افکار وہابیت انصاف کے ترازو پر
١۔ ابن تیمیہ اور وہابیوں کے اقوال قرآن و سنت کے مخالف ہیں:
جسمانیت خدا کے اثبات کے بارے میں ابن تیمیہ اور اس کے وہابی پیروکاروں کے اقوال قرآن و سنت کے مخالف ہیں اس لئے کہ آیت شریفہ: (لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئ )(١)
ترجمہ :اس کے مثل کوئی شیء نہیں۔
واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ خدا کا کوئی مثل نہیں ، اور نیز آیت شریفہ (قُلْ ہُوَ اﷲُ َحَد )(٢)
خداوند متعال کے بے مثل ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔
حاکم نیشاپوری متوفیٰ ٤٠٥ ہجری نے ایک روایت میں ابی ابن کعب سے نقل کیا ہے :
مشرکین نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )سے خدا کا نسب بیان کرنے کا تقاضا کیا توخدا وند متعال نے سورۂ توحید نازل کی اور فرمایا :
اے پیغمبر ۖ! ان مشرکین سے کہہ دے :(قُلْ ہُوَ اﷲُ َحَد ز اﷲُ
--------------
(١) سورۂ شوریٰ: ١١.
(٢) سورۂ اخلاص : ٤.
الصَّمَدُ)خدا یکتا و بے نیاز ہے ( لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ)اس لئے کہ جو پیدا ہوگا وہ مرے گا اور جومرے گا وہ میراث چھوڑے گا جب کہ خدا موت و میراث کی صفت سے منزہ ہے ( وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا َحَد )
حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے کہاہے : یہ روایت صحیح ہے ۔(١)
٢۔ احمد بن حنبل کا نظریہ تجسیم کو باطل قرار دینا :
معروف عالم اہل سنت بیہقی متوفیٰ ٤٥٨ ہجری کہتے ہیں :
امام احمد بن حنبل نے خدا کے جسم ہونے کے نظریہ کو باطل قرار دیتے ہوئے کہا ہے : اسماء کو شریعت اور لغت سے لیا جاتا ہے اور اہل لغت کلمہ ''جسم ''کو ایسی چیز پر اطلاق کرتے ہیں جو طول ، عرض ،ارتفاع، ترکیب اور شکل وصورت پر مشتمل ہو جب کہ خداوند متعال ان تمام اشیاء سے منزہ ہے لہٰذا شائستہ نہیں کہ ہے اسے جسم کہاجائے اس لئے کہ وہ جسم کے ہر طرح کے معنی و مفہوم سے خارج ہے اور شریعت میں بھی یہ لفظ بیان نہیں ہوا ۔ بنابرایں عقیدہ جسمانیت ( خدا ) باطل ہے ۔(٢)
--------------
(١)مستدرک الصحیحین ٢: ٥٤٠.
(٢) وانکر احمد علی من قال بالجسم وقال: ان الاسماء ماخوذة من الشریعة واللغة، واھل اللغة وضعوا ھذا الاسم علی ذی طول وعرض وسمک وترکیب وصورة و تالیف ، واللہ سبحانہ خارج عن ذلک کلہ ،فلم یجز ان یسیّ جسماً؛ لخروجہ عن معنی الجسمیة ولم یجئی فی الشریعة ذلک فبطل . طبقات الحنابلہ ٢: ٢٩٨؛ اعتقاد الامام ابن حنبل : ٢٩٨. العقیدہ احمد بن حنبل :١١٠ وتھنئة الصدیق المحبوب :٣٩ .
