وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
فصل سوم
وہابیوں کا عملی کارنامہ
طول تاریخ میںوھابیوں کے مظالم
١۔نجد میں وھابیوں کا قتل وغارت کرنا:
محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں پرکفر ، شرک اوربدعت کی تہمت لگاکر عرب بادیہ نشینوں کو ان کے خلاف جہاد پراکسایا اورمحمد بن سعود کی مدد سے لشکرآمادہ کیاجس نے مسلمانوں کے شہروں اوردیہاتوں پرحملے کرکے لوگوں کا قتل عام کیا اوران کے اموال کوجنگی غنیمت کے نام پرغارت کیا ۔(١)
اس فصل میںنجدکے علاقہ میںاورریاض کے اطراف میں وھابیوں کے ظالمانہ قتل عام کے چندنمونوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔
--------------
(١)تاریخ نجد :٩٥فصل سوم غزوات ، تاریخ آل سعود١:٣١؛تاریخچہ نقد وبررسی وھابی ھا :١٣۔٧٦
الف۔مسلمانوں کا قتل عام، درختوںکاکاٹنااوردکانوں کی لوٹ مار:
مورخ آل سعود ابن بشرعثمان بن عبداللہ نے نجدکے علاقہ میں آغاز دعوت وھابیت اورشرک کے اتہام میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے بارے میںلکھا ہے۔
عبدالعزیز ایک گروہ کے ہمراہ اہل ثادق سے جہاد کے قصد سے نکلا، وہاں کا محاصرہ کیا کچھ نخلستانوں کو قطع کیا اوران کے کچھ افراد کو قتل کردیا ،(١)
اس کے بعد عبدالعزیز جہاد کی نیت سے(خرج)کی طرف چلااورمنطقہ دلم میں آٹھ٨مردوں کوقتل کیا، مال سے بھری دکانوں کولوٹا اورپھر سرزمین لعجان ، ثرمدا، دلم اورخرج کی طرف بڑھا ، کچھ لوگوں کو قتل کیا اوربہت زیادہ تعداد میں اونٹ غنیمت کے طور پر لے گئے۔(٢)
--------------
(١)سار عبد العزیز رحمة اللہ غازیا بجمیع المسلمین وقصد بلد ثادق ونازلھم وحاصر ھم ووقع بینھم قتال وقطع شیئا من نخیلھم فاقام علی ذلک ایاما، وقتل من اھل البلد ثمانیةرجال ،وقتل من المسلمین ثمانیة رجال عنوان المجد :٣٤
(٢)غذا عبدالعزیز الی الخرج فاوقع باھل الدلم وقتل من اھلھا ثمانیة رجال ونھبوا بھادکاکین فیھااموال ، ثم اغاروا علی اھل بلد نفجان وقتلواعودة بن علی ورجع الی وطنہ، ثم بعد ایام سارعبدالعزیز بجیوشہ الی بلد (ثرمدا )وقتل من اھلھا اربعة رجال واصیب من الغزومبارک بن مزروع ، ثم ان عبدالعزیز کرراجعا وقصد (الدولم) و (الخرج)فقاتل اھلھا وقتل من فزعھم سبعة رجال وغنم علیھم ابلاکثیرا ۔عنوان المجد :٤٣
ب۔کھیتوں کوآگ لگانا:
ابن بشر آگے چل کرلکھتا ہے :
عبدالعزیز جہاد کے قصد سے (منفوحہ )میںداخل ہوا ، ان کے کھیتوں کو آگ لگادی اوربہت زیادہ مقدار میں جواہرات ، گوسفند اور اونٹ غنیمت بنائے اوردس افراد کو بھی قتل کردیا۔(١)
ج۔حاملہ عورتوں کے بچوں کا ساقط ہونا:لشکر عبدالعزیز رات کے وقت منطقہ (حرمہ )میںداخل ہوا اورعبداللہ بن عبدالعزیز کے فرمان پرطلوع فجر کے بعد توپچیوں نے ایک ساتھ ملکر شہرکی طر ف گولہ باری شروع کی ،گولہ باری کی خوفناک آواز سے شہرپرلرزہ طاری ہوگیا یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط اورلوگ وحشت زدہ ہوگئے ،شہر کا محاصرہ کرلیاگیالوگ نہ تو مقابلے کی توان رکھ سکتے تھے اورنہ ہی فرارکاکوئی امکان تھا ۔(٢)

د۔اہل ریاض کا بھوک اورپیاس سے مرجانا:
ابن بشرریاض پروہابیوں کے حملے کے بار ے میں لکھتا ہے :
--------------
(١)غذاعبدالعزیز منفوحة واشعل فی زروعھاالنار؟!واخذکثیرا من حللھم وغنم منھم ابلاکثیراوقتل من الاعراب عشرة رجال ۔ عنوان المجد:٤٣.
(٢)اتوابلاد حرمة فی اللیل وھم ھاجعون ...فلماانفجر الصبح امرعبداللہ علی صاحب بندق یثورھا فثورواالبنادق دفعة واحدة فارتجت البلد باھلھا وسقط بعض الحوامل ، ففزعواواذاالبلاد قدضبطت علیھم ولیس لھم قدرة ولامخرج ۔ عنوان المجد:٦٧.
