خود وہابیوں کا تکفیر میں گرفتار ہونا
وہابی ٢٧٠ سال حکومت اور بے گناہ مسلمانوں کو تکفیر اور ان کے قتل عام کے بعد اب خود اسی دامن تکفیر میں گرفتار ہو چکے ہیں جسے انھوں نے مسلمانوں کے لئے پھیلا رکھا تھا ۔
مجلس کبار العلماء کا تکفیر کی مذمت کرنا
مجلس ( کبار العلمائ) نے اپنی انچاسویں کا نفرنس میں جو ١٤١٩٤٢ ہجری قمری بمطابق ١٩٩٨ ء میں طائف میں تشکیل پائی ، اس میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں تکفیر اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل مانند قتل و غارت ، بم دھماکے ، مختلف اداروں کو نیست ونابود کرنے جیسے امور کو زیر غور لایا گیا ۔ اس موضوع اور اس کے آثار ۔ چاہے وہ بے گناہ لوگوں کا قتل ہو یا ان کے اموال کو نابود کرنا یا خوف وہراس پھیلا کر معاشرے میں بدا منی ایجاد کرنا ہو ۔ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس نے خیرخواہی ، ادائیگی وظیفہ اور اسلامی مفاہیم میں اشتباہ کا شکار ہونے والے افراد سے در گذر کے عنوان سے ایک اعلان کیا جس میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ دلا تے ہوئے خدا وند متعال سے توفیق کی تمنا کی ہے ۔
تکفیر بھی حلال و حرام کے مانند حکم شرعی ہے :
اولا:التکفیرحکم شرعی ، مدّدہ الی اللہ ورسولہ ، فکما ان التحلیل والتحریم والایجاب الی اللہ ورسولہ ، فکذلک التکفیر، ولیس کل ما وصف بالکفر من قول او فعل ، یکون کفرا اکبر مخرجاعن الملة .
ولما کان مردّ حکم التکفیر الی اللہ ورسولہ لم یجز ان نکفّر الا من دل الکتاب والسنة علی کفرہ دلالة واضحة ، فلا یکفی فی ذلک مجرد الشبہة والظن ، لما یترتب علی ذلک من الاحکام الخطیرة ، واذا کانت الحدود تدرء بالشبہا ت ، مع ان ما یترتب علیھا اقل مما یترتب علی التکفیر ، فالتکفیر اولی ان یدرء بالشبھات ؛ ولذلک حزر النبی من الحکم بالتکفیر علی شخص لیس بکافر ، فقال: '' ایّما امریء قال لاخیہ: یا کافر ، فقد باء بھا احدھما ، ان کان کما قال والا رجعت علیہ ''.
١۔ تکفیر ایک حکم شرعی ہے جس کا معیار خدا و رسول ۖ کی طرف سے بیان ہونا چاہئے جس طرح حلال و حرام اور واجب کا خد اکی طرف سے بیان ہونا ضروری ہے ۔اور ضروری نہیں کہ قول و فعل میں ہر طرح کے کفر سے مراد کفر اکبر ہو جس سے انسان دین سے خارج ہو جاتا ہے ۔
جب کفر کا حکم خدا و رسول ۖ کی جانب سے ہونا چاہئے تو پھر قرآن وسنت سے واضح دلیل کے بغیر کسی شخص کو کافر کہنا جائز نہیں ہے اور شک وا حتمال کی بناء پر کفر ثابت نہیں ہو تا اس لئے کہ اس پر بہت سخت احکام جاری ہوتے ہیں ۔
جب شبہ کے ہوتے ہوئے حدود جاری نہیں ہو سکتیں اگر چہ وہ تکفیر سے کمتر ہی کیوں نہ ہوں تو پھر شبہ کی صورت میں بدرجہ اولیٰ تکفیر کی حد جاری نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے کسی ایسے شخص کو تکفیر نہیں فرمائی ہے جو کافر نہ ہو اور فرمایا : جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کہے : اے کافر ! اگر اس نے درست کہا تو دوسرا شخص عذاب الٰہی میں مبتلا ہو جائے گا اور اگر جھوٹ بولا تو وہ عذاب خود اس کی طرف پلٹے گا ۔
''و قد یرد فی الکتاب والسنة مایفھم منہ ان ھذا القول او العمل او الاعتقاد کفر، ولا یکفر من اتصف بہ ، لوجود مانع یمنع من کفرہ ، وھذا الحکم کغیرہ من الاحکام التی لا تتم الا بوجود اسبابھا وشروطھا ، وانتفاء موانعھا کمافی الارث سببہ القربة قد لا یرث بھا لوجود مانع کاختلاف الدین ، وھکذا الکفر یکرہ علیہ المومن فلا یکفر بہ .
