وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
بدعت ، روایات کی روشنی میں
جس طرح قرآن مجید نے بدعت گذاروں کی شدید مذمت کی ہے اور ان کے اقوال کو حقیقت سے دور ، جھوٹ اور تہمت پرمبنی قرا ردیا ہے اسی طرح شیعہ و سنی کتب کے اندر موجودہ روایات میں بھی بدعت گذارکی مذمت اور ا سے فاسق وبدکار انسان قرار دیا گیا ہے ، نمونہ کے طور پر چند ایک روایات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :
١۔ہر بدعت مردود ہے :
اہل سنت کی دو معتبر کتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا قول نقل کیا گیا ہے کہ آپۖ نے فرمایا:
''من احدث فی امرنا ھذا، مالیس فیہ فھو رد''.(١)
جو شخص ہماری لائی ہوئی شریعت میں ایسی چیز کا اضافہ کرے جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔
''...من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد''.(٢)
جو شخص ایسا عمل کرے جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہے ۔
صحیح مسلم میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا فرمان نقل کیا گیا ہے کہ آپ ۖنے فرمایا:
بہترین کلام ، کلام خدا ہے اور بہترین ہدایت ، ہدایت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے اور بد ترین کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

٢۔ہر بدعت گمراہی ہے :
صحیح مسلم میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا فرمان بیان کیا گیا ہے :
--------------
(١)صحیح بخاری ٣:١٦٧ ؛ کتاب الصلح ، باب قول الامام لا صحابہ ...؛ صحیح مسلم ٥: ١٣٢ ، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود ..
(٢)صحیح بخاری ٣: ٢٤ ،کتاب البیوع ، باب کم یجوز الخیار؛ صحیح مسلم ٥:١٣٢، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود .
''فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدیٰ ھدی محمد و شر ا لا مور محدثا تھا وکل بدعة ضلالة ''.(١)
بہترین کلام ، کلام خدا ہے اور بہترین ہدایت ، ہدایت پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے اور بد ترین امور بدعات ہیں جو دین میں ایجاد کی جاتی ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
سنن نسائی میں ہے :
''کل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار ''(٢)ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ جہنم ہے ۔
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا یہ فرمان :'' کل بدعة ضلالة'' ہر بدعت گمراہی ہے ۔
منطوق و مفہوم یعنی ظاہر اور دلالت کے اعتبار سے ایک قاعدہ ٔ کلی ہے اس لئے کہ اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی بدعت پائی جائے وہ گمراہی ہے اور شریعت سے خارج ہے اس لئے کہ پوری کی پوری شریعت ہدایت ہے اس میں گمراہی کا کوئی امکان نہیں ۔
اگر ثابت ہو جائے کہ فلاں حکم بدعت ہے تو منطق کے اعتبار سے یہ دو
--------------
(١)صحیح مسلم ٣: ١١ کتاب الجمعة ، باب تخفیف الصلاة والجمعة.
(٢)سنن نسائی ٣: ١٨٨ ؛ جامع الصغیر سیوطی ١:٢٤٣؛ صحیح ابن خزیمہ ٣: ١٤٣ ؛ دیباج علی مسلم ١: ٥.
مقدمے (یہ حکم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ) صحیح ہیں جن کا نتیجہ یہ حکم گمراہی اور دین سے خارج ہے ۔ خود بخود ثابت ہو جائے گا ۔
اورا س جملہ ''کل بدعة ضلالة '' سے آنحضرت ۖ کی مراد ہر وہ نیا کام ہے جس پر شریعت میں کوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ ہو ۔(١)

روایات شیعہ کی روشنی میں بدعت
کتب شیعہ میں بھی بدعت کی مذمت اور اس سے جنگ کرنے کے بارے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

١۔ بدعت ،سنت کی نابودی کا باعث :
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''ما احدثت بدعة الا ترک بھا سنة (١)جب بھی کوئی بدعت ایجا د ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک سنت نابود ہو جاتی ہے ۔

٢۔ بدعت گذار پر خدا ، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہے :
امام محمد باقر علیہ السلام پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
--------------
(١)کل بدعت ضلالہ ،قاعدة شرعیہ کلیة بمنطوقھاومفھومھااما منطوقھا فکان یقال حکم کذابدعة وکل بدعةضلالة فلاتکون من الشرع لان الشرع کلہ ھدی فان ثبت ان الحکم المذکوربدعة صحت المقدمات وانتجتاالمطلوب والمرادبقولہ ،کل بدعة ضلالة ، مااحدث ولادلیل لہ من الشرع بطریق خاص ولاعام ، فتح الباری ١٣:٢١٢
(٢)نہج البلاغہ ، خطبہ :١٤٥ ؛ مستدرک الوسائل ١٢: ٣٢٤؛ بحار الانوار٢: ٢٦٤.
''من احدث حدثا ، او آوی محدثا ، فعلیہ لعنة اللہ ، والملائکة ، والناس اجمعین ، لا یقبل منہ عدل ولا صرف یوم القیامة ...''(١ )
جو شخص بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعت گزار کو پناہ دے ( اس کے لئے امکانات فراہم کرے ) اس پر خدا ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے او ر اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوگا ...

