شیعوں پر وھابیوں کے اعتراضات
 
شیعہ مذھب کے وجود میں آنے سے متعلق
وھابیوں کے اعتراضات
وھابیوں کے اذیت کنندہ اور خائنانہ اعتراضوں میں سے ایک یہ بھی ھے شیعہ مذھب کو یھودیوں سے منسوب ھے، اور تعجب کامقام تو یہ ھے کہ یھی وہ حربہ ھے کہ جسے ”گلدزیھر“جیسے یھودیوں کی خدمت کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ھے اور ایک افسانہ عبدالله بن سبا کے نام سے بھی گڑھا ھے،اوراس میں اتنا زیادہ دروغ گوئی اورجھوٹ سے کام لیا گیا ھے کہ جسکی حد نھیں ، کبھی تو شیعہ مذھب کو مجوسیوں اور آتش پرستوں کی ایجاد کردہ بتایا ھے تو کبھی شیعہ مذھب کو یھودیوں کی ایجاد بتایاھے تو کسی جگہ پر ”فراماسیو نوں “( تہذیب و تمدن کا نعرہ لگانے والے) کاموجد بتایا گیا ھے ، جبکہ ان کے پاس اس بات کے لئے کوئی دلیل موجود نھیں ھے ، یہ ھے وھابیوں کا واقعی طریقہ کار کہ بغیر ثبوت کے بولتے اور کتابیں لکھتے ھیں اور ایسا ظاھر ھوتاھے کہ گویا انھوں نے شیعوں سے متعلق سارے مسائل اور حقائق کو عالَم غیب سے حاصل کیا ھے اسلئے کسی ثبوت کو پیش کرنے کی ضرورت نھیں سمجھتے۔
کسی بھی طرح کی کوئی تھمت لگانے میںدریغ نھیں کرتے ،اور نہ ھی کسی قسم کی کوئی سند اپنے ان شیطانی اور آزار دھندہ الزامات کے سلسلہ میں پیش کرتے ھیں، در اصل اس مذھب میں فکر اور اندیشہ کی حیثیت ،اوریہ ھے اسلامی وحدت کے شعار اور نعروں کی حقیقت ! اور یہ ھے آزادی و آزادطلبی کی صدا جو کعبہ سے بلند کی جاتی رھی ھے ،بلا وجہ اپنے مخالفین کی فکروں پر پردہ ڈالنا ، گالیاں دینا اور بے ھودہ الفاظ سے یادکرنا در حقیقت یہ ھے اصلاح کا نعرہ لگانے والوں ، توحید کے حامیوں ، دین کی نسبت فکرمند رھنے والوں اور اپنے سلف صالح کی فکروں کو زندہ رکھنے والوں کا طریقہ کار، آپ انصاف سے بتائےں کب پیغمبر(ص) کا طرز عمل ایسا تھا ؟ وہ رسول(ص) جو اپنے پیروکاروں کو غور وفکر ، تدبر اور دلیل سے کام لینے کا حکم دیتا ھے ” قُل ہَاتُوا بُرہَانَکُم اِن کُنتُم صَادِقِینَ۔“
یہ سیاہ قلب ، متعصب اور ملحد گروہ ، خدا کے دین کو اپنی ھوا و ھوس پر قربان کئے ھوئے ھے ، کسی قسم کی کوئی بھی تھمت لگانے سے دریغ نھیں کرتے ، اسی لئے کہتے ھیں کہ یہ مذھب فراماسونیوں کی ایجاد ھے ، جبکہ وہ بچہ بھی جو مذھب شیعہ کی الفباء کوجانتا ھو ، اس کو معلوم ھے کہ فقط شیعہ مذھب ھی وہ مذھب ھے جو پوری تاریخ میں ظالموں،خفیہ ایجنٹوں سامراجوں کی روٹیوں پر پلنے والوں ، ظالم حکومتوں اور رسول(ص) کی خلافت کو غصب کرنے والوں سے برسرپیکار رھاھے، اور تاریخ میں تجاوز کرنے والوں اور جلادوںسے جنگ کرتا رھاھے ، کیا فراماسیونوں کے ایسے ھی اعمال تھے؟کہ اپنے ھاتھوں ایک ایسا مذھب ایجاد کریں کہ جو خود انھیں سے ھمیشہ برسرپیکار رھے،شیعہ مذھب تو وہ مذھب حقہ ھے جس نے خود ھی فراماسونیوں اور ان کے نوکروں سے جھاد کیا ھے ،وھابی حضرات کی یہ بیھودہ اور باطل باتیں ھماری نظر میں اس قابل ھی نھیں کہ ان کے بارے میں بحث کریں لیکن صرف اسلئے کہ کسی کے ذھن میں کوئی شبہ باقی نہ رھے ، تھوڑی وضاحت کئے دیتے ھیں۔

شیعہ مذھب کا آغاز خود رسول اکرم(ص) کے زمانے سے ھوا
پھلی بار شیعہ مذھب کی ابتدا کی جب شیعہ ”علی (ع)کے شیعہ “ کے عنوان سے مشھور ھوئے ، خود رسول مقبول(ص) کے زمانہ میں ھوئی ۔
۲۳ سالہ اسلام کی دعوت اور پیشرفت کے پیش نظر ایسے حالات و اسباب وجود میں آئے کہ جسکی بناپر اصحاب(ص) کے درمیان اس شیعہ فرقہ کا وجود میں آنا ایک عادی اور لازمی بات تھی[1]
۱۔ قرآن مجید کے صریح اور واضح قول کے مطابق اوائل بعثت ھی میں خدا کی جانب سے رسول(ص) کویہ حکم ھوا کہ اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو اپنے دین کی طرف دعوت دو ، اسی وقت رسول(ص) نے صاف اور واضح لفظوں میں فرمایا:
”وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقرَبِیْنَ“(اپنے رشتہ داروں کو ڈراؤ)
” فرمایا: تم میں سے جو بھی میری دعوت اسلام پر لبیک کھنے میں پھل کرے وہ میرا وزیر ، جانشین اور خلیفہ ھوگا ، علی (ع) نے سب سے پھلے اس دعوت پر لبیک کھا اور دین اسلام کو قبول کیا ، رسول(ص) نے بھی آپ کے ایمان کی تصدیق فرمائی اور اپنے وعدے کو پورا کیا۔[2]
جیساکہ یہ بات عادتاً محال و نا ممکن ھے کہ کسی نہضت اور قیام کرنے والے رھبر ، اپنے قیام کی ابتدامیں ھی کسی اپنے ھمایتی کو ، اپنے جانشین کے عنوان سے اعلان کرے ،جبکہ اس سے پوری طرح واقف نہ ھو، اور یہ ممکن نھیں کہ کسی کو اپنے جانشین کے عنوان سے پہچانے اور پہچنوائے ، لیکن اپنی پوری زندگی اسکی جانشین کا کوئی احترام نہ کرے اسکو دئے گئے وظائف جانشینی سے معزول رکھے اور اسکے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نہ کرے ۔

حضرت علی (ع) کاعلم اور آپ کی عصمت
رسول اسلام(ص) کی متواترہ احادیث میں ھے کہ جسے شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ھے ، یہ واضح لفظوںمیں ملتا ھے کہ علی (ع) اپنے قول اور فعل میں خطا اور گناہ سے محفوظ ھیں،[3]
جوبھی علی (ع) کھیں یاکریں ، وھی دین ھے اور شریعت اسلامی کو آپ سے بہتر کوئی نھیں جانتاتھا۔[4]

حضرت علی (ع) کی فداکاریاں اور قربانیاں
حضرت علی علیہ السلام نے بہت اھم خدمات انجام دی ھیں اور حیرت میں ڈال دینے والی قربانیاں پیش کی ھےں مثال کے طور پر ہجرت کی شب[5] رسول مقبول(ص) کے بستر پر سونا، اور وہ جنگیں (بدر و احد ، خیبر اور خندق )جو آپ کے دست مبارک پر فتح ھوئی ھیں، ان جنگوںمیں سے اگر کسی ایک میں بھی آپ کا وجود مبارک نہ ھوتا تو اسلام دشمنوں کے ھاتھوں پامال اور ھمیشہ کے لئے صفحہ ھستی سے ختم ھوجاتا ۔

غدیر خم کا واقعہ
یہ ، وہ واقعہ ھے کہ جس میں رسول الله(ص) نے علی (ع) کو اپنا جانشین بنایا اور اپنے اختیارات کو آپ کے سپرد کیا۔[6]ظاھر ھے کہ اسطرح کے فضائل کہ جسکے سامنے سبھی تسلیم تھے ۔[7]
اور حضرت رسول اکرم(ص) کا علی (ع)کی نسبت اظھار محبت کرناکچھ لوگوں پر بہت گران گذر تا تھا۔[8]
جو مزید حسد اور بغض کا سبب بنتاتھا لیکن وہ اصحاب جو حقائق فضائل کے تشنہ تھے ، ان کے عشق میں اضافہ ھوتا تھا اور علی (ع)کی سیرت طیبہ کو اپنا نے کا جذبہ بڑہتا تھا ۔
ان تمام باتوںسے صرف نظر، خود رسول اسلام(ص) کے کلمات میں ” شیعہ علی “ اور ” شیعہ اھلبیت“ کثرت سے ملتا ھے ۔[9]
ابن عباس فرماتے ھیں کہ یہ آیت :
” اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُولٰئِکَ ہُم خَیرُالبَرِیَّةِ “
نازل ھوئی تو رسول اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:
” اس آیت سے مراد تم اور تمھارے شیعہ ھیں ،جوقیامت میں خوشحال ھوںگے اور خداوند عالم تم سے راضی ھے “ یہ دو حدیثیں ،جو ذکر ھوئیں اور اسکے علاوہ چند روایتیں ” الدّر المنثور“ نامی تفسیرکے جلد ۶ ص ۳۷۹ اور غایة المرام میں ص ۳۲۶ پر نقل ھوئی ھیں ۔

وہ اسباب کہ جنکی بناپر شیعوں کی اقلیّت ، سنّیّوں کی
اکثریت سے جدا ھوئی اور اختلافات ظاھر ھوئے
اگر چہ ھماری بحث اس کتاب میں شیعوں کی شناخت اور شیعیت کی تاریخ سے متعلق نھیں لیکن وھابیوں کے اعتراضات کوردّ کرنے کے لئے ھم مجبور ھیں کہ کچھ شیعوں کی تاریخی حیثیت کا جائزہ لیں ۔
حضرت رسول اکرم(ص) اصحاب اور مسلمانوں کے درمیان ، حضرت علی (ع) کی منزلت اور بزرگی اتنی پر واضح ومسلّم تھی کہ آپ کی محبّت کا دم بھرنے والے اور پیروی کرنے والے اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ رسول اسلام(ص)کی رحلت کے بعد آنحضرت(ص)کے جانشین اور خلیفہ حضرت علی (ع) ھوںگے ، ظاھری حالات بھی ( سواء ے ان مسائل و اختلافات کے جو رسول(ص) کی بیماری کے دوران آخر عمر میں پیش آئے) [10]
پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے ا نتقال سے قبل ارشاد فرمایا : مجھے قلم اور دوات دو تاکہ تمھارے لئےحضرت علی (ع) اور آپ کے اصحا ب باوفا کے سامنے اسطرح ظاھر ھوئے کہ جو کرنا تھا کرچکے۔[11]
لوگ کبھی گمراہ نہ ھو ، عمر نے( نوشتہ )لکھنے نہ دیا اور کھا (آپ پر) مرض اور بیماری کا غلبہ ھے (معاذالله) ہذیان بک رھے ھیں ، تاریخ طبری جلد ا ص ۳۳ا ، ، صحیح مسلم جلد ۵ ، البدایة و النھایة جلد ۵ ص ۲۲۷ اور شرح ابن ابی الحدید جلدا ص۳۳ا ، پر ملاحظہ فرمائیں ۔
بہتر ھے کہ ھمارے قارئین جان لیں ،ا گر چہ وھابی حضرات بے اطلاعی کا اظھار کرتے ھیں در اصل وہ حقیقت سے آگاہ ھوناھی نھیں چاھتے ، کہ یھی واقعہ خلیفہ اوّل ( ابو بکر ) کے مرض الموت کے وقت پیش آیا ، جب ابوبکر ، عمر کو اپنے بعد خلیفہ ھونے کے لئے وصیت کررھے تھے اور وصیت کرنے کے دوران بیھوش بھی ھوگئے لیکن اس موقع پر عمر نے کچھ بھی نہ کھا ، یعنی خاموش رھے اور خلیفہ اوّل ( ابوبکر ) کی طرف ہذیان کی نسبت نہ دی ،جبکہ دے سکتے تھے چونکہ وصیت کرنے کے دوران ھی ابوبکر بیھوش ھو گئے تھے ،جبکہ رسول خدا(ص) تو معصوم تھے اور آپ کا ارشاد گرامی بجا اور بموقع تھا ( در واقع رسول(ص) ، حکم الٰھی کی تکمیل فرما رھے تھے،روضة الصفاء ج۲ ص۲۶۰۔)
ان حالات میںحضرت علی(ع) اور آپ سے عقیدت رکھنے والے جیسے عباس ، زبیر ، سلمان ، ابوذر ، مقداد اور عمار کفن ودفن رسول(ص) سے فراغت کے بعد باخبر ھوئے تو ان حضرات نے اعتراض کیا اور اس سلسلہ میں اعتراض آمیز جلسہ اور جلسات بھی کئے، تو اُدھرسے یہ جواب دیا گیا کہ مسلمانوں کی مصلحت اسی میں تھی ۔[12]
یھی وہ انتقاد اور اعتراض تھا کہ جس نے اقلیت کو اکثریت سے جدا کردیا اورحضرت علی (ع) کی پیروی واطاعت کرنے والوں کو ” علی (ع)کے شیعہ “ کے نام سے پہچانا گیا ، خود ساختہ خلافت بھی وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ھوئے بہت ھوشیارانہ طور سے قدم اٹھارھی تھی کہ کھیں ایسا نہ ھو کہ اقلّیت”حضرت علی (ع)کے شیعہ کے نام “ سے مشھور ھوجائیں اور نتیجہ میں دوطرح کا سماج اقلیت و اکثریت کی شکل میں وجود میں آجائے بلکہ خود ساختہ خلافت تو اس بات کی کوشش میں تھی کہ اس غصبی خلافت کوبھی ایک اجتماعی حل سمجھ کر قبول کرلیں اس لئے اعتراض کرنے والوں کو بیعت کا مخالف اور مسلمانوں کی صف سے علیحدہ ھونے والا یا دوسر ے نازیبا اور برے القاب سے یاد کرتے تھے۔[13]
البتہ شیعہ حضرات پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد ھی غاصب حکومت وقت کی سیاست کا شکار ھوگئے اور زبانی اعتراض کے علاوہ مزید کچھ نہ کرسکے اورحضرت علی (ع) نے بھی اسلام اور مسلمین کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے اور مخلصین افراد اور دوستوں کی قلّت کے پیش نظر تلوار نہ اٹھائی لیکن اعتراض کرنے والوں نے اپنے سچّے عقیدے کی بناپر اکثریت کے سامنے سرنہ جھکا یا اور پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین حضرت علی (ع) ھی کو مانا اور اپنے علمی مسائل میں صرف حضرت علی (ع) کی طرف رجوع کرنے کو ھی صحیح سمجھا[14]اور اپنے علمی اور معنوی مسائل میں فقط حضرت علی (ع) کی طرف رجوع کرتے رھے ، اور لوگوں کواس راہ پر چلنے کی دعوت دیتے رھے۔[15]
قارئین محترم یہ شیعہ مذھب کی پیدائش اورحضرت علی (ع) کی پیروی کرنے والوں سے تاریخ کی مختصر لیکن جامع ورق گردانی تھی ( جو پیش کی گئی ) اور اب ھم وھابیوں کی ان تھمتوں اور بے بنیاد باتوں کا جائزہ لیں گے کہ جسکی یہ حضرات علی کے شیعوں کی طرف نسبت دیتے ھیں غورو فکر ” میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارھا ھوں اگر تم ان سے متمسّک رھوگے تو ھرگز گمراہ نہ ھوگے ( اور وہ ) قرآن اور میرے اھل بیت ھیں کہ جو قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے“ یہ حدیث سو سے زیادہ سندوں کے ساتھ ۳۵ صحابیوں نے رسول اسلام(ص) سے نقل کی ھے اور بہتر ھے کہ وھابی حضرات کہ جو صحابہ کی پیروی کا دم بھرتے ھیں اور شدّت کے ساتھ ان صحابہ کی حمایت کرتے ھیں اسطرح کی حدیثوں کو غور سے پڑھیں کہ جسکو پیغمبر(ص) کے بڑے اور با فضیلت اصحاب نے نقل کیا ھے تاکہ مزید اپنی بے عزتی کا ثبوت فراھم نہ کریں اور محققین اور مؤمنین کو اس سے زیادہ زحمت میں نہ ڈالیں( ورنہ مزید رسوائی ھوگی )حدیث ثقلین کے راویوں کے سلسلہ سند کے ارزش مند کتاب بنام” غایة المرام کے ص اا۲ “کی طرف رجوع فرمائیں۔
سے کام لیں تا کہ حقیقت آپ پر واضح ھو جائے ، البتہ اس کتاب میں واقعہ کی تفصیل پیش کرنا ھمارا مقصد نھیں ھے ورنہ مناسب تو یہ تھا کہ اس اھم مسئلہ سے متعلق کچھ مزید تفصیل پیش کی جاتی تاکہ حضرت علی(ع) اور آپ کی اولادکی مظلومیت بیان کرتے جو آج بھی پوری تاریخ میں مظلوم ھیں ، اور اب تک وھابیوں کی تھمتوں اور غلط بیانی کاشکار ھیں ۔
ھم صرف اتنا ھی کھنے پر اکتفاء کرتے ھیں کہ عبد الله بن سبا کا مسئلہ کہ جسکو وھابی اور ان کے ھم فکر حضرات ،شیعہ مذھب کا موسس اور بانی کہتے ھیں ، اسکی حقیقت ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نھیں۔
اگر ھم عبدالله بن سبا نامی افسانہ کو حقیقت فرض کریں تب بھی شیعہ مذھب پر کوئی آنچ نھیں آسکتی اسلئے کہ یہ پاک و پاکیزہ مذھب خود رسول مقبول(ص) کے زمانہ سے ھے اور اسلام و قرآن کی نسبت حضرت علی (ع) کے افکار کے سایہ میں رھنا ھی اس پاک و پاکیزہ شیعہ مذھب کا نصب العین ھے جسکی خود پیغمبر ، نے بارھا تائید اور تصدیق فرمائی ھے[16]
محققین اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والے حضرات اس سلسلہ میں مزید تفصیل کے لئے گرانقدر اور ارزشمند کتاب بنام” عبدالله بن سبا و افسانہ ھای دیگر“ مؤلف محقق بزرگوار علامہ سید مرتضیٰ عسکری دام عزہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

تحریف قرآن کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ
اور وھابیوں کے اعترضات
انھیںتھمتوں میں سے ایک باطل بے بنیاد اور محض کذب نسبت وہّابی حضرات شیعوں کی طرف دیتے ھیں ، اور وہ تحریف قرآن کریم کامسئلہ ھے ، اس سے قبل ھم نے قرآن کی تحریف سے متعلق محمدبن عبدالوھاب کاکلام اسکی مشھور کتاب بنام ” الردّ علی الرافضہ “ سے نقل کیا اور اب قارئین کرام کے اذھان کو مزید روشن اور منور کرنے کے لئے نیز یہ ثابت کرنے کے لئے کہ محمد بن عبدالوھاب کی طرف سے لگائی تحریف قرآن سے متعلق یہ تھمت اور صرف ایک جھوٹ ھے ، شیعوں کے بزرگترین قرآن شناس علماء میں سے ایک عالم بزگوار قرآن شناس اور ھم عصر مفسّر گرانقدر مرحوم علامہ طباطبائی (رہ) کا نظریہ مذکورہ مسئلہ( تحریف قرآن) سے متعلق پیش کرتے ھیں تاکہ جھوٹے رسوا ھوں ، ( اور اگر ذرہ برابر بھی غیرت رکھتے ھوں تو چلو بھر پانی میں ڈوب مریں) اور شیعوں کی طرف مزید ایسی بے بنیاد تھمتیں لگانے کی ھمّت نہ کریں ۔

قرآن مجید میںتحریف نہ ھونے کے بارے میںعلامہ طباطبائی کا نظریہ
آپ اس سلسلہ میں یوں فرماتے ھیں کہ قرآن مجید کی تاریخ ، نزول سے لیکر آج تک بہت زیادہ روشن اور واضح ھے قرآن مجید کے سورے اور آیتیں ھمیشہ مسلمانوں کی ورد زبان رھیں اور اسی طرح ایک دوسرے تک پھونچی ھیں ۔
اور یہ بات تو ھم سب کو معلوم ھے کہ دو دفتیوں کے درمیان جو قرآن ھمارے ھاتھوں میں ھے یہ وھی قرآن ھے جو چودہ سو سال پھلے ختمی مرتبت(ص) پر تدریجاً ( تھوڑا تھوڑا کرکے ) نازل ھوا ھے ۔
اس توصیف کے بعد مزید کوئی ضرورت باقی نھیں رہتی کہ قران مجید کومعتبر جاننے اوراسکی واقعیت کو ثابت کرنے کے لئے تاریخ کا سھارا لیں اگر چہ قرآن مجید کی تاریخ خود اپنے مقام پر واضح اور مسلّم ھے چونکہ جو کتاب خود کلام خدا ھونے کا دعویٰ کرے اور اپنے اس دعویٰ کے صحت اور صحیح ھونے پر آیتیں پیش کرے بلکہ اس سے بھی بڑھکر جنّات اور انسانوں کو للکارتے ھوئے اپنے جیسا( ایک چھوٹا ساسورہ بھی ) لانے سے عاجز بتائے تو اس صورت میں یہ کھنا کہ یہ قرآن کلام خدانھیں ھے اور اس میں تحریف واقع ھوئی ھے ، یا اس طرح کی باتیں کرنا عقل سے بعیدھے، اور جب وہ ( قرآن مجید ) خود اپنے اوپرواضح دلیل ھے تو پھر اسکے صحیح اور معتبر ھونے میں کسی عھدہ دار ، شخص اور دلیل کی ضرورت باقی نھیں رہ جاتی ،یعنی یہ قرآن وھی ھے جو پیغمبر اکرم، پر نازل ھواتھا ، اور ھر طرح کی تحریف سے محفوظ ھے اور اسکی واضح دلیل یہ ھے کہ جو صفتیں اور امتیازات قرآن مجید نے اپنے لئے بیان کی ھیں ( وہ) نور کی کتاب اور ھدایت بنکر نازل ھوئی اور انسانوں کو حق اور حقیقت کی طرف راھنمائی کرتی ھے ۔
دوسری آیت میں یوں ارشاد ھے : میں وہ کتاب ھوں جس میں دوچیزیں بیان کی گئی ھیں ، یعنی ھر اس چیز کا بیان قرآن مجید میں موجود ھے کہ جسکی ،بشرکو اپنی زندگی میں ضرورت پڑ سکتی ھے، البتہ انسان کی فطرت بھی اسکی خواھا ںھو ۔
ایک اور آیہٴ کریمہ میںیوں بیان ھوا ھے کہ میں خدا کا کلام ھوں اور اگر یہ کھو کہ یہ خدا کا کلام نھیں ھے تو سارے انسان اور جنّات جمع ھو جائیں اور ایسا ھی کلام ( قرآ ن کے مانند )لا کر دکھائیں، یا کوئی شخص پیغمبر(ص) کی طرح لاکر دکھائے جس نے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ھو وہ بھی جاھلیت کے ماحول میں یتیمی کے عالم میں جبکہ کوئی تربیت کرنے والا بھی نہ ھو جس کے سایہ عطوفت میں نشو و نماپائے ( ان سب چیزوں کے باوجود اس سے آیات قرآن کریم جیسے فصیح و بلیغ کلام صادر ھوں ، یا اس کتاب الٰھی میں اس طرح کے طرز بیان میں کوئی اختلاف یا معارف اسلامی اور احکام بیان میں کوئی فرق جو عام طور سے انسانوں کی گفتگو میں نظر آتا ھے ، نھیں دکھاسکتا ( اور ھرگز ایسا کرنے پر کوئی بھی قادر نھیں )
مذکورہ بالا یہ امتیازات اور صفات قرآن مجید ھی سے مخصوص ھیں اور آج تک ( بلکہ قیامت تک ) اسی طرح باقی رھیں گے ۔
قرآن مجیدوہ کتاب ھے جو حق اور حقیقت کی طرف رھنمائی اور ھدایت کرتی ھے ، خود اس کتاب کے واضح بیان میں خدا شناسی سے متعلق مکمل بحث موجود ھے جو دقیق ترین عقلی دلیلوں کے مطابق ھے ، اور انسان کی سعادت مند زندگی کے لئے اھم ترین مرجع اور پناہ گاہ ھے ، حق اور حقیقت کو واضح کرنے والی ھے اور یہ کتاب لوگوں کی نیک نیّتی اور عاقبت کو مد نظر رکھتے ھوئے انھیں ایمان کی طرف دعوت دیتی ھے ۔
قرآن مجید نے انسان کی تمام ضروریات زندگی اور اسکی حقیقت کو مد نظر رکھتے ھوئے الله تعالیٰ کی وحدانیت کو اصل اور بنیادقرار دیا ھے اور سارے اعتقادی مسائل کو اس کا نتیجہ بتا یا ھے اور اس سلسلہ میں چھوٹے سے چھوٹے مسائل سب بیان کردئے ۔
انسان میں پسندیدہ اخلاق کو اس مسئلہ اعتقادی کانتیجہ بتایا ھے اور اسکی وضاحت کی ھے اسکے بعد انسان کے انفرادی اور اجتماعی اعمال اور افعال کی طرف توجہ دلاتے ھوئے انسان کی فطرت اور خلقت کے مطابق کلی طورپر اسکے فرائض اور وظائف کو بیان کیا ھے ، البتہ اس سلسلہ میں (انفرادی اور اجتماعی مسائل کے سلسلہ میں ) جزئیات اور خصوصیات کے بیان کو رسول(ص) کے سپرد کیاھے ۔
جملہ کتاب اور سنّت کی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ھوئے اگر دین مبین اسلام پر نظر ڈالیں تو اسلام اپنی تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ نظر آئے گا ، وہ دین جس نے انسان کی پوری زندگی کی انفرادی اور اجتماعی ضروریات کو مد نظر رکھا ھے اور سارے انسان اپنی پوری زندگی میں جن مسائل سے دوچار ھوسکتے ھیں ان مسائل کا حل اور اسکے لئے حکم پیش کرتا ھے بغیر اسکے کہ اس کے بیان میںکسی قسم کا تضادنظر آئے ۔
یہ وہ دین ھے کہ جسکی فھرست کا صرف تصور ھی بڑے بڑے حقوق شناس افراد کی حد سے باھر ھے چاھے وہ اپنی پوری زندگی اس مسئلہ ( فھرست ) کو ھی سمجھنے میں صرف کردیں ۔
قرآن مجید کااپنے بیان میں معجزنما ھونا،اور اس کتاب الٰھی کی فوق العادہ طرز گفتگو عربوں کے فصیح و بلیغ دور سے مشابہت رکھتی ھے ، تاریخ کا سنھرا دور تھا جو اس وقت کے عربوں سے مخصوص تھا اور یہ فصاحت اور بلاغت کا دوربمشکل پھلی صدی تک رہ سکا جب اس پھلی صدی میں اسلام کا پر چم دوسری سرزمینوں پر لھرایا تو دوسری زبانوں نے عربی زبان کو متاثر کیا اور اسکا نتیجہ یہ ھوا کہ عربی زبان بھی دوسری زبانوں کی طرح ایک عام لہجہ اختیار کرگئی اور اپنی فصاحت اور بلاغت کوکھو بیٹھی ۔
اسکے باوجود قران مجید اپنے روش اور اسلوب پر ھوبھوباقی ھے اور اپنے معنوی نقطئہ نظر کے ساتھ ، لفظی لحاظ سے معجزہ ھونے کا دعویدار ھے ۔
جو لوگ عربی زبان سے بخوبی واقف ھیں اور نظم و نثر میں ید طولیٰ رکھتے ھیں وہ یہ کھنے پر مجبور ھیں کہ قرآن مجید کا لہجہ اتنا شیرین اور دل ربا ھے کہ انسان اسکی پور ی زیبائی کو درک کرنے سے عاجز اور اسکی توصیف کرنے سے قاصر ھے ، نہ شعر ھے اور نہ ھی نثر بلکہ دونوں لہجہ ھیں، اور سلیقہٴ بیان اس طرح اس میں جلوہ گر اور موجزن ھےں کہ شعر سے زیادہ جذابیّت اور نثرسے زیادہ بیان میں روانی واضح طور پر محسوس ھوتی ھے ، قران مجید کی ایک آیت یا ایک جملہ گذشتہ زمانے کے کسی فرد کے خطبوں کے درمیان یا آج کے لکھنے والوں کے مکتوبات کے درمیان چراغ کے مانند ھے جوساری تحریروں پر سایہ فگن ھے ۔
معنوی نقطئہ نظر سے بھی قرآن مجید کا اعجاز پھلے کی طرح آج بھی باقی ھے اور اعتقادات اور اخلاقیات کا وسیع خزانہ ھونے کے ساتھ ساتھ اسلام کے انفرادی اور اجتماعی قوانین کا ایسا مجموعہ ھے کہ جسکے بنیادی اصول اور کلیات کا سرچشمہ قرآن مجید ھے جسمیں نہ تو کوئی خدشہ ھے اور نہ ھی کوئی تضاداور تناقض کہ اس طرح کامجموعہ تیار کرنا انسان کی صلاحیت سے بالاتر ھے خصوصاً ایسے انسان کے لئے جسکی زندگی کے حالات رسول(ص) کے زمانے جیسے ھوں ۔
وہ بھی ایسی کتاب ( قرآن مجید ) کہ جسکی آیتیں ھم آھنگ اور اسکے اجزاء کا ایک دوسرے سے متشابہ ھونا وہ بھی ۲۳ سال کی مدت میںبحران اور پر آشوب حالات میں سخت ترین اور ناامن ترین حالات میں جو جنگ و جدال اور صلح سے دوچار ھو، تو کبھی خلوت اور تنھائی تو کبھی لوگوں کی کثیر تعداد کے درمیان جسکی کچھ آیتیں سفرکی حالت میں تو کچھ آیتیں حضرکی حالت میں لیکن ان سب کے باوجود آیات میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہ ھونا انسان کی توانائی اور اس کی طاقت سے کھیں بالاتر ھے ۔
خلاصہ کلام یہ ھے کہ وہ سارے اوصاف جوپیغمبر(ص) پر نازل شدہ کتاب میں موجود تھے وہ ساری صفات اس قرآن مجید میں موجود ھیں جو ھمارے پاس ھے اور اسمیں کسی قسم کی کوئی تبدیلی یا تحریف واقع نھیں ھوئی ھے ۔
ان سب باتوں کے علاوہ خود خداوند متعال نے ھمیں قرآن مجید کے ھر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ھونے کی خبر دی ھے ، جیسا کہ خداوند عالم فرماتاھے:
” اِناَّ نَحْنُ نَزَّلنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ “ [17]
”بے شک ھم نے ھی اس ذکر ( قرآن مجید ) کو نازل کیا ھے اور ھم ھی تو اسکے حافظ اور نگھبان ھیں “
اور ایک دوسری آیت میں ارشاد ھوتاھے :
” وَ اِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ َلا یَاتِیہِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیہِ وَلاَمِن خَلفِہِ تَنزِیلٌ مِن حَکَیمٍ حَمِیدٍ “[18]
یہ قرآن تو یقینا ایک عالی رتبہ کتاب ھے کہ جھوٹ نہ تو اسکے آگے ھی پھٹک سکتا ھے، نہ اسکے پیچھے سے ( باطل کا اسکے قریب سے گذر ھی نھیں ھوسکتا اور نہ اسکے قبل ھی کوئی کتاب ایسی کتاب آئی ھے جو اسے باطل کرسکے ) اور خوبیوں والے دانا ( خدا) کی بارگاہ سے نازل ھوئی ھے۔
ان مذکورہ آیات کے پیش نظر قرآن مجید بالخصوص اس لحاظ کے تحت کہ خدائے سبحان کی ذات اقدس کی طرف متوجہ کرنے والی حقیقی معارف کی طرف راھنمائی کرنے والی کتاب ھے اور ھر طرح کی تباہ کرنے والی گزند سے خدائے متعال نے اسے محفوظ رکھاھے ، اور یھی خداوند عالم کا وعدہ بھی ھے کہ جسکی بناپر یہ کتاب الٰھی چودہ صدی کے بعد آج بھی سیکڑوں اور لاکھوں دشمنوں کے باوجود محفوظ ھے اور صرف یھی کتاب ( قرآن مجید ) ھی ھے کہ جو اتنا طولانی زمانہ گذارنے کے بعد بھی آج تک بشر کے درمیان محفوظ ھے ۔[19]

