وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
عصر حاضر میں وحدت و اتحاد کی اہمیت
اس میں شک نہیں ہے کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمنان اسلام، اسلام کی نابودی کے لئے آپس میں معاہدہ کرچکے ہیں اور اپنے تمام تر سیاسی و اقتصادی امکانات اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں۔
اسی طرح امریکی سی آئی اے کے سابق معاون ڈاکٹر مائیکل برانٹ نے اپنی کتاب (مکاتب الہی کو جدا کرنے کا منصوبہ Aplan to divis and d noylt theiology میں لکھتا ہے:
جو لوگ شیعوں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں انھیں شیعوں کے خلاف منظم و مستحکم کر کے شیعوں کے کافر ہونے کے نظریہ کو عام کر کے انھیں معاشرے سے جدا کیا جائے اور ان کے خلاف نفرت انگیز تحریریں لکھی جائیں۔(1)
--------------
(1) اخبار جمہوری اسلامی ١٣٨٣٣٥ اور ہفت روزہ افق حوزہ ١٣٨٣٢٢٨۔
Goldstoneبرطانوی سیاست دان اور سابق وزیر اعظم برطانیہ کہتا ہے:(یہ برطانوی سیاست دان ٨٠٩ا۔١٨٩٨)چار بار اس ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے۔
مادام ہٰذاالقرآن موجوداًفی ایدی المسلمین،فلن تستطع أروباالسیطرة علی الشرق و لا أن تکون ہی نفسہا فی أمان.(١)
جب تک مسلمانوں کے پاس قرآن موجود ہے تب تک نہ تو برطانیہ مشرق پر اپنا تسلط جما سکتا ہے اور نہ ہی خود امن کی سانس لے سکتا ہے۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم Ben Gurio(٢)
کہتا ہے:''انّ اخشی ما نخشاہ أن یظہر فی العالم العربی، محمد جدید''.(٣)
جس چیز نے ہمیں وحشت زدہ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں عالم عرب میں کوئی نیا محمد نہ ظاہر ہوجائے۔
--------------
(١) الاسلام علی مفترق الطرق:٣٩۔
(٢)یہی وہ شخص ہے جس نے اسرائیل کا نام تجویز کیا اور نو بار اس ملک کا وزیر اعظم بنا، اس نے اپنی زندگی کو صہیونزم کیلئے وقف کیا۔ ١٩٤٨ئ میں فلسطین پر قبضہ کے لئے جنگ کی سر براہی اسی نے کی. اس کی وزارت کے دور میں جو واقعات رونما ہوئے وہ درج ذیل ہیں: ١۔١٩٤٨ئ کی جنگ ،٢۔ یہودیوں کی بے سابقہ ہجرت ،٣۔ یہودی آبادیوں کی افزائش ٤۔اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کا ١٩٥٦ئ میں مصر پر مشترکہ حملہ۔
(٣) اخبار الکفاح الاسلامی ١٩٥٥ئ۔
اگرچہ عیسائیوں کے مسلمہ اصول میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام کا یہودیوں کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکایا جانا ہے جس کے باعث بیس صدیوں تک ان کے درمیان بغض و کینہ اور دشمنی عروج پر رہی ہے لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائی و یہودی اتحاد کی خاطر حکومت واٹیکان نے سرکاری طور پر اس اصل سے چشم پوشی کا اعلان کر کے یہودیوں کو اس گناہ سے بری الذمہ قرار دے دیا ۔
اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان ١٩٧٣ئ میں اسرائیل کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے دوران کیا گیا تاکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کر سکیں۔(١)
مذکورہ بالا نکات سے پیغمبر ۖ کے اس فرمان کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے:
''من اصبح و لم یہتم بأمور المسلمین فلیس بمسلم'' (٢)
ترجمہ: جو شخص اپنے دینی بھائیوں کی مشکلات کی فکر نہ کرے وہ مسلمان بھی نہیںہے۔
واضح رہے کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی مشکوک حرکت جو مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و جدائی کا باعث بنتی ہو، اسلام کے نفع میں نہیں ہے۔
اور ہر طرح کی گالی گلوچ اور ناروا گفتگو مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد
--------------
(١) مع رجال الفکر فی القاہرة ١:١٦٢۔
(٢) اصول کافی ٢:١٦٣۔
