وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
ایک گروہ یا ایک محاذ
شہید مطہری فرماتے ہیں:
عرف عام میں ایک گروہ اور ایک محاذ میں فرق پایا جاتا ہے ایک گروہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ شخصی مسائل کے علاوہ فکر، راہ و روش اور نظریات میں ہمرنگ ہوں۔
جبکہ ایک محاذ کا معنیٰ یہ ہے کہ مختلف گروہ اور تنظیمیں مسلک، نظریات اور راہ و روش میں اختلاف کے باوجود مشترک امور کی بناء پر مشترک دشمن کے مقابلے میں ملکر صف آرائی کریں۔
اوریہ واضح سی بات ہے کہ اپنے مسلک کا دفاع، دوسرے بھائیوں کے مسلک پر اعتراض اور محاذ آرائی میں موجود افراد کو اپنے مسلک کی دعوت دینا دشمن کے مقابلے میں صف واحد تشکیل دینے سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا۔
خصوصاً مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی جس چیز کی فکر میں تھے وہ یہ تھی کہ برادران اہل سنت کے درمیان معارف اہل بیت علیہم السلام کو منتشر کرنے کی راہیں
ہموار کر سکیں اور وہ معتقد تھے کہ یہ کام حسن تفاہم کے بغیر ممکن نہیں. شیعہ فقہی کتب کے مصر میں مصریوں کے ہاتھوں چھپوائے جانے کی جو کامیابی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کو حاصل ہوئی یہ اسی حسن تفاہم کا نتیجہ تھا جو انہوں نے ایجاد کیا تھا اور علمائے شیعہ کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی جزاہ اللّٰہ عن الاسلام و المسلمین خیر الجزائ.(١)

کیا مسئلہ امامت اختلاف انگیز ہے؟
شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ شیعہ و سنی یا شیعہ و وہابی کے درمیان اختلافی مسائل کو زیر بحث لانا وحدت مسلمین سے منافات رکھتا ہے اور بعض لوگوں کے لئے دل آزاری و تفرقہ کا باعث بنتا ہے۔

شہید مطہری کی رائے:
شہید مطہری اس بارے میں فرماتے ہیں:
بہر حال ''اسلامی اتحاد'' کی حمایت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ حقائق کو بیان کرنے میں کوتاہی برتی جائے . جس چیز سے پرہیز کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو مخالف کے احساسات اور اس کے کینے کو ابھارنے کا باعث بنے. جبکہ علمی گفتگو کا تعلق عقل و منطق سے ہے نہ کہ عواطف و احساسات سے.(٢ )
--------------
(١) ایضا: ١٨۔
(٢) ایضا: ١٩۔
آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی رائے:
حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں:
بعض افراد جیسے ہی مسئلہ امامت کی بات آتی ہے تو فوراً بول اٹھتے ہیں کہ آج ان باتوں کا دن نہیں ہے!
آج وحدت مسلمین کا دن ہے اور جانشین پیغمبر ۖ کے بارے میںگفتگو کرنا اختلاف و انتشار کا باعث بنتا ہے۔
آج ہم مشترک دشمن صہیونزم و استعمار شرق و غرب کے مقابلے میں کھڑے ہیں ہمیں ان کے بار ے میں فکر کرنی چاہیے، لہٰذا اختلافی مسائل کو مت چھیڑیں. جبکہ اس طرح کا طرز تفکر یقینا غلط ہے اس لئے کہ:
اول: جو چیز اختلاف و انتشار کا باعث بنتی ہے وہ تعصب آمیز، غیر منطقی اور کینہ انگیز بحث و گفتگو ہے جبکہ منطقی، مستدل، تعصب سے پاک، ضد سے خالی دوستانہ انداز میں بحث و گفتگو کرنا نہ یہ کہ تنہا اختلاف کا باعث نہیں بنتی بلکہ آپس کے فاصلوں کو کم کر کے مشترک مسائل کو تقویت دینے کا موجب بنتی ہے۔
میں نے خانہ کعبہ کی زیارت کے دوران حجاز کے سفر میں بارہا علمائے اہل سنت سے بحثیں کی ہیں ہم نے بھی اور انھوں نے بھی یہی احساس کیا کہ ایسی بحثیں نہ صرف برا اثرنہیں رکھتی ہیں بلکہ تفاہم و خوش بینی کا باعث بنتی ہیں، فاصلوں کو کم اور سینوں سے نفاق کو دور کرتی ہیں۔
اس سے بھی اہم یہ کہ ان بحثوں میں ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں کہ جن کی بناء پر ہم مشترک دشمن کے مقابلے میںمتحد ہونے کی تاکید کریں۔(١) --------------
(١) پنجاہ درس اصول عقائد:٢٢٧۔
آیت اللہ العظمیٰ فاضل لنکرانی کی رائے:
حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی ٢٠٠٢ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں:
''راہ ولایت میں شہید ہونے والی اس سب سے پہلی اور عظیم شخصیت کی شہادت کی یاد منانا مقام ولایت سے تجدید عہد کرنا ہے جس کے ذریعے سے دین خدا کامل اور نعمت پروردگار انتہا تک پہنچی ہے.......
یہاں پہ میں اس نکتہ کا تکرار کرنا لازم سمجھتا ہوں کہ ان ایام کی تعظیم اور مجالس عزا برپا کرنا امام خمینی کی مسلّمہ اور عملی سیرت ہے جس کا مسئلہ وحدت سے کوئی تعلق نہیںہے۔
مسئلہ وحدت جس کی امام خمینی اور آیت اللہ بروجردی قدس سرّھما نے تاکید فرمائی اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے مسلمہ عقائد کے بارے میںسکوت یا ان سے چشم پوشی کر لیں. بلکہ تمام مسلمانوں کا عالمی استکبار کے مقابلے میں متحد ہونا ہے جو سپرپاور ہونے کا دعویٰ کر رہا اور صہیونیوں کی پیروی میں اسلام کی بنیادوںکو مسمار
کرنے کی فکر میں مشغول ہے۔
تین جمادی الثانی حکومت اسلامی کی طرف سے سرکاری چھٹی کا دن ہے اس دن شیعوں کو چاہیے کہ وہ عزاداری کے جلوس لے کر گلیوں اور سڑکوں پرنکلیں تاکہ یوں اس شہیدہ کا حق کسی حد تک ادا کر سکیں۔
اسی طرح ٢٠٠١ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: ''یہ درست ہے کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی مسئلہ وحدت پر بہت زور دیتے تھے لیکن ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ شیعہ اپنے یقینی اور محکم عقائد سے دستبردار ہوجائیں۔

امام جمعہ زاہدان کی رائے:
مولوی عبد الحمید امام جمعہ زاہدان نے سترہ بہمن ٢٠٠٦ئ نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا: ''جس کسی کے پاس جو بھی استدلال ہے اسے عقل و منطق کی روشنی میں بیان کرے اور اس پر کسی کو شکوہ نہیں ہے لیکن مقدسات کی توہین کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور جو بھی اسے جائز سمجھے تو یہ نص قرآن و سنت کے خلاف ہے. ہمیں چاہیے کہ یہودو نصاریٰ کے مقدسات کی بھی توہین و بے احترامی نہ کریں۔