٢۔مسلمانوں کی تکفیر سنت پیغمبر ۖ کی مخالفت کرنا ہے:
جس طرح مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینا قرآن مجید کے مخالف ہے اسی طرح سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی مخالف ہے اس بارے میں ہم یہاں پہ اہل سنت کی معتبر ترین کتب کے اندر موجود احادیث میں سے فقط چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے ۔
الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''...اہل لا الہ الا اللہ لاتکفروھم بذنب ولا تشہد وا علیھم بشرک ''(١)
لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپ نے فرمایا:
'' لا تکفروا احدا من اہل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''()
اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔(٢)
--------------
(١)المعجم الاوسط ٥:٩٦ ؛ مجمع الزوائد ١: ١٠٦.
(٢)مجمع الزوائد ١: ١٠٦و١٠٧.
ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر
بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپ ۖنے فرمایا:
''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک ''(١)
اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔
عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر ''.(٢)
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔
نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپ ۖنے فرمایا:
--------------
(١)صحیح بخاری ٧:٦٠٤٥٨٤، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.
(٢)کنز العمال ٣:٦٣٥از سنن ابی دادؤو مسند احمد ٢:٢٢.تھوڑے سے فرق کے ساتھ .
''کفوا عن اہل لا الہ الا اللہ لا تکفروھم بذنب من اکفر اہل لا الہ الا اللہ فھوا لی الکفر اقرب ''۔(١)
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔
ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت
صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة اللہ وذمة رسولہ فلا تخفروااللہ فی ذمتہ ''.( ٢)
جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسول ۖ کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔
د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت
صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ
--------------
(١)معجم الکبیر١٢: ٢١١ ؛ مجمع الزوائد ١:١٠٦ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ٥: ١٢ ؛ جامع الصغیر ٢ : ٢٧٥؛
کنز العمال ٣: ٦٣٥.
(٢) صحیح بخاری ١:٣٩١١٠٢، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة .
نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : '' لا الہ الا اللہ ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبر ۖ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ ''کیا تونے اسے ''لا الہ الا اللہ ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟
میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ۖ !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبر ۖ نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )
سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا: ( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ اللہ )اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔
سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔(١)
--------------
(١)صحیح مسلم ١: ١٨٠٦٧ ، کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ.
ھ: کسی مسلمان کو قتل کرنے کے بعد اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت :
ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ اسامہ بن زید نے ایک مشرک کو لا الہ الا اللہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا جب پیغمبرۖ کو اس کی خبر ملی تو اسامہ کو طلب کیا اور فرمایا: اسے کیوں قتل کیا ہے ؟ میں نے کہا:''یا رسول اللہ اوجع فی المسلمین وقتل فلانا وفلا وسمی لہ نفرا وانی حملت علیہ فلما رای السیف قال لا الہ الا اللہ ''. یا رسول اللہ ۖ ! اس نے مسلمانوں کو اذیت پہنچائی ، فلاںو فلاں کو قتل کیا لیکن جب میں نے اس پر حملہ کیا تو تلوار کو دیکھ کر اس نے کلمہ پڑھ لیا ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا: اس کے باوجود تو نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا : جی ہاں. (١)
فرمایا: روز قیامت لا الہ الا اللہ کا کیاجواب دوگے؟اس کے بعد لکھا ہے کہ آنحضرت ۖ نے کئی بار اس جملہ کو تکرار فرمایا : ''فکیف تصنع بلا الہ الا اللہ اذا جاء ت یوم القیامة '' (٢)روز قیامت کلمہ توحید کا کیا کروگے ؟ عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ۖ! میرے لئے مغفرت طلب کریں۔
٣۔ مسلمانوں کی تکفیر سیرت پیغمبر کے مخالف ہے
جس طرح مسلمانوں کو کافر کہنا سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے
--------------
(١)صحیح مسلم ١:١٨٠١٦٧،
(٢)صحیح مسلم ١:١٨١٦٧، کتاب الایمان ، باب ٤٠، باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ .
مخالف ہے اسی طرح آنحضرت ۖ کی سیرت کے بھی مخالف ہے جیسا کہ صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ . فاذا قالوھا وصلوا صلاتنا ، واستقبلوا قبلتنا، وذبحوا ذبیحتنا، فقد حرمت علینا دماؤھم واموالھم الا بحقھا ، حسابھم علی اللہ ''.(١)
مجھے لوگوں سے جنگ کر نے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں ، ہماری طرح نماز پڑھیں ، قبلہ کی طرف رخ کریں اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کو کھائیں تو ان کا مال وجان ہم پر حرام ہو جائے گا سوا خدا کے حق کے اور (باقی رہا ان کے دل کا حال تو ) اس کاحساب ( کتاب ) اللہ کے ذمہ ہے ۔
عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں: عقبہ بن ابی معیط جب بھی سفر سے واپس آتا تو مکہ کے لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتا ۔
وہ پیغمبر کے پاس اکثر بیٹھا کرتا اور آپ کی باتوں سے خوش ہوتا ۔ ایک مرتبہ جب سفر سے واپس آیا تو کھانا بنایا اور پیغمبر ۖ کو بھی دعوت دی ۔
آنحضرت ۖ نے فرمایا '':ما انا بالذی اکل من طعامک حتی تشھد ان لا الہ الا اللہ وانی رسول اللہ ''جب تک تولا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا
--------------
(١)صحیح بخاری ١:٣٩٢١٠٢، کتاب الصلاة ،باب فضل استقبال القبلة.
اقرار نہیں کرے گا تب تک تیرا کھانا نہیں کھاؤں گا ۔
عقبہ کہنے لگا : میرے بھتیجے کھالے !
آپ ۖ نے فرمایا:''ما انا الذی افعل حتی تقول! فشھد بذلک وطعم من طعامہ '' جب تک تو اسلام نہیں لاتا تب تک میں یہ کام نہیں کر سکتا !عقبہ نے خدا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی دی ۔ تو آنحضرت ۖ نے اس کے ہاں کھانا کھایا .(١)
اسی سے ملتی جلتی حدیث ابن شہر آشوب نے مناقب میں نقل کی ہے ۔(٢)
٤۔ مسلمانوں کی تکفیرصحابہ کی روش کے مخالف
بخاری اپنی صحیح میں میمون بن سیاہ سے نقل کرتا ہے کہ از انس بن مالک سے سوال کیا :''مایحرم دم العبد ومالہ فقال من شھد ان لاالہ الا اللہ ، واستقبل قبلتنا ،و صلی صلاتنا ، واکل ذبیحنتنا ، فھو المسلم ، لہ ماللمسلم ، وعلیہ ما علی المسلم ''(٣)کس چیز نے خون اور مال کو حرام کیا ہے ، تو اس نے کہا : خدا کی وحدانیت کی گواہی قبلہ رخ ہونا اور ہماری طرح نماز پڑھنا اور گوشت کھانا اس حیوان کا کہ جس کو ہم نے ذبح کیا ہے پس جو بھی ایسا کرے مسلمان ہے اور جو حقوق مسلمان رکھتا ہے وہ بھی رکھتا ہے.
--------------
(١)تفسیر در المنثور ٥: ٦٨ ؛ تفسیر آلوسی ١٩: ١١ . (٢)مناقب آل ابی طالب ١: ١١٨.
(٣)صحیح بخاری ١ :١٠٣۔ ٣٩٣، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلہ .
|