وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
٥۔ مسلمانوں کی تکفیر علمائے اہل سنت کے عقیدہ کے مخالف
امام شافعی کا نظریہ : امام شافعی متوفیٰ ٢٠٤ ہجری کہتے ہیں :
''اقبل شہادة اہل الا ھواء الا الخطابیة ؛ لانھم یشھدون بالزورلموافقیھم ''(٣)
میں تمام اہل بدعت کی شہادت قبول کروں گا سوا خطابیہ کے کہ وہ اپنے حامیوں کے لئے جھوٹی قسم جائز سمجھتے ہیں ۔
--------------
(٣) مجموع نووی ٤: ٢٥٤؛ شرح صحیح مسلم ١: ٦٠؛ البحر الرائق ١: ٦١٣ ؛ حاشیہ رد المختار ابن عابدین ٤: ٤٢٢.
ابو الحسن اشعری کا نظریہ :
مؤسس مذہب اشاعرہ ابو الحسن اشعری متوفیٰ ٣٢٤ ھ لکھتے ہیں :
''اختلف المسلمون بعد نبیھم صلی اللہ علیہ وسلم فی اشیاء ضلّل بعضم بعضا، وبرء بعضھم من بعض فصاروا فرقا متباینین واحزابا متشتتین الا ان الاسلام یجمعھم ویشتمل علیھم ''(١)
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مسلمانوں میں بہت زیادہ مسائل پر اختلاف ایجاد ہوا یہاں تک کہ ایک دوسرے کو گمراہ اور برائت کااظہار کرنے لگے۔ اگر چہ مخالف فرقوں میں تقسیم ہو گئے لیکن اسلام ان سب کو اپنے دامن میں اکٹھا کر لیتا ہے ۔
زاہربن احمد سرخسی متوفیٰ ٣٨٩ ہجری ابو الحسن اشعری کا قریبی دوست تھا وہ نقل کرتا ہے کہ ابو الحسن اشعری نے اپنی وفات کے وقت اپنے اصحاب و پیرو کاروں کو جمع کیا اور ان سے کہا :
''اشھد وا علی اننی لا اکفر احدا من اہل القبلة بذنب، لانی رایتھم کلھم یشیرون الی معبود واحد والاسلام یشملھم ویعمھم''. (٢)
گواہ رہنا کہ میں نے اہل قبلہ میںسے کسی کو گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں کیا اس لئے کہ میں نے دیکھا یہ سب معبود واحد کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور اسلام ان سب کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے ۔

تکفیر ایمان سے سازگار نہیں :
اہل سنت کے معروف عالم دین شیخ الاسلام تقی الدین سبکی متوفیٰ ٧٥٦ ہجری کہتے ہیں :
''ان الاقدام علی تکفیر المومنین عسر جدا ، وکل من کان فی قلبہ ایمان یستعظم القول بتکفیر اہل الاھواء والبدع ، مع قولھم لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، فان التکفیر امر ھائل
--------------
(١)مقالات الاسلامیین ١:٢.
(٢)الیوقیت والجواہر : ٥٨.
عظیم الخطر ''.(١)
مومنین کی تکفیر کا اقدام انتہائی سخت امرہے اور ہر باایمان شخص شہادتین کا اقرار کرنے والے اہل بدعت اور خواہشات پرست افراد کی تکفیر کو بہت مشکل کام سمجھتا ہے اس لئے کہ تکفیر انتہائی خطرناک کام ہے ۔

جمہور فقہاء و متکلمین کا نظریہ :
قاضی عضد الدین ایجی متوفیٰ ٧٥٦ ہجری لکھتا ہے :
''جمہور متکلمین والفقہاء علی ان لا یکفر احد من اہل القبلة...لم یبحث النبی عن اعتقاد من حکم باسلامہ فیھا ولا الصحابة ولا التابعون ، فعلم ان الخطا فیھا لیس قادحا فی حقیقة الاسلام ''.(٢)
جمہور فقہاء و متکلمین کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو تکفیر نہیں کیا جا سکتا ... پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہر گز مسلمان ہونے والے کے عقیدہ کے بارے میں سوال نہ فرماتے اور صحابہ و تابعین کا طریقہ بھی یہی رہا ۔ بنابرایں عقیدہ میں خطا و اشتباہ حقیقت اسلام کو ضرر نہیں پہنچا سکتا۔
پیغمبر اکرم ۖاور صحابہ کرام عقائد کی تحقیق کرتے :
تفتازانی متوفیٰ ٧٩١ ہجری کہتے ہیں :
--------------
(١) الیواقیت والجواہر :٥٨ (٢) المواقف ٣:٥٦٠؛شرح المواقف ٨: ٣٣٩.