وقد ینطق المسلم بکلمة الکفر لغلبة فرح او غضب او نحوھما فلا یکفر بھا لعدم القصد ، کما فی قصة الذی قال : ''اللھم انت عبدی وانا ربک '' اخطأ من شدة الفرح.
کبھی کبھار قرآن و سنت میں ایسی تعبیر دکھائی دیتی ہے کہ فلاں بات ، فلاں عمل یا فلاں عقیدہ کفر کا موجب بنتا ہے جب کہ مانع کی وجہ سے ایسے عمل کے مرتکب شخص کو کافر نہیں کہا جاسکتا ۔ اس لئے کہ تکفیر بھی باقی احکام کے مانند ہے جس کے اثبات کے لئے اسباب و شرائط کا موجود ہونا اور موانع کا نہ ہونا ضروری ہے جیسے میراث کا سبب قرابت و رشتہ داری ہے لیکن دین میں اختلاف کی وجہ سے انسان میراث سے محروم ہو جاتا ہے ( جیسے بیٹا کافر اورباپ مسلمان ہو )
اسی طرح اگر کسی مسلمان کو کفر آمیز کلمات ادا کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اس کے کفر کا موجب نہیں بنیں گے ۔ نیز اگر کوئی مسلمان حد سے زیادہ خوشی یا غصہ کی وجہ سے کفر آمیز کلمہ کہہ بیٹھتا ہے تو وہ اس کے کفر کا سبب نہیں بنے گا اس لئے کہ اس نے اس کا ارادہ نہیں کیا اور یہ ویسا ہی ہے جیسے ایک شخص نے بے حد خوشی کی حالت میں کہہ دیا :''اللھم انت عبدی وانا ربک '' اے اللہ ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں ۔
''والتسرع فی التکفیر یترتب علیہ امور خطیرة من استحلال الدم والمال ،و منع التوارث وفسخ النکاح ،و غیرھا مما یترتب علی الردة ، فکیف یسوغ للمومن ان یقدم علیہ لا دنی شبھة ...وجملة القول ان التسرع فی التکفیر لہ خطرہ العظیم ؛ لقول اللہ عزوجل :(قُلْ ِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالِْثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وََنْ تُشْرِکُوا بِاﷲِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا وََنْ تَقُولُوا عَلَی اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ)(١)
تکفیر میں جلد بازی پر بہت زیادہ نقصانات مترتب ہوتے ہیں جیسے خون و مال کامباح ہونا، میراث سے محرومی ، میاں بیوی کے درمیان جدائی وغیرہ . بنا بر ایں کیسے ممکن ہے کہ کوئی مومن چھوٹے سے شبھہ کی وجہ سے کسی کی طرف ایسی نسبت دے ؟( اور اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائے ؟)
خلاصہ یہ کہ تکفیر میں جلد بازی کے انتہائی خطرناک اثرات ہیں اسی لئے خداوند متعال فرماتا ہے :
کہہ دیجئے کہ ہمارے پروردگار نے صرف بد کاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ نا حق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنا نے اور بلا جانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قراردیا ہے ۔
اس آیت مجیدہ کے مطابق ہر طرح کی بدکاری ، ظلم و شرک ، نا روا نسبت اور بغیر دلیل کے کسی بات کے خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام شمار کیا ہے ۔
تکفیر کے سبب ہونے والے قتل عام کی حرمت :
''ثانیاً :ما نجم من ھذ االاعتقاد الخاطیء من استباحة الدماء وانتھاک الاعراض ، وسلب الاموال الخاصة والعامة، وتفجیر المساکن والمرکبات ، وتخریب المنشأت ،
فھذہ الاعمال
--------------
(١) سورۂ اعراف: ٣٣.
وامثالھا محرمة شرعا باجماع المسلمین ؛ لما فی ذلک من ھتک لحرمة الانفس المعصومة ، وھتک لحرمة الاموال ، وھتک لحرمات الامن والاستقرار ، وحیاة الناس الآمنین المطمئنین فی مساکنھم ومعایشھم ، وغدوھم و رواحھم ، وھتک للمصالح العامة التی لا غنی للناس فی حیاتھم عنھا ''.