اور تقریب مذاہب کونقصان پہنچانے سے بڑھ کر مکتب اسلام کے نورانی چہرے کو خدشہ دار کرنے اور اہل علم حضرات کے اسلام جیسے نورانی مکتب سے بدگمان ہونے کا باعث بنتی ہے۔

وحدت کے اہداف
وہ مسائل جن میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے ان میں سے ایک وحدت کے اہداف کی جامع تعریف ہے اور یہ واضح ہونا چاہیے کہ وحدت کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا یا دوسرے مذاہب کو مٹانا نہیں ہے اور تقریب کے ادارے قائم کرنے و الو ں کی غرض بھی معتزلی کی جگہ اشعری ، سنی کو شیعہ، حنفی کو حنبلی بنانایا اس کے بر عکس نہیں تھی۔
اس لئے کہ یہ کام نہ تنہا دشوار بلکہ ناممکن ہے جب کہ ان کا مقصد تو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو مشترک امور کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے نزدیک کرنا اور تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں ایک صف میں لا کر کھڑا کرنا تھا۔
مرحوم شیخ محمد تقی قمی بانی ''دار التقریب بین المذاھب الاسلامیة'' اور مدرسہ فیضیہ میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمائندے فرمایا کرتے:
اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے اصول و عقائد سے دوری اختیار کر لیں یا سنی اپنے عقائد کے مبانی سے دستبردار ہوجائیںمذاہب کے درمیان فاصلے کا سبب ان کا ایک دوسرے کے افکارو مبانی سے نا آشنا ہونا ہے. اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک مذہب کے صاحب فکر حضرات آئیں اور اپنے اپنے عقائد کے مبانی کا تحفظ اور دوسروں کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے پرسکون فضا میں اختلافی مسائل کو بیان کریں تاکہ ایک دوسرے کے افکار اور مذاہب کے درمیان مشترک امور سے آشنائی کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ تفاہم پیدا ہو کہ جس کا فائدہ یقینا مذہب شیعہ کو ہے۔
٢٤جنوری ٢٠٠١ئ میں لندن کے اندر ایک ٹی وی چینل ANNنے وحدت مسلمین اور مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کے عنوان سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ایرانی، لبنانی، مصری اور برطانوی مفکرین نے شرکت کی. اس کانفرنس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے ''الازہر'' یونیورسٹی کے معاون اور مذاہب اسلامی کے درمیان گفتگوکا اھتمام کرنے والی کمیٹی کے چئر مین جناب شیخ محمد عاشور نے کہا:
فکرة التقریب بین المذاہب الاسلامیةلاتعنی توحید المذ اھب الاسلامیة ولاصرف ایّ مسلم مذھبہ وصرف المسلم عن مذھبہ تحت التقریب تضلیل فکرة التقریب...فان الاجتماع علی فکرة التقریب یجب ان یکون اساسہ البحث والاقناع والاقتناع ، حتی یمکن لسلاح العلم والحجة محاربة الافکار الخرافیّة ...وان یلتقی علماء المذاھب ویتبادلون المعارف والدراسات لیعرف بعضھم بعضا فی ھدوء العالم المتثبت الذی لاھم لہ الاان یدری یعرف ویقول فینتج.(١)
مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا اور ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو قبول کرنا نہیں ہے اس لئے کہ ایسی فکرتو تقریب کو اس کے ہدف سے ہٹانا ہے. تقریب کی بنیاد علمی گفتگو اور دوسرے کو قانع کرنے پر ہونی چاہیے تاکہ علم کے اسلحہ اور دلیل کے ذریعہ سے منحرف افکار کا مقابلہ کیا جا سکے... اور یہ کہ علمائے مذاہب مل بیٹھیں اور معارف کا تبادلہ کریں تاکہ پر امن ماحول میں ایک دوسرے کو سمجھیں اور نتیجہ حاصل کریں۔

شہید مطہری کی نگاہ میں وحدت کا غلط مفہوم لینا
شہید مطہری وحدت مسلمین سے غلط مفہوم لینے کے بارے میںلکھتے ہیں:
''.... اس میں شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کی واضح ترین ضروریات میں سے ان کا آپس میں اتفاق و اتحاد ہے اور عالم اسلام کا اساسی ترین درد مسلمانوں کے درمیان وہی پرانے کینے ہیں. دشمن بھی ہمیشہ انھیں سے فائدہ اٹھاتا ہے....
