شرک اور اس کی اقسام
 
شرک: یعنی غیر خدا کا شریک قرار دینا، اس کی بھی چار قسمیں ھیں:
۱۔ شرک ذاتی: یہ ھے کہ انسان جھان کے لئے ایک سے زیادہ مبدٴا کا قائل ھو جیسا کہ ”ثنویَّہ“ (دو مبدٴا کے قائل)دو ”یزدان“ اور ”اھریمن“ کی خالقیّت پر اعتقاد رکھتے ھیں اور نصاریٰ ”اقانیم ثلاثہ“ یعنی تین اصولوں (پدر، پسر اور روح القدس) کے جوھر کی عین وحدت کے قائل ھیں یہ عقیدہ ذاتی مبدٴا کے وجوب کے ساتھ سازگار نھیں ھے جو اپنی جگہ پر برھان عقلی کے ذریعہ ثابت ھوچکا ھے۔
۲۔ شرک صفاتی: یہ ھے کہ خدا کی صفات کو اس کی ”ذات اقدس“ پر زائد، جاننا جیسا کہ ”ممکنات“ میں ایسا ھی ھے، اس عقیدہ کا لازمہ یہ ھے کہ (نعوذ باللہ) ذات الہٰی اپنی ذات کے مرتبہ میں ھر طرح کے کمال جیسے: حیات، علم اور قدرت وغیرہ سے پاک ھو (جبکہ صفات کو حادث جانیں) یا یہ کہ صفات کو اس کی ”قدامت“ میں شریک جانیں،(جبکہ صفات کو قدیم فرض کریں)
حالانکہ خدا کی صفات جیسا کہ ھم ”توحید“ کے معنی میں اشارہ کرچکے ھیں کہ خدا کی صفات اس کی عین ذات ھیں اور کبھی بھی ”واجب الوجود“ کی ذات سے صفات کمالیہ جدا نھیں ھوسکتی، اگر چہ اس صورت میں ”واجب الوجود“ اور ھستی نامحدود تصور نھیں کی جائے گی۔
مثال کے طور پر : مٹھاس کا شکر سے جدا ھونا، یا چربی کا روغن سے جدا ھونا مساوی ھے کہ گھی اور شکر معدوم ھو جاتے اسلئے کہ گھی چکنائی، شکر مٹھاس اور نور روشنائی کے بغیر ایک نامعقول تصور کے علاوہ کچھ نھیں ھے۔
”وَتِلکٴَ الاَمْثْالُ نَضْربُھَالِلنّاسِ وَمَایَعقِلُھَا اِلّاالْعَالِمُونَ۔“ [1]
۳۔ شرک افعالی: یہ ھے کہ انسان عالم ایجاد، آفرینش اور تدبیر میں غیر خدا کی ”تاٴثیر استقلالی“ پر اعتقاد رکھتا ھو اور اس ”فاعلیت بالاستقلال“پر اعتقاد رکھتا ھو اور اس کو فاعلیت بالاستقلال میں شریک اور خدا جانتا ھو، اور تاثیر استقلالی یعنی غیر خدا،کو اثر بخشی اور اس کی تدبیر فعالیت جس طرح سے بھی ھو، اس میں وہ کسی بھی جہت سے خدا کا محتاج نہ ھو اور خود ارادہ و عمل میں ”مستقل“ اور خود کفا ھو۔
خواہ وہ اس کی استقلالی تدبیر و تاٴثیر بصورت ”اشتراک“یعنی خدا کے ساتھ مل جل کر انجام پائے یا یہ کہ اس کو ”تفویض“یعنی خلق ِجھان کے امور کی ذمہ داری دے دی جائے۔
عمل میں ”اشتراک“ کی نظیر یہ ھے کہ دو یا چند طاقتور آدمی ملکر ایک دوسرے کی مدد سے چاھیں کہ زمین سے ایک بہت بڑا پتھر اٹھالیں تو اس صورت میں ان میں سے ھر ایک زمین سے اس پتھر کو حرکت دینے میں دوسروں کا محتاج ھے، لیکن وہ اس مقدار میں اپنی اس طاقت کے رکھنے میں مستقل ھے اور دوسروں کا محتاج نھیں ھے۔
یھاں بھی غیر خدا کے اشتراک کی صورت کے فرض میں (نعوذباللہ) خدا اپنی طاقت کا اثر محدود ھونے کی وجہ سے عالم کی تدبیر میں دوسروں کا محتاج ھوگا اور وہ دوسرا موجود (غیر خدا) اپنے سے مخصوص مقدار طاقت کے رکھنے میں مستقل اور خدا سے بے نیاز ھوگا۔
لیکن ”تفویض“ اور خلق جھان کے امور کی غیر خدا کو واگذاری کی صورت میں خدا مخلوقات کے پیدا کرنے کے بعد تدبیر اور ادارہٴ امور مثلاً: زندہ کرنے، مارنے، روزی دینے، عزت و ذلت بخشنے وغیرہ کے امور سے ھاتھ کھینچ بیٹھا ھے اور تمام تدبیرات کو خود مخلوقات یا ان میں سے بعض افراد کے سپرد کردی ھے ۔
جیسا کہ یھودیوں کا اعتقادھے کہ خدا کے ھاتھوں کو امور جھان کی تدبیر سے بندھا ھوا مانتے ھیں، قرآن میں ارشاد ھے: ”وَقَاْلَتِ الْیَہُودُ یَدُاللّٰہِ مَغْلُولَة“ [2]
”یھودیوں نے کھا: خدا کے ھاتھ تو بندھے ھوئے ھیں۔“
”غلات“ نامی ایک گروہ جس کو ”مفوضہ“ بھی کہتے ھیں، [3] عقیدہ رکھتا ھے کہ (نعوذباللہ) خدا نے پیدا اور خلق کرنے، روزی دینے، زندہ کرنے، مارنے، شفا دینے اور مشکلات کے حل کرنے وغیرہ کے تمام امور کو ائمہ طاھرین علیھم السلام کے سپرد کردئے ھیں اور خود کنارہ کشی کرلی ھے (تعالی اللّٰہ ُ عمّایقول الجاھلون علواً کبیراً۔“)
یہ دونوں اعتقاد (اشتراک و تفویض) کے حقیقی مواحدوں کی نظر میں مشرکانہ اور باطل ھیں جو شرعی ممانعت کے علاوہ عقلاً محال بھی ھیں۔ یعنی عمل میں خالق کے ساتھ اشتراک مخلوق اور ایسے ھی مخلوق کو تفویض عمل اور عمل سے خالق کے اعتزال کا مسئلہ عقل سلیم کی نظر میں محال اور ممتنع الوقوع ھے۔
کیونکہ جو مخلوق ”ممکن الوجود“ ھے اور ذاتاً فاقد ھستی ھے ھر وقت خالق فیّاض کی جانب سے ”افاضہ“ کی محتاج ھے تا کہ اس سے وجود لے اور پھر ”ایجاد“ اثر کرے، لہٰذا اگر ایک آن کے لئے خداوند منّان کی جانب سے فیض بند ھوجائے تو مخلوق کا وجود ختم ھوجائے گا اس کی قدرت ایجاد تو دور کی بات ھے۔
جس امکان کا” وجود “جو واجب سے ربط اور خالق واقعی پر بھروسہ رکھنے کے سوا کچھ نھیں ھے اس کے لئے استقلال کا تصورایک نامعقول تصور ھے اور اس کو مستقل مخلوق کھنا ایک متناقض سخن ھے ، جس کا لازمہ وجود اور عدم کا ایک جگہ جمع ھونا ھے جس کا محال ھونا بھی واضح ھے ۔ [4]

جھان کی پیدائش ایک نظام کے تحت ھے
اگر ھم یھاں”فلسفہ“کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کریں ،تو بے جا نہ ھوگا اور وہ بحث یہ ھے کہ :فلسفہ اور حکمت الٰھی میں جن مسائل پر بحث و تحقیق ھوتی ھے ان میں سے ایک بہت ھی اھم بات یہ ھے کہ خداوندعالم نے اس جھان کو کس طرح پیدا کیا ھے ۔
اس بحث میں متفق علیہ عقلی برھان کے ذریعہ ثابت کیا جاتا ھے کہ خدا کا فعل اور اس سے اشیاء کا صادر ھونا ایک مرتب نظام و ترتیب پر برقرار ھے،یعنی اشیاء کی نسبت خدا کی فاعلیت ایک معین نظام اور ایک مشخص ترتیب پر جاری ھے۔
یعنی خدا وندعالم کی قدوسیت اور ذات و کبریائی تقاضا کرتی ھے کہ موجودات کا سلسلہ، خلق و آفرنیش کے لحاظ سے اپنے وجود کی شدت وضعف کے مطابق، ایک دوسرے کے طول اوریکے بعد دیگرے قرارپائے اور ایک کے بعد دوسرا ”الاشرف فالاشرف“ کے لحاظ سے ایجاد ھو،اور موجودات میں سے ایک اپنے خاص رتبہ میں، اپنے اُوپر مقدم رتبہ کا معلول ھو ،درحالیکہ خود بھی اپنے سے بعد والے رتبہ کا سبب و علت قرار پائے۔
یہ تمام کثیر ایجادات جو علل و معلولاتِ مترتبہ کے سلسلہ سے صادر ھوتے ھیں، اسی واحد کی عین ایجاد ھے کہ جو خداوندعالم کی خالقیت اور ”علیّت“ کے مقامِ عالی سے صادر ھوتی ھے جیسا کہ ارشاد ھے: ”وَمَا اَمْرُنَا اِلاّ واحدة“ [5]ھمارا کام سوائے ایک کام کے کچھ نھیں ھے۔ [6]
خلاصہ یہ کہ وہ ایک کام اور وہ ایک ایجاد، عین وحدت میں متعدد مراتب اور طولیہ و کثیرہ درجات کو متحمل ھے کہ ان مراتب سے ھر مرتبہ بصورت خاص منعکس ھو کر اپنے سے نیچے والے مرتبہ کی ایجاد کی علت قرار پاتا ھے۔
مثال کے طور پر: سورج کا نور آئینہ سے ٹکرا کر دیوار پر پڑتا ھے تو اب اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ دیوار کا نور، آئینہ کا نور ھے اور یہ بھی واضح وروشن ھے کہ آئینہ کا نور بھی سورج کا نور ھے اور در واقع اس واحد کا اشراق ھے کہ جو خورشید سے صادر ھوا ھے کہ پھلے صفحہٴ آئینہ پر اور پھر دیوار پر ظاھر ھوا کہ نہ آئینہ کے پاس اپنا کوئی نور تھا کہ دیوارپر چمکتا ھے اور نہ ھی سورج نے اپنے اشراق و چمک کو بغیر آئینہ کے ذریعہ دیوار تک پھنچایا ھے۔ [7]

اس باب میں شارع مقدس کا نظریہ
”یہ خلقت کا طولی نظام جو فلسفی محکم دلیلوں کے ذریعہ ثابت ھوچکا ھے، قرآن اور دین کے بزرگ رھبروں کی زبان ِمبارک سے واضح اور آسان طریقہ سے بیان ھوا ھے،جبکہ ھم جانتے ھیں کہ قرآن کی آیہٴ کریمہ اور انبیاء اور ائمہ طاھرین علیھم السلام کی اعلیٰ تعلیمات میں مکرر ”فرشتوں اور ملائکہ ، خدا کی جنود و سپاہ کا تذکرہ آیا ھے اور ان کی مختلف عناوین کے ذریعہ : ”مدبّرات امر، مقسّمات امر، معقّبات، کاتبین اور حافظین اعمال، وحی لانے والے اورروح قبض کرنے والے وغیرہ جیسے القابات سے پہچنوایاگیاھے ، اور مکرم فرشتوں میں سے ھر ایک کے لئے ایک مشخص مقام اور معین جگہ کا پتہ بتایا ھے کہ: ”وما مِنّا اِلاّلہ مقامُ معلومَُ“ ھم میں سے کوئی (فرشتہ) نھیں ھے مگر یہ کہ اس کے لئے ایک معلوم جگہ ھے۔
اور ایسے ھی وضاحت کرتے ھیں کہ فرشتوں کے درمیان نیز چھوٹے اور بڑے درجات کا سلسلہ مقرر ھے اور مقرب ملائکہ سے ھر ایک خدا کی طرف سے ایک معین گروہ کی رھبری کے عھدہ پر فائز ھے جو اپنے اعوان و انصار کے ذریعہ سے خدا کی جانب سے دئے گئے کاموں کی تدبیریں کرتا ھے۔
مثلاً جبرئیل (ع) وحی لانے والا ایک فرشتہ ھے اور میکائیل (ع) رزق پھنچانے اور عزرائیل(ع) قبض روح کے لئے معین ھے۔
اور اسرافیل (ع) صور پھونکنے اورمردوں کو زندہ کرنے والا فرشتہ ھے، اسی طرح بعض فرشتے ھوا چلانے، بادلوں کو ادھر اُوھر لے جانے اور بارش کرنے جیسے موسمی امور کی تدبیر پر معین ھیں، بعض فرشتے دنیا میں بندوں کے اعمال لکھنے، اور آخرت میں حساب وکتاب کرنے پر ماٴمور ھیں اور بالآخر ایک فرشتہ دوزخ کا مالک ھے اور دوسرا فرشتہ جنت کے امور پر موٴکل ھے اور ھر فرشتہ اپنی حاکمیت کے تحت بعض فرشتوں کو (خادم کی حیثیت سے) رکھتا ھے۔
اور سب کے سب فرشتے خداوندعالم کے فرمان کے تابع ھیں اور اس کے امور کو انجام دینے والے ھیں۔
اور ایسے ھی ھم دیکھتے ھیں کہ کتاب و سنّت (آیات و روایات) نے واضح طورپر اور صراحت کے ساتھ خاص تدبیری مقامات کو بعنوان :
عرش، کرسی اور لوح و قلم، کوخدا کے نزول حکم کے لئے پھنچوایا ھے اور فرشتوں کے ایک گروہ کو ”حاملان عرش“ اور ”مَنْ حول العرش“ کی وصف کے ساتھ امور جھان کی تدبیر کرنے والے کی حیثیت سے معرفی کی ھے۔
خلاصہ یہ ھے کہ دین کے یہ صریح بیانات، خداوندعالم کی فاعلیت اور مقام ربوبیت سے عالم خلقت اور موجودات کے سلسلہ میں ایک مرتب اور منظم نظام و تشکیلات کے بارے میں خبر دیتے ھیں۔
اور اس حقیقت کو بطور واضح سمجھاتے ھیں کہ ایسا نھیں ھے کہ خداوند متعال کا ارادہ ھر موجود کی خلقت کے سلسلہ میں بطور مستقیم اور بلاواسطہ اس سے متعلق ھوگیا ھو اور جھان کے تمام موجودات سے ھر ایک بطور مستقل اور دوسروں سے جدا گانہ پیدا ھوگیا ھو۔
کیونکہ یہ تصور قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی جگہ پر جن کو محکم عقلی دلائل کے ذریعہ مشروح بیان کیاگیا ھے، ان کے ساتھ منافات رکھتا ھے اور خلقت میں ایک طرح کی مشکل کا باعث ھے، دین کی روشن منطق کے ذریعہ نیز ”تدبیر عالم میں وساطت“ کی اصل مسلّم اور آفرنیش کے وسیع پھلو اور خلقت کے وسیع نظام میں فرشتوں کے مدبر اور فعّال ھونے کے وجود پر قطعی اعتقاد کے ساتھ بھی ناساز گار ھے۔
اس لئے اس حقیقت پر کامل توجہ رکھنی چاھیئے اور کبھی بھی اس کو بھولنا نھیں چاھیئے کہ تدبیر امور خدا کی طرف سے مختلف کاموں میں فرشتوں کے ماٴذون اور نظام الٰھی میں ھر ایک فرشتہ کا مقام معلوم پر فائز ھونے میں جو فرشتوں کی وساطت ھے نہ کہ ”اعتباری“ قرار دادوں اور ایسے اجتماعی منصبوں اور مقاموں کی وساطت ھو جو بشری معاشروں کی تشکیلات میں پائے جاتے ھیں ایسی وساطت کی قرار داد اور اعتبار کے علاوہ کوئی حقیقت نھیں ھوتی ھے جیسے ایک ڈاریکٹر کہ جو ایک وزیر کے دستخط سے کسی کو عطا اور ایک دوسرے دستخط سے ختم کردیا جاتاھے۔
خدا کے نظام اور تشکیلات میں جب کھا جائے کہ مثلاً ملک الموت روح کو قبض کرنے میں خدا کی طرف سے ماٴذون ھے تو اس کو ”قابض الارواحی“ کی وساطت اور عھدہ عطا کردیا گیا ھے یقینا اذنِ خدا اس باب میں نہ تو زبانی کی صورت میں ھے اور نہ ھی دستخط کی صورت میں، اور نہ ھی اس مقرب ملک کا مقام اعتباری اور بشری قرار دادی قسم سے ھے۔
بلکہ خدا کا اذن، اذن تکوینی اور مقام ملک بھی مقام وجودی ھے، یعنی خدا نے جناب عزرائیل کے وجودی ڈھانچے کو اس طرح بنایا ھے اور اس کی بنیاد کو اس طرح کی طاقت عطا کی ھے کہ جو زندہ انسان کو مارسکتا ھے اور روح و بدن کے درمیان جدائی ڈال سکتا ھے۔
اسی طرح خدا نے”اسرافیل “کو اس طرح پیدا کیا ھے اورایسی طاقت عطا کی ھے جو مردوں کو زندہ کرسکتا ھے اور بے جان میں جان ڈال سکتا ھے۔
اور یہ مارنا اور زندہ کرنا خدا کا کام ھے اور فاعل حقیقی اور اس کا اصلی خدا ھے لیکن خداوندعالم کی فاعلیت ان مقرب فرشتوں کی فاعلیت کے ذریعہ ظاھر ھوتی ھے۔
عزرائیل مارنے کا ارادہ کرتا ھے لیکن خدا کے ارادہ سے کرتا ھے اور خدا بھی مارنے کا ارادہ کرتا ھے لیکن عزرائیل کے ارادہ کے ساتھ کرتا ھے البتہ یہ دونوں ارادے ایک دوسرے کے طول میں ھیں یعنی خدا کا ارادہ، ارادہ ذاتی اور اوّلی ھے اور عزرائیل کا ارادہ، ارادہ ”اعطائی اور ثانوی“ ھے، نہ تو عزرائیل ھی فی حد نفسہ خدا کے ارادہ کے بغیر کسی زندہ کو مارسکتا ھے اور نہ ایسے ھی ھے کہ خدا ”نظام فعل“ اور اپنی ثابت ”سنت“ میں عزرائیل کے ارادہ کے توسط کے بغیر، کسی زندہ کو مارنے کا ارادہ کرے، بلکہ خدا کا مارنا عزرائیل کے عین مارنے کے مطابق ھے اور عزرائیل کا مارنا بھی خدا کے عین مارنے کے مطابق ھے کہ ارشاد ھے:
”إنَّا کُلَّ شَي ءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ۔وَمَااٴَمْرُنآ اِلاَّ وَاحِدَةٌ کَلَمْحِ بِالْبَصَرِ۔“ [8]ھم نے ھر چیز کو ایک شخص اور اندازہ سے پیدا کیا ھے اور ھمارا کام سوائے ایک کام کے کچھ نھیں ھے جو چشم زدنی کے مانند ھے“
جی ھاں اس کا فرمان ایک فرمان اوراس کی تخلیق ایک تخلیق ھے لیکن یھی اس کی ایک تخلیق اور فرمان، اسباب و مسببّات کے سلسلہ سے تشکیل شدہ ھے،جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
”فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً وَلَنْ تَجِدَ لِسُنّتِ اللّٰہ تَحْوِیْلاً“ [9] ”ھر گز خدا کی سنّت اور قانون میں تم تبدیلی نھیں دیکھو گے اور نہ ھی تم اس کی سنّت میں دگر گونی اور تغیر پاوٴں گے“
لہٰذا نظام آفرینش میں ان تمام وسائط، عُمال اور ھاتھ بٹانے والوں کے باوجود، یہ تمام ھر آن اور ھر منٹ خالق کل جھان کے دامن سے جڑے ھوئے اور اسی سے مربوط ھیں اور پورے جھان کا فقر اور محتاج ھونا اسی کی درگاہ سے وابستہ ھے، جیسا کہ ارشاد ھے:
” یَسْئَلُہُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلَّ یُوْمٍ ھُوَفِی شَاٴنٍ “ [10]
”جو کچھ زمین و آسمان میں ھے وہ اپنے کو اسی سے سوال کرتے ھیں ، اور وہ ھر روز (ھر وقت) مخلوق کے ایک ایک کام میں ھے “
اگر چہ عالم خلق کا سببی اور مسبّبی نظام،خداوندعالم کے عین ارادہٴ ”فعلی“ اور اس کا دائمی کام ھے اور خداوندعالم کا دائمی کام اور فعلی ارادہ بھی عالم حق کے سببی اور مسببی نظام کا عین ھے۔