تقیہ کے بارے میں شیعوں کاعقیدہ
اور وھابیوں کے اعتراضات
وھابیوں کے اعتراضوں میں ایک یہ بھی ھے کہ شیعہ تقیہ کے قائل ھیں ، یہ کم فکر اور نافھم افراد یہ سوچتے ھیں کہ تقیّہ یعنی جھوٹ بولنا ، اور تقیہ کے جائز ھونے کو جھوٹ کا جائز ھوناسمجھتے ھیں، ایسا لگتا ھے اسلام کے اتنے اھم حکم شرعی جسکے آثار اور فوائد بھی بہت ھیں اور حسّاس ترین شرائط میں راھگشا ھے ، جس کو وہ سمجھ ھی نھیں سکے ھیں اس لئے شیعوں پر شریعت کی مخالفت اور خدا و رسول(ص) کی طرف جھوٹ کی نسبت کا الزام لگاتے ھیں ، جیسا کہ ھم نے اس سے پھلے وھابیت کی بنیاد رکھنے والے کا قول اس سلسلہ میں آپ کے لئے نقل کیا لیکن اس جگہ پر تقیہ کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ سے متعلق کچھ توضیحات پیش کررھے ھیں ( تاکہ کسی قسم کاکوئی شبہ باقی نہ رہ جائے )
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے معتبر سندوںکے ساتھ نقل ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:
” اَلتَّقِیَّةُ دِینِی وَ دِینُ آبَائِی وَ مَن لاَ تَقِیّةَ لَہُ لَا دِینَ لَہُ “
”تقیّہ ھمارے اور ھمارے آباء و اجداد کا دین ھے جو تقیہ سے منھ موڑے اور گریز کرے وہ بے دین ھے یھاں پر امام (ع)نے تقیہ سے متعلق عقیدہ کو دوسرے عقائد کی فھرست میں شمارفرمایاھے۔
جب بھی کسی انسان کو کوئی ایسا خطرہ در پیش ھو کہ جس کی بناء پر وہ اپنی جان اور مال کے بارے میں اپنے عقیدہ کو ظاھر کرنے کی وجہ سے خوف محسوس کرتا ھے تووہ ھر حال میں اپنے عقیدہ کو چھپائے گاتاکہ اپنے کو خطرات سے محفوظ رکھ سکے اور یہ ایک ایسی چیز ھے کہ جسکی انسان کی فطرت اور عقل گواھی دیتی ھے ، تو پھرھمیںیہ جان لیناچاہئے کہ تقیہ کا حساب جھوٹ اور ڈر سے جدا ھے بلکہ تقیہ ایک ایسا طریقہ ھے کہ جسکے ذریعہ انسان اپنے رازوں کو پوشیدہ رکھ سکتاھے اور یہ بات وھابیوں کے اس دعوے کے بالکل خلاف ھے کہ جسکی نسبت وہ شیعوں کی طرف دیتے ھیں چونکہ یہ ( تقیہ کا طریقہ ) نہ تو عقل کے خلاف ھے اور نہ ھی شرع مقدس کے ، اس لئے کہ دشمن کے مقابلہ میں اسرار ( رازوں ) کو چھپانا چاہئے تاکہ قدرت اور قوت کے ساتھ اپنی او راپنے دین کی حفاظت کر سکےں اور خدا کی راہ میں جھاد کا باب بھی ھمیشہ کھلا رھے یہ کھاں بزدلی اور جھوٹ ( جو ایک بڑی اور ناپسند عادت ھے )ھے ؟!
یہ بات سب پر واضح ھے ائمہ (ع) اوران کے پیروکار ھمیشہ ھر زمانہ میں حوادث ،طوفانوں اور سختی میں رھے ھیں ، اس لئے ناچاری صورت میں بہت سے مواقع پر یہ ضروری تھا کہ تقیہ سے کام لیں اور اپنے اعمال اور عقائدکو مخفی کر کے اپنے کو دشمن کے خطرات سے محفوظ کر سکیں اور اگر ایسا نہ کرتے تو دنیا وی اور دینی نقصانات سے دوچار ھوتے ، اس لئے فقط شیعہ اثناء عشری حضرات ھی (یعنی ایثارگر ) تقیہ کے عنوان سے پہچانے گئے اور جھاں جھاں تقیہ کی بات ھوتی ھے شیعیت کا اس کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رھا۔
البتہ یہ جان لینا ضروری ھے کہ تقیہ واجب ھونے اور نہ ھونے کے اعتبارسے جب ضرورت ھو ( خوف اور نقصانات ) جو احکام ھیں اسے شیعہ فقھاء ( کثرالله امثالھم ) نے اپنی فقھی کتابوں کے مخصوص ابواب میں بحث کی ھے ۔
ایسانھیں ھے کہ تقیہ ھر جگہ واجب ھو بلکہ کبھی تقیہ جائز ( مستحب ، مباح اور مکروہ ) ھوتاھے اور بعض اوقات تقیہ نہ کرنا واجب ھو جاتاھے اور یہ مقام اس وقت ھے جبکہ حق کے اظھار سے دین کی مدد ھو نیز جھاد اور اسلام کی خدمت درکار ھو ، ایسے مقامات پر جان اور مال کو اھمیت نھیں دیناچاہئے بلکہ جان و مال کو دین پرفدا کردیناضروری ھے اور یہ وہ چیز ھے جس کے ا دراک سے وھابی حضرات عاجزھیں لہٰذا تقیہ کے مسئلہ میں شیعوں کے مقصد سے غافل رھے ھیں فقط شیعوںکی تکفیر اور تقسیق کو ھی اپنا شیواقرار دیاھے ، یہ ھے وھابیوں میں حقیقت جوئی اور تحقیق کی منزل ۔!
کبھی ایسا بھی وقت آتا ھے جھاں تقیہ کرنا حرام ھوتاھے مثلاًایسے موقع پر تقیہ کرنا جو کسی مؤمن کے قتل کا سبب بنے یاباطل کی ترویج ، دین میںفساد یا ایسا نقصان جوناقابل برداشت ھو یا اگر اس سے چشم پوشی کی جائے تو گمراھی یا ظالم کے تجاوز کا سبب بنے اور یہ بھی ان ھی چیزوں میں سے ھے جس سے وھابی غافل رھے ھیں اور جھل و نادانی کی بناپر شیعوں پر غلط نسبتیں دیتے ھیں اور تھمت و جھوٹ جیسے ناروا الزامات کے لئے زبان درازی کرتے ھیں ۔

تقیہ کے بارے میں شیعوں کا نظریہ
تقیہ کے بارے میں شیعوں کا ھرگز یہ نظریہ نھیں ھے کہ اسکے ذریعہ کوئی مخفی گروہ بربادی اور تباھی کے لئے تیار کریں جیسا کہ بعض دشمنوں اوروھابی فرقہ کاکھنا ھے، یہ جاھل او ردل کے اندھے بجائے اسکے کہ تقیہ کے بارے میں کوئی تحقیق کرنے یا اسکے مقامات کو در ک کرنے کی کوشش کرتے، تقیہ کے بارے میں ایسا جاھلانہ تصور لیکر بیٹھ گئے اور اپنے کو تحقیق کرنے کی زحمت دینا گوارا نہ سمجھا تاکہ تقیہ کے بارے میں شیعوں کے صحیح نظریہ کو خود شیعوں کی معتبر کتابوں سے حاصل کرتے اور اس عظیم مسئلہ کو درک کرنے کی کوشش کرتے۔
نیز تقیہ کامقصد اور غرض یہ بھی نھیں ھے کہ دین اور اسکے احکام کو ایک پوشیدہ راز کی طرح چھپا کررکھاجائے اورکسی غیر شیعہ کے لئے اس پوشیدہ راز کو فاش نہ کیا جائے ایسی صورت میں اسلام کی تبلیغ جیسے فریضہ کا انجام کیا ھوگا ؟ھمارا فریضہ ھے کہ اسلام کو اسکے محاسن کے ساتھ پیش کریں، چنانچہ شیعوں کی فقھی اور کلامی کتابوں نے تقیہ کو اس طرح پیش کیا اور پہچنوایا ھے جبکہ اسلام کی تبلیغ کو اھم وظائف میں شمار کیا ھے ۔
جس تقیہ کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کو مخالفین شیعیت نے اپنے لئے ثبوت کی حیثیت دی ھے تاکہ تقیہ کو غلط طریقے سے پیش کرکے شیعوں کے خلاف زبان درازی کرسکیں گویا ان کے عداوت اور نفرت کے شعلے خاموش نہ ھوں گے مگر اس صورت میں کہ شیعہ تقیہ کرنا ترک کردیں اور اپنے کو دشمنوں کے ہجوم سے محفوظ نہ کرسکیں اور ان کی گردنیں اسلام کے بڑے دشمنوں یعنی بنی امیّہ اور بنی عباس کے نا خلف اولادوں کے خنجروں کے نیچے آجائے تا کہ کلی طور پر شیعیت کا خاتمہ ھو جائے اور ان کی نسل باقی نہ رھے ،اس زمانہ میں جب کہ شیعہ ھونا ھی ان کے خون بھانے کے لئے آل محمد(ص) کے دشمنوں یعنی بنی امیّہ ، بنی عباس اور عثمانیوں کے ھاتھوں کافی تھا تو اس تقیہ جیسے معقول طریقے کے علاوہ کون سی چیز اس بے دفاع اقلیت ( شیعیت ) کو محفوظ کرسکتی تھی ، لہٰذا تقیہ ھی وہ چیز تھی کہ جس کی وجہ سے یہ نورانی اور مقدس مذھب تاریخ میں نور افشانی کررھا ھے۔
جوشخص ھمیشہ اعتراض تراشی کی فکر میں رہتاھے اور چاہتا ھے کہ موضوع تقیہ کو اعتراضات کی وجہ قرار دیکراس تصورمیں رھے کہ تقیہ دین کی نظر میں مشروع اور درست نھیں ھے تو ھم اس سے کھیں گے کہ :
اول : ھم اپنے ائمہ(ع) کے پیروکار ھیںاور ان حضرات کے ھدایت کردہ راستوں کو اپناتے ھیں ، اور ائمہ(ع) (ع) نے ضروری موقع پر تقیہ کا حکم فرمایاھے اور ان حضرات کی نظر میں تقیہ، دین کا جزء ھے جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں :
” من لا تقیّة لہ لادین لہ “ ( جو تقیہ نہ کرے وہ بے دین ھے )
دوم: تقیہ کے مشروع ھونے کے سلسلہ میں قرآن مجید میں واضح طور پر بیان موجود چنانچہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے جو بھی ایمان لانے کے بعد خداوند عالم کامنکر ھو جائے یا کفر اختیار کرے ” اِلَّا مَن اُکرِہَ وَ قَلبُہَ مُطمَئِنٌّ بِالِایمَانِ “[20]
”جو شخص جبر اور اکراہ ک&# 1740; صورت میں منکر(خدا) ھوں، لیکن ان کے دل میں ایمان کی شمع روشن ھو“ سوائے ان کے ان پر خداوند متعال کا غضب ھو ۔
&# 1740;ہ آیہ ٴشریفہ عماریاسرۻ کے بارے میں نازل ھوئی ھے کہ آپ نے کفار کی ڈر سے کفر کا اظھار کیا در حالیکہ ان کا دل ایمان سے مالامال تھا ، اور اس آیہٴ کریمہ اور گفتار رسول اسلام کی روسے وہ معذور اور بے گناہ پہچانے گئے۔
الله تعالیٰ سورہ آل عمران کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ھے:
” کہ مؤمنین ، کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سرپرست نہ بنائیں او رجو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نھیں :
” اِلّا اٴَنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاةً “ مگر یہ کہ دشمنوں سے تقیہ کریں۔
( اس ظاھر ی صورت میں ان سے دوستی کے اظھار میں کوئی مانع نھیں ھے )
خداوند عالم سورہ غافر کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ھے:
”وَقالَ رَجُلٌموٴ مِن آلِ فِرعَونَ یَکتُمُ اِیمَانَہُ “
”اور فرعون کے لوگوں میں ایک ایماندار شخص ( حزقیل ) تھا جو اپنے ایمان کو چھپائے رہتاتا تھا“
جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں تقیہ کے جواز کی طرف اشا رہ موجود ھے۔[21]

قرآن کے ظاھر و باطن کے متعلق شیعوں کا نظریہ
اور اس سلسلہ میں وھابیوں کے شبھات
اعتقادکی اھم بحثوں میں جو فلسفہ اور عرفان شیعیت میں ایک بلند و بالامقام اور ایک مخصوص اور ممتاز درجہ رکھتی ھے ،قرآن مجیدکے ظاھر وباطن بلکہ عالم وجود کاظاھر وباطن مسئلہ ھے شیعہ فلاسفہ اور علماء عرفان حضرت رسول(ص) اورائمہ کی پیروی کرتے ھوئے ظاھر اور باطن قرآن کے قائل ھوئے ھیں ، چنانچہ عالم ھستی کے لئے بھی ظاھر اور باطن کو تسلیم کرتے ھیں ۔
لیکن ظاھر پرست اور نا فھم منجمد وھابی ان اھم اور عمیق مطالب کے منکر ھیں ھمیشہ کی طرح گویا تھمت ، تکفیر اور نا سزا الفاظ کھنے کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نھیں ھے گویا ان کے ھاتھ چھوٹے اور کھجوربہت اونچائی پرھے اور بقول مولانارومی :

دانہ ھر مرغ اندازہٴ وی است
طعمہٴ ھر مرغ انجیری کی است؟!

” پرندہ کے لئے دانہ اس کے اندازہ کے مطابق ھے ، مرغیوں کے لئے انجیر بطور غذا کیسے فراھم ھو سکتی ھے “
فلسفہ اور عرفان کے عمیق مسائل سے ان کاکیا ربط یہ لوگ تو تشبیہ ، تجسّم ،جبر اور قدر کے متعلق چند حدیثوں سے لپٹے ھوئے ھیں اور اسلامی معارف سے متعلق انھیں مزید کچھ نھیں معلوم ، حقیقت تو یہ ھے کہ وھابیت جیسا سست اور سطحی مذھب کیونکر اس قدر دقیق و فلسفی اور عرفانی مطالب کو درک کرسکتا ھے ۔

حلّاج برسردار این نکتہ خوش سراید
کز شافعی می پرسد امثال این مسائل

”ھم اس سلسلہ میں شیعہ مذھب کے نورانی اصول کی وضاحت کی خاطر مختصراً پیش کررھے ھیں اور مفصّل بحث اس موضوع سے متعلق کسی دوسرے وقت کے لئے چھوڑتے ھیں ۔
خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
” وَ اعبُدُوا اللهَ وَلاَتُشرِکُوا بِہِ شَیئاً “ [22]
”اور خدا ھی کی عبادت کرو اور کسی کو اسکا شریک نہ بناؤ“
اس کلام سے ظاھر تو یہ ھے کہ معمولی بتوں کی عبادت و پرستش کرنے سے روکاجارھاھے ، چنانچہ الله تعالیٰ کا فرمان ھے : ” فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الَاوثَانِ “
”پلیدی اور کثافت سے دور رھو ،یعنی بتوں کی پلیدی اور کثافت سے دور رھو۔
لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ تبوں کی عبادت سے اسلئے روکا گیا ھے چونکہ یہ خداوند عالم کے سوائے کسی اور کے سامنے خضوع اور خشوع ھے ، اوربت کی عبادت اور پرستش میں کوئی خاص چیز نھیں ھے اور یہ بالکل بے فائدہ ھے ، جیسا کہ الله تعالی ٰ نے شیطان کی اطاعت کو اسکی پرستش بتایا ھے ،فرماتا ھے:
” اَلَم اَعہَد اِلَیکُم یَا بَنِی آدَمَ اَن لَّا تَعبُدُوا الشَّیطَانَ “[23]
” اے اولاد آدم !کیا میں نے تمھارے پاس یہ حکم نھیں بھیجاکہ ( خبردار ) شیطان کی پرستش نہ کرنا “
اگر اسے دوسرے لحاظ سے دیکھا جاے تو اس بات کا اندازہ ھوجائیگا کہ اطاعت اور سر تسلیم کرنے میں خود انسان کے در میان اور اسکے علاوہ کوئی فرق نھیں ھے چنانچہ کسی غیرکی پیروی اور اطاعت کرنا صحیح نھیں ھے، اور نہ ھی خداوند عالم کے مقابلہ میںاپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرنا ھی درست ھے۔
جیسا کہ خدا وندکریم نے بطور اشارہ فرمایا ھے:
” اَفرَاَیتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ہُوَاہُ“[24]
”کیا تم نے اس شخص کوبھی دیکھا جس نے اپنے نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ھے ۔“
اور اگر اس مسئلہ کی دقّت سے تحقیق وبررسی کریں تو معلوم ھوگا کہ خداوند عالم کے علاوہ کسی غیر کی طرف توجہ نھیںکرنا چاہئے اور اس معبود و رب ذو الجلال سے غفلت نہ کرنے کا حکم ھے چونکہ خدا کی ذات کے علاوہ کسی غیر کی طرف توجہ کا مطلب یہ ھے کہ وہ شئی مستقل ھے اور اس شئی کے سامنے خضوع کرنا ، انکساری سے پیش آنا، نا درست ھے اور غیر خدا کی طرف توجہ نہ کرنا ھی ایمان اور روح عبادت اور پرستش ھے جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے :
” وَ لَقَد ذَرَانَا لِجَہَنَّمَ کَثِیراً مِّنَ الجِنِّ وَ الِانسِ “ یھاں تک کہ فرمایاھے کہ
”اُولٰئِکَ ہُمُ الغَافِلُونَ “[25]
”اور گویا ھم نے خودبہت سے جنّات اور آدمیوں کو جھنّم کے لئے پیدا کیا ، … اور یھی لوگ ( مورد حق سے ) بالکل بے خبر ھیں ۔
چنانچہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آیہٴ کریمہ ” وَلاَ تُشرِکُو بِہِ شَیئاً “ سے ابتدائی طور پر یہ ایسا ظاھر ھوتا ھے کہ بتوں کی عبادت اور پرستش نھیں کرنا چاہئے اور وسیع نظر سے کام لیں تو یہ کہہ سکتے ھیں کہ انسان خداکے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرے اور اس سے بھی زیادہ وسعت نظری یہ ھے کہ انسان کا جیسے دل چاھے اسطرح نہ رھے اور اس سے بھی وسعت نظر کے ساتھ کہہ سکتے ھیں کہ انسان کو خداوند منّان سے غافل نھیں ھو نا چاہئے اور اس ذات حق کے علاوہ کسی کی طرف توجہ نھیں کرنی چاہئے ۔
اور یھی ترتیب یعنی آیہٴ کریمہ کے ابتدائی اور عام فھم معنی کا ظاھر ھونا اسکے بعد اس سے زیادہ وسیع معنی، اور اسکے بعد ایک معنی کا وجود میں آنا اور ظاھر ھونا پھلے معنی کے پیش نظر، اور یہ سلسلہ پورے قرآن مجید میں جاری اور ساری ھے ، اگر اس کے معنی میں غور و فکر کریں کہ جو پیغمبر اسلام(ص) سے منقول اور حدیث و تفسیر کی کتابوں میں موجود ھے:
” اِنَّ لِلقُرآنِ ظَھراً وَ بَطناً وَ لِبَطنِہِ بَطناً اِلیٰ سَبعَةِ اَبطُنٍ‘ ‘
”قرآن کریم کے ظاھر وباطن ھے اور اس کے بطن کے لئے بھی سات بطن ھیں“
سے بات واضح ھو جاتی ھے ۔
لہٰذا مذکورہ بالا مطالب کے مد نظر ، قرآن مجید میں ظاھر و باطن دونوں معنی استعمال ھوا یہ دونوں معنی ایک ھی ردیف میں ھیں نہ کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں نہ تو ظاھر لفظ باطنی معنی کی نفی کرتا ھے او رنہ ھی معنی باطنی ظاھری ارادہ کے لئے مزاحم ھے۔[26]

مسئلہ رجعت سے متعلق وھابیوں کی فتنہ گری
رجعت کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ ، شیعوں کے اھم ترین مسائل میں سے ایک ھے شیعوں کے بڑے بڑے علماء اور شیعہ محققین نے رجعت سے متعلق بہت سی کتابیں لکھی ھیں ، یہ مسئلہ توشیعوںکے افتخارات میںسے ھے ، یہ مسئلہ توشیعوں کے عمیق دشوار اور فلسفی مسائل میں سے ھے جسے وھابی حضرات درک کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت نھیں رکھتے،ھنسی اڑانے ، تھمت لگانے اور برے الفاظ کھنے کہ سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نھیں اور اس طرح اپنی آبرو عزت کھونے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور کام نھیں ، ان کے یھاں فلسفہ کے سست مبانی ایسے سنگین اور دشوار فلسفی مسائل کو برداشت کرنے کی صلاحیت نھیں رکھتے ۔
لیکن بحمد للہ شیعوں کے یھاں ایسے سخت اور دشوار مسائل کا حل بخوبی موجود ھے اور شیعوں کی طرف سے اس سلسلہ میں مناسب جوابات دئے گئے ھیں ،ھم قارئین کرام کی مزید اطلاع کے لئے اس اھم مسئلہ کے بارے میں اختصارکے ساتھ کچھ وضاحت پیش کرتے ھیں۔
ان عقائد میں سے جس کے شیعہ اثناعشری اھلبیت (ع) سے منقولہ روایات کی بناپر معتقد ھیں ، رجعت کا عقیدہ ھے یعنی خداوند متعال کچھ مردوں کو اسی صورت اور جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کرکے دنیا میں پلٹا ئے گا اور ایک گروہ کو عزت و بزرگی سے سرفراز کرے گا اور دوسرے گروہ کو ذلیل ، خوار اور رسوا کرے گا ، اور اس دن حق پرستوں کے حق کو باطل پرستوں سے اور اسی طرح مظلوموں کے حق کوستمگروں سے لے گااور یہ مسائل امام زمانہ (ع) کے ظھور مبارک کے بعد وجود میں آئیں گے۔جولوگ مرنے کے بعد زندہ کرکے دنیا میں پلٹائے جائیں گے وہ کوئی معمولی لوگ نہ ھوں گے بلکہ یا تو ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ھوںگے یافساد کے اعلیٰ درجہ پر کہ ایک مدّت کے بعد زندہ کئے جائیں اسکے بعدجس جزاء اور سزا کے مستحق ھوں گے وہ ان کو دی جائےگی اور اس کے بعد دوبارہ ان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی پھر قیامت وحشر ونشر کے دن انھیں زندہ کیا جائے گا۔
چنانچہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی آرزو کو نقل فرمایاھے کہ کچھ لوگوں کوخداوند متعال نے مرنے کے بعد زندہ کیا لیکن دوبارہ دنیا میں آنے کے بعد بھی انھوں نے اپنے امور کی اصلاح نہ کی اور خداوند قدوس کے احکام کونظرانداز کرتے رھے ایسے لوگ مرنے کے لعد تیسری مرتبہ زندہ کئے جانے کی درخواست کریں گے تا کہ اس تیسری مرتبہ میں صالح بن جائیں ، اس آیت شریفہ میں ارشاد ھوا :
” قَالُوا رَبَّنَا اَمتّنا اثنَتَینِ وَ اَحیَیتَنَا اثنَتَینِ فَاعتَرَفنَا بِذُنوبِنَا فَہَل اِلیٰ خُرُوجٍ مِّن َسبِیلٍ “ [27]”
پروردگار تو ھم کو دوبار مارچکا ھے اور دوبار زندہ کرچکا ھے تو اب ھم اپنے گناھوں کا اقرار کرتے تو کیا (یھاں سے )نکلنے کی بھی کوئی سبیل ھے“
جی ھاں قرآن مجید میں رجعت ( مرنے کے بعد ایک مدّت کے لئے دوبارہ زندہ کیا جانا) کے واقع ھونے سے متعلق آیات موجودھیں اور اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم(ص) کے گھرانے سے بہت سی روایتیں ھم تک پھونچی ھیں ، سبھی شیعہ اثنا عشری رجعت پر عقیدہ رکھتے ھیں ۔
کم ھی لوگ ایسے ھیں جھنوں نے رجعت سے متعلق آیتوں اور روایتوں کی تاویل کی ھے اوریہ کہتے ھیں کہ رجعت سے مراد حکومت کی بازگشت اور امر بالمعروف ونھی از منکر کا حضرت مھدی(ص) کے ظھور کے وقت اھل بیت (ع) کے ھاتھوں اجرا ھونا ھے ،بغیر اسکے کہ کوئی مردہ ، زندہ کیا جائے۔

رجعت کے مسئلہ سے متعلق مزید تحقیقات
اگر چہ حضرات اھل سنت بھی رجعت پر عقیدہ نھیں رکھتے لیکن فی الحال اس کتاب میں ھماری گفتگو وھابیوں سے ھے کہ جو اھلسنّت حضرات کوبھی مشرک اور بدعت کی بنیادرکھنے والے اور صرف اپنے کو توحید کا اھل سمجھتے ھیں۔
البتہ یہ بتا دینا ضروری ھے کہ اھل سنت کے مصنفین اور رجال روایات کی شرح کر نے والے رجعت کے عقیدہ کو طعنہ زنی کی علامت سمجھتے ھیں اور ان روایات کو غیر معتبر جانتے ھیں جو رجعت کے سلسلہ میں ھیں اس لئے ایسی غیر معتبر روایتوں کے مضمون کی بھی نفی کرتے ھیںیھاں تک کہ بعض انھیں میں سے رجعت کے عقیدہ کو کفر و شرک بلکہ اس سے بھی زیادہ برا سمجھتے ھیں اور یھی اعتقاد رجعت پربڑے اعتراضوں ، انتقادوں اور اشکالوں میں سے ایک ھے ،جس کو لے کر برادران اھلسنت شیعوں پر اعتراض کرتے ھیں ۔
لیکن جب کہ ھم نے اوپر ذکر کیا کہ فی الحال ھماری گفتگو و ھابیوں سے ھے جونہ سنی ھیں اور نہ شیعہ ، ورنہ ھمارے اور اھلسنت حضرات کے مشترکات اتنے زیادہ ھیں کہ بحمد الله اس زمانہ میں بالخصوص ایران اسلامی انقلاب کے بعد ایک صف ھے جو دشمنان اسلام کے خلاف نبرد آزما ھیں ۔
اس میں شک نھیں کہ یھی مطالب ان بے اساس اور گمراہ کن دستاویزوں سے ھے جس کو بعض لو گ جو بظاھر مسلمان جیسے وھابی حضرات نے شیعوں کے خلاف ،لعن و طعن اور شیعیت کو رد کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ھے ، لیکن حقیقت تو یہ ھے کہ جو چیزان دستاویزوں کی تصدیق کرے ، ان کونظر نھیں آتی ،جبکہ رجعت کا عقیدہ کسی بھی طرح خداشناسی ، توحید اور نبوت کے عقیدہ کو خراب نھیں کرتا بلکہ ان دونوں عقیدوں کی تقویت کا سبب ھے چونکہ رجعت ( مردوں کا زندہ ھونا ) جیسے حشر اور نشر وغیرہ خداوند عالم کی قدرت کاملہ کی نشانی ھے اور ان غیر عادی امور میں سے جو پیغمبر اور آل پیغمبر کے معجز وں میں شمار کیا جا سکتا ھے۔
درحقیقت رجعت ایک معجزہ یعنی مردوں کو زندہ کرنا ھے جیساکہ حضرت عیسیٰ (ع)انجام دیتے تھے بلکہ یوںکھا جائے تو زیادہ مناسب ھو گا کہ یہ معجزہ ، رجعت میں زیادہ رساں اور تکمیل کی منزل میں ھے چونکہ رجعت یعنی مردوںکا زندہ ھونا ، اسکے بعدکہ وہ سڑ گل کر ہڈی ھو گئے ھوں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھو تا ھے:
” قَالَ مَن یُّحیِی العِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیمٌ قُل یُحیِیہَاالَّذِی اَنشَاَھَااَوَّلَ مَرَّةٍ وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٍ “ [28]
” ایک منکر سڑی گلی ہڈی کو دکھلا تے ھوئے کھنے لگا ، بھلا جب یہ ہڈیاں ( سڑگل کر) خاک ھوجائیں گی تو (پھر) کون ( دوبارہ ) زندہ کرسکتا ھے ( اے رسول(ص)) تم کھدو کہ اسکو وھی زندہ کرے گا جس نے ان کو ( جب یہ کچھ نہ تھے ) پھلی مرتبہ زندہ کردکھایا وہ ھر طرح کی پیدایش سے واقف ھے ۔
( اس بناپر رجعت کا عقیدہ شرک اور کفر سے کسی بھی طرح کی شباہت نھیں رکھتا تا کہ کفر و شرک یا اس سے بدتر کھا جائے ) کچھ لوگوںنے رجعت کے عقیدہ کو باطل قرار دینے کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ھے ، کہ رجعت ایک قسم کا تنا سخ ھے جس کا باطل ھونا مسلّم طور پر ثابت ھے ، در اصل ( رجعت سے متعلق ) جن حضرات کا یہ تصور ھے انھوں نے تناسخ اور جسمانی معاد کے فرق کو نھیں سمجھا ھے ، رجعت جسمانی معاد کی قسموں میں سے ھے جبکہ تناسخ کے معنی یہ ھیں کہ روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ھونا اور یہ کہ روح کاپھلے جسم سے جدا ھونا ۔
لیکن معاد یعنی روح کا پھلے بدن میں ھی دوبارہ واپس آنا اپنی تمام پرانی خصوصیات کے ساتھ اور رجعت کے معنی بھی یھی ھیں ۔اگر رجعت کے معنی تناسخ کئے جائیں تو اسکا لازمہ یہ ھوا کہ حضرت عیسیٰ (ع) کامردوں کو زندہ کرنابھی تناسخ ھو، یا حشر و نشر اور جسمانی معاد کاموضوع بھی تناسخ ھو ، جبکہ ایسا ھرگز نھیں ھے۔خلاصہ یہ کہ رجعت پر دو طریقے سے اشکال اور اعتراض کئے گئے ھیں ۔
پھلااعتراض : یہ کہ رجعت کا واقع ھونا محال ھے ۔
دوسرا اعتراض: یہ کہ جو روایتیں رجعت کے بارے میں ھیں ، وہ بے بنیاد ھیں ۔

