وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
حضرت علی سب سے بڑے منادی و حدت
حضرت علی علیہ السلام رسول خدا ۖ کی رحلت کے بعد خلافت و امامت کو اپنا مسلم حق سمجھتے تھے اور وہ معتقد تھے کہ خلافت کے غاصبوں نے ان کے حق میں جفا کی ہے:ما زلت مظلوماً منذُ قبض اللّٰہ نبیّہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.(1)
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رحلت کے بعد ہمیشہ مجھ پر ظلم کیا گیا ۔
آپ نے اپنی حقانیت کے اثبات کے لئے کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہ کیا اور اپنے مسلّم حق کے حصول کیلئے ہر ایک سے مدد طلب کی(2)، یہاں تک کہ اپنی
--------------
(1) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید٢٠:٢٨٣؛ الشافی فی الامامة ٣:١١٠؛ الامامة و السیاسة، تحقیق الشیری ١: ٦٨؛ تحقیق الزینی١:٤٩؛ بحار الانوار٢٩:٦٢٨۔
(2) ابن قتیبہ دینوری نقل کرتا ہے: پیغمبر ۖ کی رحلت کے دن ہی جب ابوبکر مسند خلافت پر بیٹھا تو علی علیہ السلام نے مہاجرین کو خطاب فرمایا، اپنی حقانیت اور مسند خلافت کی صلاحیت کو بیان فرمایا:
زوجہ محترمہ کو سوار کروا کر مہاجرین کے دروازوں پہ گئے اور ان سے مدد طلب کی۔(١)
لیکن افسوس کہ کسی ایک نے مثبت جواب نہ دیا. جب آنحضرت ۖنے دیکھا کہ اہل بیت کے سوا نہ کوئی میرا مددگار ہے اور نہ دفاع کرنے والا تو اس وقت
>.......آنحضرت کے کلمات سے اس قدر تاثیر پذیر ہوئے کہ بشیر بن سعد کہنے لگا: یا علی ! اگر انصار نے ابوبکر کی بیعت سے پہلے آپ کی یہ گفتگو سنی ہوتی تو کبھی دو شخص بھی آپ کی خلافت کے حق میں اختلاف نہ کرتے۔
حضرت کا مشہور کلام اس طرح ہے :'' اللہ اللہ یا معاشر المہاجرین ! لا تخرجوا سلطان محمد فی العرب عن دارہ و قعر بیتہ ، الی دورکم و قعور بیوتکم ولا تدفعوا اھلہ عن مقامہ فی الناس وحقہ ، فواللہ یا معاشر المہاجرین ، لنحن احق الناس بہ. لانا اھل البیت ، ونحن احق بھذا الامر منکم ما کان فینا القاری ، لکتاب اللہ ،الفقیہ فی دین اللہ ، العالم بسنن رسول اللہ ، المضطلع بامر الرعیة ، المدافع عنھم الامور السیئة، القاسم بینھم بالسویة، واللہ انہ لفینا ، فلا تتبعوا الھوی فتضلوا عن سبیل اللہ ، فتتزدادوا من الحق بعداً''
بشیر بن سعد انصاری کہتا ہے :'' لو کان ھذا الکلام سمعتہ الانصار منک یاعلی قبل بیعتھا لابی بکر، ما اختلف علیک اثنان ''.الامامة والسیاسة ، تحقیق الزینی١:١٩.
--------------
(١) ابن قتیبہ کہتا ہے: و خرج علی کرم اللہ وجھہ یحمل فاطمہ بنت رسول اللہ ۖعلی دابةلیلاًفی مجالس الانصار تساء لھم النصرة ، فکانوں یقولون :یابنت رسول اللہ !قدمضت بیعتنا لھذاالرجل ولوان زوجک وابن عمک سبق الینا قبل ابی بکر ماعدلنابہ۔
فیقول علی ۔کرم اللہ وجھہ ۔:افکنت ادع رسول اللہ ۖ فی بیتہ لم ادفنہ ، واخرج انازع الناس سلطانہ ؟فقالت فاطمہ :ماصنع ابوالحسن الاماکان ینبغی لہ ، ولقد صنعوا ماللہ حسیبھم وطالبھم ، الامامة والسیاسة،تحقیق الزینی١:٩،
مصلحت یہی دیکھی کہ انھیں دشمن کے مقابلے میں نہ لایا جائے۔(١)
حضرت علی علیہ السلام نے آنکھوں میں خس و خاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی کی اور گلے میں پھندے کے ہوتے ہوئے لعاب دہن نگل کر خانہ نشینی کا تلخ جام پی لیا۔(٢)