٢۔ اس باطل عقیدہ کے نتیجہ میں خون ، مال اور ناموس کا مباح ہونا ، قتل وغارت ، گھروں، گاڑیوں اور تجارتی و دفتری مراکز کودھماکوں سے اڑانا اور ان جیسے باقی امور کے حرام و گناہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اس لئے کہ یہ امور مال وجان کی بے حرمتی اور صبح و شام دفاتر میں کام کے لئے آنے جانے والے افراد کی زندگی کے سکون کونابود کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اسی طرح معاشرے کی عمومی مصلحت کی تباہی کا موجب ہیں جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔
''و قد حفظ الاسلام للمسلمین اموالھم واعراضھم وابدانھم، وحرّم انھتاکھا ، وشدّد فی ذلک ، وکان من آخر ما بلغ بہ النبی امتہ فقال فی خطبة حجة الوداع :''ان دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم ھذا فی شھرکم ھذا، فی بلدکم ھذا'' ثم قال:''لأ ہل بلغت ؟ اللھم فاشھد ''. متفق علیہ . وقال :''کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ وعرضہ ''.
وقال علیہ الصلاة والسلام : '' اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامة ''.
جب کہ اسلام نے مسلمانوں کے مال وجان اور ناموس کو محترم قرار دیا ہے اور کسی کو ان کی بے حرمتی کا حق نہیں دیا ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے حجة الوداع کے موقع پر جو امور ابلاغ فرمائے ان میں سے آخری امریہ تھا کہ آپ نے فرمایا:
تمہارا مال و جان اور ناموس ایک دوسرے کے لئے اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا دن ( عید قربان کا دن ) یہ مہینہ اور یہ مقدس مکان ( مکہ معظمہ ) محترم ہیں اور پھر فرمایا: خدا یا ! گواہ رہنا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے .
اسی طرح فرمایا: ہر مسلمان کا مال وجان اور ناموس دوسرے پر حرام ہے نیز یہ بھی فرمایا: ظلم سے پرہیز کرو اس لئے کہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ہے ۔
''وقد تو عّد اللہ سبحانہ من قتل نفساً معصومةً باشدّ الوعید ، فقال سبحانہ فی حق المومن :(وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اﷲُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وََعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا)(١)
اور فرمایا : ''جو بھی کسی مومن کو قصداً قتل کر دے گا تو اس کی جزا جہنم ہے اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس
نے اس کے لئے عذاب عظیم بھی مہیاکر رکھا ہے ۔''
--------------
(١) سورۂ نسائ: ٩٣.
وقال سبحانہ فی حق الکافر الذی لہ ذمة ، فی حکم قتل الخطاء : (...ِلاَّ َنْ یَصَّدَّقُوا فَِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَہُوَ مُؤْمِن فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ...)(١)
اسی طرح مسلمانوں کی پناہ میں زندگی بسر کرنے والے کافر کے غلطی سے قتل ہوجانے کے بارے میں فرمایا: ''اس کی دیت اور کفارہ ادا کرو '' .
''فاذا کان الکافر الذی لہ امان اذا قتل خطاّ ، فعلیہ الدیة والکفارة، فکیف اذا قتل عمداً، فان الجریمة تکون اعظم ، والاثم یکون اکبر . وقد صح عن رسول اللہ انہ قال : '' من قتل معاہداّ لم یرح رائحة الجنة ''.
خدا وند متعال نے کسی بے گناہ کا غلطی سے خون بہانے پر بہت سخت سزا رکھی ہے ۔اگر یہی قتل قصداً ہوتو یقینا اس کا گناہ اور جرم سنگین تر ہوگا ۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے صحیح حدیث میں فرمایا : اگر کوئی ایسے غیر مسلم کو قتل کرے جو مسلمانوں سے پیمان باندھ چکا ہوتو وہ جنت کی خوشبوتک نہیں سونگھ سکے گا ۔
--------------
(٢)سورۂ نسائ: ٩٢.
تکفیر کے بدترین آثار سے اسلام کی بیزاری :
ثالثاً :''ان المجلس اذ یبین حکم تکفیر الناس بغیر برھان من کتاب اللہ وسنة رسولہ وخطورة اطلاق ذلک ، لما یترتب علیہ من شرور وآثام ، فانہ یعلن للعام ان الاسلام بری ء من ھذا المعتقد الخاطی ء ، وان مایجری فی بعض البلدان من سفک الدماء البریئة، وتفجیر المساکن والمرکبات والمرافق العامة وخاصة، وتخریب المنشآت ھو عمل اجرامی ، والاسلام بری ء منہ ''.