پھلے اعتراض کا جواب
با لفرض اگر ان د و اعتراضوں کو رجعت کے متعلق تسلیم کربھی لیا جائے اسکے باوجود رجعت کا معتقد ھونا اتنا زیادہ قبیح نھیں کہ وھابی مسلک اسے لے کر شیعوں سے اپنی دشمنی نکالیں اور اسے دستاویز قرار دے کر شیعوں کے خلاف پروپیگنڈا کریں ۔
اسلامی فرقوں کے درمیان کتنے ایسے عقائد نظر آتے ھیں کہ جو محال اور ناممکن ھیں جسکی تشریح اور تصریح بھی علماء اسلام نے کی ھے لیکن پھر بھی یہ ان کے اسلام سے خارج ھونے کا سبب نھیں بن سکتا اور اس بات کی وضاحت بہت سی مثالیں موجود ھیں کہ چند ایک کو ذیل میں ذکر کرتے ھیں مثلاً :
ا۔ یہ اعتقاد کہ پیغمبر بھی سھو و نسیان سے دوچار ھوتے ھیں اور گناہ کرتے ھیں ۔(معاذ اللہ)۔
۲۔یہ عقیدہ کہ قرآن ، قدیم ھے ۔
۳۔رسول الله(ص) نے اپنے بعد کسی کو جانشین کے عنوان سے معین نھیں کیا ۔
جبکہ اس طرح کے اعتراضوں کے علاوہ کوئی حقیقت اور بنیاد نھیں ھے البتہ ان حضرات کا یہ کھنا کہ رجعت محال اور ناممکن ھے تو اس کا جواب یہ ھے کہ رجعت ، حشر ونشر اور جسمانی معاد کی ایک قسم ھے صرف اس فرق کے ساتھ کہ رجعت کا زمانہ اس دنیا میں ھے ادر جو دلیل جسمانی معاد کے لئے ھے وھی رجعت کے لئے بھی ھے اور کوئی وجہ ایسی نھیں کہ جسکے ذریعہ رجعت کو بعید از امکان یا تعجب کا سبب قرار دیا جائے ،یہ ضرور ھے کہ رجعت (مردوں کازندہ ھونا ) کا موضوع عادتاً جانا پہچانا نھیں چونکہ زندگی میں اس موضوع سے ھمارا کوئی سروکارنھیںھے اس لئے ھم اس سے نامانوس ھیں اور کوئی ایسے علل ، اسباب اور موانع نظر نھیں آئے جو ھمیں اس عقیدہ سے نزدیک یا دور کریں ۔
اور انسانی ذھن ا دراک کی قدرت مانوس اور بے گانہ امور کی تصدیق کرے ، یہ ایسا ھی ھے کہ جیسے کوئی کھے کہ ھمارے لئے بعث ، حشر و نشر کا عقیدہ عجیب اور غیر طبیعی ھے جیسا کہ فوق الذکر میں آیا ھے آیہٴ کریمہ: ” مَن یُحیِ العِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیمٌ “[29] ” جب یہ ہڈیاں سڑگل کر خاک ھو جائیں گی تو (پھر) کون ( دوبارہ ) زندہ کرسکتا ھے ، تو اس سے کھا جائے گا :
” یُحیِیہَا الَّذِی اَنشَاٴہَا اَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَبِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٍ“[30]
”( اے رسول ) تم کھدو کہ اسکو وھی زندہ کرے گا جس نے ان کو ( جب یہ کچھ نہ تھے)پھلی مرتبہ زندہ کردکھا یاوہ ھر طرح کی پیدایش سے واقف ھے “
ھاں ، ھمارے پاس رجعت جیسے موضوع کو ثابت کرنے یا انکار کرنے کے لئے کوئی عقلی دلیل نھیں ھے اور ذھن میں بات آتی ھے کہ کوئی دلیل نھیں ھے تو ھمیں آیات و روایات کی طرف رجوع کرناچاہئے کہ جووحی الٰھی جیسے سرچشمہ سے اخذ کی گئی ھیں ان سے مد دحاصل کرنی چاہئے۔
قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ھیں جو رجعت کے واقع ھونے مردوں کا زندہ ھوکر دوبارہ دنیا میں آنے پر دلالت کرتی ھیں ، جیسے حضرت عیسیٰ (ع) کا معجزے(مردوں کو زندہ کرنے) سے متعلق جسے قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ(ع)کی زبانی نقل کیا ھے:
” وَ اُبرِیٴُ الاَکمَہَ وَ الاَبرَصَ وَاُحیِ المَوتیٰ بِاِذنِ اللهِ“[31]
اور میں خدا کے حکم سے مادر زاد اندھے او رکوڑھی کو اچھا کردونگا اور مردوں کو زندہ کروں گا“
اور اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶۰ جس میں پیغمبر وںمیں سے ایک پیغمبر کے قول کو بعنوان حکایت پیش کیا ھے کہ ایک اجڑے دیار اور ویرانے سے گذر رھے تھے توکھا:
” اٴَنَّیٰ یُحیِی ہٰذِہِ اللهُ بَعدَ مَوتِہَا فَاَمَاتَہُ اللهُ مِاَئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ “[32]
”(یہ دیکھ کر وہ بندہ کھنے لگا) اللہ اب اس گاؤں کو (ایسی )ویرانی کے بعد کیونکر آباد (زندہ) کرے گااس پر خدا نے اس کو( مارڈالااور)سو برس تک مردہ رکھا پھر اس کو جلا اٹھایا“
اور وہ آیہ کریمہ جسکا ذکر اس بحث کی ابتدا میں آیا کہ ” قَالُو رَبَّنَا اَمّتَنَا…“ یہ آیتیں واضح طور پر مرنے کے بعد اس دنیا میں رجعت کے واقع ھونے کی حکایت کررھی ھیں، اور اسکے علاوہ ان آیات کا کوئی اور معنی کیا جائے تو وہ صحیح نھیں ھوگا، چونکہ بعض مفسرین ایسی اور اسطرح کی آیات کی تاویل میں وھم و گمان کے شکار ھوئے ھیں اور حقیقی معنی کوچھوڑکرخود کو زحمت میں مبتلا کربیٹھے ھیں۔

دوسرے اعتراض کا جواب
اور جو یہ کھا جاتاھے کہ رجعت کے بارے میں وارد ھونے والی روایتیںجعلی اور بے بنیاد ھیں ، اس دعوے کے لئے ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نھیں ھے،[33]
چونکہ رجعت ایک ضروری اور واضح امور میں سے ھے جس پر ائمہ (ع) سے متواتر روایتیں اور حدیثیں ھم تک پھونچی ھیں اور ان سب متواتر روایتوں کوجعلی اور بے بنیاد قرار دینا ایک وھمی اور بے بنیاد دعوے کے سوا کچھ نھیں ۔
لہٰذا جب رجعت کے معنی اوراسکے واقع ھونے کی کیفیت واضح ھوگئی تو آپ بتلائیں کہ کیا یہ تعجب کامقام نھیں ھے کہ وھابی حضرات کہ جو علم ، فضل اور قرآن شناسی کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرتے ھیں اور صرف اپنے پیروی کرنے والوں کو قرآن اور توحید کا اھل سمجھتے ھیں اسکے باوجود رجعت کا انکار اور اس عقیدے کی بنیادپر شیعوں پر کفر ، ارتداد اور بدعت گذاری کی تھمت لگاتے ھیں اوران کو محکوم کرتے ھیں ، البتہ شیعہ حضرات چونکہ قرآن او رسنّت کی پیروی کرتے ھیں اس لئے رجعت کے بھی معتقد ھیں ۔
کیا یہ تعجب کامقام نھیں ھے کہ بعض اھلسنّت کے مشھور موٴلف جو فضل ومعرفت کی بھی شھرت رکھتے ھیں ،جیسے احمد امین مصری جو اپنی کتاب بنام فجرالاسلام میں لکھتے ھیں:
”فَالیَہُودِیَّةُ ظَہَرَت بِالتَّشَیّعِ بِالقَولِ بِالرَّجعَةِ “ یھودیوں کامذھب شیعوں کے درمیان رجعت کے عقیدے سے ظاھر ھوا ھے مزے کی بات تو یہ ھے کہ محمد بن عبدالوھاب کی یہ باتیں احمدامین کی زبان سے نکل رھی ھیں یہ مشھور موٴلف جو روشن فکر ھونے کی شھرت حاصل کرچکا ھے اس نے وھابیوںکے رھبر کی باتوں کو بغیر کسی تحقیق اور جستجو کے دھرادیا۔
ھم اس موٴلف کی تحریر کے مطابق عرض کرتے ھیں کہ یھودیوں کے مذھب کے پیش نظر یہ کہتے ھیں کہ قرآن کریم میں بھی رجعت کے عقیدہ سے متعلق بیان ھوا ھے جیساکہ ھم نے قرآن کی چند آیتیں جو رجعت سے متعلق تھیں ، آپ حضرات کے سامنے پھلے ھی پیش کیں لیکن یھاں پر کچھ اور اضافہ کرتے ھیں اور وہ یہ کہ غیر تحریف شدہ یھودیوں اور نصاریٰ کے مذھب کے بہت سے قوانین اور عقائد ، مذھب اسلام میں نظر آتے ھیں چونکہ خود رسول(ص) نے گذشتہ آسمانی ادیان کی تصدیق فرمائی ھے جیسے اس آیہٴ شریفہ میں وارد ھوا ھے کہ:
” اِنَّ الدِّینَ عِندَاللهِ الِاسلاَمُ “ ایک دین کے علاوہ کوئی اور دین نھیں اور وہ دین اسلام ھے ،لیکن فروعی قوانین اور جزئی مسائل میں کچھ فرق واضح طور پر نظر آتاھے ورنہ تمام آسمانی ادیان ایک مشترک اور مشابہ اصول کے تحت ھیں ، اور قرآن مجید نے چندآیات میں اس بات کی تاکید فرمائی ھے اگر چہ شریعت پیغمبر اسلام(ص)کے آنے کے بعد سابقہ شریعتوں کے کچھ مسائل اور احکام نسخ ھوچکے ھیں جو خودایک مستقل بحث ھے اورفی الحال ھمارے پیش نظرنھیں ھے ۔
لہٰذا یھودی اور مسیحی مذھب کے قوانین اور احکام کامذھب اسلام میں موجود ھونا نقص اور عیب نھیں ،بالفرض ھم مان بھی لیںکہ رجعت کاعقیدہ بھی یھودی مذھب کا ایک جزء ھو (جیسا کہ احمد امین نے دعوی ٰ کیا ھے) اسکے بعد اسلام میں آگیاھے ۔
اگر بعض اعتقادی مسائل کا چند آسمانی ادیان کے درمیان مشترک ھونے کو ان کے تمام مسائل کا مشترک ھونا کھاجائے توپھر محمد بن عبدالوھاب کویھودی اور مسیحی دونوں ھی مذھب کاماننے والا کھنا درست ھوگاچونکہ وہ خود کو فقط توحید کا اھل سمجھتا ھے اور یہ اسکا دعویٰ ھے کہ توحید اور معاد پر یقین رکھتا ھے ، حالانکہ غیر تحریف شدہ یھودی اور مسیحی مذھب میں یہ دونوں عقیدے (توحید اور معاد) موجود ھیں ، تو یھاں پر یہ کھنا درست ھوگا کہ وھابیت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن عبدالوھاب اور سارے وھابی ( محمد بن عبد الوھاب کے پیروکار) یھودی بھی ھیں اور مسیحی بھی ھیں،چونکہ وہ خود کو اھل توحید سمجھتے ھیں اور اس بات کے دعویدار بھی ھےںکہ اللہ کی وحدانیت اور قیامت پر اعتقاد رکھتا ھے جبکہ غیر تحریف شدہ یھودی او رمسیحی مذھب میں بھی اللہ کی واحدانیت، قیامت اور حشر ونشر وغیرہ جیسے اعتقادات موجود ھیں اس لحاظ سے وھابیت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن عبد الوھاب اور سارے وھابی یھودی بھی ھوئے او رمسیحی بھی ۔
چونکہ اللہ کی وحدانیت کا عقیدہ ان دونوں دینوں (یھودی اور مسیحی) مذھب میں موجود ھے ، اگر وھابی حضرات ادیان میں اشتراک کو نھیں مانیں گے، تو اس سے قبل وہ قرآن مجید کی آیات کے منکر ھوجائیں، چونکہ خود قرآن مجید ادیان کے مشترک ھونے کا قائل ھے ، قرآن کریم حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت موسیٰ(ع) او ردوسرے انبیاء(ع) کو اھل توحید اور وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے والا اور سبھی کو خدا کا بندہ ھونے سے یاد کررھا ھے ، وھابیوں کو چاہئے کہ اپنے بے بنیاد دعووں کوواپس لے لیں اور جھوٹی تھمتیں لگانے سے باز آجائیں او راپنے متناقض مسائل کی طرف توجہ کریں۔
بھر حال ،کلام کو مختصر کرتے ھوئے صرف اتنا عرض کرنا ھے کہ رجعت ، اسلام کے ان اعتقادی اصولوں میں سے نھیں ھے جس پر عقیدہ رکھنا یا اس پر دقت نظر سے کام لینا واجب ھو، یہ ھم شیعوں کا عقیدہ ھے جو قرآن کریم او راھل بیت علیھم السلام کی پیروی او رحضرات ائمہ (ع) سے نقل شدہ معتبر روایتوں پر عمل کرنے کا نتیجہ ھے یہ وہ ھستیاں ھیں جن کے بارے میں جھوٹ ، جھل اور خطا جیسے گناھوں کا تصور بھی نھیں پایا جاتا۔
رجعت کا موضوع بھی ایک مشکل او ردشوار فلسفی موضوعات میں سے ایک ھے جو پورے طورپر قرآنی اور شرعی ھے او رعقل کی روشنی میں بھی اس کا واقع ھونا ناممکن نھیں ھے ۔[34]

حضرت علی (ع)کی محبت سے متعلق شیعوں کا عقیدہ
اور وھابیوں کی زھر افشانی
وہ مسائل جن کو وھابی حضرات سننے کی تاب نھیں رکھتے اور برداشت نھیں کر پاتے یھاں تک کہ اسکوشرک ، کفر اور بت پرستی شمار کرتے ھیں ، ان مسائل میں سے ایک مولا علی (ع) کی محبت اور ولایت کا مسئلہ ھے ،یہ سیاہ دل اور چمگا دڑصفت لوگ نور امامت سے ایسے گریزکرتے ھیں جیسے چمگادڑروشنی سے بھا گتے ھےں ،اور جھالت کے اندھیروںمیں سرگرداں ھوکر ھاتھ پیر مارتے ھیں، مولا علی(ع) سے محبت کا عقیدہ جو اھل سنّت حضرات کے یھاں حدیثوں میں بھی موجود ھے شدت سے انکار کرتے ھیں اور شیعوں پر لعنت وملامت،سب وشتم کے لئے زبان کھول دیتے ھیں، ھم یھاں پر ضروری سمجھتے ھیں کہ اس سلسلہ میں مختصر طور پر وضاحت کریں اور بتائیں کہ حبّ علی (ع) سے متعلق شیعوں کا کیا عقیدہ ھے تاکہ معلوم ھو جائے کہ رسول(ص) کی حقیقی پیروی کرنے والا کون ھے ؟ وھابیوں کامتعصب اور خوارج صفت گروہ؟! یا پاک دل اور حقیقت کی تلاش کرنے والے شیعہ جو دلیل و برھان کے علاوہ کوئی بات ھی نھیں کرتے ؟
استاد شھید مطھری (رہ) عشق ، محبت اور عاطفہ کے متعلق بحث کرتے ھوئے مذکورہ مسئلہ اور عقیدہ کے بارے میں ایک عمیق اور دقیق فلسفی، تحلیل اور بررسی کرتے ھوئے فرماتے ھیں کہ ( اب ھمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اسلام اور قرآن نے ھمارے لئے کوئی محبوب منتخب کیا ھے یا نھیں ؟ )
اسکے بعد حضرت علی (ع) کی محبت کے بارے میں ایک مفید اور جذّاب بحث کرتے ھیں نیز اس کے اثرات کے متعلق بیان فرماتے ھیںکہ ھم اس بحث کی افادیت اور گھرائی اور مستند ھونے کے پیش نظر یھاں پر نقل کرتے ھیں تاکہ قارئین اور قدردانوں کے اذھان روشن ھوں اور محبان علی (ع) اور اولاد علی (ع) کو خوشنود کرتے ھوئے وھابیوں اور وھابی مسلک افراد کے لئے دندان شکن جواب بھی ثابت ھوسکے۔

حضرت علی (ع) کی محبت قرآن اور سنّت کی روشنی میں
قرآن مجید گذشتہ انبیاء (ع)کے اقوال کو بیان کرتے ھوئے فرماتا ھے کہ سارے انبیاء (ع)نے یہ کھا ھے کہ” ھم لوگوں سے کوئی اجرت اور بدلہ نھیں چاہتے ھمارا اجرتو فقط خدا پر ھے ) لیکن خداوندعالم پیغمبر اسلام(ص) کوخطاب کرتے ھوئے فرماتا :
” قُل لَااٴَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجراً اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربَیٰ “[35]
”اے ھمارے رسول کھدو کہ: ھم تم سے اپنے اقرباء کی محبت کے سواء کوئی بدلہ یا کوئی اجرت نھیں چاہتے “
یھاں پر یہ سؤال پیدا ھوتا ھے کہ جب کسی نبی نے کسی طرح کی اجرت کامطالبہ نھیںکیا تو پھر نبی اکرم(ص) نے اپنی رسالت پر اجرت کا مطالبہ کیوں فرمایا اور لوگوں کو اجررسالت کے عنوان سے اپنے قریبی عزیزوں کی محبت کامطالبہ کیوں کیا ؟
قرآن کریم خود ھی اس سؤال کا جواب دیتاھے:
” قُل مَا سَئَلتُکُم مِن اَجرٍ فَہُوَ لَکُم اِن اَجرِیَ اِلّٰاعَلَی اللهِ “[36]
اے ھمارے رسول کھدو کہ: میں نے جس اجرت کا تم سے مطالبہ کیا ھے اسکا فائدہ خود تم کو ھی پھونچنے والاھے اسلئے کہ میرا اجر تو فقط خدا پرھے ۔
یعنی وہ چیز جسکا مطالبہ میں نے اجر رسالت کے عنوان سے کیاھے اسکا فائدہ تم ھی کو پھونچنے والاھے نہ کہ مجھکو، یہ محبت اور دوستی خود تمھاری اصلاح اور کمال حقیقی تک پھونچنے کے لئے وسیلہ کے مانند ھے ، اسکا فقط نام اجرت ھے ورنہ حقیقت میں ایک خیر اور نیکی تمھیں دی جارھی ھے۔
چو نکہ اھلبیت (ع) اور رسول(ص) کے اقرباء وہ افراد ھیں جن کا دامن ھرطرح کی رجس اور آلودگی سے پاک اور پاکیزہ ھے ( حُجُورٌ طَابَت وَطُہَرَتْ) ۔ (
ان سے عشق و محبت اور شیدائی ھونے کا نتیجہ فضائل کی پیروی اور حق کی اطاعت کے علاوہ اور کیاھوسکتا ھے ، یہ انھیںکی دوستی اور محبت ھی ھے جو دلوں کوفولاد بنادیتی ھے ، اور ایمان کو کامل کرنے کا سبب بنتی ھے قربیٰ سے مراد کچھ بھی لیا جائے مگر یہ بات مسلم ھے کہ قربیٰ کا سب سے عظیم اور روشن مصداق مولاعلی (ع) کی ذات گرامی ھے۔
فخر رازی کا بیان ھے : زمخشری نے اپنی” تفسیر الکشاف “ میںروایت نقل کی ھے کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول الله(ص) آپ کے کن عزیز اقرباء کی محبت ھم پر واجب کی گئی ھے وہ کون لوگ ھیں ؟ آنحضرت(ص) نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا علی (ع)و فاطمہ(ع) اور ان کے فرزند۔
اس روایت سے یہ بات ثابت ھو جاتی ھے کہ یہ چار افراد پیغمبر(ص)کے اقرباء ھیں اور ان سے دوستی رکھنا اور ان کا احترام کرناتمام مسلمانوں پر واجب ھے اس بات پر بہت سے طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے :
(ا) اس آیہٴ کریمہ کے ذریعہ ” اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربیٰ“
(۲) بغیر کسی شک و تردید کے کہ ( رسول اسلام(ص) فاطمہ زھرا (ع)کو بہت زیادہ چاہتے اور نھایت عزیز رکھتے تھے ، آنحصرت(ص) فرماتے تھے کہ فاطمہ(ع) میرے جگر کا ٹکڑا ھے جس نے فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی، اسی طرح رسول اسلام(ص) حضرت علی (ع) اور حسنین (ع) سے بے حد محبت کرتے تھے اس سلسلہ میںبہت سی متواتر روایات وارد ھوئی ھیںلہٰذا ان کی دوستی اور محبت تمام امّت پر واجب اور لازم ھے چونکہ یہ سنّت پیغمبر(ص) ھے اور رسول اسلام (ص) کی اطاعت اور پیروی ھر مسلمان پر واجب ھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے :
” وَاتَّبَعُوہُ لَعَلَّکُمْ تُہتَدُونَ “
”پیغمبر کی پیروی کرو شاید ھدایت پا جاوٴ“
اور دوسری جگہ پر ارشاد ھوتا ھے:
” لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ “[37]
یعنی خدا کا رسول تمھارے لئے سرمشق اور نمونہ عمل ھے ،مذکورہ آیتیں آل محمد ( علی (ع) فاطمہ حسن (ع) وحسین (ع) ) کی دوستی پر دلالت کرتی ھیں اور یہ بتاتی ھیں کہ ان کی دوستی تمام مسلمانوں پر واجب ھے اور اسی طرح رسول(ص) کی علی (ع) سے محبت اور دوستی کے متعلق بہت سی حدیثیں اور روایات وارد ھوئی ھیں،جیسے:
ا۔ ابن اثیر سے منقول ھے کہ رسول اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو مخاطب کرتے ھوئے ارشاد فرمایا: یا علی (ع)! خداوند عالم نے ( آپ) کو ایسی چیزوں سے مزین کیا اور زینتوں سے نواز ا کہ بندوں کے پاس اور کوئی زینت اس سے زیادہ محبوب نھیں : دنیا سے کنارہ کشی اور زھد کے ایسے مقام پر قرار دیا کہ نہ دنیا تمھیں فریب دے سکتی ھے نہ تم سے بھرہ مند ھو سکتی ھے ، تمھیں الله نے مسکینوں سے دوستی اور محبت عطا کی ھے وہ تمھاری امامت پر خوش ھیں او رتم ان کی فرمانبرداری پر ،اورخوش نصیب ھے وہ شخص جو تم سے محبت کرے اورتمھاری دوستی پر باقی رھے اوربد نصیب ھےں وہ لوگ جو تم سے دشمنی کریں، اور تمھارے خلاف جھوٹ بولیں اور کذب و افتراء سے کام لیں ۔
۲۔ سیوطی نے روایت کی ھے کہ رسول(ص) نے فرمایا :
”حضرت علی (ع) کی دوستی اور محبت ایمان ھے اور ان سے دشمنی کرنا نفاق ھے“
۳۔ ابو نعیم سے روایت ھے کہ حضرت رسول(ص) نے انصار کومخاطب کرتے ھوئے فرمایا کیا تمھیں ایسی چیز کی طرف ھدایت کروں کہ اگر اسکو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اس راہ پر گامزن رھو ھرگز گمراہ نھیں ھوسکتے ؟ سب لوگوں نے عرض کیا :ھاں یارسول الله(ص) ھم یھی چاہتے ھیں تب آنحضرت نے ارشاد فرمایا : یہ علی (ع) ھیں ان سے محبت کروجس طرح سے مجھ سے محبت کرتے ھو ان کا احترام کرو، جیسے میرا احترام کرتے ھو اسلئے کہ خدا وند عالم نے جبرئیل (ع)کے ذریعہ مجھے یہ حکم بھیجا ھے کہ میں یہ پیغام تم لوگوں تک پھونچا دوں ۔
اسکے علاوہ اھل سنّت نے اور بہت سی روایتیں رسول اکرم(ص) سے نقل کی ھیں ان روایات میں علی (ع) کے چھرے کی طرف دیکھنا عبادت ھے یھاں تک کہ حضرت علی (ع) کے متعلق گفتگو کو بھی عبادت میں شمار کیاگیا ھے:
ا۔ طبری نے حضرت عائشہ سے روایت کی ھے کہ وہ کہتی ھیں کہ میں نے اپنے باپ کوحضرت علی (ع) کے چھرے کی طرف بہت زیادہ نظر کرتے ھوئے دیکھا، تو میںنے عرض کی : بابامیں دیکھ رھی ھوں کہ آپ حضرت علی (ع) کے چھرے کی طرف بہت زیادہ دیکھا کرتے ھیں ؟ تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ بیٹی میں نے پیغمبر اسلام(ص)سے سنا ھے کہ ”علی (ع) کے چھرے کی طرف دیکھناعبادت ھے“
۲۔ ابن حجر نے حضرت عائشہ سے روایت کی ھے کہ آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا ، میرے بھایئوں میں سب سے بہترین بھائی علی(ع) اور چچاؤں میں سب سے بہتر چچا حمزہ ھیں علی (ع)کی یاد اور ان کا تذکرہ عبادت ھے خداوند عالم اور رسول خدا(ص)کے نزدیک سب سے محبوب شخص حضرت علی (ع) ھیںلہذاکائنات کی سب سے محبوب شخصیت حضرت علی (ع) کی ذات ھے ۔
۳۔ انس بن مالک کا بیان ھے ( کہ پیغمبر اسلام(ص) کایہ روزمرّہ کا معمول تھا ) کہ ھر روز انصار میں سے کوئی ایک شخص آنحضرت(ص)کے روزمرّہ کے کاموں کو انجام دیتا تھا ایک دن میری باری تھی ، ام ایمنۻ پیغمبر(ص) کی خدمت میں ایک بُھنا ھوا پرندہ لے کر حاضر ھوئیںاور عرض کیا:
میںنے اس پرندہ کا خودشکار کیا ھے اور آپ ھی کے لئے پکاکر لائی ھوں ، آنحضرت(ص) نے خدا کی بارگاہ میں دعا کی : پروردگار! اپنے سب سے محبوب بندے کو بھیج تا کہ اس طعام میں میرا شریک ھوسکے ، ابھی دعا ختم بھی نہ ھونے پائی تھی کہ دقّ الباب ھوا تو آنحضرت(ص)نے فرمایا:
دروازہ کھولو ،جب میں دروازہ کھولنے گیاتومیں نے خدا سے دعا کی یا الله یہ آنے والا شخص انصار سے تعلق رکھتا ھو لیکن جب میں نے علی کو دروازہ پر دیکھا تویہ کہہ دیا کہ رسول (ص) کسی کام میں مشغول ھیں اور یہ کہہ کر اپنی جگہ پر کھڑا ھوگیا ، کچھ دیر کے بعددوبارہ دقّ الباب ھوا حضرت نے پھر فرمایا دروازہ کھولو ، اس وقت بھی میں نے یھی دعا کی کہ خدا یا کوئی شخص انصار سے آیا ھو، دروازہ کھولا تو دیکھا پھرحضرت علی (ع) تشریف لائے ھیں۔
میں نے دوبارہ وھی کھا کہ رسول(ص) کسی کام میں مشغول ھیں یہ کہہ کر دوبارہ اپنی جگہ پر آگیا ، پھر جب تیسری مرتبہ دقّ الباب ھوا، تو آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا انس! جاوٴ، اور دروازہ کھولو اور ان کو اندر آنے دو ،تم پھلے شخص نھیں ھوجو اپنی قوم کا خیال رکھتے ھو ، جاؤ وہ انصار میں سے نھیں ھیں ، میں دروازہ پر گیا اورحضرت علی (ع) کو بیت الشرف میں لے آیا ،آنحضرت(ص)نے علی (ع) کے ساتھ یہ بھنا ھوا پرندہ نوش فرمایا۔[38]
مجھے نھیں معلوم کہ ان تمام احادیث اور روایتوں کے باوجود بھی کیوں وھابیوں کے لئے انکار اور شک وشبہ کی گنجایش باقی رہ جاتی ھے ؟
گمراھی اورضلالت میں غرق لوگ کیونکہ عقل کے فیصلے اورتقاضوں کے مطابق اپنے منحرف ، باطل اور فاسد افکار کو چھوڑ کر سیدالعارفین ،مولاالموحدین امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی امامت اور نور محبت سے اپنے تاریک دلوں کو روشن اور منور کرسکتے ھیں؟

