مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں وہابیوں کے نظریہ پر اعتراض
١۔ مسلمانوں کی تکفیر قرآنی آیات کی مخالفت کرنا ہے
ماضی اور حال میں ایک گروہ باکمال ِ جرأت: بغیر کسی شرعی دلیل کے کچھ فرقوں کے کفر کا فتویٰ دے رہا ہے ۔ نہ جانے کس عقلی اور شرعی معیار کی بناء پر یوں لوگوں کی عزت وآبرو سے کھیلا جا رہاہے ؟
اس موضوع کے روشن ہونے کے لئے ایک نکتہ کا بیان کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ''مسلمان کسے کہتے ہیں ؟'' یا دوسرے لفظوں میں ''دین اسلام میں داخل اور اس سے خارج ہونے کی کیا حد ہے ؟''۔
بے شک مسلمان ہونے کا کمترین درجہ خد اکی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دینا ہے اگر چہ یہ شہادت وگواہی زبانی ہی کیوں نہ ہو ۔
قرآن کریم ، تمام مفسرین اور علماء و فقہاء کی آراء کے مطابق ایسے شخص کا جان ومال محفوظ ہے اور کوئی مسلمان اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔
مفسرین کے نزدیک اسلام اور مسلمان کی تعریف کو واضح کرنے کے لئے ہم یہاں پہ دو قرآنی آیات کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔
پہلی آیت :
خداوند معال بادیہ نشین عربوں کے اسلام کے بارے میں فرماتا ہے :
(قَالَتْ الَْعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا َسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الِْیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ وَِنْ تُطِیعُوا اﷲَ وَرَسُولَہُ لاَیَلِتْکُمْ مِنْ َعْمَالِکُمْ شَیْئًا ِنَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم)(١)
ترجمہ:یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کیونکہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیںہوا ہے اور اگر تم اللہ اور رسول ۖ کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔
--------------
(١)سورۂ حجرات :١٤.
ایمان اور اسلام میں فرق
اس آیت شریفہ میں ایمان کو اسلام کے بعد کا مرحلہ شمار کیا گیا ہے یعنی ایمان خاص ہے اور اسلام عام ہے ۔
راغب اصفہانی مفردات میں لکھتے ہیں :
''الاسلام : الدخول فی السلم ، وھو ان یسلم کل واحد منھما ان ینالہ من الم صاحبہ ''.(١)
اسلام ، سلامتی میںداخل ہونا ہے یعنی تو حید و رسالت کے اقرار سے انسان ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔
ابن جریر اس آیت شریفہ کی تفسیر میں زہری سے نقل کرتا ہے :
اسلام خدا کی وحدانیت کی شہادت و گواہی دینا ہے اور ایمان قول کے ساتھ عمل کا نام ہے ۔(٢)
اسلام سلامتی میں داخل ہونا اور شہادتین کے اظہار سے مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے بچنا ہے خدا وند متعال کا یہ قول جو نئے مسلمانوں کے ایک گروہ سے فرمایا: ( وَلَمَّا یَدْخُلِ الِْیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ)(٣)ابھی ایمان تمہارے دلوں میں
داخل نہیں ہوا ہے ۔
--------------
(١) مفردات راغب ، مادہ سلم .
(٢) زہری سے نقل ہوا ہے :''الاعراب آمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا قال : ان الاسلام الکلمة والایمان العمل، ''جامع البیان ٢٦: ١٨٢ . شمارہ ٢٤٦٠٧. (٣) سورۂ حجرات : ١٤.
درحقیقت زبانی اقرار اگر دل کو مسخر نہ کرے تو وہ اسلام ہے اور اگر زبان و دل دونوں اسے قبول کر لیں تو ایمان ہے اس لئے کہ ایمان اطمینان قلب کے ساتھ محکم عقیدے کا نام ہے ۔(١)
بنابر ایں مسلمان مفسرین کے نزدیک خدا کی توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی رسالت و نبوت کے اقرار سے اسلام کا پہلا مرحلہ محقق ہوجاتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان کا مال وجان اور عزت وناموس محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی کو اسے چھیڑنے کا حق نہیں ہوتا ۔
قرطبی کہتا ہے :
حقیقت ایمان وہی تصدیق قلب ہے جب کہ اسلام پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لائے ہوئے احکامات کو ظاہری طور پر قبول کرنا ہے اور یہی مقدار انسان کی جان کے محفوظ ہونے کے لئے کافی ہے ۔(٢)
ابن کثیر کہتا ہے :
--------------
(١)الدخول فی السلم و الخروج من ان یکون حربا للمومنین باظہار الشھادتین ، الا تری الی قولہ تعالیٰ (وَلَمَّا یَدْخُلْ الِْیمَانُ فِی قُلُوبِکُم) . الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل٣: ٥٦٩.
(٢)وحقیقة الایمان التصدیق بالقلب ، واما الاسلام فقبول ما اتی بہ النبی]صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم [فی الظاہر، وذلک یحقن الدم ، تفسیر قرطبی١٦:٢٩٩.
اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ایمان اسلام کی نسبت خاص ہے اور اہل سنت کا عقیدہ بھی یہی ہے اور یہ آیت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ یہ بدو عرب منافق نہیں تھے بلکہ ایسے مسلمان تھے جن کے دلوں میں ایمان راسخ نہ ہوا تھا اور انھوں نے ایک ایسے مقام کا دعویٰ کیا جس تک پہنچے نہیں تھے لہٰذا خدا وند متعال نے انھیںخبر دار کیا۔
اور اگر وہ لوگ منافق ہوتے تو انھیں رسواکیا جاتا جس طرح سورۂ برائت میں منافقین کا تذکرہ فرمایا :(١)
دوسری آیت :
خدا وند متعال میدان میں اسلام لانے والے کفار کے بارے میں فرماتا ہے :
( یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ فَتَبَیَّنُوا وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ َلْقَی ِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اﷲِ مَغَانِمُ کَثِیرَة کَذَلِکَ کُنتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اﷲُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا ِنَّ اﷲَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا )(٢)
--------------
(١)وقد استفید من ھذہ الآیة الکریمة ان الایمان اخص من الاسلام ، کما ھو مذہب اہل السنة والجماعة ...فدل ھذا علی ان ھؤلاء الاعراب المذکورین فی ھذہ الآیة لیسوا بمنافقین وانما ھم مسلمون لم یستحکم الایمان فی قلوبھم ، فادّعوا لانفسھم مقاما اعلیٰ مما وصلو ا الیہ ، فادّبوا فی ذلک ... ولو کانوا منافقین لعنفوا وفحھوا ، کما ذکر المنافقون فی سورة برأة۔ تفسیر ابن کثیر٤:٢٣٤.
(٢) سورۂ نسائ: ٩٤.
ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم راہ ِ خدا میں جہاد کے لئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی کافر تھے خد انے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا ( اور دل چیر نے کی شرط نہیں لگائی ) تو اب تم بھی اقدام سے پہلے تحقیق کرو کہ خدا تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے ۔
سیوطی لکھتا ہے :
بزار ، دار قطنی اور طبرانی نے عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے ایک گروہ کو جہاد کے لئے بھیجا جن میں مقداد بھی تھے جب یہ گروہ اس قبیلے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ سب لوگ بھاگ گئے ہیں مگر ایک شخص مال و ثروت زیادہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر نہ بھاگا ۔ جب اس نے مسلمان مجاہدین کو دیکھا تو شہادتیں پڑھنا شروع کیں مقداد نے تلوار کھینچی اور اس کی گردان اڑادی ۔
ان میں سے ہی ایک مسلمان نے کہا : تم نے خدا کی گواہی کے بعد اسے قتل کیا؟ میں تمہارے اس عمل کی خبر رسول خدا ۖ کو دوں گا ۔ جب پیغمبر ۖ کی خدمت میں واپس پہنچے تو عرض کیا: یا رسول اللہ ۖ ایک شخص نے توحید کا اقرار کیا لیکن مقداد نے اسے قتل کر ڈالا ۔ فرمایا: مقداد کو بلایا جائے ۔ جب مقداد آئے تو فرمایا: تو نے ''لا الہ الا اللہ '' کا اقرار کرنے کے بعد اس شخص کو قتل کیا ہے ؟ روز قیامت کیا جواب دوگے ؟ اتنے میں خدا وند متعال نے یہ آیت نازل فرمائی ۔(١)
قابل غور نکتہ:
اس دوسری آیت میں ایمان سے مراد اس کا لغوی معنی امن ہے ۔، یعنی اگر کوئی شخص شہادتین پڑھ لے تو اسے یہ نہ کہا جائے کہ تجھے امان نہیں ملے گی بلکہ شہادتین کے اقرار سے انسان مسلمان اور اس کا مال وجان محفوظ ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ ابن جوزی نے حضرت علی علیہ السلام ، ابن عباس ، عکرمہ ، ابو العالیہ ، یحییٰ بن یعمر اور ابو جعفر سے نقل کیا ہے کہ وہ ''مومناً'' میم کے فتحہ کے ساتھ قرائت کرتے کہ جس کا معنی امان ہے ۔(٢)
--------------
(١)بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سریة فیھا المقداد بن الاسود ، فلما اتوا القوم وجدوھم قد تفرقوا وبقی رجل لہ مال کثیر لم یبر ح، فقال :''اشھد ان لا الہ الا اللہ '' فاھوی الیہ المقداد فقتلہ . فقال لہ رجل من اصحابہ : اقتلت رجلا شھد ان لا الہ الا اللہ؟ لا ذکرن ذلک النبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، فلما قدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم قالوا: یا رسول اللہ ، ان رجلا شھد ان لا الہ الا اللہ فقتلہ المقداد فقا ل: ادعواا لی المقداد ، فقال : یا مقداد! اقتلت رجلا یقول لا الہ الا اللہ ؟ فکیف لک بلا الہ الا اللہ غدا ؟ فانز ل اللہ یا ایھا الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ الی قولہ کذلک کنتم من قبل.درالمنثور٢:٢٠٠ تفسیر ابن کثیر١:٥٥٢ و مجمع الزوائد ٧: ٩ .
(٢)وقرا علی وابن عباس وعکرمہ وابو العالیة ویحیی بن یعمر وابو جعفر : بفتح المیم الست مومنا من الامان . زاد المسیر٢:١٧٥.
|