وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
 
قرآن و سنّت میں وحدت و اتحاد کا مقام
١۔ وحدت، قوموں کی کامیابی کا راز:
اس میں شک نہیں ہے کہ قوموں کی کامیابی و کامرانی کا ایک راز ان کا آپس میں اتحاد و اتفاق رہا ہے. جس طرح پانی کے قطرات کے متحد ہونے سے بڑے بڑے ڈیم تشکیل پاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ندی نالوں کے ایک دوسرے سے مل جانے سے بہت بڑے دریا بنتے ہیں اسی طرح انسانوں کے اتحاد اور جمع ہونے سے ایسی صفیں تشکیل پاتی ہیں کہ جن پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر کبھی بھی ان پر چڑھائی کرنے کا تصور تک نہیں کرتا:
( تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ)(1)
ترجمہ:تم صف بندی کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔
--------------
(1) انفال: ٦٠۔
قرآن مجید اقوام اسلام کو وحدت و اتحاد کے تنہا عامل حبل اللہ سے تمسک کی دعوت اور ہر طرح کی تفرقہ بازی سے بچنے کا حکم دیتا ہے:
( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا )(١)
ترجمہ:اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کروتمام مسلمانوں کو امت واحد، اور ان کے لئے ہدف واحد اور معبود واحد قرار دیا ہے:
( ِنَّ ہَذِہِ ُمَّتُکُمْ ُمَّةً وَاحِدَةً وََنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِی)(٢)
ترجمہ:بے شک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔
قرآن نے پوری امت اسلام کو آپس میں بھائی بھائی شمار کیا ہے اور ان سے یہ تقاضا کیا ہے کہ ان کے آپس کے روابط و تعلقات دوستانہ اور بھائیوں کے مانند ہونا چاہئیں اور پھر چھوٹے سے چھوٹے اختلاف کی صورت میں بھی صلح کا دستور صادر فرمایا ہے:
( ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فََصْلِحُوا بَیْنَ َخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ )(٣)
--------------
(١)آل عمران: ١٠٣۔
(٢) انبیائ:٩٢۔
(٣) حجرات: ١٠۔
ترجمہ:مومنین ایک دوسرے کے دینی بھائی ہیں تم اپنے دوبھائیوںکے درمیان جنگ کے موقع پر صلح کروادیاکرواوراللہ سے ڈروتاکہ تم پر رحم کھایاجائے ۔

٢۔ تفرقہ بازی بدترین آسمانی عذاب:
دوسری جانب خداوند متعال نے اختلاف اور جنگ و جدل کو بدترین عذاب شمار کیا ہے:
( قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی َنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ َوْ مِنْ تَحْتِ َرْجُلِکُمْ َوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَْسَ بَعْضٍ) (١)
ترجمہ:اے رسول!تم کہہ دو کہ وہی اس پر قابورکھتا ہے کہ (اگرچاہے تو)تم پرعذاب تمہارے سر کے اوپر سے نازل کرے یاتمہارے پائوں کے نیچے سے (اٹھاکر کھڑا کردے )یاایک گروہ کو دوسرے سے بھڑادے اورتم میں سے کچھ لوگوں کو بعض آدمیوں کی لڑائی کامزاچکھادے ذراغورتوکروہم کس کس طرح اپنی آیتوں کوالٹ پلٹ کے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں ۔
ابن اثیر کہتا ہے: ''شیعاً''سے مراد وہی امت اسلام کے درمیان تفرقہ بازی پھیلانا ہے۔(٢)
اور پیغمبر ۖ کو ایسے لوگوں سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم فرمایا جو آپس میں
--------------
(١) انعام: ٦٥۔
(٢) النہایة فی غریب الحدیث٢: ٥٢٠۔
اختلاف ایجاد کرتے اور پھر اس پر اصرار کرتے ہیں:
( ِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَسْتَ مِنْہُمْ فِی شَیْئٍ ِنَّمَا َمْرُہُمْ ِلَی اﷲِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ) (١)
ترجمہ:جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کاکوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کے اعمال سے باخبر کرے گا۔
خداوند متعال نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مشرکوں کے مانند آپس میں اختلاف اور اس پر فخر و مباہات مت کریں:
(ولاتَکُونُوا مِنْ الْمُشْرِکِینَ مِنْ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ)(٢)
ترجمہ:اور خبردار مشرکین میںسے نہ ہوجانا جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست و مگن ہے۔