قرآن سے ایک نمونہ
ھم قرآن مجید میںخلقت کے اسی ”طولی نظام“ کے سلسلہ میں ملاحظہ کرتے ھیں کہ وہ ایک فعل کو کبھی خدا کی طرف اور کبھی فرشتوں کی طرف نسبت دیتا ھے اور کبھی کبھی ایسا ھوتا ھے کہ وہ کسی کام کو انسان کی طرف عین اسناد میں، خدا کی طرف نسبت دیتا ھے اور انسان سے نفی کرتا ھے مثلاً فرماتا ھے:
”وَمَا رَمَیْتَ اذْرَمَیْتَ وَلکنّ اللّٰہ رمیٰ “ [11]
یعنی جس وقت کہ (اے رسول(ص)) تم نے (سنگریزے) پھینکے تو وہ تم نے نھیں پھینکے ھیں بلکہ خدا نے پھینکے ھیں۔
اس آیت میں ھم دیکھتے ھیں کہ جملہٴ ”مَارَمَیْتَ“ آنحضرت(ص) سے پھینکنے کی نسبت کی نفی کرتا ھے اور جملہٴ ”اللّٰہ رمیٰ “ عیناً اسی پھینکنے کی نسبت کو خدا کے لئے ثابت کرتا ھے، یعنی انسان عین اثبات ”فاعلیت“ میں ”استقلال“ کی نفی کی ھے اور پھر اسی ”فعل“ میں خدا کو فاعل ”مستقل اور بالذات“ قرار دیا ھے۔
اسی طرح قرآن نے ”قبض روح“ کے سلسلہ میں بھی اس کی نسبت خدا کی طرف دی ھے فرماتا ھے:
”اللّٰہُ یَتَوفَّی الْاٴَنْفُسَ حِیْنَ مَوتِھَا۔۔۔“ [12]
”خدا موت کے وقت (انسانوں) کی جانوں کو لے لیتا ھے۔
اور دوسری جگہ پر اسی کام کو ”ملک الموت“ کی طرف نسبت دیتا ھے کہ ارشاد ھوتاھے:
”قُلْ یَتَوفّٰکُمْ مَّلَکٴُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بکُمْ ۔۔۔“ [13]
”اے میرے رسول کہہ دیجئے: ملک الموت جو تم پر موکّل ھے تمھاری جانوں کو لے لیتا ھے۔
دوسری جگہ ارشاد ھے:
”حَتّٰی اِذٰا جَآءَ اٴَحَدُکُمُ المُوتُ توفَّتْہُ رُسُلُنٰا“ [14]
”جیسے ھی تم میں سے کسی ایک کو موت آتی ھے تو ھمارے رسول اس کی جان اور روح قبض کرلیتے ھیں“
اور کبھی فرماتا ھے:
”یُدبّرُ الْاَمْرَ مِنَ السّمٰآء اِلیٰ الْاٴرضِ ۔۔۔۔“ [15]
”تمام امور کی تدبیر خدا کرتا ھے اور پھر آسمان سے زمین کی طرف نازل کرتا ھے“
اور دوسری جگہ ارشادھوتا ھے:
”فالْمُدَبّراتِ اَمْراً“ [16]
”قسم ھے ان فرشتوں کی جو تدبیر کرنے والے ھیں“
ایک جگہ ”وحی“ لانے اور قرآن نازل کرنے کو حضرت ”روح الامین“ کی طرف نسبت دے کر فرماتا ھے:
”نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْامِیْنُ عَلٰی قَلْبِکٴَ ۔۔۔۔“ [17]
”قرآن کو روح الاْمین نے تمھارے قلب پر نازل کیا ھے“۔
اور دوسری جگہ خدا کی ذات اقدس کی طرف نسبت دیکر فرماتا ھے:
”إنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَٴ الْقُرْآنَ تَنْزِیْلاً“ [18]
”حقیقت یہ ھے کہ قرآن کو ھم نے تم پر نازل کیا ھے“۔
سرّ مطلب وھی ھے کہ جوھم نے بیان کیا یعنی خدا کا ”فعل“ اور اس سے اشیاء کا صادر ھونا، جریان میں ایک منظّم تشکیلات اور ”نظام“ کی صورت سے ھے اور اس نظام کے داخل میں جو کام انجام دیاجاتا ھے، خالق کل جھان، خدا کی وھی عین فاعلیت ھے کہ جس کو قرآن میں”اِذْنُ اللہ“ سے تعبیر کیا جاتا ھے ارشاد ھوتا ھے:
”مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہُ إلاَّبِاِذْنِہِ“ [19]
کون ھے جو اس کے نزدیک (اس کے نظام خلق میں) شفاعت کرے (اپنی طرف سے کوئی اثر وجود میں لائے) سوائے اس کی اجازت (کی طاقت) کے؟
”ھَلْ مِنْ خالِقٍ غَیْرُاللّٰہِ“ [20]
”آیا خدا کے علاوہ کوئی پیدا کرنے والا ھے؟“
”قُلِ اللّٰہ ُ خَالِقُ کُلِّ شَيءٍ وَھُوَالوَاحِدُ القَھَّارِ“ [21]
”کہہ دو! ھر چیز کا پیدا کرنے والا صرف خدا ھے جو واحد قھار ھے“
(کہ اس کی قدرت کا سایہ، پورے جھانِ ھستی پر پھیلا ھوا ھے اور تمام موجودات کو اپنی قاھر تدبیر و ارادہ کے تحت لے رکھا ھے،)
لیکن یہ ”خلق “ یہ ”ارادہ“ اور یہ ”تدبیر“ ایک خاص نظام کے تحت انجام پاتا ھے اور ھر ایک ”معلول“ اپنی خاص ”علت“ کے تحت وجود پاتا ھے۔
ھاں یہ خدا ھی ھے جو ” لوگوں کو مارتا“ اور ان کی روحوں کو قبض کرتا ھے لیکن ”عزرائیل“ اور اس کے اعوان و انصارکے ذریعہ، اور یہ خدا ھی ھے جو تمام روزی خواروں کو روزی دیتا ھے:
”وَمَا مِنْ دَابّةٍ فِی الْاَرْضِ إلَّاعَلٰی اللّٰہِ رِزْقُھٰا“ [22]
کوئی جانور اور جنبذہ روی زمین پرنھیں ھے مگر یہ کہ اس کا رزق خدا کے ذمّہ ھے،(لیکن میکائیل اور اس کے مددگاروں کے ذریعہ اسے رزق ملتا ھے۔)
یہ خدا ھی ھے جو انبیاء علیھم السلام کے قلوب پر ”وحی“ نازل کرتا ھے لیکن جبرئیل اور اس کے پیروکاروں کے ذریعہ، اور خداھی ھے جو بارش برساتا ھے اور ھوائیں چلاتا ھے اور زمین کو زندہ کر کے گھاس اُگاتا ھے لیکن ایک مخصوص انداز میں سورج کی روشنی، نور اور حرارت کے وجود کے ذریعہ، نیز قرآن حکیم فرماتا ھے:
”اَللّٰہَ خَالِقُ کُلِّ شَيءٍ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيءٍ وَّکِیْلٌ “ [23]
”خدا ھر چیز کا خالق ھے اور وھی ھر چیز پر مدّبر و کارساز ھے۔“
”إنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْالقُوَّةِ المَتِیْنُ“ [24]
”روزی دینے والا وھی خدا ھے جو صاحب قدرت و توانا ھے“۔
دوسری جگہ ارشادھوتا ھے:
”وَقُلْ الْحَمْدُلِلّٰہِ الذِّیْ لَمْ یَتّخِذْ وَلَداً وَلَمْ یَکُِنْ لَّہُ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِٴ وَلَمْ یَکُنْ لَہْ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ کَبّرہُ تَکْبِیْراً“ [25]
”اورکھوکہ ھر طرح کی تعریف اسی خدا (کو سزا وار )ھے جو نہ تو کوئی اولاد رکھتا ھے اور نہ (سارے جھاں کی) سلطنت میں اس کا کوئی ساجھے دار ھے، او رنہ اسے طرح کی کمزوری ھے، نہ کوئی اس کا سرپرست ھے اور اس کی بڑائی اچھے طرح کیا کرو“
حضرت امام صادق علیہ السلام اسماعیل بن عبدالعزیز (جو آپ کے بارے میں غلو آمیز عقیدہ رکھتا تھا)سے فرماتے ھیں کہ :
”یَا إسْمَاعِیْلُ لاَترْفَعِ البِنَاءَ فَوقَ طَاقَتِہِ فَیَنْھَدِمُ ، إجْعَلُونَا مَخْلُوقِیْنَ۔۔۔“
اے اسماعیل ! عمارت کو اس کے پایوں کی طاقت سے زیادہ اُونچا نہ کرو ورنہ وہ عمارت منھدم ھوجائے گی، ھم کو مخلوق سمجھو! “
یعنی ھمارا وجودِ ”امکانی“ اس بات کی طاقت نھیں رکھتا ھے تم ھماری طرف ”خلاّقیت ، رزّاقیت اور فعالیت میں استقلال “ کی نسبت دو کہ جو خدا وندعالم کے کاموں میں سے ھے،بلکہ جو ھمارے وجود کے مرتبہ کی مناسبت اور شائستہ ھے وہ یہ ھے کہ ھم کو خدا ئے ربّ العالمین کی نسبت مخلوقیت و مربوبیّت کی حدوں سے دور رکھو اور اگر کسی وقت ھم سے کوئی چیز صادر ھو تو سمجھو وہ فاعلیتِ ”بالْاِذْن“ کی شئونات میں سے خدائے ”بالّذات“ کی فعالیت پر متکی ھے۔
پس جو فعل کسی سبب اور علت کے ذریعہ صادر ھوتا ھو وہ اولاً و بالذّات خدا سے صادر ھوتا ھے اور ثانیاً و بالعرض اس کی نسبت علل و اسباب اور وسائط کی طرف دی جاتی ھے کہ ایک سکنڈ کے لئے اگر خدا کا ”فیض“ منقطع ھو جائے تو تمام چیزیں نیست ونابود ھوجائیں گی۔
لیکن جن فاعلوں کا وجود، وجود حق کے سائے میں ھو تو طبیعی طور پر ان کی فاعلیت بھی حضرت حق کی فاعلیت کا سایہ ھوگی۔

این ھمہ عکس می و نقش مخالف کہ نمود
یک فروغ رخ ساقی است کہ درجام افتاد

اس وجہ سے ، خدا اور موجوداتِ جھاں کے درمیان علل و اسباب کا وجود، خدا کی مستقل فاعلیتِ و خالقیت کے ساتھ کوئی منافات نھیں رکھتا ھے، اور جو اصل مسلّم ھے وہ یہ کہ:
”لٰاخَاِلقَ إلاّاللّٰہ ُ، وَلٰا رَازِقَ إلاّاللّٰہ ُ ،وَ لٰا مُدَبَّرَ فِی الْخَلْقِ وَاْلاَمرِ إلاّ اللّٰہ ، لٰامُحْیٖي وَلَامُمِیْتَ إلاّ اللّٰہُ وَ لاََمٴوثّرَفِی الُوجُودِ إِلّااللّٰہ“
”سوائے خدا کے کوئی خالق نھیں، سوائے خدا کے کوئی رازق نھیں، امور مملکت اور خلق میں سوائے خدا کے کوئی مدبّر نھیں، سوائے خدا کے کوئی مارنے اور جلانے والا نھیں اور خلاصہ یہ ھے کہ وجود میں سوائے خدا کے کوئی موٴثر(اثر دکھانے والا) نھیں ھے،“ یہ کمال اتفاق اور اپنی حالت میں باقی اور ثابت ھے۔
کیونکہ تمام عالم میں فاعل ”مستقل اور بالذّات“ خدا ھے اور تمام موجودات جتنے بھی ھیں وہ سب عمومی طور پر فاعل ”بالاِذْن“ ھیں، اور ان میں سے ھر ایک خدا کی امداد کے مطابق اور خداوندعالم کی عطا کی حدود میں کسی کام کی انجام دھی میں ماٴذون ھیں اور اپنی مخلوقیّت کے اقتضاء میں ان میں سے کوئی ایک بھی پلک جھپکنے کے برابر بھی وجود اور اپنے پاس سے ایجاد میں ”استقلال“ نھیں رکھتے، اور نہ ھی اپنے پیروں پر کھڑے ھوسکتے ھیں۔
جبکہ عقل سلیم کے حکم سے ”ممکن الوجود“ اپنی ذات کی حد تک عدم اور فاقد وجود ھے، لہٰذا محال ھے کہ ایسا وجود، مبداء ھستی ھو اور ”ایجاد، فنا اور مارنا و جلانا وغیرہ اس سے صادر ھوں، بلکہ موجود ”ممکن“ (کہ سوائے خدا کے جو بھی ھے وہ موجود ممکن میں شمار ھے) حدوثاً، بقاء اً، وجوداً، ایجاداً ذاتاً و فعلاً خدا کی ذات پر متکی اور ”قیومیت“ کا محتاج ھے۔

ایک ناقص مثال :
ھر وہ فعل جو انسان کے ظاھری و باطنی اعضاء مثلاً آنکھ، کان، ھاتھ، پیر، زبان وغیرہ سے صادر ھوتا ھے در حالیکہ انسان کی طرف منسوب ھوتی ھے وھاں انسان کے اعضاء کی طرف بھی نسبت دی جاتا ھے۔
لہٰذا ھم کہتے ھیں: میں نے دیکھا، میں نے سنا اور میں نے لکھا (اور یہ بھی ھم کہتے ھیں: ھاتھ نے لکھا اور آنکھ نے دیکھا وغیرہ)
اور ان دو نسبتوں کی گفتگو کا راز یہ ھے کہ انسان کی فعّال قوتیں، انسان کے ناطقہ نفس کے ”طول“ میں قرار پاتے ھیں اور مجریان فرمان نفس بھی ھیں اور دوسرے لفظوں میں مظاھر فعالیّت نفس ھوتے ھیں۔
اور یہ افعال اولاً و بالذات، نفس سے صادر ھوتے ھیں اور ثانیاً و بالعرض انسان کی طرف منسوب ھوتے ھیں، یہ نفس ناطقہ اور خود انسان ھے جو آنکھ کے ذریعہ دیکھتا ھے، کان کے ذریعہ سنتا ھے اور ھاتھ کے ذریعہ لکھتا ھے، لہٰذا قرآن میں ارشاد ھے:
”وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَاتَعْمَلُونَ“ [26]
”تمھیں اور جو کچھ تم انجام دیتے ھو (یا جو بت تم تراش کر کے بناتے ھو) خدا نے پیدا کیا ھے“۔
”درحالیکہ یہ انسان کے اعمال (منجملہ ان کے وھی تراشے ھوئے جو بت پرستوں کے ھاتھ سے بنائے ھوئے ھیں اور آیتوں کے سیاق کے حکم کے مطابق اس آیہٴ شریفہ کے مورد توجہ ھیں) کو خود ان کی طرف نسبت دی ھے جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے :”وما تعملون“ (تم جو عمل کرتے ھو) لیکن اس کے باوجود ان کی ایجاد و آفرنیش کو قرآن نے خدا کی طرف منسوب کیا ھے جھاں فرماتا ھے: ”واللّٰہ خلقکم وما۔۔۔۔“ یعنی تم سے صادرہ افعال کو بھی تمھاری طرح خدا نے پیدا کیا ھے۔

ایک تذکر :
ارباب نظر پر یہ بات پوشیدہ نھیں ھے کہ آیت میں (ماتعملون) ”ما“ کا موصولہ یا مصدر یہ ھونا، مذکورہ مطلب اخذ کرنے میں کوئی زیادہ فرق نھیں کرتا ھے، ضمناً آیت شریف کا پھلی والی آیت کے مقابلہ میںتعلیلی مقام رکھنا، انسان کے تمام اعمال کی نسبت شمولِ اطلاقی کی تائید کرتا ھے اور بالخصوص ”اصنام“ کو مراد لینے کی قید سے باھر لاتا ھے (دقت کریں)، یھی وجہ ھے کہ آیات:
”اللّٰہ یَتَوَفّیٰ الانفس“ و ”یتوفیٰکم ملکٴ الموت“ اور ”توفّتہُ رُسُلنا“
ایک دوسرے کے ساتھ منافات نھیں رکھتی ھیں، اسلئے کہ حقیقت میں تمام آیات ایک ھی ”فعل“ اور ایک ھی ”مستقل فاعلیّت“ کی طرف اشارہ کرتی ھیں، جو اس ”نظام“ میں ”طولی فاعل“ کے ذریعہ انجام پاتاھے۔
اور وہ مستقل فاعل واحد، صرف خدا ئے تعالیٰ کی ذات اقدس ھے کہ اس کا فعل واحد، افعال کثیرہ کی صورت میں ایسے پے در پے فاعلوں کے ذریعہ انجام پاتے ھیں جو ایک دوسرے کے بعد ھیں ،منجلی ھوتا ھے۔
اور یہ تمام خدا وندعالم کے فیض والھام اور امر تکوینی کے ذریعہ انجام دیتے ھیں اور وظیفہ کرتے ھیں اور ایک منٹ کے لئے بھی اس کے فیض ”نورالسمٰوات والارض“ سے بے نیازنھیں ھوتے لہٰذا نتیجہ وھی ھے کہ:
”لاَمُوٴثر فی الوجود الااللہ، ولا حول ولا قوّہَ الّا باللہ “
( موجودات میں سوائے خدا کے کوئی موٴثر نھیں ھے، اور کوئی حرکت اور کوئی قوت نھیںھوتی مگر خدا کے ذریعہ)بے شک خدا کو و اسطوںکی کوئی ضرورت نھیں ھے۔
یہ ایک طرح کی فکری ضلالت و رسوائی ھے کہ کوئی یہ وھم کرے کہ خدا وند متعال سے صدور اشیاء کے لئے ایک منظّم تشکیلات اور نظام کا وجود خدا وندعالم کی مطلقہ قدرت میں، عجز و محدودیت لازم آتی ھے اور بے نیاز ذات فرشتوں اور غیر فرشتوں کے وسائط اور اسباب کی محتاج ھو ! ”نعوذباللہ من ھِذہ الضلالة و الْوھم۔“ھرگز نھیں! وہ ذات جو سبوح ٌاور قدوس ٌھے اس کی ذات وصفات سے تمام اشیاء اور اس کے تمام افعال، اس کے امرتکوینی اور فعلی ارادے ھی ھیں
”گرنازی کند از ھم فرو ریزند و قالبھا“
کیسے تصور کیا جاسکتاھے کہ خداوند عالم اپنی آفرنیش و فاعلیت میں ان کا محتاج ھو اور اس کی مخلوقات (نعوذباللہ) اس کے ”ولی’‘ من الذّل“ اور ”شریک’‘ فی الملک“ ھو !! تعالیٰ اللّٰہ عمّا یتوھمُہَ الجاھلونَ علّوا کبیراً۔(خدا جاھلوں کے ان تمام توھمات سے پاک وپاکیزہ ھے )
بلکہ یہ اشیاء کاضعیف مرتبہٴ وجودی ھے جس نے ان کو مستقیم کسب فیض کی قابلیت سے محروم کیا ھے اور ناچار ھوگئے ھیں کہ وہ مجرای فیض حق میں خلقت کے تمام مراتب عالیہ کے وجود کی پناہ میں قرار پائیں اور اپنے وجودی مرتبہٴ خاص میں، مبدٴاء فیاض کی بے دریغ رحمت سے فیض حاصل کریں۔

