وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
وہابی فرقہ کے بانی
افکار وہابیت کا بانی ابن تیمیہ:
احمد بن تیمیہ مفکر وہابیت سقوط بغداد کے پانچ سال بعد ٦٦١ھ میں شام کے ایک علاقہ حرّان میں پیدا ہوا. ابتدائی تعلیم وہیں پہ حاصل کی اور پھر شام پر مغلوں کے حملے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ دمشق میں جاکر رہائش پذیر ہوگیا۔(١)

١۔ ابن تیمیہ کا سب سے پہلا انحراف:
٦٩٨ھ میں آہستہ آہستہ ابن تیمیہ کے منحرف عقائد ظاہر ہونے لگے. خاص طور پر حماة (دمشق سے ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک شہر کا نام ہے) میں اس آیت شریفہ: (الرحمن علی العرش استویٰ)(٢)
ترجمہ:وہ رحمان عرش پر اختیار اور قدرت رکھنے والا ہے ۔
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال آسمانوں کی بلندی میں تخت پر بیٹھا ہے یوں خدا کے لئے سمت کو معین کیا۔(٣)
--------------
(١)الدررالکامنة١:١٤٤.
(٢)طہ:٢٠۔
(٣)اس نے عقدہ الحمویہ ص: ٤٢٩لکھا ہے :ان اللہ تعالی فوق کل شئی وعلی کل شئی وانہ فوق العرش وانہ فوق السمائ...،
یہ تفسیر ان قرآنی آیات کے مخالف ہے جن میں فرمایا:لیس کمثلہ شئی اورولم یکن لہ کفوااحد،
ان آیات میں خداوند متعال کو مخلوقات کی صفات کے ساتھ تشبیہ سے منزہ قرار دیا گیا ہے۔

٢۔ ابن تیمیہ کے افکار کا عکس العمل:
ابن تیمیہ کے باطل افکار نے دمشق اور اس کے اطراف میں غوغا مچا دیا. کچھ فقہا ء نے اس کے خلاف قیام کیا اور قاضی وقت جلال الدین حنفی سے ابن تیمیہ کا محاکمہ کرنے کا تقاضا کیا لیکن اس نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کردیا۔
ابن تیمیہ ہمیشہ اپنے منحرف عقائد کے ذریعہ سے عمومی افکار کو آلودہ کرتا رہتا یہاں تک کہ ٨ رجب ٧٠٥ ھ کو شہر کے تمام قاضی ابن تیمیہ کو لے کر نائب السلطنة کے قصر میں حاضر ہوئے اور اس کی کتاب ''الواسطیة'' پڑھی گئی، کمال الدین بن زملکانی(١)کے ساتھ دوبار مناظرہ کرنے کے بعد جب ابن تیمیہ کے عقائد وافکار کے منحرف ہونے کا یقین ہوگیا تو اسے مصرجلاوطن کردیا گیا ۔
--------------
(١) ابن زملکانی محمد بن علی کمال الدین متوفی ٧٢٧ھ اپنے دور کا شافعی فقیہ اور مذہب شافعی کا لیڈر تھا(الاعلام٦:٢٨٤) یا فعی کہتا ہے: وہ امام، علامہ اور منطقہ شامات کا تنہا مفتی تھا اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد، قاضی القضاة، روایات کے متن، مذہب اور اس کے اصول کے بارے میںآشنائی میں نابغہ تھا.(مرآة الجنان٤؛١٧٨)
ابن کثیر کہتے ہیں: اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد تھا تدریس، فتویٰ اور مناظرہ کا عہدہ اسی کے سپرد کیا گیا وہ اپنے ہم شافعی علماء سے برتری پا گیا (البدایة و النہایة ١٤ :١٥٢ ) ۔
وہاں پہ بھی اپنے غلط عقائد کو پھیلانے کے سبب قاضی وقت ابن محلوف مالکی کے دستور پر زندان میں ڈال دیا گیا اور پھر ٢٣ ربیع الاول ٧٠٧ھ کو زندان سے آزاد ہوا۔

