ابن تیمیہ کی گوشہ نشینی کے عوامل اوراس کے افکار کے دوبارہ رشد کے اسباب
منطقہ شامات جو ابن تیمیہ کے علم کا گہوارہ تھا وہاں پر مختلف مذاہب کے علماء ودانشوروں کی ابن تیمیہ کے باطل افکار کی مخالفت اوراعتراضات اس کے گوشہ نشین ہونے کا باعث بنے اوراسی کے باعث اس کے عقائدو نظریات خاموشی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔
لیکن بارہویں صدی ہجری میں منطقہ نجد میں محمد بن عبدالوھاب کے توسط سے مختلف اسباب کے تحت اس کے عقائد نے دوبارہ رشد پائی :
١۔منطقہ نجد تمدن وثقافت سے بے بہرہ اورایسی علمی شخصیات سے خالی تھا جو محمد بن عبدالوھاب کے منحرف عقائد کا مقابلہ کرسکتیں ۔
٢۔منطقہ نجد میں حکومت کے مسئلہ پر قبیلوں میں شدید اختلاف پایاجاتا تھا ، محمد بن عبدالوھاب نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد بن سعود شاہ فھد کے جد اعلی سے فوجی اورثقافتی عہدوپیمان باندھا کہ محمد بن سعود اس کے افکار کی حمایت کرے گا اوروہ اپنے فتووں کے ذریعے اس کی حکومت کے وسیع ہونے کے لئے راہ ہموار کرے گا ۔
٣۔استعمار ی طاقت اورخصوصا برطانوی فوجی مشیروں کی حمایت نے وھابی ثقافت کے پھیلانے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا ۔
محمد بن عبدالوھاب کی زندگی پر ایک مختصر نظر
١۔ابن تیمیہ کے افکا رکاباقاعدہ پر چار :
محمد بن عبدالوھاب ١١٥٥ھمیںنجد کے ایک شہر عیینہ میں پیدا ہوا وہیں پہ فقہ حنبلی کی تعلیم حاصل کی اور پھر مزید علوم کی تحصیل کے لئے مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔
وہ طالب علمی کے دور میں ہی ایسے ایسے مطالب زبان پر لاتا جو اس کے فکری انحراف کی نشاندہی کرتے تھے یہاں تک کہ اس کے بعض اساتذہ اس کے مستقبل کے بارے میںپر یشانی کا اظہار کرتے ۔
کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ وھابیت کا بانی ومئوسس نہیں ہے بلکہ ایسے عقائد صدیوں پہلے حنبلی علماء مانند ابن تیمیہ اوراس کے شاگردوں کی جانب سے بیان ہوچکے تھے لیکن علماء اہل سنت اورشیعہ کی مخالفت کی وجہ سے خاموشی کا شکار ہوگئے ، اہم ترین کام جو محمد بن عبد الوھاب نے کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ابن تیمیہ کے عقائد کو ایک جدید فرقہ یا مذہب کی صورت میں پیش کیا جو اہل سنت کے چاروں مذاہب اور مذہب شیعہ سے بالکل الگ تھا ۔
٢۔محمد بن عبدالوھاب کا نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے لگائو :
وہ شروع میں نبو ت کے جھوٹے دعویداروںمانند مسیلمہ کذاب ، سجاج ، اسود عنسی اورطلیحہ اسدی کے زندگی ناموں کامطالعہ کرنے سے بہت لگائو رکھتا تھا ۔(١)
٣۔آغاز ترویج وہابیت اور لوگوں کی مخالفت :
محمد بن عبدالوھاب اپنی تبلیغ کے آغاز میں بصرہ گیا اوروہاں پہ اپنے عقائد کا اظہار کیا تو بصرہ کے سرداروںنے سخت مخالفت کی ۔
ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتا ہے :
(وتجمع علیہ اناس فی البصرة من رئوساء ھا وغیرھم بآذوہ اشدالاذی واخرجو ہ منھا)بصرہ کے سرداروں اورعوام نے اس کے خلاف وقیام کیا اوراسے شہر سے نکال ڈالا۔(٢)
وہاں سے بغداد ، کردستان ، ہمدان اوراصفہان روانہ ہوا ۔(٣)
اوربالآخر اپنی پیدایش گاہ کی طرف واپس پلٹ گیا ،
وہ اپنے باپ کی زندگی میں اپنے عقائد کے اظہار کی جرئت نہیںرکھتا تھا
--------------
(١)کشف الارتیاب :١٢، نقل از خلاصة الکلام .
