وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
فصل دوم
وہابیت کی تاریخی جڑیں
اسلام کی پہلی صدی میں وہابیت کی بنیاد:
اگر آج ہم یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہابیوں کے عقائد میں سے محکم ترین عقیدہ پیغمبر ۖ اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کا حرام قراردینا ہے تو ماضی پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کوئی جدید موضوع نہیں ہے بلکہ اسلام اور سیرت مسلمین کے مخالف یہ انحرافی تفکر پہلے ہی سے تاریخ میں موجود تھا کہ جس کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے:

١۔ معاویہ بن ابو سفیان متوفی ٦٠ھ :
مغیرہ بن شعبہ نے ایک ملاقات میں معاویہ سے کہا: بنو ہاشم اقتدار کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں اب ان کی طرف سے تیری حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ ان پر سختی نہ کر اور ان سے دوستی قائم کرے۔
معاویہ نے جواب میں کہا:
ابوبکر، عمر ، عثمان آئے اور گزر گئے ان کا نام تک باقی نہیں ہے جبکہ ہر روز پانچ مرتبہ''اشھدانّ محمدا لرسول اللہ'' کی آواز کانوں تک پہنچتی ہے
'' فای عمل یبقیٰ مع ہذا لا أم لک!؟ لا واللّٰہ دفناً دفناً''
ایسے میں بنو امیہ کے لئے کیا باقی بچا ہے خدا کی قسم ! جب تک نام پیغمبرۖ دفن نہ کردوں تب تک چین سے نہ بیٹھوں گا۔(١)
اسی طرح ایک دن معاویہ نے مؤذن کو پیغمبر ۖ کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے سنا تو اعتراضانہ انداز میں کہنے لگا:
اے فرزند عبد اللہ تو نے بہت ہمت کی . یہاں تک کہ اپنے نام کو نام خدا کے ساتھ ملانے سے کمتر پر راضی نہ ہوا۔(٢)
یہی وجہ تھی کہ اہل سنت کے بہت بڑے عالم محمد رشید رضا لکھتے ہیں:
ایک مغربی دانشور نے کہا تھا: '' کس قدر شایستہ تھا کہ ہم معاویہ کا مجسمہ سونے سے بنا کر اُسے اپنے ملک کے دارالخلافہ کے چوک میں نصب کرتے'' جب اس سے اس کا سبب پوچھا گیا تو جواب دیا:
--------------
(١) موفقیات زبیر بن بکار:٥٧٦؛ مروج الذہب٣: ٤٥٤ شرح حوادث سال ١٢١ھ؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید٥:١٣٠؛ النصائح الکافیة:١٢٤۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید١٠:١٠١۔
لانہ ھوالذی حوّل نظام الحکم الاسلامی عن قاعدتہ الدیمقراطیة الی عصبیة الغلب ، ولولاذلک لعم الاسلام العالم کلہ ، ولکنانحن الالمان، وسائر شعوب اروبةعربامسلمین،(١)
اس لئے کہ یہ معاویہ ہی تھا جس نے اسلامی حکومت کے جمہوری نظام کو شاہانہ نظام میں تبدیل کیا. اگر وہ یہ کام نہ کرتا تو اسلام سارے عالم پر غالب آجاتا اور ہم اہل جرمن اور یورپ کے تمام ممالک کے لوگ عربی مسلمان ہوتے۔(٢)

٢۔مروان بن حکم متوفی ٦١ھ:
حاکم نیشاپوری اور (امام اہل سنت) احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں:
مروان نے مسجد نبوی میں صحابی پیغمبر ۖ ابو ایوب انصاری کو دیکھا کہ قبر پیغمبرۖ پر بیٹھا اپنا راز دل بیان کر رہا اور آنحضرتۖ سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہے مروان نے انہیں گردن سے پکڑ ا اور کہا: أ تدری ما تصنع؟ جانتا ہے کیا کر رہا ہے؟
ابو ایوب انصاری نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
'' جئت رسول اللہ] ۖ[ ولم آت الحجر ، سمعت رسول اللہ ] ۖ[ یقول : لا تبکوا علی الدین اذا ولیہ اھلہ ، ولکن ابکوا
--------------
(١)تفسیر المنار ،١١:٢٦٠، الوحی المحمدی :٢٣٢، محمودابوریة :١٨٥،، مع الرجال الفکر،١:٢٩٩،
(٢)تفسیر المناد ١١:٢٦٠؛الوحی المحمدی:٢٣٢؛محمود ابوریہ:١٨٥؛ مع رجال الفکرا:٢٩٩۔
علیہ اذا ولیہ غیر اھلہ ''.(١)
میں پیغمبر ۖ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا اور میں نے پیغمبر ۖ سے سنا ہے آپۖ فرما رہے تھے: جب تک دین کی سرپرستی اسکے اہل افراد
کر رہے ہوں تب تک اس پرگریہ نہ کرنا بلکہ دین پہ گریہ اس وقت کرنا جب نا اہل اس کے سرپرست بن بیٹھیں۔