عقیدہ بداء پر وھابیوں کا اعتراض
ایسے تو بہت سے مسائل ھیں جنھیں وھابی فرقہ شیعوں کے خلاف استعمال کرتا ھے اور ان پر تھمتیں لگاتا ھے ان میں سے ایک بہت ھی اھم مسئلہ شیعوں کا بداء کے متعلق عقیدہ ھے ، یہ مسئلہ جو الٰھی فلسفہ کی ایک دشوار اور پیچیدہ ترین بحثوں میں شمار کیا جاتا ھے ھمیشہ شیعہ عقائد کا حصہ رھا ھے ، اس مسئلہ کو بطور دقیق اور فلسفی اعتبار سے بیان کرنے کے لئے ضروری تو یہ تھا کہ پھلے چند مفصّل باب اور مقدمے تحریر کئے جائیں لیکن اختصار کی خاطر فقط اس فلسفی موضوع سے متعلق ایک بزرگ شیعہ عالم کا بیان نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں یہ بزرگ شیعہ عالم جو عظیم فلسفی اور منطقی بھی ھیں اور عظیم فلسفی اور منطق داںحضرات کے ھم عصر بھی ھیں تا کہ سبھی پر واضح ھو جائے کہ بداء کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ اسلامی شریعت کے خلاف نھیں بلکہ یہ شیعہ مذھب کے افتخارات اور امتیازات میں شمار ھوتا ھے نیز شیعوں کی دقیق فھم و فراست کی علامت بن چکا ھے جو ظاھر بین اور فھم و فراست سے بے بھرہ لوگوں ( وھابیوں ) کی عقلوں سے بالاتر ھے اورایسے افراد تا قیامت اس مسئلہ کے در ک و فھم سے عاجز ھیں اور رھیں گے ۔ انشاء اللہ۔

بداء کے حقیقی معنی
انسان سے متعلق بداء کے معنی یہ ھیں کہ انسان ایسی کسی چیز کے بارے میں کوئی ایسا نظریہ پیش کرے کہ اس چیز کے متعلق ، اس کا پھلے یہ نظریہ نہ تھا ،جیسے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن بعد میں کچھ ایسے اسباب پیش آجائیں جن کی بنا پر ارادہ تبدیل کرنا پڑے ایسی صورت میں یہ کھاجاتا ھے کہ اس انسان کے لئے بداء واقع ھوا ھے چونکہ جس کام کو انجام دینے کے لئے قطعی ارادہ کر چکا تھا ،اب ترک کرنے کا ارادہ کر لیا یہ ارادہ میں تبدیلی انسان کی بی اطلاعی اور نادانی کا نتیجہ نیز گذشتہ ارادہ کی مصلحت پر پشیمانی اور اسکے اسرار و رموز سے نا آشنائی کی وجہ سے ھوا ھے اور یہ بات مسلم ھے کہ بداء اس مذکورہ معنی میں ذات الہٰی کے لئے محال اور ناممکن ھے۔
چونکہ خداوند عالم ھر طرح کے جھل و نقص سے پاک ومنزہ ھے ، اور شیعہ حضرات ایسے معنی کی نسبت کبھی بھی خداوند عالم کی طرف نھیں دیتے ۔
جیسا کہ مذھب شیعہ ( اور فقہ جعفری کے بنیان گذار عظیم پیشوا ) حضرت امام جعفر صادق (ع) کا فرمان ھے :
”مَن زَعَمَ اِنَّ اللهَ تَعٰالیٰ بَدَالَہُ فِی شَیٍٴٍ بَدَاءَ نِدَامَةٍ فَہُوَ عِندَناَ کَافِرٌ بِاللهِالعَظِیمِ“
”جو شخص بھی یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے کسی بھی چیز کے متعلق پشیمانی کی وجہ سے اپنا ارادہ تبدیل کیا ھے یا اسلئے کہ وہ چیز پھلے خدا کی ذات پر مخفی تھی اور اب ظاھر ھوئی ھے تو ھمارے نزدیک ایسا شخص خدائے عظیم کا منکر اور کافر ھے۔
قارئین محترم! ملاحظہ فرمائیں کہ محمدبن عبدالوھاب کی پیدائش سے صدیوں پھلے ھمارے عظیم الشان امام صادق آل محمد (ع) نے بدا ء کے مذکورہ غلط اورفاسد معنی کو مردود ،قابل مذمت اور کفرکا سبب بتایاھے ، اور چونکہ وہّابی لوگ بدا ء کے صرف یھی معنی سمجھتے ھیں اور یھی گمان کرتے ھوئے کہ شیعہ حضرات شاید بدا ء سے یھی معنی مرادلیتے ھیں ، شیعوں کے خلاف الزام تراشیاں تھمتیں، گالیاں اور نازیبا باتیں اور طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ھیں اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ ان قبیح حرکات کے باوجود اس خوش فھمی میں بھی مبتلا ھیں کہ اس طرح کے جدید اور اصلاح دین کے نئے نئے طریقے انھیں کی کاوشوں کا نتیجہ ھیں !!
ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق (ع)ارشاد فرماتے ھیں:
”مَن زَعَمَ اَنَّ اللّٰہَ بَدَالَہُ فِیشَيءٍ وَلَم یَعلَمہُ اَمسَ فَاٴبرَاٴ مِنہُ “ ۔
”جو شخص یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے اسلئے کسی چیز کے متعلق ارادہ بدلاھے کہ وہ پھلے اسے نھیں جانتا تھا توھم ایسے شخص سے بیزار ھیں“
مجھے نھیں معلوم کہ ان حدیثوںکے سننے اور پڑھنے کے بعد بھی وھابیوں کے پاس کھنے کو کچھ باقی رہ جاتا ھے یا وہ اس قدر ضمیر ، انصاف اور عقل و شعور رکھتے ھوں کہ حق کے سامنے سر جھکا دیں،اور شیعہ روایات کی کتابوں کی طرف رجوع کریں اور ھمارے ائمہ (ع) سے مروی حدیثوں کو ملاحظہ کریں اور کج فکر ی و خرافات سے باز آجائیں ،ھم نے تو محمدبن عبدالوھاب کی باتوں سے بخوبی سمجھ لیا ھے کہ موصوف نے شیعہ روایات کی کتابوں میں کسی ایک کا بھی مطالعہ نھیں کیا ھے ،نیز شیعہ عقائد او ران کے پاک وپاکیزہ نظریات سے مطلقاً طور پر ناواقف او ر جاھل تھے ۔
ائمہ اطھار (ع) سے بعض روایتیں منقول ( جس کے صحیح معنی درک نہ کرنے کی وجہ سے ) وھابیوں نے بداء کے واقعی معنی کے بجائے بداء کے غلط معنی تصور کرلئے ھیں اور ان کو یہ وھم ھے کہ ھم ایسے غلط معنی میں بداء کی نسبت خداوند عالم کی طرف دیتے ھیں، جو ھر عیب و نقص سے منزہ ھے ،ان روایات میں سے ( جن کے صحیح معنی درک نہ کرسکے ) ایک روایت یہ ھے :
مَا بَدَا ِللهِ فِیشَيءٍ کَمَا بَدَا لَہُ فِی اِسمٰعِیلَ اِبنِی ۔
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں کہ خداوند عالم کو کسی چیز کے متعلق ایسا بداء یعنی ارادہ کی تبدیلی حاصل نھیں ھوئی جیسا کہ میرے فرزند اسمٰعیل کے متعلق حاصل ھوئی۔
بعض مسلمان مؤلفین نے امام جعفر صادق (ع) کے مذکورہ فرمان کے غلط معنی کرکے شیعوں پر طعن و تشنیع اور اعتراضات کی صورت میں پیش کرکے بداء کے غلط معنی کی نسبت شیعوں کی طرف دی ھے اور ان غلط معنی کوشیعہ عقائد میں ایک منحرف عقیدہ کے عنوان سے مشھور کردیاگیا ھے ۔
لیکن وہ اس بات سے غافل رھے کہ امام جعفر صادق (ع) کی مذکورہ بالا روایت کے صحیح معنی وھی ھیں جن کی طرف خداوند عالم نے اس آیہٴ کریمہ میں ارشاد فرمایا ھے:
” یَمحُو اللهُ مَایَشَاءُ وَ یُثبُتُ وَعِندَہُ اُمُّ الکِتَا بِ“[39]
خداوندعالم جس چیز کو چاہتا ھے مٹا دیتا ھے اور جس چیز کو چاہتا ھے باقی اور ثابت رکھتا ھے اور اسی کے پاس ام الکتاب ھے۔
اس آیہٴ شریفہ کے معنی یہ ھیں کہ خداوند عالم پیغمبر اکرم(ص) یا صاحبان امر کی زبان مبارک یاکسی دوسرے طرح سے کوئی بات ظاھر فرماتاھے اسلئے کہ اسکے اظھارمیں کوئی مصلحت پوشیدہ ھے اور پھر جیسے ظاھر فرمایا تھا و یسے ھی مٹا دیتا ھے ، حالانکہ وہ اس بات کے اطراف و جوانب سے مکمل طور پر آگاہ ھے، دوسرے لفظوں میں اس طرح کھا جاسکتا ھے کہ ا س بات کے اظھار کی مصلحت فقط ایک مخصوص اور معیّن مدّت تک تھی یہ رائے کا بدلنا جھالت یا کسی طرح کی پشیمانی کی بنا پر نھیں ھے ۔
یہ ویسے ھی ھے جیسے جناب اسمٰعیل (ع)اور حضرت ابراھیم (ع) کا واقعہ کہ جب جناب اسمٰعیل باخبر ھوئے کہ ان کے پدر بزرگوار الله کے حکم کے مطابق ان کی قربانی پیش کرنا چاہتے ھیں لیکن قربانی کرتے وقت جناب ابراھیم (ع) سے یہ حکم اٹھا لیاگیا ،اس واقعہ کی بنیاد پر جضرت امام صادق(ع) (ع)کے فرمان کے صحیح اور حقیقی معنی یہ ھیں :
خداوند عالم نے کسی موضوع کو بھی اسطرح ظاھر نھیں فرمایا جسطرح میرے فرزند اسمٰعیل کے موضوع کو ظاھر اور روشن فرمایا اس لئے کہ ظاھرمیں یہ تصورکیا جا تا تھا کہ چونکہ حضرت کے بڑے فرزند اسمٰعیل ھیں لہذا حضرت کے بعدوھی امام ھوں گے ایسی صورت میں خداوند عالم کے حکم سے اسمٰعیل کی روح قبض کرلی گئی تا کہ لوگوں کو معلوم ھو جائے حضرت امام جعفر صادق (ع) کے بعد آپ کے فرزند اسمٰعیل امام نھیں ھیں ،مسئلہ بداء کے یہ حقیقی او رصحیح معنی جو اوپر ذکر کئے گئے قریب قریب یھی معنی ”نسخ “کے ھیں اور نسخ اسلام میں مسلم الثبوت امر ھے جیسا کہ اسلام کے آنے سے تمام گذشتہ ادیان نسخ ھوگئے یھاں تک کہ بعض احکام جو صدر اسلام میں واجب تھے اور آنحضرت کے زمانہ ھی میں الله کے حکم سے منسوخ کردئے گئے۔[40]

زیارت سے متعلق شیعہ مذھب کاموقف
اور اس پر وھابیوںکے اعتراضات
چنانچہ جیسا کہ پھلے بھی بیان ھوچکا کہ وہ مسائل جن پر وھابی حضرات بہت زیادہ زور دیتے ھیں اور جن کی بناپر شرک ،کفر اور بت پرستی کی تھمتیں لگاتے ھیں ان میں سے ایک پیغمبر اکرم(ص)، معصومین (ع) اور صالحین کی زیارت کے متعلق شیعہ نظریہ ھے ، مذکورہ مسئلہ کے متعلق شیعہ مذھب کے نظریہ اور موقف کو بیان کرنے کی غرض سے نیز ظاھر بین، متعصب وھابی گروہ کو مناسب اور دندان شکن جواب دینے کی غرض سے ایک بزرگ شیعہ عالم دین علامہ مرحوم شیخ محمد رضا مظفر (رہ) کے بیان کوحسب وعدہ پیش کرتے ھیں تا کہ مذکورہ مسئلہ سے متعلق شیعوں کا نقطہ نظر اورموقف بخوبی روشن ھو جائے نیز تھمت لگانے والوں کی زبان کو بھی لگام لگا دی جائے ۔

قبروں کی زیارت
رسول اکرم(ص) اورائمہ (ع)اطھار کی مبارک اور پر نور قبور کی زیارت کرنا ان پر خصوصی توجہ دنیا ھمیشہ شیعہ مذھب کا طرّہٴ امتیاز رھا ھے شیعہ حضرات ان مقدس مقبروں کا بے حد احترام کرتے ھیں ان مقدس قبروں پر پرشکوہ ، مجلّل اور عظیم الشان عمارتیں بناتے ھیں اور اس راہ میں ایمان اور بے حد محبت اور چاہت کے ساتھ ھر ممکن مال و دولت خرچ کرنے سے کبھی دریغ نھیں کرتے،شیعہ حضرات یہ سب تعظیم و احترام ائمہ(ع) کے حکم کے مطابق انجام دیتے ھیں چونکہ ائمہ معصومین(ع) نے ان مقدس قبور کی زیارت پر بہت زور دیا ھے نیز اپنے شیعوں کو وصیت کی ھے، اور ان زیارتوں کا بارگاہ خداوندی میں بے حد ثواب بیان کرتے ھوئے زیارت کا شوق دلایا ھے اور زیارت کو واجب عبادات کے بعد بہترین اطاعت اور اللہ سے تقرّب کا سب سے اچھا اور بہتر ذریعہ سمجھتے ھیں نیز قبروں کے اطراف کی جگہ کو خداوند عالم کی خاص توجہ کا مقام اور دعا کی قبولیت کے بہترین مرکز کی حیثیت سے پہچنواتے ھیں چنانچہ ائمہ اطھار(ع) نے یھاں تک فرمایا ھے کہ ان مقدس قبور کی زیارت تعظیم و تکریم کرنا ھمارے عھد و پیمان کی تکمیل ھے چنانچہ حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا(ع) ارشاد فرماتے ھیں:
” لِکُلِّ اِمَامٍ عَھداً فِی عُنُقِ اَولِیَائِہِ وَ شِیعَتِہِ وَ اِنَّ مِن تَمَامِ الوَفاَءِ بِالَعھدِ وَ حُسنِ الاَدَاءِ زِیَارَةُ قُبُورِ ھِم فَمَن َزارَھُم رَغبَةً فِی زِیَارَتِھِم وَ تَصدِیقاً بِمَا رَغِبُوا فِیہِ کَانَ آئِمَّتُھُم شُفَعَاعھمُ یَومَ القِیَامَةِ“
”ھر امام کی جانب سے ان کے چاھنے والوں اور پیرو کا روں پر کچھ ذمہ داریاں، حقوق اور عھد پیمان کی تکمیل ھوتی ھے اور یہ عھد و پیمان بخوبی ادا ھوتے ھیں ، ان میں سے ایک عمل ائمہ اطھارکی مقدس قبروں کی زیارت کرنا ھے لہذا جو شخص شوق سے ائمہ(ع) کے مقدس روضہ کی زیارت کرے اور زیارت کے دوران ائمہ (ع)کے اھداف اور مقاصد پر توجہ رکھے روز قیامت ائمہ اطھار (ع) اس کی شفاعت کریں گے،(انشاء اللہ)
ائمہٴ اطھار (ع) کی مقدس قبروں کی زیارت پر خصوصی توجہ اور عنایت رکھنا بلاوجہ نھیںھے بلکہ اس کی وجہ یہ ھے کہ زیارت کے سایہ میں بہت سے دینی اور سماجی فائدے مضمرو پوشیدہ ھیں ان بے شمار فائدوں میں سے ایک یہ ھے کہ: زیارت، ائمہ اطھار(ع) اور شیعوں کے ما بین دوستی اور محبّت کے رابطے مستحکم نیز ان میں اضافہ کا باعث ھے، مزیدائمہ اطھار (ع) کے فضائل اور اخلاق اور راہ خدا میں جھاد کی یاد تازہ ھوتی ھے۔
خصوصاً زیارت کے مخصوص دنوںمیں نورانی روضوں پر دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے مختلف مسلمانوں کا کثیر تعداد میں جمع ھونا اور اسکے سایہ میں ایک دوسرے سے آشنائی اور آپس میں محبت اور دوستی کا رشتہ قائم ھوتا ھے اور اس طرح سے زائروں کے دلوں میں اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی روح زندہ ھو جاتی ھے نیز اللہ کے احکام کی بجا آوری میں نھایت خلوص پیدا ھوجاتا ھے۔
اھل بیت (ع) کی جانب سے وہ فصیح و بلیغ زیارتیں واردھوئی ھیں جن میں یکتا معبود کی حقیقی عبادت اسلام کی قداست اور پاکیزگی ،نیز حضرت محمد(ص) کی رسالت و غیرہ کے متعلق تعلیم دی گئی ھے وہ سب باتیں جو ھر مسلمان پر واجب ھیں، بلندی کردار ، او رخداوندعالم کے سامنے اچھے اخلاق ، خشوع و خضوع ھونے کے طریقے اور اسکی نعمتوں اور لطف و کرم پر شکر ادا کرنے کا جذبہ زا ئروں کے دلوں میں پیدا ھو تا ھے ۔
لہٰذا ان زیارتوں کے پڑھنے کا بھی وھی اثر ھے جو ائمہ (ع) سے مروی دعاوٴں کا اثر ھوتاھے ، (جیسا کہ پھلے بھی بیان کیا جاچکا ھے ) کہ زیارتوں کا زیادہ تر حصہ بلند ترین دعاوں پر مشتمل ھے جیسے زیارت ” امین الله “ کہ جسے امام سجاد (ع) نے اپنے جد بزرگوارمولاعلی (ع) کی زیارت کرتے وقت پڑھا ھے۔
ائمہ (ع) سے منقول زیارتوںمیںان کا موقف یہ ھے کہ ان زیارتوںمیں دین و حق کی راہ اور کلمہ حق کی بلندی میں دی گئی مخلصانہ فداکاریوں اور قربانیوں کا بیان ھے نیز بارگاہ خداوندی میں ان کی بے لوث اطاعت اورمخلصانہ عبادت کو مجسّم طور سے پیش کیا ھے ۔
یہ زیارتیں عربی طور طریقے اور قانون کے مطابق روشن اور واضح ، فصیح و بلیغ عبارتوںمیں ھونے کے باوجود ھر خاص وعام کے لئے واضح اور روشن ھیں ،جیسا کہ وارد ھوا ھے: ان زیارتوں میں کلی طور پر توحید کے دقیق معنی و مفاھیم اور الله کے تقرّب نیز اسکی بارگاہ میں دعا کرنے کے طریقے بیان ھوئے ھیں ۔
حقیقت تو یہ ھے کہ قرآن ، نہج البلاغہ اور ائمہ(ع) سے مروی دعاوٴںکے بعد ان زیارتوں کاشمار دینی ادبیات میں سب سے بلند مقام پر ھوتاھے ، چونکہ مذکورہ زیارتوں میں آئمئہ اطھار (ع) کے تمام معارف اور مفاھیم کا خلاصہ جامع طور پرنیز ان کے دینی اور اخلاقی احکام جلوہ گر ھیں۔[41]

قبروں کی زیارت کے سلسلہ میں اھلسنّت کا عقیدہ
اس گفتگو کے اختتام میں ان روایتوںکو ذکر کردینا بھی بہت مناسب ھے جو اھلسنّت حضرات کے یھاں وارد ھوئی ھیں اور زیارت کے جائزبلکہ مستحب ھونے پر دلالت کرتی ھیں تاکہ کسی کویہ شک یا وھم نہ ھونے پائے کہ فقط شیعہ حضرات ھی زیارت قبور کے قائل ھیں اور باقی تمام اھلسنّت وھابی گروہ کے ھم خیال ھیں اور اس سے یہ بھی بخوبی واضح اور روشن ھوجائیگا کہ وھابی نہ شیعہ ھیں اور نہ ھی سنّی ، چونکہ اھل سنّت حضرات تو قبروں کی زیارت خصوصاً رسول اکرم(ص) کی قبر مبارک کی زیارت کامکمل عقیدہ رکھتے ھیں اور اس راہ پر عمل پیرابھی ھیں ، اس سلسلہ میں اھل سنت حضرات کے یھاں کثیر تعداد میں متواتر صحیح ا ور واضح حدیثیںموجودھیں اور انکے علاوہ حضور اکرم سرور کائنات(ص)کے زمانے سے تمام مسلمان اس پرعمل کرتے چلے آرھے ھیں ، یھاں تک کہ خود آنحضرت(ص) بنفس نفیس شھداء کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے ۔
قارئین محترم ”مغازی واقدی“ نامی کتاب اور محدث قمی کی تصنیف” منتھی الآمال“کی طرف رجوع فرمائیں تاکہ پیغمبر اسلام(ص) کاشھداء کی قبروں پر رونا ،سوگ منانا اور ان کی قبروں پرزیارت کے لئے جانا تاریخ کی زبان سے سن لیں ( تا کہ عقیدت کے موتیوں سے جھولی بھرجائے )
اھل سنّت حضرات کی کتابوں میں مثال کے طور پر سنن نسائی ، سنن ا بن ماجہ اور احیاء العلوم مؤلفہ غزالی میں مذکورہ موضوع ( زیارت) پر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل ھوئی ھیں ابوھریرہ سے روایت ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ” قبروں کی زیارت کرو اس لئے کہ ( قبروںکی زیارت ) تمھیں آخرت کی یاد دلائے گی “ مذکورہ کتابوںمیں ابن ملیکہ نے جناب عائشہ سے روایت نقل کی ھے : حضرت عائشہ کا بیان ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی مادر گرامی کی قبرمبارک کی زیارت کی ، خودروئے اور حاضرین کوبھی رلایا اور فرمایا :
میں نے اپنے معبود سے اپنی ماد رگرامی کی قبرکی زیارت کےلئے اجازت مانگی تو خداوند عالم نے مجھے اجازت مرحمت فرمائی لہٰذا قبروں کی زیارت کیا کرو تاکہ یہ تمھیں آخرت کی یاد دلائے۔
اس طرح مذکورہ کتابوںمیں عبدالله بن مسعود سے روایت نقل ھوئی ھے ان کابیان ھے کہ آنحضرت(ص) نے ارشادفرمایاکہ پھلے میں نے تم لوگوں کو قبروںکی زیارت سے روکا ،لیکن اب جو چاھے زیارت کرے اس لئے کہ زیارت تمھیں روز آخرت اور قیامت کی یادلاتی ھے البتہ بیھودہ باتوںسے پرھیزکرو ۔
غزالی اپنی کتاب احیاء العلوم میں ابن ملیکہ سے روایتں نقل کرتے ھیں کہ ابن ملیکہ کہتے ھیں :
ایک روز میں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ قبروں کی زیارت کرکے واپس آرھی ھیں تو میں نے عرض کیا کہ ام المؤمنین کھا ں سے تشریف لارھی ھیں ؟
حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اپنے بھائی عبدالرحمٰن کے قبر کی زیارت کرکے آرھی ھوں،میںنے عرض کیاکہ کیا پیغمبر(ص)نے اس کام سے منع نھیں فرمایاتھا ؟
تب عائشہ نے جواب دیاکہ پھلے تو منع کیا تھا لیکن بعدمیں حکم دیا کہ اھل قبور کی زیارت کو جایاکریں ۔
اھل سنّت کی حدیث کی کتابوں یعنی صحاح اور سنن میں اھل قبور کی زیارت کی کیفیت سے متعلق بھی حدیثیں وارد ھوئی ھیں ان میں سے ایک حدیث میں زیارت کا طریقے اس طرح بیان ھوا ھے ، کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ارشاد فرمایا کہ جب قبرستان بقیع میں جاؤ تویہ کہہ کرسلام کرو :
”السَّلَامُ عَلَی اَھلِ دِیَارٍ مِّنَ المُؤمِنِینَ “ یہ تمام روایتیں تو صالح لوگوں کی زیارت سے متعلق تھیں لیکن آنحضرت کی زیارت سے متعلق بھی بہت سی معتبر حدیثیں موجود ھیں جن کو دار قطنی، بیہقی ،غزالی اور دیگر حضرا ت نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے جو مطلب کوواضح کرنے کے لئے کافی ھیں ، ان میںسے ایک روایت یہ ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا:
” جو شخص بھی میری زیارت کرے اسکی شفاعت کرنا مجھ پرواجب ھے ، البتہ یہ شفاعت فقط رسالت مآب کے روضہٴ اقدس کے زائروں اور زیارت کرنے والوں ھی سے مخصوص ھے اور وہ شفاعت جو تمام مومنین کے شامل حال ھوگی اس شفاعت سے جدا ھے ۔[42]

حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری پر وھابیوں کے اعتراضات
جیسا کہ پھلے عرض کیاجاچکا اور محمد بن عبدالوھاب کی کتاب ” الرّد علی الرافضہ “ سے بیان ھوا کہ وھابی حضرات سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری اور مجالس بر پا کرنے کی وجہ سے شیعوں پر بدعت ،ضلالت وگمراھی کے فتوے لگاتے ھیں ، اور جس قدر بھی گالیاں او رنازیبا الفاظ ان کے بس میں ھے اور ان کی جاھل فکر میں سماتے ھےں ، شیعوں پر اسکی بوچھار کردیتے ھیں مجھے نھیں معلوم کہ جوشخص یہ کہتا ھے کہ امام حسین (ع) کی عزاداری نھیں کرناچاہئیے غم نھیں منانا چاہئے اور ان پر گریہ وبکا نھیںکرناچاہئے یا واقعہ عاشورا کی یاد تازہ نھیں کرنا چاہئے کیا ایسے شخص مین عزّت و شرافت ، غیرت و انسانیت اور عاطفت ومحبت جیسی چیزوں کی بو بھی پائی جاتی ھے یانھیں؟ وہ لوگ جو سید الشھداء (ع) ( جنھوں نے اپنی تمام ھستی کو الله کی رضا او رخوشنودی کے لئے قربان کردیا اور اس راہ میں کسی چیز سے دریغ نہ کیا ) کی سوگواری او رعزاداری کو بدعت و ضلالت وگمراھی اور قبیح فعل کے عنوان سے موسوم کرتے ھیں ،کیا ایسے لوگ روز قیامت پر ایمان بھی رکھتے ھیں یانھیں ؟ یا شرافت و انسانیت ، دین اور دینداری سے کوئی تعلق یا وابستگی بھی رکھتے ھیں یا نھیں ؟ وہ امام جن کی مظلومانہ شھادت کی خبر رسالت مآب(ص) نے سنائی اور تمام ائمہ معصومین (ع) نے ان کی یاد اور ان کی تحریک اورقیام کے پیغام کو زندہ رکھنے کی انتھک کوشش کی، وہ امام جو رسولخدا(ص) کا پارہ تن نھایت عزیز اور جگر گوشہ تھا اور اھلسنت حضرات کی صحیح احادیث کے مطابق ” جوانان جنّت کا سیدوسردار“ کیا اسکی مظلومیت پر آنسوں بھانا مناسب اور اچھا نھیںھے ؟!کیا ان کی تحریک اور ایثار وفداکاری سے الھام لے کر ان کی راہ اور ان کے پیغام کو زندہ نھیں رکھنا چاہئے ؟ اور اس طرح سے آنے والی نسلوں کو درس دیا جا سکے اور ھمیشہ ظلم سے برسر پیکار ھونے کا درس نیز کفرو باطل پرستی کے خلاف مؤمنوں کو جدو جھد کا درس دیا جاسکے۔ھم یھاں پر تفصیلی بحث کرنے کا ارادہ نھیں رکھتے صرف صاحب الغدیر مرحوم علامہ امینی (رہ) کے بیان کو نقل کرنے پرھی اکتفاء کرتے ھیں تا کہ واضح ھو جائے کہ سید الشھداء کی سوگواری اور عزاداری نہ صرف یہ کہ بدعت نھیں بلکہ عبادتوں میں اھم عبادت اور دینی وظائف میں اھم ترین وظیفہ ھے ۔

