بحث کے کلّیات اور مقدمات | |||||
جیسا کہ ھم نے عرض کیا : ھم اس کتاب میں آئین ”وھابیت“ کے بارے میں بحث و بررسی کریں گے ، اور اس تحقیق میں ( وقت کی کمی کے خاطر ) مختصر طور پر اس فرقہ کی خصوصیات، انحرافات اور نامطلوب نتائج کو بیان کریں گے ، وھابیت کا دعویٰ یہ ھے کہ ھم ھر قسم کے شرک و بت پرستی کی نفی کرتے ھیں ، اور اسی وجہ سے انبیاء اور اولیاء علیھم السلام کی زیارت ، ان سے توسل ، درخواست مدد ، طلب حاجت اور پیغمبروں کی قبروں کی زیارت نیز خدا کے خاص و پاک وپاکیزہ اور پرھیزگار بندوںکی قبروں کی زیارت کو حرام قرار دے دیا ھے ۔ انشاالله ھم اس کتاب میں مذکورہ مطالب کے جوابات کے ساتھ ان کے بارے میں بحث و بررسی کریں گے، لیکن ھم ابتداء گفتگوھی میں ایک بات کو وضاحت کے ساتھ کھنا چاہتے ھیں کہ وھابیوں کا ”شرک سے مقابلہ“ کانعرہ ، میدان عمل میں مسلمانوں کا قتل عام ، فتنہ و فساد اور تباھی کے علاوہ کچھ نھیں ھے ، یھاں تک کہ یہ بھی دعویٰ کیا جا سکتا ھے کہ یہ فرقہ ظاھرپرست عقائد اور شدت پسند و تفرقہ بازی سے استعمار اور اسلام دشمن طاقتوں کے ھاتھوں اس کا خطرناک حربہ بن چکا ھے ، اور ا ستعمار نے اس فرقے کوسیاسی میدان میں اتحاد بین المسلمین کے راستے میں رکاوٹ کے طور پر استعمال کررھا ھے ، [1] اورھم واضح طور پر کہہ سکتے ھیں کہ غلط اور ظاھر پسند تعلیمات کی وجہ سے اس سطحی اورظاھر پسند مقصد کے تحت یہ فرقہ وحدت اسلامی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ھے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام ھوا ،اور مسلمانوںمیں اختلاف اور جدائی کا سبب بناھے ۔ مسلمانوں سے دشمنی اور لڑائی کرنا، ان کو کافر اور مشرک جاننا، مومنین کو اذیت پھونچانا ، ان کے لئے ضرب و شتم و لعن کو جائزقرار دینا ،و ھابیت کی بدترین اور بھیانک تصویروں میں سے ھے، جو ایک فاسد اور تخریب کار فرقہ کہ جس کانعرہ ھی تخریب،تباھی و بربادی ، تفرقہ بازی ، وحشی گری اوربے رحمی ھے مسلمانوں کا قتل عام ، شرک اور بت پرستی سے مقابلہ کا بھانہ، ائمہ اور اولیاء الله کیِ قبروں کا انھدام [2] توحید کے نعرے کو عملی جامہ کا بیان، اور شرک کی نفی، شرک سے مقابلہ کا نعرہ ، وھابیت کے کارناموں میں سے ھے۔ اس فرقے کے ماننے والے خونخوار ، وحشی استعمار، عالمی استکبار اورغنڈاگردی ، غارت گری اور ظلم و ستم کرنے والے سے جنگ و جدال کرنے کے بجائے خود مسلمانوںسے بر سر پیکار ھوگئے ، اور عالمی غارت گروں اور ظالموں کہ جن کا پورا ھم وغم اسلام کے تقدس کو پائمال اور قرآنی تعلیمات کو نابود کرنا ھے ، سے مقابلہ کے بجائے مسلمانوں کے قتل وغارت اور ان سے جنگ و جدال کے لئے کمر ھمت باند ھ لی ، اس طرح کہ مسلمانوں کو کافر کھنا اور ان کو ذلیل سمجھنا اور تمام اسلامی فرقوں کو کافر کھنا اس فرقہ کے راسخ عقیدوں میں سے ھے۔ ان لوگوں نے تاریخ کے بے رحم اور ظالموں و جابروںکے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے خود مسلمانوں کے خلاف قیام کردیا ،اور برادر کُشی شروع کردی ، دشمنان خدا سے جنگ کرنے کے بجائے اپنی پوری طاقت کے ساتھ سچے مومنوں اور مسلمانوں سے نبرد آزماں ھوگئے۔ [3] جبکہ عالمی استعمار بھی یھی سب کچھ چاہتا تھا ،عالمی استعمار کے اھداف و مقاصد، اسلام و قرآن کو نابود کرنا ، اسلام کی آزادی اور تکامل تک پھنچانے والی تعلیمات نیزمشکلات کو حل کرنے والی تعلیمات کو بھی ختم کرنا ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کانا ، اور ان میںاختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا ھے، اور وھابیت استعمار کی اس خواہش کو پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ چاہتی ھی نھیں ھے ، آج کل وھابیت دانستہ یا نادانستہ طور پراستعمار کی مدد میں مشغول ھے ،اور اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ استعمار کے نا پاک ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رھا ھے ، مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا عالمی استعمار کی پرواز میں اس کو تقویت کرنے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے جبکہ مسلمانوں کو متحد ھو کر کفار اور مشرکین اور ستم گروں کا مقابلہ کرنا چاہئیے تھا ۔ کیا وہ لوگ مشرک نھیں ھیں جھنوں نے اپنی پوری قوت کو اسلام کے مقاصد کو پورا کرنے میں صرف کرنے کے بجائے اسلام اور قرآن کے دشمنوں سے عقد اخوت پڑھ لیا ھے ، اور ان کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے ھیں اور ان سے دوستی کرتے ھیں۔ خرید کران سے اسلامی انقلاب ایران ، شیعوں اور ان کی مقدسات کے خلاف کتابیں اور رسالے لکھوائے ، اور ان کی ڈیوٹی لگائی،کہ انقلاب اسلامی ایران اور پاک و پاکیزہ شیعہ مذھب پر ایک فرھنگی ، فکری حملہ کریں ، یھاں تک کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے بارے میں ۷ا کتابیں ان کی ضد میںچھاپی گئی ھیں ، اور حضرت امام خمینی ۻ کے خلاف لا تعداد کتابیں ھیں جن میں ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ھیں ، اسی طرح اسلامی انقلاب ایران کے خلاف بھی بہت سی کتابیںچھپی ھیں ۔ بے شرمی ، عداوت اور کینہ اس حد تک بڑھ گیا ھے کہ امام خمینی ۻ کی تقریر کا ایک جملہ کو لے کر اس اپنی مرضی کے مطابق تاویل کرتے ھیں اور اس کے خلاف تبلیغات کرتے ھیں۔ لیکن وہ مسلمان جو حاجت مند اور پاک دل ھیں، انھیں لوگوں کے ظلم و ستم سے مجبور ھو کر حضرت رسول اسلام (ص)کی قبر منور پر گریہ و زاری کرتے ھےں،وہ مشرک اور بت پرست ھےں؟ اور تعجب تو اس بات پر ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر مقدس کو ” بڑا بُت “ کہتے ھیں اور سُوپرطاقتوں کے کہ جن کا پیشہ ھی جنایت ھے رسوا کن پرچم کے نیچے جانے میں اپنے لئے افتخار سمجھتے ھیں ، لیکن خدا کے مقرب اور کامل بندوں کی کہ جو غیب کی بھی خبر رکھتے ھیں اور ان کا پاک دل عالم ملکوت سے متصل ھے ، کی در گاہ میں حاجت روائی کیلئے حاضر ھونا ان کے نزدیک شرک اور بت پرستی ھے۔ واقعاً بہت تعجب ھوتا ھے کہ آج کل اسلام خود اپنے ماننے والوںکے در میان اکیلا اور مظلوم ھے ،بداٴ الاسْلامُ غَریباً وَ سَیَعُودُ غَریباً فَطُوبیٰ لِلْغُرَباء ! جی ھاں انھوں نے امام علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اسلام کا لباس الٹا اوڑھ لیا ھے اور اسلامی اھداف کو ذرہ برابر بھی نھیں سمجھے ھیں ورنہ یہ کیسے ممکن ھے کہ کوئی مسلمان ،کفار اور مشرکین کی آغوش میں بیٹھ کر توحید کا دم بھرے ، اور ان ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ دوستی اور محبت برقرار رکھیں کہ جو توحید کو مٹا ناچاہتے ھیں ، نیز یہ کیسے ممکن ھوسکتا ھے کہ کوئی اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کام کرے ، اور ان کو کافر اور مشرک بتائے اور اس کے بعد توحید ( عبادت در توحید) کا دعویٰ کرے ، ان کی عبادت کی عجیب شکلیں ھیں کہ جن سے عالمی سیاست دانوں کی گندی بو آتی ھے ، اور کیا ان لوگوں کے سامنے تواضع اور انکساری کرنا شرک نھیں ھے ؟ کیا صرف حضرت رسول اسلام ، سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آستانہ مقدس میں اپنی حاجات کو پیش کرناشرک ھے۔ کیا ذلت اور رسوائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا توحید کے منافی نھیں ھے؟ کیا ائمہ معصومین (ع) کی زیارت کیلئے جانا اور اپنی حاجات پیش کرنا ، اور ان کے پاک و پاکیزہ نفوس کے ذریعہ الھام لینا ،توحید سے سازگاری نھیں رکھتا ؟! یہ ھیں عبادت میں توحید کے معنی! ظالموں اور کفر کے حامیوں سے دوستی ، کیا مسئلہ توحید کو نقصان نھیں پھونچاتی،اور خدا کے ان صالح بندوں سے جو فیض میں واسطہ ھیں اور اسما ء و صفات پروردگار کے مظھر کامل ھیں، ان سے توسل، مکتب توحید کو ضرر پھونچاتا ھے۔ [4] ما در پیالہ عکس رخ یاردیدہ ایم ای بی خبر زلذت شرب مدام ما ” ھم نے اپنے محبوب کے عکس کی جھلک کاسہٴ ( عشق ) میں دیکھی ھے تمھیں کیا خبر ھم ھمیشہ کس چیز کا جام لیتے ھیں “ ۔ یہ نا فھم، حضرات معصومین علیھم السلام اور اولیاء الہٰی کے پاک و صالح بندوں کی زیارت کو ان کی پوجا سمجھتے ھیں اور ان کے زائرین کو ان کا عبادت گذار مانتے ھیں ، ان کو نھیں معلوم کہ ھم ان کا احترام و اکرام ان کی عبودیت اور بندگی کی وجہ سے کرتے ھیں کیونکہ انھوں نے خداوندعالم کی اس طرح عبادت اور بندگی کی کہ خداوند عالم سے ان کا محکم و مضبوط رابطہ ھوگیا ، ورنہ خود ان کا کوئی مقام نھیں ھے ، ان کا احترام فقط خدا کی وجہ سے ھے ، یھی وجہ ھے کہ کوئی زائر کسی فاسق و فاجر کی قبر پر نھیں جاتا ، بلکہ اس با عظمت شخص کی قبر پر جاتا ھے کہ جس نے اپنی عمر خانہ کعبہ کے طواف میںگذاردی ھو ، شاعر کہتا ھے : سالھا عشاق خاکم را زیار نگہ کنند چونکہ من روزی طواف کوی جانان کردہ ام ”سالھا سال سے میری قبر زیارت گاہ بنی ھوئی ھے ، کیونکہ میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا ھے“ ۔ واقعاً انسان کو تکلیف ھوتی ھے اور حضرت امام علی کے فرمان کے مطابق ”وَ اللّٰہ یُمیتُ القلبَ“ اس موقع پر ھر مومن اور متقی انسان کا خون کھول جاتا ھے ۔ خلاصہ یہ ھے کہ وھابیوں کے عقاید ان کی بے بنیادی اور انحرافی عقیدت کے بارے میں اس کتاب کے آئندہ صفحات پر بیان ھونگے ، لیکن ھم یھاں پر چند نکات کو مقدمہ کے طور پر بیان کرتے ھیں تا کہ بحث کا زمینہ ھموار ھوجائے اور قارئین کرام کے ذھن و فکر میں وسعت پیدا ھوجائے تا کہ آئندہ ھماری باتوں کو دقت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں ۔ عالمی استعمار اور فرقہ بندی
اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ استعمار اور استکبار اپنی فاسد حکومت قائم کرنے کیلئے راستہ ھموار کررھا ھے ، اس کا ھمیشہ سے یھی نعرہ رھا ھے ” لڑاوٴ اور حکومت کرو“ عالم اسلام میں ایک دوسرے کے خلاف تکفیر و تفسیق(دوسرے کو کافر اور فاسق کھنا) کے فتوی کی فضا ایجاد کرنا اس کے اھم مقاصد میں سے ھے۔پس فرقے سازی اور مذھب تراشی کی بہت بڑی وجہ استعمار ھے کہ مسلمانوں کے درمیان تکفیر دوسرے فرقوں کے خلاف بدبینی،تھمت اور اسلامی شخصیتوں کے خلاف جھوٹ کی نسبت جیسی نحس فضا کو ایجاد کرنا ، اگر ھم دیکھیں تو استعمار کا سب سے اھم ہتھکنڈا، مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے یھی تفرقہ اندازی ، فرقہ بندی، پیامبر تراشی ھے اورھماری یہ بات بالکل حقیقت ھے اس میں کوئی بھی مبالغہ نھیں ھے۔ [5]
اس بات کو واضح کرنے کیلئے ھم پھلے چند مطالب کو بعنوان مقدمہ بیان کریں گے اور اس کے بعد اپنی اصلِ بحث کا آغاز کریں گے ، تا کہ معلوم ھوجائے کہ استعمار نے ایسے اقدامات کیوں کئیے ، اس کے اغراض و مقاصد کیا ھیں اور کن مکاّریوں کے ساتھ ان اھداف تک پھونچنا چاہتا ھے۔ استعمار کے اھداف اور اس میں روکاٹیں
استعماری طاقتیںدوسرے ممالک پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے خصوصاً ضعیف اور کمزور ممالک پر ، اور ان کی مادی اور معنوی دولت کو غارت کرنے کیلئے کچھ موانع سے ھمکنار ھوتی ھیں ، اور کسی بھی ملک میں آسانی سے داخل نھیں ھوئی اور نہ کبھی ان کا کوئی استقبال ھوا ھے ، خصوصاً ان کو آتے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ھے ، [6]
غریب اور کمزور ممالک میں اپنے کلچر کو جاری کرنا استعمار کی ایک نئی چال ھے تاکہ ان ممالک کو تباہ و برباد کرسکے، سارے افکار کو ختم کرکے ان کی جگہ غلط اور برے افکار کو لوگوں کے ذھن میں ڈالنا ، اخلاقی مفاسد کو رواج دینا ، سیکس کی طرف لوگوں کا جذب کرنا ،جاسوسی اڈّے بنانا،نیز ہزاروں مختلف طریقوں اور چالوں سے استعمار اپنے شیطانی مقاصد کو پورا کرنا چاہتا ھے مثلاً سیکڑوں بکے ھوئے رائٹروں کو نوکری دینا ، لوگوں کے ذھنوں کو خریدنا،اور لوگوں کی صحیح و سالم صلاحیتوں کو ناکارہ بنانا ، چونکہ اپنے ناپاک مقاصد کے سامنے اسلامی طاقت کو ایک رکاوٹ کی طرح دیکھتاھے اسی وجہ سے ”حقیقی اسلام “ کو بدل کرایک ” نقلی اسلام “ ایجاد کرنے کی فکر میں لگا ھوا ھے تا کہ حقیقی اسلام کی اھمیت اور خاصیت کو ختم کرکے اس سے مقابلہ کیا جائے ، اسی چیزکے مد نظر اسلامی ممالک میں جعلی مذھبی فرقے ایجاد کررھے ھیں تا کہ حقیقی اور انقلابی اسلام کو پھیلنے سے روک سکیں ۔ لوگوں کا متحرک اور استعمار کے مقابلہ کیلئے قیام کرنے کے ، بہت سے عوامل اور اسباب ھیں مثلاً قومی ، لسانی، ثقافتی اورمذھبی،ان میں سے بعض اسباب صرف تھوڑی مدت کیلئے کارگر اور مؤثر ھوتے ھیں تا کہ ایک مخصوص زمانہ میں استعمار کامقابلہ کما حقہ کرسکیں لیکن اس کے بعد آھستہ آھستہ وہ کم رنگ ھوجاتی ھیں ، اور اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ھیں ، لیکن ان سب رکاٹوں میں اگر کوئی رکاوٹ محکم بند کی طرح استعمار کے مقاصد کا مقابلہ کرسکی تو وہ ھے” قدرت دین“ اور لوگوں میں مذھب کا نفوذ ، اور دین بھی دین اسلام ، یہ وہ چیز ھے کہ جس کا استعمار نے ھمیشہ اعتراف کیا ھے ۔ مثلاً قدیمی استعمار کا نمایندہ ” انگلینڈ کی پارلیمینٹ “ میںقرآن کو ھاتھ میں لیکر کہتا ھے : ”یورپ کو معلوم ھونا چاہئے کہ جب تک مسلمانوں کے پاس یہ راھنما کتاب موجود ھے اور مسلمان اس پر عمل کرتے رھیں گے، تب تک ھماری استعماری سیاست ان کی سرزمینوں پر قائم نھیں ھو سکتی “ [7] نقش قرآن چون در این عالم نشست نقشہ ھای کاھن و پاپا شکست فاش گویم آنچہ در دل مضمر است این کتابی نیست چیزی دیگر است چونکہ در جان رفت جان دیگر شود جان چو دیگر شد جھان دیگر شود ”اگر قرآن کی تعلیمات پر انسان عمل کرے تو اس میں انقلاب آجاتا ھے اور جب انسان انقلابی ھوجاتا ھے تو وہ دنیا میں بھی انقلاب لاسکتا ھے“ ” میں اپنے دل کی بات کو واضح طور پر کھناچاہتا ھوں کہ قرآن ایک کتاب نھیں بلکہ کوئی اھم چیزھے “ ”اگر یہ قرآن انسان کی روح میں بس جا ئے تو روح انسان منقلب ھو جاتی ھے اور جب روح منقلب ھو جاتی ھے تو دنیا میں انقلاب برپا ھو جاتا ھے “ اور آج جبکہ اسلامی نسیم سحر شروح ھو چکی ھے اور تحریک کنندہ جھونکوں کے ساتھ صبح پیروزی کی خبردے رھی ھے سارے وحشی استعمار اور ظالم و جابر متفق ھو کر یہ کہہ رھے ھیں : ” ھمارے منافع کیلئے سب سے بڑا خطرہ اور رکاوٹ ”اسلام“ ھے کیونکہ دین اسلام کچھ ایسی ھی خاصیتوں کا حامل ھے کہ جو اکیلے ھی استعمار کے اھداف میں ایک اھم مانع ھے ، جبکہ دوسرے مذاھب میں یہ خاصیت نھیں ھے ان میں سے چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے۔ اسلامی تعلیمات کا اثر
