فصل اول
وہابیت، امتوں کے درمیان تفرقہ کا باعث
امت اسلام مذہبی تمائلات کی بنیاد پر تمام تر فکری اختلافات کے باوجود اسلام کے حیات بخش اصولوں سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے درمیان اخوت اور بھائی چارے کو باقی رکھے ہوئے کلمۂ توحید کے سائے میں دشمنان اسلام کے مقابلے میں محکم و استوار کھڑی تھی لیکن افسوس کہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں وہابی فکرکی بنیاد رکھے جانے سے یہ وحدت اور ہمدلی پارہ پارہ ہو گئی، مسلمانوں پر بدعت و شرک کی ناروا تہمتیں لگا کر صفوف مسلمین پر ایسی کاری ضرب لگائی گئی جس کا جبران ممکن نہیں اورپھر بزرگان دین کے آثار کی نابودی، شعائر الہی سے ممانعت اور ابنیاء و اولیائے الٰہی سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا کر اسلام کے دیرینہ دشمنوں کے ہدف کو عملی جامہ پہنا دیا۔
ابن تیمیہ اور امت اسلامی کے درمیان شگاف:
یورپ میں اسلام کی ترقی اور اندلس کی شکست مغربی عیسائیوں کے لئے سخت تلخ اور ناگوار تھی یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ انتقام کی فکر میں رہے یہاں تک کہ پانچویں صدی ہجری کے آخر میں روم کے عیسائیوں کے رہبر یعنی پاپ نے مسلمانوں سے انتقام لینے کی خاطر لاکھوں فوجیوں کو یورپ سے فلسطین روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو قتلگاہ بنائیںیہیں سے ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو تقریباً دو سو سال (٤٨٩۔٦٩٠ھجری) تک جاری رہیں جس کے نتیجہ میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔
اُس زمانہ میں جبکہ مصر اور شام صلیبیوں سے جنگ میں مصروف تھے اُمت مسلمہ کو ایک اور طوفان کا سامنا کرنا پڑااور وہ چنگیز خان کی قیادت میں مغلوں کا حملہ تھا جس نے اسلامی آثار کو غارت ونابود کردیا۔
اس کے پچاس سال بعد (٦٥٦ھ ق) چنگیز خان کے نواسے ہلاکو خان کے دستور پر بغداد کے لوگوںکاقتل عام کیا گیا جس سے عباسی خلافت کا شیرازہ بکھر گیا اور پھر حلب و موصل پر وہی مصیبت آئی جوبغداد پر آچکی تھی۔
مشہور مورخ ابن اثیر لکھتا ہے: '' ... مغلوں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مصائب اس قدر سنگین تھے کہ مجھ میں ان کے لکھنے کی طاقت نہیں. اے کاش! میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا. اے کاش! میں اس حادثے سے پہلے ہی مرگیا ہوتا اور اس دردناک مصیبت کو نہ دیکھتا''۔(١)
--------------
(١)ابن اثیر لکھتا ہے:''ذکرخروج التترالی بلاد الاسلام:لقد بقیت عدة سنین معرضا عن.
