وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
فصل پنجم
وہابی اور مسلمانوں کو کافر قرار دینا
١۔ ابن تیمیہ کا مسلمانوں کو کافر اور انھیں قتل کرنے کا حکم دینا :
خطرناک ترین کا م جو بانیٔ افکار وہابیت ابن تیمیہ نے اپنی دعوت کے آغاز میں کیا اور جس سے عمومی افکار کوآلودہ اور عوام الناس کے عقائد کو مجروح کیا وہ مسلمانوں پرکفر و شرک کی تہمت لگانا تھا اس نے با قاعدہ طو ر پر اعلان کیا :
''من یاتی الی قبر نبی او صالح، ویسالہ حاجتہ ویستنجدہ ...فھذاشرک صریح ، یجب ان یستتاب صاحبہ ، فان تاب والا قتل ''.(١)
جو شخص بھی قبر پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) یا صالح افراد میں سے کسی کی قبر کے پاس آئے اور اس سے حاجت طلب کرے وہ مشرک ہے اسے تو بہ کا حکم دیا
--------------
(١)زیارة القبور والاستنجاد بالمقبور: ١٥٦ و الہدیہ السنیہ :٤٠.
جائے اگر توبہ کرلے تو صحیح ورنہ قتل کر دیا جائے ۔

٢۔محمد بن عبد الوہاب کا مسلمانوں کوکافر اور ان سے جہاد کا حکم دینا :
محمد بن عبد الوہاب مجدد افکار ابن تیمیہ کہتا ہے :
''وان قصد ھم الملائکة والانبیاء والاولیاء ، یریدون شفاعتھم والتقرب الی اللہ بذلک ، ھو الذی احل دماء ھم واموالھم ''.(١)
ان کا مقصد ملائکہ ، انبیاء اور اولیاء سے شفاعت طلب کرنا اور انہیں خد ا سے تقرب کا وسیلہ قرار دینا ہے ۔یہی چیز ان کے جان ومال کے حلال ہونے کا باعث بنی ہے ۔
یہاں تک کہ کہتا ہے :
''ان ھذا الذی یسمیہ المشرکون فی زماننا ( کبیر الاعتقاد ) ھو الشرک الذی نزل فی القرآن وقاتل رسول اللہ ]صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم [ الناس علیہ . فاعلم ان الشرک الاولین اخف من شرک اھل زماننابامرین :
احدھما : ان الاولین لایشرکون ولا یدعون الملائکة والاولیاء والاوثان مع اللہ الا فی الرخاء ، واما فی الشدة
فیخلصون للہ الدعائ...
--------------
(١) کشف الشبہات :٥٨؛ مجموع المولفات الشیخ محمد بن عبد الوہاب ، ٦ رسالة کشف الشبہات :١١٥.
الامر الثانی : ان الاولین یدعون مع اللہ اناسا مقربین عند اللہ، اما انبیاء واما اولیاء ، واما الملائکة، او یدعون اشجارا او احجارا مطیعة للہ لیست عاصیة .
واھل زماننا یدعون مع اللہ انا سا من افسق الناس ... ان الذین قاتلھم رسول اللہ اصح عقولا واخف شرکا من ھؤلاء ''.(١)
محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے : یہ ( توسل ) جس کے معتقد ہمارے زمانہ کے مشرکین ہیں یہ وہی شرک ہے جسے قرآن میں بیان کیا گیا اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے اس کی خاطر لوگوں سے جنگ کی ۔
اس سے آگاہ رہنا چاہئے کہ زمانۂ پیغمبر ۖ کے مشرکین کا شرک ہمارے زمانے کے مسلمانوں کے شرک سے دو دلیلوں کی بناء پر کمتر ہے :
١۔ اس زمانہ کے مشرک فقط خوشحالی کی صورت میں ملائکہ اور بتوں کو صدا کرتے لیکن جب کسی مشکل میں مبتلا ہوتے تو مخلصانہ طور پر خدا کو پکارتے ۔جب کہ ہمارے زمانہ کے مشرک مسلمان خوشی اور مصیبت دونوں صورتوں میں غیر خدا کو پکارتے ہیں ۔
--------------
(١)مجموع مولفات محمد بن عبد الوہاب :٦:١٢٤،'' رسالة کشف الشبہات'': ١٢٤.