ایک دوسری مثال :
خدا وندعالم کی ذات ایسی مقدس ھے جو زمین اور زمین والوں کو زندہ کرتا ھے اور گھاس کو اُگاتا ھے اور کرّات منظومہٴ شمسی کو ایک دقیق اور منظّم حساب کے ذریعہ چلاتا ھے لیکن اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ یہ تمام برکات ”سورج“ کے پر فیض دامن سے زمین اور اس پر موجود تمام چیزوں اور دوسرے کرّات تک پھنچتا ھے کہ اگر اس درمیان سورج نہ ھو تو منظومہٴ شمسی کا پورا نظام اپنی تمام چیزوں کے ساتھ درھم وبرھم اور نابود ھو جائے گا۔
تو اب کیا ”سورج“ نعوذباللہ خدا کے لئے ”ولی الذّلّ“ اور ”شریک فی الملک“ ھے اور خداوند عالم سورج کی وساطت کے بغیر گھاس اور نباتات کو اُگانے اور احیاء اموات کوئی قدم نھیں اٹھاسکتا ھے۔
یا نھیں! یہ زمین، گھاس اور دیگر دوسری چیزوں کا تقاضا ھے کہ وہ سورج کی تابش اور بارش کی وساطت کے بغیرخداوندعالم کے فیض سے فیضیاب نھیں ھوسکتے۔
جی ھاں ایک طرف تو خداوندعالم کی قدوسیّت، لامتناھی کبریائی اور علوذات، اور دوسری طرف اشیاء کے وجودمیں شدت و ضعف کے مراتب میں فرق اس طرح کا تقاضا کرتا ھے کہ ”وجود“ کا فیض اور اس کی برکات کی اقسام، عالی اور پست”مراتب“ سے بنے”نظام“ کے تحت جاری ھوکر ”وسائط“ اسباب اور علل کے مجراء سے عبور کرتے ھوئے جھان کے تمام موجودات اور اشیاء تک پھنچتی ھیں، کہ نہ خلقت کے پست اور ”دانیہ“ مراتب اس کی توانائی رکھتے ھیں کہ اس کے ”عالیہ“ مراتب کے توسط کے بغیر ”ربوبی“ اعلیٰ مقام سے کسب فیض کریں ،نہ ھی ”ربُوبی“ مقام اقدس اس کا تقاضا کرتا ھے کہ علل و اسباب کی وساطت کے بغیر خلقت کے دانی مراتب کے ذریعہ فیضیاب کرسکے۔
”وَاِنْ مِنْ شَيءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزّلُہُ اِلَّا بِقَدرٍ مَعْلُومٍ“ [27]
کوئی چیز نھیں ھے مگر یہ کہ اس کے خزینے ھمارے پاس ھیں اور ھم ان کو دکھاتے (نازل کرتے) نھیں ھیں مگر ایک مشخص اور معلوم مقدار میں“
شاعر کہتا ھے:

ھر کسی راگر بُدی آن چشم و زور کہ گرفتی ز آفتاب چرخ نور
کی ستارہ جاجنستی ای ذلیل کہ بود برنور خورشید او دلیل

ھیچ ماہ و اختری حاجت نبود کہ بود بر آفتاب حق شھود
ماہ می گوید بہ ابر و خاک و فی من بشر باشم ولی یُوحیٰ اِلّی

چون شما تاریک بودم از نھاد وَحْی خورشیدم چنین نوری بداد
ظلمتی دارم بہ نسبت باشموس نور دارم بھر ظلمَات نفوس

زان ضعیفم تاتوتابی آوری کہ نہ مَردِ آفتاب اٴنوری

ترجمہ اشعار:
” اگر کسی شخص کے پاس تھوڑی بھی قوت وبصیرت ھوتو وہ سورج کے نور سے نور کسب کرسکتا ھے۔
ستاروں کو کب خواہش ھوتی ھے کہ وہ نور خورشید پر دلیل وحجت جتائیں۔
کبھی بھی چاند وستاروں کو خواہش نھیں ھوتی کہ وہ اپنے نور کے سبب سورج کی حقیقی روشنی پر شھادت کا حق جتائیں۔
بلکہ چاند تو زمین وآسمان سے یھی کہتا ھے کہ میں باوفا ایسا بشر ھوں جس کی طرف نوروحی کیا جاتا ھے۔
ورنہ فطرتاََ میں بھی تمھاری طرح ھوں تاریکی میں غرق تھا یہ تو مجھے خورشید کی وحی نے مجھے نورانی بنادیا ھے۔
لہٰذا میںسورج کی نسبت جھل وتاریکی رکھتا ھوں البتہ نفوس کی نسبت نوروروشنی رکھتا ھوں۔
اس اعتبار سے میں تیرے مقابلہ میں ضعیف ھوں اور آفتاب انوری کی طرح مرد نھیں ھوں۔“
اس نورانی جملہ پر جو اس سے پھلے بھی حضرت فاطمہ صدیقہٴ طاھرہ سلام اللہ علیھا سے نقل ھوچکا ھے دقت کریں:
”واَحْمِدُوا اللّٰہ َ الذی لِعَظَمَتہِ و نُورہ یَبْتغی مَن فی السمٰواتِ و الاَرْض الیہ الْوسلیةوَنَحْنُ و سیُلتُہُ فی خلقہِ۔۔۔۔“
”حمد وثناکریں اس خدا کی جس کا نور و عظمت تقاضا کرتا ھے کہ اھل آسمان و زمین (اس سے قربت حاصل کرنے کے لئے) وسیلہ تلاش کریں اور ھم اس کی مخلوقات میں اس کا وسیلہ ھیں“ [28]

علامہ شھید مطھری کا بیان
”اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ھوئے، قارئین کرام کے اذھان عالیہ کو روشن و منور کرنے کے لئے عبادت، شرک اور مسئلہ توحید سے متعلق، استاد شھید مطھری(رہ) کی ایک دقیق اور مفید بحث بیان کرتے ھیں جس میں موصوف نے توحید و شرک کے درمیان ایک واضح فرق بیان کیاھے اور ایک دوسرے سے تشخیص کا معیار بخوبی نمایاں کر دیا ھے، کہ پھر اس راھگشا اور عمیق بحث کو بیان کرنے کے بعد، شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے اس لقب اور عوام فریب نعرہ لگانے کی کوئی جگہ باقی نھیں رہ جاتی ھے،جیسا کہ کہتے ھیں:
”شیعہ رافضی اور دین سے خارج ھیں“
جو لوگ صاحب بصیرت ھیں اور عقل کی عظمت کا پاس رکھتے ھیں ھماری منطقی بحث پر کان دھریں گے اور حقیقت کو پالیں گے لیکن جو لوگ نعرہ بازی کرنے والے دھوکہ باز ھیں وہ ھمارے اس عقلی عمیق استدلالوں اور تجزیوں کے فروغ پر نور اور فروزاں شعاع میں خفاش کی طرح نور سے بھاگتے نظر آئیں گے اور ظلمت و گمراھی کے شکار بھی ھونگے اور ان کے ھاتھوں سے تھمت زنی، گستاخی اور حملہ کا وقت بھی جاتا رھے گا۔

توحید و شرک کی حدود
توحید و شرک (خواہ نظری ھو یا عملی) اس کی دقیق حدود کیا ھیں؟ توحیدکیاھے؟ اور شرک کیا ھے؟ عمل توحیدی، کونسا عمل ھے؟ اور کونسا عمل، عمل شرک ھے؟
آیا خدا کے علاوہ کسی موجود پر عقیدہ رکھنا شرک ھے؟ (شرک ذاتی) اور توحید ذاتی کا لازمہ یہ ھے کہ ھم خدا کے علاوہ کسی بھی موجودات پر (اگر چہ اسی کی مخلوق کے عنوان سے ھی ھو) کوئی عقیدہ نہ رکھیں؟ (وحدت وجود کی ایک قسم)
روشن ھے کہ مخلوق خدا فعل خدا ھے، خدا کا فعل خود خدا کی ایک شان ھے اور اس کے مقابلہ میں کوئی اس کا ثانی نھیں ھے، خدا کی مخلوقات اس کے فیض کی تجلی ھیں، وجود مخلوق پر اس جہت سے اعتقاد رکھنا کہ وہ مخلوق ھے، توحید پر اعتقاد کا دوسرا حصہ ھے نہ کہ توحید کی ضد، لہٰذاتوحید و شرک کا معیار کسی دوسری چیز کا وجود رکھنا یا نہ رکھنا ، نھیں ھے۔
آیا تاٴثیر و تاٴثر اور سببیّت و مسببیت میں مخلوقات کے کردار پر اعتقاد رکھنا شرک ھے؟ (یعنی خالقیت و فاعلیت میں شرک) آیا توحید افعالی کا لازمہ یہ ھے کہ ھم کائنات کے سببی اور مسببی نظام کا انکار کریں؟ اور ھر اثر کو مستقیماً اور بلاواسطہ خدا سے صادر ھونا تصور کریں؟! اور اسباب کے لئے کسی اثر کے قائل نہ ھوں؟
مثلاً یہ عقیدہ رکھیں کہ آگ ،جلانے میں، پانی ،سیراب کرنے میں، بارش، گھاس اُگانے میں اور دوائی، مریض کو شفابخشنے میں کوئی کردار نھیں رکھتی ھے؟ یعنی بس خدا ھے جو بطور مستقیم جلاتا ھے، سیراب کرتا ھے، مستقیماً اُگاتا ھے اور مستقیماً شفا دیتاھے؟! کیا ان عوامل کا ھونا اور نا ھونابرابر ھے؟!
یھاں پرجو چیز قابل دقت ھے وہ یہ کہ خدا کی عادت ھے کہ وہ اپنے کاموں کو ان امور (اسباب) کی موجودگی میں انجام دیتا ھے مثلاً اگر ایک انسان کی عادت یہ ھو کہ:
وہ اپنے سر پر ٹوپی رکھ کر خط لکھتا ھو، خط کے لکھنے میں سر پر ٹوپی کا ھونا نہ ھونا کوئی اثر نھیں رکھتا ھے لیکن خط لکھنے والا کبھی یہ نھیں چاہتا کہ وہ ٹوپی کے بغیر خط لکھے۔
خدا کے امور بھی اسی نظریہ کے مطابق ھیں یعنی ان امور کا نہ ھونا جن کو عوامل و اسباب کھا جاتا ھے، اسی قبیل سے ھیں، (یعنی خدا نے اپنی عادت بنالی ھے کہ وہ اپنے امور کچھ افراد کے ذریعہ سے انجام دیتا ھے)۔
اور اگر اس کے علاوہ ھم قائل ھو جائیں تو گویا فاعلیت میں ھم ایک ھی کے شریک نھیں بلکہ بہت سے شرکاء کے قائل ھوگئے ھیں (جبریوں اور اشاعرہ کا نظریہ) یہ نظریہ بھی صحیح نھیں ھے۔
جیسا کہ مخلوق کے وجود پر اعتقاد، خدا کے مقابل شرک ذاتی، قطبی وجود اور دوسرے خدا پر اعتقاد کے ساتھ مساوی نھیں ھے بلکہ خدائے وحدہ لاشریک کے وجود پر اعتقاد کا مکمِّل اور متِمّم ھے، نظام کائنات میں مخلوقات کے کردار پر اور تاٴثیر و سببّیت پر اعتقاد رکھنا بھی (جیسا کہ موجودات ذات میں استقلال نھیں رکھتے ھیں ایسے ھی تاٴثیر میں بھی استقلال نھیں رکھتے ھیں: وہ موجود ھیں تو اس کے وجود سے، موٴثر ھیں تو اس کی تاٴثیر سے) خالقیت میں شرک کا باعث نھیں ھے بلکہ خدا کی خالقیت کے اعتقاد کامکمل اور متمم ھے۔
ھاں اگر مخلوقات کے لئے، تاٴثیر کے لحاظ سے استقلال و تفویض کے قائل ھو جائیں اور اس طرح اعتقاد رکھیں کہ جھان کی طرف خدا کی نسبت ایسے ھے کہ جیسے ایک انجینئر کی نسبت، صنعت کی طرف ھوتی ھے (مثلاً گاڑی) اپنی پیدائش میں ایک انجینئر (بنانے والے) کی محتاج ھے لیکن جب بن کر تیار ھو جائے تو وہ اپنا کام اپنے سسٹم کے مطابق جاری رکھتی ھے۔
انجینئر فقط گاڑی کے بنانے میں کردار ادا کرتا ھے نہ کہ تیار ھونے کے بعد اس کی کار کردگی میں، اگر بنانے والا مستری مر جائے تب بھی گاڑی اپنا کام جاری رکھے گی۔
اگر ایسا عقیدہ ھو تو عوامل جھان: پانی، بارش، بجلی، حرارت، خاک، گھاس، حیوان اور انسان وغیرہ کی نسبت خدا کے ساتھ ایسی نسبت ھے کہ (جیسی گاڑی اور اس کے بنانے والے کے درمیان نسبت ھوتی ھے) جو واقعاً شرک ھے، ( جیسا کہ معتزلہ اس کے قائل ھیں)
مخلوق اپنی حدوث و بقاء میں خدائے خالق کی محتاج ھے، بقاء اور تاٴثیر گذار میں بھی اسی مقدار میںمحتاج ھے کہ جتنا حدوث میں ھے، جھان کا عین فیض، عین تعلق، عین ارتباط، عین وابستگی، صرف اسی کی ذات سے ھے لہٰذااس لحاظ سے اشیاء کی تاٴثیر و سببیّت، خدا کی عین تاٴثیر و سببیّت ھے،
جھان کی قوتِ خلاقیت جو انسان وغیر انسان ھر ایک میں موجودھے، عین خلاقیتِ خداوندعالم اور اس کی فاعلیّت کی بسط(وسعت) ھے بلکہ یہ اعتقاد کہ اس دنیامیں اشیاء کا کردار ادا کرنا شرک کا باعث ھے خود ایک طرح کا شرک ھے۔
کیونکہ یہ اعتقاد اس نظریہ کی وجہ سے پیدا ھوتا ھے کہ بے خبری میں موجودات کی ذات کے لئے ذاتِ حق کے مقابل ھم استقلال کے قائل ھوگئے ھیں اور اس بناء پر اگر موجودات کو ئی تاٴثیری نقش رکھتے ھوں تو تاٴثیرات کی نسبت دوسرے قطبوں سے دے دی گئی ھے، پس شرک و توحید کے درمیان حدود یہ نھیں ھیں کہ غیر خدا کے لئے سببیّت اور تاٴثیرات میں کسی نقش کے قائل ھوں یا قائل نہ ھوں۔
کیاتوحید و شرک کی حدود، قدرت اور مافوق الطبیعی چیزوں کی تاٴثیر پر اعتقاد کا نام ھے؟ یعنی ایک موجود، خواہ وہ انسان ھو مثلا ًنبی یا امام یا فرشتہ، کے لئے طبیعی طور پر مافوق قوانین کی قدرت پر اعتقاد رکھنا شرک ھے، لیکن متعارف اور معمولی حدود میں تاٴثیر و قدرت پر اعتقاد رکھنا شرک نھیں ھے اور ایسے ھی دنیا سے چلے گئے انسان کی تاٴثیر و قدرت پر اعتقاد بھی شرک ھے؟ کیونکہ مرا ھوا انسان جمادات کا حکم رکھتا ھے اور قوانین طبیعی کے اعتبار سے شعوربھی نھیںرکھتا، اور نہ ھی قدرت و ارادہ ، لہٰذامردہ کا درک کرنا، مردہ کو سلام کرنا، مردہ کی تعظیم و تکریم کرنا، مردہ کو پکارنا، مردہ سے کوئی چیز طلب کرنا اور مردہ پر فدا ھو جانا وغیرہ جیسے اعتقاد رکھنا شرک ھے، کیونکہ غیر خدا کے لئے ایک ماوراء طبیعی قدرت پر اعتقاد رکھنے کا لازمہ یھی ھے۔
ایسے ھی مرموز اور ناشناختہ چیزوں کے لئے ایک حالت کی تاٴثیر رکھنے پر اعتقاد کا مسئلہ مخصوصاً بیماری سے شفا پانے میں یا ایک مخصوص جگہ دعا کے قبول ھونے پر اعتقادرکھنا شرک ھے، کیونکہ ایک ماوراء الطبیعی قدرت پر اعتقاد رکھناھے، خواہ وہ کوئی بھی طبیعی چیز ھو۔
اس وجہ سے اشیاء کے لئے مطلقا تاٴثیرات پر اعتقاد رکھنا شرک نھیں ھے (جیسا کہ اشاعرہ قائل ھوئے ھیں) بلکہ اشیاء کے لئے مافوق الطبیعی تاٴثیرات پر اعتقاد رکھنا شرک ھے، لہٰذاھستی دو حصّوں میں تقسیم ھوتی ھے: طبیعت اور ماوراء طبیعت، ماوراء الطبیعت جو خدا سے مخصوص ھے اور طبیعت اس کی مخلوق سے مختص ھے یا خدا اور مخلوق دونوں کے لئے ھے۔
کچھ اس طرح کے کام ھیں جو غیر طبیعی پھلو رکھتے ھیں جیسے زندہ کرنا ، مارنا، روزی دینا وغیرہ، مذکورہ باقی امور عمومی اور عادی ھیں ، عمومی کام خدا سے مخصوص ھیں اور باقی امور اس کی مخلوقات کے دائرہ اختیار میں ھے ، یہ باتیں توحید نظری کے اعتبار سے ھیں ۔
لیکن توحید عملی کے لحاظ سے غیرخدا کی طرف ھر طرح کی معنوی توجہ یعنی ایسی توجہ کہ جو توجہ کرنے والے کے چھرے اور زبان کے ذریعہ، جس کی طرف توجہ کی جائے اس کے ظاھری کان اور چھرہ کی طرف نہ ھوبلکہ توجہ کرنے والا چاہتا ھے کہ ایک طرح کا قلبی او رمعنوی رابطہ اپنے او ر مدمقابل کے درمیان برقرار کرے ، او راس کو پکارے اور اپنی طرف متوجہ کرکے اس تک(پھونچنے کے لئے) وسیلہ تلاش کرے او راس سے مراد مانگے یہ تمام کام شرک اور غیر خدا کی پرستش ھے کیونکہ عبادت بھی اسی طرح سے ھوتی ھے ۔
اور غیر خدا کی عبادت بحکم عقل وشرع جائز نھیں ھے ،جس کا لازمہ دائرہ اسلام سے خارج ھونا ھے ، اس کے علاوہ اس طرح کے فعل انجام دینا قطع نظر اس بات سے کہ غیر خدا کی عملی عبادت ھے اور یہ ایسے افعال ھیںکہ جو مشرکین بتوں کے لئے انجام دیتے تھے اور اس بات کالازمہ یہ ھے کہ پیغمبر یا امام کے لئے غیر طبیعی طاقت کا عقیدہ رکھا جائے ، (جیسا کہ ھمارے زمانے کے وھابیوں اور وھابیت کے ٹھیکیداروں کا عقیدہ ھے)
یہ نظریہ ھمارے زمانہ میں اس حد تک پھیل گیا ھے کہ ایک طبقہ کے درمیان خاص طور پر روشن فکری کی نشانی سمجھا جاتا ھے لیکن معیار توحید کے لحاظ سے یہ نظریہ توحید ذاتی کے بارے میں نظریہ ٴاشاعرہ کی حدتک شرک آلودھے ، او رتوحید خالقیت اور فاعلیت کے لحاظ سے بہت ھی شرک آمیز نظریات میں سے ھے۔
اس سے قبل ھم نے اشاعرہ کے نظریہ کی ردّ میں کھا تھا کہ اشاعرہ اشیاء میں سببیت او رنفی ٴ تاثیر کے قائل ھیں اس خیال سے کہ اشیاء کی تاثیر اور سببیت کا اعتقاد رکھنے کا ملازمہ خدا کے مقابلہ میں منشاء اور قطب کا اعتقاد رکھناھے ، او رھم نے پھلے بھی عرض کیا ھے کہ اشیاء قطب(محور)کی شکل میں اس وقت خدا کے مقابلہ میں آتے ھیں کہ جب وہ ذاتاً مستقل ھوں ، لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ اشاعرہ ندانستہ طورپر اشیاء کے لئے ایک طرح سے استقلال ذاتی کا قائل ھوگئے ھیں ،جس کا ملازمہ شرک ذاتی ھے ، البتہ اس سے غافل تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ اشیاء سے نفی اثر کے ذریعہ توحید خالقیت کو ثابت کریں، ان کے اس کام نے خالقیت میں شرک کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ شرک ذاتی کی تائید کی ھے ۔
بالکل اسی طرح کا اعتراض وھابیت پر بھی ھوتا ھے یہ لوگ بھی نادانستہ طور سے اشیاء میں استقلال ذاتی کے قائل ھوگئے ھیں ،اور اسی طرح مافوق طبیعت چیزوں کا نقش معمولی عوامل واسباب میں رکھنے کو مرکزیت ومحوریت اور ایک قدرت کا ملازمہ خدا کے مقابلہ میں اعتقاد جانا ھے اس بات سے غافل ھوگئے کہ تمام موجودات اپنی تمام ترحقیقت کے ساتھ اللہ کے ارادے سے وابستہ ھیں اور ان کی اپنی کوئی حیثیت نھیں ھے اس مافوق ِ طبیعت کی تاثیر اس کی طبیعی تاثیر کی طرح ھے ، لہٰذا اگر کوئی چیز اپنی طرف منسوب ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ اللہ کی طرف منسوب ھے اورکسی چیز کی حقیقت نھیں مگر یہ کہ اللہ نے اس کو فیض پھونچانے کا ایک ذریعہ بنایا ھے ۔
کیا جناب جبرئیل (ع)کا وحی وعلم پھونچانے اور میکائیل (ع)کا رزق پھونچانے، یا اسرافیل (ع) کا مردوں کو زندہ کرنے میں ، یا ملک الموت کا روح کو قبض کرنے میں واسطہ ھونا شرک ھے ؟!
خالقیت میں توحید کے نظریات میں سے یہ نظریہ سب سے بدترین شرک کی قسموں میں سے ھے کیونکہ اس نظریہ میں خالق ومخلوق کے درمیان کام تقسیم ھونے کے قائل ھوئے ھیں :
غیر طبیعی کاموں کو خدا سے مخصوص کرنا اور طبیعی کاموں کو انسانوں سے مخصوص کرنا یا خدا اور مخلوق کے درمیان اشتراک کا قائل ھونا، مخلوق کے لئے کچھ کاموں کا مخصوص کرنا ، فاعلیت میں عین شرک ھے نیز اشتراکیت کا قائل ھونا بھی فاعلیت میں ایک دوسرا شرک ھے ۔
رائج تصور کے برعکس ، وھابیت کا نظریہ صرف امامت کی مخالفت میں نھیں ھے بلکہ قبل اس سے کہ امامت کے مخالف ھو توحید او رانسانیت کے خلاف ھے ، توحید کے مخالف اس وجہ سے ھے کیونکہ خالق اور مخلوق کے درمیان تقسیم امور کے قائل ھیں اور اس کی وجہ سے ایک طرح کا ”شرک ذاتی خفی “کے قائل ھیں جس کی وضاحت ھم پھلے کر چکے ھیں ، اور انسانیت کے مخالف اس وجہ سے ھے کہ اس انسان کو کہ جو اشرف المخلوقات ھے اور قرآنی روسے خلیفة اللہ ھے اور مسجود ملائکہ ھے ، اس انسان کی قابلیت اور استعداد کو نھیں سمجھاگیا او راس کو ایک جانور کی حد تک گرادیا،اس کے علاوہ مردہ اور زندہ میں اس طرح کے فرق کے قائل ھوئے کہ مردے عالم (آخرت) میں بھی زندہ نھیں ھیں اور یہ کہ انسان کی تمام شخصیت اس کا بدن ھے جو ایک جماد کی شکل میں ھے ، لہٰذا یہ ایک مادی اورضد الٰھی نظریہ ھے ۔
اور اسی طرح مجھول او رناشناختہ چیزوں اور معلوم اور شناختہ شدہ چیزوں کے درمیان اس طرح جدائی کی ھے اور پھلے کو دوسرے کے برعکس غیر طبیعی جاننا بھی ایک طرح کا شرک ھے ۔
ھم یھاںپر حضرت رسول اکرم(ص) کے ارشاد کی طرف متوجہ ھوتے ھیں کہ آپ نے فرمایا: افکار وعقائد میں شرک اس طرح مخفی طریقہ سے داخل ھوتا ھے کہ جس طرح ایک کالی چیونٹی اندھیری رات میں سخت پتھر پر آھستہ آھستہ چلے۔
حقیقت تو یہ ھے کہ توحید اور شرک کی حد خدا اورانسان کے درمیان ”من اللّٰہ “ ”الی اللہ“ ھے ۔
”توحیدنظری“ میں شرک اور توحید کی سرحد” من اللہ“(اِنّا لِلّٰہ) ھے یعنی خدا کی جانب سے ھے(إنَّا لِلّٰہِ)ھر حقیقت اور ھر موجود جب تک کہ ذات و صفات و افعال کو اس کی خصلت و ھویت کے ساتھ ”اس (اللہ) سے“ پہچانیں تواس کو صحیح اور حقیقت کے مطابق اور نگاہ توحید کے مساوی پہچاننا ھے، چاھے وہ چیز ایک اثر یا چند اثر رکھتی ھو یا نہ رکھتی ھو یا یہ کہ وہ اثر جنبہٴ ماوراء طبیعت رکھتی ھو یا نہ رکھتی ھو،چونکہ خدا صرف ماوراء طبیعت ، آسمان و ملکوت و جبروت کا خدا نھیں ھے بلکہ سارے جھان کا خدا ھے، وہ طبیعت سے اتنا ھی قریب ھو نے کے ساتھ قیومیت بھی رکھتا ھے جتنا ماوراء طبیعت سے نزدیک ھے ، اور ایک موجود کے لئے جہت ماوراء طبیعت رکھنے سے اس کو خدائی کا پھلو نھیں ملتا ھے۔
یہ بات ھم پھلے بھی عرض کرچکے ھیں کہ جھان بینی اسلامی نقطہٴ نظر سے دنیا کی ماھیت ”اس (اللہ) سے“ھے، جیسا کہ قرآن کریم نے متعدد معجزات کو، مثلاً مردہ کو زندہ کرنے یا مادر زاد اندھے کو شفا دینے کی نسبت بعض، پیغمبروں کی طرف دی ھے، لیکن اس نسبت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے کلمہٴ ”بِاِذنِہِ“ کو اضافہ کیا ھے یہ کلمہ اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ ماھیت ”اس (اللہ) سے“ ھے، لیکن یھاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ انبیاء مستقلاً اس کام کو انجام دیتے ھیں۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ھوا کہ توحید نظری و شرک نظری کی حدیں ”اس (اللہ) سے“ ھے اور کسی موجود کے وجود پر اعتقاد رکھنا کہ اس کی موجودیت ”اس سے“ یعنی خدا سے نھیں ھے شرک ھے،یا یہ اعتقاد رکھنا کہ کسی موجود میں تاثیرو موٴثریت ”اس (اللہ) سے“ نھیں ھے یہ بھی شرک ھے چاھے اثر، اثر مافوق طبیعت ھو مثلاً آسمان و زمین کی خلقت یا ایک ھلکا سا اثر مثلاً پتوں کا ھلنا۔
توحید عملی میں شرک و توحید کی حد ”اس (اللہ) سے“ ھے ”إنَّا للہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ“ ھر موجود کی طرف توجہ، ظاھری و معنوی توجہ سے بڑھ کر، جب کبھی بھی اصل توجہ ایک راہ کی طرف ھو ،وہ راہ جو حق کی طرف ھو اس مقصد کی طرف، تو وہ توجہ اللہ کی طرف ھے،ھر حرکت و مسیر میں راستے کی طرف توجہ کرنا اس حیثیت کا راستہ ھے اور علائم و چراغ راستہ نہ کھونے یا مقصد سے دور نہ ہٹنے کے لئے ھوتے ھےں، کی طرف توجہ کرنا اس لحاظ سے کہ یہ سب علامت اور نشانیاں ھیں مقصد کی طرف راستہ چلنے کے لئے ، اسی طرح انبیاء اور اولیاء خدا بھی راستہ کی طرح ھیں: ”اَنتُمُ السَّبِیلُ الاَعظَمُ وَ الصِّرَاطُ الاَقوَمُ“ آپ ھی سبیل اعظم اور صراط اقوم ھیں، وہ لوگ اللہ کی طرف سیر کرنے کی علامت اور نشانیاں ھیں: ”و اعلاماً لعبادہ و مناراً فی بلادہ و ادلائاً علی صراطہ“حق کی طرف ھدایت کرنے والے اور راستہ دکھانے والے ھیں،”اَلدُّعَاةُ اِلَی اللّٰہِ وَ الاَدِلَّاءُ عَلَی مَرضَاةِ اللّٰہِ“
لہٰذا بات یہ نھیں ھے کہ توسل و زیارت یا اولیا ء خدا سے امداد طلب کرنا اور مافوق طبیعت کام انجام دینے کا انتظار کرنا شرک ھے، بلکہ بات کچھ اور ھی ھے۔
اول :۔ھم کو یہ جاننا ضروری ھے کہ انبیاء اور اولیاء خدا نے قرب الھی میں اتنی بلندی حاصل کی کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایسے مقامات عطا کئے گئے ھیں یا نھیں؟
آیات قرآن کریم سے معلوم ھوتا ھے کہ اللہ تعالی نے اپنے بعض بندوں کو ایسا مقام و مرتبہ عطا کیا ھے ۔
دوم :۔وہ لوگ جو توسل کرتے ھیں یا اولیاء خدا کی زیارت کو جاتے ھیں ان سے حاجت طلب کرتے ھیں، توحیدی نظریہ کے مطابق ان کو توحید کے صحیح معنی معلوم ھیں یا نھیں ؟
کیا واقعاً اس نظریہ کے تحت زیارت کرنے والے لوگ خشنودی خدا کے لئے زیارت کرتے ھیں یا اللہ کو بھول کر خود جس کی زیارت کو جاتے ھیں اسی کو مقصد قرار دیتے ھیں؟
بغیرکسی شک کے اکثر لوگ اسی نیت سے زیارت کرتے ھیں اور ممکن ھے کچھ لوگ اقلیت میں ایسے بھی ھوں جو ایسا قصد نہ رکھتے ھوں اور توحید کو صحیح درک کرنے سے قاصر ھوں، اگر چہ خواہشات ھی کی حد میں کیوں نہ ھوں ضروری ھے کہ ھم انھیں توحید کے معنی سمجھائیں نہ یہ کہ زیارت کو شرک قرار دیں۔
سوم :۔ وہ افعال و اقوال جو تسبیح و تکبیر و تحمید اور علی الاطلاق ذات کامل یعنی خدا، اور علی الاطلاق بے نیازی پر دلالت کرتے ھیں غیر خدا کے لئے ان کااستعمال شرک ھے ، سبوح ٌیعنی وہ مطلقاً طور پر منزہ ھے ، اور اس کی ذات ھر نقص سے پاک و پاکیز ہ ھے، بزرگ تنھا اس کی ذات ھے تمام تعریفوں کا منبع و مرکز تنھا خدائے بزرگ و برتر ھے، تمام ”حول و قوة“ اسی کی ذات اور صفات سے قائم ھے!اوراگر اسی طرح کی توصیف و تعریف کوئی شخص غیر خدا کے لئے کرنا چاھے زبان کے ذریعے ھو یا عمل کے ذریعے ، شرک ھے۔ (۱)