سالانہ عزاداری
عظیم الشان کتاب الغدیر کے مصنف مرحوم علامہ امینی (رہ) کی دوسری تصنیف بنام ” راہ وروش پیغمبر(ص) مااست “ ( اصل کتاب کا فارسی ترجمہ ) میں مذکورہ عنوان کے ذیل میں امام حسین (ع) کی عزاداری کو بر پا کرنے کے متعلق یوںر قمطراز ھیں :
”شاید یہ کھا جاسکے کہ امیر و بادشاہ کی وفات اور ولادت کے موقعوں پر یادمنانا قومی اور دینی بڑی تحریکوں کی عید اور دنیا کے اجتماعی حادثات اور وہ اھم واقعات جو مختلف قوموں میں رونما ھوتے ھیں ( مھم تاریخی واقعات وحادثات کے گذرے ھوئے سالوں کے اعداد و شمار کو ملحوظ خاطر رکھتے ھوئے ) اور ان کے سالگرہ کے موقع پر جشن و سرور کی محفل سجانا یا وفات کے موقع پر سوگواری و عزاداری برپا کرنا دیرینہ رسوم اور شعائر میں شمار ھوتا ھے جسکی بشری طبیعت اور اسکی شایستہ اور مناسب فکروں نے گذشتہ قوموں اور ملتوں نے بنیاد ڈالی اور زمان جاھلیت سے پھلے اور اسکے بعد بھی زمانہ حاضر تک ویسے ھی جاری اور ساری ھے ۔
یھود و نصاریٰ اور اسلا م سے پھلے عرب قوم کی بڑی عیدیں جنھیں تاریخ نے اپنے دامن میں مخفوظ رکھا،اور گویا یہ ایک انسانی انس و محبت چاہت و خواہش کی ایسی سنّت ھے جو محبت و عاطفت جیسے اسباب سے وجود میں آئی ھے، اور یہ ایسی شاخ وبرگ ھے جو احترام اقتدار اور حسن و سلوک کے ضوابط سے دنیا کے عظیم لوگ اور بے نظیر، نامور افراد و بزرگان امت سے پھوٹتے ھیں اور ان کا مقصد واقعات کو زندہ رکھنا اور ایسے افراد کو زندہ اور جاوید رکھنا ھے ، چونکہ اسمیں تاریخی اجتماعی اور سماجی فائدے پوشیدہ ھیں نیز آئندہ نسل کے لئے سالھا سال اخلاق کامل کے طور پر ثابت ھوسکیں، اور اسمیں کوئی شک نھیں جوان نسل کے لئے پند و نصیحت ، عبرت اور دستور العمل مفیداور مؤثر چیز ھے اور اسمیں وہ تجربات اور آزمائشیں ھیں جو قوموں کی بیداری کاسبب ھیں ،اور یہ ” کسی خاص گروہ یا کسی قوم و نسل سے مخصوص نھیں ، ھاں البتہ تاریخی ایام ،اھم حادثات اور ان ناگوار واقعات سے جو ان ایام میں رو نما ھوئے ھیں ، ایک طرح کی نورانیّت او ر سرور کسب کرلیتے ھیں کہ پورے سال میں یہ ایّام کرامت و عظمت کا نشان ھوجاتے ھیں اور ان حادثات اور واقعات کی خوبی اور بدی سے نیک نامی یا نحوست کسب کرکے ان حادثات کا رنگ اپنا لیتے ھیں۔
تاریخ نے ابھی تک کسی ایسے دن کا پتہ نھیں بتایا جو واقعہ کربلا (روز عاشورا) سے زیادہ درد ناک اور دلخراش دن ھو جس پر ھر شریف اور غیرتمند انسان لرز اٹھتا ھے۔
اس دردناک واقعہ کربلاوالے وہ عالی اور بلند درس دے گئے ھیں جو توحید اور عبادت کی درسگاھوں میں حکمت عملی کی انتھائی اور آخر ی منزلوں میں شمار ھوتے ھیں چنانچہ قیام عاشورا نے جو آزادی اور بلند ھمّتی نیز راہ خدا میں فداکاری اور جانبازی بے حد خوبصورت اور زیباترین تصویرپیش کی ھے وہ ایک کامل واضح اور روشن ترین نمونہ عمل ھے ،عاشورا تباھی اور مشکلات کو بر طرف کرنے نیز ان کی زھریلی جڑوں کو نابودکرنے کی طرف انسانیت کے صحیح راستوں میںسے ایک مثبت قدم ھے ۔
عاشورا رذائل اور پست چیزوں سے بیزار رھنے اور ان سے دور رھنے کی راہ میں ایک مثبت اورمؤثر قدم ھے ۔
عاشورا ظالموں کی شان و شوکت کو خاک میں ملانے کے لئے اور شرک ونفاق کے پرچم کو سرنگون اور نیست و نابود کرنے ، ظالموں کے ظلم و تجاوز سے نپٹنے اور تمام بشریت کو نفس کی اسیری سے رھائی اور آزادی کے لئے ایک محکم بنیادی اور مؤثر ذریعہ ھے ۔
توحید، سچائی اور حقیقت کاکلمہ انسان کے بلند مقام اور سعادت مند زندگی کے پھیلانے کے لئے عاشوراء ھی مثبت ترین عمل ھے :
” وَتَمَّت کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدقاً وَ عَدلاً لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ “
لہٰذا وہ دن جو تاریخ کی پیشانی پر امّت محمدی(ص) کے لئے زندہ ، تازہ ، درخشان اور ھمیشہ کے لئے باقی رھنے کا سب سے زیادہ بہتر او رحقدار دن ھے وہ حسین(ع) جو رسول(ص) کے جگر گوشہ اور پیغمبر(ص) کے گوشت و پوست کا حصہ اور نور چشم کا ھی دن ھوسکتا ھے ( اور کوئی نھیں ) ان کے پھول کی خوشبو دنیا کی زندگانی ھے۔
حق تو یہ ھے کہ اس دن (عاشورا)کو خدا کے دنوں میں سے سب سے بڑا دن (وہ جو سب سے پھلے خدا سے منسوب ھے ) رسولخدا(ص) کا دن پیغمبر(ص) کی عید قربان کا دن اور آنحضرت (ع)کے ذبح عظیم کے عنوان سے سمجھنا جاننا اور پہچاننا چاہئے ۔
اس بناپر اگر ھم ”ابو المُویّد موفق خوارزمی حنفی“ متوفی ۵۶۸ھ ، کی روایت کو حسن قبولیت کا درجہ دیں تو ھم نے کوئی عجیب یا نیا کام انجام نھیں دیا ۔
وہ اپنی مشھور ومعروف کتاب” مقتل الامام السبط الشھید “کے صفحہ ۶۳ا پر ایک روایت اس طرح نقل کرتے ھیں :
امام حسین (ع) کی ولادت کے ایک سال بعد سرخ چھرے والافرشتہ رسول(ص) پر نازل ھوا اور اپنے پروں کو پھیلا ئے ھوئے اس طرح گویا ھوا کہ اے محمد(ص) آپ کے فرزندحسین(ع) کو انھیں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو مصائب قابیل کی طرف سے ھابیل کو پیش آئے اور خداوند عالم نے جو جزا ھابیل کو عطا کی وھی آپ کے فرزندکوبھی عطا کرے گا اور جو سزا اور عذاب قابیل کودیا گیا وھی عذاب ان کے قاتل کو ھو گا،پھر اسکے بعد مزید اضافہ کرتے ھیں کہ کوئی فرشتہ آسمان میں نہ تھا مگر یہ کہ رسولخدا(ص) پر نازل ھوکر تسلیّاںدیتا تھا اور اس جزاء اور انعام سے آگاہ کرتاتھا جو آنحضرت کو الله کی جانب سے ملنے والاھے اور امام حسین (ع) کی تربت کو آنحضرت(ع) کی خدمت میں پیش کرتے تھے :
آنحضرت(ص) الله کی بارگاہ میں عرض کرتے تھے پروردگارا اس شخص کو ذلیل و رسوا کر جو میرے حسین(ع) کی مدد نہ کرے اور قتل کر،اسے جو میرے حسین (ع)کو شھید کرے اور اسکی آرزوٴں ا ور خواہشوں کو خاک میں ملادے ۔
اور جب امام حسین (ع) کی ولادت کو دوسال گذر گئے تو رسولخدا(ص) کو کوئی سفردرپیش ھوا اور آپ سفر پر تشریف لے گئے ابھی کچھ راستہ طے کیا تھاکہ اچانک آنحضرت(ص) بیٹھ گئے اور روتے ھوئے کلمہ استرجاء اپنی زبان پر جاری کیا :
” اِنَّاللهِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ “
جب اصحاب نے گریہ کاسبب پوچھا تو آنحضرت نے ارشاد فرمایا:
ابھی ابھی جبرئیل (ع) آئے ھیں اور مجھے نھرے فرات کے کنارے ایک سرزمین کے متعلق خبر دے رھے ھیں جس کا نام کربلا ھے میرا بیٹا حسین (ع)وھاں پر شھید کیا جائیگا۔
اصحاب نے پوچھا :کون سنگدل ھے جو آپ کے شہزادے کو شھید کرےگا ؟ فرمایا یزید نامی شخص کہ خداوند عالم اس منحوس وجود کی نسل ابتر اور قطع کردے گویا میں اس وقت اپنے لال کے خیمہ گاہ اور دفن ھونے کی جگہ کودیکھ رھا ھوں ایسی حالت میں کہ میر ے لال کے سر کو ھدیہ اور تحفہ کے طور پر لے جایا جارھا ھے ۔
خدا کی قسم کوئی بھی میرے لال کے سر بریدہ کو دیکھ خوش نھیں ھوگا مگر یہ کہ خدا اسکو نفاق کی بیماری میں مبتلا کردے گا اور اسکے قلب و زبان میں اختلاف ھو جائیگا (یعنی زبانی ایمان کا دعویٰ کریگا، لیکن اس کے دل میں ایمان نھیںھوگا )
ابو الموٴید مزید بیان کرتے ھیں کہ جس وقت رسالت مآب(ص) سفر سے واپس تشریف لائے تو غمگین حالت میں منبر پر تشریف لے گئے جبکہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے سامنے تشریف فرماتھے آنحضرت(ص)نے خطبہ ارشاد فرما یا ،و عظ و نصیحتیں کیں او رخطبہ سے فارغ ھو نے کے بعد اپنا داھنا دست مبارک حسین (ع) کے سر پررکھا اورسر کو آسمان کی طرف بلند کرتے ھو ئے بارگاہ الٰھی میں عرض کیا : ” پروردگار میں تیرا بندہ او رتیرا پیغمبر محمد ھوں اور یہ دو بچے میری پاک و پاکیزہ عترت اورمیری ذریت اورنسل کے منتخب او ربرگزیدہ بندہ ھیں ( جن کو اپنے بعد چھوڑ کر جا رھا ھوں )
میرے معبود جبرئیل (ع)نے مجھے خبردی کہ یہ میرا لال حسین (ع)بے یار و مددگار قتل کیا جائیگا۔
پروردگا راس کی شھادت کو میری امت کی اصلاح کا سبب قرار دے اورمیرے لال حسین(ع) کو شھیدوں کا سید و سردار قرا ردے اسلئے کہ تو ھر چیز پر قادر ھے، پر ور دگا راسکے قاتل او رجو اسکی مدد نہ کرے اسکی نسل کو منحوس اوربے برکت قرار دے ۔
یھاں پر پھو نچ کر ابو الموٴید بیان کرتے ھیں کہ مسجد میں جب لوگوں نے رسول مقبول(ص) کایہ کلام سنا تو سب چیخ مارمارکر اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے جب حضرت(ص)نے لوگوں کا یہ حال دیکھا تو ارشاد فرمایا :رو تو رھے ھو کیا میرے لال کی مدد بھی کروگے ؟ پروردگار تو ھی اسکا والی و ناصر اور مددگار ھے ۔اسکے بعد ابو المؤید آنحضرت(ص) کے اس خطبہ کو بیان کرتے ھیں جو آنحضرت(ص) نے سفرسے لوٹنے کے بعد اور وفات سے چند روز قبل ارشاد فرمایا تھا، وہ ابن عباس ۻکے حوالہ سے نقل کرتے ھیں اور شاید یہ خطبہ حجّة الوداع سے واپسی پر دیا تھا بھر حال اس خطبہ کا مضمون بھی اس مضمون سے ملتا جلتا ھے جو ابھی ھم نے بیان کیا ۔
عجب نھیں کسی کے ذھن میں یہ گمان آئے ( اور تیز اور باھوش لوگوں کا گمان بھی یقین ھی کے مانند ھوتا ھے) کہ رسول خدا(ص) کا اپنی بیویوں ( امھات المؤمنین) کے گھروںمیںعزاداری اور سوگواری کا باربار برپا کرنا اپنے پارہ جگر حسین کی ولادت کے سالگرہ کے موقع پریا شھادت کے دن آنے کی بناپر تھا یادونوں مناسبتوں کی بناپر رھاھو:
” سُنَّةُ اللهِ فِی الَّذِینَ خَلَوا مِن قَبلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحوِیلاً۔[43] [44]
”خدا کی (یھی) عادت (جاری) رھی اور تم خدا کی عادت میں ھرگز تغیر وتبدل نہ پاؤ گے“
امام حسین (ع) کی شھادت کے مسئلہ سے متعلق رسالت مآب(ص)کے اس قدراحترام اور اہتمام کے باوجود کیا پھربھی وھابی فرقہ جو خود کو محمدی(ص) اور سنّت رسول(ص) کا پیرو سمجھتاھے ، امام حسین(ع) کی سوگواری اور عزاداری، ان کی مظلومیت اور ان کے اھلبیت (ع) کی اسیری اور ان کے اصحاب کی مظلومانہ شھادت پر آنسوبھانے کی مخالفت کرسکتا ھے ؟ حالانکہ ( عزاداری و سوگواری امام حسین (ع) ) ایک عظیم کام اور بہت بڑا شرعی ، عاطفی اور انسانی فریضہ ھے ، عزاداری کے ذریعہ امام حسین (ع) کی یاد کو زندہ رکھناان کی راہ میںمذھب و مکتب کو زندہ رکھنے کے مترادف ھے ، اور یھی رسول(ص) کا راستہ ھے ، اور رسولخدا(ص) کے راستے اور طریقے اور سنّت کو زندہ رکھنا، کیا وھابیوں کی نظرمیں شرک ، کفر اور جرم ھے ؟ یا رسول(ص) کی راہ و روش کو جاری رکھنا ھر مسلمان پرفرض اورواجب ھے ؟ قارئین محترم : خود اس بارے میں غور فرمائیں اور دقّت نظر سے کام لیں ۔

عالم اسلام کے لئے وھابیت کے بدترین تحفے
وھابیت کا مسلمانوں کے خلاف کفر کا فتویٰ
وھابیوں کے اھم اور دلنشین ( اپنی دانست میں ) نظریوں میں سے ایک نظریہ مسلمانوں کو کافر اورمشرک سمجھنا ھے ، اس نظریہ نے عالم اسلام اور تمام مسلمانوں میںبہت ھی برے اور ناگوار اثرات ڈالے ھیںجن کے نتائج بے انتھا ناگوار ثابت ھوئے ، مذکورہ نظریہ کو اسلام دشمن طاقتیں ایک خطرناک اور نھایت مھلک حربے کے طور پر استعمال کررھی ھیں ، وھابی خود کو موحد اور مسلمان تصور کرتے ھیں جبکہ تمام دوسرے مسلمانوں کو کافر اور مشرک سمجھتے ھیں یہ لوگ تعصب کی بنا پر اپنی گمراھی، کج فکری اور بدعتوںکو بھی دینداری سمجھ کر تمام مسلمانوں پر کفر وگمراھی کے فتوے لگاتے ھیں، اور اس طرح وھابیوں نے امّت اسلامیہ کے پیکر پر ضربیں لگائی ھیں ، چنانچہ یہ فتوے اتحادبین المسلمین کی راہ میں مانع اورایک محکم دیوار ثابت ھوئے ھیں، اسی بناپر مسلمان، اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے متحد نہ ھوسکے ۔
اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کہ وھابیوں کی فکر اور طریقہ کا رکی کوئی بنیاد نھیں ھوتی اور نہ ھی ان کے فتوےٰ قرآن و سنت کے مطابق ھوتے ھیں،بلکہ یہ بایتں قطعاً قرآن و سنّت کے خلاف ھونے کے ساتھ ساتھ خطرناک اور تباہ کن بھی ھیں ،اس موضوع سے متعلق پھلے ایک مختصر سی بحث کرتے ھیں اور پھر سنی و شیعہ علماء کے فتووں کو پیش کریں گے ، او رآخر میں اس منحرف اور گندی فکر کے خطرناک ، مضّر اور دکھ دہ نتائج کا جائزہ لیں گے ۔
وھابی حضرات قرآنی توحید کے بارے میں ایک غلط نتیجہ گیری نیز مسائل اعتقادی کے متعلق غلط طرز تفکر کی بناپر تمام مسلمانوںکوجو انھیں کی طرح اسلام کا دم بھرتے ھیں ،کافر و مشرک سمجھتے ھیں اور ان کو مکہ مدینہ اور مسلمانوں کے دوسرے مقد س مقامات پر طعن و تشنیع کا نشانہ اور طرح طرح سے اذیت و آزار پھنچاتے ھیںاور ظلم وتجاوز سے باز نھیں آتے ، ان کا یہ کام سوفیصد خدا و رسول(ص)کی مرضی کے خلاف ھے ،ان کا مقصد مسلمانوں سے دشمنی ھے چونکہ وہ مسلمانوں کو اپنے سے الگ شمار کرتے میں اس لئے کہ وہ باتیں جنکی نسبت وہ اپنے علاوہ دوسروں کی جانب دیتے ھیں اور ان پر ظلم و تشدّد کو جائز سمجھتے ھیں نہ تو اس کی کوئی دلیل قرآن میں موجود ھے اور نہ ھی نبی اکرم(ص) کی سنّت میں اسکا کوئی جواز ھے، انکا یہ عمل در حقیقت قرآن و سنت کے سراسر خلاف ھے۔
تعجب اس بات پر ھوتا ھے کہ ان تمام چیزوں کے با وجود ، وہ اپنے آپ کو اھل سنّت سمجھتے ھیں ،جبکہ واقعی اھل سنّت وہ حضرات ھیں جو گفتار و کردار میں سنّت پیغمبر(ص) اور رسول(ص)کے بتائے ھوئے راستے پر عمل پیراھوں، حالانکہ مسلمان علماء اعلام اور اسلامی پیشواؤں کی سیرت سے قطع نظر فقط سنّت اور و ہ شریعت محمدی(ص) جو تمام مسلمانوںکے لئے عمومی حیثیت رکھتی ھے، وھابیوں کے اس طرز تفکر کے خلاف ھے اور ان کے اعمال اور افکار کو مردود اور قابل مذمت بھی شمار کرتی ھے ۔
ابن تیمیہ ” منھاج السنة “ کی تیسری جلد کے ۱۹ویں صفحہ پر ان اشکالوں کو جواب دیتے ھوئے جو اس پر اس کے ھم مذھب اھل سنّت حضرات نے کئے ھیں لکھتا ھے ،( مذکورہ امور میں سے بہت سے امور کو گناہ کی فھرست سے خارج کرنے پر عذر شرعی ھے ، اور یہ ان اجتھادی مسائل میں سے ھیں جن میں اگر مجتھد واقعی حکم تک دست رسی پیدا کرے تو دو اجر وثواب ھے اور اگر واقعی حکم کو بیان کرنے میںخطا کرے تو ایک اجر ھے، اکثر وہ باتیں جو خلفاء راشدین سے منقول ھیں، وہ اسی باب سے تعلق رکھتی ھیں )
ابن تیمیہ نے اپنی اس گفتار میں اس حدیث پر نظر رکھی ھے کہ جس حدیث کو بخاری نے اپنی کتاب ” صحیح بخاری “ میں عمر و بن عاص سے روایت کی ھے عمربن عاص کہتا ھے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : ”جب کوئی حاکم شرعی کسی مسئلہ میں اجتھادکرے اور اسکے مطابق حکم صادر کرے اگر بیان شدہ حکم، واقعی حکم کے مطابق ھو، تومجتھد کے لئے دو اجر و ثواب ھےں اور اگر مجتھد نے اجتھاد میں خطا کی ھے تو ایک اجر ملے گا “
اور پھر ابن تیمیہ ، اس کتاب کے بیسویں صفحہ پر لکھتا ھے کہ گذشتہ علماء، مفتی ، مراجع جیسے ابوحنیفہ ، شافعی ، ثوری ، داود بن علی اور دیگر مجتھدوںنے بیان کیا ھے کہ وہ مجتھد جو حکم شرعی کو بیان کرنے میں غلطی کرتے ھیں گناھگار نھیں ھیں غلطی اصول میں سے ھوںیا فرعی مسائل میں سے، جیسا کہ ا بن حزم نے مذکورہ بالا علماء اور دوسروں سے نقل کیا ھے ۔
اسی وجہ سے ابوحنیفہ ، شافعی ،اور دوسرے علماء ( فرقہ حطابیہ کے علاوہ ) نفس پرست افراد کی گواھی قبول کرلیتے تھے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح سمجھتے تھے حالانکہ کافر کی گواھی مسلمانوںکے یھاں قبول نھیں ھے اوراسی طرح کافرکی اقتداء بھی صحیح نھیں ھے ۔
گذشتہ زمانے کے بزرگ علماء نے فرمایا ھے کہ ” بزرگ صحابہ ، تابعین اور دینی پیشوا کسی مسلمان کو کافر یا فاسق نھیں کہتے تھے اور اس مجتھد کوجو حکم کو بیان کرنے میں اجتھادی خطا کامرتکب ھوجائے ، گناھگار شمار نھیں کرتے تھے چاھے خطا علمی مسائل میں ھویا فقہ کے فرعی مسائل میں “
ابن حزم اُندلُسی اپنی کتاب ” الفِصَل “ کے تیسرے حصہ میں صفحہ ۲۴۷ پر(یہ کتاب اسلامی مذاھب کے عقائد کے متعلق لکھی ھے ) لکھتا ھے کہ ” علماء کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ھے کہ اگر کوئی مسلمان اعتقادی مسائل یا شرعی مسائل یا فتویٰ دینے میں اجتھادی خطا کرے تو اسکو کافروفاسق شمارنھیں کیا جائیگا اور اگر کوئی شخص اجتھاد کرے او راپنے اجتھاد کردہ مسئلہ کو حق تصور کرے تو ایسے شخض کو ، ھر حال میںاجرملے گا ، اب اگر اسکا نظریہ واقعی حکم کے موافق ھے تو دو اجر ، اور اگر خطا کی ھے تو ایک اجر بھرحال ملے گا “[45]

وھابیت کا مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس کی بے حرمتی کرنا
ان تمام مذکورہ بزرگ علماء کے نظریات اور اقوال جن کو وھابی بھی بزرگ مانتے ھیں اور ان کے نظریات کو تسلیم کرتے ھیں اور ان کتابوں کوسند کا درجہ دیتے ھیں ، مد نظر رکھتے ھوئے ھم اھل سنّت کے دعوے دار وہّابی فرقے سے یہ سؤال کرتے ھیں کہ اگر وہ سب باتیں جو تمھارے بزرگوں نے بیان کی ھیں ، دینی امور میں تمھارے عمل کی اصل اساس او ربنیاد کا درجہ رکھتی ھیںتو پھر کس شرعی دلیل کی بناپر ان تمام مسلمانوںکے فرقوں کو جوتمھارے مسلک کے موافق نھیں ، کافر ومشرک سمجھتے ھو ؟او ران پر ھر طرح کی سختی ،اذیت اور ظلم و تشدّد کو جائز سمحھتے ھو ؟ نیز ان کے ملک اور سرزمین کو کافر حربی کی سرزمین کے مانند خیال کرتے ھو ؟ حالانکہ خداوند عالم فرماتاھے : ”تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ھیں ۔
اور دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے: ” ان نعمتو ں کو یاد کرو جو خدا نے تمھیں عطا کی ھیں جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے او رخداوندعالم نے تمھارے دلوں کو ملادیا اور اس طرح نعمت خدا سے تم ایک دوسرے کے بھائی ھوگئے ۔
پھر ارشاد فرماتا ھے : ” ھم نے مومنوں کے دلوں سے ھر طرح کی کدورتوں کو نکال پھینکاھے تاکہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ھو جائیں اور جب ایک دوسرے سے ملاقات کریں توخوشی کا احساس کریں ۔
اور دوسری جگہ پر ارشاد ھوتاھے: ” جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام انجام دے خدا ان سے محبت کرتا ھے “ ۔
اور ایک جگہ یہ فرماتا ھے: ” اگر وہ توبہ کریں نماز پڑھیں او رزکواة ادا کریں تو وہ تمھارے دینی بھائی ھیں اس طرح ھم اپنی آیتوں کو ان کے لئے بیان کرتے ھیں جوجاننا چاہتے ھیں یا جاننے کے خواہشمندھیں ۔
پیغمبر اسلام (ص) کی معتبر حدیثوں میں بیان ھوا ھے کہ ” اگر کوئی الله کی وحدانیت او رمحمد(ص)کی نبوت کی گواھی دے اسکی جان و مال اور عزت و آبرو محترم ھے اور ھر طرح کے تجاوز سے محفوظ ھے “
صحیح بخاری میں ایک روایت عبداللهبن عباس ۻسے نقل ھوئی ھے کہ جسوقت معاذبن جبل کو یمن بھیجا تو آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا ” بہت جلد اھل کتاب( یھود ونصاریٰ) سے ملاقات کروگے، جس وقت ان کے پاس پھونچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا کہ وہ خداکی وحدانیت یعنی لاالہ الاالله اور رسول(ص)کی رسالت کااقرار کریں ، اگر انھوں نے تمھاری اس بات کو قبول کر لیا تو پھر ان سے یہ کھنا کہ خدائے یکتا نے تم پر ھرروز پانچ وقت نماز کو واجب کیا ھے اگر اسکو بھی قبول کرلیں توپھر ان سے کھنا کہ خدا نے تم پر زکوٰةادا کرنا واجب کیا ھے اور ان کے مالداروں سے زکوٰة وصول کرکے ان کے غریب افراد میں تقسیم کردینا اگر اس بات کو بھی مان لیں تو پھر ان کے اموال پر کوئی تعرّض یا تجاوز نہ کرنا چو نکہ پھر ان کے اموال محفوظ ھیں “
اس طرح کی ایک اور روایت بخاری نے ابن عباسۻ سے نقل کی ھے کہ جب پیغمبر(ص) نے لوگوں کو خدائے یکتا پرایمان لانے کا حکم دیا تو ارشاد فرمایا ” کیا تم جانتے ھو کہ خدا پر ایمان لانے کامطلب کیا ھے “ لوگوں نے جواب دیا ، خدا او ر اسکا رسول(ص)بہتر جانتے ھیں ، تب آنحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا ” خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانا یعنی اس بات کی گواھی دیں کہ خدا ئے یکتا کے علاوہ کوئی خدا اور معبود نھیں اور محمد(ص) الله کے رسول(ص) ھیں اور نماز پڑھیں ،زکوٰة دیں ، ماہ رمضان میں روزہ رکھیں اور جو بھی مال غنیمت حاصل ھو اس میں سے خمس ادا کریں “
اسی کتاب خدا سے آشنا ئی اور سیدالمرسلین کی شریعت سے آگاھی رکھنے والو! ذرا انصاف سے بتاؤ کہ کیا اھل حق او رتمھاے مسلمان بھایئوں سے وھابیوں کی عدالت اور دشمنی ، احکام الٰھی کی حدودسے تجاوز اوران کو پائمال کرنا نھیں ھے ؟!
قارئین محترم کو یاد دھانی کرانے کی ضرورت نھیں کہ مذھب اسلام اور وہ شریعت جو خدا کے منتخب بندے حضرت محمد(ص) پر خدا کی جانب سے نازل ھوئی ھے ، وھابی فرقے کے اعمال ، کردار اور غلط رویّہ کے سراسر خلاف ھے ، وھابیوں کو یہ بتا دینا ضروری ھے کہ خداوند عالم کا حکم ھے:
” اَفَحُکمُ الجَاہِلِیّةِ یَبغُونَ وَ مَن اَحسَنُ مِنَ اللهِحُکماًلِقَومٍ یُوقِنُونَ“[46]
”کیا ایام جاھلیت کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ھو ؟ خداوند عالم کی شریعت اوراحکام جن کو خدانے مومنوںکے لئے نازل فرمایا ھے ، کیا اس سے بہتر کوئی شریعت ھے“
اس لئے اگر کوئی اپنی جانب سے کوئی حکم بیان کرے تو گویا اس نے اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کی اور ایسا کرنے سے خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو بھی روکا اورمنع فرمایا ھے ، خداوند عالم فرماتا ھے ”وَلَا تَتَّبِعِ الہَوَیٰ “ خواہش نفسانی کی پیروی نکرو ، اور خداوند عالم کا حکم ھے کہ فقط ھمارے نازل کردہ قانون کے مطابق عمل کرو ۔
لہٰذا اگر کوئی شخص خدا کے اس حکم پر عمل نکرے تو اس نے خدا کے حکم سے سرپیچی کی ھے وہ بھی ایسی حالت میں کہ جب حق اس کے لئے ظاھر اور آشکار ھوگیا ھو اور حقیقت کی علامتوں کو دیکھ رھاھو“[47]

وھابیوںکاخدا کے حکم کی نافرمانی کرنا
بھر حال حق کی پیروی کا معیار یہ ھے کہ جو بھی قرآن نے حکم دیا اس کو تہہ دل سے قبول کرےںاور اس پر سر تسلیم خم کردےں ،ورنہ اس طرح سے تو ھر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ھے اور دعویدار ھے کہ انصاف اور احسان کی راہ پر گامزن ھے جیسا کہ یہ طریقہ نادان اور جاھل افراد کے یھاں رائج ھے بالکل ویسے ھی وھابیت کے روز مرّہ کا معمول بن چکاھے ، چونکہ وھابیوں کے ملاّ اور مفتی اور دین کے بزرگان اکثر اوقات اپنی عادت اور خواہشوں کے مطابق فتویٰ دیتے ھیں نہ کہ قرآن اور پیغمبر(ص)کی سنّت کے مطابق ۔
اس لئے اس آیہٴ شریفہ کا مضمون وھابی فرقہ پر صادق آتاھے:
” اگر انھوں نے حق سے روگردانی کی تو اے پیغمبر جان لیجئے کہ خدا یھی چاہتا ھے کہ وہ لوگ اپنے بعض گناھوں میں مبتلا ھوجائیں چونکہ ان میں سے بہت لوگ فاسق ھیں“
اور اس آیہٴ شریفہ کا مضمون بھی انھیں کے حال پر صادق آئے گا :
” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ (قرآن ) کے مطابق حکم نھیں کرتے ،فاسق ھیں“۔
یہ بھی اس صورت میں ھے کہ جب خدا اور رسول کی مخالفت کو جائز نہ سمجھتے ھوں ورنہ اگر جائز سمجھیں تو کافر ھو جائیں گے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ھے ” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکم نھیں کرتے ، وہ کافر ھیں“۔
ھاں البتہ اگر فرض کریں کہ مسلمان آپس میں کسی مسئلہ سے متعلق اختلاف یا نزاع کریں تو ان پر واجب ھے کہ اس اختلافی موضوع کوخدا اور رسول(ص) پر چھوڑ دیں جیسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ھے کہ” اگرکسی چیز کے بارے میں نزاع اور اختلاف رکھتے ھو تو خدا اور رسول(ص)کی طرف رجوع کرو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ھو ۔
اور دوسری جگہ پر فرماتا ھے ” جب بھی کسی چیز کے متعلق شدید اختلاف نظر ھو جائے تو اس کے حکم کو خدا اور اسکے رسول پر چھوڑدو“ مندرجہ بالا مطلب کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اگر کوئی مسلمانوں کے قول میں سے کسی ایک فرقے کے اعتقاد کا مسخرہ اور مذاق اڑائے نیز اس پرلعن و طعن کرے اور کفرو الحاد سے نسبت دے تویہ سب اور اس طرح کے دوسرے کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف پھیلانا اور تفرقہ اندازی ھے حس سے خداوند عالم نے اس آیہٴ کریمہ میں منع فرمایا ھے:
” جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پھیلا یا اور مختلف فرقوںمیں تقسیم ھوگئے ایسے لوگوں سے کوئی امید نہ رکھو“ ۔
اور فرماتا ھے ” اے ایمان لانے والوں خدا کو اس طرح پہچانو جیسا کہ پہچاننے کا حق ھے اور ایسے کام کرو کہ جب تم مرو تو با ایمان مرو“
اور اس آیہٴ شریفہ میں ارشاد ھواھے ” ان لوگوں کے مانند نہ ھوجاؤ کہ جو لوگ مختلف فرقوں میں تقسیم ھوگئے اور اللہ کی طرف سے روشن اور واضح دلائل آنے کے باوجود آپس میں اختلاف کر بیٹھے چونکہ ان کے انتظار میں ایک عظیم عذاب موجود ھے“۔
قارئین محترم ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم با ایمان لوگوں کو حکم دیتا ھے کہ اس کی رسیّ (دین) کو مضبوطی سے پکڑلیں اور تفرقہ اندازی سے پرھیز کریں“ اور اپنی رسّی کو مضبوطی سے تھام لینے کی تفسیر بھی یہ کی ھے اسکے دین کو قبول کریں اور اسپر ایمان لے آئیں ۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ اس آیہٴ شریفہ کی روسے اللہ کا پسندیدہ دین فقط سلام ھے:
” اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللّٰہِ الاِسلاَم “( بیشک خدا کا پسندیدہ دین اسلام ھے) اسلام ایمان بھی ھے جیسا کہ اس بات کی تفسیر کلمہ شھادتین میں ھوئی ھے ( یعنی لا الہ الاّ اللّٰہ و محمد رسول اللّٰہ )،اس بنا پر بھی مسلمان ایک ھی دین کے ماننے والے ھیں خداوند عالم نے مسلمانوں کے لئے کچھ حدیں معین کردی ھیں جن سے تجاوز کرنا جائز نھیں ، اس طرح خداوند عالم نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا حرام قرار دیا ھے نیز مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس پر تجاوز اور تعرّض کوبھی ایک دوسرے پر حرام کیا ھے،صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ھے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ”تمھاری جان و مال و عزت اور ناموس ایک دوسرے پر حرام ھے جیسے کہ آج تم لوگ محرم ھو،اور احرام حج باندھے ھوئے ھو اس محترم مھینہ ( ذی الحجہ) اور اس محترم شھر مکہ میں تمھاری جان و مال و عزّت اور آبرو نیز ایک دوسرے کا خون بھانا حرام ھے پھر آپ نے سب لوگوں سے پوچھا:
”کیا میںنے تم لوگوں تک اسلام کا پیغام نھیںپھونچا یا؟ آگاہ ھو جاؤ اور حاضرین ، غائبین کو مطلع کریں“صحیح بخاری میں یہ روایت مختلف راویوں سے نقل ھوئی کہ رسول اکرم(ص) نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ” غور سے دیکھو اور توجہ سے سنو اور اسلام کے حقائق اور معارف کو خوب اچھی طرح سمجھو“ کھیں ایسا نہ ھو کہ میرے بعد کافر ھو جاؤ اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاوٴ۔
اس مقدمہ کو بیان کرنے سے ھمارا مقصد یہ ھے کہ یہ ثابت کریں کہ وھابیوں کے کارنامے اور اعمال کتاب و سنّت کے خلاف ھیں چونکہ قرآن اور سنّت کافرمان ھے کہ مسلمان کو دوستی و محبت کی فضا ھموار کرنی چاہئے نہ یہ کہ مسلمانوں کے درمیان نفرت کا بیج بوئیں اور ان کے درمیان دشمنی ایجاد کریں ان میں سے بعض کو کافر شمار کریں اور مارپیٹ اور برا بھلا کہہ کرظلم و تجاوز کریں ھم اسکے علاوہ وھابیوں سے اور کچھ نھیں کھنا چاہتے :” تِلکَ آیَاتُ اللّٰہِ نَتلُوہَا عَلَیکَ بِالحَقِّ“[48] ،[49]