٣۔ حجاج بن یوسف متوفی ٩٥ ھ
ابن ابی الحدید معتزلی شافعی (٢)
متوفی ٩٥ھ لکھتا ہے:
جب حجاج بن یوسف مدینہ منورہ گیا تو دیکھا لوگ پروانہ وار قبر پیغمبر ۖ کے اردگرد مشغول ہیںتو کہنے لگا:
تبالھم!انمایطوفون باعواد ورمة بالیة ، ھلا طا فو ا بقصرامیرالمومنین عبدالملک؟ الایعلمون ان خلیفة المرء خیر من رسولہ ؟!
افسوس ان لوگوں پر جو پوسیدہ ہڈیوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں(نعوذ باللہ)
--------------
(١) مستدرک علی الصحیحین ، ج٤، ص ٥١٥؛ مسند احمد ، ج٥، ص ٢٢. تاریخ مدینہ دمشق ، ج٥٧، ص ٢٤٩، ومجمع الزوائد ، ج٥، ص ٢٤٥.
(٢)ابن ابی الحدید کے مذہب کو جاننے کے لئے کتاب وفیات الاعیان ابن خلکان٧: ٣٧٢ اور فوات الوفیات ابن شاکر ٢:٢٥٩ کا مطالعہ فرمائیں۔
یہ لوگ امیر المؤمنین عبد الملک کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ خلیفہ کا مقام پیغمبر خداۖ سے زیادہ ہے۔(١)
ادبیات عرب کے ماہر مبرد متوفی ٢٨٦ھ لکھتے ہیں:
ان ذلک مماکفرت بہ الفقھاء الحجاج ،وانہ انماقال ذلک والناس یطوفون بالقبر،
اسی بنا پر فقہاء نے حجاج کو کافر قرار دیا ہے چونکہ اس نے یہ بات اس وقت کہی جب لوگ قبر پیغمبر ۖ کے ارد گرد مشغول تھے۔(٢)

٤۔ بربہاری متوفی ٣٢٩ ھ:
سب سے پہلی بارحسن بن علی بربہاری معروف حنبلی عالم نے زیارت قبور، نوحہ خوانی اور امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو پڑھنا حرام قرار دیا۔(٣)

٥۔ ابن بطّہ متوفی ٣٨٧ھ:
ابن تیمیہ کے بقول حنبلی فقیہ عبید اللہ بن محمد بن حمدان عکبری معروف ابن بطّہ نے زیارت و شفاعت پیغمبر ۖ کا انکار کیا اور وہ معتقد تھا کہ پیغمبر ۖ کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے لہذا اس سفر میں پوری نماز پڑھی جائے۔(٤)
--------------
(١)شرح نہج البلاغہ ١٥:٣٤٢،النصائح الکافیة :١٠٦
(٢)الکامل فی الغةوالادب ١:٢٢٢، طبع نہضت مصر،
(٣)نشورالمحاضرة ، ٢:١٣٤
(٤)الرد علی الاخنائی ، ابن تیمیہ :٢٧،شفاء السقام :٢٦٣،
٦۔ ابن تیمیہ متوفی ٧٢٧ھ:
تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن تیمیہ مفکر وہابیت نے آٹھویں صدی ہجری میں مذکورہ بالا عقائد کو ایک جدید انداز میں بیان کر کے امت اسلام میں شدید تفرقہ ایجاد کیا۔

٧۔ محمد بن عبد الوہاب متوفی ١٢٠٥ ھ:
بارہویں صدی ہجری میں بانی و رہبر وہابیت محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے جد اعلی محمد بن سعود کے تعاون اور برطانوی فوجی مشیروں کی مدد سے سعودی عرب کے علاقے نجد اور درعیہ میں افکار ابن تیمیہ یا بالفاظ دیگر افکار بنو اُمیہ کی ترویج کا کام شروع کیا۔