عالم کائنات میں وھابیوں کا نفی واسطہ کا عقیدہ
اسلامی عظیم الشان فلسفی اور مفکر حضرات نے اپنے صحائف اور تالیفات میں ، عالم ھستی میں ضرورتِ وجود ”رابطہ“ و ”واسطہ“ پر بحث کی ھے اور طالبان حکمت و عرفان کے لئے خصوصاً مفید، راہ گشا اوربہت عمدہ مطالب ذکر کئے ھیں۔
فلسفی حضرات نے اپنی جگہ پریہ بات ثابت کی ھے کہ دو چیز جن کے درمیان بلندی و پستی میںنھایت بُعدا ورمباینت ،پا ئی جاتی ھو،ان کے لئے ایک دوسرے سے ارتباط کے لئے واسطہ درکار ھے تاکہ عالی سے سافل تک پیغام رسانی میں واسطہ بن سکے ،اگر ایسا نہ ھو تو کسی بھی حالت میں دو موجود کے درمیان کہ جو مبائن و مغایر ھیں اور ایک دوسرے سے نھایت بُعد رکھتے ھیں کبھی بھی ان میں رابطہ برقرار نھیں ھوسکتا۔
اسی طرح سے صدر متاَلھین اور دیگر فلاسفہ و محققین اور دوراندیش اسلامی حکماء نے حکمت کی عمیق اور فلسفی بحثوں میں اس بات کو منزل ثبوت تک پھونچا دیا ھے کہ خداوند متعال نھایت ”تجرد“ بلکہ” مافوق تجرد“ ھے اور کسی طرح کا نقص اور محدودیت نھیں رکھتا بلکہ اس کی ھستی نا محدودا ور لامتناھی ھے ”کل الکمال“ اور ”کلہ الکمال“ ھے ، اور اگر قاعدہٴ ”بسیط الحقیقة“ کے لحاظ سے دیکھا جائے ، جس کا یھاں ذکر کرنا یا عام لوگوں کا اس کو سمجھنا مشکل ھے بس اس قاعدے کے ذیل میں اتنا سمجھ لیں کہ خداوند عالم سارے کمالات کو خالص اور نامحدودطور پر رکھتا ھے، اور ائمہ معصومین(ع) کے بقول کہ وہ ایک شئی ھے ”لَا کَالاَشیَاءِ“ لیکن اشیا ء کی طرح نھیں، بلکہ وہ ایسی شئی ھے کہ ”بِحَقِیقَةِ الشَّیئِیَّةِ“ یعنی وہ وھی ”حقیقة الوجود“ اور ”حقیقة الحقائق“ ھے کہ عرفان کی زبان میں ”نور الانوار“ و ”ظاھر مطلق“ اور ”غیب ھویت“ و ” ذات احدیت “ و ”عنقاء مغرب“ کھا جاتا ھے۔
دوسری طرف جبکہ ھمیں یہ معلوم ھے کہ اس کائنات کی تمام موجودات ،مادی ھیں جوتمام کی تمام بے انتھا، وسیع و نامحدودفیض( حق تعالی) کی طرف سے فیضیاب ھوتے رہتے ھےں، مادی و جسمانی چیزیں زمان ومکان میں مقید ھوتی ھیں نیز ”بُعد“ میں اسیر رہتی ھیں اور ان کا وجود محدود ھوتا ھے اور ھمیشہ بدلتی رہتی ھیں اور اپنی شکل تبدیل کرتی رہتی ھیں اور ان کی ”حیثیت وقتی“ او رانکی شکل ”متحرک“ھوتی ھیں۔
اوریہ بھی روشن اور واضح ھے کہ خداوند عالم صرف تمام مخلوقات کا خالق ھی نھیں ھے :”اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَيءٍ“ بلکہ ان کا ھادی اور مربی بھی ھے۔
”رَبُّنَا الَّذِی اَعطَیٰ کُلشَيءٍ خَلقَہُ ثُمَّ ھَدَیٰ“ وہ ”رَبُّ الْعَالِمِیْن“ ھے اور تمام موجودات کی پرورش کرنے والا ھے۔
سبھی اس کے کرم و نعمت کے دسترخوان پر بیٹھے ھوئے ھیں کوئی شخص اپنے پاس سے کچھ نھیں رکھتا ھے جو کچھ ھے سب اسی کا دیا ھواھے سب اسی کے محتاج ھیں اور وہ خود ھر ایک سے بے نیاز ھے:
”یَا اَیُّھَا النَّاسُ اَنتُمُ الفُقَرَاءُ اِلَی اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ہُوَ الغَنِیُ الحَمِیدُ“ [29]
لہٰذا اب ھم کہتے ھیں:کہ اگر واسطہ درکار نہ ھو، تو غنی محض بلکہ ”غنای محض“کا ”فقر محض“اور وہ بھی نامحدود سے کیا تقابل ، ان میں کیا سنخیت ھے، اور کس طرح ”غناء محض“ ”فقر محض“کا ھم نشین و ھم پلہ ھوسکتا ھے سنخیت علتِ انضمام ھے ”اَلسِّنخِیَّةُ عِلَّةُ الاِنضِمَامِ“ لیکن کس طرح ھمنشینی اور دو موجود کے درمیان ارتباط جو کاملاً متفاوت و متباین ھیں توجیہ پذیر ھوسکتا ھے مگر یہ کھا جائے کہ یہ موجودات خاکی مادی و محدود کہ جو ”غواسق“ یعنی اندھیرے و تاریکی میں ھیں ، عقول کلیہ ”وسائط فیض“ و ”وسائل“ کے توسط سے قریب او رقربت رکھتے ھیں، اور حکماء کی اصطلاح میں ”جالس بین الحدین“ یعنی دو حدوں کے درمیان قرار پانے والے ، کھلاتے ھیں حضرت ”نور الانوار“ سے ،ھر حالت میں، فیوضات کسب کرتے رہتے ھیں ،اور ھر ایک اپنی لیاقت و ظرفیت کے مطابق منزل کمال تک پھونچتے ھیں کہ وہ وھی انبیاء و اولیاء معصومین(ع) ھیں جو اپنے جنبہٴ روحانیت کے ذریعے خدا وندکریم سے فیوضات کسب کرتے ھیں اور اس طرف مخلوقات سے پیکر انسانی میں مناسبت رکھتے ھیں اور فیضیاب کرتے ھیں۔
وجود نبی و پیامبر کی ضرورت کے سلسلے میں اسلامی فلسفی حضرات کے جومدلل و واضح ترین بیانات ھیں ،وھی دلیلیں بعینہ وجود امام و خلیفہٴ پیامبر(ص) پر جاری ھوںگی ۔ [30]
اگر چہ یہ بحث مفصل مقدمات اور فلسفہ کے دشوار و مشکل مراحل میں سے ھے اور ھم یھاں پر فلسفے کی دشوار و سنگین وادیوں میں جانا مناسب نھیں سمجھتے لیکن اس نکتہ کی وضاحت کرنا ضروری ھے کہ نہ تو محمدا بن عبد الوھاب اور نہ ھی اس کے ھمفکر رھنماؤں ، مثال کے طور پر ابن تیمیہ و ابن
قیم،جیسے افراد فلسفے اور حکمت کے مطالب سے ناآشنائی کی بنا پر اور مسٹر ھمفرے کے توسط سے برطانیہ کی تحریک آمیز جاسوسی و وزارت استعمار برطانیہ کی طرف سے محمد ابن عبد الوھاب کو دین سازی کے دیئے گئے احکامات ، ان سب کے علاوہ علوم عقلیہ سے دوری و اسلامی فلسفے و حکمت سے عدم واقفیت اور ظاھر پرستی و جمود و عدم تفکر کا نتیجہ ھے، یہ بات اصلاحگروں اور نئی فکررکھنے والے اندیشمندوں کی اصطلاح میںجو حفظ شرع و دین کا دفاع اور دلسوزی و جانبازی !کا نعرہ لگاتے ھیں، یہ لوگ اللہ کی قدرت وعظمت و علم و احاطہ و حیات و تمام اسماء و صفات کو مخلوقات سے جدا و الگ مانتے ھیں اس طرح کہ عنوان ”وساطت“ کو وسائط سے اور عنوان ”مرآتیت“ (آئینہ)کے قائل ھیں جن میں خدا وندعالم کی ذات کے مظھر ھیں اس وجہ سے اصولاً عالم امکان میں معنی ظھور وتجلی کے قائل نھیں ھےں۔
اسی وجہ سے یہ لوگ ایک خطرے اور اشکال میں قرار پاتے ھیں کہ اگر روز قیامت تک یہ لوگ فکر کریں تب بھی اس سے نجات اور چھٹکارہ نھیں مل سکتا، اور یہ اعتراض کہ: ھم اس کائنات میں بہت ساری ایسی مخلوقات کو وجداناً اور شھوداً دیکھتے ھیں کہ سب کی سب زندگی و علم و قدرت رکھتی ھیں ، اوریہ ایک ایسا مسئلہ ھے کہ جو قابل انکار بھی نھیں ھے اور موجودات موٴ ثر کا ھم انکاربھی نھیں کرسکتے۔
لہٰذا ھم کہتے ھیں: کہ اگر ذات ازلی حق، میں حیات و علم و قدرت کو دیگر موجودات کے علاوہ جانیں تو یہ بات وجداناً و شھوداً غلط اور باطل ھے چونکہ موجودات میں ان صفات کا وجود ضروریات و یقینیات میں سے ھے اور اگر موجودات کو قدرت مستقل و حیات و علم مستقل والا مانیں، اگرچہ اللہ تعالی کی طرف ھو، پھر بھی یہ غلط ھے کیونکہ یہ کلام عین شرک و ثنویت ھے اور اس پر تعدد خدا و دیگر بے شماراشکالات پیدا ھوتے ھیں۔
عنوان ”اعطاء“ عنوان ”استقلال“ کے ساتھ سازگاری نھیں رکھتا ، چونکہ اس گفتگو کا لازمہ یہ ھوگا کہ، موجودات کی خلقت حق تعالی کے سبب ھے، اور یہ کلام اگر دیکھا جائے تو عین تفویض ھے جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ خداوند عالم”لَم یَلِد وَ لَم یُولَد وَ لَم یَکُن لَّہُ کُفُواً اَحَدٌ“ ھے نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ اسکو کسی نے پیداکیا اور نہ ھی اس کا کوئی کفو ھے۔
اب یھاں پر کوئی علمی و فلسفی راستہ نھیں ھے مگر یہ کہ اس کائنات کی موجودات کو ذات اقدس باری تعالی کے لئے مظاھر و متجلی تسلیم کریں اس طرح کہ قدرت و علم و حیات خداوندعالم سے مخصوص ھے اور یہ موجودات عالم میں ان کی ماھیت و ھویت کے اعتبار سے قدرت و علم و حیات نے اظھار کیا ھے۔
یعنی استقلال خداوندعالم میں منحصر ھے حیات و علم و قدرت وسارے اسما ء و صفات میں استقلال، ذات حق تعالی سے مختص ھے اور خدا کے علاوہ دیگر چیزوں میں عرضی طور پر ھے یہ تمام چیزیں ذات حق تعالی میں اصالت رکھتی ھیں اور دیگر موجودات میں آئینہ و نشانی کے طور پر پائی جاتی ھیں۔
اور اب اسی قاعدہ کی بنا پر ارواح مجرداور مقرب فرشتوں کے نفوس قدسیہ و انبیاء (ع) کے نفوس ناطقہ اور اسی طرح ائمہ اطھار علیھم السلام کے نفوس ناطقہ، حضرت مھدی قائم آل محمد(ع) عج اللہ تعالی فرجہ الشریف میں مزید پایا جاتا ھے بلکہ عادتاً ان میں زیادہ ھی ظھور و بروز پایا جاتا ھے اور یہ آئینے ذات حق تعالی کی کچھ زیادہ ھی عکاسی کرتے ھیں۔
لہٰذا اس اصل و قاعدہ کی بنا پر حیات و علم و قدرت خداوندعالم سے مخصوص ھےں، ان کا ظھور و بروز ان آئینوں میں گواہ اور ایک ناقابل انکار حقیقت اور عقلی طور پر یہ بات ثابت ھے۔
ظھور و ظاھر، اورحضور و حاضر ایک ھی چیز ھے معنی حرفی معنی اسمی میں سما یا ھوا ھے، تمام موجودات بغیر کسی استثناء کے، سب کے سب اللہ کی نشانیاں ھیں اور ان کی نسبت اللہ تعالی کی طرف معانی حرفیہ کی نسبت ھے اور معنی حرفی کے لئے استقلال کا تصور نا معقول ھے اور قیاس برھانی میں خلف کا سبب ھے۔
معنی حرفی و معنی اسمی الگ الگ دو چیز یںنھیں ھیں ”معنی حرفی“، ”معنی اسمی“ کی کیفیت و خصوصیت پر دلالت کرتاھے، پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین(ع) سے حاجت طلب کرنا عین خداوند منان سے حاجت طلب کرنا ھے اور عین توحید ھے۔
فلسفہٴ متعالیہ و حکمت اسلام میں، کثرت میں وحدت کا وجود، اور وحدت ذات حق میں کثرت کا وجود ثابت شدہ چیزھے، جس طرح خداوند تبارک و تعالیٰ کانام ”احدیت“ ھے جو تمام اسماء و تعینات اور ھر اسم و رسم سے منزہ و پاک ھے اور وہ احدیت ھے جسکی ذات بسیط و صرف ھے، جو کہ ھر طرح کے تعلقات اور مفھوم کے انطباق سے عاری ھونے پر دلالت کرتی ھے، اسی طرح خداوند تبارک و تعالی کا نام ” واحدیت“ بھی ھے کہ اس کے ظھور و طلوع ھونے کے لحاظ سے، عالم میں اسما اور صفات کلیہ و جزئیہ ، اور ساری کائنات ملک سے لیکر ملکوت تک کی خلقت کا ملاحظہ کیا گیا ھے۔
وھابی حضرات کہتے ھیں: خداوند عالم نے کائنات کو بغیر کسی واسطے کے پیدا کیا ھے اور عِلَّوی موجودات، آسمانی فرشتے، ارواح مجردہ قدسیہ، خلقت عالم میں کوئی تاثیر نھیں رکھتے، اور ان میںکسی طرح کا واسطہ نھیں پایا جاتا ، اس بنا پر رسول اللہ(ص) یا ائمہ معصومین(ع) کی روح سے مدد طلب کرنا، ملائکہ بلکہ خدا کے مقرب ملائکہ سے بھی مدد طلب کرنا شرک ھے۔
وھابیوں کے اس اعتراض کاھم جواب دیتے ھیںکہ: کیا روحوں سے زندہ ھونے کی صورت میں مثلاً زندہ پیغمبر یا امام سے مدد طلب کرنا شرک نھیں ھے؟ ! کیا عالم و طبیب (ڈاکٹر) یا ماھر (اسپیشلسٹ) ڈاکٹر یا کاشتکار و صنعتکار سے مدد طلب کرنا شرک نھیں ھے؟!
اگر شرک ھے تو پھر کیوں مدد لیتے ھو؟ اس عالم کائنات میں ھر طرح کی مدد لینے سے ھاتھ کھینچ لو، تو پھر چند دنوں کے بعد سب کے سب مرجاوٴگے اور دیا رعدم ا ور وطن اصلی کو لوٹ جاوٴ۔
اور اگر شرک نھیں ھے تو پھر کیا فرق ھے زندہ پیغمبر(ص) اور اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کی روح سے مدد لینے میں،اور ایک طبیب و ڈاکٹرسے ، مثلاً ”اپنڈکس “(Appendix)کے آپریشن میں مدد لینے یا مثلاً جبرئیل سے مدد لینے میں کیا فرق ھے؟!
تو کھیں گے کہ وہ شرک نھیں ھے اور یہ شرک ھے! چونکہ ان کی روحیں دیکھی نھیں جاتیں اور پیکر جسمانی میں نھیں آتی اور خلاصہ یہ کہ اسباب طبیعی و مادی سے مدد لینا شرک نھیں ھے لیکن معنوی و روحانی اشیاء سے مدد لینا شرک ھے، کثیف اشیا سے مدد لینا شرک نھیں ھے اور نفوس عالیہ مجردہ قدسیہ سے مدد لینا شرک ھے؟!
ھم جواب میں کھیں گے: قاعدہٴ عقلیہ استثناء کو قبول نھیں کرتا ، اگر غیر خدا سے مدد لینا شرک ھے تو پھر ھر جگہ شرک ھے اور ھر جگہ غلط ھے، لہٰذا آپ کیسے دلیل عقلی کے ذریعہ توحید خدا کو ثابت کرتے ھیں جبکہ مادی و طبیعی امور میں استثنا کے قائل ھیں؟! کیا یہ بات مضحکہ خیز نھیںھے؟ ! یا خداوند متعال کے بارے میں علم و عرفان سے تھی دستی پر رونے کے قابل نھیں؟
وھابی کہتے ھیں: قبر معصوم کے اردگرد طواف کرنا شرک ھے ،ضریح مطھر، عتبات عالیہ کو بوسہ دینا شرک ھے، سید الشھداء کی مٹی پر سجدہ کرنا شرک ھے، قضاء حوائج کے لئے ائمہ اطھار (ع)و صدیقہٴ طاھرہ کو واسطہ قرار دینا شرک ھے۔
ھمارا جواب یہ ھے کہ: کیوں شرک ھے ؟ کیا فرق ھے حجر اسود اور ضریح کو بوسہ دینے میں؟ کیا فرق ھے اس گھر میں جس کو حضرت ابراھیم(ع) نے بنایا اور اس مرقد مطھر میں جو آیت کبریٰ الہٰی اور صاحب مقام اَو اَدنیٰ و صاحب شفاعت کبریٰ اورحامل لواء حمد ھے، خانہ کعبہ کا طواف کیوں جائز ھے؟ اور یھاں قبر مطھر کا طواف جو کہ اھمیت کا حامل ھے جائز نھیں؟ [31]
”شرح قاموس اللغہ مادہ طَوف “میں ھے کہ طوف یعنی پاخانہ کرنا ، طاف َ یعنی اس نے پاخانہ کیا، ”مجمع البحرین“ میں اس طرح ھے کہ ”والطَوف : الغائط یعنی طوف کے معنی پاخانہ کرنے کے ھیں جیسا کہ روایت میں بھی وارد ھواھے :
”لَا یُصَلِّ اَحَدُکُمْ وَہَوَ یُدْافِعُ الطَّوْفَ “ یعنی جس کو پاخانہ تیز لگاھوا ھو نماز نہ پڑھیں،یعنی (اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ھے ) او ردوسری حدیث میں اس طرح وارد ھوا ھے : ”لَاتَبُلْ فِی مَاءٍ مُسْتَنْقَعَ وَلَاتَطُفْ بِقَبْرٍ‘ ‘ جمع شدہ پانی میں پیشاب نہ کرو اور قبروں پر پاخانہ نہ کرو،اگر آپ حضرات دقت سے کام لیں تو واضح ھوجائے گاکہ اس روایت سے مراد پاخانہ کرنا ھے ، لہٰذا قبروں کا طواف کرنے میں کوئی اشکال نھیں ھے ۔
کیوں زمین و خاک اور ھر چیز پر سجدہ کرنا جائز ھے؟ لیکن مخصوصاًسید الشھدا ء امام حسین (ع) جوحق و شریعت کے لئے شھید ھوگئے ان کی قبر کی مٹی پر سجدہ جائز نھیں؟! اگرکسی چیز پر سجدہ کرنا شرک ھے تو کیوں فرش و قالین ، چٹائی ، زمین پر جائز ھے، لیکن یھاں حرام ھے؟ عجیب بات ھے وھاں توحید ھے اور یھاں شرک ھوگیا؟
اگر کسی زندہ شخص سے مدد طلب کرتے ھیں تو اس کی روح سے کرتے ھیں کیونکہ روح اصل ھے ، اس کے بدن سے مدد طلب نھیںکرتے ! اس صورت میں نفوس خبیثہ ، کافرہ جو کہ اس دنیا میں ھیں ان سے مدد لینا شرک نھیں؟ اور صدیقہٴ طاھرہ کی روح پاک سے مدد لینا شرک ھے؟ (واہ سبحان اللہ)
یہ ایسے سوالات ھیں جن کا وھابیوں نے کبھی جواب نھیں دیا اور نہ دے سکتے ھیں، ھاں مگر اس کا جواب دیا جاسکتا ھے: اگر مدد لینا بعنوان استقلال ھو تو شرک ھے، چاھے وہ خانہٴ کعبہ کا طواف ھو،یا حجر اسود کا بوسہ لینا ، فرش و معمولی زمین پر سجدہ کرنا ھو، طبیب و ڈاکٹرکو واسطہ قرار دینا ھو، سب کا سب شرک ھے لیکن اگر بعنوان استقلال نہ ھو تو کوئی چیز شرک نھیں ھے بلکہ نفس توحید و عین توحید ھے، کیا اس کائنات کی موجودات کو استقلال کی رو سے دیکھنا شرک نھیں ھے؟ لہٰذاوھابی حضرات خداوند متعال کی اتنی تنزیہ و تقدیس کرتے ھیں کہ خود اندھے ھوکر شرک کے دامن میں پھنس جاتے ھیں، ”وَ مِمَّن یَعبُدُ اللّٰہَ عَلَی حَرفٍ“ یعنی خدا کو فقط ایک زاویہ سے دیکھتے اور فکر کرتے ھیں، اور اس کی قدرت و عظمت کو فقط بعض چیزوں میں جانتے ھیں نہ یہ کہ ھر چیز اور ھر جگہ میں۔
قرآن مجید میں بعنوان آیت وخدا کی نشانی عین توحیدھے ،بلحاظ امامت امام کو بوسہ دینا چومنا،عین خدا کا احترام ھے، ارواح مقدسہ سے حاجت طلب کرنا جومعنویت و روحانیت اور مقرب بارگاہ خداوندعالم ھیں، کے عنوان سے عین توحید ھے خدا کے محبوب بندوں سے محبت کرنا، خدا سے محبت کرنا ھے، یہ تھی عقلی دلیل۔
اور دلیل نقلی(قرآن وسنت) کے لحاظ سے ھم کہتے ھیں : کہ اس سلسلہ میں آیات و روایات بھری پڑی ھیں کہ بہت سی موجودات، وجود و ایجاد میں وسیلہ ھیں اور خلقت اسباب کے ذریعہ وقوع پذیر ھوتی ھے اوراگرکوئی عالم تکوینی میں واسطہ کا انکارکرے گویا اس نے کتاب و سنت کا انکارکیا ھے،کیا ھم قرآن کریم میں نھیں پڑھتے: ”وَ المُدَبِّرَاتُ اَمْراً“ [32]”قسم ان فرشتوں کی جو تدبیر امور کرتے ھیں“
”واَرْسَلنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِح “ [33]” اور ھم نے ھواوٴں کو بھیجا تا کہ درختوں کو پھل کے لئے آمادہ کرے“
(ھوا کے ذریعہ نر درختوں سے مادہ درختوں میں ایک مادہ منتقل ھوتا ھے اس کو عربی میں تلقیح کہتے ھیں، درخت مادہ اس کے بعد پھل دیتا ھے)
”وَاللّٰہُ الَّذِی اٴَرْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُثِیرَ سَحَاباً فَسُقْنَاہُ اِلیٰ بَلَدٍ مَیِّتٍ فَاٴَحْیَینَا بِہِ الاٴرضَ بَعْدَ مَوْتِہَا کَذَلِکَ النُّشُوْرُ“[34]
اور خدا وہ ھے جس نے ھوا کو بھیجا تا کہ بادلوں کو حرکت دیں اس طرح ھم ان بادلوں کو مردہ زمین (بے آب و علف) کی طرف لے جاتے ھیں تا کہ ان بادلوں کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کریں، اسی طرح مردہ لوگوں کا نشور بھی ھے۔
”وَ ہُوَ الَّذِی اٴنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴخرَجنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَئیٍ“(۱)
اور وہ (وہ)ھے جو پانی کو آسمان سے نیچے لاتا ھے تاکہ ھم اس کے وسیلہ سے، ھر اُگنے والی چیز کو آگائیں۔
ان آیات میں کیسے فرشتوں کے ذریعے تدبیر امور کو مانتے ھیں اور بارش کو مختلف جگھوں پر بادلوں کی حرکت کے سبب، اور درختوں کا ھوا کے توسط سے پھلدار ھونا، اور ھر اُگنے والی چیز کا اُگنا آسمان سے بارش ھونے کے ذریعہ مانتے ھیں۔
اس کے علاوہ دیگر آیات بھی ھیں جن میں واضح طور پر تکوینی اسباب کا تذکرہ موجودھے اس بنا پر ھم کیسے سببیت کا انکار کرسکتے ھیں؟ جبکہ یہ آیات صریحاً اس بات کو ثابت کرتی ھیں،لہٰذا عالم کائنات میں سببیت کا انکار عقلاً و نقلاً محال ھے، عالم کائنات میں سببیت و مسببیت پائی جاتی ھے اور ھر چیز اپنے خاص سبب کے ذریعہ وجود میںآتی ھے، سبب و علت ا ور واسطہ کی نفی کرنا، قانون علیت و عالم میں قانون علیت کے انکار کے مساوی ھے یعنی بدیھیات کا انکار ، اور بدیھیات کا انکار مریض ، پاگل ، دیوانہ او رمجنون کے علاوہ کوئی نھیں کرسکتا۔!
ھاں یہ کھنا چاھیئے: تمام کے تمام اسباب خدا کے مقھور و مامور ھیں ان میںذرہ برابر بھی استقلال نھیں پایا جاتاھے بلکہ خداوند متعال کے کار ندہ ھیں”لِلّٰہِ جُنُودُ السَّمٰاوٰاتِ وَالاٴرضِ“ ھم بھی ان اسباب کے بارے میں یھی کہتے ھیں: کہ استقلال نھیں رکھتے بلکہ خدا کی جانب سے فیض لیکر کائنات کو فیضیاب کرتے ھیںان میں ھرایک شفیع و شافع و واسطہ کے عنوان سے ھیں۔
وہ کہتے ھیں: انبیا و ائمہ کی ارواح سے مدد طلب کرنا ،مردہ روحوںسے مدد طلب کرنا ھے، اور یہ ایک طرح سے مردہ گرائی ھے اور بت پرستی ھے کہ انسان مردوں سے، حاجت طلب کرے اور اس کو خدا کے نزدیک شفیع قرار دے، کیا فرق ھے بتوں سے حاجت طلب کرنے میں یا بے جان موجود سے حاجت طلب کرنے میں؟
ھم اس کا جواب یہ دیتے ھیں: آیات قرآن اور عقلی دلیلوں سے یہ بات ثابت ھے کہ انسان کی روح اس کے مرنے سے نھیںمرتی، بلکہ زندہ رہتی ھے اور چونکہ ”تجرد نفس“ معدوم محض نھیں ھوسکتا، اور موت کا معنی ھے دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ھوجانا، اور اس کے علاوہ کیا قرآن شھدا کے بارے میں یہ ارشاد نھیں فرماتا: وہ لوگ زندہ ھیں اور خدا کے نزدیک رزق پاتے ھیں۔؟
”وَ لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ اٴموَاتاً بَلْ اٴحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرزَقُونَ“ [35]
”اور ھرگز یہ گمان مت کرو کہ جو لوگ راہ خدا میں قتل کر دیئے گئے ھیں وہ مردہ ھیں بلکہ وہ لوگ زندہ ھیںاور اپنے پروردگار کے پاس رزق پاتے ھیں“
وھابی کہتے ھیں: یہ آیت شھدا ء احد جیسے جناب حمزہ اور ان کے علاوہ دیگر شھدا سے مخصوص ھے ، تو اس کا جواب یہ ھے کہ: کیا جناب حمزہ اور دیگر شھدا ء رسول اللہ(ص) کی نبوت کے زیر سایہ نہ تھے؟ کیا جناب حمزہ کا مقام رسول اللہ(ص)کے مقام سے بالاتر ھے؟ کہ وہ زندہ ھیں اور رسول اللہ(ص) (معاذ اللہ) اس دنیا سے رحلت کے بعد مردہ ھیں؟
نھیں! ایسا نھیں ھے بلکہ رسول اللہ(ص) تو شھیدالشھدا ھیں یعنی شھدا ء پر گواہ ھیں اور انبیا ء کی روحوں کے موٴکل ھیں۔
ھم تمام نمازوں میں پیغمبر اکرم(ص) پر درود و سلام بھیجتے ھیں: اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہُ:(اے نبی گرامی آپ پر خدا کا سلام ھو! اورآپ پر اس کی رحمت و برکت ھو!)اس خطاب کا مخاطب ، کیا ٰزندہ و سامع شخص کے علاوہ کوئی اور ھوسکتا ھے؟ [36]