٣۔ علمائے اہل سنت کا مجسمہ کو کافر قراردینا :
اما م قرطبی متوفیٰ ٦٧١ ہجری مجسمہ ( جو خدا کوجسم قرا ردیتے ہیں ) کے بارے میں ایک عالم کا قول نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :''والصحیح القول بتکفیرھم ؛ اذلا فرق بینھم وبین عباد الاصنام الصور ''.(١)
صحیح قول یہ ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں اس لئے کہ ان کے اور بت پرستوں و چہرہ پرستوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
عالم برجستہ اہل سنت نووی متوفیٰ ٦٧٦ ہجری لکھتے ہیں :
''فممن یکفر ، من یجسم تجسیما صریحا ومن ینکر العلم بالجزئیات''(٢)
جن لوگوں کا کفر ثابت ہے ان میںسے جسمانیت خد اکے قائل اور جزئیات کے بارے میں خدا کے علم کا انکارکرنے والے ہیں ۔
عبد القاہر بغدادی متوفی ٤٢٩ ہجری مشہور متکلم اہل سنت لکھتے ہیں :
''واما جسمیة خراسان من الکرامیة فتکفیرھم واجب؛لقولھم: بان اللہ تعالیٰ لہ حد نھایة من جھة السفل ومنھا یماس عرشہ ولقولھم: بان اللہ تعالیٰ محل للحوادث ''.(٣)
--------------
(١) تفسیر قرطبی ٤: ١٤ و تذکار: ٢٠٨.
(٢) المجموع ٤: ٢٥٣.
(٣) اصول الدین ، ٣٣٧ ؛التندید بمن عدد التوحید : ٥٢.
خراسان کے کرامیہ فرقہ کو جو جسمانیت خدا کا قائل ہے اسے کافر قرار دینا واجب ہے اس لئے کہ وہ خد اوند متعال کے لئے حد قرار دیتے ہیں اور پستی کی نسبت اس کے انتہاکے قائل ہیں چونکہ کہتے ہیں وہ عرش سے ملا ہوا اور محل حوادث ہے ...۔
''وقالوا بنفی النھایة والحد عن صانع العالم ''.(١)اور علمائے اہل سنت خد اکے بارے میں ہر طرح کی حدو حدود کی نفی کرتے ہیں :
واجمعوا علی ان لا یحویہ مکان ولا یجری علیہ زمان ، خلاف قبول من زعم من الشھامیة والکرامیة انہ مما س لعرشہ، وقد قال امیر المومنین رضی اللہ عنہ : ان اللہ تعالیٰ خلق العرش اظہارا لقدرتہ لا مکانا لذاتہ ''.(٢)
اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ خداوند متعال نہ تو مکان میں سماتا ہے اور نہ ہی زمان کا اس پر گذر ہے شہامیہ اور کرامیہ کے باطل نظریہ کے بر عکس کہ وہ کہتے ہیں : خدا کی ذات عرش سے ملی ہوئی ہے جب کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خدا نے عرش کو اپنی قدرت کے اظہار کے لئے خلق کیا نہ کہ اپنے لئے مکان کے طور پر ۔
نجیم متوفیٰ ٥٧٠ ہجری مصر میں اہل سنت کے معروف فقیہ کہتے ہیں :
--------------
(١)الفرق بین الفرق ، تحقیق لجنة احیاء التراث العربی : ٤٠.
(٢) الفرق بین الفر ق : ٤١.
''والمشبھة ان قال: ان للّہ یدااو رجلا کما للعباد فھو کافر،وان قال:انہ جسم ،لاکاالاجسام فھو مبتدع''.(١)
مشبہ ( جو خدا کو بندوں سے تشبیہ دیتے ہیں ) اگر کہیں کہ خدا بھی بندوں کے مانند ہاتھ پاؤں رکھتا ہے تو وہ کافر ہیں اور اگر کہیں کہ خد اجسم رکھتا ہے لیکن باقی اجسام کے مانند نہیں تووہ بدعت گذارہیں ۔
اسی طرح عالم اہل سنت غزالی متوفیٰ ٥٠٥ ہجری لکھتے ہیں :
''فان خطر ببالہ ان اللہ جسم مرکب من اعضاء فھو عابد صنم ؛ فان کل جسم فھو مخلوق ، وعبادة المخلوق کفر، وعبادة الصنم کفر؛ لانہ مخلوق وکان مخلوقا ؛ لانہ جسم، فمن عبد جسما فھو کافر باجماع الائمةالسلف منھم والخلف ''.(٢)
اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ خدا وند متعال جسم رکھتا ہے جو متعدد اعضاء پر مشتمل ہے تو وہ بت پرست ہے اس لئے کہ ہر جسم مخلوق ہے اور آئمہ سلف و خلف کا اس پر اجماع ہے کہ مخلوق کی پرستش کفرو بت پرستی ہے ۔
٤۔ یہودیوں کے ذریعہ تجسیم کا داخل ہونا :
شہر ستانی کہتے ہیں : ''وضع کثیر من الیھود الذین اعتنقوا الاسلام
--------------
(١)البحر الرائق ١: ٦١١.