مسلمانوں کی بے ا حترامی اور ان کی تکفیر سے متعلق اسلام کا صاف اور صریح موقف
اب ھم قارئین کرام کی مزید معلومات کے لئے نیز موضوع کی اھمیت کا لحاظ کرتے ھوئے مسلمانوں کو کافر بتانے کے متعلق ایک عمیق اور تفصیلی بحث پیش کرتے ھیں اور اس بحث میں فریقین کے علماء کے نظریات کا بھی جائز ہ لیں گے تا کہ مؤثر اور مفید ھو۔
اسلامی روایات کو پیش نظر رکھتے ھوئے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اگر کوئی کلمہٴ شھادتین زبان پر جاری کرے اورمسلمان ھونے کا دعویٰ کرے تو اسے کافر کھنا جائز نھیں اور فریقین کے اصلی مدارک میں اس موضوع سے متعلق بہت سی روایات نقل ھوئی ھیں جن میں مسلمانوں کو کافر کھنے سے منع کیا گیا ھے نیز ایسا کھنے یا کرنے والے کی مذمت کی گئی ھے یھاں تک کہ بعض روایات میں تو کافر کھنے والے کو ھی کافر بتایا گیا ھے ان میں سے بعض آیات و روایات کی طرف ھم اشارہ کرتے ھیں۔
خداوند عالم قران مجید میں ارشاد فرماتاھے:
” وَ لَا تَقُولُوا لِمَن اَلقَیٰ اِلَیکُم السَّلاَمُ لَستَ مُؤمِناً “[50]
( جو شخص بھی اسلام کا دعویٰ کرے اس سے یہ نہ کھو کہ تم مسلمان نھیں ھو اس آیہٴ شریفہ کے شان نزول کے متعلق لکھا گیا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ” اسامہ بن زید“ کو ان یھودیوں کی طرف بھیجا کہ جو فدک کی کسی آبادی میں زندگی بسر کررھے تھے تا کہ ان کو اسلام کی دعوت دیں یا کافر ذمّی کے عنوان سے خراج دینے کے شرائط کو قبول کرنے کی دعوت دیں ایک ”مرد اس“ نامی یھودی ، خدا کی وحدانیت نیز پیغمبر(ص) کی رسالت کی گواھی دیتے ھوئے مسلمانوں کے استقبال لئے بڑھا لیکن اسامہ نے اس کے اسلام کو فقط زبانی اسلام ( لقلقہ زبانی) خیال کرتے ھوئے قتل کرڈالا ، اور اسکے مال کو مال غنیمت کے طور پرلے لیا ،اورجب یہ خبر پیغمبر اسلام(ص) تک پھونچی تو آپ بہت رنجیدہ اور ناراض ھوئے اور فرمایا:
تونے مسلمان کو قتل کیا ھے ؟اسامہ نے عرض کی : یا رسول اللہ(ص) وہ شخص اپنی جان بچانے اور مال کی حفاظت کی غرض سے اسلام کا اظھار کررھا تھا تو پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا:
” فَھَلاّ شَقَقتَ قَلبَہُ“ تو نے اس کے قلب کو تو چیر کر نھیں دیکھا تھا شاید وہ حقیقت میں مسلمان ھوگیا ھو۔
اسی مضمون کی دوسری روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ھوئی ھے کہ خود اسامہ بن زید راوی ھیں وہ اس طرح بیان کرتے ھیں کہ ” رسول خدا(ص) نے ھمیں مقام ” جرقَہ“ بھیجااور جب ھم لوگ وھاں پھونچے اورصبح کے وقت ھمارا ان لوگوں سے مقابلہ ھوا اور ان لوگوں کو شکست دی اور باقی لوگ فرار ھوگئے تو ھم نے او رانصار میں سے ایک شخص نے اس فراری کا پیچھا کیا اور جیسے ھی ھم نے اسے پکڑا توفوراً ا سنے” لاالہ الا اللّٰہ “زبان پر جاری کردیا یہ سن کر انصاری شخص نے اس کے قتل کا ارادہ بدل لیا لیکن میں نے آگے بڑہ کر اپنے نیز ے سے قتل کردیا جب ھم لوٹ کر آئے تو یہ خبر اور صورتحال پھلے ھی پیغمبر (ص) تک پھونچ چکی تھی۔
حضرت(ص) نے اسامہ کو دیکھتے ھی فرمایا :اے اسامہ تم نے اس کو اللہ کی وحدانیت کی گواھی دینے کے باوجود قتل کرڈالا؟! اسامہ کا بیان ھے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)یہ شخص اس طرح سے اپنے کو قتل ھونے سے بچانا چاہتا تھا ،آنحضرت(ص) نے اپنے اس کلام کو بار بار دھرایا :” لا الہ الاّاللّٰہ “کھنے کے باوجود تم نے اسے قتل کردیا؟! آنحضرت(ص) نے اس جملہ کو اس قدر دھرایا کہ میں نے تمنا کی کہ اے کاش میں اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ھوا ھوتا۔
اسامہ بن زید نے حضرت کے رویّہ سے جو مطلب اخذ کیا وہ یہ ھے کہ اسکے تمام اعمال نماز وروزہ جھاد وغیرہ اس گناہ کے خلع کو پورا نھیں کرسکتے اور گناہ کے بخشے نہ جانے کا خوف رھا، اسی وجہ سے تمناکی کہ اے کاش اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ھوا ھوتااور اس حادثے کے بعد مسلمان ھوتا۔
ان آیات و روایات سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ اگر کوئی اسلام کا اظھار کرے یعنی کلمہ شھادتین کھے تووہ مسلمان ھے اس کو کافرکھنا یا سمجھنا جائز نھیںھے، اگر ھمارے پاس صرف یھی آیات وروایات ھوتیں، تو مذاھب اسلامیہ اور مسلمانوں کو ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے سے روکنے کے لئے کا فی تھیں چونکہ جو شخص خودکو ” لا الہ الاّ اللّٰہ “ کی پناہ میں قرار دے وہ محترم ھے اوراسکی جان و مال بھی محترم ھے بلکہ جو افراد اسی نیّت سے کلمہ شھادتین پڑھیں ان کے لئے تو اور زیادہ احترام ھونا چاہئے ،ان سے بغض و عناد رکھنا سب وشتم کرنا، نیز ان کوکافر و فاسق کھنا جائز نھیں حالانکہ اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی صاف اور صریح الفاظ میں بہت سی روایتیں فریقین کے یھاں مختلف روایوں سے نقل ھوئی ھیں۔
ان میں سے ایک روایت یہ ھے نبی مرسل نے ارشاد فرمایا :
” َمن کَفََّرَ مُومِناً صَارَ کاَفِراً“ جو شخص کسی مومن کو کافر کھے وہ خو د کافر ھو جائیگا ۔
اور امام باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
” مَا شَہِدَ رَجُلٌ عَلَی رَجلٍُ بِکُفرٍ قَطُّ الَابَاءَ بہ اَحَدِہِمَا اِن کَانَ شَہِدَبہ عَلیَ کَافِرٍ صَدَقَ وَ اِن کَانَ مُؤِمنًا رَجَعَ الکُفرُ اِلَیہِ فَاِیَّاکُم وَالطَّعنَ عَلَی المُوٴمِنِینَ“۔
”کوئی شخص بھی کسی کے کفر کی گواھی نھیں دے سکتا مگر یہ کہ ان دونوں میں سے ایک کفر کا مستحق ھو، اگر یہ گواھی کافر کی نسبت تھی ( یعنی مخاطب واقعی کافر تھا) تو گواھی سچی ھے اور اگر مؤمن کے بارے میں کفر کی گواھی دی ھے تو خود گواھی دینے والاھی کافر ھے لہذا مؤمن پر طعنہ زنی سے پرھیز کرو۔
اس مضمون کی روایت کنزالعمال میں وارد ھوئی ھے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا:
” اَیَّمَا إِمرَءٌ قَالَ ِلاَخِیہِ کَافِرٌ فَقَد بَاءَ بہَا اَحَدَہُما اِن کَانَ کَمَا قَالَ وَ اِلاّ رَجَعَتْ عَلَیہِ“ ۔
”جو شخص بھی اپنے برادر مؤمن کو کافر کہہ کر خطاب کرے ان دونوں میں سے ایک ضرور کافر کھلانے کا حق دار ھے اگر مخاطب واقعی کافر تھا تو صحیح کھا لیکن اگر مخاطب کافر نھیں تھا تو خود کھنے والا کفر کا مستحق ھے۔
ایک ا ور روایت صاد ق آل محمد حضرت امام جعفر صادق(ع)سے نقل ھوئی ھے کہ آپ نے فرمایا:
” مَلعُونٌ مَلعُونٌ مَن رَمَیٰ مُؤمِناًبِکُفرٍوَ مَن َرمَیٰ مُؤمِناًبِکُفرٍ فَہُوَکَقَتلِہِ “
ملعون ھے ملعون ھے وہ شخص جو کسی مومن پر کفر کی تھمت لگا ئے او رجو بھی ایسی تھمت لگائے گویا ایسا ھے کہ جیسے اس نے اسے قتل کر دیا ھو ۔
اور اسی مضمون کی روایت کنز الاعمال میں وار د ھوئی ھے کہ رسول اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا:
”اِذَا قَالَ رَجُلٌ ِلاَخِیہِ کَافِرٌ فَہُوَ کَقَتلِہِ وَ لَعَنُ المُومِنِ کَقَتْلِہِ“
”جو بھی اپنے برادر مومن کو کافر کھے ایسا ھے کہ جیسے کسی نے اسے قتل کردیا ھو نیز کسی مومن پر لعنت کرنا بھی اسکو قتل کر دینے کے برابر ھے ۔
ھم اگرگذرے ھوئے زمانہ پر نظرکر یں اور اسلامی مذاھب اور مسلمانوں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کر یں تو ھمیں پتہ چلے گا کہ بہت مرتبہ ایسا ھوا ھے کہ کسی کو فاسق یا کافر کھنا ، بہت سے بے گناہ افرا د کے قتل کا باعث بن گیا ۔
روایت میں ملتا ھے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کو لایا جائیگا کہ جس نے دنیا میں اچھے کام انجام دئے ھیں لیکن حساب و کتاب کے وقت اپنے اعمال نامے میں ایک عظیم گناہ کو مکتوب دیکھ کر یہ اعتراض کرے گا ( کہ میں نے یہ گناہ انجام نھیں دئے) تو اسکو جواب دیا جائیگا کہ فلاں کے قتل کا گناہ تیری گردن پر ھے تو وہ کھے گا کہ میں نے کسی ایسے شخص قتل کو نھیں کیا او رمیرے ھاتھ کسی کے خون سے آلودہ نھیں ھیں ، تو اسے جواب ملے گا کہ تم نے فلاں شخص کے بارے میں کوئی بات سنی اور اسکو دوسروں کے سامنے نقل کر دیا ،و ھی بات اثر انداز ھوئی او رآخر کار وہ قتل ھو گیا ،لہٰذا تو اس بات کونقل کر نے کی بنا پر تم اسکے قتل میں شریک ھو ۔
ان تمام روایات کو مدنظر رکھتے ھوئے جو فریقین کے حوالے سے نقل کی ھیں ھم اس نتیجہ پر پھونچتے ھیں کہ ایک دوسرے کو فاسق کھنا یا کافر سمجھنا ، گا لیاں دینا اورجاھلانہ بغض و عناد اسلامی مذاھب او رمسلمانوں میں فرقہ وارنہ جنگ ، صدر اسلام سے ابتک رواج پاچکی ھے یہ قطعاً حرام ھے ا ورفریقین کی روایات کے صریحاً مخالف ھے ۔
مندرجہ بالا آیات و روا یات نیز اسی طرح کی اور بہت سی روایات کو پیش نظر رکھتے ھوئے بڑی جرآت کا کام ھے کہ روایات میں ان تمام صراحتوں کے با وجود کوئی مسلمان فقط اس نیّت سے کہ اسکے دینی عقائد اور اصول کی طرف قلباً مائل نھیں یا بعض صحابہ کے نا مناسب سلوک اور اعمال کی بنا پر یا اس سے بھی بڑ ھ کر اپنے سیاسی یا اقتصادی مقاصد کی وجہ سے یا اپنے علوم اسلامی سے متعلق، مختلف فھم و فراصت کی بنا پر دوسرے مسلمان پر فسق اور کفر کی تھمت لگائے یا اسلام سے منحرف ھونے کی نسبت دے ۔
( یہ بڑی جرائت کا کام ھے ) لیکن افسوس کہ اسلام کے ماننے والے ، اسلامی اصول اوربنیاد ی مسائل سے جھالت کی بنا پر آپس میں نامناسب سلوک رکھتے ھیں اور یھی نامناسب اور غیر منطقی سلوک مسلمانوں میں تفرقہ اور گروہ گروہ تقسیم ھونے کا سبب بنا ، اس بنا پرھرگروہ دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ھے اور ایک دوسرے کو گالی گفتار سے نوازتے ھوئے کفر کے فتوے لگاتا ھے ۔

مذکورہ موضوع پر غیر صریح روایتیں
ان روایات کے علاوہ جو بطور صریح اور واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کو کافر کھنے سے روکتی ھیں، دوسری روایتیں بھی ملتی ھیںجو اس عمل کے مضّر اور منفی اثرات کو بیان کرتی ھیں،عنوان مذکورہ کے علاوہ اور دوسرے عنوان بھی ھیں جنکا اسلام کی نظر میں حرام ھونا مسلّم الثبوت ھے ۔
ان عنوانوں کے روشن مصداقوں میں سے کسی کو کافر کھنا بھی ھے اور مؤمن کی بے حرمتی یا مؤمن پرتھمت لگانا سبّ وشتم کرنا ، لعنت کرنا حقیر اور ذلیل سمجھنا ، نیز مذاق اڑانا ، سرزنش کرنا، مؤمن کی توھین اور اسکواذیّت وآزار پھونچا نا ، اسکے عیب تلاش کرنا اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی و غیرہ وغیرہ بہت سے عنوانات پائے جاتے ھیں جو سب کے سب غیر صریح طور پر مرتبط مسئلہ کی حرمت پر دلالت کرتے ھیں کہ ان میں سے بعض کی طرف مختصر طور پر اشارہ کرتے ھیں ۔

مؤمن کی بی حرمتی پر اسلام کی واضح مخالفت
اسلامی قانون میں مسلمان کی جان کی طرح اس کا مال اور عزّت و آبروبھی محترم ھے چنانچہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ھے :
” اِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی المُسلِمِ دَ مَہُ وَ مَالَہُ وَ عِرضَہُ وَ اِن یَظُنُّ بِہِ سُؤءُ الظَّنِّ“
” خداوند عالم نے ھر مسلمان پر ، دوسرے مسلمانوں کی جان ، مال ، عزّت و آبرو اور ان کے بارے میں بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ھے “
جس نے بھی اس عمل کو انجام دیا ،و ہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ھوا اور گناہ کبیرہ پر عذاب کا وعدہ کیا گیا ھے ۔
خلاصئہ مطلب یہ ھے کہ مؤمن کی آبروریزی اور بے احترامی کسی طرح سے بھی جائز نھیںھے، چاھے اسکا مذاق اڑانے یا مسخرہ کرنے کے ذریعہ ھو یا اسکی سرزنش، توھین، جھوٹاسمجھنا ، لعنت و ملامت اور تکفیر کرنے کے ذریعہ ھو ،چنانچہ ایک مسلمان کو کافر کھنا سب سے زیادہ واضح نمونہ ھے ۔اس سلسلہ میںحضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھےں:
” مَن رَوَیٰ عَلَی مُؤمِنٍ رِوَایَةً یُرِیدُ بِھَا شَینَہُ وَ ہَدمَ مُرُوََّتِہِ لِیَسقُطَ مِن اَعیُنِ النَّاسِ اَخرَجَہُ اللهُ مِن وِلَاَیَتِہِ اِلیٰ وِلاَیَةِ الشَّیطَانِ فَلاَ یَقبَلُہُ الشَّیطَانُ “
” جو شخص بھی مؤمن کی عیب جوئی اور بے احترامی کی غرض سے کوئی بات کھے تا کہ اسکو لوگوں کی نظروںسے گرا دے تو خداوند عالم ایسے شخص کو اپنی رحمت سے نکال کرشیطان کی سرپرستی میں بھیج دیتا ھے ،اور شیطان بھی اسکو قبول نھیں کرتا “۔
تکفیر سے بدتر اور کون سی قبیح بات ھوگی جو مؤمن کی روحانی ،معنوی اور اعتقادی شخصیت کو پامال کرتی ھے ۔

اسلام میں کسی مؤمن پر تھمت لگانے کی ممانعت
تھمت یعنی کسی انسان کی طرف کسی ایسی بری چیز کی نسبت دینا جو اس میں نھیں پائی جاتی ، دین اسلام نے اس طرح کے برے اعمال کی شدّت سے ممانعت کی ھے ، اور بڑے ھی شدید لہجے میں منع کیا ھے نیز اس قبیح فعل کو بڑے گناھوںمیں شمار کیا ھے ،تھمت اور بری نسبت دینے کی بھی بہت سی قسمیں ھیں ، بھرحال کسی پر بے دینی کی تھمت لگانا تھمت کی سب سے بدترین قسم ھے ، تھمت کے متعلق روایتیں ایسے تمام افراد کے شامل حال ھیں ، ( جو دوسروں پر بے دینی و غیرہ کا الزام لگاتے ھیں )
حضرت رسالت مآب(ص) فرماتے ھیں :
”مَن بَہَتَ مُؤمِناً اَو مُؤمِنَةً اَو قَالَ فِیہِ مَا لَیسَ فِیہِ ، اَقَامَہُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ یَومَ القِیَامَةِ عَلیٰ تَلٍّ مِّنْ نَاْرٍحَتیَّ یَخرُجَ مِمَّا قَالَ فِیہِ
”جوشخص کسی مؤمن یا مومنہ پر بہتان لگائے یا ان کے بارے میں کوئی بری بات کھے جو ان میں نھیں پائی جاتی تو خداوند عالم قیامت میں آگ کی سیڑھی پر اسے روکے رھے گا تا کہ جو بدگوئی ( کسی مؤمن کی نسبت ) کی ھے اس کا بھکتان بھگتے ۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
” مَن ِاتّہََمَ اَخَاہُ فِی دِینِہِ فَلاَحُرمَةَ بَینَہُمَا وَ مَن عَامَلَ اَخَاہُ بِمِثلِ مَا عَامَلَ فَہُوَبَرِیٴٌ مِمَّا یَنتَحِل“
”جوبھی اپنے دینی بھائی پر تھمت لگائے تو ان کے درمیان پھر کوئی احترام باقی نھیں رھا اور جو شخص اپنے برادر دینی کے ساتھ ، وھی طریقہ اپنائے اور ویسے ھی ملے جیسا کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ملتا ھے تو ایسا شخص مذھب سے خارج ھے ۔
اسلام نے کسی مؤمن پر لعنت اور گالی گفتار سے منع کیا ھے
ایک دوسرے کی طرف بری اور نازیبا نسبت دینا ناگوار الفاظ کھنا جیسے خائن، فاسق ، فاجر ، ملعون و غیرہ کھنا اور اس سے بھی بڑھکر مشرک ، کافر و غیرہ کھنا یا ایسے الفاظ کھنا کہ جن سے کسی مسلمان کی حقارت اور ذلّت ھوتی ھو قطعاً اور یقیناً حرام ھے ، اور بہت سی روایتوں میں اس برے عمل سے روکا گیا ھے ۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں :
”سِبَابُ المُؤمِنِ فُسُوقٌ وَ قِتَا لُہُ کُفرٌ وَحُرمَة ُ مَا لِہِ کَحُرمَةِ دَمِہِ“
”مؤمن کو گالی دینا فاسق ھونے کا سبب ھے اسکے ساتھ جنگ کرنا کفر ھے اور اسکا مال بھی اسکی جان کی طرح قیمتی اور محترم ھے ۔
مزید فرماتے ھیں کہ ” وَلَعنُ المُؤمِنِ کَقَتلِہِ “ مؤمن پر لعنت کرنا اسکے قتل کرنے کے برابر ھے ۔

مسلمانوں کی طرف کفر کی نسبت دینا حرام ھے
اس بارے میں علماء کے فتوے
ھم یھاں پر اسلامی مذاھب کے ائمہ اور بزرگ علماء اسلام کے فتوے مختصر طور پر پیش کرتے میں ،تا کہ یہ بات روشن ھو جائے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر تھمت لگانا ، کفر و تھمت کے لئے راہ ھموار کرنا، نیز کفر کے فتووںکی اسلام کی نظرمیں کوئی اصل و بنیاد نھیں ھے چونکہ قبیح اورگھناؤنی باتیں نہ اسلام کی حیات بخش تعلیم سے سازگارھیں اور نہ ھی آیات وروایات اور علماء اسلام کے فتاویٰ سے اسکی تائید ھوتی ھے۔

شیعہ علماء کرام کے فتوے
شیعہ مذھب میں عظیم اور بزرگ علماء جیسے شیخ صدوق(رہ) کتاب ھدایہ میں ، شیخ مفید(رہ) اوائل المقامات میں ، محقق حلی (رہ) شرایع الاسلام میں صاحب جواھر(رہ)جواھر الکلام میں ، آیت اللہ الحکیم مُستمسک میںاورجناب آملی (رہ)نے مُصباح الھدیٰ میں ، علامہ مجلسی(رہ) نے بحارالانوار میں ، اور الحاج آقاے رضا ھمدانی (رہ) نے مُصباح الفقیہ ، میںتحریر کیا ھے کہ جو شخص شھادتین (لاالہ الاا لله محمد رسول الله)کا اظھار کرے وہ شخص مسلمان ھے ،اور اسلام کے اجتماعی حقوقی او ر عدالتی احکام اس پر جاری ھوں گے۔
نمونہ کے طور پر شیخ صدوق (رہ) کی کتاب الھدایة کی عبارت پیش خدمت ھے ،موصوف فرماتے ھیں:
”الِاسلاَمُ ہُوَ الاِقرَارُ بِالشَّھَادَتَیںِ وَ ہُوَ الَّذِی یُحقَنُ بِہِ الدِّمَاءُ وَ الاَموَالُ وَ مَن قَالَ لاَ اِلٰہَ اِلّااللهُ مُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ(ص) فَقَد حُقِنَ مَالُہُ وَ دَمُہ‘ُ‘
”اسلام یعنی خدا کی وحدانیت اور حضرت محمد(ص) کی رسالت کا ا قرار کرنا ،اور جس نے شھادتین کو زبان پر جاری کر لیا اسکی جان و مال ھر طرح کے تجاوز سے محفوظ ھے لہذا جو بھی” لا الہ الاالله محمد رسول الله “کھے اسکی جان و مال محفوظ ھے “
بغیر کسی شک و تردید کے علماء ان فتاویٰ کے ھوتے ھوئے کسی کو بھی، کسی ایسے شخص کو کافر کھنے کی اجازت نھیں دے سکتے جو کلمہ شھادتین کا اقرار کرے اگر چہ زبانی ھی اقرار کرے۔

سنّی علماء کے فتوے
اشعری کا فتویٰ :
”احمدبن زاھرسرخی “جن کا شمار امام ابوالحسن اشعری کے بزرگ شاگردوں میںھوتا ھے، نقل کرتے ھیں کہ وہ(ابوالحسن اشعری ) اپنے زندگی کے آخری لحظات میں میرے غریب خانہ پر تشریف فرماتھے اسوقت مجھے حکم دیا کہ ان کے سبھی شاگردوں اور دوستوں کو ان کے پاس بلاؤں، جب لوگ جمع ھو گئے تو سب کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا:
”اَشھِدُوا عَلَی اِنَّنیِ لَا اُکَفِّرُاَحَداً مِّن اَھلِ القِبلَةِبِذَنبٍ ِلاَنَّہُم کُلُّہُم یُشِیرُونَ اِلَی مَعبُودٍ وَاحِدٍ وَ الِاسلاَمُ یَشمُلُہُم وَیَعُمُُّہُم“
” تم سب لوگ گواہ رھنا کہ میں نے کبھی بھی کسی ایسے شخص کو جوایک قبلہ کا ماننے والا ھے اسکے کسی گناہ کی وجہ سے اُسے کافر نھیں کھا اس لئے کہ وہ سب ایک ھی معبود کی عبادت کرتے ھیں وہ لوگ اسلام میں شامل ھےں، اوروہ سب اسلام کے دائرے میں ھیں “

ابوحنیفہ و غیرہ کا فتویٰ :
”قال ابن حزم ”وَذَہَبَ طَائفَة ٌاِلَی انّہُ لَا یُکَفِّرُ وَلَا یُفَسِّقُ مُسلِمٌ بِقَولٍ قَالَہُ فِی اِعتِقَادٍ اَوفَتیَا … وَہَذَا قَولُ اِبنِ اَبِی لَیلیٰ وَ اَبِی حنیفہ و الشافعی و سفیان الثوری و داؤد ابن علی و ھو قول کل من عرفنا لہ قولاً فی ھٰذہ المساٴلة من الصحابة و لا نعلم فیہ خلافاًفی ذلک“
ابن حزم ( جن کا شمار فرقہ ظاھر یہ کے رھبروں میں ھوتا ھے ) کہتے ھیںکہ علماء کاایک گروہ اور جماعت کا نظریہ یہ ھے کہ کسی مسلمان کو اسکے عقیدہ یا ایسے فتووں پر عمل کرنے کی وجہ سے جومشھو ر نھیں ، فاسق یا فاجر نھیںکھاجاسکتا اور یھی نظریہ ابی لیلیٰ جو ابو حنیفہ کے ھم عصر تھے اور ابو حنیفہ ،شافعی ، سفیان ثور ی ( ابو حنیفہ کے دوسرے ھم عصر ) اور داؤد بن علی کا نظریہ ھے ، اور ھم نے کسی صحابی کو بھی اس نظریہ کا مخالف نھیں پایا ۔
جب شیخ الاسلام تقی الدین سبکی سے اھل ھوا و ھوس اور بدعت کرنے والوں کی تکفیر کے متعلق سوال ھو تا ھے تو وہ جواب میں تحریر کرتے ھیں :
”اے میرے بھائی یہ بات ملحوظ خاطر رھے کہ کسی مؤمن کے کفر کے متعلق اظھار کرنا نھایت مشکل اور سخت کام ھے ، لہذا جوشخص مؤمن ھو اسکے لئے کسی ایسے شخص کو جو” لا الہ الاالله محمدرسول الله“ کا اقرار کرتا ھے ، فقط ھوا پرستی یاکسی بدعت کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگانا بہت ھی خطرناک کام ھے اور کسی کی طرف بھی کفر کی نسبت دینا کوئی آسان کام نھیں ۔
اور دوسری جگہ پر جب ان سے غالی ، بدعتی اور ھوا پرست متکلمین او ر فلاسفہ سے متعلق سؤال ھو تا ھے تو فرماتے ھیں کہ یہ جان لینا چاہئے جسکے دل میں الله عزو جل کا خوف ھو وہ کسی ایسے شخص کے کفر کے متعلق زبان کھولنے گی ھرگزجرات نھیںکر سکتا جو ” لاالہ الاالله او ر محمد رسول الله “کا اقرار کرنے والاھے ۔۔۔ نیز انھوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ھوئے فرمایا کہ کوئی شخص بھی کسی مؤمن کو کافر نھیں کہہ سکتا مگر یہ کہ خود اصول دین سے خارج اور کلمہ شھادتین کا منکر ھوجائے نتیجہ میں ایسا شخص اسلام کے دائرے سے خارج ھوجائیگا “ ۔
اوزاعی کہتے ھیں:
” خدا کی قسم اگر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جائے تب بھی شھادتین کا اقرار کرنے والے کوکافر نھیں کہہ سکتا “
حسن بصری فرماتے ھیں:
جب ان سے نفس پرستوں کے متعلق سؤال کیا گیا تو اپنے جواب میں فرمایا کہ تمام وہ افراد جو خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتے ھیں ، ھمارے رسول(ص) کے امّتی ھیں اور یقیناً جنّت میں جائیں گے۔
زھری ، سفیان ثور ی اور سعیدبن مسیّب و غیرہ جیسے بزرگ علماء بھی کسی مسلمان کو کافر کھنے کی اجازت نھیں دیتے اور اس کی تکفیر کو حرام جانتے ھیں ۔
لہٰذا جب یہ ثابت ھوگیا کہ کسی پر تھمت لگانا یا کسی مسلمان کو کافر کھنا بے بنیاد بات ھے اورآیات و روایات کی روشنی میں اسلام کی شدید مخالفت بھی اس موضوع سے متعلق ظاھر اور روشن ھوگئی تو تمام مسلمانوں پر خصوصاً ان علماء پر کہ جو دین اور شریعت کے محافظ ھیں ، واجب اور ضروری ھے کہ معاشرے کے دامن سے اس کثیف اور ننگین دھبّہ کو مٹانے کی کوشش کرےں اور ان منحوس باتوں کا معاشرے سے نام ونشان تک مٹا دیں اور مسلمانوں کو ان بے بنیاد باتوں سے جو مصیبتیں مشکلات، کدورتیں، تفرقہ بازی اور جنگ و جدل سے نجات دلاکر آسودہ خاطر کریں عقیدہ اور فرعی احکام میں فقط اسلامی اصولوں پر اعتماد کرتے ھوئے معاشرے میں اخوت اور بھائی چارگی کی فضا دوبارہ ھموار کریں، آپس میں سماجی رابطوں اور تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور تمام مسلمانوں کو متحد ھوکر الله کی رسّی ( دین )کو مضبوطی سے پکڑنے کی دعوت دیں ، یہ الٰھی اور اسلامی انقلاب جو سرزمین ایران پر ظھور پذیر ھوا اسکی قدردانی کرتے ھوئے آپس میں بے وجہ کینہ اور کدورتوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور سب کو ایک صف میں کھڑے ھوکر ایک جسم وجان کے مانند اسلام کے لئے ایک مضبوط حصار میں تبدیل ھوجائیں اور سامراج اور ظالم طاقتوں کا نام ونشان مٹادیں ،اس امید کے ساتھ کہ الله کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کے سایہ میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اوریکجہتی کی فضاقائم ھو ، اور اس کے سایہ میں اسلامی برادری اپنی عزت و عظمت کو دوبارہ حاصل کرلیں تا کہ پھرکسی کو اپنی عظمت رفتہ کا ماتم نہ کرناپڑے ۔[51]