٢۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کے زمانہ کے مشرک وبت پرست خدا کے
مقرب بندوں کو اس کی اطاعت کے لئے پکارتے تھے جیسے انبیاء ، اولیاء اور ملائکہ یا درخت و پتھر جب کہ ہمارے زمانہ کے مشرک ( مسلمان) ان افراد کو پکارتے ہیں جو فاسق ترین انسان ہیں ۔
پس اس سے واضح ہو گیا کہ جن لوگوں سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ کی ان کی عقل ہمارے زمانہ کے مشرکوں سے کامل اور ان کا شرک ان سے کمتر تھا ۔

٣۔ مسلمانوں کو مشرک ، کافر اور بت پرست کہنا :
محمد بن عبد الوہاب نے رسالہ ''کشف الشبہات''میں چوبیس سے بھی زیادہ بار مسلمانوں کو مشرک اور پچیس مقامات پر مسلمانوں کو کافر ، بت پرست ، مرتد ، منافق ، منکر توحید ، دشمن توحید، دشمن خدا ، مدعیان اسلام ، اہل باطل ، نادان اور شیاطین کہاہے اسی طرح کہا ہے کہ نادان کا فرو بت پرست ان مسلمانوں سے دانا تر ہیں ان کا امام اور پیشوا شیطان ہے ...(١)
--------------
(١) سید محسن امین فرماتے ہیں :''وقد اطلق محمد بن عبد الوہاب فی رسالة ''کشف الشبہات'' اسم الشرک والمشرکین علی عامة المسلمین عدی فیما یزید عن اربعة و عشرین موضعا واطلق علیھم اسم الکفر والکفار وعباد الاصنام والمرتدین والمنافقین وجاحدی التوحید واعدائہ واعداء اللہ ومدعی الاسلام واہل الباطل والذین فی قلوبھم زیغ والجھال والجھلة والشیاطین وان جھال الکفار عبد الاصنام اعلم منھم ان ابلیس امامھم ومقدمھم ، الی غیر ذلک من الالفاظ الشنیعة فیما یزید عن خمسة وعشرین موضعا ''.کشف الارتیاب :١٤٧ نقل از کشف الشبہات : ٥٧۔٧٢.
رجوع کریں : مجموع مولفات محمد بن عبد الوہاب ،٦: ١١٤؛ رسالة کشف الشبہات ، ١٤٣ و رسالة القواعد الاربع .
٤۔ وہابی مذہب میں داخل ہونے کی شر ط مسلمانو کے کفر کی گواہی دینا ہے :
مفتی مکہ مکرمہ احمد زینی دحلان لکھتے ہیں :
کان محمد بن عبد الوہاب اذا تبعہ احد وکان قد حج حجة الاسلام ، یقول لہ : حج ثانیا! فان حجتہ الاولی فعلتھا وانت مشرک ، فلا تقبل ، لا تسقط عنک الفرض .
واذا اراد احد الدخول فی دینہ ، یقول لہ بعد الشہادتین : اشھد علی نفسک انک کنت کافرا ، وعلی والدیک انھما ماتا کافرین ، وعلی فلان و فلان ، ویسمی جماعة من اکابر العلماء الماضین انھم کانوا کفارا ، فان شھد قبلہ ، والا قتلہ ،وکان یصرح بتکفیر الامة منذ ستمائة سنة ، ویکفر من لایتبعہ، ویسمیھم المشرکین ، ویستحل دماء ھم واموالھم ''.(١)
جب کوئی شخص وہابی مذہب قبول کرتا اور اس نے حج واجب بجالایا ہوتا تو محمد بن عبد الوہاب اسے کہتا دوبارہ حج بجالاؤ اس لئے کہ پہلے والا حج تونے شرک کی
--------------
(١) الدرر السنیہ ١: ٤٦ ؛ الفجر الصادق لجمیل صدقی زہاوی : ١٧ وکشف الارتیاب : ١٣٥ نقل از خلاصة الکلام دحلان : ٢٢٩۔ ٣٣٠.
حالت میں انجام دیالہٰذا وہ قبول نہیں ہے اور فریضہ ساقط نہیں ہوا ۔
اور اگر کوئی شخص وہابی ہونا چاہتا تو محمد بن عبد الوہاب اسے کہتا : شہادتین کے بعد کہے کہ وہ پہلے کافر تھا اور اس کے ماں باپ بھی کفر پر مرے ہیں اور اسی طرح گواہی دے کہ سابقہ اکابر علماء کفر پر مرے ہیں اور اگر وہ یہ گواہی نہ دیتا تو اسے قتل کر دیا جاتا ۔
ہاں ! وہ معتقد تھا کہ گذشتہ بارہ صدیوں کے مسلمان کا فرتھے اور جو شخص وہابی مکتب کی پیروی نہ کرتا اسے مشرک سمجھ کر اس کا مال و جان مباح قرا ر دے دیتا.

