بانی وھابیت محمد ابن عبد الوھاب کے حالاتِ زندگی | |||||
فرقہٴ وھابیت کا بانی محمد ابن عبد الوھاب ھے جس کا نسب، وھیب تمیمی تک پھونچتا ھے ، اس نے مکہ ومدینہ میں تعلیم حاصل کی ، اس میںگمراھی اور ضلالت کے آثار اسی وقت سے ظاھر تھے، خود اس کے باپ نے کہ جو صالح علماء میں سے تھے اس میں گمراھی وضلالت کا احساس کیا اور اسی وجہ سے اس کو چند بار تنبیہ بھی کی، اور لوگوں کو اس کی پیروی سے روکا، خود اس کا بھائی سلیمان بن عبد الوھاب بھی اس کے کارناموں پر اعتراض کرتا تھا، آخر کار اس کے بھائی نے خود محمد ابن عبد الوھاب کی ردّ میں ایک کتاب بھی تحریر کی، عبد الوھاب نے سب سے پھلے ان لوگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا کہ جھنوں نے نبوت کا دعوی ٰ کیا تھا ، مثلاً: مسلیمہ،سجّاح،اسود عنسی اور طلیحہ اسدی، محمد ابن عبد الوھاب ان لوگوں کے حالات زندگی پڑھنے کا بہت شوقین تھا او ران کے حالات کا شیفتہ بن چکا تھا۔ [1] محمد ابن عبد الوھاب نے چار بیٹے چھوڑے کہ جن کے نام اس طرح ھیں: عبد اللہ، حسن، حسین اور علی، اس کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے عبد اللہ نے اپنے باپ کے پروگراموں کو آگے بڑھایا، اور اس کے مرنے کے بعد اس کے دو بیٹے سلیمان وعبد الرحمن اس کے جانشین ھوئے، خصوصاً سلیمان بہت زیادہ متعصب تھا، ۱۲۳۳ھ میں ابراھیم بادشاہ کے ذریعہ قتل ھوا، اور اس کا بھائی عبد الرحمن بھی گرفتا رکرلیا گیااور جلاوطن کرکے مصر بھیج دیا گیا اور اس کا وھیں پر انتقال ھوگیا۔ محمد ابن عبد الوھاب کے دوسرے فرزند یعنی حسن کا بھی ایک بیٹا عبد الرحمن تھا کہ اس زمانے کے وھابیوں کا مکہ میں قاضی قرار دیا گیا اور حدوداً سو سال کی لمبی عمر پائی، اور اس نے بھی ایک بیٹا بنام عبد اللطیف چھوڑا، او رحسین وعلی نے بھی بہت سی اولادیں چھوڑی کہ جو اب بھی ”دِرعیہ“شھر میں رہتے ھیں اور ”فرزندان شیخ“ کے نام سے مشھور ھیں ۔ سب سے پھلے جس نے محمد ابن عبد الوھاب کو اس کے عقائد میں اس کی تائید ومدد کی، محمد ابن سعود اور اس کا بیٹا اور پوتا عبد العزیز او رسعود ھے۔ سعود بن عبد العزیز اس ملعون کا نام ھے کہ جس نے عراق او رحجاز میں جنگ کرائی اورمسلمانوں کو خانہ کعبہ کی زیارت سے روکا، او راپنے زمانہ میں حج بند کرادیا۔ [2] ملطبرون کہتا ھے : وھابیت کی اصل وبنیاد یہ ھے کہ اھل عرب مخصوصاً اھل یمن آپس میں یہ قارئین کرام ! جھوٹے پیامبروں کے حالات ِ زندگی سے مزیدآگاھی کے لئے حسب ذیل کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں: ۱۔پیامبران دروغین، تالیف ڈاکٹر بحریہ اوج اوک۔ ۲۔تاریخ سیاسی اسلام، تالیف ڈاکٹر حسن ابراھیم حسن۔ ۳۔تاریخ یعقوبی ترجمہ مرحوم ڈاکٹر ابراھیم آیتی۔ ۴۔سیرہٴ ابن ہشام، ترجمہ رسول محلاتی۔ گفتگو کیا کرتے تھے کہ ایک سلیمان نامی چرواھے جس نے ایک خواب دیکھا تھا کہ اس سے ایک آگ کی چنگاری نکلی اورزمین پر بکھر گئی، اور جوبھی اس کے سامنے آگیا اس کو جلاکر راکھ کردیا، اس نے اس خواب کو ایک خواب کی تعبیر کرنے والے سے بتایا، اس نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ تیری اولاد میں سے ایک ایسا بیٹا پیدا ھوگا کہ ایک بہت بڑی طاقت کا مالک ھوگا اور ایک بڑی حکومت بنائے گا۔ اور اس کے خواب کی تعبیر اس کے پوتے محمدمیں پوری ھوئی ، جس وقت محمد ابن عبد الوھاب بڑا ھوا، اپنے ھم وطنوں کے درمیان اس خواب کی بنا پر کہ معلوم نھیں کہ صحیح بھی ھے یا نھیں ، بہت محبوب تھا، اس نے پھلے اپنے مخفی مذھب کو چوری چھپے آشکار کیا او راسی طرح کافی تعدا د میں اپنے مرید بنالئے اس کے بعد شام کا سفر کیا اور چونکہ وھاں کسی نے اس کے نئے مذھب کو پسند نہ کیا،دوبارہ اپنے وطن واپس لوٹ آیا۔ اس کے بعد وہ نجد گیااو راپنے مذھب کو کُھلے عام ظاھر کرنا شروع کردیا اور سعود نے اس کی پیروی کی ، وہ ایک ھوشیار او رمحکم آدمی تھا، اپنے ھر کام کو ایک دوسرے کے ذریعہ تقویت کرتا تھا، سعود نے اس محمد ابن عبد الوھاب کے نئے مذھب کی پیروی کرکے اپنی حکومت کے ستونوں کو مضبوط کرلیا، او ر محمد ابن عبد الوھاب نے بھی سعود کی فوجی طاقت او راس کی شمشیر کے زور پر اپنے نئے مذھب کو پھیلایا او راس کو مضبوط کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ سعود اس منطقہ کا حکمراں او ربادشاہ بن گیا اور محمد ابن عبد الوھاب مذھبی رھبر بن بیٹھا۔ ان میں ھر ایک کی اولاد اپنے اپنے باپ کی جانشین ھوئی او رجس وقت سعود نے اپنے قبیلہ والوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد یمن کے دوبڑے قبیلوں پر بھی غلبہ حاصل کرلیا اور عرب کے دوسرے قبائل نیز نجد کے تمام عرب وھابیت کے مرید ھوگئے۔ شھر درعیہ کہ جو بصرہ کے مشرق میں واقع ھے ، پائے تخت قرار دیا او ر۱۵ سال تک سعود کی حکومت جاری رھی، اس کے بعد بھی اپنی حکومت کو وسعت دینے کے لالچ میں لگا رھا۔ وہ اپنے ماننے والوں سے ایک دھم چارپائے،غلات اور پیسہ یھاں تک کہ انسان بھی لیتا تھا ، جی ھاں وہ اپنے ماننے والوں سے قرعہ کشی کے ذریعہ ایک دھم انسانوں کو بھی اپنی خدمت گذاری کے لئے لیتا تھا، جس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی دولت اور ایک بڑی فوج اس نے جمع کرلی ، کھا جاتا ھے کہ اس کی فوج ایک لاکھ چوبیس ہزار لوگوں پر مشتمل تھی۔ ”خلاصة الکلام“ نامی کتاب میں اس طرح تحریر ھے : محمد ابن عبد الوھاب ۱۱۴۲ھ میں ظاھر ھوا، اور پچاس سال کے بعد اس کا مذھب مشھور ھوا اور اس کے خرافاتی عقائد نجد میں آشکار ھوئے ، اور کھلے عام اپنے مذھب کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ درعیہ کے حکمراں محمد ابن سعودنے اس کی نصرت کی ، اور وھاں کے رھنے والوںکو اس کی پیروی کی دعوت دی ،یھاں تک کہ تمام لوگوں نے اس کی پیروی کی، اور رفتہ رفتہ عرب کے بہت سے قبیلوں نے اس کی پیروی کرنا شروع کردی، اور اس نے ایک عظیم لشکر بنالیا کہ جس کی بناپر صحراء نشین بھی اس سے ڈر نے لگے۔ اس کانعرہ تھا کہ ”میں تم کو توحید اور یکتاپرستی کی دعوت دیتا ھوں او رچاہتا ھوں کہ شرک کو بالکل ختم کروں“ آلوسی(سنی موٴلف) لکھتا ھے کہ: محمد ابن عبد الوھاب نجد کے ”عُیینہ“ شھر میں پلا بڑھا، حنبلی فقہ کو اپنے باپ سے حاصل کیا او راسی بچپنے سے عجیب وغریب باتیں کیا کرتا تھا، او ر مسلمانوں کے بہت سے متفق علیہ اعمال وعقائد کے خلاف باتیں کیا کرتا تھا، او ران پر نکتہ چینی کیا کرتا تھا، لیکن کسی نے اس کی مدد نہ کی ، اسی زمانے میں اس نے اپنے شھر عیینہ سے مکہ کی طرف اورپھروھاں سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، مدینہ میں شیخ عبداللہ نامی شخص کے پاس درس پڑھا اور رسول اسلام(ص) کی مرقد منور کے پاس لوگوں کے استغاثہ او رتوسل کو سن کر سخت تنقید کیا کرتا تھا، اس کے بعد وھاں سے نجد ، نجد کے بعد بصرہ اورپھر وھاں سے شام کی طرف سفرکیا، بصرہ میں کچھ مدت قیام کیا او رشیخ محمدمجموعی کے درس میں شرکت کی، اس شھر میں بھی مسلمانوں کے بہت سے اعمال پراعتراض کیا ، لوگوں نے اس کو اپنے شھر سے نکال دیا، اور یہ حضرت وھاں سے بھاگ نکلے۔ ان تحویل وتحول کے بعد نجد کے شھر” شرہ حریملة“ گیا، اور چونکہ اس کاباپ بھی اسی شھر میںتھا وھیں قیام کیا او راپنے باپ کے درس میں شرکت کی ، اس دوران بھی نجد کے مسلمانوں کے بعض عقیدوں کامذاق اڑایا اور ان پر تنقید کی، جبکہ اس کاباپ اسے اس کام سے روکتا رہتا تھا لیکن وہ تب بھی نھیں مانتا تھا، جس کے نتیجہ میں باپ بیٹے میں کئی بار اختلاف اور جھگڑا بھی ھوا۔ وھاں کے مسلمانوں کے ساتھ کئی بار جھگڑے بھی ھوئے، دوسال یھی کشمکش جاری رھی۔ ۱۱۵۳ھ میں اس کے باپ کا انتقال ھوگیا، اس وقت اس کی جراٴت اوربھی بڑھ گئی ، اور اپنے عقیدہ کو بغیر کسی روک ٹوک کے آشکار کرنے لگا، مسلمانوں کے مورد اتفاق مسائل واعتقاد پر حملہ آور ھوتا تھا، اس نے اپنے نزدیک چند غُنڈے بھی جمع کررکھے تھے، جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ لوگ اس کی باتوں سے ناراض ھوگئے اور اس کے قتل کی تیاری شروع کردی وہ یہ دیکھ کر وھاں سے بھاگ نکلااور عُیَینہ چلاگیا۔ اس زمانہ میں عیینہ شھر کا حکمراں عثمان بن احمد بن معمر تھا، محمد ابن عبد الوھاب نے اس سے نجد کی حکومت کا وعدہ کیا ، جس کی بناپر اس نے اس کی کمک ونصرت کی ، او رمسلمانوں کے عقائد واعمال کو مورد حملہ قرار دیا، جس کی بناپر شھر کے بعض لوگ اس کے مرید ھوگئے، اس موقع پر جبیلہ میں زید بن خطاب کے مزار کو گراکر خاک کردیا، وھابیت اس زمانہ میں ترقی کرنے لگی، اس کی خبریں احساء ، قطیف و اطراف کے حکمراں سلیمان بن محمد بن عزیز حمیدی تک پھونچی، سلیمان نے عیینہ کے حکمراں عثمان کے پاس ایک خط لکھا اور اس کو محمد ابن عبد الوھاب کے قتل کے لئے حکم دیا اور اس فرمان کی مخالفت سے ڈرایا، عثمان ،سلیمان سے مخالفت کی طاقت نھیں رکھتا تھا جس کی بناپر محمد ابن عبد الوھاب کو پیغام پھونچایاکہ اس کی حکومت اور شھر سے جلد از جلد نکل جائے ورنہ خطرہ ھے ، جس کے جواب میں محمد ابن عبد الوھاب نے عثمان کو تمام نجد کی حکومت کی بشارت دی، لیکن عثمان نے اس کی اس بات کو قبول نہ کیا، بالآخر محمد ابن عبد الوھاب ۱۱۶۰ھ میں درِعیہ شھر ”مسیلمہ کذاب کے وطن“ میں چلا گیا۔ اس وقت اس سر زمین کا حکمراں محمد بن سعود ”قبیلہٴ عُنیزہ“ سے تھا، محمد ابن عبد الوھاب نے اس کی بیوی کے ذریعہ اس تک رسائی کی، اور اس کو نجد کی حکومت کا لالچ دیا، او رمسلمانوں کے قتل عام کے لئے اس سے عھد کیا، اس کے بعد نجد کے تمام صوفیوں اورروٴساء کے پاس ایک خط لکھا : جس میں ان کو اس کے نئے مذھب کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی ، جس کی بعض لوگوں نے پیروی کی اور بعض لوگوں نے اس کی کوئی پروانھیں کی۔ اس نے درعیہ کے لوگوں کو جنگ وجدال کی دعوت دی، انھوں نے بھی اس کا مثبت جواب دیا، اور اس کے ساتھ نجداور احساء کے لوگوں سے کئی بار جنگ کی، کہ جس کی بناپرکچھ لوگوں نے اپنی خوشی سے اور کچھ نے مجبوراً اس کی دعوت پر لبیک کھا، اور اس وجہ سے تمام نجد پر خاندان سعود کی حکومت ھوگئی۔ محمد ابن عبد الوھاب کا ۱۲۰۶ھ میں انتقال ھوگیا، اور اس کے بعدمحمد ابن سعود بھی اس دنیا سے چل بسا، اور اس کا بیٹا عبد العزیز اس کا جانشین ھوا، اور اس نے بھی وھابیت کی بھر پور حمایت کی، اور اس کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پھونچانے کے لئے متعدد جنگیں کیں،یھاں تک کہ اس کے سپاھی نجد کے دور دراز علاقہ تک گئے۔ اور جب عبد العزیز مرا، اس کابیٹا سعود اس کا جانشین ھوا، سعود وھابیگری میں اپنے باپ سے بھی زیادہ متعصب تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے مسلمانوں کو خانہ کعبہ کی زیارت سے روکااور اپنے مخالفین کو دائرہ کفر میں رکھنے کی بہت زیادہ کوشش کی، اور جب اس کا انتقال ھوا، اس کا بیٹا عبد اللہ جانشین ھوا۔ ”خلاصة الکلام“ میں ایک دوسری جگہ یوں لکھا ھے : ”شریف مسعود کی حکومت کے زمانہ میں وھابیوں نے بحث وگفتگو کرنے کے لئے ۳۰علماء کو مکہ ومدینہ بھیجا، شریف مسعود نے حرمین کے علماء سے درخواست کی کہ آپ حضرات ان لوگوں سے بحث وگفتگو کریں،مکہ کے علماء نے ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کیا ، جس کے نتیجہ میں ان کو فاسد العقیدہ اور بے بنیا د پایا، اور قاضی شرع نے ان کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا، اور ان کے زندان کا حکم بھی دیدیا، ان میں سے بعض لوگ بھاگ گئے اور بعض لوگوں کو زنداں میں بھیج دیا گیا۔ ۱۱۹۵ھ میں دوبارہ شریف احمد کی حکومت کے زمانہ میں درعیہ شھر کے حکمراں نے چند وھابی علماء کو بحث کے لئے روانہ کیا تاکہ مکہ کے علماء سے بحث ومناظرہ کریں، اور جب مناظرہ ھوا، مکہ کے علماء نے ان کے کفر والحاد کو تشخیص دیتے ھوئے خانہ کعبہ کی زیارت کی اجازت تک نہ دی۔ فرقہٴ وھابیت اگر چہ بارھویں صدی میںمحمد ابن عبد الوھاب کے زمانے میں ظاھر اور نشر ھوا، لیکن جیسا کہ ھم نے متعدد بارعرض کیا کہ وھابیت کی داغ بیل ساتویں صدی میں ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم جوزی اور ابن عبد الھادی وغیرہ کے زمانہ سے پڑچکی تھی۔ [3] محمد ابن عبد الوھاب کی دعوت کا طریقہ