توسل کے بارے میں ایک جد وجھد
وھابیوں نے جن چیزوں کو بہت زیادہ اچھالا اور اس پر بہت زیادہ اعتراضات کئے ھیں، ان میں سے ایک توسل ھے جس کو کہتے ھیں کہ توحید کے عقیدے سے منافات رکھتا ھے وہ اپنی تحریروں کے ذریعہ شیعوں کے خلاف ھمیشہ زھر اگلتے رہتے ھیں اور تبلیغ کرتے ھیں ، کہتے ھیں:چونکہ شیعہ توسل کے قائل ھیں اس لئے مشرک اور دین سے خارج ھیں اور ان کی توحید حقیقی توحید نھیں ھے۔
ان کے ناقص نظریہ کے مطابق توسل کا عقیدہ توحید کے عقیدے سے منافات رکھتا ھے، حقیقت میں اس استعماری مذھب کی یہ ایک کج فکری اور گمراھی ھے، ورنہ ھر صاحب بصیرت و آگاہ شخص جو قرآن و شیعہ و سنی روایات سے واقفیت رکھتا ھے بخوبی جانتا ھے کہ توسل نہ صرف توحید سے منافات رکھتا ھے بلکہ توسل توحید کا بنیادی راستہ ھے جس کی طرف قرآن کریم نے خود ”دعوتِ ارشادی“ کیا ھے ھم وھابیوں کے اس جھوٹے دعوے کو باطل کرنے کے لئے ضروری سمجھتے ھیں کہ توسل کے بارے میں ایک جامع بحث و گفتگو کریں تاکہ حق وباطل اور سچائی و جھوٹ میں فرق واضح ھو جائے۔!