...ذکر ھذ ہ الحادثة، استعظامالھاکارھالذکرھا فانااقدم الیہ ]رجلا[واوخراخری، فمن الذی یسھل علیہ ان یکتب نعی الاسلام والمسلمین ومن الذی یھون علیہ ذکر ذلک ، فیالیت امی لم تلد نی ویالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیامنسیا، الکامل فی التاریخ٢: ٣٥٨۔
کہا جاتا ہے کہ مغلوں کے دور حکومت میںحکمرانوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ امت اسلام کے درمیان تفرقہ پیدا کر کے سلاطین کے نزدیک مقام حاصل کر سکیں. اس کے علاوہ ہلاکو خان کی ماں اور بیوی عیسائی تھیں اور شامات کا بڑا سردار کیتوبوقا بھی مسیحی تھا۔
اسی طرح اباقاخان (٦٦٣۔٦٨٠ھج) ہلاکو خان کے بیٹے نے مشرقی روم کی بیٹی سے شادی کر لی ، پاپ اور فرانس و برطانیہ کے حکمرانوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اتحاد کر کے مصر اور شام پر لشکر کشی کر دی۔
اور اس سے بھی بدتر یہ کہ ہلاکو خان کے نواسے ارغون (٦٨٣۔٦٩٠ھج) نے اپنے یہودی وزیر سعد الدولہ ابہری کے مشورے پر مکہ کی تسخیر اور خانہ کعبہ کو بت خانہ میں تبدیل کرنے کا پکا ارادہ کر لیا تھااور اس سازش کے مقدمات بھی فراہم کر لئے تھے لیکن خوش قسمتی سے ارغون کے بیمار اور سعد الدولہ کے قتل ہوجانے کی وجہ سے یہ عظیم فتنہ ٹل گیا۔(١)
ایسے حساس زمانہ میں کہ جب اسلامی ممالک تباہی و ویرانی کی آگ میں جل رہے تھے اور شرق و غرب کے حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے مؤسس افکار وہابیت ابن تیمیہ نے اپنے افکار کو منتشر کر کے امت اسلام کے درمیان ایک نیا شگاف ڈال دیا۔
--------------
(١) وہابیت، مبانی فکری و کارنامۂ عملی،( تألیف حضرت آیت اللہ العظمیٰ سبحانی: ٢١ و٢٤) اور اسلام کے مقابلے میں مغلوں کے صلیبیوں سے روابط اور ان کے مظالم کے بارے میں آگاہی کیلئے تاریخ مغول: ١٩١،١٩٧،٣٢٦ تألیف،عباس اقبال آشتیانی کا مطالعہ فرمائیں۔
محمد بن عبد الوہاب اور اسلامی اتحاد پر ضرب:
بارہویں صدی ہجری میں بانی و مروج افکار وہابیت محمدبن عبد الوہاب نے مسلمانوں کو انبیاء و اولیائے خدا سے توسل کے جرم میں مشرک قرار دے کر ان کے کفر کا فتویٰ دیا، ان کا خون مباح، قتل جائز اور ان کے مال کو غنیمت قراردے دیا. اس کے اس فتویٰ کے نتیجہ میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔
ابن تیمیہ کے افکار کی تجدید محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھوں تاریخی و سیاسی اعتبار سے سخت نامناسب حالات میں کی گئی. اس لئے کہ اس دور میں امت مسلمہ چاروں طرف سے صلیبی استعمار کے حملوں کا شکار بن چکی تھی اور اسلامی معاشرے کو سب سے زیادہ وحدت کلمہ کی ضرورت تھی۔
انگریز ہندوستان کا بہت زیادہ علاقہ مسلمانوں سے چھین کر تیموری مسلمانوں کی سلطنت کی شان و شوکت کو مٹا کر پنجاب، کابل اور خلیج فارس کے سواحل کا خواب دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ ایران کے جنوب و مغربی علاقے کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔
فرانسیسی نیپلن کی قیادت میں مصر، شام اور فلسطین پر زبردستی قبضہ کر کے دولت عثمانی کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ہندوستان میں اپنا اثر جمانے کی سوچ رہے تھے۔
تزاری روس جوکہ مشرقی روم کے مسیحی سزاروں کی جانشینی کا دعویٰ کر رہے تھے ایران اور دولت عثمانی پرپے در پے حملے کر کے اپنی حکومت کا دائرہ ایک طرف سے قسطنطنیہ و فلسطین اور دوسری طرف سے خلیج فارس تک وسیع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے. اس مقصد کے حصول کیلئے انھوں نے اپنی فوجی کاروائیوں میں سب سے پہلے ایران، دولت عثمانی اور قفقاز کو نشانہ بنا رکھا تھا۔
یہاں تک کہ امریکائی بھی شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک پر چشم طمع رکھے ہوئے لیبیا اور الجزائر کے شہروں پر گولہ باری کے ذریعے عالم اسلام میں نفوذ کی کوششیں کر رہے تھے۔