(٢)الجام العوام عن علم الکلام :٢٠٩و دراسات فی منھاج السنة : ١٤٥ ۔ الرسالة التدمریہّ : ٩٢.
احادیث متعددة فی مسائل التجسیم والتشبیہ وکلھا مستمدة من التوراة''.(١)
اسلام میں داخل ہونے والے یہودیوں نے تجسیم و تشبیہ کے بارے میں بہت سی احادیث جعل کیں جو سب تورات سے لی گئی ہیں ۔
٥۔ کتب اہل سنت میں اسرائیلیات کا داخل ہونا :
ماضی کے حالات اور تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کی حدیثی ، تاریخی اور تفسیری کتب میں اسرائیلیات کے وارد ہونے سے تاریخی واقعات کاحقیقی چہرہ مسخ ہو گیا اس حقیقت کو تشخیص دینا انتہائی مشکل و دشوار کام ہے اس لئے کہ یہ چیز محققین کے لئے ایک تاریخی واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے مشکل سے دچاری بلکہ بسا اوقات تو ناکامی کا باعث بنتی ہے ۔
ابن خلدون لکھتا ہے :
صدر اسلام کے عرب علم و کتابت سے بے بہرہ تھے لہٰذا کائنات کی خلقت اور اس کے اسرار کے بارے میں یہودی علماء اور اہل تورات یا نصاریٰ مانند کعب الاحبار ، وہب بن منبہ اور عبد اللہ بن سلام سے پوچھا کرتے :
یہاں تک کہ لکھتا ہے :
''فامتلات التفاسیر من المنقولات عندھم وتساہل
--------------
(١) ملل ونحل ١: ١١٧.
المفسرون فی مثل ذلک وملاوا کتب التفسیر بھذہ المنقولات، واصلھاکلھا کما قلنا من التوراة او مما کانوا یفترون''.(١)
تفاسیر اہل سنت یہود و نصاریٰ کے اقوال سے بھر گئیں ، مفسرین نے بھی اس مسئلہ میں سستی سے کام لیا اور ان جیسی روایات سے تفاسیر کو بھر کر دیا جب کہ ان تمام روایات کا سرچشمہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا تورات اور یہودیوں کے خود ساختہ جھوٹ ہیں ۔
افسوس کہ اہل سنت کی دو معتبر کتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم بھی اس مصیبت سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔ ان کے اندر بھی ایسی روایات کثرت سے دکھائی دیتی ہیں جن میں سے ایک خود ساختہ حدیث مندرجہ ذیل ہے جو یہودیوں کے افکار سے مسلمانوں کے درمیان رواج پاگئی :
ابو ہریرہ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے فرمایا :
''ینزل اللہ الی السماء الدنیا کل لیلة حین یمضی ثلث اللیل الاول فیقول انا الملک انا الملک من ذاالذی یدعونی فاستجیب لہ من ذاالذی یسالنی فاعطیہ من ذا الذی یستغفرنی فاغفرلہ فلایزال کذلک حتی یضی ء الفجر ''.(٢)
--------------
(١)تاریخ ابن خلدون ( مقدمہ ) ١: ٤٣٩.
(٢)صحیح مسلم ٢: ١٧٥ ١٦٥٧ و صحیح بخاری ٢: ١١٤٥٤٧ و ٧: ١٤٩ ٦٣٢١.