لغت میں توسل کے معنی
”توسل“ یعنی کسی چیز سے نزدیک ھونے کے لئے وسیلہ تلاش کرنا ، جیسا کہ ماھرین لغت فرماتے ھیں
:تَوَسَّلَ اِلَیہِ بِوَسِیلَةٍ:اِذَا تَقَرَّبَ اِلَیہِ بِعَمَلٍ تَوَسَّلَ اِلَی اللّٰہِ بِعَمَلٍ اَو وَسِیلَةٍ: عَمِلَ عَمَلاً تَقَرَّبَ بِہِ اِلَیہِ تَعَالٰی،
(اس کی طرف وسیلہ کے ذریعہ متوسل ھوا: جب اللہ سے کسی عمل کے ذریعہ قربت حاصل کی تو اس نے کسی عمل یا وسیلہ کے سھارے اللہ سے توسل کیا: یعنی اس نے ایسا عمل انجام دیا کہ اس کے ذریعہ اللہ سے قریب ھوگیا)
لغت میں”وسیلہ“ کے مختلف معنی بیان کئے گئے ھیں:
۱(ع) نزدیک ھونا ۔
۲(ع) بادشاہ کے نزدیک مقام و منزلت۔
۳(ع) درجہ ۔
۴(ع) میل و رغبت کے ساتھ کسی چیز تک پھونچنے کے لئے چارہ جوئی کرنا۔
۵(ع) ھر وہ چیز جس کے ذریعہ دوسرے سے نزدیک ھونا ممکن ھو۔ [37]

توسل فطرت و طبیعت کی نگاہ سے
اس میں کوئی شک نھیں کہ انسان اپنے مورد نیاز معنوی و مادی کمالات کو حاصل کرنے کا محتاج ھے، زمین و آسمان سے لیکر ہزاروں جمادات و نباتات انسان و حیوان درکار ھوتے ھیں تاکہ انسان اس کائنات کے آثار و خواص وجودی کے ذریعہ اپنے نقائص و کمیوں کو دور کرے اور کچھ کمالات مادی و معنوی کو حاصل کرے۔
یھی قاعدہ تمام موجودات کے لئے جاری و ساری ھے، یعنی ھر ایک موجود ایک طرح سے دوسرے موجودات کی طرف دست نیاز دراز کئے ھوئے ھیں اور فعل و انفعال اور تاثیر و تاثر میں ایک دوسرے کے محتاج ھیں۔
اور یہ وھی قانون ”توسل“ ھے جو ایک تکوینی حقیقت اور مسلّم طبیعت ھے کہ خلقتِ نظام عالم اور عالم انسانیت میں برقرار اور ھر جگہ مشھود و عیاں ھے۔
اور کوئی با شعور انسان چاھے اس کا شعور مادی ھو یا الہٰی اس قانون کو جاری کرنے میں کسی طرح کی تردید محسوس نھیں کرتا اور موجودات کے تاثیر کا منکر نھیں ھے۔
جبکہ ھم لوگ جانتے ھیں کہ: پیاسا انسان ٹھنڈا پانی پینے سے سیراب ھو جاتا ھے اوردوا بیمار کے لئے شفابخش ھوتی ھے اور زھریلی چیزیں سالم افراد کی جان خطرے میں ڈال سکتی ھیں، اور اسی طرح جاھل افراد استاد کی تعلیم سے عالم بن جاتے ھیں اور فقیر مالدار کی بخشش سے غنی ھوجاتے ھیں برسات میں بادل پانی برساتا ھے اور وہ پانی زمین کو سر سبز کرتا ھے جانور سبزہ زار سے اپنے پیٹ بھرتے ھیں اور جانور خود حیات انسانی کی بقا کے سبب بنتے ھیں۔
اور اسی طرح کائنات کی تمام چیزیں سلسلے وار ایک دوسرے کے لئے موٴثر اور ایک دوسرے سے متاثر ھیں یھاںتک کہ مادی انسان تمام اشیا ء و خواصِ موجودات کو ایک دوسرے کے لئے معلول طبیعت جانتا ھے ،لیکن ایک مسلمان تمام اشیاء کی طبیعت و اجسام کی ترکیب کائنات کے نظم و نسق میں خدائے علیم و حکیم کو مستند و اصل جانتا ھے ایک ایسی تدبیر جو کہ :

چشمہ از سنگ برون آرد و باران از میغ
انگبین از مگس نحل و در از دریا بار

پاک و بی عیب خدائی کہ بہ تقدیر عزیز
ماہ و خورشید مسخر کند و لیل و نھار

پادشاھی نہ بدستور کند یا گنجور
نقشبندی نہ بہ شنگرف کند یا زنگار

بھر حال کائنات میں موجودہ نظام اور قوانین حاکم (توسل) اور قانون (تسبب) ھیں یعنی اس کا مطلب یہ ھے کہ ھر کمال اور خواہش کو پورا ھونے کے لئے، اصل طبیعت کے قانون سے، وسیلہ کے دائرہ میں ھے اور سبب کو حاصل کرنے پر موقوف ھے۔ [38]

توسل قرآن کی نظر میں
قرآن مجید انسانی فطرت کے مطابق نازل ھوا ھے،اسی وجہ سے (توسل) کے موضوع کو ھدف اور توحید تک پھنچنے کے لئے ایک مسلم راستے کے عنوان سے تعارف کرایا ھے۔
اس لئے اصل توسل کا انکار حقیقت میں عالم طبیعت کے اصل اصول کے انکار کرنے کے برابر ھے اور قوانین فطرت کو نادیدہ شمار کرنا ھے۔
( قُرب خدا)عبودیت و بندگی کی راہ میں انسان کے لئے قرب خدا ایک عالی ترین اور شریف ترین کمال ھے جس کی قرآن نے نشان دھی کی ھے ،ارشاد ھوتا ھے:
”یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوا اِلَیہِ الوَ سِیْلَةَ وَ جَاھِدُوا فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ“ [39]
اے ایمان لانے والو! تقوی الہٰی اختیار کرو اور اللہ تک پھنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں جھاد کرو شاید تم نجات پا جاوٴ۔
اور اسی طرح دوسری جگہ ارشادھوتا ھے:
قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِہِ فَلَایَملِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنکُم وَ لَا تَحْوِیلاً اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّہِمُ الوَسِیلَةَ اَیُّھُم اَقْرَبُ وَ یَرجُونَ رَحْمَتَہُ وَ یَخَافُونَ عَذَابَہُ اِنَّ عَذَاْبَ رَبِّکَ کَانَ مَحذُوراً ۔ [40]
”یہ لوگ جن کی مشرکین(اپنا خدا سمجھ کر) عبادت کرتے ھیں ،وہ خود اپنے پروردگار کی قُربت کے ذریعہ ڈھونڈتے پھر تے ھیں کہ (دیکھیں) ان میں سے کو ن زیادہ قربت رکھتا ھے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ھیں، ا س میں کوئی شک نھیں کہ تیرے پروردگار کا عذا ب ڈرنے کی چیز ھے“۔
یہ آیات شریفہ اس بات کی نشاندھی کرتی ھیں کہ تمام موجودات ، فرشتے اور پیامبران یا دوسری مخلوقات اللہ کے علاوہ سب کے سب اس سے کسب فیض (وسیلہ کی تلاش) کرتے ھیں، چاھے وہ اضطراری حالت میں ھو یا اختیاری حالت میں ، ھر طرح سے اس کی رحمت سے قریب اور عذاب کو دو رکرنے میں وسیلہ کی تلاش کرتے ھیں، تاکہ اس سے اور زیادہ قریب ھو جائیں :
”یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّہِمُ الوَسِیلَةَ اَیُّہُم اَقرَبُ“
رسول اللہ(ص) سے روایت کی گئی ھے کہ:آنحضرت(ص) نے فرمایا:
”اِسْئَلُُوا اللّٰہَ لِی بِالوَسِیلَةِ فَاِنَّہَا دَرَجَةٌ فِی الجَنَّةِ لاَیَنَالُہَا اِلاّٰ عَبدٌ وَ احِدٌ اَرجُو اَن اَکُونَ اَنَا ہُوَ“
میرے لئے اللہ سے وسیلہ کی دعا کرو کیونکہ جنت میں وسیلہ ایک ایسا درجہ ھے جو ایک بندہ کے علاوہ کسی کو نھیں مل سکتا میں امید کرتا ھوں کہ وہ ایک بندہ میں ھوں۔
اسی طرح رسول اللہ(ص) سے اذان سننے کے وقت کی دعا میںنقل ھوا ھے: ”۔۔۔ آتِ مُحَمَّداً الوَسِیلَةَ۔۔۔۔“ اے اللہ رسول اللہ(ص) کو درجہٴ وسیلہ پر فائز کر۔
حضرت امیر المومنین(ع) رسول اسلام(ص) کے لئے دعا کرتے وقت یہ فرماتے ھیں :”وَشَرِّفْ عِندَکَ مَنزِلَتَہُ وَ آتِہِ الوَسِیلَةَ۔۔۔“ اے خدا اپنے نزدیک رسول اسلام(ص) کی منزلت کو بزرگ قرار دے اور ان کو درجہٴ وسیلہ سے سرفراز فرما۔۔۔
غرض یہ کہ تمام کائنات یھاں تک کہ اشرف موجودات میں سے خود رسول اعظم(ص) ھیں وہ بھی خدا سے تقرب حاصل کرنے میں ”ابتغاء وسیلہ“ یعنی وسیلہ تلاش کرتے ھیں یہ اور بات ھے کہ آنحضرت(ص) کا وسیلہ دیگر ممکنات جھان کے وسیلہ سے بہت مختلف ھے اوروہ وسیلہ ھماری سعی اور کوشش سے بڑھ کر ھے۔
اسی لئے تمام موجودات جھان اپنے حدود کے دائرے میں رہ کر سب کے سب ایک دوسرے کے محتاج ھیں جیسا کہ خود قرآن کریم نے ارشاد فرمایا: ” یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّہِمُ الوَسِیلَةَ“یعنی وسیلہ کی تلاش میںر ھیں تاکہ اپنے پروردگار کا قرب حاصل کریں ، ھاں بس اسی لئے ھے کہ کائنات میں کوئی بھی موجود یہ صلاحیت نھیں رکھتاکہ رب حقیقی بن سکے یا مستقلاً مشکلات کو رفع کرسکے یامستقل طور پر کسی کو فیضیاب کرسکے۔
جبکہ معبودیت اور استقلال رحمت کے افاضہ کے لئے ، حکم عقل کے مطابق، قدرت مستقلہ اور موجود کے خصائص کی شان ”قائم بذات“ ھے اور وہ بھی ذات اقدس حضرت ”حق “ جل شانہ میں منحصر ھے اور بس۔
اور تمام موجودات جو کہ بذات خود فاقد ھستی و کمالات ھیں ضروری ھے کہ مبداٴ ھستی و منبع کمال سے ”ابتغاء وسیلہ“ کی راہ پر گامزن رھکر طلب فیض کریں ”اِتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوا اِلَیہِ الْوَسِیلَةَ“۔
اور جیسا کہ ھم نے کھا کہ لغت میں ”وسیلہ“ کے مختلف معانی بیان کئے گئے ھیں ان میں مناسب ترین معنی گذشتہ دو آیات ( آیت ۳۵ سورہٴ مائدہ و آیت ۷۵ سورہٴ اسراء )میں سیاق کلام کے لحاظ سے وہ وھی پانچواں معنی ھے، یعنی ”ھر وہ چیز جس کے ذریعہ دوسرے سے نزدیک ھوا جاسکے“
مخصوصاً پھلی آیت میں کہ اولاً حکم ”ابتغاء وسیلہ“ کے بعد، راہ خدا میں جھاد کا حکم دیا گیا ھے اور ثانیاً ”تقویٰ“ و ”ابتغاء وسیلہ“ اور ”جھاد“ کے نتیجہ کو ”فلاح“ و کامیابی ، جملہٴ ”لعلکم تفلحون“ کے ذریعہ بیان کیا جا رھا ھے۔
اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ فلاح و کامیابی ،وھی خدا کے قرب کا پا جانا ھے اور چونکہ ”مقصد“ اور ”نتیجہ“ میں مغایرت ھونی چاھیئے ضروری ھے کہ ”وسیلہ“ ایسی چیز ھوکہ آدمی کے لئے ممکن ھوسکے کہ اس کے ذریعہ ”قرب خدا“ و ”منزلت“ اور اس ”درجہ“ تک رسائی ھوسکے اور وہ وھی ”فلاح“ اور کامیابی ھے جو اس تک پھونچ سکے۔
اور اسی طرح جھاد کا حکم حقیقت میں اس کے درپے وسیلہ کا حکم ھے (چاھے جھاد کو کفار کے ساتھ قتال کے معنی میں لیں، یا مطلقاً راہ خدا میں کوشش و سعی کے معنی میں لیں) پھر بھی وسیلہ اس کے اھم مصداق میں سے ھے اور چونکہ یہ مسلّم ھے کہ خود ”جھاد“ قرب خدا کے لئے عینی و خارجی تحقق نھیں ھے بلکہ ”قرب“ کے لئے ایک سبب و مقدمہ ھے تو پھر اس کا مطلب یہ ھوا کہ ”وسیلہ“ اس مذکورہ آیت میں ”قرب“ و”درجہ“ اور ”منزلت“ و ”چارہ جوئی“ جو کہ وسیلہ کے لغوی معنی ھیں، نھیں ھے۔
بلکہ صحیح و مناسب معنی اس آیہٴ شریفہ کا وھی ھے جو پانچواںمعنی بیان کیا گیا ھے یعنی ”ھر وہ چیز جس کے ذریعہ خدا تک رسائی ھوسکے"
اور اس وجہ سے بھی کہ کلمہٴ ”وسیلہ“ آیہٴ شریفہ میں مطلق اور کسی قید و تقیید کے بغیر آیا ھے اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ اس کے معنی میں وسعت و گستردگی ھے اور ھر طرح کا اعتقاد و عمل اور ھر چیز و ھر شخص جو کہ خدا سے ”قرب“ کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں، اطلاق ھوتا ھے، بطور مثال، ایمان ، پروردگار کی وحدانیت کا اعتقاد اور پیغمبروں کی رسالت کا اعتقاد و ایمان ،اور اسی طرح رسول اسلام(ص) کی پیروی و اطاعت ، واجبات کا انجام دینا مثلاً نماز، روزہ، حج، زکات و جھاد اور نادان لوگوں کو صلہٴ رحم کی ھدایت کرنا ، مریض کی عیادت کرنا وغیرہ نیک اور خداپسند اعمال یہ تمام کے تمام قرب خدا کے وسائل و اسباب ھیں۔
جیسا کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
”اِنَّ اَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِہِ المُتَوَسِّلُونَ اِلٰی اللّٰہِ سُبْحَانَہُ ، اَلاِیمَانُ بِہِ وَ بِرَسُولِہِ وَ الجِہَادُ فِی سَبِیْلِہِ… وَ کَلِمَةُ الاِخْلاَصِ …وَ اِقَامِ الصَّلوةِ …وَ اِیتَاءِ الزَّکَوةِ …وَ صَوْمِ شَھرِ رَمَضَان…َ وَ حَجُّ البَیتِ وَ اِعتِمَارُہ ُ…وَ صِلَةُ الرَّحم…ِ وَ صَدَقَةُ السِّرِّ وَصَدَقَةُ العَلَانِیَّةِ …وَ صَنَائِعُ المَعرُوفِ“
بیشک وسیلہ تلاش کرنے والوں کے لئے بہترین وسیلہ خدا تک رسائی کی خاطر ، اللہ پر ایمان اور اس کے رسول پر ایمان اور اس کی راہ میں جھاد، کلمہٴ اخلاص، اقامہٴ نماز، اداء زکات، رمضان المبارک کا روزہ، حج بیت اللہ اور عمرہ، صلہٴ رحم ، اللہ کی راہ میں مخفی اور علناً طریقے سے صدقہ دینا، اور دیگرنیک اور خداپسند اعمال سب کے سب خدا تک پھونچنے کے وسیلہ ھیں۔
اور اسی طرح انبیاء کی ذوات مقدسہ، اولیا خدا و مقربین بارگاہ خداوندی، ان کی معرفت اور ان لوگوں سے محبت کرنا، دعا و شفاعت طلب کرنا ان کے ذریعہ تقرب تلاش کرنا، یا ان سے منسوب چیزوں کی تجلیل کرنا، کسی بھی طریقے سے کیوں نہ ھو، مراقد مطھرہ کی زیارت کرنا اور ان کی قبور شریفہ جو کہ مسلّم مصداق ”تعظیم شعائر اللہ“ ھے اور بندگان خدا سے محبت و مودت کی روشن ترین دلیل اور ھادیان راہ حق کی تعالیم و مکتب کو عظمت دینے کے برابر ھے۔
روشن ھے کہ یہ تمام مذکورہ چیزیں کلمہٴ ”وسیلہ“ کے ”اطلاق“ کے لحاظ سے سب کی سب اس وسیع و عام مفھوم میں داخل ھیں،یعنی ان تمام امور پر، یہ عنوان صدق آتا ھے ”مَا یَتَقَرَّبُ بِہِ اِلٰی اللّٰہِ“ یعنی جس کے ذریعہ اللہ سے قریب ھوا جاسکے اور اس کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرسکیں۔
اس بنا پر کوئی ھمارے پاس دلیل یا سبب نھیں ھے کہ کلمہٴ وسیلہ کے ”اطلاق“ سے چشم پوشی کریں اور اس کے مفھوم کو ایک یا چند مفھوم کے لئے مخصوص کریں جیسا کہ ”ابن تیمیہ“ اور اس کے پیروکار ”وھابیوں“ نے بغیر کسی دلیل کے تقیید و تخصیص کی ھے۔
۱) رسول خدا(ص) پر ایمان اور آنحضرت(ص) کی پیروی ۔
۲) پیامبر اکرم(ص) کا دعا و شفاعت کرنا وہ بھی فقط دنیوی زندگی کے دوران اور روز قیامت میں۔
اور کبھی اس آیت کی تفسیر واجبات اور مستحبات کے لئے کرتے ھیں،اطلاق کے علاوہ آیہٴ شریفہ جیسا کہ ھر طرح کی تقیید سے خالی ھے اسلامی احادیث (چاھے شیعہ حضرات کے ذریعہ حدیث نقل ھوئی ھو یا اھل سنت کے ذریعہ) توسل کے عنوان پر روایات بہت زیادہ ھیںجو کمال ِوضاحت کے ساتھ وھی عام وسیع معنی کوثابت کرتی ھیں اور خدا سے تقرب جوئی و منبع و مرکز فیض سے اخذ برکات، صلحاء و مقربین بارگاہ خداوندی سے استغاثہ و استمداد چاھے کسی بھی حالت میں ھو، چاھے کسی بھی عنوان سے ھو، تائید اور تصدیق کرتی ھیں [41] بحث طولانی ھونے کی وجہ سے ھم یھاں پر ان روایات کو ذکر کرنا نھیں چاہتے، اس سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو کتب روائی اور کتب سیرت و کتب تاریخ اھل سنت اور اسی طرح کتاب ”وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ“ نوشتہٴ سمھودی کے مطالعہ کی دعوت دیتے ھیں۔