ارے! امیر المومنین علیہ السلام نے جب یہ احساس کیا کہ اپنے مسلم حق کے احقاق کے لئے راہ ہموار نہیں ہے اور قیام کرنے سے اُمت اسلام کے درمیان تفرقہ کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہو گا۔ (٣)
تو اس وقت آنکھ میں کانٹے کا تحمل کرنا اور گلے میں ہڈی کے اٹکنے جیسے سخت
--------------
(١) علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ ٢١٧ میں فرماتے ہیں: '' فنظرتُ فاذا لیس لی معین الا اہل بیتی فضننت بہم عن الموت. ترجمہ: میں نے دیکھا کہ میرے پاس کوئی مددگار نہیں ہے سوا میرے گھر والوں کے تو میں نے انھیں موت کے منھ میں دینے سے گریز کیا۔
(٢) حضرت علی فرماتے ہیں: و اغضیت علی القذیٰ وشربت علی الشجاوصبرت علی اخذالکظم وعلی امرّمن طعم العلقم .
ترجمہ: اور باالآخر آنکھوں میں خس وخاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی اور گلے میں پھندے کے ہوتے ہوئے لعاب دہن نگل لیا اور غصہ کو پینے میں حنظل سے زیادہ ذائقہ پرصبرکیا اور چھریوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ حالات پر خاموشی اختیار کر لی۔
(٣)حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: '' و ایم اللّٰہ لوکان مخافة الفرقة بین المسلمین... لکنا علی غیر ما کنّا لھم علیہ'' ترجمہ: اگر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا ڈر نہ ہوتا تو ہم ان سے اور رویہ اپناتے،(شرح نہج البلاغة ابن ابی الحدید١:٣٠٧؛ ارشاد ١:٢٤٥۔
ترین مصائب کو برداشت کیا لیکن امت اسلام کے درمیان اتحاد و وحدت کو گزند نہ پہنچنے دیا تا کہ کہیں منافقوں اور اسلام سے شکست خوردہ دشمنوں کی سازشوں سے پیغمبر ۖ کی تئیس سالہ زحمات ضائع نہ ہو جائیں. بلکہ جہاں کہیں بھی دیکھا کہ اسلام یا اسلامی معاشرہ کو فائدہ ہو رہا ہے وہاں پہ کسی قسم کی مدد سے گریز نہ کیا۔(١)
ترجمہ: یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس پلٹ رہے ہیں اورآئین پیغمبر ۖ کو برباد کردینا چاہتے ہیں تو مجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اور بربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جو آج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اور ایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک دمک ختم ہوجاتی ہے یا آسمان کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو میں نے ان حالات میں قیام کیا یہاں تک کہ باطل زائل ہوگیا اور دین مطمئن ہو کر اپنی جگہ پر ثابت ہوگیا۔
اگرچہ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ اول و دوم کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے اور اہل سنت کی معتبر ترین کتاب صحیح مسلم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ان دونوں کو
--------------
(١)نہج البلاغہ،نامہ:٦٢''حتی رأیت راجعة الناس قدرجعت عن الاسلام،یدعون الی محق دین محمدصلی اللہ علیہ والہ و سلم فخشیت ان لم انصرالاسلام واھلہ ان اری فیہ ثلماً او ھدما...فنھضت فی تلک الاحداث حتی زاح الباطل وزھق ، و اطمنان الدین وتنھنہ ۔
کاذب، دھوکہ باز اور خائن سمجھتے تھے ۔(١)
لیکن یہ چیز باعث نہ بنی کہ آنحضرت افرادی قوت کے کم ہونے کے باوجود ان کے خلاف قیام کر کے امت اسلام کی تباہی کا سامان مہیا کریں۔