''ان مخالف الحق من اہل القبلة لیس بکافر مالم یخالف ما ھو من ضروریات الدین کحدوث العالم و حشر الاجساد ، واستدل بقولہ ان النبی ومن بعدہ لم یکونوا یفتشون عن العقائد وینبھون علی ماھو الحق ''.(١)
حق کے مخالف اہل قبلہ کو کافر قرار نہیںدیا جا سکتا جب تک کہ وہ ضروریات دین مانند حدوث عالم اور قیامت وغیرہ کا انکار نہ کرے اس لئے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور صحابہ کرام لوگوں کے عقائد کے بارے میں تحقیق نہ کیا کرتے بلکہ جو بظاہر حق ہوتا اسے لوگوں سے قبول کرتے ۔

صحابہ سے بغض اور انھیں گالی دینا کفر نہیں :
حنفی عالم ابن عابدین متوفیٰ ٢٥٢ ١ ہجری کہتے ہیں :
''اتفق الائمة علی تضلیل اہل البدع اجمع وتخطئتھم ، وسبّ احد من الصحابة وبغضہ لا یکون کفرا ، لکن یضلل الخ.
وذکر فی فتح القدیر : ان الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین واموالھم ویکفّرون الصحابة ، حکمھم عند جمھور الفقہاء واہل الحدیث ، حکم البغاة ، وذھب بعض اہل الحدیث الی انھم مرتدون . قال ابن المنذر : ولا اعلم احدا وافق اہل
--------------
(١) شرح المقاصد ٥: ٢٢٧ ؛ البحرا لحرائق ١: ٦١٢ تالیف ابن نجیم .
الحدیث علی تکفیرھم وھذا یقتضی نقل اجماع الفقہاء ''.(١)
تمام آئمہ اہل بدعت کی گمراہی پر متفق ہیں لیکن کسی صحابی کو گالی دینا یا اس سے بغض رکھنا کفر نہیں ہے البتہ گمراہی کی نشانی ہے ۔
شوکانی نے( متوفیٰ ١٢٥٠ ہجری ) فتح القدیر میں لکھا ہے : خوارج جو مسلمانوں کا مال وجان مباح اور صحابہ کو کافر قرار دیتے تھے وہ بھی اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے نزدیک باغی ہیں اگر چہ بعض اہل حدیث نے انھیں مرتد کہا ہے ۔ ابن منذر کہتے ہیں : فقہاء میں سے کوئی بھی اس مسئلہ تکفیر میں اہل حدیث سے موافقت نہیںرکھتابنابر ایں اجماع فقہاء ثابت ہے ۔

مجتہد خطاء کی صورت میں اجر کا مستحق ہے :
اہل سنت کے معروف عالم ابن حزم متوفیٰ ٤٥٦ ہجری لکھتے ہیں :
''وذھبت طائفة الی انہ لا یکفر ولا یفسق مسلم بقول فی اعتقاد، اوفتیا! ، وان کل من اجتھد فی شئی من ذلک فدان بما رای انہ الحق فانہ ماجور علی کل حال ، ان اصاب فأجران و اِن اخطافاجر واحد، قال: وھذا قول بن ابی لیلیٰ وابی حنیفہ وشافعی وسفیان الثوری وداود بن علی وھو قول کل من عرفنا لہ قولا فی ھذہ المسالة من الصحابة ( رضی اللہ عنھم )لا نعلم منھم خلافا فی
--------------
(١ )حاشیہ رد المختار ٤: ٤٢٢ .