شفاعت وھابیوں کی نظر میں
وھابیوں نے جس کے بارے میں بہت زیادہ شور و غل مچایا اورجسے تکفیر و تفسیق کی دلیل قرار دیتے ھیں ان میں سے ایک مسئلہٴ شفاعت بھی ھے تقریباً محمد بن عبد الوھاب کی ”کشف الشبھات“ اسی مسئلہ کے متعلق، پوری کتاب گھما پھرا کر لکھا ھے جیسا کہ ھم پھلے بھی اس سے چند چیزیںنقل کر چکے ھیں اور اسی طرح اس کے پوتے شیخ عبد الرحمٰن آل الشیخ نے جو کتاب ”التوحید“ لکھی اور اس کی شرح ”فتح المجید“ کے نام سے منتشر ھوئی ھے اسی مسئلہٴ شفاعت سے مخصوص ھے۔
ھماری نظر میں مسئلہٴ شفاعت جو کہ ”بحث ِقیامت “کی فروعات میں سے ھے بہت ھی وسیع و پیچیدہ مسئلہ ھے اس کے لئے ایک مستقل رسالہ اور الگ سے اس مسئلہ پر کتاب تالیف کی جائے تا کہ اس کے تمام نشیب و فراز اچھی طرح سے روشن ھو جائیں اور منکرین و مخالفین کے شبھات و اعتراضات کا جواب دیا جاسکے۔
اگر چہ پھلے ھم نے مسئلہٴ شفاعت ، درخواست مغفرت ، اولیاء خدا سے طلب حاجت اور اس کے مانند مسائل ، میں ابن تیمیہ کی آراء پر جرح و بحث و نقد کیا ھے لیکن چونکہ وھابیوں کی کتابوں میں (جیسا کہ ھم پھلے کہہ چکے ھیں) ان مسائل کے متعلق مختص ایک مستقل بحث پائی جاتی ھے اور یہ وھابیوں کے جنجالی ترین اور شوروغل والے مباحث و مسائل ھیں جن کو اصطلاح میں فرھنگی معرکہ اور آئیڈیا لوزی !! کا نام دیتے ھیں۔
اس لئے ھم بھی اختصار کا خیال رکھتے ھوئے اور اس کتاب کی مناسبت کو خاطر میں رکھتے ھوئے ضرورت کے مطابق خصوصاً مسئلہٴ شفاعت کے بارے میں بحث کریں گے اور مفصل و وسیع بحث و انشاء اللہ کسی اور فرصت کے وقت بیان کریں گے۔
پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے سے لیکر آج تک مسلمانوںکی تاریخ اور ان کی سیرت اس بات پر شاھد ھے کہ ھمیشہ اور ھر دور میں شفاعت حق اور صحیح رھی ھے اور ھمیشہ ھر حال میں، حیات و ممات کے بعد بھی مسلمان، اولیاء خدا و بندگان خدا سے شفاعت طلب کرتے رھے ھیں، کسی اسلامی دانشمنداور مفکر نے درخواست شفاعت کو اصولِ اسلام کے خلاف نھیں جانا ھے یھاں تک کہ آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ نے اس مسئلہ (شفاعت) کی مخالفت کی اور اس کے بعد محمد ابن عبد الوھاب نجدی ، جو کہ وھابیت کا بانی ھے، اس کی پیروی کی اور شفاعت کے خلاف علم بلند کیا۔
وھابیوں کا دوسرے اسلامی فرقوں سے ایک نقطہٴ پر اختلاف یہ بھی ھے کہ مسلمانان عالم نے شفاعت کو ایک اصل اسلامی کی حیثیت سے قبول کر لیا ھے ، وہ کہتے ھیں کہ قیامت کے دن گنھگاروںکے لئے شافعین حضرات شفاعت کریں گے اور پیغمبر اسلام(ص) کا شفاعت کرنے میں زیادہ حصہ ھے اور ساتھ ھی یہ بھی کہتے ھیں کہ ”ھم ھرگز یہ حق نھیں رکھتے کہ اس دنیا میں ان سے شفاعت طلب کریں“
اور اس بارے میں اتنے افراط سے کام لیا ھے کہ ھماری زبان ان کی باتوں کو نقل کرنے سے عاجز ھے، اور ھم نے اس کتاب کے مقدمہ اور بعض حاشیے پر جبراً و قھراً ان کی شرم آور باتوں کی طرف اشارہ کیا ھے، ان کے کلام کا خلاصہ یوں ھے کہ:
پیغمبر اسلام(ص) اور دوسرے پیامبران اور فرشتے و اولیا خدا قیامت کے دن ”حق شفاعت“ رکھتے ھیں لیکن ضروری ھے کہ شفاعت ”مالک شفاعت“ و ”اذن شفاعت دینے والے“ سے جو کہ خدا ھے، طلب کریں اور کھیں: ”پروردگارا ! پیغمبر(ص) اور دیگر صالح بندوں کو قیامت کے دن ھمارا شفیع قرار دے“ لیکن ھم کو کوئی حق نھیں پھونچتا کہ ھم کھیں: ”اے پیغمبر(ص) خدا ھم آپ(ص) سے اپنے حق میں شفاعت طلب کرتے ھیں“ چونکہ شفاعت ایسی چیز ھے کہ خدا کے علاوہ کوئی اس پر قادر نھیں ھے۔
وھابیوں نے پنجگانہ دلیلوں کے ذریعہ شافعین کی شفاعت کو ممنوع قرار دیا ھے، ھم ان کے دلائل پر تحقیق سے پھلے، شفاعت کو قرآن و سنت و عقل کے مطابق بحث کرتے ھیں پھر اس کے بعد ان کے دلائل پر تنقید اور جواب پیش کریں گے۔

اولیا ء خدا سے شفاعت کے جواز پر دلائل
اگر” حقیقت شفاعت“ کو گنھگاروں کے حق میں شفیع کی دعا جانیں،اور یھی ایک مستحسن و پسندیدہ امر ھے جیسے کسی برادر مومن سے درخواست دعا کرنا، اور پیغمبروں و اولیا ء خدا سے درخواست دعا کرنا، تو عقلی لحاظ سے اس میں کسی طرح کی کوئی حرمت و ممانعت نھیں دکھائی دیتی۔
اگر وھابی حضرات اپنے برادر مومن سے درخواست دعا کو جائز مانتے ھیں توان کو چاھیئے کہ زندہ شفیع سے درخواست شفاعت کو بغیر کسی پس و پیش کے جائز و صحیح مانیں، اور اگر زندہ انسان سے درخواست شفاعت کو جائز و صحیح نھیں مانتے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ وہ لوگ شفاعت کے معنی ”دعا“کے لیتے ھیں۔
اسلامی احادیث اور سیرت صحابہ ،درخواست شفاعت کو بہت ھی حسن اسلوب و روشن طریقے سے ثابت کرتی ھے کہ ھم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔
۱۔ انس بن مالک کہتے ھےں:
”سَاَلتُ النبَِّی(ص) اَن یَشفَعَ لِی یَومَ القِیَامَةِ فَقَالَ: اَنَا فَاعِلٌ فَقُلتُ فَاَینَ اَطلُبُکَ؟ فَقَالَ: عَلَی الصِّرَاطِ“
پیغمبر اسلام(ص) سے میں نے شفاعت کی درخواست کی کہ روز قیامت میری شفاعت فرمائیں گے تو رسول اسلام(ص) نے میری درخواست کو قبول فرمایا، انس نے ظرافت طبیعت کے ساتھ رسول اسلام(ص) سے درخواست شفاعت کی اور اس کی جگہ کے بارے میں سوال کیا ،رسول اسلام(ص) بھی فرماتے ھیں کہ ”صراط پر“ اور انس کے دل میں ھرگز یہ خطور بھی نھیں پیدا ھوا کہ یہ کام اصول ِتوحید کے خلاف ھے پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کی شفاعت قبول فرماتے ھیں اور اسے خوشخبری دیتے ھیں۔
۲۔ سواد بن قارب جو پیغمبر اسلام(ص) کے مدرگاروں میں سے تھے، اپنے اشعار کے ضمن میں رسول اسلام(ص) سے شفاعت طلب کرتے ھیں ، فرماتے ھیں:
وَ کُنْ لِیْ شَفِیْعاً یَوْمَ لَا ذُوْ شَفَاعَةٍ
بِمُغْنٍ فَتِیْلاً عَنْ سُوَادِ بِنْ قَارِبِ
”اے پیغمبر اسلام(ص) روز قیامت میر ی شفاعت فرمائےے جس دن شافعین کی شفاعت ذرہ برابر سوادبن قارب کے حق میں فائدہ مند نہ ھوگی“۔
وھابی حضرات ممکن ھے کھیں کہ: یہ تمام درخواستیں رسول اسلام(ص) کی حیات سے مربوط ھیں اور ان میں سے ایک بھی درخواست شفاعت رسول اسلام(ص) کے انتقال کے بعد نھیں ھے، لیکن اس کا جواب بھی واضح ھے ، جیسا کہ گذر چکا ھے، وھابی مطلقاً شفاعت کو حرام جانتے ھیں، موت و حیات معتبر نھیں ھے بلکہ معتبر لغو اور عدم لغو ھے۔
اسلامی احادیث سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ رسول اسلام(ص) کے اصحاب و مددگار رسول اسلام(ص) کی وفات کے بعدبھی ھمیشہ ان سے شفاعت کی درخواست کرتے رھے ھیں۔
۳۔ جس وقت حضرت امیر المومنین(ع) رسول اسلام(ص) کی تجھیز و تکفین سے فارغ ھوئے رسول اسلام(ص) کے چھرہٴ منور کو کھولا اور کھا:
بِاَبِی اَنتَ وَ اُمِّی (طِبتَ حَیّاً وَ طِبتَ مَیِّتاً )… اُذکُرنَا عِندَ رَبِّکَ۔
میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں (آپکی حیات و ممات طیب و طاھر رھی ) اپنے پروردگار کے پاس ھمار ا تذکرہ کریں۔
اب ھم خیال کرتے ھیں کہ سیرت اصحاب رسول کو ذکر کرنے سے درخواست شفاعت عملاً اسلام کی رو سے واضح ھوگئی ھوگی۔

وھابیوں کے اشکالات و اعتراضات کا خلاصہ
اب و ہ وقت پھونچ چکا ھے کہ جب ھم وھابیوں کے بعض دلائل جس کے ذریعہ درخواست شفاعت کو حرام قرار دیتے ھیں ان کی تحقیق اور ان پر نقد کریں ، وہ لوگ کچھ ایسے دلائل کا سھارا لیتے ھیں جو مندرجہ ذیل ھیں۔

درخواست شفاعت شرک ھے
وھابی حضرات کہتے ھیں : پیغمبران ا ور اولیا ء اللہ اس دنیا میںحق شفاعت نھیں رکھتے، بلکہ یہ حق صرف اور صرف انھیں آخرت میں حاصل ھے اور جو کوئی شخص بندگان خدا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے،تا کہ اس کے حق میں شفاعت کریں وہ مشرک ھے، وھابی کہتے ھیں کہ درخواست شفاعت کے وقت اس طرح کھیں: ”اَلّٰلھُمَّ اجْعَلنَا مِمَّن تَنَالُہُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ“ یعنی خدایا ھمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت نصیب ھوگی۔
وہ لوگ کہتے ھیں : ھمیں ھرگز یہ حق حاصل نھیں ھے کہ ھم کھیں: ”یَا مُحَمَّدُ اِشفَعْ لَنَا عِندَ اللّٰہِ“ اے محمد(ص) ! اللہ کے نزدیک ھمارے حق میں شفاعت کیجئے، وہ کہتے ھیں ، کہ یہ صحیح ھے کہ اللہ نے رسول اسلام(ص) کو حق شفاعت دیا ھے لیکن اللہ نے ھم کو اس کے مطالبہ سے منع فرمایا ھے بلکہ ھم شفاعت کو خدا سے طلب کریں جس نے رسول اسلام(ص) کو یہ حق دیا ھے۔

وھابیوں کو ھمارا جواب
ھم کہتے ھیں: ”توحید در عبادت “ ”شرک درعبادت“کے مقابلہ میں ھے کہ جوارکان توحید میں ایک اھم رکن ھے قرآن کریم میں اس کو بہت اھمیت دی گئی ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ کیا ھر طرح کی دعوت و طلب یا کسی چیز کی درخواست، عبادت اور پرستش ھے؟ یا یہ کہ عبادت و پرستش کا ایک خاص معنی ھے اور وہ دعوت و طلب، اورامور دنیا و آخرت میں کسی کے سامنے اظھار ذلت و خضوع کرنا اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ (متصرف بلامنازع) و بغیر چون چرا کے صاحب قدرت ھے یا دوسرے لفظوں میں یوںکھا جائے کہ اس کو خدا جانیں یا مرتبہٴ خدائی اس کے لئے قائل ھوں، چاھے بڑا خدا یا چھوٹا خدا ، حقیقی خدا یا مجازی خدا ، یا خدا اس موجود کو کہتے ھیں جو کائنات کا پروردگار اور اس کا مدبر ھے یا خلقت کے امور میں سے کسی شان کا مالک ھے بطور مثال مقام ”رزاقیت“ یا ”مغفرت“ یا ”شفاعت“کا مالک ھے اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ کسی سے کوئی چیز طلب کرے تو مسلّم ھے کہ اس نے اس کی پرستش کی ھے، اور یہ بات واضح ھے کہ شافعین حقیقی سے درخواست شفاعت اس طرح نھیں ھوتی، بلکہ اس اعتقاد و ایمان کے ساتھ ھوتی ھے کہ یہ لوگ اولیاء اللہ ھیںاور اس کی بارگاہ میں مقرب ترین بندے ھیں ،بارگاہ خداوندی میں ان کی دعا مستجاب ھوتی ھے دوسرے لفظوں میں یوں کھا جائے کہ خداوند کریم نے ان کو خاص شرائط کے تحت شفاعت کی اجازت دے رکھی ھے۔
اس مطلب کی وضاحت کے لئے قرآن کریم کی آیات واضح طور پر گواھی دیتی ھیں کہ قیامت کے دن حق و حقیقت کی گواھی دینے والے بندگان خدا شفاعت کریں گے، قرآن فرماتا ھے:
”وَ لاَیَملِکُ الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِہِ الشَّفَاعَةَ اِلّٰا مَن شَھِدَ بِالحَقِّ وَ ھُم یَعلَمُونَ“ [42]
”وہ لوگ جو غیر خدا کی پرستش کرتے ھیں انھیں شفاعت کا حق نھیں ھے ھاں مگر وہ لوگ جو کہ توحید خدا کی گواھی دیتے ھیں شفاعت کریں گے او راس کی حقیقت سے آگاہ ھیں “
لفظ ”الّا“حروف استثناء میں سے ھے وہ لوگ جو خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتے ھیں ان کے شفاعت کرنے پر روشن و واضح دلیل ھے۔
اب یھاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ھے :جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اولیاء کو حق شفاعت اور اجازہٴ شفاعت دیا ھے جو کوئی شخص بھی ان حضرات سے درخواست شفاعت کرے ، اگر درخواست کرنے والا شفاعت کے شرائط رکھتا ھے اور ان افراد میں سے ھو کہ اس کے حق میں شفاعت قبول کی جائے تو اس کی درخواست شفاعت قبول کی جائے گی ورنہ اس کی شفاعت ردّ کر دی جائے گی،بانی وھابیت کا یہ جملہ کتنا مضحکہ خیز ھے، وہ کہتا ھے کہ : ”خدا نے اپنے اولیاء کو حق شفاعت دیا ھے لیکن ھم کو اس کی درخواست سے منع فرمایا ھے۔
اولاً: ھم سوال کرتے ھیںکہ خداوند کریم نے قرآن کی کس آیت میں درخواست شفاعت سے منع فرمایا ھے؟ اگر اللہ نے ھمیں اس لئے روکا ھے کہ شافعین سے شفاعت طلب کرناشرک ھے تو ھرگز یہ درخواست پرستش اور عبادت کے مقابلہ میں نھیں ھے اور اگر کسی دوسری جہت سے ھے تو انشاء اللہ اس کے بعد ھم اس پر تحقیق کریں گے۔
ثانیاً: بذات خود یھاں قول و فعل میں تناقض پایا جارھا ھے اس لئے کہ اگر اللہ اپنے اولیاء کو یہ حق شفاعت دیا ، تو کس لئے ؟ تاکہ دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں، کیا یہ صحیح اور معقول ھے کہ جن لوگوں کو اس نے حق شفاعت دیا ھے ،تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں ان سے یہ کھا جائے کہ آپ کو درخواست شفاعت کرنے کا حق حاصل نھیں ھے، لہٰذایہ کھنا حکمت و رحمت اور عدل خداوندی کے خلاف ھے۔
مشرکین کا شرک بتوں سے شفاعت طلب کرنے کی وجہ سے تھا

وھابی حضرات کہتے ھیں:
مشرکین کا شرک اس وجہ سے تھا کہ وہ بتوں سے درخواست شفاعت کیا کرتے تھے ، ذیل کی آیت اس مطلب پر دلالت کرتی ھے:”وَ یَعبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّھُم وَ لاَ یَنفَعُھُم وَ یَقُولُونَ ھٰوٴُلاٰءِ شُفَعَاوُٴنَا عِندَ اللّٰہِ“ [43] ”وہ لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش کرتے ھیں نہ وہ انھیں نفع پھونچا سکتی ھے اور نہ نقصان اور کہتے ھیں کہ یہ اللہ کے نزدیک ھمارے شفیع ھیں“اس بنا پر غیر خدا سے ھر طرح کی درخواست ایک طرح کا شرک اور پرستش ھے۔

وھابیوں کو ھمارا جواب
اولاً: ”واو عاطفہ“ اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ مشرکین کی عبادت درخواست شفاعت کے علاوہ تھی ، اور اگر درخواست شفاعت ان لوگوں کی پرستش تھی تو لفظ واو یھاں پر زیادہ ھے۔
ثانیاً: کفارو مشرکین ”بتوں“ کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے او ران کو دنیاوی اور اخروی کاموں میں دخل وتصرف کا مالک جانتے تھے،لہٰذا اگر اس عقیدے کے تحت کسی سے شفاعت طلب کی جائے تو یہ واقعاً شفیع کی پرستش اور اس کی عبادت ھوگی، درحالیکہ ھم لوگ شافعین حضرات کو خدا کے مقرب بندے مانتے ھیں اور یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ یہ حضرات خدا کی اجازت کے بغیر کوئی کام نھیں کرتے، ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن ھے کہ ھماری ا س بحث کو مذکورہ آیت سے ربط دیا جائے۔

غیر خدا سے حاجت طلب کرنا حرام ھے
طلبِ شفاعت کی حرمت کے بارے میں وھابیوں کی تیسری دلیل یہ ھے کہ غیرخدا سے حاجت طلب کرنا حرام ھے ،جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے :
” فَلا تَدْعُوا مَعَ اللّٰہِ اَحَداً“ [44]
”خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو“
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے :
”اٴُدْعُونِیْ اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ “ [45]
”مجھے پکاروتاکہ تمھاری دعا قبول کروں“

وھابیوں کو ھمار جواب
مذکورہ آیات میں لفظ ”دعوت“ سے مراد حاجت طلب کرنا ،دعا وغیر دعا نھیں ھے بلکہ دعوت سے مراد غیر خدا کی پرستش اور عبادت ھے ھماری اس بات پر کلمہٴ ”مع اللہ“ گواہ ھے کہ جو دونوں مذکورہ آیات میں موجود ھے کیونکہ دوسری آیت کے ذیل میں اس طرح ھے ” إَنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ“ وہ لوگ جوھماری عبادت سے کنارہ کشی کرتے ھیں ، مذکورہ آیات کا مقصد صرف یہ ھے کہ ”غیر خدا“ کی عبادت نہ کریں، لیکن اگر گذشتہ آیات کے اس طرح وسیع معنی کریں کہ درخواست اور دعا کو بھی شامل ھوجائے ، اس وقت انسان کی درخواست اور دعا، اس قسم سے ھوگی جبکہ حاجت مند مدّمقابل کو خدا مانتے ھوئے اس سے حاجت طلب کرے۔

شفاعت خدا وندعالم سے مخصوص ھے
وھابی حضرات کہتے ھیں: قرآن مجید کی بعض آیات سے پتہ چلتا ھے کہ حق شفاعت خداوندعالم سے مخصوص ھے اور اسی کی ذات میں منحصر ھے ، ارشاد ھوتا ھے :
”اَمِ اتَّخِذُوا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَاءُ قُلْ اَوَلَوْکَانُوا لَایَمْلِکُونَ شَیْئًا وَلَا یَعْقِلُونَ قُلْ لِلّٰہِ الشَّفََاعَةُ جَمِیْعاً“ [46]
”بلکہ ان لوگوں نے ”غیر خدا“ کو اپنا شفیع بنالیا ھے ،(اے میرے رسول(ص)) کھدو کہ وہ کسی چیز کے مالک نھیں ھیں اور نہ ھی سوچنے کی صلاحیت رکھتے ھیں (کس طرح شفاعت کرسکتے ھیں) کھدیجئے کہ شفاعت تمام کی تمام خدا سے مخصوص ھے“

وھابیوں کو ھمارا جواب
اگر اس آیت کے جملوں پر توجہ کریں اور غور وفکر سے کام لیا جائے تو واضح ھے کہ اس آیت کا مقصد لکڑی ، پتھر او رلوھے کے بتوں سے شفاعت کی نفی کی گئی ھے نہ یہ کہ ان حقیقی شافعین سے شفاعت کی نفی کی گئی ھو جن کی شفاعت کے سلسلہ میں دوسری آیات موجود ھیں کیونکہ:
اول: ”لَایَمْلِکُونَ“ اور ”لَا یَعْقِلُونَ“ جملے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ شفاعت کا حق ان کا ھے کہ جو ”حق شفاعت“ رکھتے ھوں، او راپنے کاموں سے بھی آگاہ ھوں،
اورگذشتہ آیات میں جن بتوں کا تذکرہ ھے ان میں دونوں شرطوں میں سے کوئی بھی شرط نھیں ھے ، (وہ شرطیں یہ ھے :نہ ھی اپنے کاموں سے آگاہ ھیں اور نہ ھی شفاعت کے مالک ھیں) لہٰذا آیت کے اس حصہ ”قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعاً“ کے معنی یہ ھونگے کہ:شفاعت خدا کے لئے ھے نہ کہ لکڑی اور پتھر وں کے بتوں کیلئے ،گویا اس طرح معنی کئے جائیں :”ِللّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعاً لَا للِاوْثَانِ وَالاَصْنَامِ”(یعنی شفا عت کا ما لک خدا ھے ، نہ کہ بت)
اور شفاعت کا مالک صرف خدا ھے اولیاء الہٰی شفاعت کے مالک نھیں ھیں بلکہ شفاعت کے بارے میں خدا کی طرف سے ان حضرات کو اجازت دی گئی ھے ، لہٰذا کوئی مانع نھیں ھے کہ ”شفاعت کا مالک“ خداھو اور اولیاء الٰھی ”خدا کی اجازت سے“ شفاعت کریں۔
دوسرے : مذکورہ آیت کے جملہ کا مقصد یہ نھیں ھے کہ فقط اور فقط خدا شفیع ھے اور غیر خدا کوئی شفیع نھیں ھے، کیونکہ اس میں کوئی شک نھیں کہ خداوندکریم کسی کے بارے میں شفاعت نھیں کرے گا بلکہ آیت کا مقصد یہ ھے کہ خدا وندکریم اصل شفاعت کا مالک ھے اور دوسرے حضرات اس کی اجازت سے شفاعت کریں گے ، مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم کا یہ حق ”اصالةً “ ھے اور دوسروں کو یہ حق ”نیابتاً “ دیا گیا ھے ، لہٰذا مذکورہ آیت وھابیوں کے اعتراض کو ثابت نھیں کرتی ۔

مردوں سے شفاعت کی درخواست کرنا ،لغو ھے
وھابی کہتے ھیں : مرنے کے بعد روح انسان باقی نھیں رہتی ، اور انسان کے مرنے کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی نابود ھوجاتی ھے ۔
اسی وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ انبیاء(ع) اور اولیاء الٰھی نیز خدا کے نیک وصالح بندوں کی جسمانی موت کے ساتھ ساتھ ان کی روح بھی نابود ھوجاتی ھے او رجو چیز موجود نھیں ھے اس سے مدد اور شفاعت چاھنا ، عقل کے خلاف ھے ۔!!