اسلام کی حیات بخش تعلیمات اور اس کے عبادی و سیاسی احکامات ھمیشہ شیاطین اور استعمار کے لئے خطرہ تھا کہ جو اِن کے ناپاک ارادوں کیلئے سرزنش تھا ، کیونکہ اسلام نے ھر قسم کے استعمار ، استثمار(دوسرے کی محنت سے خود فائدہ اٹھانے والا ) اور بد معاشی ، غنڈا گردی کی مذمت کی ھے اور اس کو قبول نھیں کیا ھے ، اور مسلمانوں کو ظلم اور ظالم کے خلاف تحریک کیا ھے، روئے زمین پر عدالت اجتماعی قائم کرنے کیلئے اور لوگوں کو استعمار کے قید و بند سے آزاد کرانے کیلئے، نیز فتنہ اور فتنہ گروں کے خاتمہ کے لئے ، اسلام اپنے ماننے والوں کو ھر موقع پر مقابلے کی دعوت دیتا ھے ، البتہ یہ آزادی کا نعر ہ صرف مسلمانوں کی آزادی کیلئے نھیں ھے بلکہ دنیا بھرکے تمام محروم اورمظلوم لوگوں کیلئے ھے ۔ [8]
مَنْ اَصْبَحَ وَ لَا یَہتَمَّ بَاُمورِالمُسْلِمِین فَلَیْسَ بِمُِسْلِمٍ “۔ جو شخص صبح اٹھ کر دوسرے مسلمانوں کے بارے میں نہ سوچے وہ مسلمان نھیں ھے۔ وَ مَن سَمِعَ رَجُلاً یُنادِی یَا لَلْمُسْلِمِیْنَ فَلَمْ یُجَبْہُ فَلَیسَ بِمُسْلِمٍ۔ [9] جو شخص کسی کو مدد کے لئے پکارے اور وہ جواب نہ دے تو وہ مسلمان نھیں ھے ۔ اسلام، مسلمانوں کو کفار سے ھر قسم کی دوستی سے منع کرتا ھے [10]اور ان کے پاس آمد ورفت ، انکی رھبری کو قبول کرنے [11] اور ان سے مشورہ کرنے سے روکتاھے ، اور کلمہ توحید کے سایہ میں اپنے ماننے والوں کے چاھے جس قوم و قبیلہ سے بھی ھوں ، ھر طرح کی امتیاز بندی کو ختم کرکے ، اتحاد کی دعوت دیتاھے ، اور اس زمین پر حکومت الہٰی چاہتا ھے [12]یا ایسی جس میں لوگ ایک دوسرے سے مل کررھیں [13] [14] ۔ [15] جیسے محکم رشتہ سے منسلک ھوں اور ایک جسم کے اعضاء کے مانند اگر ایک عضو کو تکلیف ھوتی ھے تو دوسرے اعضاء بھی پریشان ھو جاتے ، ھیں اور آیہٴ کریمہ کے مطابق : مُحمدٌرَسوُلُ اللهِ وَالَذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّاءُ عَلی الکُفَّارِ رُحْمَاءُ بَیْنَہُمْ [16]” مسلمان آپس میں رحم دل اور کفار کے مقابلے میں سخت ھیں ، اسلام اپنے ماننے والوں کی ایسی متحد اور مستحکم بنیان مرصوص ( سیسا پلائی ھوئی دیوار ) ھیں کہ دشمنوں کو پریشان کردیتے ھیں“ [17] یہ سب تعلیمات اسلامی مسلمانوں کیلئے ھمیشہ باعث تقویت اور ستمگروں اور مستکبروں کے خلاف الھام کا باعث بنا ، اسلام نے انھیں تعلیمات کے ذریعہ صدر اسلام کے مسلمانوں میں ، ظلم کے مقابلے میں تحریک ، اور انقلاب ایجاد کیا ھے ۔ اور اگر آخری صدی کے انقلابات کو ملاحظہ کریں تو ھمیں اسلام کی حیات بخش تعلیمات کا صحیح اندازہ ھو جاے گا ، کہ کس طرح ظلم و ستم کے خلاف اپنی آواز بلند کی ھے ۔ جسے دوست اور دشمن سب کہتے ھیں کہ الجزائر میں انقلاب کی وجہ اسلام ھے کہ جس کی وجہ سے فرانس کو نکال باھر کیا ۔” گولیٹ “ اور ” فرانسیس جانسون “ دو مشھور و معروف رائٹر اس سلسلہ میں لکھتے ھیں : ”یہ ایک مسلم حقیقت ھے کہ اھل الجزائر کو آزادی کا سبق اسلام نے سکھا یا ھے ، الجزائر والوں نے بہت پھلے سے استعمار کے ظلم و تشدد کو برداشت کیا ھے ، فرانسویوں کا اصل مقصد اسلام کو مٹانا تھا، اھل الجزائر نے جب یہ سمجھ لیا کہ اسلام ھی ان کیلئے راہ نجات ھے ، توسب لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تا کہ ان کو آزدی مل سکے“ [18] اسی طرح کا اسلامی انقلاب عالم ربّانی، فقیہ عارف ومجاھد حضرت امام خمینی (رہ) کی رھبری میں ایران میں آیا ، اور اسلامی حکومت تشکیل پائی ،یہ انقلاب، اسلام کے نام پر اور اس کی حیات بخش تعلیمات کے ذریعہ آغاز ھوا اور الحمد للہ کامیابی حاصل ھوئی۔ خلاصہ یہ ھے کہ جس قوم میں بھی یہ تعلیمات پائی جائیں اور اس پر عمل بھی ھو بغیر کسی شک کے وہ قوم خود اپنے قسمت پر حاکم ھوگی ، اور استعمار ایسی امت پر مسلط ھونے کی امید بھی نھیں کرسکتا۔ [19] استعمار کی ترکیبیں
جب استعمار نے اپنے سامنے اس بڑی رکاوٹ اورمضبوط قلعہ کو دیکھا تو ان سے مقابلے کیلئے مختلف راستے تلاش کرنے شروع کردئے اور اپنی پوری طاقت کو ان رکاوٹوں کی نابودی کیلئے صرف کردی ، اور مختلف طریقوں سے یہ کام انجام دیا، [20] ھم یھاںپراس کی فھرست بیان کرتے ھیں :
میں بھی ، اسلام کے زندگی ساز احکامات پر اعتقاد اور عمل ، مسلمانوں کی کامیابی کا سبب ھے اس طرح ایران میں بھی جس وقت حقیقی اسلام ( نہ کہ بناوٹی اسلام کہ جو روح اور معنویت سے خالی ھو) لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنالیتاھے دیندار اور شجاع مسلمان بیدار ھوجاتے ھیں ، اور اپنے بت شکن رھبر ( حضرت امام خمینی ۻ) کی اطاعت کرتے ھیں اور ان کی راھنمائیوں کی وجہ سے اپنے زمانے کے طاغوت پر کامیابی حاصل کر لیتے ھیں ، اور اسی طرح لبنان افغانستان ، مصر اور دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ھوئے ھیں، جس وقت مسلمانوں نے دین اسلام کی طرف توجہ کی اور اس کے انقلابی احکامات سے الھام لیا تب ھی ان کو عزت ، شرف اور سرفرازی نصیب ھوئی ھے او راستکبار جھانی کی کمر توڑ ڈالی او راس کو ذلیل وخوار کرڈالا ھے ۔ ”استعمار گر ، اور استعمار شدہ میں بیگاری ( بغیر پیسہ کے مزدور ی) خوف و وحشت ، پولیس ، ٹیکس ، چوری ، اھل خانہ کو بے آبرو کرنا ، دوسرے کلچر کو زبردستی رواج دینا ، ذلت اور بدگمانی ، اپنا مفاد ، فتنہ وفساد اوربد مزگی ایجاد کرنا، بے وقوفوں کو انتخاب کرنے اور فاسد لوگوں کے جمع ھونے کے علاوہ اور کچھ بھی نھیں ۔انسانی تعلقات اور روابط کچھ نھیں صرف ڈکٹیٹر شپ ھے : یھاں تک کہ ھر قدم پر ان کی اطاعت کرتے رھو ،ورنہ سخت سے سخت سزا جھیلنے کے لئے تیار ھو جاؤ ، کیونکہ ھرشخص ان کی نظر میں ایک مشین جیسی حیثیت رکھتا ھے ،استعمار انسان کی اھمیت کو پامال کرتاھے ، اور مجھ سے ترقی کی باتیں کرتا ھے ، تاسیسات ،بیماریوں پر کنٹرول اور اعلی زندگی کی گفتگو کرتا ھے ، اور میں لوگوں کی تاراج ھونے کا ذکر کرتا ھوں، میں اس کلچر کی گفتگو کرتا ھوں جو اجاڑدی گئیں میں ان انجمنوں کا ذکر کرتاھو ںجو ختم کردی گئیں، میں ان زمینوں کا ذکر کرتا ھوں جو غصب کرلی گئیں ، میں ان مذھب و ملت کا ذکر کرتا ھوں جو نیست و نابود کردئے گئے ، میںان تمام بہترین امکانات کا ذکر کرتاھوں جو ختم کردئے گئے ، استعمار اپنی بہت سی کارکرد گی کو میرے سامنے رکھتے ھیں ،جیسے سڑکیں بنوانا، ریلوے لائن بچھواناوغیرہ وغیرہ۔ میں ان ہزاروں لوگوں کے بارے میں کہتا ھوں کہ جو ” کنگو“ میں ماردئے گئے، میں ان کے بارے میں کہتا ھوں کہ جو ابھی تک ” ابیجان“ میں قید ھیں ، میں ان کروڑوں لوگوں کی بات کرتاھوں کہ جن کو ایمان، زمین، رسم و رواج اور زندگی سے کلی طور پر محروم کردیا گیاھے۔ میں ان کروڑوں لوگوںکی بات کرتاھوں کہ جن میں خوف و وہشت ذلت و خواری ، ناامیدی اور غلامی کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ھے ، مجھ سے تمدن کی باتیں کرتے ھیں میں ان لوگوں کی باتیں کرتا ھون کہ جن کو غریب اور فقیر مزدور طبقہ میں تبدیل کردیا گیا ، اور آج بھی ان کو بے وقوف بنایا جارھا ھے “ قارئین کرام : یہ تھے ایک افریقی شاعر اور لائیٹر کی دردناک فریاد ، اور آتشی جملے ، جو تمدن جدید !! کے ظلم و تشد د کو بیان کرتے ھیں اور یہ وھی قدیم زمانے کی جاھلیت اور بربریت ھے جو اپنا چھرہ بدل کر لوگوں کو دھوکہ میں ڈالے ھوئے وھی سب کارنامے انجام دے رھی ھے ۔ افریقی مصنف ان باتوں کو بیان کرتے ھیں اور عدالت میں کھڑا کرتے ھیں اور صرف یہ تو استعمار کے ظلم وتشدد کا ایک نمونہ اس کتاب سے پیش کیا ھے خود کتاب میں بہت سے دردناک واقعہ بیان کے گئے ھیں ۔ ا۔ بلا واسطہ مقابلہ
الف: فوجی مقابلہ
اسلامی ممالک پر فوجی قبضہ کرنا جیسے : عراق ، افغانستان ، ایران ، الجزائر وغیرہ پر ۔
ب: اسلامی تعلیمات پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ھونا مثلاً اسلامی تعلیمات میں ردو بدل اور اسلامی احکام کو برعکس پیش کرنا ، اور اسلام اور اس کی مقدس چیزوں پر تھمتیں لگانا۔ ۲۔ بالواسطہ مقابلہ
الف: مسلمانوں کے درمیان فحشاء و منکر اور غلط چیزوں کا رائج کرنا تا کہ مسلمانوں کودین اسلام سے بے توجہ کردیں ۔
ب: مسلمانوں میں قومی اور قبائل احساسات کو بھڑکا کر ان میں اختلاف ایجاد کرکے الگ الگ گروہ میں باٹنا ۔ ج: مسلمانوں میں ایک دوسرے کے خلاف تھمتیں، تکفیر اور دوسری برائیوں کو ھوادے کر اس میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا۔ یہ بات واضح ھے کہ مذکورہ مطالب کی توضیح اور وضاحت کرنے کیلئے ایک بڑا وقت در کار ھے جس سے ھم قاصر ھیں اور ھم اپنی بحث کی مناسبت سے صرف ” فرقہ سازی اور مذھب تراشی “سے بحث کریں گے ، اور اس بحث اپنی اصل بحث (فرقہ وھابیت )کا مقدمہ قرار دیں گے تا کہ قارئین کرام پوری بصیرت کے ساتھ آئندہ کی بحث میں داخل ھو سکیں ۔ استعماراور فرقہ بندی
استعمار کا سب سے اھم قدم ، مسلمانوں کے اتحاد عظمت اور ھیبت کو ختم کرنے اور اختلاف و تفرقہ ایجاد کرنے کیلئے (اٹھایا ھے اور اٹھاتاآرھا ھے ) یھی فرقہ سازی ،مذھب تراشی اور جھوٹے اور استعمار ی دین بنانا ھے ،تا کہ حقیقی اسلام کو نابود کرنے کے ساتھ اپنے اصلی ھدف (مسلمانوں کو متفرق کرنا)کوبھی عملی جامہ پھناسکے،انگلیڈ کا بوڑھا استعمار اپنے جاسوسوں کو اس طرح ھدایت کرتا ھے کہ جو مسلمانوں کے علاقے میں مشغول تھے :
”اسلامی علاقوں میں من گھڑت اور جعلی مذاھب کے عقائد کی تبلیغ پوری آب وتاب کے ساتھ اور با قاعدہ طور پر اس طرح ھونی چاہئیے کہ لوگ ھمارے افکار اور نظریات کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ھوجائیں، ان جعلی مذاھب کی تبلیغ و ترویج صرف شیعہ مراکزمیں محدود نھیںھونی چاھیئے بلکہ اھل سنت کے مذاھب اربعہ میں بھی اس طرح کے جعلی مذاھب ھونے چاہئیے اور ان فرقوں کے درمیان شدید اختلافات اور جھگڑے ھونے چاھیئے، اس حد تک کہ ھر مسلمان اپنے کو واقعی مسلمان اور دوسرے کو مرتد ، کافر اور واجب القتل سمجھنے لگیں۔ “ [21] جاسوسوں نے یہ ھدایت حاصل کرنے کے بعد ، دقیق مطالعہ اور موقع شناسی کی اجتماعی اور سیاسی اورافراط وتفریط جیسے تمایلات کو دیکھکر فرقہ سازی شروع کردی،تا کہ اپنے بڑوں کے اھداف کو پا یہ تکمیل تک پھونچاسکیں ۔ اوریہ بات واضح و روشن ھے کہ انگریزوں نے مستقیماً اور بلاواسطہ یہ کام نھیں کیا ھے بلکہ اس ھدف کو پورا کرنے کے لئے ایسے لوگوںکو تلاش کیا ھے کہ جو ایمانِ مستحکم نہ رکھتے ھو ںاور اس میں مختلف رجحان پائے جاتے ھوں ، تا کہ انگریزاس کی مادی اور معنوی حمایت کرکے اس کو فرقہ سازی پر مجبور کردے،مثال کے طور پر دو فرقوں سے ھم زیادہ بحث کریں گے ، جو ھماری کتاب کے لئے مناسب ھیں ۔ فرقہٴ شیخیہ کی پیدایش
جس وقت عراق، حوزہ ھای علمیہ کا مرکز تھا ، استعمار اپنے برے اھداف کو تکمیل کرنے کیلئے فرقہ سازی کیلئے مصم ھوجاتا ھے ۔
دو کٹّر مخالف گروہ تشکیل پاتے ھیں ایک عراق میںکٹّر شیعہ اور دوسرا سعودی عرب میں کٹّر سنی،چنانچہ عراق کےکٹّرشیعہ کا نام ” شیخیہ “ پڑا ، جس کا بانی ”شیخ احمد احسایی “ اور اس کا شاگرد ” سید کاظم رشتی “ تھا ۔ اس فرقہ نے ائمہ علیھم السلام کے مقام و عظمت کو اس قدر بڑھا یا اس قدر بڑھایا کہ خدائی حد تک پھونچا دیا،اور اس طرح کے بہت سے مسائل میں بہت زیادہ غلوسے کام لیا۔ اس فرقہ نےکٹّروھابیت کے ذریعہ شیعوں کے خلاف تھمتیں اور انکے کفر کے فتووں کاراستہ ھموار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ، خشک اور دل خراش طریقوںاسلامی کتب کے دفاع اور علم منطق اور فلسفہ سے جنگ کی غرض سے بہت سے بڑے بڑے شیعہ عالموں کو مانند: ملاصدرّا (رہ)، اور ملامحسن فیض کاشانی (رہ) جیسی بزرگ شیخصیتوں کو کافر کھناشروع کر دیا، [22] شیخ احمد احسایی نے منطق اور فلسفہ نھیں پڑھا تھا لیکن پھر بھی فلسفہ اور عرفان اسلامی میں آگاہ ھونا چاھا ،بغیر کسی استاد کے خود شخصی مطالعہ کرنا شروع کردیا،جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ نہ ھی حکمت اور فلسفہ کو لمس کرسکا اور نہ ھی عرفان کی بوسونگھ سکا ، لیکن پھر بھی اپنے کو اس فن کا مجتھد گمان کرنے لگا ، اور کچھ عقائد کی بناگذاری کی ، اور بڑے بڑے اسلامی فلسفی حضرات کو جیسے ملاصدرا شیرازی اور اسلامی عرفاء جیسے محی الدین عربی یھاں تک کہ تفسیر وحدیث کے بڑے علماء مثل ملامحسن فیض کاشانی کو اپنے کتاب میں نازیبا کھا اور جھوٹی تھمتیں لگائیں ۔ محی الدین عربی کو مُحْبَتُ الدِّیْن ( دین کو نابود کرنے والا ) اور ان کی کتاب فتوحات کوحتوفات(موت و مرگ ) کھا ، اور خود ان کو کافرو ملحد کھا ، ان کی عبادت کو مزخرفات ( بکو اس )کھا ، اور فیض کو ضلالت و گمراھی کھا اور ” ملا محسن “ کھنے کے بجائے ” ملامسنی “ کھا ، اور ان کو اھل بیت علیھم السلام جو ” اَذْہَبَ اللّٰہ عَنہُمُ الرَّجسَ وَ طَہَّرَ ہُمْ تَطْہِیْراً“ھیں ،کا مخالف تصور کیا، اور خود اپنے کو اھل کشف و شھود ، اور راہ اھل بیت علیھم السلام کا موافق جانا، اور ظاھر ھے ان غلط اور نازیبا تھمتوں کو دیکھکر ھر صاحب عقل انسان اور صاحب علوم الہٰی سمجھ جاتاھے کہ وہ کچھ بھی نھیں سمجھا ھے، [23] در حالیکہ اس فرقہ کی کار کردگی عراق میں تھی ، اور اس وقت عراق حکومت عثمانی کا جز مانا جاتا تھا ، اور حکومت عثمانی خود ایک متعصب سنی حکومت تھی ، لیکن پھر بھی علماء شیعہ کو کہ ان پر حکومت سختی کرتی تھی ، شیخیہ میں شامل نھیں کیا بلکہ ان کو بھی آزادی دے دی ، کیونکہ استعمار کی نگاہ میں امت اسلامی میں تفرقہ اور مرکز مقاومت کو در ھم وبر ھم کرنا اھم ھے ، چاھے وہ کسی بھی طرف یا کسی بھی ذریعہ سے ھو۔ وھابی فرقہ کی ایجاد