٣۔ بدعت گزار کے ساتھ ہم نشینی کی ممانعت :
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
''لا تصبحوا اہل البدع ولاتجالسوھم فتصیروا عند الناس کواحد منھم ، قال رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) : المرء علی دین خلیلہ وقرینہ''(٢)
بدعت گزار وں کے ساتھ مت اٹھو بیٹھو کہ کہیں تمہیں بھی لوگ انھیں میں شمار نہ کرنے لگیں چونکہ انسان اپنے دوست کا ہم مذہب ہوتا ہے ۔

٤۔ اہل بدعت سے بیزاری واجب ہے :
امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل
--------------
(١)وسائل الشیعہ ٢٩: ٢٨؛ بحار الانوار٢٧: ٦٥؛ سنن ابو داؤد ٢: ٢٧٥، طبع دار الفکر للطباعة بیروت ؛ سنن نسائی ٨:٢٠ ، طبع دار الفکر للطباعة بیروت ۔
( ٢)اصول کافی ٢: ٣٧٥ ٣، باب مجالسة اہل المعاصی۔
کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا :
''واذا رائیتم اہل الریب والبدع من بعدی فاظھروا البراء ة منھم واکثروا من سبھم والقول فیھم والوقیعة..''( ١)
اگر میرے بعد اہل شک اور بدعت گزاروں کو دیکھو تو ان سے بیزاری و نفرت کا اظہار کرو ان پر سب وشتم کرو اور ان کی برائی کو بیان کرو ( تاکہ معاشرے میں ان کا مقام گر جائے اور ان کی بات کی اہمیت نہ رہے )

٥۔بدعت گذار کا احترام ، دین کی نابودی:
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
''من تبسم فی وجہ مبتدع فقد اعان علی ھدم دینہ ''(٢)
جو شخص بدعت گذار کے سامنے اظہار تبسم کرے اس نے دین کی نابودی میں اس کی مدد کی ہے ۔
نیز فرمایا: ''من مشیٰ الی صاحب بدعة فوقرہ فقد مشی فی ھدم الاسلام ''.(٣)
جو شخص بدعت گذار کی ہمراہی اور ا س کا احترام کرے درحققیت اس نے دین اسلام کی نابودی کی طرف ایک قدم بڑھایا ۔
--------------
(١)اصول کافی ٢: ٤٣٧٥، باب مجالسة اہل المعاصی .
(٢) بحار الانوار٤٧: ٢١٧،مناقب ابن شہر آشوب ٣: ٣٧٥ ؛ مستدرک الوسائل ١٢: ٣٢٢.
(٣)محاسن برقی ١: ٢٠٨ ؛ ثواب الاعمال شیخ صدوق : ٢٥٨؛ من لا یحضرہ الفقیہ ٣: ٥٧٢؛ بحار الانوار٢:٣٠٤.
٦۔ بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم :
مرحوم کلینی (رحمة اللہ علیہ )نے محمد بن جمہور کے واسطے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا :
''اذا ظھرت البدع فی امتی فلیظھر العالم علمہ ، فمن لم یفعل فعلیہ لعنة اللہ ''۔(١)
ترجمہ: جب میری امت میں بدعات ظاہر ہونے لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کریں ( اور اس بدعت کا راستہ روکیں ) پس جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

کیا بزرگان دین کی یاد منانا بدعت ہے ؟
اس فصل کے شروع میں بیان کر چکے کہ وہابی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے میلاد اور انکی وفات کے سوگ منانے کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔
سابق سعودی مفتی اعظم بن باز کا فتویٰ بھی نقل کرچکے کہ وہ کہتا ہے :
میلاد النبی ۖ جائز نہیں ہے چونکہ دین میں بدعت شمار ہوتا ہے اس لئے کہ رسول خدا ۖ ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ و تابعین نے یہ کام انجام نہیں دیا :(٢)
اسی طرح سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے مراسم سوگواری کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :
انبیاء و اولیاء کی وفات کی یاد مانا جائز نہیں ہے چونکہ یہ دین میں بدعت اور شرک کا وسیلہ ہے ۔(3)
--------------
(١)اصول کافی ١: ٢٥٤،باب البدع.
( ٢)لایجوز الاحتفال بمولد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا غیرہ ؛ لان ذلک من البدع المحدثة فی الدین ، لان الرسول (ص)لم یفعلہ ولاخلفاؤہ الراشدون ولا غیرھم من الصحابة رضی اللہ عنھم والتابعون لھم باحسان فی القرون المفضلة ''مجموع فتاوی ومقالات متنوعة ١:١٨٣ وفتاوی اللجنة الدایمة للبحوث العلمیة والافتاء ٣: ١٨.
(3)لا یجوز احتفال بمن مات من الانبیاء والصالحین والاحیاء ذکراھم بالموالد و...لان جمیع ماذکر من البدع المحدثة فی الدین ومن وسایل الشرک ''.فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ٣:٥٤ ، فتوای شمارہ ١٧٧٤