”ابن بشر“ کہتا ھے : جس وقت شیخ محمد ابن عبد الوھاب نے شھر درعیہ کو اپنا وطن قرار دیا اس شھر کے لوگ نھایت جھالت وگمراھی میں تھے نماز وزکوٰة کی ادائیگی میں سستی کرتے تھے ، نیز دوسرے اسلامی امور میں بھی اسی طرح کاھلی کرتے تھے ، شیخ نے سب سے پھلے انھیں ”لاالہ الّا اللّٰہ“کے معنی سکھایا جس میں نفی اور اثبات دونوں ھیں اس کا پھلاجز”لاالہ“تمام معبودوں کی نفی کرتا ھے اور اس کا دوسرا جز ”الا اللہ“ خدا کی وحدانیت کا اثبات کرتا ھے۔
اس کے بعد ان کو ایسے چند اصول سکھائے جو خدا کے وجود پر دلالت کرتے تھے مثلاً سورج چاند اور ستارے ، دن رات ، اور ان کو اسلام کے معنی بتائے کہ اسلام کے معنی یہ ھیں کہ خدا کے احکامات کے سامنے تسلیم ھونا اور اس کے نواھی سے دوری کرنا ھے ۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ارکان سے آشنا کیا، پیغمبر اکرم(ص) کا حسب و نسب ، بعثت کی کیفیت ، اور آپ کی ہجرت سے آشنا کیا،اور بتایاکہ آنحضرت کی سب سے پھلی دعوت کلمہٴ ”لاالہ الاّ اللہ“ تھی، نیز اسی طرح بعثت وقیام جیسے موضوعات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خدا کی مخلوق سے کسی طرح کا کوئی استغاثہ نھیں کرنا چاہئےے اور اس سلسلہ میں بہت مبالغہ سے کام لیا۔ اس کے بعد شیخ محمد نے نجد کے قضات اور روٴساء کو خط لکھا جس میں ان کو اپنی اطاعت اور مطیع ھونے کے بارے میں دعوت دی ، جس کی بعض لوگوں نے اطاعت کی او ربعض لوگوں نے نافرمانی کی، اور شیخ کی دعوت کا مذاق اڑایا اور شیخ کو نادان و بے معرفت جیسے القابات سے نوازا، بعض لوگوں نے اس کو جادوگر کھا اور بعض نے اس کو بری بری نسبتیں دیں۔ شیخ نے اھل درعیہ کو جنگ کا حکم دیا ، او رکئی مرتبہ اھل نجد سے جنگ ھوئی ، یھاں تک کہ لوگوں کو شیخ کی اطاعت پر مجبور کردیاگیااورآل سعود نے نجد اور اس کے اطراف پر غلبہ پیدا کرلیا۔ محمد ابن عبد الوھاب کا غنائم جنگی تقسیم کرنے کا طریقہ
شیخ محمدابن عبد الوھاب کاغنائم جنگی تقسیم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اپنی مرضی کے مطابق اس کو خرچ کرتا تھا اورکبھی کبھی غنائم جنگی کو (جن کی مقدار بہت زیادہ ھوتی تھی) اپنے مریدوں میں ۲یا۳ لوگوں کو دیدیتا تھا ، جتنی بھی غنائم جنگی ھوتی تھیں وہ سب کی سب شیخ کے اختیار میں ھوتی تھی او رنجد کا حکمراں بھی اس سے اجازت لے کر خرچ کیا کرتا تھا، اس کے علاوہ امیر نجداپنے سپاھیوں کے لئے اسلحہ لینا چاہتا تھا شیخ کی اجازت ھی سے یہ کام بھی کیا کرتا تھا۔
آلوسی کہتا ھے : اھل نجد نے شیخ کی طرح کسی بھی عالم کی اس قدر اطاعت نہ کی اور یہ واقعاً ایک عجیب بات ھے کہ اس کے ماننے والے آج تک (آلوسی کے زمانہ تک) اس کو چار اماموں (ابو حنیفہ ، شافعی، مالک، احمدبن حنبل)کی طرح مانتے ھیں،اور اگر کسی نے اس کو بُرا کھا تو اس کو قتل کردیتے تھے۔ زینی دحلان کا بیان ھے کہ : شیخ محمد کے کاموں میں سے ایک کام یہ تھا کہ جوبھی اس کی پیروی کا دم بھرے وہ اپنا سر منڈائے ،لیکن اس کام کو خوارج اور بدعت گذاروں نے انجام نہ دیا۔ سید عبد الرحمن اھدل مفتی زبید کہتا ھے کہ : وھابیوں کی رد میں کوئی کتاب لکھنے کی ضرورت نھیں ، ان کے لئے رسول اسلام کی یہ حدیث کافی ھے کہ آنحضرت نے فرمایا:” سیماھم التحلیق“ ان کی نشانی سرمنڈانا ھے ۔ اتفاق سے شیخ نے ایک عورت کو جب اپنی پیروی کرنے کے لئے مجبور کیا تو اس عورت نے اس سے کھا: جب تو عورتوں کو سر منڈانے پر مجبور کرتا ھے تو مردوں کو بھی اپنی ڈاڑھی منڈانے پر مجبور کر، کیونکہ عورت کے سر کے بال او رمردوں کی ڈاڑھی کے بال دونوں زینت ھوتے ھیں ، شیخ کے پاس اس کا کوئی جواب نہ بن پایا۔[4] عبد الوھاب کے بیٹے کا سرانجام
”جس وقت شیخ محمد نے ریاض (سعودی کا حالیہ پائے تخت) کو فتح کرلیا، اس کے بعد اس کا ملک وسیع ھوتا چلا گیا، رفتہ رفتہ فتنہ وفساد ختم ھوتے گئے، اور تما م بڑے بڑے لوگ اس کے مطیع وفرمانبردار بن گئے، شیخ محمد نے اموال اور غنائم اور لوگوں کے دوسرے امور کوعبدالعزیز بن محمد بن سعود کے حوالہ کردئے، اور خودعبادت اور تدریس میں مشغول ھوگیا، لیکن عبد العزیز نے پھر بھی اس کو نھیں چھوڑا او راپنے تمام کام شیخ کے نظریہ کے مطابق انجام دیتا رھا، اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رھا، یھاں تک کہ شیخ محمد ابن عبد الوھاب ۱۲۰۶ھ میں اس دنیا سے چل بسا۔[5]
محمد ابن عبد الوھاب کی تالیفات
کتاب ”کشف الشبھات“ میں شیخ کی تالیفات کا اس طرح ذکر کیا گیا ھے :
کشف الشبھات، تفسیر کلمة التوحیدو ادلتھا، تلقین اصول العقیدة العامة، معنی الطاغوت وروٴس انواعہ، مختصر سیرة الرسول، ہذہ مسائل، بعض فوائد صلح الحدیبیہ، ستة موضع من السیرة، نواقض الاسلام، احکام تمنی الموت، مختصر الانصاف والشرح الکبیر، نصیحة المسلمین، تفسیر بعض سور القرآن، الاصول الثلاثة، اربع قواعدمن الدین، ثلاث مسائل، احکام الصلاٰة، مختصر زاد المعاد، مختصر تفسیر سورة الانفال، الاصل الجامع لعبادة اللّٰہ وحدہ، مسائل الجاھلیة، فضل الاسلام، اربع قواعد تدور الاحکام علیھا، کتاب الکبائر، اصول الایمان، احادیث فی الفتن والحوادث، الرسائل الشخصیة،کتاب الطھارة، الخطب المنبریة، فضائل القرآن، القواعد الاربع، ستة اصول عظیمة مفیدة، شروط الصلوٰةوارکانھا وواجباتھا، مجموع الحدیث(چار جلدیں) مبحث الاجتھاد والخلاف، الردّ علی الرافضة، فتاویٰ ومسائل، تفسیر آیات القرآن الکریم، مفید المستفید فی حکم تارک التوحید، رسالة فی توحیدالعبادة، مختصر صحیح البخاری، آداب المشي الی الصلاٰة۔[6] کھا جاتا ھے کہ” کتاب التوحید “اس کی اھم ترین کتاب تھی نیز یہ وھی کتاب تھی جس نے تاریخ کا رخ موڑکر رکھ دیا اور اس کتاب نے اصلاح اور نوآوری کی تاریخ میں ایک اھم کردار ادا کیا۔[7] جب کہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد انسان اس نتیجہ پر پھونچتا ھے کہ اس کتاب میں کوئی نئی بات نھیں ھے بلکہ وھی ابن تیمیہ او رابن قیم جوزی والی باتیں تکرار ھوئی ھیں ، او رمسلمانوں پر تھمتیں او ران کی نسبت نازیبا الفاظ اس کتاب میں موجود ھےں اس کے علاوہ قرآن وحدیث کے ظاھری اور ابتدائی معنی پر مشتمل نتائج اخذ کئے ھیں ، اور اس کتاب میں دقیق اورعلمی نکات بالکل نھیں ھیں او رواقعاً اس کتاب نے تاریخ کے رخ کو موڑ دیا ھے اور اس کو بدل کر رکھ دیا ھے۔ لیکن ھم یہ کہتے ھیں کہ واقعاً اس کتاب نے تاریخ کا رخ تجدید ومجدد اور مسلمانوں کی شوکت وعظمت کو تنزلی اور زوال اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، قتل وغارت کی طرف موڑاھے ، یہ کتاب او رشیخ محمد کی دوسری کتابوں نے مسلمانوں کے اتحاد کے خلاف ایک بہترین حربہ کی شکل اختیار کی ، اورانکے جدا ھونے کا بہترین سبب بنی ھے، او رخود استعمار گروں نے اس فرقہ کے نظریات کو محمد ابن عبد الوھاب کو ایک طریقہ سے املاء بولا تھا جس سے انھوں نے بہت کچھ فائدے اٹھائے اور آج بھی اس سے متعدد فائدے اٹھارھے ھیں ۔ عجیب بات تو یہ ھے کہ آج کے اسلامی دنیا کے بعض دانشوروںاو رموٴلفوں نے غیروں اور اسلام دشمن لوگوں کی طرح اس شیخ محمد کو ”مجدد“ اور ”مصلح“ کا لقب دیا ھے اور اس کے کارناموں کو مسلمانوں کے لئے ”اصلاحی دعوت“ کے نام سے یاد کیا ھے اور اس کے انقلابی نظریات کی داد وتحسین میں مشغول ھیں۔[8] -------------------------------------------------------------------- [1] روضة المحبین ونزھة المشتاقین تالیف ابن قیم جوزی ، باتصحیح صابر یوسف چاپ موسسہ جامعہ درس نشر وتوزیع ،بیروت۔ [2] یہ عجیب بات ھے کہ وھابیت کا بانی اپنی تحصیل علم کی زندگی کے آغاز سے جھوٹے پیغمبروں کے حالاتِ زندگی کے مطالعہ کا شوقین تھا، او ریہ بات واضح ھے کہ اگر کوئی شباہت او رسنخیت نھیں تھی تو پھر ایسے لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے کیا لگاؤ تھا کہ جنھوں نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کیا ھو ، لیکن ان تمام چیزوں سے پتہ یہ چلتا ھے کہ وہ بھی ان کے راستہ کو آگے بڑھانا چاہتا تھا ، او رایک نیا مذھب ایجاد کرنے والا تھا، جس کا ھادی اور رھبر بن کر خود لوگوں کے سامنے سرفراز ھونا چاہتا تھا۔ [3] کل سعود بن عبد العزیز نے لوگوں کو خانہ کعبہ کی زیارت اور حج سے روکا تھا ، آج اس کی اولاد آلِ سعود (خذلھم اللہ) نے بے گناہ حاجیوں کا قتل عام کیا، اور شھیدوں کے داغدار والدین او رمعلولین ومجروحین جو اپنے دفاع پر ذرہ برار بھی قدرت نھیں رکھتے تھے ،خیانت کار امریکہ کے حکم سے خانہ خدا کے آس پاس حاجیوں کو گولیوں کے ذریعہ بھون ڈالا،جن میں بعض لوگ زخموں کی کثرت کی وجہ سے ابھی تک ناقابل شناخت ھیں ،واقعاً انھوں نے اپنا یہ سبق(مسلمانوں کا خون بھانا) اپنے دادا سعود بن عبد العزیز سے سیکھا ھے خدا ان پر ھمیشہ لعنت کرے ، خدا ان دل کے اندھوں او رجنایتکار وں کے نوکروں پر لعنت کرے یہ لوگ حرم پاک کے غاصب ھیں،حج کے مناسک اور شعائر الہٰی کو انجام دینے میں بھی مانع ھوتے ھیں ۔ [4] ”تاریخچہ ونقد وبررسی عقائد واعمال وھابی ھا“ تالیف سید محسن الامین(رہ)، ترجمہ سید ابراھیم سید علوی ص۳تاص۸۔ [5] وھابیان ص۱۵۳۔ [6] وھابیان ص۱۵۵۔ [7] ازالة شبھات، کشف الشبھات کا فارسی ترجمہ، تالیف محمد ابن عبد الوھاب ،ترجمہ ابو خالد فضل اللہ ص ۲۸۔ [8] مقدمہ مترجم بر کشف شبھات۔ |