بعض روایات میں ہے :''فا ذا طلع الفجر صعد الی عرشہ''.(١) جب طلوع فجر ہوتی ہے تو عرش کی طرف واپس پلٹ جاتا ہے ۔
شاید ایک زمانہ میں سادہ لوح لوگوں کو ان جیسی بے بنیادباتوں سے بہلانا آسان تھا لیکن آج جب کہ علم اتنی ترقی کر چکا ہے اور انسان کی عقل کمال کی بلندیوں کو چھو رہی ہے تو ایسی باتیں تمسخر کا باعث بنتی ہیں اس لئے کہ کرہ ٔ زمین کا کوئی ایسا حصہ نہیں کہ جہاں ہر وقت دن یا رات نہ ہو یعنی کہیں دن ہے تو کہیں رات۔ جب تک زمین باقی ہے تب تک دن اور رات گردش میں ہیں لہٰذا اگر خدا زمین پرآئے گا تو پھر کبھی عرش پر پلٹ کے نہ جا سکے گا اسی لئے تو بعض علمائے اہل سنت اس روایت کی توجیہ کرنے میں حیرت و سرگردانی کا شکار ہو گئے ہیں ۔(٢)
--------------
(١) فتح الباری ١٣:٣٩٠ و عمدة القاری ٢٥ :١٥٩.
(٢) تفسیر قرطبی ٤: ٣٩؛ فتح الباری ١٣: ٣٩٠.
ابن تیمیہ کے دیگر اقوال پر ایک نظر
قرآن و احادیث اور علمائے اہل سنت کے بیان کردہ اقوال کی روشنی میں ابن تیمیہ کی عبارت پر ایک بار پھر نگا ہ ڈالتے ہیں :
''لیس فی کتاب اللہ ولا سنة رسولہ ولا قول احد من سلف الامة وائمتھا انہ لیس بجسم ''(1)
--------------
(1) التاسیس فی رد اساس التقدیس ١: ١٠١.
کتاب خدا، سنت رسول اللہ ۖ ، صحابہ اور دینی پیشواؤں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ خد اجسم نہیں رکھتا ...
کیا (لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئ)(١) اور ( وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا َحَد)(٢) قرآن کی آیات نہیں ہیں ؟
یا ابی بن کعب کی نقل کی ہوئی حدیث جس کے صحیح ہونے کی گواہی حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے دی ہے کیا وہ سنت رسول ۖ سے خارج ہے ؟!یا یہ کہ احمدبن حنبل ، بیہقی، قرطبی ، عبد القاہر بغدادی اور شہرستانی و...اہل سنت کے علماء نہیں ہیں ؟!
کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ابن تیمیہ کے تجسیم کے بارے میں باطل عقیدہ کی بناء پر اس کے ہم عصر علماء نے اسے زندان میں ڈالنے کا فتویٰ دیا ؟
جیسا کہ ابو الفداء اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :
''استدعی تقی الدین احمد بن تیمیہ من دمشق الی مصر و عقد لہ مجلس وامسک واودع الاعتقال بسبب عقیدتہ ؛ فانہ کان یقول بالتجسیم...''(٣)
ابن تیمیہ کو دمشق سے مصر طلب کیا گیا محاکمے کے بعد اس کے عقیدہ کی وجہ
--------------
(١)سورۂ شوریٰ : ١١.
(٢) سورۂ اخلاص : ٤.
(٣) تاریخ ابو الفداء ٢: ٣٩٢ حوادث ٧٠٥وکشف الارتیاب : ١٢٢.
سے اسے گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا گیا اس لئے کہ وہ خدا کے بارے میں جسم ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا ۔
ابن حجر عسقلانی کے مطابق مالکی قاضی نے اعلان کیا : ''فقد ثبت کفرہ''.(١) کہ ابن تیمیہ کا کافر ہونا ثابت ہو چکا ہے ۔
اسی طرح اہل سنت کے دو عظیم عالم دین ابن حجر عسقلانی اور شوکانی لکھتے ہیں :
شافعی قاضی نے دمشق میں یہ اعلان کرنے کا حکم دیا :
''من اعتقد عقیدة ابن تیمیہ حل دمہ ومالہ ''.(٢)
جو بھی ابن تیمیہ کا عقیدہ اپنائے اس کا جان و مال مباح ہے ۔
--------------
(١)الدرر الکامنہ ١:١٤٥.
(٢)الدرر الکامنہ:١٤٧ و البدر الطالع ١: ٦٧.
|