(٢)تاریخ العربیة السعودیة :٨٨.
(٣)وہ چار سال بصرہ ، پانچ سال بغداد ، ایک سال کردستان ، دوسال ہمدان میں رہا اورکچھ عرصہ اصفہان اورقم میں گذارا اس کے بعد اپنے والد کی رہائش گاہ حریملہ جاپہنچا ، (وھابیت مبانی فکری وکارنامہ عملی :٣٦)
لیکن ١١٥٣ھ میں باپ کی وفات کے بعد اس نے اپنے عقائد کے اظہار کے لئے راہ ہموار دیکھی اورلوگوں کو جدید آئین کی دعوت دی۔ (١)
لیکن لوگوں کے اعتراضات بلکہ اس کے قتل کا پروگرام باعث بنا کہ وہ مجبوراً اس جگہ کو ترک کرے اوراپنی پیدائش گاہ عیینہ جائے ، وہاں کے امیر عثمان بن معمر سے پیمان باندھا کہ دونوں ایک دوسرے کا زور بازوبنیں گے لہٰذا اس کی حمایت سے اپنے عقائد کی برملا تبلیغ کرنے لگا لیکن زیادہ عرصہ نہ گزراکہ حاکم عیینہ نے احساء کے فرمانرواکے دستور پر اسے شہر سے نکال دیا ۔
محمد بن عبدالوھاب نے مجبور ہوکر درعیہ میں رہائش رکھی اورمحمد بن سعود حاکم درعیہ کے ساتھ جدید پیمان باندھا کہ حکومت محمد بن سعود کی ملکیت ہوگی اورتبلیغ کی ذمہ داری محمد بن عبدالوھاب کے ہاتھ ہوگی۔
٤۔زیارت گاہ صحابہ اورخلیفہ دوم کے بھائی کی قبر کا خراب کرنا :
سب سے پہلا کام جو محمد بن عبدالوھاب نے انجام دیا وہ عیینہ کے اطراف میں صحابہ واولیاء کرام کی قبروں کو ویران کرنا تھا جن میں سے ایک قبر خلیفہ دوم کے بھائی زید بن خطاب کی تھی ۔(٢)
--------------
(١)زعماء الاصلاح فی عصرالحدیث :١٠تاریخ العربیة السعودیة :٩، تاریخ نجد آلوسی : ١ ١ ١
(٢)عنوان المجد فی تاریخ نجد :٩، براھین الجلیة فی رفع تشکیکات الوھابیة :٤،ھذہ ھی الوھابیة :١٢٥،السلفیة بین اھل السنة والامامیة :٣٠٧
علماء ورئو سا کی شدید مخالفت کی نباء پر حاکم عیینہ نے ناچار ہو کر اسے شہر سے نکال دیا جیسا کہ پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ بارہویں صدی ہجری میں مسلمان انتہا ئی نامناسب اورسخت حالات سے گزررہے تھے اسلامی ممالک چاروں طرف سے استعمار ی طاقتوں کے حملوں کا شکار بنے ہوئے تھے اور مرکز اسلام کو برطانیہ ، فرانس ، روس اورامریکہ کی طرف سے خطرات لاحق تھے ۔
ایسے زمانہ میں کہ جب مسلمانوں کو مشترک دشمن کے مقابلہ میں بے حداور وحدت اتحاد کی ضرورت تھی لیکن افسوس کہ محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں کو انبیاء واولیائے الھی سے توسل کے جرم میں مشرک اور بت پرست قراردے کرا ن کے کفر کا فتوی دیا ، ان کا خون حلال ، قتل جائز اوران کے مال کو جنگی غنیمت شمار کیا ، اس کے پیروکاروں نے اس فتوی کی پیروی کرتے ہوئے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو خون میںلت پت کیاکہ جس کا تذکرہ بعد والی فصل میںکیاجائے گا ۔
|