وھابیوں کا ھمارا جواب :
اجمالی طور پر اس اعتراض کا جواب یہ ھے کہ روح ایک ایساجوھر ھے جو ”مجرد“ ھے اور ھرگز اس کے لئے موت نھیں ھے اوریہ جسم کے مرنے سے نابود نھیں ھوتی ،بلکہ جسم کے مرنے کے بعد ،بدن کے قیدو بند سے آزاد ھوکر مزید عالِم اور طاقتور ھوجاتی ھے اور یہ فلسفہ کی مشکل بحثوں میں سے ھے ، اور جوحضرات اسلامی فلسفہ سے آگاھی رکھتے ھیں او ر”حکمت متعالیہ صدرائی“ سے باخبر ھیں وہ جانتے ھیں ، یھاں اس دقیق اورعلمی اور مشکل بحث کرنے کا موقع نھیں ھے ۔
لہٰذااگر یہ ثابت ھوکہ جسم کے مرنے کے بعد روح نھیں مرتی (جیسا کہ اسلامی فلسفہ میں ثابت ھوچکاھے نیز قرآن مجید میں بھی اس سلسلہ میں آیات موجود ھیں) لہٰذا وھابیوں کی طرف سے اس اعتراض کی جگہ ھی باقی نھیں رہتی۔
او رجیسا کہ ھم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ شفاعت کے سلسلہ میں مختلف گوشہ ھیں اور تمام گوشوں سے اس کتاب میں بحث کرنا ممکن نھیں ھے کیونکہ ھمارا ھدف بحث کو طولانی کرنا نھیں ھے۔
محترم قارئین! مزید آگاھی کے لئے ”تفسیر المیزان“ اور ددسری تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔

شفاعت کے بارے میں علامہ طباطبائی (رہ) کا نظریہ
آخر میں قارئین کرام کی مزید آگاھی اور فائدہ کے پیش نظر مرحوم علامہ الحاج سید محمد حسین طباطبائی تبریزی (رہ) صاحب تفسیر المیزان کا نظریہ بیان کرتے ھیں تاکہ ھمارے قارئین عالم اسلام کے مایہ ناز شیعہ فلسفی علماء کرام کی بلندی فکر او رلطیف نظریات سے مزید واقفیت حاصل کریں اور معلوم ھوجائے کہ جن مسائل کو ابن تیمیہ ، ابن قیّم جوزی اور محمد ابن عبد الوھاب جیسے افراد حل نہ کرسکے اور اس میں غرق ھوکر رہ گئے او راس کا کوئی حل نہ نکال سکے اور بے ھودہ اور باطل چیزیں کھنے پر مجبور ھوگئے او رلغزشوں کے دلدل میں پھنس کر رہ گئے شیعہ علماء اور دانشوروں نے ان مسائل کا حل آسان او راچھے طریقہ سے تلاش کرلیا اور اب کوئی مشکل باقی نھیں رہ گئی ھے۔
صاحب تفسیر المیزان (رہ) ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ھیںکہ جو شدت پسندی کا شکار ھوئے ھیں اور ائمہ معصومین (ع) کے روضوں میں حاجت طلب کرنے کو شرک مانتے ھیں او رکہتے ھیں:بیماروں کی شفا ، نیزحاجت کو پورا کرنا خدا کے ھاتھ میں ھے نہ کہ امام کے اختیار میں !
مرحوم علامہ فرماتے ھیں : ”مطلب کو واضح او رروشن کرنے کے لئے ایک مقدمہ بیان کرنا ضروری ھے اور وہ یہ ھے کہ : عالم کائینات میں ”علّیت او رمعلولیت“کا قانون ایک عمومی قانون ھے اور ھرحادثہ کی ایک علت ھوتی ھے کہ جس کی بناپر وہ واقعہ پیدا ھوتا ھے ، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ عالَم”عالَم اسباب“ ھے اورتمام چیزوں کی علت حقیقی اور اس میں مستقل تاثیر خداوندعالم کی ھے ۔
اگر تیغ عالم بجنبد زجای نبُرد رگی تانخواھد خدائی
”اگر کسی کی گردن پر تلوا رچلائی بھی جائے تو جب تک خدا نھیں چاھے گا اس کی ایک رگ بھی نھیں کٹ سکتی “
اور دوسری وہ تمام علتیں جو خدا اور دوسرے معلول کے درمیان ھیں ان کو ”واسطہ“ کہتے ھیں جن کا فعل اور اثر خدا کا فعل واثر ھے او رکسی چیز کا معلول کے وجود کو فیض پھنچانے میں واسطہ ھونا شرکت اورتاثیر میں استقلال کے علاوہ دوسری چیز ھے ۔
مثال کے طور پر ”واسطہ“ اور ”ذی الواسطہ“ کے درمیان موجود نسبت جیسے یہ کہ کوئی انسان کسی قلم سے کوئی چیز لکھ رھا ھو، تو اس کے بارے میں یہ کھنا صحیح ھے کہ قلم لکھ رھا ھے اور ھاتھ بھی لکھ رھا ھے او رانسان بھی لکھ رھا ھے ، جبکہ یہ ایک کام ھے لیکن اس کی نسبت تین چیزوں کی طرف دی گئی ھے ، لیکن حقیقت یہ ھے کہ لکھنے میں مستقل تاثیر انسان کی ھے اور ھاتھ اور قلم لکھنے میں ”واسطہ“ ھےں ”شریک “نھیں ھیں ۔
قرآن کریم میں بھی ایسی بہت سے آیات موجو ھیں جن میں ان تمام اعمال وآثار کی نسبت مخلوق کی طرف دی گئی ھے جبکہ اپنے احتجاج میں علیت او رمعلولیت کے عمومی قانون کو قبول کرتی ھے حالانکہ تاثیر میں استقلال فقط اور فقط خدا سے مخصوص ھے ۔
مثال کے طور پر یہ آیہٴ شریفہ ”وَمَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ“ [47]
”اے میرے رسول آپ کنکریاں نھیں پھینک رھے تھے خدا کنکریاں پھینک رھا تھا“
اور یہ آیہٴ مبارکہ ”قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ بِاٴَدِیَکُمْ “ [48]
”کفار ومشرکین سے جنگ کرو کہ خداوندعالم تمھارے ذریعہ ان کو عذاب دینا چاہتا ھے “
نیز یہ آیت کریمہ” إنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبُہُمْ بِہَا“ [49]
”خدا چاہتا ھے کہ ا سکے ذریعہ ان پر عذاب کرے “
لہٰذا وہ تمام چیزیں جو ”وسیلہ“ اور ”واسطہ“ کے سلسلے میں کھی گئی ھیں امام سے حاجت طلب کرنا اس وقت شرک ھوگا جب حاجت طلب کرنے والا امام (ع) کو تاثیر میں مستقل سمجھے او را س کو ذاتی قدرت کا مالک جانے، لیکن اگر خدا کو تاثیر کا مالک سمجھے او راما م کو صرف ”وسیلہ“ او رواسطہ قرار دے، تواس صورت میں واسطہ کو پکارنا بھی صاحب واسطہ (خدا) کو پکارنا ھوگا، جس طرح واسطہ کی اطاعت صاحب واسطہ کی اطاعت ھے جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ھے :
”مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہِ“ [50]
”جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی “
اس طرح ملائکہ کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے :
”لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُوْنَ“ [51]
یعنی ملائکہ میں سے کوئی بھی مستقل ارادہ نھیں رکھتا بلکہ یہ وھی ارادہ کرتے ھیں کہ جس چیز کا خدا نے ارادہ کیا ھے ۔
سادہ او رآسان زبان میں عرض کریں : چونکہ انبیاء اور اولیاء علیھم السلام خداوندعالم کے مقرب نبدے ھیں اور خدا کی بارگاہ میں قدر ومنزلت رکھتے ھیں لہٰذا اگر کوئی ان کو کسب فیض میں واسطہ قرار دے اور اس طریقہ سے خداوندعالم سے اپنی حاجت طلب کرے تو اس کا یہ عمل ”شرک“ نھیں ھوگا اور ”توحید“ سے بالکل منافات نھیں رکھتا۔
حقیقت تو یہ ھے کہ کوئی بھی عاقل انسان ”واسطہ“ اور ”وسیلہ“ کو خدا کا شریک نھیں مانتا کیونکہ واسطہ اور وسیلہ ایک ایسا راستہ ھے کہ جس کے ذریعہ توسل کرنے والا متوسل الیہ(خدا) سے ربط دیتا ھے اور عقلی حکم کے مطابق ”رابط“ (رابطہ کرنے والا) ”مقصد اور مقصود “ کے علاوہ ھے ،(یعنی دونوں ایک چیز نھیں ھیں) مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی مالدار اوردولت مند کے سامنے کسی فقیر کے لئے ”شفاعت“ کرے او را سکے ذریعہ سے فقیر کو کچھ دلوائے تو کوئی بھی عاقل انسان بہ نھیں کھے گا کہ جو کچھ فقیر کو ملا ھے وہ دولت مند اور شفیع(دونوں) کا عطیہ ھے بلکہ اس موقع پر یھی کھا جائے گا کہ دولت مند ”صاحب عطا “او رشفاعت کرنے والا ”واسطہ“ اور ”رابط ھے۔ [52]
-------------------------------------------------------------
[1] یھاں پر ”غلّاة“ اور ”مفوضہ“کے بارے میں کچھ وضاحت کردینا مناسب ھے کیونکہ گمان یہ کیا جاتا ھے کہ غلاة او رمفوضہ سے مراد دومختلف فرقے ھیں یعنی ”مفوضہ“سے مراد وہ فرقہ ھے کہ جو ”تفویض“ کا قائل ھے (یعنی انسان مطلق طور پر اپنے تمام اعمال افعال میں آزاد ومختار ھے ) ٹھیک” جبریوں“ اور ”قدریہ“ کے مقابلہ میں جن کا اعتقاد یہ ھے کہ انسان اپنے افعال کا فاعل نھیں ھے (بلکہ جو کچھ بھی انسان سے سرزد ھوتا ھے ان کا فاعل خدا ھے ،)
خلاصہ یہ ھے کہ ”مفوضہ“سے مراد”جبر“ جو”جبر وتفویض“یا ”خلق اعمال“ یا ”قضاوقدر“ کی بحث میں بیان ھوتے ھیں، کے مدّمقابل فرقہ نھیں ھے ، بلکہ ”مفوضہ“سے مراد وھی غلاة ھیں جیسا کہ تاریخی کتابوں میں موجود ھے، او رغلاة ”غالی“ کی جمع ھے جس کے معنی ”غلو“ کے ھیں ، او ریہ فرقہ شیعوں کے فرقوں میں سے ایک ھے جھنوں نے مذھب شیعہ میں بہت زیادہ غلو کیا ھے ، او رائمہ (ع) کے بارے میں اتنا غلو کیا کہ خداکی حد تک پھونچادیا، اور یھاں تک قائل ھوئے ھیں کہ خدا کا جوھر نورانی ائمہ(ع) میں حلول کئے ھوئے ھے۔
”مفوضہ“ یا ”مفوضیہ“ فرقہ کا کھنا ھے :”خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیدا کیا او رتمام جھان کی تدبیر آنحضرت(ص) کو تفویض(سونپ) دی، اورتمام عالم کی تدبیر حضرت علی علیہ السلام کے حوالہ کردی۔
ان میں سے بعض لوگ کہتے ھیں: ”خدا وندعالم نے حضرت علی (ع) اور آپ کی اولاد کی روح کو خلق فرمایا، اور دنیا کی تدبیر ان کے حوالے کردی او رانھیںحضرات نے زمین وآسمان کو خلق فرمایا،پس غلاة یا مفوضہ فرقے کا عقیدہ یہ ھے کہ ائمہ علیھم السلام تمام عالم کی تدبیر مستقل طور پر رکھتے ھیں نہ یہ کہ ائمہ (ع) کو خدا وندعالم کا قائم مقام اور اس میں فانی جانیں۔البتہ شیعہ حضرات ائمہ علیھم السلام کی ”ولایت تکوینی“ کے قائل ھیں جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ اور دیگر دعاؤں میں موجود ھے ، لہٰذا ھم ائمہ علیھم السلام کو خدا سے وابستہ اور اس میں فانی او راس کے عبد وبندے مانتے ھیں ، ائمہ (ع) کس طرح سے خدا اور عالم سے وابستہ ھیں او راس سلسلہ میں شیعہ حضرات کے عقیدہ سے مزید آگاھی کے لئے حضرت آیت اللہ لطف اللہ صافی کی عظیم الشان کتاب ”مفھوم وابستگی جھان بہ امام زمان (ع)“ کی طرف رجوع فرمائیں۔
فرقہ غلاة (فرقہٴ مفوضہ بمعنی مذکور ) کو معنی مذکور میں استعمال کرنے کی دلیل بہت سی تاریخی اور فرق مذاھب کی کتابیں ھیں منجملہ: نوبختی کی کتاب ”فرق الشیعہ“ ترجمہ وتعلیق ڈاکٹر محمد جوار شکور طبع مرکز انتشارات علمی فرھنگی ص ۱۲۳، او رکتاب ”الاعتقادات والفرق“ ص ۲۳۸ ھے،قارئین کرام آپ حضرات پر مفوضہ کے معنی روشن ھوگئے ھونگے اور یہ کوئی نئی اصطلاح نھیں ھے بلکہ مذکورہ کتب کے مطالعہ کے بعد آپ حضرات اس کلمہ کے قدیمی ھونے کو سمجھ جائیں گے۔
[2] سورہ مائدہ آیت ۶۴ ۔
[3] کتاب ”توسل، تالیف سید محمد ضیاآبادی ص ۷۴۔
[4] کتاب ”توسل، تالیف سید محمد ضیاآبادی ص ۸۰۔
[5] سورہ ٴ قمر،آیت۵)
[6] کتاب ”توسل، تالیف سید محمد ضیاآبادی ص ۸۷۔
[7] کتاب ”توسل، تالیف سید محمد ضیاآبادی ص ۸۷۔
[8] سورہ قمر آیت۴۹و۵۰۔
[9] سورہ فاطر آیت۴۳۔
[10] سورہ رحمن ،آیت ۲۹۔
[11] سورہ انفال ،آیت ۱۷۔
[12] سورہ زمر،آیت ۴۲۔
[13] سورہ سجدہ ،آیت۱۱۔
[14] سورہ انعام، آیت ۶۱۔
[15] سورہ سجدہ،آیت ۵۔
[16] سورہ نازعات،آیت ۵۔
[17] سورہ شعراء ،آیت ۱۹۳۔
[18] سورہ انسان ،آیت ۲۳۔
[19] سورہ بقرہ، آیت ۲۵۵۔
[20] سورہ فاطر،آیت ۳۔
[21] سورہ رعد،آیت ۱۶۔
[22] سورہ ھود،آیت ۶۔
[23] سورہ زمر،آیت ۶۲۔
[24] سورہ ذاریات، آیت۵۸۔
[25] سورہ اسراء۔آیت۱۱۱۔
[26] سورہ صافات آیت ۹۶۔
[27] سورہ الحجر آیت ۲۱۔
[28] کتاب ”توسل، تالیف سید محمد ضیاآبادی ص ۹۲۔
[29] سورہٴ فاطر آیت ۱۵)۔
[30] حکیم متالّہ حاج مُلاّ سبزواری کتاب ”اسرار الحکم“ اس سلسلے میں مزید آگاھی کے لئے مرحوم صدر المتالھین شیرازی کی کتاب ”مبداء ومعاد“ اور ’‘اسرا ر الآیات“ او ر ”مفاتیح الغیب“ بخش انسان کامل ، نیز ملا محسن کاشانی کی کتاب ”کلمات مکنونہ“ کی طرف مراجعہ کریں۔
[31] بعض لوگوں نے قبر کے طواف کرنے کی حرمت پر درج ذیل روایتوں سے استدلال کیا ھے : حلبی سے حضرت امام صادق علیہ السلام سے اور محمد ابن مسلم نے حضرت اما م باقر علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ ان دو اماموں نے فرمایا: ”وَلاَتطُفْ بِقَبْرٍ“لیکن ان کا یہ استدلال ظاھر اً صحیح نھیں ھے ، کیونکہ روایت میں ”طَوْفْ“ کے معنی پاخانہ کرنے کے ھیں نہ کہ طواف کرنے اور چکر لگانے کے ، لہٰذا روایت کے معنی اس طرح ھونگے : قبروں کے اوپر پاخانہ نہ کرو ، اور ھماری اس بات کی گواہ لغت کی بہت سی کتابیں ھیں منجملہ: صحاح اللغة ، تاج العروس اور لسان العرب وغیرہ ھیں۔
[32] سورہٴ نازعات آیت ۵۔
[33] سورہٴ حجر آیت ۲۲۔
[34] سورہ فاطر آیت ۹۔
[35] سورہ آل عمران آیت ۱۶۹۔
[36] امام شناسی ، موٴلف سید محمد حسین تھرانی ، ج۵ص ۱۴۲ تھوڑے دخل وتصرف کے ساتھ۔
[37] کتاب ” توسل“ موٴلف سید محمد ضیاآبادی ،ص۲۷۔
[38] کتاب ” توسل“ موٴلف سید محمد ضیاآبادی ،ص۲۸۔
[39] سورہ مائدہ آیت ۳۵۔
[40] سورہ اسراء آیت۵۶، ۵۷)
[41] کتاب ” توسل“ موٴلف سید محمد ضیاآبادی ،ص۳۰۔
[42] سورہٴ زخرف آیت ۸۶۔
[43] سورہٴ یونس آیہ ۱۸۔
[44] سورہ ٴ جن آیت ۱۸۔
[45] سورہ فاطر آیت ۶۰۔
[46] سورہ زمر، آیت ۴۳،۴۴۔
[47] سورہ انفال آیت ۱۷۔
[48] سورہ ٴ توبہ آیت ۱۴۔
[49] سورہ ٴ توبہ آیت۵ ۵۔
[50] سورہ نساء آیت ۸۰۔
[51] سورہ انبیاء آیت ۲۷۔
[52] یہ عرض کردینا ضروری ھے کہ اس حصہ کی تالیف میں ھم نے عظیم کتاب”توسل یا استمداد از ارواح مقدسہ“ مولفہ حضرت آیت اللہ سبحانی سے استفادہ کیا ھے ، قارئین کرام کی مزید آگاھی کے لئے استاد مطھری (رہ) کی کتاب ”عدل الٰھی “ او رمشھور واعظ جناب آقای فلسفی کی کتاب ”آیة الکرسی“ پر رجوع فرمائیں ۔