٥۔ امت مسلمہ کے کفر وارتداد کا حکم :
محمدبن عبد الوہاب کا بھائی سلیمان لکھتا ہے :
یہ امور (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی سے توسل )جنھیں تو کفرو شرک کا باعث سمجھتا ہے امام احمد بن حنبل کے زمانہ سے بھی پہلے موجود تھے۔ بعض علماء نے انھیں قبیح جانا ہے لیکن یہ اعمال تمام اسلامی سر زمینوں میں موجود ہونے کے باوجود ائمہ اربعہ میں سے کسی نے ان اعمال کے بجالانے کی وجہ سے لوگوں کو کافر قرار نہیں دیا اور نہ ہی انھیں مرتد کہا ہے اور نہ ہی ان کی سرزمین کو سر زمین شرک قرار دے کر ان سے جنگ کا حکم دیا ہے ۔
یہ وہ باتیں ہیں جو تم ہی کرتے ہو ! یہاں تک کہ ان اعمال کے انجام دینے والوں کو اگر کوئی کافر نہ کہے تو تم اسے بھی کافر سمجھتے ہو ۔
کیا واقعاً !تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ وہی واسطے ہیں جنھیں ابن تیمیہ نے اپنی عبارت میں ذکر کیا ہے ؟
ائمہ اربعہ سے لے کر آج تک آٹھ سو سال گذر چکے ہیں لیکن علمائے اسلام میں سے کسی نے ان اعمال کو کفر نہیں جانا اور کوئی عاقل ایسا گمان بھی نہیں کرسکتا ۔
''واللہ ! لازم قولکم : ان جمیع الامة بعد زمان الامام احمدرحمة اللہ علماء ھا ، امراؤھا ، وعامتھا کلھم کفار، مرتدون ...''،
خدا کی قسم ! تمہاری اس بات کا نتیجہ تو یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کے بعد ساری امت چاہے علماء ہوں یا حکام و عوام سب کے سب کافر و مرتد ہیں (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)خدا سے پناہ چاہتاہوں ، خدا سے پناہ چاہتا ہوں ۔
یا تم یہ گمان کرتے ہو جیسا کہ تم میں سے بعض نے کہا ہے''ان الحجة ما قامت الابکم ، والا قبلکم لم یعرف دین الاسلام ''. کہ تمہارے سوا حجت تمام نہیں ہوتی ؟ا ور سلف نے اسلام کو نہ پہچانا ؟(١)
--------------
(١)الصواعق الالہیة فی الرد علی الوہابیة: ٣٨. یہ کتاب اردو زبان ابو طالب علیہ السلام اسلامک انسٹی ٹیو ٹ لاہور کی جانب سے شائع ہو چکی ہے اور اس کی عربی عبارت یوں ہے : ان ھذہ الامور حدثت من قبل زمن الامام احمد فی زمان ائمة الاسلام وانکرھا من انکرھا منھم ولا زالت حتی ملات بلاد الاسلام کلھا وفعلت ھذہ الافاعیل کلھا التی تکفرون بھا، ولم یرو عن احد من ائمہ المسلمین انھم کفروا بذلک ولا قالوا : ھؤلاء مرتدون ولا امروا بجھادھم ، ولا سموا بلاد المسلمین بلاد شرک و حرب ، کما قلتم انتم ؛ بل کفرتم من لم یکفر بھذہ الافاعیل ، وان لم یفعلھا ۔
.ایظنون ان ھذہ الامور من الوسائط التی فی العبارة الذی یکفرفاعلھا اجماعا ، وتمضی قرون الائمة من ثمان مائة عام ومع ھذا لم یرو عن عالم من علماء المسلمین انھا کفر؛بل مایظن ھذا عاقل ؛بل واللہ لازم قولکم : ان جمیع الامة بعد زمان الامام احمد ، علماء ھا، وامراؤ ھا ، وعامتھا ، کلھم کفار، مرتدون ، فانا للہ وانا الیہ راجعون ، واغوثاہ الی اللہ ثم واغوثا، ام تقولون کما یقول بعض عامتکم ان الحجة ما قامت الا بکم ، والا قبلکم لم یعرف دین الاسلام ''
٦۔ آیت اکمال کی وہابی مذہب پر تطبیق:
دولت عثمانی میں نیوی کالج کے میجر ایوب صبری لکھتے ہیں : سعود بن عبد العزیز نے مدینہ منورہ پر قبضہ کے بعد تمام اہل مدینہ کو مسجد النبی میں جمع کیا اور مسجد کے دروازے بند کروانے کے بعد یوں اپنی گفتگو کاآغاز کیا :
''یا اھالی المدینة ! ان دینکم الیوم قد کمل وغمرتکم نعمة الاسلام ورضی اللہ عنکم طبق قولہ تعالیٰ(الیوم اکملت لکم دینکم)۔
فذرو ادیان آبائکم الباطلة ولا تذکروھم باحسان ابداً، واحذرو ان تترحموا علیھم؛لانھم ماتوا علی الشرک باسرھم''.(١)
اے اہل مدینہ ! اس آیت شریفہ (الیوم اکملت لکم دینکم )(٢)
--------------
(١)تاریخ الوہابیة :١٢٦.