وھابیوں کے ھاتھوں اھل کربلا کا قتل عام
وھابیوںکی زندگی کی بھیانک اور تاریک تاریخ میں وہ دردناک غم انگیز اور دل، ھلا دےنے والے حادثات نظر آتے ھیں ،جوایک زمانہ گذر جانے کے باوجود بھی بھلائے نھیں جاسکتے ، ان میں سے ایک حادثہ کربلا کے مقدس شھر پر ۲۱۶اھ میں افسوسناک حملہ کی شکل میں پیش آیا ، ھم اس دردناک قتل عام واقعہ کا خلاصہ” ڈاکٹر سید عبدالجواد کلید دار“ کی کتاب” تاریخ کربلا“ نامی کتاب سے نقل کررھے ھیں وہ لکھتے ھیں کہ :
”واقعہ عاشورا کے دردناک واقعہ کے بعد تاریخ کربلامیں جو سب سے بڑا افسوس ناک اور ھولناک واقعہ ھواھے وہ وھابیوں کے ھاتھوں کربلاکے لوگوں کا قتل عام ھے جو ۶ا۲اہجری میں پیش آیا ، یہ دل کو لرزادینے والادردناک حادثہ جس کے شعلہ ، چنگاریاں اور اثرات تمام اسلامی اور یورپی ملکو ں میں اب بھی باقی ھےں ، مسلمانوں اور مغربی تاریخ نگاروں نے اس واقعہ کے غم انگیز اور دردناک اثرات کے متعلق بہت کچھ لکھاھے اور لکھتے رہتے ھیں نیز اس واقعہ کو کربلاکی تاریخ میں دوسرے دردناک واقعہ کے عنوان سے یادکرتے ھیں ۔
ایک انگیریز ”اسٹیفن ھمیسلی، لوئیکر “ اپنی ” تاریخ عراق کی چارصدیاں “ نامی کتاب میں لکھتا ھے کہ نجدی عربوں کا بار ھویں صدی ہجر ی کے اواخر تک وھی عقیدہ اور مذھب تھا جو باقی سارے مسلمانوںکا عقیدہ اور مذھب تھا اور دونوںمیں کوئی فرق نہ تھا، یہ اس زمانے کی بات ھے جب محمدبن عبدالوھاب نے اپنے نئے نظریات او رافکار کا نشانہ بادیا نشین عربوں کو بنایا تھا ۔
اس زمانے میں محمدبن عبدالوھاب کے نظریات کوسب سے پھلے محمدبن مسعود نے قبول کیا جو عرب کی بادیا نشین آبادی کا بادشاہ تھا ۔
محمدبن عبدالوھاب کہ جس نے بغداد میں تعلیم حاصل کی پھر مدینہ کا رخ کیا تب مقام عوینہ (جو حجاز میں واقع ھے ) کی طرف لوٹ آیا ۔
وہ دردناک واقعہ جو وھابیوںکی قساوت قلبی ، سنگ دلی ، درندگی اور حرص و ھوس پرستی پر دلالت کرتا ھے کہ جسکو وہ ( وھابی ) دین او ردینداری سمجھتے ھیں وہ واقعہ ھے کہ جب وھابیوںکے لشکر نے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے پیش قدمی کی ۔
وھابی لشکر کے شھر کربلا کے قریب آنے کی اطلاع اس وقت ھوئی کہ جب کر بلا کے رھنے والے اکثر افراد زیارت کی غرض سے نجف اشرف گئے تھے اور باقی لوگ جو کربلا میں موجود تھے دروازوں کو بند کرنے میں مشغول ھوگئے ۔
وھابیوں کا لشکر چار سو سوار اور چھ سو پیادہ افراد پر مشتمل تھا ، یہ ایک ہزارسپاھیوں پر مشتمل لشکر شھر کے باھر پڑاؤ ڈال کر خیمہ زن ھوا ، پھر اپنی فوج کو تین دستوں میں تقسیم کرنے کے بعد آخر کار ”باب المحیّم“نامی محلہ کی جانب سے شدید حملہ کرنے کے بعد شھر میں داخل ھو گئے ۔
لوگ چار و ںطرف سے تتر بتر ھو کر بھا گ کر جان بچانے کی کوشش کر رھے تھے تب وھابیوں نے امام حسین (ع) کے روضہ کا رخ کیا اور راستہ صاف کرکے روضہ منور تک جا پھونچے روضہ میں گھس کر حضرت کی مقدس ضریح کو توڑدیا اور نھایت بی حرمتی کی اور روضئہ مبارک کی تمام نفیس اشیاء قیمتی ھدایا ، شمعدان ، جھاڑ فانوس بیش بھا قالینیں اور گرانقیمت چراغدان ، گنبد میں لگا ھوا سونا اور تمام ھیرے و جواھرات اور اس طرح کی بہت سی قیمتی چیزوں کو لوٹ کر شھر سے باھرنکل گئے ، اس ظلم و تشدّد پر ھی اکتفاء نہ کیا بلکہ روضہ اقدس کے صحن میں نیز مقدس ضریح کے پاس ظلم و بربریت کا وہ کھیل کھیلا کہ انسانیت بلبلا اٹھی، شیشہ اور آئینوں سے روضہ مبارک کی مزیّن در و دیوار کو مسمار کرتے ھوئے ضریح کے نزدیک پچاس مؤمنین کو ا ورصحن اطھرمیں پانچ سو بے گناہ زائرین کو بڑی بے دردی سے قتل کرڈالا ۔
سفّاک ، سنگدل اور وحشی درندوں نے شھر میں ھر طرف تباھی، لوٹ مار ، قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا جو بھی نظر آیا ذرّہ برابر رحم کئے بغیر اسے قتل کردیا ،گھروں کو تاراج اور شھر کو ویران کردیا، اس قتل و غارت گری میں مرد عورت پیرو جوان ضعیف و کمزور یھاں تک کہ بچوں پر بھی رحم نہ کیا ، کوئی بھی ان کی درندگی سے محفوظ نہ رہ سکا ، مورخین نے قتل ھونے والوں کی تعداد اکی ہزار اور بعض نے فقط زخمیوں کی تعداد پانچ ہزار تک بتائی ھے،مدینہ کے وھابی ملاؤں نے ۳۴۴اھ میں جنّت البقیع اور دوسری جگھوں پر مقدس قبروں کو مسمار اور منھدم کرنے کا فتویٰ صادر کردیا اس سال ۸شوال کو شہزادی کو نین صدیقہ طاھرہ دختر رسول(ص) حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبّہ مبارک کو منھدم کرنے کا فتویٰ جاری کیا اس فتوے کے فوراً بعد شہزادی کو نین کی قبر مبارک کو منھدم کردیا گیا ۔
اسکے بعد ھمارے چار امام یعنی حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) امام زین العابدین (ع) امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے مبارک مرقدوں اور رسولخدا کے چچا جناب عباس پیغمبر اکرم(ص) کے فرزند جناب ابراھیم (ع) اور آنحضرت(ص) کی پھوپھیوں اور بیویوں کی قبروں نیز جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر مبارک اور اسلامی لشکر کے سردار رسول خدا کے چچا جناب حمزہۻ کی قبر مقدس کوبھی منھدم کردیا یھاں تک کہ نشان قبر بھی مٹا نے کی کوشش کی گویا یہ بھیانک جرائم کرکے اس آیہٴ شریفہ پر عمل کرنے کا ثبوت دیا :
” قُل لَااَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجراً اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربیٰ “[52]
اے پیغمبر ان سے کھدو کہ میں اپنے اقرباء کی مودّت اور محبت کے سوا ء تم لوگوں سے کسی اجر کا طلبگار نھیں ھوں ۔
شیعہ مذھب کے عالی مقام مجتھد اور عظیم مرجع آقائے محمد باقر اصفھانی کہ جو وحید بھبھانی کے نام سے مشھور ھیں ، ان کے نواسے ایک بزرگ اور مشھور عالم علامہ آقائے احمد کرمانشاھی جو اس زمانہ کے مشھور علماء میں سے ھیں اپنی ” مرآةالاحوال جھاں نما “ نامی کتاب میں وھابیوں کے کربلا پر ظالمانہ حملہ کے بارے میں تحریر فرماتے ھیں یھاں پر اس کتاب سے کچھ باتیں پیش کردینا مناسب سمجھتے ھیں ،علامہ احمد کرمانشاھی جو اسوقت ( کربلامیں وھابیوں کے ظالمانہ حملہ کے موقع پر ) کرمانشاہ میں تشریف فرماتھے اس طرح تحریر فرماتے ھیں:
” ان دنوں وھابی جماعت کی کربلائے معّلیٰ اور اس پاک ومقدس شھر میں قتل و غارت گری جو خبریں موصول ھوئی ھیں ان کا خلاصہ یہ ھے اس مقدس شھر ( کربلا) اور اسکے اطراف وجوانب میں ساکن افراد ۶ا۲اھ میں عید غدیر کے موقع پر حضرت علی (ع) کے روضئہ اقدس کی زیارت اور حضرت کی ڈیوڑھی پر بوسہ دینے کی غرض سے نجف اشرف گئے ھوئے تھے اور اس شھر میں موجود نہ تھے ، بدنھاد اور منحوس سعود (بادشاہ وقت ) کو جب اس بات کی خبر ھوئی کہ کر بلا کامقدس شھر خالی ھے ، اس نے اس شھر مقدس کو راتوں رات گھیر لیا ، جس وقت ذی الحجہ کے مھینے میںغدیرکے دن مومنین زیارت اور عید کی تیاری میں مشغو ل تھے ، قلعہ کو پوری طرح سے محاصرہ میں لے لےا ،افرادکی کمی اور سامان جنگ کی قلّت اور وھاں کے حاکم ” عمد ناصبی “ کی سستی کی وجہ سے مومنین کی کمر ٹوٹ گئی اور لوگوں کی قوت دم توڑگئی اور مرکز ضلالت کی گمراہ فوج نے قلعہ کے دروازہ کو توڑکر نیز اطراف و جوانب سے شھر میں داخل ھوکر قتل و غارت گری شروع کردی چنانچہ تین ہزار مقدس مجاور اور زائرین درجہ شھادت پر فائز ھوئے ، اور قبہ مبارک نیز حضرت سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کے روضہ اقدس کو ناقابل تلافی نقصان پھونچا اور ضریح مقدس کے جوارمیںبسنے والوں کے گھروں کو تاراج کرڈالا اور زوال کے بعد اس منحوس فوج کے مقام درعیّہ کی طرف چلے جانے کے بعد ظلم اور بربریت کا یہ کھیل ختم ھوا ۔[53]
میر عبداللطیف شوشتری جو شھر شوشتر کے نورانی سلسلہ سادات اور سید نعمت الله جزائری کی نسل میں سے ھیں اور صفوی حکومت کے آخر ی دور کے مشھور ومعروف مجتھد اور فقیہ ھیں ، موصوف اپنی” تحفہ العالم “نامی کتاب میں جو ایک سفرنامہ ھونے کے باوجودتاریخی جغرافیائی شعر و ادب اور ھندسہ شناسی کے متعلق اپنے دامن میں بہت سے اھم نکات لئے ھوئے ھے اور فارسی زبان کے سیاست سے متعلق ایک اھم اور قدیمی کتابوں میں شمار ھوتی ھے ، محمد بن عبدالوھاب کے نمایان ھونے اور اسکی منحرف تعلیم و تریبت نیز اسکی باطل فکروں ، کربلائے معلّیٰ پرحملہ ، ضریح مقدس اور قبروں کومنھدم کرنے کے متعلق بہت ھی روشن بیانات ملتے ھیں قارئین محترم کومکمل فائد ہ ،نیز معلومات میں اضافہ کی خاطر مرحوم مجتھد کے بیان کو یھاںپر بیان کردینا مناسب ھے ۔
آپ اپنے سفرنامہ کے اختتام میں کہ جو’ ’ ذیل التحفہ“ کے نام سے موسوم ھے ، تحریر فرماتے ھیں :
”بھرحال جس وقت میں وھاں تھا تو عبدالعزیز وہّابی کی کدورتوں کی خبر موصول ھوئی کہ اس نے ۸اذی الحجہ ۶ا۲اھ میں عرب کی بدّو فوج کو لے کر کربلائے معلّیٰ کی مقدس سرزمین پر چڑھائی کی، اور تقریباً چار پانچ ہزار مؤمنین کو تہہ تیغ کرڈالا ، اور روضئہ منوّرہ کی جو بے ادبی اور بے حرمتی کی ھے، اسے قلم لکھنے سے قاصر ھے ، شھر کو برباد اور غارت کردیا ، مال و اسباب لوٹ لیا اور تباھی مچانے کے بعد اپنے وطن ”درعیّہ“ کی طرف چلاگیا “
جب بات یھاں تک پھونچ گئی تو مناسب ھے کہ کچھ باتیں وھابیوں کے حالات کے بارے میں رقم کردی جائیں تا کہ قارئین محترم وھابی مذھب سے پورے طور پر آگاہ ھوجائیں ،اور تشنگی محسوس نہ کریں۔
شیخ عبدالوھاب جو وھابیت کی اصل و بنیاد ھے ،نجد کے علاقہ درعیّہ سے تعلق رکھتا تھا ، اپنے زمانہ میں اپنے ھم عمر لوگوں کے درمیان ذھانت میں مشھور تھا ، اور چالاک سمجھا جاتا تھا ،اور سخی بھی تھا ، لہذا جو بھی اسکی دست رسی میں ھوتا تھااپنے تابعین اور مددگاروں میں خرچ کر دیتا تھا،اپنے ھی وطن میںتھوڑی بہت عربی علوم کی تعلیم حاصل کی ، بھر حال حنفی فقہ میں تھوڑی بہت جانکاری کے بعداصفھان کی طرف سفر کیااور و ھاں کے یونانی فلسفی ماحول میںیونانی فلسفہ کے مشھور اساتذہ سے فلسفہ یونانی کے کچھ مسائل سیکھے اور یونانی فلسفہ جو اپنی دلیل خود ھی باطل کرنے کے مترادف ھے او رگویا اپنے لئے خود ھی قبر کھودنے کے برابر ھے ،میں تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اپنے وطن واپس چلا آیا اور ۱۱۷۱ھ میں وھابی مذھب کا علمبردار بن کر ابھرا ، وہ حنفی طریقہ پر عمل پیرا تھا اور اصول میں امام ابوحنیفہ کا مقلّد تھا اور فروع دین میں اپنی رائے پر عمل کرتا تھا ،آخر کار اصول کے بعض مسائل میں بھی ابوحنیفہ کی تقلید کے طوق کو گردن سے اتار کر پھینکا اور اپنی مستقل رائے کا اظھار کرنے لگا، اپنی ذاتی رائے کے مطابق جو بھی اس کو اچھا لگتا تھا وھی کہتا تھا اور اس پر لوگوں کو عمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اس کی اپنی ذاتی رائے تھی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے یھودی ،عیسائی اور تمام لوگ مشرک او رکافر ھیں اور سب ھی کو بت پرستوں کے زمرے میں شمار کرتا تھا او راپنی اس باطل رائے پر یہ دلیل پیش کرتا تھا کہ مسلمان حضرت رسول اکرم(ص) کی قبر منور پر ،ائمہ ھدیٰ اور اولیاء، اوصیاء کے مقدس روضوں اور پُر نور قبروں سے متوسل ھوتے ھیں، جو خود مٹی اور پتھر سے بنے ھوئے ھیں او رقبر میں سونے والے مردوں سے توسل کرتے ھیں، ان کی قبروں کے سامنے سجدہ کرتے ھیں ان کے آستانوں پر جبین نیاز خم کرتے ھیں۔
حالانکہ حقیقت میں یہ بت پرستی اور بتوں کی عبادت ھے کہ اگر بتوں کی تصویر یا خود بت یا اس کی مخصوص شکل کو خدا نہ سمجھیں بلکہ یہ کھیں کہ یہ ھمارا قبلہ ھے اور فقط اس کے واسطے سے اپنی حاجتوں کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرتے ھیں جیسا کہ یھودی اور عیسائی کلیساؤں او راپنی عبادتگاھوں میں حضرت موسی ٰ (ع) او رحضرت عیسیٰ (ع) کی تصویر نصب کرکے خدا کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیتے ھیں جب کہ خدا کی عبادت یہ ھے کہ ذات اقدس کے لئے عبادت کرےں اور سجدہ ریز ھوں او رکسی کو خداوندعالم کا شریک قرار نہ دیں۔
گفتگو کا خلاصہ یہ ھے کہ اس کے بعض مددگار قبیلوں نے اس کی پیروی کی اور اس طرح نجد کے دیھاتی علاقوں میں مشھور ھوگیا وہ ھمیشہ حضرت رسول اکرم(ص) کے روضہ کی گنبد اور ائمہ کے روضوں کے منھدم کرنے سے متعلق موضوع کو ورد زبان رکھتا تھا اور اس کو اپنا نصب العین اور اپنے منحوس مقاصد کی کامیابی میں رکاوٹ سمجھتا تھا ،وہ ھمیشہ اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اگرقدرت وطاقت حاصل ھوجائے تو سب روضوں کو تباہ و برباد کرکے ان مقدس آستانوں کا نام و نشان تک مٹادیں لیکن موت نے اسے مھلت نہ دی اور مرگیا ۔
یھاں تک کہ عبدالعزیز جو محمد بن الوھاب کا ھم عصر تھا خود بھی اور اسکا بیٹا سعود کہ وہ دونوں خلیفہ، جانشین اور امیرالمسلمین جیسے ناموں سے موسوم تھے،انھوں نے بھی نجد اور اسکے اطراف و جوانب کی بستیوں پر اکتفا ء نھیں کی بلکہ دور درازکے شھروں اور علاقوں کو بھی اسی طور طریقہ پر عمل کرنے کو کھا اور انھیں طو رطریقوں کو رائج کرنے میں بہت کو شاں رھے نیز اپنے پیروکا روں کے لئے تمام مسلمان فرقوں کے جان و مال کو حلال قراردے دیا اور اپنے لشکر اور اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ جس علاقہ میں جاؤ و ھاں کے مردوں کو قتل کرڈالومال و دولت لوٹ لو، لیکن عورتوں اورناموس پر ھاتھ نہ ڈالو اور لشکر کے ھر فرد کو جنگ کے وقت ایک رقعہ خازن جنّت کے نام لکھ دو تا کہ وہ اپنی گردن میں لٹکالے تا کہ جس وقت اسکی روح جسم سے جدا ھو فوراً بغیر کسی سؤال و جواب اور تاخیر کے بہشت میں داخل ھوجائے ، اسکے مرنے کے بعد اس کی آل و اولادکی ذمہ داری لے لی ، اس طرح سے ھر فوجی، مال و دولت او رجنّت کی لالچ میں سکون او راطمینان کے ساتھ جنگ میں قدم رکھنے لگا ۔
چونکہ اگر فتح ھوئی تو مال اور دولت ھاتھ آئے گا او راگر قتل ھوگیا تو اس رقعہ کی وجہ سے ( جو خازن جنّت کے نام اسکی گردن میں آویزاں ھے ) بغیر حساب وکتاب کے جنّت میں داخل ھوجائےگا۔
اس طرح گذشتہ سالوں میں نجد کے آس پاس کے علاوہ اور دوسرے شھر مثلاً احساء ، قطیف، اور بہت سے عرب علاقوں پر ، بصرہ کی حدود تک دوسری طرف عمان کے قریب علاقوں تک اور بنی عقبہ کے تمام علاقوں پر قھر اور غلبہ سے قابض ھو گئے ، لوگوں نے قتل وغارت اورتاراجی اور قید و بند کے مصائب سے تنگ آکر مجبوراً ان کے مذھب اور طو رطریقوں کو اپنا لیا ، اس طرح اسکی حکومت اور اقتدار کا اثر دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا چندمرتبہ ان کے قھر و غلبہ کے متعلق روم کے بادشاہ اور عجم کے دوسرے بادشاھوں تک یہ خبر بھیجی گئیں اسکے باوجودکسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہ کی اور نہ ھی ان کے مقابلہ اور دفاع کے لئے کوئی قدم اٹھایا ،اس کے بعد صاحب کتاب تحفة العالم اس رسالہ کا بعض حصّہ نقل کرتے ھیں جو محمدبن عبدالوھاب نے اپنے اعتقاد اور فتووں کے متعلق لکھا ھے جیسا کہ آپ فرماتے ھیں کہ میں نے مذکورہ رسالہ کو محمدبن عبدالوھاب کے ماننے والے کے پاس دیکھا ھے اس رسالہ کو عربی ھی میں نقل کرنے کے بعد یہ تحریر فرماتے ھیں۔
اگر چہ اسکی اکثر دلیلیں جو اس نے قرآن کی آیتوں سے استدلال کے طور پر پیش کی ھےں، ان سب کا جواب بھی قرآن ھی کی آیات میں موجود ھے مثال کے طو رپر شعائر اللهکی تعظیم وتکریم رسولخدا(ص) کی اطاعت جو خداوند عالم کی اطاعت ھی میں مضمر ھے لہٰذا جب رسول(ص) کی اطاعت کا فرض اور واجب ھونا ثابت ھوگیا جیسا کہ یہ آیت بھی اطاعت رسو ل(ص) کی تائید کررھی ھے:
” وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الہَوَیٰ اِن ہُوَ اِلاّٰ وَحیٌ یُوحیٰ“
آنحضرت(ص)کے فرمان کے مطابق جنت اور ارکان دین کا زبان سے اقرار کرنا بھی مھم ترین واجب او رفریضہ ھے اور جو کچھ آنحضرت یا صاحبان امر سے اپنی مشکلات اور مصیبتوں میں اپنے منافع یا اپنے ضرر سے بچنے کے لئے اپنی زندگی کی خوشحالی یاتنگ دستی کے ایّام میں یا آخر ت میں نجات سے متعلق متوسل ھو، تو اپنے اور خدا کے درمیان ان حضرات وسیلہ اور شفیع قرار دے تو نہ کوئی حرج ھے اور نہ اس سے کسی عقیدہ کو کوئی ٹھیس پھونچتی ھے لیکن وھابی افراد یا محمدبن عبدالوہّا ب کے پاس اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لئے سب سے بڑی اورخطرناک دلیل شمشیر برّان اور تیغ آبدار ھے ، اور ایسی دلیل کا جواب تلواروںکی تیز دھاروں کے علاوہ کچھ نھیں ھوسکتا [54]

خونین حج او رمسلمانوں کے قتل عام کا دردناک واقعہ
”اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا ویَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللهِ وَالمَسجِدِ الحَرَامِ الَّذِی جَعَلنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَاءً العَاکِفِ فِیہِ وَالبَادِ وَ مَن یُرِد فِیہِ باِلِحَادٍ بِطُلمٍ نُذِقْہُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ“[55]
” بے شک جو لوگ کافرھوبیٹھے اور خدا کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ ) سے جسے سب لوگوںکے لئے ( عبادتگاہ ) بنا یا ھے ( اور ) اسمیں شھری اور بیرونی سب کا حق برابر ھے (لوگوں کو) روکتے ھیں(انکو ) اور جو شخص اسمیں شرارت سے گمراھی کرے اسکو ھم دردناک عذاب کامزاچکھا دیں گے “
بغیر کسی شک وشبہ کے حج ایک اھم انسان ساز او راسلام کو پھیلانے کے لئے بہت ھی عظیم عبادت اور نھایت مؤثر ذریعہ ھے، حج میں بہت سی ایسی خصوصیات او رصفات پائی جاتی ھے جو حج کو تمام عبادتوں سے ممتاز بنادیتی ھےں ، ھم یھاں پر حج کو مختلف گوشوں اور پھلووں کی طرف مختصرسا اشارہ کریں گے اور پھر اس دردناک اور افسوس ناک واقعہ کے متعلق کچھ بیان کریں گے جو سعودی حکومت کے نوکروں نے ایرانی ( اور غیر ایرانی ) حاجیوں کا حج کے دوران قتل عام کیا ھے ۔

حج، دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ھے
اور کسی مخصوص قوم یا نسل سے تعلق نھیں رکھتا
خداوند عالم قرآن مجید میں حج کے متعلق فرماتاھے ۔
”وَاَذِّن فِی النَّاسِ بِالحَجِّ یَاتُو کَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَاتِینَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ“[56]
”اور لوگوں کے در میان حج کا اعلان کرو تا کہ لوگ ھر طرف سے جس طرح بھی ممکن ھوپیدل یا سوار ھو کر دور دراز علاقوں سے آ پ کی آواز پر لبیک کھیں اور خانہ خدا کی زیارت سے مشرّف ھوں ،اور حج کے لئے ھر ممکن وسیلہ سے استفادہ کریں “
قرآن مجید دوسرے جگہ فرماتا ھے: سَوَاءً العَاکِفِ ِفیہِ وَ البَادِ“
خانہ خدا سب کے لئے برابر ھے چاھے مقامی افراد ھوں یا با ھرسے آنے والے مسافر،لہٰذا حج خدا کے سامنے تمام انسا نوں کو برابری کو کا درس دیتا ھے،اور حج انسانوں کے آپسی تعلقات میں مساوات کا عملی درس ھے ، اور انھی مفاھیم کے پیش نظر حج کے سیاسی پھلو کی ابتدا ھوتی ھے،لہٰذا حج برابری اور مساوات کا اعلان ھے اور تبعیض جیسی ظالم اور درد ناک رسوم کے باطل کرنے کا حکم اور احساس برتری جیسی لعنت کو معاشرے سے دور کرنے کا اعلان ھے۔
قرآن اور وحی کی اصطلاح میں حج کسی خاص سرزمین کے افراد سے مخصوص نھیں بلکہ یہ خدا کی عبادت کے لئے ایک عام دعوت ھے حج کے روحانی سفر میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر برتری نھیں رکھتا ۔
اس معنوی سفر میں مقام کا دور ھونا بھی قریب محسوس ھوتا ھے قران مجید کے فرمان کے مطابق وہ مسجد جو حرم کعبہ میں بنائی گئی ھے اور تمام لوگوں کے لئے نماز ودعا اور طواف کی جگہ اور مقام ھے کہ ، سب لوگوں کے لئے برابر قرار دی گئی ھے لہذا اس اعتبار سے مکہ میں رھنے والے اور دور درازسے آنے والے مسافروں میں کوئی فرق نھیں ھے ، حج اس دنیا سے تعلقات اور روابط سے جدا ھوکر خداوند عالم کی طرف ایک طرح کی ہجرت ھے۔
معمار کعبہ وہ بت شکن اور مجاھد مرد تھا جو ھمیشہ ظلم سے برسرپیکار رھا اور ایسا اھل سیاست تھا جو اپنے زمانے میں رائج ایسے سیاسی نظام سے ٹکرایا جس میں بت پرستی ایک عام بات اور لوگوں کو جاھل رکھنارواج پاچکا تھا ،اور ان کی مقدس ترین چیز بتوں کو توڑ ڈالا اور اس عمل سے ان ظالموں کے ظاھر بظاھر اعلان جنگ فرمایا لہذا اس اعتبار سے بھی حج ایک سیاسی پھلو رکھتا ھے چونکہ کعبہ کا بنانے والا معمار اور بانی ایک سیاسی مدبّر ،مجاھد ، یکتاپرست اور ایثار وقربانی دینے والا شخص تھا ۔
خداوند عالم قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد فرماتاھے :
”وَطَہِّرَبَیتِی لِلطَّائِفِینَ وَ القَائِمِینَ وَالرُّکعَّ ِالسُّجُودِ“[57]
”اے ابراھیم تم ھمارے گھر کو طواف کرنے والوں،قیام کرنے والوں اوررکوع و سجودکرنے والوں کے لئے پاک وپاکیزہ بناؤ“
اس آیت کی روسے خانہ کعبہ کو ھر نجاست سے پاک و پاکیزہ ھونا چاہئے اور چونکہ خود قرآن مجیدمیں شرک کو گناہ اورگناہ کو نجاست کھاگیا ھے ،لہٰذا حرم امن الٰھی میں ظلم و ستم کے لئے کوئی جگہ نھیں اور حرم الٰھی کو ظلم و ستم سے پاک و پاکیزہ بنا نالازم اور ضروری ھے ،آیہٴ شریفہ میں ”وَطَہِّر بَیتِی “ے فقط ظاھری نجاست سے پاک و صاف کرنا ھی مراد نھیں ھے بلکہ حرم امن جو حضرت جبرئیل کے رفت آمد کی جگہ ھے مشرکوںکے شرک اور ظالموں کے ظلم سے پاک وپاکیزہ کرنا بھی مراد ھے ،یعنی خدا وند عالم فرماتا ھے کہ میرے گھر کو ظلم و ستم کی نجاست سے پاک و پاکیزہ رکھو ،لہٰذا خانہ خدا سے ظلم و ستم نیز ظالموں کو مٹانا ایک طرح سے خانہ خدا کو پاک رکھنا ھی ھے ،اور یہ کا م طبّی دستور کے مطابق ایک معنوی اور روحانی فریضہ ھے ویسے ھی ایک عظیم سیاسی وظیفہ بھی ھے ،تب ھی خداوند عالم تھدید و خوف دلا رھا ھے کہ جو ظالم بھی حرم کعبہ پر تجاوز کا ارادہ کرے (چاھے کعبہ کی ظاھری شکل کو ختم کرنا چاھے یا اسکے روحانی اور معنوی اثر کوختم کرنا چاھے ) یا حاجیوں کو روکے (زمانہ حاضر کی طرح رسوم شرعیہ اور اعمال و مناسک حج پر عمل کرنے سے روکے ) اور ظلم کے ساتھ شرک پھیلا ئے تو ایسا شخص اپنے شرمناک ارادہ میں کامیاب ھونے سے پھلے ھی دردناک عذاب میں مبتلا ھو جائیگا ،(انشاء اللہ)قرآن مجیدکا اعلان ھے کہ حج اورخانہ خدا کی زیارت کے بارے میں ظلم و ستم کا ارادہ بھی الٰھی انتقام کا سبب ھے:
” وَ مَن یُرِد فِیہِ بِاِلحَادٍ بِظُلمٍ نُذِقہُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ “
”جو بھی حرم امن میں ظلم کے ساتھ الحا دو شرک کا ارادہ کرے (اور صراط الٰھی کو مسدود کرنا چاھے اور لوگوں کو خانہ خدا کی زیارت اور مسجد الحرام میں عبادت کرنے سے روکے ) ھم اسکو دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے“
اسی وجہ سے ھماری روایات کی کتابوں میں ایک باب بنام ”باب من ارادلکعبہ بسوء“کے عنوان کے تحت نقل ھوا ھے اورائمہ معصومین (ع)سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل ھوئی ھیں ۔