--------------
(١)مطارحات فکریة فی القنوات الفضائیة، شمارۂ٣:١٩سال١٤٢٢ ھج؛ بازخوانی اندیشۂ تقریب:٣١۔
اس آخری صدی میں اسلامی روشن فکر علماء و فضلاء کے درمیان اسلامی اتحاد کا جو مفہوم لیا جا رہا ہے کہ اعتقادی یا غیر اعتقادی اصول سے چشم پوشی اختیار کی جائے یا یہ کہ تمام فرقوں کے مشترک امور کو لے کر ان کے مختص امور کو ترک کردیا جائے یہ کام نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی عملی طور پر انجام پانے والا ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک مذہب کے پیروکاروں سے یہ تقاضا کیا جائے کہ وہ وحدت اسلام و مسلمین کے تحفظ کی خاطر فلاں اعتقادی یا عملی اصل کو چھوڑ دیں جبکہ وہ اصل ان کے نزدیک دین اسلام کا جزو شمار ہوتی ہو؟
یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے اُسے کہا جائے کہ اسلام کے نام پر اسلام کے ایک جزوسے روگردانی کر لیں...!(١)
ہم خود شیعہ ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنے پر افتخار کرتے ہیں چھوٹی سے چھوٹی چیز حتی ایک مستحب یا مکروہ عمل پر بھی معاملہ کرنے کو تیار نہیںہیں اس بارے میں ہم نہ تو کسی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اصول میں سے فلاں اصل کو اسلامی اتحاد کی خاطر ترک کردے اور نہ ہی اس بارے میںکسی کی فرمائش کو قبول کرتے ہیں۔
جس چیز کی ہم توقع رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ حسن تفاہم کا ماحول ایجاد کیا جائے تاکہ ہمارے پاس جو اصول و فروع، فقہ، حدیث، کلام، فلسفہ اور ادبیات ہیں انھیں ایک
--------------
(١) امامت و رہبری: ١٦، چاپ صدرا۔
بہترین چیز کے طور پر پیش کر سکیں اور شیعہ اس سے زیادہ زوال کی طرف نہ جائیں اسی طرح عالم اسلام کے بازاروںکو بھی شیعہ معارف کے لئے کھولا جائے(١)

کیا مشترک امور پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟
شہید مطہری اپنی گفتگوکو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسلام کے مشترک امور کو لینا اور ہر فرقے کے مختصات کو ترک کرنا اجماع مرکب کی مخالفت کرنا ہے اور اس کا نتیجہ ایسی چیز ہے جو یقینا حقیقی اسلام سے ہٹ کر کچھ اور ہے. اس لئے کہ کسی بھی فرقے کے مختص امور اسلام کا حصہ ہیں اور ان مشخصات و مختصات سے خالی اسلام کا کوئی وجود نہیں ہے۔
علاوہ از یں اتحاد اسلامی کی بلند فکر پیش کرنے والی شخصیات شیعہ میں مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی قدّس سرّہ اور اہل سنت کے اندر علامہ شیخ عبد المجید سلیم اور علامہ شیخ محمود شلتوت نے بھی اس طرح نہیں سوچا تھا۔
جو چیز ان کے مدنظر رہی وہ یہ تھی کہ اسلامی فرقے در عین حال اگرچہ کلام و فقہ وغیرہ میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن مشترکات جو زیادہ بھی ہیں ان کے واسطے سے اسلام کے خطرناک دشمن کے مقابلے میں دست برادری بڑھائیں اور ایک صف تشکیل دیں ان بزرگان نے ہرگزوحدت اسلامی کے عنوان سے وحدت مذہبی
ایجاد کرنے کا تصور نہیں کیا اس لئے کہ ایسی سوچ کبھی بھی عملی طور پر انجام پانے والی نہیںہے۔(2)
--------------
(١) امامت و رہبری: ١٧۔
(2) امامت و رہبری:١٨۔