(٢)مائدہ ٥: ٣.
کے مطابق آج تمہارا دین کامل ہوگیا اور تم نعمت اسلام سے مشرف ہو گئے ، خدا وند متعال تم سے راضی و خوشنود ہو گیا ۔ پس اپنے آباؤ اجدا دکے باطل ادیان کو چھوڑ دو اور انھیں ہر گز نیکی سے یاد نہ کرو اور نہ ہی ان کے لئے رحمت کی دعا کرواس لئے کہ وہ سب مشرک مرے ہیں ۔(١)

٧۔ ابن جبرین کا شیعوں کے کفر کا فتویٰ دینا :
سعودی عرب کے ایک مفتی سے پوچھا گیا: کیا شیعہ فقراء کو زکوٰة دی جاسکتی ہے ؟
تو اس نے یوں جواب دیا: علماء اسلام کا کہنا ہے کہ کافر کو زکوٰة نہیں دے سکتے اور شیعہ چار دلیلوں کی بناء پر کافر ہیں :
١۔وہ قرآن پر تہمت لگاتے ہیں اور معتقد ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے او ر کہتے ہیں کہ قرآن کا ٢٣ حصہ حذف ہو گیا ہے ۔ لہٰذا جو بھی قرآن پر تہمت لگائے وہ کافر اور اس آیت شریفہ :(وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ)(٢)(ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں )کا منکر ہے ۔
٢۔ سنت رسول اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر بھی تہمت لگاتے ہیں اور ان دونوں کتابوں کی احادیث پر عمل نہیں کرتے اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان
--------------
(١) تاریخ وہابیان : ١٠٧.
(٢) سورۂ حجر : ٩
دونوں کتابوں کی احادیث صحابہ سے نقل ہوئی ہیں اور صحابہ کو کافر سمجھتے ہیں نیز معتقد ہیں کہ پیغمبرۖ کے بعدعلی ، ان کی اولاد اور چند ایک صحابہ مانند سلمان و عمار وغیرہ کے سوا سب کافرو مرتد ہو گئے تھے ۔
٣۔ شیعہ ، اہل سنت کو کافر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے اوراگر پڑھ بھی لیں تو اس کو دوبارہ پڑھتے ہیں بلکہ وہ معتقد ہیں کہ اہل سنت نجس ہیں لہٰذا اگر کسی سنی سے مصافحہ کرتے ہیں تو ہاتھوں کو پانی سے پاک کرتے ہیں ۔ جو مسلمانوں کو کافر قرار دے وہ خود کفر کا سزا وار ہے جس طرح وہ ہمیں کافر سمجھتے ہیں اسی طرح ہم بھی انھیں کافر سمجھتے ہیں ۔
٤۔ شیعہ علی اور اولاد علی کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور انھیں خدا وند متعال کی صفات سے متصف کرتے ہیں اور انھیں خدا کے مانند پکارتے ہیں ۔
وہ اہل سنت کے اجتماعات میں شرکت نہیں کرتے اور نہ ہی سنی فقراء کو صدقہ دیتے ہیں اگر دیں بھی سہی تو ان کے دل میں ہمارے فقراء کا کینہ موجود ہے اور یہ سب کچھ تقیہ کی بناء پر انجام دیتے ہیں ۔
یہاں تک کہ کہتا ہے :''من دفع الیھم الزکاة فلیخرج بدلھا ؛ حیث اعطاھا من یستعین بھا علی الکفار، وحرب السنہ ''.(١)
--------------