حج کے متعلق اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں
خانہ کعبہ کی زیارت اور اعمال حج کاا نجام دینا ، دین اسلام کے ان اھم ترین واجبات میں سے ھے کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی عذر کے وظیفہ حج کو انجام نہ دے تومرتے وقت اس سے کھاجائیگا کہ یہ شخص مسلمانوں کی صف سے خارج ھے اور ایسے شخص کو غیر مسلموں کی صف میں لکھا جائیگا، حضرت علی (ع) کی وصیت سے استفادہ ھوتا ھے کہ اگر خانہ کعبہ کی زیارت بالکل ترک کردی جائے تو عذاب الٰھی کا نازل ھوناایک فوری عمل ھے اور بغیر کسی مھلت کے عذاب نازل ھو جا ئیگا ، ”اللهُ اَللهُفِی بَیتِ رَبِّکُم فَاِنَّہُ اِن تُرِکَ لَم تَنَاظَرُوا“
اگر کوئی سال ایسا آئے کہ لوگ کعبہ کی زیارت نہ کرنے جائیں اور خانہ خدا کا کوئی زائر اور حاجی نہ ھو، تو اسلامی حکومت پر واجب ھے کہ بیت المال کے خرچ سے لوگوں کو حج کے لئے بھیجے جیسا کہ حضرت امام صادق(ع)نے فرمایا ھے:
” لَو عَطَّلَ النَّاسُ الحَجََّ لَوَجَبَ عَلَی الِامَامِ اَن یَجُرَّہُم عَلَی الحَجِّ اِن شَاؤُوا وَ اِن اَبَوا فَاِنَّ ہَذَا البَیتَ اِنَّمَا وَضَعَ لِلحَجِّ …
فَاِن لَم یَکُن لَہُم اَموَالٌ اَنفَقَ عَلَیہِم مِن بَیتِ مَالِ المُسلِمِینَ “۔
اس بنا پر حج اسلام کا سیاسی عبادی پھلو ھے اگرچہ (ھمارادین و ھی ھے جو ھماری سیاست ھے اور ھماری سیاست بھی و ھی ھے جو ھمارا دین ھے)
یعنی ھمارا دین اور سیاست ایک ھی چیز ھے اور حج کا سیاسی عبادی ھونا ان وظائف پر غور کرنے سے بھی ثابت ھوتا ھے جو مسلمانوں کے پیشوا اور امام کی ذمہ داری ھے او رحج کا سیاسی عبادی ھونا ان احکامات سے ثابت ھے اور بخوبی ظاھر ھے کہ جو حکومت اسلامی کے لئے پیش کئے گئے ھیں ، لہٰذا اس اعتبار سے بھی حج کے بہت سے سیاسی پھلو ھیں ۔
------------------------------------------------------------------
[1] وہ افراد جو رسول اسلام(ص) کے زمانہ میں” علی (ع) کے شیعہ“ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس نام سے مشھور ھوئے جناب سلمانۻ ، ابوذرۻ ، مقدادۻ اور عمارۻ یاسر تھے۔ ( حاضر العالم اسلامی جلد ا ص ۸۸ا ۔)
[2] اس حدیث کے ذیل میں ھے : حضرت علی (ع) فرماتے ھیں کہ میں نے رسول خدا(ص)کی خدمت میں عرض کیا جبکہ میں سب سے چھوٹا ھوںلیکن آپ کی دعوت پر لبیک کہتا ھوں تو پیغمبر(ص) نے میری گردن پر اپنے دست مبارک کو رکھ کر فرمایا کہ یہ میرا بھائی، میرا وصی، میرا جانشین اورمیرا خلیفہ ھے، اسکی اطاعت کرو۔لوگ ھنسے، اور ابوطالب سے کھا کہ تمھیں حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی اطاعت کرو۔ (تاریخ طبری جلد ۶۳ تاریخ الفداء جلد اص۱۱۶، البدایة و النھایةجلد ۳ ص ۳۹ ،غایة المرام ص ۳۲۰۔
[3] جناب ام سلمیٰ کہتی ھیں کہ رسول خدا(ص) فرماتے تھے علی (ع) ھمیشہ حق اور قرآن کے ساتھ ھیں اور حق و قرآن علی (ع) کے ساتھ ھےں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ھوںگے یہ حدیث ۵ا /سندوں کے ساتھ اھل سنت کی کتابوں اور اا/ سندوں کے ساتھ شیعہ علماء کی کتابوں میں موجود ھے ، اور اس روایت کو نقل کرنے والے ابن عباس ، ابو بکر ، ابو ایوب انصاری ، حضرت علی (ع) ، عائشہ ، ام سلمیٰ ، ابو سعید خدری ، ابو لیلیٰ ھیں ، جناب عائشہ مزیدکہتی ھیں کہ رسول(ص) نے فرمایا : خداوندا ! علی (ع) پر رحمت نازل کر، کہ حق ھمیشہ علی (ع) کے ساتھ ھے ، البدایة و النھایة جلد ۷ ص۳۶ ، عایة المرام بحرانی ص ۵۳۹سے لیکر ص ۵۴۰تک ۔
[4] حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ حکمت کے دس جزء ھیں ان میں سے نو جزء علی (ع) کے پاس ھیں اور ایک میں تمام لوگ شریک ھیں ۔
[5] جب کفار مکہ نے قصد کیا کہ رسول(ص) کو قتل کرڈالیں اور آپ کے گھر کے چاروں طرف جمع ھوگئے تو رسول خدا(ص) نے ( حکم خداسے) مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا ، اس موقع پر حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ کیا آج کی شب تم میرے بسترپر سوسکتے ھو ؟ تاکہ ( کفار مکہ ) گمان کریں کہ میں سورھا ھوں اور اس طرح سے میں ان کے شرّ سے محفوظ رھوں، حضرت علی(ع) نے رسول خدا(ص) کی اس تجویز پر اس خطرناک او رخوف زدہ ماحول میں دل و جان سے لبیک کھی ۔
[6] قارئین محترم حوالہ کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ھیں کہ جنکے نام ذیل میں ذکر کئے جارھے ھیں، اگر چہ ان کے علاوہ دسیوں کتابوں میں یہ حقیقتیں مرقوم ھیں جو حضرت علی (ع) کے فضائل میں لکھی گئی ھیں:
ا۔ علی (ع) اھل سنّت کی کتابوں میں۔ ۲، آئینہ ھدایت در اثبات ولایت۔ ۳۔ فروغ ولایت ۴۔الصراط المستقیم۔ ۵۔ عقائد الانسان ۶۔ عمدة عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار ۔ ۷۔مناقب ابن شھر آشوب وغیرہ ۔
غدیر خم سے متعلق روایت جسکو شیعہ وسنّی سبھی متّفقہ طور سے قبول کرتے ھیں اگر چہ ابن تیمیہ او راسکے بیٹے !محمدبن عبدالوھاب نے اپنی کتاب بنام ” ردّ بررافضہ “ ( شیعیت کی ردّ) میں اس حدیث کو معتبر نھیں جانا ھے اور علی (ع) کے حق مسلم سے چشم پوشی کی گئی ھے ، لیکن ۱۰۰/ سے زیادہ اصحاب رسول نے مختلف سندوں اور عبارتوں سے اس حدیث رسول اکرم(ص) کو نقل کیا ھے ، قارئین محترم مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔
غایة المرام ص ۷۹ ، عبقات الانوار حدیث غدیر سے متعلقہ جلد اور ” الغدیر “ جیسی گرانقدر کتابیں ۔
[7] تاریخ یعقوبی مطبوعہ نجف اشرف عراق جلد ۲ ص ۳۷اسے ۴۰اتک ۔ تاریخ ابو الفداء جلد اول ص۵۶ا، صحیح بخاری جلد ۴ ص ۰۷ا ، مروج الذھب مؤلفہ مسعودی جلد ۲ ص ۴۳۷ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلدا ص ا۶ا۔
[8] صحیح مسلم جلد ۵ ص ۷۶ا، صحیح بخاری جلد ۴ ص ۲۰۷، مروج الذھب مسعودی جلد ۲ ص۲۳ و ص ۴۳۷ ،تاریخ ابی الفداء جلد ا ص ۲۷ ا ، ا۸ا۔
[9] جابربن عبدالله انصاری فرماتے ھیں کہ ھم رسول(ص) کے پاس بیٹھے تھے دور سے حضرت علی (ع) کی جھلک دکھائی دی تو رسول(ص) نے فرمایا کہ : جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے ، اسکی قسم کھاکر کہتا ھوں کہ یہ شخص (حضرت علی (ع)) اور اسکے شیعہ قیامت میں نجات پائیں گے ۔
[10] حضرت رسول(ص) نے آخری عمر میں اپنی بیماری کے دوران ایک لشکر کو اسامہ بن زیدۻ کی سرداری میں مترتب کیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ سبھی مدینہ سے باھر جاکر اس جنگ میں شرکت کریں ، لیکن کچھ لوگوں نے پیغمبر(ص) کے اس حکم اور تاکید کی پیروی نہ کی ،ان میںسے ابوبکر اور عمر بھی تھے اس مسئلہ نے پیغمبر (ص) کو ( اس بیماری کی حالت میں ) بہت رنجیدہ کر دیااس مسئلہ کی تفصیل اور پیغمبر، کا مذکورہ مسئلہ سے متعلق ردّ عمل تاریخی کتابوں میںملاحظہ کرسکتے ھیں مثلاً شرح ابن ابی الحدید مطبوعہ مصر جلد ا ص۵۳ ، ایک ایسا نوشتہ لکھ دو ںتا کہ قیامت تک تم
اس بات کی عکاسی کر رھے تھے ، لیکن سبھی کی امیدوں کے بر خلاف جب رسول(ص) نے رحلت فرمائی اورابھی آپ کا جنازہ دفن بھی نہ ھونے پایا تھا ، اھلبیت (ع) اور کچھ اصحاب غمزدہ حالت میں تجھیزوتکفین میں مشغول تھے ، با خبر ھوئے کہ کچھ لوگوں نے اگرچہ بعد میں اکثریت انھیں کے ساتھ ھوگئی، اھلبیت (ع) اور آپ کے چاھنے والوں سے مشورت یا کسی قسم کی کوئی اطلاع دے بغیر مسلمانوں کی خیر خواھی کے نام پر بہت تیزی سے خلافت کا انتخاب کرلیا ھے ۔
[11] شرح نہج البلاغہ مؤلفہ ابن ابی الحدید جلد ا ص ۵۸ اور ص ۲۳ا سے ص ۳۵ا تک ، تاریخ یعقوبی جلد ۲ ص ۰۲ا، تاریخ طبرسی جلد ۲ ص ۴۴۵ سے ص ۴۴۶تک ، قارئین محترم اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کتاب بنام ” زندگانی علی (ع) “ مؤلفہ جناب رسولی محلّاتی کی طرف رجوع فرما سکتے ھیں ۔
[12] تاریخ یعقوبی جلد ۲ ص ۰۳ا سے ص ۰۶ا تک ، تاریخ ابی الفداء جلد ا ص ۵۶ا اور ص۶۶ا ، مروج الذھب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۷ اور ص ۳۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد اول ص ۷ا ، ۳۴ا۔
[13] عمر بن حریث نے سعید بن زید سے سؤال کیا کہ کیا کسی نے ابوبکر کی بیعت کی مخالفت کی ؟ تو اس نے ( سعید بن زید نے ) جواب دیا : کسی نے بھی مخالفت نھیں کی سوائے ان افرادکے کہ جو مرتد ھو گئے تھے یامرتد ھونے کی منزل میں تھے ! تاریخ طبری جلد ۲ ص ۴۴۷۔
[14] رسول اسلام(ص) سے مروی ھے کہ آنحضرت نے فرمایا : میں شھر علم ھوں اورحضرت علی (ع)اسکے دروازہ ھیں، بس جو بھی علم کا طالب ھے اسے چاہئیے کہ دروازہ سے داخل ھو ، البدایة و النھایة جلد ۷ ص ۳۵۹ ۔
[15] رسول اسلام(ص)، مشھور و معروف حدیث ” ثقلین “ میں فرماتے ھیں :
[16] اس بحث کو قلمبند کرنے میں علامہ طباطبائی (رہ) کی گرانقدر کتاب بنام” شیعہ در اسلام“ سے کچھ توضیحات اور دخل و تصرف کے ساتھ استفادہ کیا گیا ھے۔
[17] سورہ ٴ حجر آیت ۹ ۔
[18] سورہ فصّلت آیت۴۱، ۴۲۔
[19] قرآن در اسلام مؤلفہ علامہ سید محمد حسین طباطبائی ص ۳۴ا مطبوعہ دفتر انتشارات اسلامی ۔
[20] سورہ نحل آیت ۰۶ا۔
[21] ھم نے اس حصہ کو قلم بند کرنے میں، کتاب ” مسائل اعتقادی از دیدگاہ تشیع“ مؤلفہ عالم محقق مرحوم شیخ محمد رضامظفر (رہ)سے استفادہ کیا ھے قارئین محترم کتاب ” آئین ما“ مؤلفہ عالم مجاھد مرحوم شیخ محمد حسین کاشف الغطاء نیز تفسیر المیزان او رتفسیر نمونہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
[22] سورہ نساء آیت ۳۶۔
[23] سورہ یٰس آیت۶۰۔
[24] سورہ فرقان آیت ۴۳۔
[25] سورہ اعراف آیت ۷۹ا ۔
[26] ۔ اس بحث کی تحریر میں مرحوم علامہ استاد طباطبائی (رہ) کی گرانقدر کتاب بنام ” قرآن در اسلام “ سے استفادہ کیا ھے
[27] سورہ غافر آیت اا۔
[28] سورہ یٰس آیت ۷۸،۷۹)
[29] سورہ یٰس آیت ۷۸۔
[30] سورہ یٰس آیت ۷۹۔
[31] سورہ آل عمران آیت ۴۹۔
[32] سورہ بقرہ آیت ۲۵۹۔
[33] رجعت سے متعلق جو روایتیں ھمارے یھاں ھیں ان کی اھمیت کے بارے میں بہت سی باتیں موجود ھیں ،لیکن ھم صرف اتنا ھی کھنے پر اکتفاء کرتے ھیں کہ مرحوم شیخ حرّ عاملی (رہ) نے اپنی گرانقدر کتاب ”الایقاظ“ میں بطور خاص رجعت کے سلسلہ میں بیان کیا ھے ( جسکی تصحیح استاد سید ھاشم رسولی محلاتی نے کی ھے) اور ترجمہ حضرت آیت الله جنتی نے کیا ھے اوریہ کتاب طبع بھی ھو چکی ھے ) رجعت سے متعلق بہت سی روایات نقل کی ھےں اور آخر میں فرمایا ھے کہ اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں موجود ھیں کہ جن کو یھاں نقل کرنے کی گنجائش نھیں ھے اور اس بارے میں شیعہ اور سنی دونوں ھی سے روایت تواتر کی حدتک ھیں ۔
علماء اھل سنّت میں سے حُمَیدی نے ”الجمع بین الصحیحین “ نامی کتاب میں اور زمخشری نے تفسیر کشاف میں نقل کیا ھے ، مرحوم علامہ طباطبائی اپنی نفیس تفسیر المیزان میں فرماتے ھیں :
رجعت سے متعلق روایتیں آل رسول(ص) سے بطور ” تواتر معنوی “ نقل ھوئی ھیں یعنی ان روایتوں کے مضامین اتنے مختلف افراد کی کئی مختلف طریقوں سے نقل ھوئے ھیں کہ جس کے بعد کسی طرح کا کوئی شک و شبہ باقی نھیں رہ جاتا یھاںتک کہ صدر اسلام سے ھی رجعت کا عقیدہ شیعوں اور شیعوں کے ائمہ (ع) کی خصوصیات میں سے شمار کیا جاتا ھے اور اگر بالفرض ھم یہ تسلیم کرلیں کہ روایتوںکو الگ الگ کرکے خدشہ کیا جائے ، تو اس سے بھی رجعت جیسے اھم مسئلہ کو کوئی نقصان نہ پھونچے گا جبکہ بہت سی آیتیں اور روایتیں رجعت کے بارے میں وارد ھوچکی ھیں جن کی دلالت تمام ھے اور بطور کامل ان پر اعتماد کیاجاسکتا ھے ان سب کے علاوہ ایک اجمالی استدلال بھی رجعت سے متعلق قرآنی آیات کے ذریعہ کیا جاسکتا ھے وہ یہ کہ بعض آیات میں جیسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۴ا۲ میں خداوند عالم فرماتا ھے:
”اَم حَسِبتُم اَن تَدخُلُوا الجُنَُةَ وَ لَمَّا یَاتِکُم مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوا مِن قَبلِکُم “
اس آیہٴ کریمہ سے استفادہ ھوتا ھے وہ واقعیات کہ جو گذشتہ امتوں میں رونما ھوئے اسکے مثل اس امّت میں بھی واقع ھوں گے اور وہ حوادث جو سابقہ امتوں کے لئے پیش آئے جیسے مردوں کو زندہ کرنا ، چنانچہ قرآن کریم نے جناب ابراھیم ، موسیٰ ، عیسیٰ عزیر اور ارمیا(علیھم السلام)کی داستان نقل کی ھے، اور ایک روایت کے مطابق کہ جو شیعہ اور سنّی دونوں ھی نقل کرتے ھےں حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا:
قسم اس معبود کی جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ھے کہ تم سے پھلے آنے والے جن راھوں پر چلے ھیں، تم بھی قدم بقدم ان راھوں پر چلوگے اور ان کی طرح عمل کروگے اور ان کی راھوں سے جدا نہ ھوسکوگےمخصوصاً بنی اسرائیل کے طور اور طریقوں سے۔( تفسیرالمیزان جلد ۳ ص۵۲ا)
ھم یھاں پرایک نکتہ بطور یادآوری ذکر کرنا ضرور ی سمجھتے ھیں وہ یہ کہ ممکن ھے کہ کچھ لوگ عامیانہ اور پھلی نظر میں رجعت جیسے مسائل جسکا اھل سنّت انکار کرتے ھیں کو چھیڑکر اتحاد اسلامی اور مسلمین کی وحدت میں رخنہ اندازی تصورکریں جبکہ ھماری نظر میں وحدت کا مفھوم یہ نھیں ھے کہ اسلام کے مختلف فرقے اپنے اپنے عقائد کو بالائے طاق رکھدیں اور مختلف فرقوں کے فقط مشترکات کو لے لیا جائے اور ھر فرقے کی خصوصیات کو چھوڑدیں کیونکہ اس صورت میں تو ایک نیا فرقہ وجود میں آجائیگا بلکہ واقعیت تویہ ھے کہ جو چیزیں اختلافی اور جدائی کا سبب اور استعمار کے گھس بیٹھنے اور فتنہ پھیلانے کا سبب بنتی ھیں اور ان کے لئے موقع فراھم کرتی ھیں ، مختلف فرقوں کا ایک دوسرے کے عقائد سے آشنا نہ ھونا ضروری ھے ۔
محترمانہ ، مؤدبانہ پیش کش اور مستدل اور مستند گفتگو جوسب وشتم سے خالی ھو تو بھر حال یہ دقیق علمی بحثیں مزید ایک دوسرے کے عقائد سے آشنائی کاسبب بنیں گی توپھر کسی کوبدبینی ، نفرت، اختلاف پھیلانے اور تفرقے کرنے کا موقع نہ مل سکے ،ھمارے اور سنی برادران کے در میان اختلاف ڈالنے اورپھیلانے کی راہ بھی بند ھوجائیگی جتنی بھی ایک فرقے کی دوسرے فرقے کی بنسبت شناخت بڑھے گی چاھے وہ فقھی پھلو ھوں یا اعتقادی اور کلامی بحث ، سبب بنے گی کہ تفاھم کے ساتھ مزید ایک دوسرے سے نزدیک ھوجائیں، اور یہ بات وھم وجھوٹ اور ایک دوسرے پر تھمتیں لگانے سے دوری کا سبب بنے گی، تو پھر آپ بتائیں کہ یہ ” مسئلہ رجعت“ کس طرح اختلاف کا سبب بن سکتا ھے اور کھاں سے وحدت کے منافی ھے؟ بلکہ خود یھی مسئلہ ایک طرح سے تقریب اور وحدت کا سبب ھے ۔
استاد شھید مطھری (رہ) کا یہ جملہ کتنا دل نشین ھے کہ ھم شیعہ ھیں اور ھمیںاھلبیت (ع) کی پیروی پرفخر ھے ، اور چھوٹی سے چھوٹی چیز حتی ایک مستحب یا مکروہ کے بارے میںبھی ھم مصالحہ کرنے کے لئے تیار نھیں اور نہ ھی اس سلسلہ میں کسی کو کوئی توقع رکھنی چاہئے اور نہ ھی ھمیں یہ امید دوسروں سے ھے کہ مصلحت کے نام پر اور اتحاد اسلامی کی خاطر اپنے اصول میں سے کسی ایک اصل کو چھوڑ دیں بلکہ ان سے ھماری آرزو اور امید یہ ھے کہ حسن تفاھم کے لئے فضا ھموار ھو تا کہ ھمارے یھاں جو اصول اور فرو ع ھیںمانند فقہ ، حدیث ، کلام فلسفہ و تفسیر اور ادبیات جسکے سب سے بہتر اور عالی ھو نے کے ھم دعوے دار ھیں ثابت کر سکیں تا کہ شیعیت کو اب مزید نقصان نہ پھو نچے او رجھان اسلام کا دروازہ شیعہ معارف اسلامی کے لئے بندنہ رھے ۔
بھر حال اسلامی اتحاد کی مھم اس بات کا سبب نھیں بنتی کہ حقائق کو بیان نہ کیا جائے یا عقائد کو بیان کرنے میں کوتاھی کی جائے، صرف ان چیزوں اور کاموں سے پرھیز کرنا چاہئے جو احساس کو جریحہ دار او ر تعصب اور نفرت کو ایجاد کرنے کا سبب بنتی ھوں، لیکن جھاں تک علمی بحث اور گفتگو کی بات ھے تو اسکا دا ئرہ عقل اورمنطق ھے نہ کہ جذبات اور احساسات ۔
بحمد لله اس زمانہ میں بہت سے ایسے شیعہ محققین ھیں جو اس پسندیدہ راہ و روش کو اپنا ئے ھو ئے ھیں ایسے محققین کی فھرست میں سب سے پھلا نام مرحوم آیت الله سید شرف الدین جبل عاملی(رہ) اور علامہ کبیر شیخ محمد حسین کاشف الغطاء و علامہ بزرگوا رشیخ عبد الحسین امینی صاحب کتاب الغدیر کا ھے،اسی طرح علماء اھل سنّت میں ”شیخ محمد شلتوت“ او ر” شیخ سلیم “ اوردوسرے اسا تید اور محققین کا نام لیا جانا چاہئے ۔
خو د حضرت علی (ع) کی فراموش شدہ ” قولی“ او ر”عملی “سیرت جو آپ کی زندگانی طیبہ سے ظاھر ھے ، ھمارے لئے مذکور ہ مسئلہ کے لئے بہترین درس ھے ،حضرت علی علیہ السلام نے اپنے حق کے اظھار اورمطالبہ سے دریغ نہ کیا اور اپنے حق کے غصب کرنے والوں سے ھمیشہ ناراض رھے او رمختلف مواقع پر اسکا اظھار کرتے رھے،( جبکہ علی (ع) کو دوسروں سے کھیں زیادہ اسلامی اتحاد کا خیال تھا او رھمیشہ اتحاد کے متعلق ذمہ داری کا احساس کر تے تھے ) پھر بھی حق کے مطالبہ کو اتحاد کے منافی نہ جانا ۔
نہج البلاغہ کے بہت سے خطبے ھمارے اس دعوے کے شاھد ھیں جوچھپائے نھیں جاسکتے۔
اس صورتحال کے باوجودیہ مظالم اس بات کا سبب نہ بنے کہ بیگانوں او رخارجیوں کے مقابلہ میں مسلمین کی جماعت سے الگ ھو جائیںجمعہ و جماعت میں شرکت نہ کریں یھاں تک کہجنگی غنائم میں سے اپنے حصہ کو لیتے رھے، نیز خلفاء کی راھنمائی اور موقع بموقع نصیحت فر ما تے تھے ۔
( اقتباس از کتاب ”امامت و سیاست“ شھید مطھر ی (رہ)تھوڑے دخل وتصرف کے ساتھ)
الحمد لله، اس زمانہ میں ایران اسلامی میں شیعہ او ر سنّی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کفر و استکبار کے خلاف محاذ آرائی کئے ھوئے ھیں او ر سب متحدھوکر امام خمینی (رہ) کی پیروی و اطاعت کرتے ھوئے، استعمار اوراستعمار گروں کے خلاف نبرد آزما ھیں ، خداوند متعال اس اتحاد او رانسجام کو روز افزو ن ترقی عطا فرمائے۔ انشاء الله ۔
[34] اس حصہ کی تحریر میں علامہ مرحوم مظفر (رہ) کی کتاب ”مسائل اعتقادی ازدیدگاہ تشیع“ سے تھوڑے دخل وتصرف کے ساتھ استفادہ کیا ھے، قارئین کرام اس موضوع سے متعلق مزید آگھی کے لئے حضرت آیت اللہ رفیعی کی کتاب ”رجعت ومعراج “ اور جناب محمد خادمی کی کتاب ”رجعت یا دولت کریمہ خاندان وحی“ کا مطالعہ کریں۔
[35] سورہ شعراء آیت ۲۳۔
[36] سورہ سباٴآیت۴۷۔
[37] سورہ ممتحنہ آیت نمبر ۶۔
[38] اس حصہ کی تحریر میں ھم استاد شھید مطھری (رہ) کی کتاب ”دافعہ علی (ع) “ سے استفادہ کیا ھے، قارئین کرام مزید آگاھی کے لئے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں: ۱۔علی در کتب اھل سنت ۔ ۲۔فروغ ولایت۔ ۳۔آئینہ ھدایت در اثبات ولایت۔ ۴۔مناقب ابن شھر آشوب۔
[39] سورہ رعد آیت ۳۹۔
[40] ھم نے اس حصہ کو قلمبند کرنے میں مرحوم علامہ شیخ محمدرضا مظفر (رہ)کی کتاب ”مسائل اعتقادی از دیدگاہ تشیع“ سے استفادہ کیا ھے چونکہ فلسفی نقطہٴ نظر سے بداء کا مسئلہ اتنا عمیق اور مشکل ھے جس کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھ کر امّت اسلامی کی خدمت میں پیش کرونگا انشاء اللہ، فی الحال متعلقہ موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:۱۔گوھر مراد، موٴلفہ جناب لاھیجی، ۲۔کشف الاسرار موٴلفہ امام خمینی (رہ) ، ۳۔تفسیر نمونہ، کلمات مکنونہ موٴلفہ فیض کاشانی،۵۔شناخت دین موٴلفہ آیت اللھی، ۶۔داوری وجدان موٴلفہ شیخ راضی نجفی تبریزی، ۷۔جبر واختیار موٴلفہ زین العابدین قربانی۔
[41] اس حصہ کی تحریر او رتالیف میں بھی مرحوم مظفر(رہ) کی کتاب ”مسائل اعتقادی از دیدگاہ تشیع“ سے استفادہ کیا گیا ھے ۔
[42] تجزیہ وتحلیل عقائد فرقہٴ وھابی، موٴلف : آیت اللہ سید محمد قزوینی، ترجمہ ونگارش علی دوانی ص ۲۲۵۔
[43] سورہ احزاب آیت ۶۲۔
[44] راہ ما راہ وروش پیامبر مااست“ مولفہ مرحوم علامہ امینی (رہ) ، مترجم جناب محمد باقر شریف موسوی ھمدانی ص ۷۷، مطبع دار العلم قم المقدس ،ایران۔
[45] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی مولفہ آیت الله مرحوم سید محمد قزوینی مترجم علی داونی مطبع ، قدر ص ۲۵۔
[46] سورہ مائدہ آیت ۵۰۔
[47] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی مولفہ آیت الله مرحوم سید محمد قزوینی مترجم علی داونی مطبع قدر ص ۳۸۔
[48] سورہ بقرہ آیت ۲۵۲۔
[49] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی مولفہ آیت الله مرحوم سید محمد قزوینی مترجم علی داونی مطبع قدر،ص ا۴۔
[50] سورہ نساء آیت ۹۴۔
[51] نشریہ حوزہ نمبرآبان ۳۶۵ا س ص ۷۶ ۔
[52] سورہ شوریٰ آیت ۲۳۔
[53] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی ص ا۲ ۔
[54] تحفة العالم و ذیل التحفہ میر عبداللطیف خان شوشتری کا سفرنامہ مرتبہ ص ، موحد مطبع طھوری ص ۴۷۷۔
[55] سورہ حج آیت ۲۵)۔
[56] سورہ حج آیت ۲۷۔
[57] سورہ حج آیت ۲۶۔