٣۔ ابن تیمیہ کا محاکمہ:
ابن کثیر لکھتے ہیں:
شوال ٧٠٧ھ میں ابن عربی کے خلاف جسارت کرنے کی بناء پر صوفیوں نے حکومت مصر سے ابن تیمیہ کے خلاف شکایت کی. شافعی قاضی کوفیصلے کا حکم دیا گیا مجلس محاکمہ تشکیل پائی لیکن ابن تیمیہ کے خلاف کوئی خاص بات ثابت نہ ہو سکی. اس نے اسی مجلس میں کہا:
استغاثہ فقط خدا ہی سے جائز ہے اور پیغمبرۖ سے مدد طلب نہیں کی جا سکتی ہاں ان سے توسل اور شفاعت طلب کی جا سکتی ہے۔
لیکن قاضی بدر الدین کو احساس ہوا کہ اس نے مسئلہ توسل میں پیغمبرۖ کے احترام کو مد نظر نہیں رکھا لہذا شافعی قاضی کو نامہ لکھا کہ اسے شریعت کے مطابق سزا دی جائے۔
شافعی قاضی نے کہا: میں نے ابن تیمیہ کے بارے میںبھی وہی بات کہی جو دوسرے منحرف لوگوں کے بارے میںکہتا ہوں. اس وقت حکومت مصر نے ابن تیمیہ کو دمشق، اسکندریہ یا زندان میں سے ایک کو انتحاب کرنے کا حکم دیا جس پر ابن تیمیہ نے زندان کو انتحاب کیا اور زندان روانہ کردیا گیا۔(١)
بالآخر ٧٠٨ھ میں زندان سے باہر آیا لیکن دوبارہ انہی عقائد کی تبلیغ کی وجہ سے ٧٠٩ھ ماہ صفر کے آخرمیں اسے اسکندریہ مصر جلاوطن کردیا گیا وہاں سے آٹھ ماہ کے بعد دوبارہ قاہرہ آگیا ابن کثیر لکھتے ہیں :
٢٢رجب ٧٢٠ھ ابن تیمیہ کو دارالسعادة میں حاضر کیا گیا اور مذاہب اسلامی (حنفی ، مالکی ، شافعی اورحنبلی )کے قاضیوں اور مفتیوں نے مذاہب اسلامی کے خلاف فتوی صادر کرنے کی بناء پر اس کی مذمت کی اوراسے زندان میں ڈالنے کا حکم دے دیا یہاں تک کہ دومحرم٧٢١ھکو زندان سے رہائی ملی ۔(٢)
--------------
(١)(ابن کثیر البرزاسی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :(وفی شوال منھا شکی الصوفیہ بالقاہرہ علی الشیخ تقی الدین وکلموہ فی ابن عربی وغیرہ الی الدولة فردواالامر فی ذلک الی القاضی الشافعی فعقد لہ مجلس وادعی علیہ ابن عطاء باشیا ء فلم یثبت علیہ منھا شئی لکنہ قال :(لایستغاث الا باللہ لا یستغاثة بمعنی العبادة ، ولکن یتوسل بہ ویتشفع بہ الی اللہ )فبعض الحاضرین قال لیس علیہ فی ھذا شئی ۔
ورای القاضی بدرالدین بن جماعة ان ھذا فیہ قلّة ادب فحضرت رسالة الی القاضی ان یعمل معہ ما تقتضیہ الشریعة ، فقال القاضی قد قلت لہ مایقال لمثلہ ، ثم ان الدولة خیروہ بین اشیاء اما ان یسیر الی دمشق اوالاسکندریة بشروط اوالحبس ، فاختار الحبس ، بدایة النھایہ ١٤:٥١،)
(٢)( وفی یوم الخمیس ثانی عشرین رجب عقد مجلس بدار السعادة الشیخ تقی الدین بن تیمیہ بحضرة نائب السلطنة وحضر فیہ القضاة والمفتیون من المذاھب وحضر الشیخ وعاتبوہ علی العود الی الافتاء بمسالة الطلاق ثم حبس فی القلعة فبقی فیھا خمسہ اشھر وثمانیة یوما ، ثم ورد مرسوم من السلطان باخراجہ یوم الاثنین یوم عاشوراء من سنة احدی وعشرین ) البدایہ والنھایہ ١٤:١١١، حوادث سال ٧٢٦ہجری۔
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :
ابن تیمیہ کو محاکمہ کے لئے مالکی قاضی کے سامنے پیش کیاگیا لیکن اس نے قاضی کے سامنے جواب دینے سے انکار کردیا اورکہا:یہ قاضی مجھ سے دشمنی رکھتا ہے قاضی نے جس قدر اصرار کیا اس نے جواب نہ دیا ، اس پر قاضی نے اسے ایک قلعہ میں بندکردینے کا حکم صادر کیا ۔
جب قاضی کو خبر ملی کہ کچھ لوگ ابن تیمیہ کے پاس آجارہے ہیں تو اس نے کہا: اس کفر کی وجہ سے جو اس سے ثابت ہوا ہے اگر اسے قتل نہ کیاجائے تو اس پر سختی ضرورکی جائے اورپھر اسے ایک الگ زندان میں منتقل کرنے کا حکم دیا ۔
جب قاضی اپنے شہر واپس پلٹا تو دمشق میں ایک عام اعلان کیاگیا :
(من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمہ ومالہ ، خصوصا الحنابلة) جو بھی ابن تیمیہ کا عقیدہ رکھے اس کا خون اورمال مباح ہے خاص طور پر حنبلی لوگوں کا ۔
دمشق کی جامع مسجد میں اہل سنت کے ایک بہت بڑے عالم نے یہ اعلان لوگوں کو سنا یا کہ جس کے بعد حنبلی اوروہ لوگ جو ابن تیمیہ کی پیروی میں متہم تھے جمع ہوئے اور شافعی مذہب کے پیروکا رہونے کا اعلان کیا ۔(١)
--------------
(١)(فادعی علی ابن تیمیہ عندالمالکی فقال :عدوّی ولم یجب عن الدعوی ، فکرر علیہ فاصر، فحکم المالکی بحسبہ فاقیم من المجلس وحبس فی برج، ثم بلغ المالکی ان الناس یتر دد ون الیہ ، فقال :یجب التضیق علیہ ان لم یقتل والا فقد ثبت کفرہ فنقلوہ لیلة عید الفطر الی الجب وعاد القاضی الشافعی الی ولایہ ونودی بدمشق من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمہ ومالہ ، خصوصا الحنابلة ، فنودی بذلک وقری ء المرسوم وقراھا ابن الشھاب محمود فی الجامع ثم جمعو ا الحنابلة من الصالحیة وغیرھا واشھد وا علی انھم علی معتقد الامام الشافعی )الدررالکامنہ ١:١٤٧۔