( ١)یہ وہابی مفتی کے تعصب اور مذہب شیعہ کے عقائد سے نا آشنائی کی واضح علامت ہے اس لئے کہ شیعہ عقائد سے آشنائی رکھنے والے افراد بخوبی آگاہ ہیں کہ ان چاروں میں سے کسی ایک عقیدہ کابھی
شیعہ عقائدسے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مزید معلومات کے لئے شیعہ عقائد کی کتب کا مطالعہ فرمائیں (مترجم) ١

١۔ سوال :''ماحکم دفع زکاة اموال اہل السنة لفقراء الرافضة ''الشیعة ''و ھل تبرأ ذمة المسلم الموکل بتفریق الزکاة اذا دفعھا للرافضی الفقیر ام لا ؟
جواب :'' لقدذکر العلماء فی مولفاتھم فی باب اہل الزکاة انھا لا تدفع لکافر ، ولا مبتدع، فالرافضة بلا شک کفارلاربعة ادلة:
الاول: طعنھم فی القرآن ، وادعاؤھم انہ حذف منہ اکثر من ثلثیہ ، کما فی کتابھم الذی الفہ النوری وسماہ فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب وکما فی کتاب الکافی ، وغیرہ من کتبھم ، ومن طعن فی القرآن فھو کافر مکذب لقولہ تعالیٰ :(وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُون)حجر(١٥) آیت ٩.
الثانی : طعنھم فی السنة واحادیث الصحیحین ، فلا یعملون بھا؛ لانھا من روایة الصحابة الذین ھم کفار فی اعتقادھم ، حیث یعتقدون ان الصحابة کفروا بعد موت النبی ]صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم [الا علی و ذریتہ ، وسلمان و عمار، ونفر قلیل ، اما الخلفاء الثلاثة، وجماھیر الصحابہ الذین بایعوھم فقد ارتدوا فھم کفار، فلا یقبلون احادیثھم ، کما فی کتاب الکافی وغیرہ من کتبھم .
الثالث : تکفیر ھم لا ہل السنة ، فھم لا یصلون معکم ، ومن صلی خلف السنی اعاد صلاتہ ؛ بل یعتقدون نجاسة الواحد منا، فمتٰی صافحنا ھم غسلوا ایدیھم بعدنا ، من کفر المسلمین فھو اولی بالکفر ، فنحن نکفرھم کما کفرونا و اولیٰ .
الرابع: شرکھم الصریح بالغلو فی علی و ذریتہ ، ودعاؤھم مع اللہ ، وذلک صریح فی کتبھم وھکذا غلوھم ووصفھم لہ بصفات لا تلیق الابرب العالمین ، وقد سمعنا
ذلک فی اشرطتھم
.ثم انھم لا یشترکون فی جمعیات اہل السنة، ولا یتصدقون علی فقراء اہل السنة ، ولو فعلوا فمع البغض الدفین ، یفعلون ذلک من باب التقیة ، فعلی ھذ ا من دفع الیھم الزکاة فلیخرج بدلھا ؛ حیث اعطاھا من یستعین بھا علی الکفر، وحرب السنة ، ومن وکل فی تفریق الزکاة حرم علیہ ان یعطی منھا رافضیا ، فان فعل لم تبرا ذمتہ، وعلیہ ان یغرم بدلھا ، حیث لم یؤد الامانة الی اھلھا ، ومن شک فی ذلک فلیقراء کتب الرد علیھم ، ککتاب القفاری فی تفنید مذھبھم ، وکتاب الخطوط العریضة الخطیب وکتاب احسان الھی ظھیر وغیرھا . واللہ الموفق'' اللؤ لؤ المکین من فتاوی فضلیة الشیخ ابن جبرین: ٣٩.
