بدعت کے بارے میں وہابی افکار کی رد
بدعت کے صحیح مفہوم کا درک نہ کرنا :
بدعت کے بارے میں وہابیوں کا جو نظریہ بیان کیا گیا اس کے متعلق حسن ظن رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بدعت کے صحیح مفہوم کو نہ سمجھا جس کی وجہ سے تو ہم کا شکار ہو گئے اور ہروہ چیز جو ان کے افکار کے مخالف ہو اسے بدبینی کی عینک سے دیکھتے ہوئے بدعت قرار دے دیتے ہیں۔ لہٰذا پہلے ہم بدعت کے لغوی معنی کو بیا ن کریں گے اور اس کے بعد قرآن و سنت کی رو سے بدعت کے بارے میں تحقیق کریں گے ۔
بدعت کالغوی معنیٰ:
جوہری لکھتا ہے :
''انشاء الشیء لا علی مثال السابق ، واختراعہ وابتکارہ بعد ان لم یکن ...''.(١)
بدعت کا معنی ایک بے سابقہ چیز کا اختراع کرنا ہے جس کا نمونہ پہلے موجود نہ ہو .
یقینا آیات و روایات میں بدعت کے اس معنی کو حرام قرارنہیں دیا گیا اس لئے کہ اسلام انسانی زندگی میں نئی ایجادات کا مخالف نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کی تائید کرتا ہے جو ہمیشہ انسان کو اس کی انفرادی واجتماعی زندگی میں نئی ایجادات کی راہنمائی کرتی ہے ۔
بدعت کا شرعی معنیٰ :
دین میں بدعت کے جس معنی کے بارے میںبحث کی جاتی ہے وہ دین میں کسی شے کو دین سمجھ کر کم یا زیادہ کرنا ہے اور یہ معنیٰ اس لغوی معنیٰ سے بالکل جدا ہے جسے بیان کیا گیا ۔
راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
''والبدعة فی المذہب : ایراد قول لم یستن قائلھا وفاعلھا فیہ
--------------
(١) الصحاح ٣: ١١٣ ؛ لسان العرب ٨: ٦؛ کتاب العین ٢: ٥٤
بصاحب الشریعة واماثلھا المتقدمة واصولھا المتقنة ''.(١)
دین میں بدعت ہر وہ قول و فعل ہے جسے صاحب شریعت نے بیان نہ کیا ہو اور شریعت کے محکم و متشابہ اصول سے بھی نہ لیا گیا ہو ۔
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :
''والمحدثات بفتح الدال جمع محدثة ، والمراد بھا : ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع ویسمیہ فی عرف الشرع بدعة ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعة ''.(٢)
ہر وہ نئی چیز جس کی دین میںاصل موجود نہ ہو اسے شریعت میں بدعت کہا جاتا ہے اور ہر وہ چیز جس کی اصل پر کوئی شرعی دلیل موجود ہو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا ۔
یہی تعریف عینی نے صحیح بخاری کی شرح (٣)،مبارکپوری نے صحیح ترمذی کی شرح (٤) ، عظیم آبادی نے سنن ابی داؤد کی شرح (٥) اور ابن رجب حنبلی نے جامع العلوم میں ذکر کی ہے۔ (٦)
--------------
(١) مفردات الفاظ القرآن :٣٩.
(٢) فتح الباری ١٣: ٢١٢.
(٣) عمدة القاری ٢٥: ٢٧.
(٤)تحفة الاحوذی ٧: ٣٦٦ .
(٥)عون المعبود ١٢: ٢٣٥ .
(٦) جامع العلوم والحکم :١٦٠طبع ہند .
شیعہ متکلم و فقیہ نامور سید مرتضیٰ بدعت کی تعریف میں لکھتے ہیں :
''البدعة زیادة فی الدین أو نقصان منہ ،من اسناد الی الدین''(١)
بدعت ،دین میں کسی چیز کا دین کی طرف نسبت دیتے ہوئے کم یا زیادہ کرناہے ۔
طریحی کہتے ہیں :
''البدعة: الحدث فی الدین ، ومالیس لہ اصل فی کتاب ولا سنة ، وانما سمیت بدعة؛ لان قائلھا ابتدعھا ھو نفسہ ''(٢)
بدعت، دین میںایسا نیا کام ہے جس کی قرآن و سنت میں اصل موجود نہ ہو اور اسے بدعت کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ بدعت گذار اسے اپنے پاس سے اختراع کرتا ہے ۔
بدعت کے ارکان
گذشتہ مطالب کی بناء پر بدعت کے دو رکن ہیں :
١۔ دین میں تصرف:
دین میں کسی بھی قسم کا تصرف چاہے وہ اس میں کسی چیز کے زیادہ کرنے سے
--------------
(١)رسائل شریف مرتضیٰ ٢: ٢٦٤، ناشر دار القرآن الکریم قم .
(٢)مجمع البحرین ١: ١٦٣ ، مادہ بَدَع َ.
ہو یا اس میں کسی چیز کے کم کرنے سے مگر اس شرط کے ساتھ کہ تصرف کرنے والا اپنے اس عمل کو خدا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف نسبت دے۔
لیکن انسانی طبیعت کے تنوع کی خاطر نئی ایجادات جیسے فٹ بال ، والی بال ، باسکٹ بال وغیرہ بدعت نہیں کہلائیں گے ۔
٢۔ کتاب میں اس کی اصل کا نہ ہونا :
بدعت کی اصطلاحی و شرعی تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی ایجادات اس صورت میں بدعت قرار پائیں گی جب منابع اسلامی میں ان کے بارے میںکوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ ہو ۔
جب کہ ایسی نئی ایجادات جن کی مشروعیت کو بطور خاص یا عام قرآن و سنت سے استنباط کرنا ممکن ہو انھیں بدعت کا نام نہیںدیا جائے گا جیسے اسلامی ممالک کی افواج کوجدید اسلحہ سے لیس کرنا کہ جس کے جواز پر بعض قرآنی آیات کے عموم سے استنباط کیا جا سکتا ہے مانند :
(وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ...)(١)
ترجمہ : اور ( مسلمانو!) ان کفار کے ( مقابلہ کے ) واسطے جہاں تک تم سے ہو سکے ( اپنے بازو کے ) زور سے اور بندھے ہوئے گھوڑوں سے ( لڑائی کا )
سامان مہیا کرو اس سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن پر دھاک بٹھا لو گے ۔
اس آیت شریفہ میں( (وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ )جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت بڑھاؤ ) کے حکم عام سے اسلامی افواج کو جدید ترین اسلحہ سے مسلح کرنے کا جواز ملتا ہے ۔(2)
--------------
(١)سورۂ انفال : ٦٠.
(2) وہابیت ، مبانی فکری وکارنامۂ عملی :٨٣، تالیف آیت اللہ سبحانی ، خلاصہ اور تصرف کے ساتھ .
|