٣۔ قرآن و سنت سے دلیل کے بغیر کی جانے والی تکفیر اور اس کے بد ترین آثار اور گناہ کے مذکورہ بالا حکم کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس پوری دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اسلام اس طرح کے ہر قسم کے عقیدہ سے بیزار ہے اور بے گناہوں کا خون بہانا ، عمارتوں، گاڑیوں اور عمومی وخصوصی مراکز کا تباہ کرنا وغیرہ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
''وھکذا کل مسلم یومن باللہ والیوم الآخر بری ء منہ ، وانما ھو تصرف من صاحب فکر منحرف، وعقیدة ضالة، فھو یحمل اثمہ وجرمہ ، فلا یحتسب عملہ علی الاسلام ، ولا علی المسلمین المھتدین بھدی الاسلام ، المعتصمین بالکتاب والسنة ، والمستمسکین بحبل اللہ المتین ، وانما ھو محض افساد واجرام تاباہ الشریعة والفطرة؛ ولھذا جاء ت نصوص الشریعة قاطعة بتحریمہ، محذرة من مصاحبة اہلہ''.
اسی طرح ہر مسلمان جو خدا و روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ ان کاموں سے بیزار ہے اور یہ کام تنہا منحرف اور گمراہ لوگوں کا ہے جس کا گناہ بھی انھیں کی گردن پر ہے اور اسے اسلام اور قرآن و سنت کی پیروی کرنے والے ہدایت یافتہ مسلمانوں کے حساب میں شمار نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے جسے شریعت اسلام اور فطرت سلیم قبول کرنے کو تیار نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایات نے ان امور کو یقینی طور پر حرام قرار دیا ہے اور ان امور کے مرتکب افراد کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ...
اور پھر اس اعلان میں ان آیات و روایات کو ذکر کیا گیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام ، محبت و دوستی ،نیکی میں ایک دوسرے سے تعاون ، منطقی و عقلی گفتگوکا حکم دیتا ہے اور تعصب و غصہ سے ممانعت فرماتاہے ۔
اور اس اعلان کے آخر میں خدا وند متعال کو اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کا واسطہ دیتے ہوئے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں سے اس مصیبت کو دور کرے اور اسلامی ممالک کے سر براہوں کو ملک و ملت کو فائدہ پہنچانے کی توفیق دے تاکہ اس فساد کی جڑیں کاٹ سکیں ۔ اور خدا وند متعال اپنے دین کی مدد اور کلمہ ٔ حق کی سر بلندی کے لئے ان کی نصرت اور مسلمانوںکے امور کی اصلاح اور ان کے ذریعے سے حق کی مدد فرمائے اس لئے کہ خدا اس پر ولی و قادر ہے ۔ خدا کا درود و سلام ہو محمد ۖان کی آل اور اصحاب پر۔ (١)
اس اعلان پر دستخط کرنے والی شخصیات :
مجلس کے چئرمین مفتی اعظم سعودی عرب عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، صالح بن محمد بن اللحیان ، راشد بن صالح بن خنین ، محمد بن ابراہیم ابن جبیر، عبد اللہ بن سلیمان المنیع ،عبد اللہ بن عبد الرحمن الغدیان،صالح بن فوزان الفوزان، محمد بن صالح العثیمین ، عبد اللہ بن عبد الرحمن البسام ، حسن بن جعفر العتمی، عبد العزیزبن عبد اللہ بن محمد آل الشیخ،(یہ بن باز کے فوت ہونے کے بعد سعودی عرب کا مفتی ہوگا )ناصر ابن حمد الراشد، محمد بن عبد اللہ السبیل ، عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ ، محمد بن سلیمان البدر، عبد الرحمن بن حمزة المرزوقی، عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، محمد بن زید آل سلیمان، بکر بن عبد اللہ ابو زید، عبد الوہاب بن ابراہیم ابو سلیمان ، صالح بن عبدا لرحمان الاطرم،
سعودی بادشاہ کا تکفیر کرنے والے وہابی مفتیوں پر حملہ
سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبد اللہ نے تکفیر کرنے والے مفتیوں کو گمراہ ،
--------------