اگر کوئی شخص کسی شیعہ کو زکوٰة دے تو اسے چاہئے کہ دوبادرہ ادا کرے اس لئے کہ اس نے ایسے شخص کو زکوٰة دی ہے جو کفر کو تقویت دے رہا اور سنت رسول خدا ۖ سے جنگ کر رہا ہے ۔

٨۔ شیعوں کے خلاف جہاد کا کھلا اعلان :
سعودی عرب کے ایک اور مفتی شیخ عبد الرحمان برّاک سے فتویٰ طلب کیا گیا: '' ھل یمکن ان یکون ھناک جھادبین فئتین من المسلمین ''السنة مقابل الشیعة ''؟کیا شیعہ اور سنی کے درمیان جہاد ممکن ہے ؟
اس نے جواب میں لکھا :''..ان کان لاہل السنة دولت وقوةواظھر الشیعة بدعھم ، وشرکھم واعتقاداتھم ،فان علی اہل السنة ان یجاھدوھم با لقتال ...(١)
--------------
(١) المنجد سائٹ سوال نمبر ٢٧٢ ١٠اور سائٹ (edaa. net)
اگر اہل سنت کے پاس طاقت حکومت ہو اور شیعہ اپنی بدعات ، شرک اور عقائد کا اظہار کریں تو اہل سنت پر واجب ہے کہ ان سے جہاد کرکے انھیں قتل کر ڈالیں ۔
بالکل اسی طرح کا فتویٰ شیخ عبد اللہ بن جبرین نے بھی صادر کیا ہے (وtalal-sm.maktoobblog.com.forum. maktoob. com)
٩۔ سعودی عرب میں فتویٰ کی اعلیٰ کمیٹی کا شیعوں کے کفر کا فتویٰ :
سعودی عرب میں فتویٰ صادر کرنے والی اعلیٰ کمیٹی نے شیعوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں لکھا :
''ان کان الامر کما ذکر السائل من ان الجماعة الذین لدیہ من الجعفریة یدعون علیا والحسن والحسین وسادتھم فھم مشرکون مرتدون عن الاسلام ''۔(١)
جیسا کہ سوال کیا گیا کہ وہ ( یا علی ) اور ( یاحسن ) اور (یاحسین ) کہتے ہیں تو وہ مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔
اور اس فتویٰ پر اعلیٰ کمیٹی کے مندرجہ ذیل چار ارکان نے دستخط کئے ۔
چئرمین کمیٹی: عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازارکان کمیٹی : عبد الرزاق عفیفی ،
عبد اللہ بن غدیان اور عبد اللہ بن قعود
--------------
(١) فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ٣: ٣٧٣، فتویٰ نمبر ٣٠٠٨.
١٠۔ زرقاوی کا شیعوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ :
عراق میں وہابیوں کے لیڈر نے انٹر نیٹ پر ایک اشتہار دیا :
ہمارے مخالف ( شیعہ ) آستین کا سانپ اور حیلہ گر بچھو ہیں اب ہم اپنے کافر و حیلہ گر دشمن سے جہاد کریں گے جو دوستی کا لبادہ اوڑھ کر اتحاد کی دعوت دیتے ہیں جب کہ اختلاف اور شر انھیں میراث میں ملا ہے ۔
ایک تحقیق کرنے والا شخص بآسانی در ک کرسکتا ہے کہ شیعہ ایک خطرہ ہیں اور تاریخ اس بات کی تائید کررہی ہے کہ شیعہ اسلام کے علاوہ دوسرادین ہے ۔ یہ لوگ اہل کتاب کا شعار بلند کر کے یہود ونصاریٰ سے ملاقات کرتے ہیں ۔ شیعوں کا شرک اس قدر واضح ہے کہ قبروں کی پرستش اور اپنے آئمہ کی قبور کا طواف کرتے ہیں اور اس قدر تجاوز کا شکار ہو چکے ہیں کہ یاران پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو کافر ، امہات المومنین کو گالیاں اور قرآن کریم کو جعل کرتے ہیں ۔
شیعہ کتب میں جو ابھی چھپ رہی ہیں اس گروہ نے اپنے لئے نزول وحی کا دعویٰ کیا ہے یہ بھی ان کے کفر کی ایک علامت ہے ۔
جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ شیعہ اپنا موروثی کینہ فراموش کردیں گے تو یہ لوگ وہم و خیال کی زندگی بسر کررہے ہیں اس لئے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے عیسائیوں سے کہا جائے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے صلیب پر لٹکائے جانے کو بھول جائیں ۔ کون عاقل ہے جو ایسا کام کرے گا ؟
یہ قوم اپنے کفر کے علاوہ حکومتی بحران اور حکومت میں اپنی تعداد بڑھا کر سیاسی مکر وحیلہ کے ذریعے اپنے ہم پیمانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ۔
اس خیانت کا رقوم نے طول تاریخ میں اہل سنت سے جنگ کی اور صدام کے زوال کے بعد ''انتقام ، تکریت سے انبار تک انتقام '' کا نعرہ بلند کیا جو اہل سنت سے ان کے کینہ پر دلالت کر رہا ہے ۔(١)