ففراھل الریاض فی ساقتہ الرجال والنساء والاطفال لایلوی احد علی احد ، ھربوا علی وجوھھم الی البریة فی السھباء قاصدین الخروج وذلک فی فصل الصیف ، فھلک منھم خلق کثیرجوعا وعطشا.
اہل ریاض نے جیسے ہی لشکر وھابیت کے حملے کی خبر سنی تو مرد، عورتیں اوربچے سب صحرا کی طرف بھاگ نکلے لیکن چونکہ گرمی کاموسم تھا لہٰذا بہت زیادہ لوگ بھوک اورپیاس کی وجہ سے ہی جان دے بیٹھے ۔(١)

ھ۔بھاگ نکلنے والوں کوقتل کرنا :
ابن بشرمزید لکھتاہے :
فلمادخل عبدالعزیزالریاض وجدھا خالیة من اھلھا الاقلیلافساروافی اثرھم یقتلون ویغنمون ، ثم ان عبدالعزیز جعل فی البیوت ضبّاطاً یحفظون ما فیھا و حاز جمیع ما فی البلد من الاموال والسلاح والطعام والامتاع وغیرذلک وملک بیوتھا ونخیلھا الاقلیلا.(٢)
جب عبدالعزیز ریاض میںداخل ہواتو دیکھا کہ بہت کم لوگ شہرمیںباقی بچے ہیں تو اس وقت اس نے بھاگ جانے والوں کاپیچھا کرکے کچھ لوگوں کو قتل
--------------
(١)عنوان المجد:٦٠ (٢)حوالہ
کردیا اوران کے پاس جو مال تھا اسے غنیمت بنالیا ۔
اورسپاہیوں کو حکم دیا کہ خالی گھروں کاخیال رکھیں اورتمام اموال اسلحہ ، کھانے پینے کی اشیاء اورگھر یلو استعمال کی چیز وں کو غنیمت کے طور پرجمع کیا اوراکثر گھروں اورکھجورکے باغات پرقبضہ جمالیا۔ (١)
و۔ موذن کو پیغمبر ۖ پردرودبھیجنے کے جرم میں قتل کردینا:
زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں :
ویمنعون من الصلاة علیہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المنابر ، بعد الاذان ، حتی ان رجلاصالحا کان اعمی ، وکان موذنا وصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الاذان ، بعد ان کان المنع منھم ، فاتو ابہ الی ابن عبدالوھاب فامربہ ان یقتل فقتل ، ولو تتبعت لک ماکانوایفعلونہ من امثال ذلک،لملات الدفاتر والاوراق ، وفی ھذا القدرکفایة واللہ سبحانہ وتعالی اعلم ،
وہابی منبروں پراور اذان کے بعد پیغمبر ۖ پردرود بھیجنے سے منع کیاکرتے ایک دن نابینا موذن نے اذان کے بعد رسول خدا ۖ پرصلوات پڑھی تو اسے محمد بن عبدالوھاب کے پاس پیش کیاگیا ، اس نے اس نابینا شخص کو پیغمبر ۖ پرصلوات بھیجنے کے جرم میں قتل کا حکم سنادیا۔
--------------
(١)عنوان المجد :٦٠
زینی دحلان مزید لکھتے ہیں :
اگر وہابیوں کے ایسے قبیح اعمال کو لکھنا چاہیں تو کتابیں بھرجائیںگی ۔(١)
جب کہ پیغمبر ۖ کی ذات گرامی پردرود بھیجنے پرنص قرآن اوردستورالہی موجود ہے خدا وندمتعال فرماتاہے :
(ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یاایھاالذین آمنواصلواعلیہ وسلموا تسلیما)(٢)
ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول ۖپر صلوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبان ایمان تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو ۔
اس آیت شریفہ میں آنحضرت پردرود بھیجنے کے لئے کسی قسم کے زمان یامکان کی کوئی قید نہیں لگائی گئی یعنی کسی بھی وقت اورکہیں بھی پیغمبر پردرود بھیجا جاسکتاہے ۔

٢۔کربلاکے شیعوں کا مظلومانہ قتل :
١٣١٦ھ میں کربلائے معلی میں وہابیوں کے قتل عام نے تاریخ کے اوراق کوسیاہ کردیا جس سے ہرمطالعہ کرنے والے کا دل کانپ اٹھتا ہے ۔
ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں :
دخل اثنی عشرالف جندی ولم یکن فی البلد ة الاعدة قلیل من الرجال المستضعفین لان رجال کربلاء کانوا قد خرجوا یوم
--------------
(١)فتنة الوھابیة :٢٠
(٢) سورہ احزاب :٥٦
ذلک الی النجف الاشرف لزیارت قبرالامام امیرالمومنین یوم الغدیر ،فقتل الوھابیون کل من وجدوھم ، فقدرعددالضحایافی یوم واحدبثلاثة آلاف ، واماالسلب فکان فوق الوصف ویقال ان مائتی بعیرحملت فوق طاقتھا بالمنھوبات الثمینة۔ (١)
بارہ ہزار وھابی فوجی سعودبن عبدالعزیز کی سپہ سالاری میں کربلامیںوارد ہوئے جب کہ کربلاکے اکثر لوگ اس دن عید غدیر کی مناسبت سے امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے نجف اشرف گئے ہوئے تھے اوربہت ہی کم بوڑھے اورناتوان لوگ باقی رہ گئے تھے انہوں نے جس کسی کو وہاں پایا قتل کیا یہاں تک کہ اس دن مارے جانے والوں کی تعدادتین ہزار پانچ ہزار پہنچ گئی اور دوسو اونٹ ایسے قیمتی مال سے لادکر لے گئے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔
محمد قاری غروی تاریخ نجف میں مجموعہ شیخ خضر سے نقل کرتے ہیں :
وہابیوں نے حبیب ابن مظاہر کی قبر کے لکڑی سے بنے ہوئے صندوق کو توڑا اورروضہ کے قبلہ کی جانب والے صحن میں اسی سے قہوہ بنایا ، انہوں نے حسین کی قبرشریف کے صندوق کو بھی توڑنا چاہالیکن چونکہ اس کے اردگرد لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں لہٰذا اسے توڑنے میںکامیاب نہ ہوسکے ۔(٢)
--------------
(١)تاریخ العربیہ السعودیہ :١٢٦.