٣۔ پیغمبر ۖ کا اختلاف امت کی وجہ سے پریشان ہونا:
امت مسلمہ کے درمیان ہر قسم کا اختلاف پیغمبر ۖ کے لئے پریشانی کا
--------------
(١) انعام: ١٥٩۔
(٢) روم:٣١اور٣٢۔
باعث تھا سیوطی اور دیگر نے نقل کیا ہے کہ ''شاس بن قیس'' نامی شخص جو زمانہ جاہلیت کا پرورش یافتہ اور مسلمانوں کے بارے میں اس کے دل میں حسد و کینہ ٹھاٹھیں مارتا رہتا تھا اس نے ایک یہودی جوان کوتیارکیا تاکہ اسلام کے دو بڑے قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان اختلاف ایجاد کرے۔
اس یہودی نے دونوں قبیلوں کے افراد کو زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان ہونے والی جنگوں کی یاد دہانی کروا کر ان کے درمیان آتش فتنہ روشن کردی یہاں تک کہ دونوں قبیلے ننگی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے پیغمبر اکرم ۖ کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ لڑائی کے مقام پر پہنچے اور فرمایا:
یامعشرالمسلمین اللہ اللہ،ابدعوی الجاھلیة وانا بین اظھر کم ؟بعد اذھداکم اللہ الی الاسلام واکر مکم بہ ، وقطع بہ عنکم امر الجاھلیة،واستنقذکم بہ من الکفر، والف بہ بینکم ، ترجعون الی ما کنتم علیہ کفارا،
اے مسلمانو!کیا تم نے خدا کو فراموش کر ڈالا اور جاہلیت کے شعار بلند کرنے لگے ہو جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں. خداوند متعال نے تمھیں نور اسلام کی طرف ہدایت کر کے مقام عطا کیا، جاہلیت کے فتنوں کو ختم کر کے تمھیں کفر سے نجات دی اور تمہارے درمیان الفت و برادری برقرار کی کیا تم دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے ہو؟
پیغمبر ۖ کے اس خطاب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک شیطانی سازش ہے اپنے اس عمل پر پشیمان ہوئے، اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور آنسو بہاتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا کر اظہار محبت کرنے لگے اور پھر پیغمبر اکرم ۖ کی ہمراہی میں اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس پلٹ گئے۔(١)

٤۔ جاہلیت کے بُرے آثار میں سے ایک اختلاف کی دعوت دینا ہے :
جنگ بنو مصطلق میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اختلاف ایجاد ہو گیا، انصاری نے اپنے قبیلہ کو مدد کے لئے پکارا اور مہاجر نے اپنے قبیلہ کو. جب پیغمبر ۖ کو اس بات کی خبر ملی تو فرمایا:
ان بری باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اس لئے کہ یہ جاہلیت کا طریقہ ہے جبکہ خداوند متعال نے مؤمنین کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک گروہ قرار دیا ہے. ہر زمان و مکان میں ہر طرح کی فریاد و مدد خواہی فقط اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ ایک گروہ کی خیر خواہی اور دوسرے کونقصان پہنچانے کی خاطر
انجام پائے .اس کے بعد جو بھی جاہلیت کے شعار بلند کرے گا اُسے سزادی جائے گی۔(2)
--------------
١۔ ((فعرف القوم انہا نزعة من الشیطان وکید من عدوھم نھم فائقوا السلاح وبکواوعانق الرجال بعضھم بعضاثم انصرفوا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامعین مطیعین قداطفااللہ عنھم کید عدواللہ شاس)) د رالمنثور٢:٥٧،جامع البیان٤:٣٢،فتح القدیر١: ٦٨ ٣ ، تفسیر آلوسی ٤: ١٤، واسد الغا بہ ١: ١٤٩،
(١) دعوہا فانہا منتنة ...یعنی انھاکلمة خبیثة ، لانھامن دعوی الجاھلیة واللہ سبحانہ جعل المومنین اخوة وصیرھم حزباواحدا، فینبغی ان تکون الدعوة فی کل مکان وزمان لصالح الاسلام و المسلمین عامة لالصالح قوم ضد الاخرین،فمن دعافی الاسلام بدعوی الجاھلیة یعزر، سیرہ نبویہ ٣:٣٠٣،غزوة بنی المصطلق ومجمع البیان ٥:٢٩٣، رسائل ومقالات ١:٤٣١،