١١۔ وہابی مفتیوں کا حزب اللہ کے لئے دعانہ کرنے کا فتویٰ دینا :
اسرائیل کے لبنان پر وحشیانہ حملے اور حزب اللہ کے شجاعانہ دفاع کے دوران متعصب وہابی مفتی شیخ عبد اللہ بن جبرین نے اسلام کے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ حمایت کا اظہار کرنے کی خاطر یہ فتویٰ دیا :
حز ب اللہ کی کسی قسم کی حمایت جائز نہیں ہے اور ان کی فتح کی دعا کرنا حرام ہے ۔ نیز تمام اہل سنت پر واجب ہے کہ وہ اس گروہ سے بیرازی کا اعلان کریں اور جو لوگ ان کے ساتھ ملنے کی فکر میں ہیں ان کی مذمت کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ شیعہ اسلام کے پرانے دشمن ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اہل سنت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔(٢)
--------------
(١)ویب سائٹBAZTAB. COM تاریخ ٤٨ ١٣٨٤ بمطابق ٢٠٠٤ ئ۔
(٢) سوال : ''ھل یجوز نصرة ( ما یسمّی ) حزب اللہ الرافضی ؟ وھل یجوز ۔
انٹر نیشنل سروس ''بازتاب'' کی آسوشیٹد پریس سے نقل کی گئی رپورٹ کے مطابق وہابی مفتی شیخ صفر الحوالی نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا :
'' حز ب اللہ جس کا معنی خداکاشکر ہے درحقیقت حزب الشیطان ہے '' اسی طرح یہ بھی کہا ہے : حزب اللہ کے لئے ہر گز دعا نہ کریں ۔
یہ فتویٰ وہابیوں نے اس نظریہ کی بناء پر دیا ہے کہ شیعہ رافضیہ ہیں اور یہ فتویٰ اس فتویٰ کی پیروی میں صادر کیا گیا ہے جو تین ہفتے پہلے ایک مشہور سعودی مفتی شیخ عبد اللہ بن جبرین نے دیا تھا ۔
آسو شٹڈ پریس نے اس بات کا اضابھی فہ کیا ہے :
یہ فتویٰ اس وقت صادر کیا گیا ہے جب عرب ممالک کے روڈ اور سڑکیں حزب اللہ کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کے بارے میںنکالے جانے والے جلوسوں
--------------
الا نضوا ء تحت امرتھم وھل یجوز الدعاء لھم بالنصر والتمکین ؟ وما نصیحتکم للمخدعین بھم من اہل السنة؟''
جواب : ''لایجوز نصرةھذا الحزب الرافضی ، ولایجوز الانضواء تحت امرتھم ، ولا یجوز الدعاء لھم بالنصر والتمکین ، نصیحتنا لاہل السنة ان یتبروا منھم، وان یخذلوا من ینضموا الیھم ، وان یبینوا عداوتھم للاسلام والمسلمین وضرر ھم قدیما وحدیثا علی اہل السنة ، فان الرافصة دائما یضمرون العداء لاھل السنة ، ویحاولون بقدر الاستطاعة اظہار عیوب اہل السنة والطعن فیھم و المکرھم ، واذاکان کذلک فان کل من والاھم دخل فی حکمھم لقول اللہ تعالیٰ (ومن یتولھم منکم فانہ منھم )'' ودعوا الی نصرة الحزب بالدعاء والنصرة المادیة ، کما تسببت فتویٰ بن جبرین فی تصادم مواقف رجال الد ین السلفین والوہابیین ''سائٹ (www. watan. com ) الریاض، الاسلام الیوم، ١٢ ٢٧٧ ١٤ ، م ٨٦ ٢٠٠٦۔
شیخ عبد اللہ بن جبرین ، شمارہ فتوی، ١٥٩٠٣ تاریخ فتوی ١٤٢٧٦٢١ ھ (٥٢٦ ٨٥) بمطابق١٧۔٧۔٢٠٠٦ شبکہ نور الاسلام (www.islamlight. net)
سے بھری ہوئی ہیں یہاں تک کہ اردن جیسے ملک میں بھی لوگوں نے ان جلوسوں میں شرکت کی ہے جہاں کی اکثر آبادی یورپ سے متاثر اہل سنت پر مشتمل ہے ۔
کہا گیا ہے کہ اب جب جنگ اپنے انتہائی مراحل کو پہنچ چکی ہے تو ایسی حالت میں اس طرح کافتویٰ دینے کا مقصد فقط وہابی لیڈروں کا عالم اسلام کے اتحاد اور حزب اللہ کے نقش قدم پر چل کر کسی بھی غیر مسلم آزاد ی خواہ شہری سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا ہے ۔(١)
--------------
(١) اس مطلب کو الوطن سائٹ پر یوں بیان کیا گیا ہے :''قالالحوالی عصر یوم الخمیس امام تجمع استقبلہ فی مدینة النماص الجنوبیة القریبة من قریة الحولة مسقط راسہ علی حدود منطقة عسیر والباحة: انہ لایجوز الدعاء لحزب اللہ بالنصر علی اسرائیل ؛ کما ھاجم الحوالی الشیعة فی السعودیة ووصمھم بالشرک .