حضرت علی کی نگاہ میں اختلاف کے برے اثرات
١۔ فکری انحراف کا باعث:
حضرت علی علیہ السلام معتقد تھے کہ ''الخلاف یہدم الرا ی'' .(٢)
ترجمہ:اختلاف رائے کو نابود کردیتاہے۔
انسان پر سکون ماحول میں درست نظریہ بیان کر سکتا ہے جبکہ اختلافات کی فضا میں انحراف واشتباہ سے دچار ہوجاتا ہے۔

٢۔ دو گروہ میں سے ایک کے یقینا باطل ہونے کی علامت:
امیر المومنین علیہ السلام کے عقیدہ کے مطابق اختلاف سے دچار ہونا وہی باطل کی پیروی کرنا ہے لہٰذا فرمایا:مااختلف دعوتان الا کانت احداہما
ضلالة،
--------------
(١)صحیح مسلم کے مطابق خلیفہ دوم حضرت عباس بن عبد اللہ اور حضرت علی علیہ السلام سے کہنے لگے: ((فملا توفی...)) ترجمہ: رسول خدا نے صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رحلت کے بعد جب ابوبکر نے اپنے خلیفہ رسول ہونے کا اعلان کیا تو تم دونوں اسے جھوٹا، دھوکے باز، عاصی اور خائن سمجھتے ...پھر ابوبکر کی وفات کے بعد جب میں خلیفہ رسول و خلیفہ ابوبکر بنا توتم مجھے بھی کاذب، دھوکہ باز اور خائن سمجھتے ہو...،صحیح مسلم ٥:٤٤٦٨١٥٢، کتاب الجھاد، باب١٥،حکم الفیئ...
(٢) نہج البلاغہ، حکمت٢١٥۔
جب بھی دو نظریوں میں اختلاف ہو تو ان میں سے ایک یقینی طور پر باطل ہے۔(١)
یعنی ہمیشہ حق باطل کے مد مقابل ہے اور یہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔

٣۔ شیطان کے غلبہ کا باعث:
علی علیہ السلام نے یہ سمجھانے کیلئے کہ تفرقہ بازی شیطان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے فرمایا:
والزمواالسواد الاعظم فان یداللہ مع الجماعة ، وایاکم والفرقة !فان الشاذ من الناس للشیطان ، کماان الشاذ من الغنم للذئب،(٢)
ترجمہ: اور سواد اعظم کے ساتھ رہو کہ خدا کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوجاتا ہے جس طرح ریوڑسے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذر ہوجاتی ہے تو آگاہ ہوجاؤ کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ۔
--------------
(١) نہج البلاغة، حکمت:١٨٣۔
(٢) نہج البلاغہ١٢٧۔
٤۔باطل کے نجس ہونے کی علامت:
حضرت علی علیہ السلام ذلت کواثبات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وانما انتم اخوان علی دین اللہ ، مافرّق بینکم الا خبث السّرائروسوء الضمائر.(١)
ترجمہ: تم لو گ آپس میں ایک دوسرے کے دینی بھائی ہو ، تم بری نیت اور برائی تم کو ایک دوسرے الگ نہیں کیا ہے ۔

٥۔فتنہ کاباعث:
حضرت علی علیہ السلام بخوبی آگاہ تھے کہ شیطان اختلاف کو ہوادے کر فتنہ ایجاد کرناچاہتا ہے لہٰذافرمایا:
ان الشیطان یسنی لکم طرقہ ، ویرید ان یحل دینکم عقدة عقدةویعطیکم بالجماعة الفرقة ، وبالفرقة السفتنة ، (٢)
ترجمہ :یقینا شیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کر کے تمھاری ساری گرہیں کھول دے۔ وہ تمھیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔

٦۔اختلاف ایجاد کرنے والے کی نابودی واجب ہے:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
الامن دعاالی ھذاالشعار فاقتلوہ، ولوکان تحت عمامتی ھذہ،(3)
ترجمہ :آگاہ ہوجائوکہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کروچاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔

--------------
(١)نہج البلاغہ ، خطبہ ١١٣
(٢)نہج البلاغہ ، خطبہ ١٢١
(3)نہج البلاغہ ، خطبہ ١٢٧