(٢)نزھة الغری فی تاریخ النجف الغری السری:٥٢.
نجد کاوھابی مورخ شیخ عثمان بن بشرلکھتاہے :
(سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبرکے )گنبد کوویران کیااورقبرکا صندوق جس میں یاقوت ،زمرد اورجواہرات جڑے ہوئے تھے اٹھاکرلے گئے اورشہر میںجتنا مال ، اسلحہ ، لباس ، فرش ، سونا ، چاندی اورقرآن کے عمدہ نسخے ملے لوٹ لئے اورظہر سے پہلے شہر کوترک کرگئے ۔(١)
صلاح الدین وھابی لکھتاہے :
١٢١٦ھج میں امیرسعود نجد ، جنوبی قبائل ، حجاز اوردوسرے علاقوں کے افراد پرمشتمل ایک بہت بڑا لشکر لیکر عراق کے قصد سے چلا ،ذیعقدہ کے مہینہ میںکربلا پہنچا اس نے شہر کے تمام برج خراب کردیئے ، گلیوں اوربازاروں میں جتنے لوگ موجود تھے سب کو قتل کردیا اورظہر سے پہلے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کرکے شہر سے خارج ہوگیا۔
مال غنیمت کا پانچواں حصہ خود امیرسعودنے لیا اورباقی مال میں سے ہرپیادہ کو ایک حصہ اورسوارکودوحصے تقسیم کئے ۔(٢)
شیخ عثمان نجدی لکھتاہے :
وہابی ایسی حالت میں کربلامیں وارد ہوئے کہ وہاں کے لوگ غافل تھے بہت
--------------
(١)عنوان المجد فی تاریخ نجد ١:١٢١
(٢)تاریخ مملکة السعودیة ٣:٧٣
سے لوگوں کو گلی کوچوں ، بازاروں اورگھروں میں قتل کیا، قبرحسین علیہ السلام کوویران کردیا اورقبہ میںجوکچھ تھا اسے غارت کیا اورشہر کے اندر جتنا مال ، اسلحہ ، لباس ، فرش ، سونا، چاندی اورقرآن کے نفیس نسخے ملے اٹھاکر لے گئے ، ظہر کے نزدیک جب اہل کربلا میں سے دوہزار کے قریب لوگ مارے جاچکے تھے شہر کوترک کرگئے ۔(١)
بعض نے لکھا ہے کہ وہابیوں نے ایک ہی رات میں بیس ٢٠ہزار افراد کو قتل کیا۔(٢)
مرزاابوطالب اصفہانی اپنے سفرنامہ میںلکھتے ہیں :
لندن سے واپسی پر کربلاونجف سے گزرتے وقت میں نے دیکھا کہ پچیس ٢٥ ہزا ر و ہابی کربلامیں وارد ہوئے اور(اقتلوا المشرکین واذ بحوا الکافرین )مشرکوں کوقتل کر ڈالو اور کافر و ں کوذبح کردو۔
کی فریاد بلند کررہے تھے ، انہوں نے پانچ ہزارلوگوں کوقتل کیا اورزخمی ہونے والوں کی کوئی تعداد نہ تھی ، حرم امام حسین علیہ السلام کا صحن مبارک لاشوں سے بھرگیااورسربریدہ لاشوں سے خون جاری تھا ۔
گیارہ ماہ بعد دوبارہ کربلاگیاتودیکھا کہ لوگ اس دل خراش حادثہ کونقل کرکے گریہ کررہے ہیں جس کے سننے سے بدن کانپ اٹھتاتھا ۔(٣)
--------------
(١)عنوان المجد فی تاریخ نجد ١:١٢١، حوادث سال ، ١٢١٦ ھ
(٢)تاریخچہ نقد وبررسی وھابی ھا:١٦٢
(٣)مسیرطالبی:٤٠٨