صربستان کے مسئلہ پر عثمانیوں اور اتریش کی جنگ اور ہالینڈ کے جنگی بحری بیڑوں کا برطانیہ کی مدد کر کے الجزائر کے دارالخلافہ کا فوجی محاصرہ کرنا بھی اسی بحرانی دور میں پیش آیا۔( ١)
--------------
(١)وہابیت،مبانی فکری وکارنامہ عملی:٢١
سعودی مفتیوں کاتفرقہ بازی کی راہ ہموار کرنا:
آج جبکہ اسلام کے بدترین دشمن یہودی، عیسائی، امریکہ اور صہیونزم اسلام
اور مسلمانوں کی نابودی کی خاطر کمر بستہ ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر مائیکل برانٹ امریکن سی آئی اے کی مفکر کے مطابق وائٹ ہاؤس کی مہم ترین سازش مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرناہے اس کے باوجود ہم اس بات پر شاہد ہیں کہ سعودی مفتی عملی طور پر غیروں کی خدمت کر رہے اور وہم و خیال پر مشتمل غلط فتوے صادر کر کے امت اسلام کے درمیان وحدت و اتحاد کی راہیں مسدود کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی راہیںزیادہ سے زیادہ ہموار کر رہے ہیں۔
بن باز اور تقریب مسلمین کا ناممکن ہونا:
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز سے فتویٰ طلب کیا گیا:
'' شیعوں کے ماضی کے بارے میںجنابعالی کی آگاہی کو مد نظر رکھتے ہوئے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تقریب کے بارے میںآپ کی کیا رائے ہے؟''(١ )
تواس نے جواب میں کہا:
التقریب بین الرافضةوبین اھل السنة غیرممکن،لان العقیدةمختلفة...فلایمکن الجمع بینھما، کماانہ لایمکن الجمع بین الیھود والنصاری والوثنیین واھل السنة،فکذلک لایمکن التقریب بین الرافضةوبین اھل السنة ، لاختلاف العقیدة التی
--------------
(١) من خلال معرفة سماحتکم بتاریخ الرافضة، ما ہو موقفکم من مبدأ التقریب بین اہل السنة و بینھم۔
اوضحناھا۔(١)
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تقریب و ہم بستگی ممکن نہیں ہے اس لئے کہ دونوں کے عقائد ایک دوسرے سے سازگار نہیں ہیںاور جس طرح یہود و نصاریٰ اور بت پرستوں کو اہل سنت کے ساتھ ایک جگہ جمع نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ان عقائد کے اختلاف کی وجہ سے جن کی ہم نے وضاحت کر دی ہے ان کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح کتاب'' مسئلة التقریب''(٢) جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے حکام کی حمایت سے چھپی ہے اس میں بھی شیعوں کے ساتھ تقریب کی پہلی شرط ان کا مسلمان ثابت ہونا بیان کی گئی ہے۔
امریکا ، یہود اور شیعہ اہل سنت کے مشترک دشمن
عبد العزیز قاری وعالم بزرگ مدینہ منورہ اپنے ایک انٹریو میں کہتا ہے :
نحن الآن فی زمن عصیب طوقنا العدو المشترک وھو ذوثلاث شعب : الیھود ، وامریکا، والروافض، وھذا العدونبت من احداث العراق الجسام وما وقع فی لبنان انہ یستھدف اھل السنة جمیعا ً علی اختلاف مذاھبھم فھل یصح ان نتشاجر نحن
--------------
(١) مجموعہ فتاویٰ و مقالات بن باز ٥:١٥٦۔
(٢)مسئلة التقریب بین اہل السنّة و الشیعة ٢:٢٥٣ اشاعت پنجم۔
اھل الدائرة الواحدة المستھدفة دائرة اھل السنة والجماعة ، الا یجب ان ننتکاتف ضد الاخطار التی تتھددنا جمعیاً
...ان من یقول ان اھل السنة والجماعة مذھب واحد یلزمہ ان یخرج ھذہ المذاھب الاربعة من دائرة اھل السنة والجماعة ، وھم فعلاً یعتقدون ذلک ویعتبرون تعدد ھذہ المذاھب الفقہیة مظھر انحراف ''۔(١)
ہم لوگ اس وقت تین طرح کے دشمن کے مقابل میں ہیں : امریکا ، یہودی اور رافضی( شیعہ ) عراق اور لبنان کے واقعہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان دشمنوں کا اصلی مقصد ، اہل سنت والجماعت ہیں لہٰذا ہم کو چاہئے کہ ہم ان دشمنوں کے برابر متحد ہو جائیں ۔
جیسا کہ وہ کہتا ہے :جن کا نظریہ یہ ہے کہ اہل سنت ایک مذہب ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں کہ جن یہ عقیدہ ہے کہ مذاہب چہار گانہ کو اہل سنت کے احاطہ سے خارج کریں ورنہ یہ مذاہب چہار گانہ فقہی ، معاشرہ کے انحراف کا وسیلہ ہو جائیں گے
|