(١)اس اعلان کی اصلی کاپی بندہ (٢٠٠٤ ء میں سعودی عرب سے لے کر آیا تھا جسے فقیہ گرانقدر استاد محترم حضرت آیت العظمیٰ سبحانی کی خدمت میں پیش کیا اور انھوں نے اسے اپنی چار جلدوں پر مشتمل کتاب ( معجم طبقات المتکلمین ) کے صفحہ نمبر ١٠٠ پر نقل کیا ہے اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے اسے اپنی کتاب (وہابیت بر سر دوراہی) میں ذکر کیا ہے ۔چونکہ ان کا ترجمہ انتہائی سلیس تھا لہٰذا ہم نے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسی کو نقل کیا ہے ۔
گمراہ کنندہ اور ان کے اس ارتکاب کو شرک سے بھی عظیم گناہ قرار دیا ہے ۔
ابناء سے نقل کرتے ہوئے شیعہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق (المجمع الفقھی برابطة العالم الاسلامی)کی انیسویں کانفرنس جو بارہ سے ١ ٹھارہ آبان ١٣٨٦ بمطابق ٢٠٠٧ ء میں تشکیل پائی اس میں شاہ عبد اللہ نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو ان گمراہ اور گمراہ کنندہ مفتیوں کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دی ہے جنھوں نے امت مسلمہ کو قتل دھماکوں اور تکفیر جیسے عظیم فتنہ میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
شاہ عبداللہ نے تکفیر ی فتوی جاری کرنے والے وہابی شیوخ کو سیٹلائٹ اورانٹرنیٹ کے شیوخ کا لقب دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ نادانی میں خدا پر بھی افتراء باندھتے ہیں اوران کا یہ کام عظیم ترین مصائب کا باعث اورکبیر ترین گناہوں بلکہ شرک باللہ سے بھی بدتر وبالاتر ہے ۔
شاہ عبد اللہ نے اپنے اس پیغام میں یہ بھی کہا ہے کہ بعض مفتی جو پلک جھپکنے کی دیر میں فتویٰ صادر کردیتے ہیں اگر چہ ان کو اپنی خطا کا علم بھی ہو جائے پھر بھی اپنا فتویٰ واپس لینے کو تیار نہیں ہوتے جب کہ یہ ان کے تکبر اور شیطان کے سامنے تسلیم ہونے کی علامت ہے ۔
کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد ڈش اور انٹر نیٹ پر صادر کئے جانے والے فتوی کو باضابطہ بنایا تھا ۔(١)
--------------
(١)شیعہ نیوز ٥ آبان ١٣٨٦ شمسی.
مفتی اعظم سعودیہ کا عراق میں ہونے والے خود کش دھماکوں کی مذمت کرنا
خبر گزاری مہر سے نقل کرتے ہوئے شیعہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے مفتی شیخ عبد العزیز آل شیخ نے سعودی عرب میں منتشر ہونے والے ایک بیان میں عراق کے اندر ہونے والے مسلحانہ اور خود کش حملوں میں سعودی باشندوں کی شرکت کے بارے میں اظہار ناراحتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چہ یہ حملے قابض فوجوں سے مقابلہ کے بہانہ سے انجام دیئے جاتے ہیں لیکن اس کی قربانی عراق کی اکثریتی آبادی شیعہ لوگ بنتے ہیں ۔
اور کہا ہے :''کئی سالوں سے سعودی نوجوان خدا کی راہ میں جہاد کے بہانہ سے ملک سے خارج ہو رہے ہیں یہ نوجوان دین سے عشق و محبت تو رکھتے ہیں لیکن حق و باطل میں تشخیص کی قدر ت نہیں رکھتے ''
انہوں نے مزید کہا: یہ چیز باعث بن رہی کہ غیر ملکی طاقتیں جہاد کے بہانہ سے انھیں اپنا آلہ ٔ کار بناکر اپنے نجس اہداف تک پہنچ سکیں : یہاں تک کہ ہمارے نوجوان شرق و غرب کی تجارت کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں جس کا اسلام اور مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے ۔
اسی طرح اس سعودی مفتی نے یہ بھی کہا ہے : یہ نوجوان فریب کاری اور دھوکہ بازی کے نتیجہ میں ایسے کام انجام دیتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ سعودی عرب کے سرمایہ دار لوگ عراق کے دہشت گردوں کی مالی حمایت کررہے ہیں اپنے ملک کے سرمایہ داروں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ ان دہشت گردگروہوں کی مدد نہ کریں ۔
نیز کہا ہے کہ میں ان سرمایہ داروں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنا پیسہ خرچ کرنے میں احتیاط سے کام لیں تاکہ کہیں ان کا پیسہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بنے ۔(١)
--------------
(١)شیعہ نیوز ١٠ مہر ١٣٨٦ از خبر گزاری مہر.مطابق ٢٠٠٧ئ۔
|