ورغم معاناة الحوالی من جلطة دماغیة اصابتہ العام الماضی وسببت لہ اعاقة دائمة وشلل جزئی الا انہ مستمر فی اصدار الفتاوی .
واکد موقع ( امة الاسلام ) الذی یشرف علیہ الشیخ علی بن مشعوف احد منظمی زیارة الحوالی ، ان الفتوی صدرت بحضور قاضی محافظة النماص الشیخ محمد المھنا، وعدد کبیر من مشائخ المحافطة وطلاب العلم فیھا ولا قت تاییدھم .
وتاتی فتوٰی الحوالی بعد ثلاثة اسابیع من فتویٰ مشابھة اصدرھا الشیخ عبد اللہ بن جبرین ، الرجل الثانی فی الھرم الدینی للحرکة الوھابیة، یحرم فیھا الدعا ، لحزب اللہ اللبنانی، ویطلب فیہ ممن یعتبرھم من المسلمین السنة بختذیل من ینضم الیھم .
وسبب فتویٰ ابن جبرین رد ة فعل عنیفة من علماء المسلمین السنة فی العالم حیث فرضھا غالبیة علماء مصر و فلسطین والجزائز و سوریا والاخوان المسلمین،
سعودی عرب کے ایک اور وہابی مفتی شیخ ناصر عمر نے بھی کہا ہے :
حزب اللہ سے دشمنی سب پر واجب ہے اس لئے کہ وہ ہمیشہ اہل سنت کے دشمن رہے ہیں :(١)

١٢۔ سعودی مفتی اور ابن تیمیہ کی مخالفت:
متعصب وہابیوں کا یہ فتویٰ ان کے مذہب کے مفکرابن تیمیہ کے فتویٰ کے خلاف ہے بلکہ کاسۂ داغ تراز آش ہے۔
اس لئے کہ ابن تیمیہ نے شیعوں سے اپنی تمام تر دشمنی اور مخالفت کے باوجود ایک شخص جو یہود ونصاری کو شیعوں پر ترجیح دیتا ہے اس کے سوال کے جواب میں واضح طورپر کہا:
''جو لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ بدعت گذار ہی کیوں نہ ہوں مانند خوارج ، شیعہ ، مرجئہ ، اور قدریہ یہودیوں سے بہترہیں جو پیغمبر ۖ کی رسالت کے منکر ہیں ''
اور مزید کہا: ''یہودو نصاری کا کفر روشن ہے لیکن اہل بدعت اگر پیغمبر ۖ
--------------
(١) (www. watan. com )
کی پیروی کریں تو یقینا کافر نہیں ہیں اور اگر اہل بدعت کو کافر سمجھ بھی لیا جائے پھر بھی ان کا کفر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی تکذیب کرنے والوں کے کفر کے مانندنہیں ہے ۔(١)

--------------
(١)جواب ابن تیمیہ : ''الحمد للہ کل من کان مومنا بما جاء محمد فھو خیر من کل من کفر بہ وان کان فی المومن بذلک نوع من البدعةسواء کانت بدعة الخوارج والشیعة و المرجئہ والقدریةاو غیرھم ؛ فان الیہود والنصاریٰ کفار کفرا معلوما بالاضطرار من دین الاسلام ، المبتدع اذاکان یحسب انہ موافق للرسول لا مخالف لہ لم یکن کافر ابہ ولقد قدر انہ یکفر فلیس کفرہ مثل کفر من کذب الرسول ]صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم [''. مجموع الفتاوی ،٣٥:٢٠١.