَلَعْنَةُ اﷲِ عَلَی الْکَافِرِینَ)
ترجمہ : اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جو ان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس سے پہلے وہ دشمنوں کو مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کیا کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہو گئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب کافروں پر خد اکی لعنت ہے ۔)
(٢) تفسیر طبری ١:٣٢٤؛ تفسیر قرطبی ٢: ٢٧؛ العجاب بی ابیان الاسباب ابن حجر عسقلانی ١:٢٨٢، تفسیر در المنثور ١: ٨٨؛ البدایة والنہایة ٢: ٣٧٨؛ مستدرک الصحیحین ٢: ٢٦٣.
ج: بعثت کے بعد رسول اکرم ۖسے توسل :
١۔ آنحضرت ۖ کے دستور پر ایک نابینا کا ان سے توسل کرنا :
ترمذی شریف نے عثمان بن حنیف سے نقل کیا ہے کہ ایک نابینا شخص پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : ''ادع اللہ ان یعافینی'' خدا سے میرے لئے سلامتی طلب کریں ۔
آپ نے فرمایا:'' ان شئت دعوت ، وان شئت صبرت فھو خیر لک . قال فادعہ قال:فامرہ ان یتوضا فیحسن وضوء ہ ویدعوہ بھذا الدعاء ؛
اگر چاہو تو دعا کروں اور اگر صبر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے عرض کیا : آپ ۖ میرے لئے دعا فرمائیں ۔ آنحضرت ۖ نے فرمایا : جاؤ اچھے طریقے سے وضوکر و اور پھر یہ دعا پڑھو :''اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمة یا محمد! انی توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی ، اللھم فشفعہ فی ''.(١)
خدا یا تجھے تیرے نبی رحمت کا واسطہ دیتا ہوں میری حاجت پوری فرما۔ اے محمد ! تجھے وسیلہ بنا کر خدا کی بارگاہ میں پیش ہو ا ہوں تاکہ میری حاجت روا ہو خدا یا ! تو اسے میری شفاعت کرنے والا قرار دے ۔
--------------
(١) صحیح ترمذی ٥: ٣٦٤٩٢٢٩ ، دار الفکر بیروت ، تحقیق عبد الرحمن محمد عثمان ، سنن ابن ماجہ ١: ٤٤٨.
صحاح ستہ میں سے دو کتابوں ترمذی اور ابن ماجہ کے مولفوں نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ا سکے صحیح ہونے کی شہادت دی ہے ۔
حاکم نیشاپوری نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب مستدرک میں متعدد مقامات پر نقل کیا اور اس کے صحیح ہونے کی گواہی دیتے ہوئے لکھا ہے :
یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے ۔(١)
اسی طرح اہل سنت کے دو بزرگ عالموں طبرانی اور ہیثمی نے اس حدیث مبارک کے صحیح ہونے کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔(٢)
ابن تیمیہ کہتا ہے :
''وفی النسائی والترمذی وغیرھما حدیث الاعمیٰ الذی صححہ الترمذی ''.(٣)
سنن نسائی ، صحیح ترمذی اور دیگر کتب میں نابینا شخص والی حدیث موجود ہے
جسے ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
٢۔ اہل مدینہ کا پیغمبر ۖسے توسل :
بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے :
--------------
(١) مستدرک الصحیحین ١: ٣١٣ ، ٥١٩، ٥٢٦.
( ٢)کتاب الدعاء :٣٢٠؛ معجم الکبیر ٩:٣١؛ امجمع الزوائد ٢: ٢٧٩.
(٣) اقتضاء الصراط المستقیم :٤٠٨.
جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں قحط پڑا تو ایک مرتبہ آپ ۖ نما زجمعہ کا خطبہ دینے میں مشول تھے کہ ایک اعرابی اٹھا اورعرض کرنے لگا :
''یا رسول اللہ ھلک المال وجاع العیال فادع اللہ لنا ''یا رسول اللہ ۖ! مال تباہ ہو گیا ہے اور بیوی بچے بھو ک سے مررہے ہیں خداوند متعال سے ہمارے لئے دعا کریں ۔
''فرفع یدیہ ومانری فی السماء قزعة فوالذی نفسی بیدہ ما وضعھا حتی ثار السحاب امثال الجبال ثم لم ینزل عن منبرہ حتی رایت المطر یتحادر علی حیتہ صلی اللہ علیہ وسلم فمطرنا یومنا ذلک من الغدو بعد الغد والذی یلیہ حتی الجمعة الاخری'' .(١)
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے مبارک ہاتھوں کو بلند کیا جب کہ بادلوں کے آثار تک نہ تھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان
ہے ابھی آنحضرت ۖ نے اپنے ہاتھ نیچے نہ کئے تھے کہ پہاڑ کی مانند بادل جمع ہوئے اور اس قدر بارش برسائی کہ منبر سے اتر نے سے پہلے آپ ۖ کی ریش مبارک سے پانی بہہ رہا تھا اور یہ بارش مسلسل ایک ہفتہ تک برستی رہی یہاں تک کہ آپ نے
--------------
(١)صحیح بخاری ١: ٢٢٤۔٩٣٣، کتاب الجمعة ، باب ٣٥، باب الاستسقاء فی الخطبة یوم الجمعة اور حدیث ١٠١٣ و ١٠١٤؛ صحیح مسلم ٣:١٩٦٢٢٥، کتاب صلاة الاستسقاء ، باب ٢، باب الدعاء فی الاستسقاء .
ہے ابھی آنحضرت ۖ نے اپنے ہاتھ نیچے نہ کئے تھے کہ پہاڑ کے مانند بادل جمع ہوئے اور اس قدر بارش برسائی کہ منبر سے اتر نے سے پہلے آپ ۖ کی ریش مبارک سے پانی بہہ رہا تھا اور یہ بارش مسلسل ایک ہفتہ تک برستی رہی یہاں تک کہ آپ نے دوبارہ دعا کی تب رکی ۔
٣۔عمربن خطاب کا رسول اکرم ۖ سے توسل
صحیح بخاری میں انس سے نقل ہوا ہے :
جب کبھی قحط پڑتا تو عمر بن خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے چچا حضرت عباس سے متوسل ہوتے اور کہتے : ''اللھم اناکنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ''.(١ )
خدایا! تیرے پیغمبر کے زمانہ میں ہم ان کو واسطہ قرا ردیتے تو تو باران رحمت نازل فرمایا کرتا اور اب ہم پیغمبر ۖ کے چچا کو وسیلہ بنا رہے ہیں تو ہم پر اپنی رحمت کا نزول فرما۔اسی وقت بارش برسنا شروع ہو گئی۔
--------------
(١) صحیح بخاری ٢:١٠١٠١٦، کتاب الاستسقاء ، باب سواالناس الامامة استسقاء اذاقحطوا .
|