ذلک اصلاً ''(١)
بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کو غلط عقیدہ یا غلطی سے فتویٰ دینے کی بناء پر کافر یا فاسق نہیںکہا جا سکتا اس لئے کہ اگر مجتہد اپنے اجتہاد کے نتیجہ میں ایک نظریہ پر پہنچتا ہے اور اسے حق سمجھتا ہے تو وہ اجر کا مستحق ہوگا ۔ا گر اس کا اجتہاد درست ہواتو دو اجر کا مستحق قرار پائے گا اور اگر خطا کر بیٹھا تو ایک اجر کا مستحق قرار پائے گا ۔ یہ نظریہ ابن لیلیٰ ، ابو حنیفہ ،شافعین ، سفیان ثوری اور داؤد بن علی جیسے فقہاء کا ہے اسی طرح جن صحابہ نے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے ان میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ۔
محمد رشید رضا متوفیٰ ١٣٥٤ ہجری لکھتے ہیں :
''ان ما اعظم ما بلیت بہ الفرق الاسلامیة رمی بعضھم بعضابالفسق والکفر مع ان قصد کل الوصول الی الحق بما بذلوا جھدھم لتاییدہ واعقتادہ والدعوة الیہ ، فالمجتھد وان اخطا معذور ''.(٢)
امت مسلمہ جس عظیم ترین مصیبت میں مبتلا ہوئی وہ ایک دوسرے کو فسق و کفر سے متہم کرنا ہے جب کہ سب کے اجتہاد کا مقصد حق تک پہنچنااور اس کی دعوت دینا
ہے لہٰذا مجتہد اگر خطا کا ر ہو تو اجر کا مستحق ہے ۔
--------------
(١) الفصل ٣: ٢٤٧ ، باب من یکفرو لا یکفر .
(٢) تفسیر المنار ١٧: ٤٤.
مفکر و ہابیت ابن تیمیہ متو فی ٧٢٨ ہجری لکھتا ہے :
''کان ابو حنیفہ والشافعی وغیرھما یقبلون شہادة اہل الاھواء الا الخطابیة ویصححون الصلاة خلفھم ...ائمة الدین لا یکفّرون ولا یفسقون ولا یوثمون احداً من المجتھدین المخطئین ، لا فی مسائل علمیة ولا عملیة... کتنازع الصحابة : ھل رآی محمد ربہ ... واہل السنة لا یبتدعون قولا ولا یکفّرون من اجتھد فاخطا کما لم تکفر الصحابة الخوارج مع تکفیرھم لعثمان وعلی ومن والاھما ''.(١)
ابو حنیفہ ، شافعی اور دیگر علماء خطابیہ کے علاوہ باقی اہل بدعت کی گواہی قبول کرتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز قرار دیتے ۔ آئمہ دین کسی مجتہد کو علمی مسائل میں خطاکی وجہ سے فاسق یا کافر قرار نہ دیتے اور یہ صحابہ کے اس آیت میں اختلاف کے مانند ہے کہ : کیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے رب کو دیکھا ؟
اور اہل سنت، صحابہ کے مخالف کوئی بدعتی بات نہیں کرتے اور نہ ہی مجتہد ین کو خطا کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے خوارج کو تکفیر نہ کیا جب کہ
وہ عثمان،علی اور ان کے پیروکاروںکوکافرسمجھتے تھے۔
--------------
(١) مجموع فتاویٰ ابنی تیمیہ ٤: ٢٠٩ و١٥: ٢٠٧فتاویٰ الالبانی: ٢٩٢.