دوسری طرف استعمار نے کٹّرسنی گروہ ایجاد کیا کہ جس کا نام وھابیت پڑا ، انگلینڈ کے جاسوسوں نے محمد ابن عبدالوھاب میں جاہ طلبی ، اخلاقی کمزوریاں اور افراطی افکار کو دیکھا تو اس کو فرقہ بنانے کیلئے مناسب پایا ۔ اسی وجہ سے ھر موقع پر اس کی ھمراھی کرتے رھے ، اور اس نے موقع غنیمت دیکھ کرنئے مذھب کا ا علان کردیا ، اور پھر انگلینڈ کے فرمان کے مطابق اس کے ایک نوکر خاص یعنی سعودبن عبدالعزیز سے ملحق ھوگئے ، اور اپنی تمام کوشش صرف کردی یھاں تک کہ اس نے اپنے مرید پیدا کرلئیے ، اور اپنے وظیفہ پر عمل کرتے ھوئے شیعہ حاجیوں کو قتل کیا ، بلکہ ھر اس شخص کو قتل و غارت کرنے لگے جو اس کے نئے دین کو قبول نہ کرے ، چاھے وہ ” شیعہ ھو یا سنی “ اور جو شخص حضرت رسول خدا(ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی زیارت کا قائل ھو اس کو کافر اورمشرک کہتے اور اس کے ساتھ وھی کفار و مشرک جیسا سلوک کرتے تھے ، آخر کار وھابیت نے
” شیخ احمد احسایی“ کی لکھی ھوئی کتاب ” شرح الزیارة “ جس میں ائمہ علیھم السلام کے بارے میں غلو اور خلفاء ثلاثہ پر لعنت کے جائز ھونے کے بارے میں (تفصیل سے) لکھا تھا، کی وجہ سے شیعوں کے قتل کے فتوے صادر کردئے ، اور چونکہ عراق ، حکومت عثمانی کا ایک حصہ تھا ، سعودی عرب سے آزادانہ طور سے عراق کی زیارت گا ھوں پر حملہ آور ھوگئے ،اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے روضوں کو تباہ و بر باد کردیا اور شیعوں کو قتل کرنا شروع کردیا ، نیز علماء شیعہ میں سے جس کو بھی فرقہ شیخیہ کا مخالف پایا اس کوقتل کرڈالا ۔ ایک اھم بات یہ ھے کہ اس قتل و غارت میں سید کاظم رشتی کہ جو کتاب شرح الزیاة کا مروج اور شیخ احمد احسایی کا شاگرد اور نایب تھا ، کے گھر کو کچھ نقصان نھیں پھونچا بلکہ اس کا گھر جائے امن قرار پایا ۔! فرقہ وھابیت ، مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے ، دوسرے اسلامی فرقوں کو کافر کھنے ، اسلامی تعلیمات کو نابود کرنے ، اور ظالموں اور استعمار گروں سے دوستی میں خلاصہ ھوتا ھے، [24] سعودی عرب جو اس فرقہ کا مرکز ھے ، سے ” شرک“ اور ” کفر “ کے فتویٰ آسانی کے ساتھ صادر ھوتے ھیں ، اور انسان وھاں حج کے موقع پرامر بالمعروف کمیٹی کے ذریعہ ، مشرک ، کافر جیسے الفاظ کو زیادہ سنتا ھے ، اور اس وقت اس فرقہ کی سرگرمیاں زیادہ بڑھ گئی ھیں ھر روز ایک مقالہ یا کتاب اسلامی مقدسات کے خلاف لکھی جاتی ھے اور تیل کی درآمدسے ایک بہت بڑی تعداد میں چھپتی ھیں ، تا کہ اپنے مالکوں کی خواہشات (مسلمانوں کے اتحاد میں رکاوٹ ڈالنا اور ان میں ایک دوسرے کے خلاف کفر اور فسق و فجور کی نسبت دینے کی فضا قائم کرنا ھے )کو پورا کرسکےں۔ [25] فرقہ وھابیت اور فرقہ شیخیہ کے غلط نظریات کی بنا پر فتنہ و فساد اور خونریزی ھوئی ، اور مسلمان مارے گئے ،محمد ابن عبد الوھاب نے ابن تیمیہ کے طرز فکر کو عملی بنایا جو خود ( ابن تیمیہ ) ابن تُومرْتْ کی طرح شھرت اور مقام چاہتا تھا ،ابن تو مرت نے شمالی افریقہ ، اسپین ، الجزائر ، مراکش اورتونس کے بعض حصوں میں مھدویت کا دعویٰ کرکے دو سو سال تک اپنی حکومت باقی رکھی ، اس کو ” مھدی الموحدین “ کہتے تھے محمد ابن عبد الوھاب نے محمد سعود کو اپنا ھم خیال بنایا اور اس کے ساتھ مل کر کام شروع کردیا ،انکے ھاتھوں میں ننگی تلواریں ھوتی تھی جدھر سے بھی گذر ھوتا تھا قتل غارت اور خونریزی ھوتی تھی ، دوسرے تمام مسلمانوں کوکافر کہتے تھے ، اور جو شخص ان کے حکم و اطاعت سے روگردانی کرتا تھا ان کو قتل کردیتے تھے واقعاً وھابیت کے فتنہ و فساد عجیب و غریب ھے جس کا خسارہ عالم اسلام ابھی تک برداشت کررھاھے ۔ [26] ھم انشاء الله تعالیٰ اسی کتاب میں فرقہ وھابیت کے اصول عقائدکی بحث وبررسی کرنے کے بعد ان کا مدلل اور مفصل جواب دیں گے، لیکن ان کے عقائد کو بیان کرنے سے پھلے اس فرقہ کے موسس محمد ابن عبدالوھاب کی زندگی کے حالات بیان کرتے ھیں ۔ اس کے بعد اصل موضوع شروع کریں گے اس فرقہ کے موٴسس کے حالات بیان کرنے سے پھلے ان چند لوگوں کی زندگی پر بھی اشارہ کریں گے جن کی طرز فکر پر یہ فرقہ ایجاد ھوا ھے، لہٰذا سب سے پھلے محمد ابن عبد الوھاب کے فکری اساتید پر ایک نظر ڈالیں گے اور پھر خود محمد ابن عبد الوھاب کی حالات زندگی پر بحث کریں گے۔ فرقہ وھابیت کا فکری سرچشمہ
ھم نے وعدہ کیا ھے کہ ھم پھلے ان لوگوں کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں گے جو فکری اعتبار سے اس فرقہ کے بانی ھیں، لہٰذا اس سلسلہ میں چند لوگوں کا ذکر کیا جاتا ھے تا کہ معلوم ھوجائے کہ فرقہ وھابیت کی اصل ابتداکھاں اور کن لوگوں کے ذریعہ ھوئی ھے ؟ اور کس طرح پھیلا ھے ، اور کیسے کیسے برے کارنامے انجام دیتے ھیں ؟ اور آج کل اس کی موجودہ حالت کیا ھے ، ابن تیمیہ سے شروع کرتے ھیں ، جومحمد ابن عبد الوھاب کا فکری استاد ھے ۔
فرقہ وھابیت کے موٴسسین کے نظریات
اور ان کی تحقیق و بررسی
ابن تیمیہ کے حالات زندگی
محمد ابن عبد الوھاب کے حالات زندگی میں لکھا ھے کہ : اس کوبچپن ھی سے احادیث ، تفسیر اور عقائد کی کتابیں پڑھنے کابہت زیادہ شوق تھا ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیّم کی کتابوں کو خاص اھمیت دیتا تھا، اور ان کی کتابوں کو زیادہ پڑھتا تھا [27] اسی وجہ سے ھم ابن تیمیہ کو وھابیت کا معلم فکری اور اس کا موسس قرار دیتے ھوے اس کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں
تقی الدین احمد ابن تیمیہ ۰اربیع الاول ا۶۶ھ ق کو حرّان میں پیدا ھوا اور ۲۰ ذی قعدہ ۷۲۸ھ کو دمشق میں اس دنیاسے چل بسا، یہ حنبلی مسلک تھا اور اس زمانہ کا متکلم اورمفتی تھا یہ شخص ایسے خاندان میں پیدا ھوا تھا جس میں اس سے پھلے اس کا دادا محمو دالدین اور اس کا چچا فخرالدین حنبلیوں کے مشھور و معروف مفتی تھے ۔ ۶۶۷ھ میں مغلوں کے حملہ کی و جہ سے ابن تیمیہ حرّان کو چھوڑنے پر مجبور ھوا ، اور اپنے باپ عبد الحلیم اور تین بھائیوں کے ساتھ دمشق میں جا کر پناہ لے لیتا ھے ، عبد الحلیم نے مدرسہ سُکّریہ دمشق کی ذمہ داری سنبھالی ، اور ابن تیمیہ کی اسی ماحول میں تربیت ھوتی رھی ، اس کے اساتید میں شمس الدین عبد الرحمن مقدسی کا نام بیان کیا جاتا ھے کہ جو شام میں محکمہ قضاوت کے اصلاح کے بعد بیبرس کے ذریعہ دمشق کا سب سے پھلا حنبلی قاضی قرار دیا گیا اور ابن تیمیہ کو مدرسہ سکّریہ کا مدیر بنا دیا گیا ، اور اس نے دوسری محرم ۶۸۳ ھ کو اپنی تدریس شروع کردی ، اور ایک سال کے بعد مسجد اموی میں قرآن کی تفسیر کا درس دیناشروع کر دیا ، اور ا ۶۹ ھ میں حج کرنے کیلئے گیا، اور ۶۹۲ھ میں دوبارہ دمشق واپس آگیا ، اور حج کے زمانے میں جو بدعتیں اس نے وھاں دیکھی ان کو رد کرنے کے لئے ایک کتاب بنام ” مناسک حج “ لکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کتاب کے لکھنے کے لئے اپنی دانست میں کافی مطالب جمع کرکے لایا تھا۔ ۶۹۳ میں اس نے اپنی سیاسی دخالت شروع کردی عسّاف ( عسّاق ) نامی شخص جو نصرانی تھا اس نے حضرت رسول اسلام(ص) کی شان میں گستاخی کی تھی ، اس کے بارے میں ابن تیمیہ کچھ بولے جس کی بنا پر اس کو” کمزراویة“نامی قید میں ڈالد یا گیا ، اور اسی سلسلہ میں اس نے اپنی سب سے پھلی ضخیم کتاب ” الصارم المسلول علی شاتم الرسول “ لکھی [28] ” عصای خیر من محمد فانھا تنفع و محمد لا ینفع “ میرا یہ عصا محمد(ص) سے بہتر ھے کیونکہ وہ فوت ھو چکے ھیں اور اب ان کا کوئی اثر اور خاصیت باقی نھیں ھے لیکن میرا یہ عصا اس وقت مفید ھے !! کیا ان متضاد چیزوں کی کوئی وجہ بیان کرسکتے ھیں ؟! کیا انسان قبول کرسکتاھے کہ ایک شخص جو رسول اسلام(ص) کی زیارت کے سفر کو ”سفر معصیت “اور ان کی قبر کو ”بڑابت “کھے ، ایسا شخص مذکورہ کتا ب لکھ سکتا ھے ؟ ایسا شخص جو اپنے دین و مذھب کے رئیس اور ھادی و رھبروں کا اتنا احترام !! کرے کہ ان کی شان میں نازیبا اور توھین کنندہ الفاظ کھے ، کیا عقل تسلیم کر سکتی ھے کہ ایسا شخص ایسی کتاب لکھے اور اس کا مقصد رسول اسلام(ص) کا دفاع ھو ، یا اس کے پیچھے دوسرے اغراض و مقاصد پوشیدہ تھے ، قارئین کرام ھم ان لوگوں کی منحرف فکر اور تناقض گوئی کے بارے میں مزیداسی کتاب میں بیان کریں گے ۔ مذکورہ کتاب ” الصارم المسلمول علی شاتم الرسول “ میں اور بھی بہت سی چیزیں بیان کی ھیں مثلاً اگر کوئی شخص رسول اسلام(ص) کی شان مقدس میں گستاخی کرے تو اس کا قتل واجب ھے اگر چہ وہ توبہ بھی کرلے یا کافر ذمی ھو، (تب بھی قتل واجب ھو ) اور ایک دوسری جگہ لکھاھے : حضرت رسول اسلام(ص) کی مدح و ثنا اور ان کی تعظیم کرنا ، دین کا احترام و اکرام کرناھے ۔ نیز ایک اور جگہ لکھاھے : مسلمانوں کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ جس نے رسول اکرم(ص) کی شان میں گستاخی کی ھو اس کو معاف کردیں بلکہ پیغمبر اکرم(ص) کی عظمت اور بزرگی کی خاطر اپنی جان و مال کو قربان کرنا واجب و ضروری ھے تا کہ آئندہ پھر کبھی کوئی ایسی ھمت نہ کرسکے“انسان واقعاً اس فرقے اور غلط فکر رکھنے والے اشخاص اور ۷ا شعبان ۶۹۵ھ کو ابن تیمیہ اپنے ایک استاد زین الدین بن منجی کے انتقال کے بعد ، جانشین ملی اور حنبلیوں کے ایک بہت قدیمی مدرسہ میں اپنے استاد کی جگہ پڑھانا شروع کیا ، اور سلطان ملک منصور لاجین کی طرف سے حکم ملا کہ سلطان ، مملکت ارمنستان صغیر پر حملہ کرنے والے ھیں لہٰذا آپ (ابن تیمیہ) مسلمانوں کو جھاد کے لئے آمادہ و تیار کرے ۔ ۶۹۸ ھ میں ” حماة “ کے لوگوں کی فرمایش کی وجہ سے اصول عقائد پر سب سے بڑی کتاب ”الحمویة الکبریٰ“ لکھی جو اشعریوں اور علم کلام کے سخت خلاف تھی ۔ ابن تیمیہ کے مخالف اس پر ” تشبیہ “ کا الزام لگاتے تھے اور خود ابن تیمیہ ، قاضی شھر دمشق جلال الدین احمدرازی کے پاس جانے سے گریز کرتے تھے بھانہ صرف یہ تھا کہ یہ قاضی مسائل عقائد کی رسیدگی کیلئے نھیں ھے ، لیکن امام الدین عمر قزوینی ، قاضی شافعی کے مکان پر ایک خصوصی ملاقات ھوئی جس میں کتاب حمویّة کو مورد بحث قرار دیا گیا ، لیکن اس کتاب کو ” مزاحمت “ کا نام دے کر چھوڑ دیا گیا جبکہ ابن تیمیہ کا کھنا تھا کہ اس کے جوابات قانع کنندہ ھےں ۔ کی تناقض گوئی پرتعجب کرتا ھے، اور کیا آل سعود ابن تیمیہ کی اولاد نھیں ھیں کہ جو بے شرمی اور جرائت کے ساتھ ” احترام بہ دین “ کا بھانہ لیکر حضرت رسول خدا(ص) کی زیارت سے روکتے ھیں ، اور حجاج کرام کو پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ھو کر ان کے ادب و احترام سے منع کرتے ھیں ، کیا یہ سب کچھ پیغمبر(ص) کے احترام میں ھو رھا ھے ؟! تو پھر کیوں پیغمبر(ص) کے فرمان پر عمل نھیں ھو رھا ھے ؟ حج کے دنوں میں ” برائت از مشرکین “ (مشرکین وکفار سے بیزاری )نامی مظاھرے سے رو کا جارھا ھے جبکہ خدا اور اس کے رسول(ص) کافرمان ھے اور سنت رسول(ص) ھے، اور اگرکچھ افراد اس سنت نبوی پر عمل کرتے ھیں تو ان پر گولیوں کی بارش کی جاتی ھے اور خالی ھاتھ ہزاروں حاجیوں کو قتل یا زخمی کیا جاتا ھے ؟! مغلوں کے حملہ کے وقت ۶۹۹ ھ کہ جو غازان ایلخان اور امیر مملوک قِبچق کی ملی بھگت سے ھوا تھا ابن تیمیہ دمشق میں تھا اور لوگوں کو جنگ کیلئے آمادہ کررھا تھا ، اور شوال ۶۹۹ میں کسروان کے شیعوں کے خلاف جن پر فرانکسوں اور مغلوں کی مدد کرنے کا الزام تھا) ممالیک کے حملہ میں شرکت کی [29] ۷۰۰ ھ میں مغلوں نے دوبارہ حملہ سے ڈرایا فوراً ابن تیمیہ کو مامور کیا گیا تاکہ جھاد کیلئے لوگوںکو تحریک کرے، اور جمادی الاول ۷۰۰ھ کو قاھرہ گیا تا کہ سلطان مملوک محمد بن قلاوون سے شام کی صورت حال کے بارے میں صلاح ومشورہ کرے۔ اور ۷۰۲ھ میں جب مغلوں نے دوبارہ حملہ کیا ھے ، ابن تیمیہ فتح شَقْحَبْ چھارم رمضان ۷۰۲میں شریک تھا ، اس جنگ میں اس کی ماموریت یہ تھی کہ اسلامی مجاھدین کیلئے روزوں کی معافیت کا فتویٰ صادر کرے ، ا س وقت سے ابن تیمیہ پر سختی کا دور تھا، ۷۰۴ ھ میں ابراھیم قطان نامی شخص سے ٹکراؤ ھوا ، کہ جس پر حشیش کے استعمال کا الزام تھا ، اور اس وقت ” محمد بن خباز “ نامی شیخ سے مقابلہ کرنا پڑا ،جس پر ”حد شرعی“ سے فرار کا الزام تھا۔اور اسی زمانے میں چند سنگ تراش لوگوں کے ساتھ مسجد نَرَنج کے ایک پتھر کو کہ جس کو لوگ مقدس مانتے تھے توڑنے گیا ، اور دوسری طرف فرقہ اتحادیہ ، جو ابن عربی کے پیروکار تھے ، مقابلہ کیلئے کھڑا ھوگیا ، اور ان کی ایک عظیم شخصیت بنی شیخ نصرالدین منجی کہ جو بَیْبرَسْ جانشکیر کا مرشد تھا ، اس کو ایک خط لکھا، خط اگر چہ مودبانہ تھا لیکن اس خط میں ابن عربی کے عقیدئہ ” وحدت وجودی “ کی سخت مذمت کی گئی تھی ۔ ۷۰۴ ھ کے آخر میں دوبارہ کسروان کے شیعوں پر حملہ میں شریک رھا ۔ دمشق میں واپس آتے وقت” فرقہ احمدیہ رفاعید“جس کے رئیس پر مغلوں کی حمایت کا الزام تھا ، حملہ کردیا ۔ اسی وقت ابن تیمیہ کے مخالفوں نے مل کر اس کے اعتقاد نامہ پر حملہ کردیا اور اس کی کتاب ”الواسطیہ “ کے کہ جو مغلوں کے دمشق پھونچنے سے پھلے لکھی گئی تھی ، اس کے تمام اصول عقائد پر شک و تردید کرنے لگے، اور اس بارے میں” اَفرَمُ “حاکم دمشق کے حضور میں ۸ و ۲ا رجب ۷۰۵ ھ کو اجلاس رکھے گئے ۔ دوسرے جلسہ میں فخرالدین رازی کا شاگرد صفی الدین ھندی نے بھی شرکت کی اور اپنی رائے کا اس طرح اظھار یہ کیا : ” واسطیہ “ میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی چیزنھیں ھے [30] آخر کار دونوں کو قاھرہ بلایا گیا، اور یہ دونوں ۲۲رمضان المبارک کو وھاں پھونچے، اس کے دوسرے روز ابن تیمیہ قاھرہ کے” قلعہ ارگ“ میں حاضر ھوئے جھاں پر حکومت کے چند بڑے بڑے لوگ اور مصر کے چار قاضی القضات بھی موجود تھے ، جس میں ابن تیمیہ کو ” تشبیہ “ سے متھم کیا گیا اور اس کو قید کی سزا سنادی گئی ، ابن تیمیہ تقریباً ڈیڑھ سال یعنی ۲۶ ربیع الاول ۷۰۷ ھ تک ارگ کی قید میںرھا، یھاں تک کہ امیر سلار رقیب بیبرس جاشنکیر اور امیر بدوی مُہَنّا بن عیسیٰ کی وجہ سے اس کو قید سے رھائی ملی ،کہ نامعین تاریخ میں ”العقیدة التَّدمریة“ نامی کتاب کو اس کے نام سے مرقوم کی گئی ھے ۔ ابن تیمیہ آزاد ھو چکا تھا،لیکن شام جانے کا حق نھیں تھا ، اور اپنے خیال میں ھر بدعتی کو محکوم کرتا تھا اور اس کو ” زندیہ “ کہتا تھا۔ [31] اور کچھ ھی دنوں کے بعد مصر کے دو مشھور و معروف صوفیوں سے جھگڑا ھوگیا [32] ایک ابن عطاء الله شاگرد ابو الحسن مُرسی ، دوسرے کریم الدین آملی رئیس دار سعید السعداء ، لوگوں نے شوال ۷۰۷ ھ میں ایک مظاھرہ کیا جس کی بناپر ( ابن تیمیہ ) کو براالدین بن جماعة قاضی شافعی کے حضور میں حاضر کیا گیا ، قاضی نے اس سے سوال کیا کہ ” توسل اور استغاثہ“ کے بارے میں تمھارا کیا نظریہ ھے ؟ [33] ابن تیمیہ کو اجازت ملی کہ وہ شام جاسکتا ھے لیکن اس کے با وجود اس کو قاھرہ میں پکڑلیا گیا اور چند مھینہ قضات کے زندان میں قید کردیا گیا ۔ ۷۰۸ ھ میں بیبرس جاشنکیر کو باد شاہت ملی ، ابن تیمیہ کودوبارہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیا ، اور آخری صفر ۷۰۹ کی شب میں ابن تیمیہ کوسخت حفاظت میں اسکندریہ لے جایاگیا، اور اس کو وھاں نظر بند کردیا ، ابن تیمیہ کو بادشاہ کے قلعہ میں رکھا گیا ، اور اجازت دی گئی کہ لوگ اس سے ملاقات کرسکتے ھیں ،اور یہ جو کتاب لکھنا چاھے لکھ سکتے ھےں ، سات مھینہ کی قید کی مدت میں بہت سے مغربی افراد جو مصر سے گذرتے تھے ، اس کو دیکھنے کیلئے آتے تھے ، اور خود اس نے کئی اھم کتابیں لکھیں ، کہ جن میں ( گم شدہ)کتاب ردّ ”مرشدہ“تالیف ابن تومرت اور کتاب” الرد علی المنطقین“ کا نام لیا جاتاھے ۔ [34] محمد بن قلدوون یکم شوال ۷۰۹ ھ میں دوبارہ تخت نشین ھوا ،اور ابن تیمیہ کو قیدسے رھا کرکے قاھرہ میں اپنے پاس بلادیا ۔ اور اپنے اس کام سے بتادیا کہ علم منطق ( برھان و استدلال کے ذریعہ صحیح فکر کا معیار ) سے بے نیاز نھیں ھوا جا سکتا ، اس کا منطق کو رد کرنا ھی منطق کا اثبات کرنا ھے ، اور اس کو چھوڑنا ھی اس کو اختیا رکرنا ھے ، چونکہ خداوند عالم نے ان کی عقل پر تالا لگادیا ھے ، جس کی بنا پر ان کی باتیں غلط اور ان میں تناقض پایا جاتاھے ۔ ابن تیمیہ ۸ شوال ۷۰۹ ھ کو قاھرہ پھونچا ، اور تقریباً تین سال تک قاھرہ میں قیام کیا ، محمدبن قلدوون (الملک الناصر ) کبھی کبھی شام کے بارے میں مشورہ کرتا تھا اس مدت میں ابن تیمیہ نے خصوصی درس شروع کیا ، اور مختلف طریقہ کے سوالوں کے جوابات بھی دئے ، اور اسی زمانے میں اپنی کتاب ” کتاب السیاسة الشرعیہ “ کے آخری یا تکمیلی مراحل میں مشغول رھا ، کتاب مذکو ر اا۷ ھ سے ۴ا۷ ھ کی مدت میں لکھی گئی ، اور بہت سے ” فتاوای مصریہ “ بھی اسی زمانہ کے ھیں ۔ مغلوں کے خوف سے ابن تیمیہ نے دمشق کو قیام گاہ بنا یا اور بیت المقدس میں کچھ مدت رکنے کے بعد پھلی ذیقعد ۲ا۷ھ کو دمشق پھونچا، ملک الناصر ابن تیمیہ سے ایک ہفتہ پھلے دمشق پھونچ کر حج کیلئے جا چکا تھا لیکن حج سے واپسی پر اامحرم ۳ا۷ ھ کو اس سے ملاقات کی اور اس شھر کے مالی اور اجرائی مسائل پر گفتگو کی ، اور اس میں کچھ تبدیلیاں کی ، امیر تکینر کو ربیع الاول ۴ا۷ ھ میں اس شھر کی حکومت کیلئے مقرر کیا گیا ۔ ابن تیمیہ نے اپنی عمر کے آخری ۵ا سال اسی تنکیزحکومت میں گذارے اور ابن تیمیہ کو ایک مدرسہ کا رئیس بنا دیا گیا تھا اور اس کے مرید اس کو مجتھد مانتے تھے۔ [35] ھر کہ را مرشد چنین گمراہ بود کی مریدش را بہ جنت رہ بود ؟! ”جس کا رھبرھی گمراہ ھو ،اس کے پیرو کار کو جنت کیسے مل سکتی ھے“۔ اس مدت میں اس کا خاص شاگرد ابن قیّم جوزی اس کے عقائد اور افکار کو پھیلانے میں بہت زیادہ کو شاں رھا اور وہ بھی اپنے استاد کی طرح مشکلات سے دوچار ھوا ، فرقہ اشعری اور حنبلیوں کے درمیا ن اختلاف جاری تھا کہ جس کے نتیجہ میں محرم ۶ا۷ ھ کا وہ واقعہ ھے ،جس میں دونوں مذھب کے اعتقادی مسائل کی وجہ سے ایک دوسرے میں ٹکراؤ ھوا ۔ ۶ا۷ ھ کے آخرمیں اور اس کے بعد ابن تیمیہ کے ساتھ” حُمَیضہ“ امیر مکّہ کا حادثہ پیش آیا کہ جس میں ایران کے سلطان خدا بندہ ایلخان سے یہ طے پایا کہ مکہ معظمہ میں اھل تشیع کیلئے خوشگوار فضا بنائی جائے ، اور ظاھراً اس زمانہ میں ابن تیمیہ نے منھاج السنہ النبویّہ [36]تالیف کی ھے بہتر تو یہ تھا کہ ابن تیمیہ اس کتاب کا نام ” منھاج البدعة “ رکھتے نہ” منھاج السنة “ کیونکہ یہ کتاب اسلام کے مسلّمات کا انکار ، مسلمانوں کی تکفیر اور گمراھی و کج فکری سے بھری ھوئی ھے ، نیز اھل بیت علیھم السلام کی بے حرمتی ، حقائق کو مخفی رکھنے اور دیگر تحریفات سے یہ کتاب لبریزھے ۔ یہ عرض کرنا ضروری ھے کہ ابن تیمیہ کی یہ کتاب وھابیوں کے عقائد کی بنیادی اور اساسی کتاب ھے ۔ اس کتاب میں پھلے فقیہ زمان فیلسوف نامدار اور متکلم بزرگ حضرت علامہ حلی (رہ) پر حملہ کیا ھے اور منھاج السنة کو علامہ حلی (رہ) کی کتاب ’ ’ منھاج الکرامة “ کی رد میں لکھا گیا اور وھابیوں کا اکثر منبع فکری یھی کتاب ھے ، خصوصاً توسل اور شفاعت ، دعا و زیارت کے بارے میں جو کچھ کہتے ھےں ابن تیمیہ کی اس کتاب سے اخذ کرتے ھیں ۔ قارئین محترم کی اطلاع کے لئے عرض ھے کہ مرحوم آیت الله فی الارضین علامہ حلی (رہ) کی کتاب ” منھاج الکرامة “ کا فارسی میں ترجمہ بنام ”جذبہ ولایت “ ھو چکاھے ۔ اور جس وقت ھم کتاب ”باب حادی عشر“ سے اصول عقائد کی تدریس کررھے تھے ، دوسری کلامی جس میں علامہ حلی (رہ) پر حملہ کیا ھے ،یھاں تک کہ آزار و اذیت کا زمانہ دوبارہ شروع ھوا ۸ا۷ھ میں سلطان کی طرف سے حکم صادر ھوا کہ ابن تیمیہ کو طلاق کے بارے میں کہ جو مذھب حنبلی کے مشھور اعتقادات کا مخالف ھو ، کسی بھی طرح کا فتویٰ دینے سے رو کاجائے ، اور ابن تیمیہ کا اس بات پر مسخرہ کرتے تھے کہ جو ایک مجلس میں ” تین طلاق “ کے صحت کا منکر تھا اور طلاق کے بارے میں قسم ” حَلْف“ کہ جس میں طلاق دینے کا قصد نہ ھو اس کو معتبر نھیں مانتا تھا ۔ اس مسئلہ کے سلسلے میں تنکیز کی ریاست میں اس کے محاکمہ کیلئے ۸ا۷ ھ میں دو جلسہ منعقد ھوئے اور تیسرے جلسہ میں کہ جو ۲۰ رجب ۷۲۰ھ میں ھوا ، ابن تیمیہ کو سلطان کا نافرمان قرار دے کر اس کو سزائے قید سنادی گئی۔ ابن تیمیہ کو بے خوف و خطر روک لیا گیا اور شام کے ایک قلعہ میں قید کردیا گیا ، تقریباً پانچ ماہ قید میں رھنے کے بعد ملک الناصر کے حکم سے ۰ا محرم کو آزاد کردیا گیا، اس کے بعد بھی شام اور مصر کے واقعات و حادثات میں اس کانام ملتا ھے، ۶ا شعبان ۷۲۶ ھ میں بغیر کسی عدالت و قضاوت کے ان کو روک لیا گیا ، اور سلطان کے حکم کے مطابق کہ جس کواموی مسجدمیںسب کے سامنے پڑ ھا کتابوں کو خصوصاً امامت کی بحث میں مطالعہ کرتے تھے ، علامہ حلی (رہ) کی اس گرانقدر کتاب کا بھی مطالعہ کرتے تھے ، اور ھم نے اس کتاب کو بحث امامت میں ایک جامع و مستدل اور کم نظیر پایا اور نہ صرف یہ کہ اس کتاب میں کوئی چیز بھی خلاف شریعت نھیںپائی ،بلکہ ھماری نظر میں یہ کتاب ان بہترین استدلالی کتابوں میں سے ھے جو اب تک علماء شیعہ (کثرالله امثالھم ) نے تحریر کی ھیں ، ابن تیمیہ کوروز قیامت ضروراس چیز کا جواب دینا پڑے گا جو تھمتیں علامہ حلی (رہ) اور مذھب تشیع پر لگائی ھیں ۔ گیا ، ابن تیمیہ کو فتویٰ صادر کرنے سے منع کیا گیا کیونکہ” زیارة القبور“نامی رسالے پر لوگوں کو اعتراض تھا ،کیونکہ اس میں اولیاء کرام کے احترام کو حرام قرار دیا تھا۔ [37] اس کے ساتھ میں اس کے چند شاگردوں کو بھی قید کرلیاگیا لیکن ابن قیّم جوزی کے علاوہ کچھ ھی مدت میں باقی سب لو گ آزاد ھوگئے ،اس کے بعد ابن تیمیہ کو مالکی قاضی القضات ، تقی الدین اخنائی کی مخالفت سے سامنا کرنا پڑا ، نیز علاء الدین قونوی شاگرد ابن عربی نے بھی اسکی شدید مخالفت کی ، جبکہ اس کے پاس وہ دار سعید السعداء قاھرہ کی باگ ڈور تھی ، دمشق کے قاضی القضات شافعی بھی قرار پائے ۔ ابن تیمیہ دو سال تک قید میں رھا اور کتابیں لکھتا رھا،نیز مختلف فتوے بھی جاری کرتا رھا، بہت سی کتابیں جو ھم تک پھونچی ھیں وہ اسی زمانہ کی ھیں جن میں اپنے عقائد کو ثابت کیا ھے ، خصوصاًکتاب” معارج الوصول“ اصول الفقہ کے بارے میں اور کتا ب” رفع الملام “و کتاب ”الرد علی الاخنائی “کہ جس میں اخنائی کو اپنا سخت ترین دشمن بتایا ، اس کتاب میں اولیاء کرام کی تعظیم و تکریم کے بارے میں اپنے نظریات کو تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ، اس کے بعد اخنائی نے سلطان سے شکایت کی تو سلطان نے ۹ جمادی الاخر۷۲۸ ھ کو فرمان صادر کردیا کہ ابن تیمیہ کو کتاب و کاغذا ور قلم سے محروم کردیا جائے ۔ اسی موقع پر ۲۰ ذیقعدہ ۷۲۸ھ کو ابن تیمیہ کاقید میں انتقال ھو گیا ، اس کے جنازے کو ایک عظیم مجمع نے دمشق کے صوفیہ قبرستان میں دفن کیا ، اور آج بھی اس کے مرید اس کی قبر پر ادب و احترام کے لئے جایاکرتے ھیں۔ [38] (کیا اس کی قبر کا احترام کفر وشرک اور بت پرستی نھیں ھے !!) ۔خیرالدین زرکلی اپنی کتاب ”الاعلام “ میں جس کا موضوع بیوگرافی ھے ابن تیمیہ کے بارے میں اس طرح تحریر ھے: ابو العباس تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن عبد الله بن ابی القاسم الحصر نمیری حرانی دمشقی حنبلی معروف بہ ابن تیمیہ ،حران میں پیدا ھوئے ۔ اس کے بعد دمشق پھونچے ، اور اپنی عجیب و غریب زکاوت اور ھوشیاری اور استعداد کو ظاھر کیا اور بہت مشھور ھوئے ، لیکن اپنے فتووں کی وجہ سے ان کو مصر طلب کر لیا گیا ،اور بہت سے لوگ ان سے حسد کرتے تھے، اور اس وجہ سے ایک مدت تک قیدمیںزندگی گذاری ۔ اس کے بعد اسکندریہ گئے ۔اور اس کے بعد قید سے رھائی ملی ، اور ۷۲۰ ھ میں ایک با ر پھر ان کو قید کر لیا گیا ۔ اور آخر کا ر قلعہ دمشق کے قید خانے میں موت آگئی، اس کے جنازے میں ایک جم غفیر نے شرکت کی، موصوف ”اصلاح دین“ کے مدعی تھے، [39] او رمختلف بحثیں کیں۔ ”الدررالکامنہ “ میں تحریر ھے کہ : ابن تیمیہ ۲۰ سال کی عمر میں علماء سے بحث و مناظرہ میں مشغول تھے ۔ان کی تقریباً۳۰۰ کتابیں بتا ئی جاتی ھیں ”فوات الوفیات “ میں تحریرھے کہ: ان کی تالیفات تقریباً ۳۰۰ کتابیں ھیں ان میں کی بعض کتابیں اس طرح ھیں : السیاسة الشرعیہ،الفتاوی ،الایمان ، الجمع بین النقل و العقل ، منھاج السنة، الفرقان بین اولیاء الله و اولیاء الشیطان،الواسطة بین الحق والخلق ، الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول ، مجموع رسائل ، نظریة العقد، الرّدعلی البکری ، الرّد علی الاخنائی ، رفع الملام عن الائمة الاعلام ، شرح العقیدة الاصفھانیة ، القواعد النورانیة الفقھیة ، مجموعة الرسائل والمسائل ، التوسل و الوسیلة ، نقص المنطق اور دوسری کتابیں او ررسالے۔ [40] ابن تیمیہ کی شرح زندگی ،موافق اور مخالف دونوںنے لکھی ھے ، اور ھر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق اس کو پہچنوایا ھے ، بعض لوگوں نے صرف اس کے بارے میں تعریف و تحسین کی ھے اور اس کے غلط نظریات اور انحرافات سے چشم پوشی کی ھے ، اور بعض لوگوںنے اس کے کج روی ، بدعت اور فکری انحرافات کو مورد بحث قرار دیتے ھوئے اس کی مذمت اور سرزنش کی ھے ۔ ”’ ھانری لاؤسٹ “ مولف کتاب ” نظریات شیخ الاسلام ابن تیمیہ فی السیاسة و الاجتماع “ وہ شخص ھے کہ جس نے ابن تیمیہ کی تعریف و تمجید کی ھے ، لاؤسٹ نے ابن تیمیہ کو ” اسلامی عظیم مجاھد “ کا لقب دیا ھے ، اور اس کے اسلامی دفاع اور مغلوں سے مقابلے کو سراھا ھے ، اس کی سیاسی و اجتماعی کارناموں کوشمار کیا ھے اور اس کو اپنے زمانے کا مشھور عالم دین کے عنوان سے پیش کیا اور اس کی مدح و ثنا کی ، اس کو مستقل مزاج ، کسی کی تقلید نہ کرنے والا، اور تنقیدی مزاج سے بھر پور بتایا ھے ،لاؤسٹ نے لکھا ھے کہ ابن تیمیہ اس زمانہ کی جنگوں اور سیاسی میدان میں بہت زیادہ سرگرم رھا ، اور اپنے مذھب کی خاطر ارسطو کی منطق اور یونان کے فلسفہ پر بھی حملہ آور ھوا ھے۔ [41] ابن تیمیہ کے بارے میں ھمارا نظریہ
ھماری نظر میں ابن تیمیہ بے حد تعصبی اور غیر منطقی اور عقائد کے بارے میں سرسخت جامد فکر کا حامل تھا ، اگر چہ اس کی معلومات فلسفی حضرات مانند ابن سینا ، فخررازی ، اور سھروردی و غیرہ کے اقوال اور نظریات کے بارے میں کافی زیادہ تھیں ، ابن تیمیہ اپنے دوسرے ھم فکر مثل ابن قیّم ، ابن خرم ، ابن بطّہ ، بربھاری ، ابن تومرت اور ابن جوزی کی طرح ظاھر گرایی ، جمود فکر ی میں گرفتار تھا، اس کی فکر ابتدائی ، سطحی ، فلسفی اور منطقی اصولوں سے دور تھی ، ھمارے نظریہ کے مطابق ابن تیمیہ ایک طرح سے ” میٹریالیزم لطیف دینی “ ('Materialisme) ( وہ فلسفہ جو معنویات کامنکر ھے) میںمبتلاتھا ، اور مادہ گرایی اور ظاھر پرستی کے ھولناک دلدل میں پھنسا ھوا تھا۔ [42]
جو شخص منطق و فلسفہ اور حکمت اسلامی سے سمجھ بوجھ رکھتا ھے وہ ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ و تحقیق کے بعد اسی نتیجہ پر پھونچ سکتا ھے کہ ابن تیمیہ نے فلسفی مسائل کو سونگھا تک نھیں ، اور منطق کے مقدمات میں ھی الجھ کررہ گیاھے، اور علماء منطق پر جو اعتراض اس نے کیئے ھیں، وہ بے جا اور باطل ھیں، وجود ماھیت ذاتی ودعرضی ، تصور و تصدیق ، حدّ و رسم ، بدیھات عقلی اور قیاس و غیرہ جیسے دوسرے فلسفی و منطقی مسائل میں اس کے نظریات بالکل بچکانہ ھیں اوریہ چیزیں اس طرح کے دقیق و عمیق مسائل سے نابلد ھونے پر دلالت کرتے ھیں۔ [43]اسی وجہ سے ” توحید والھیات “کی بحث میں ان کے قدم لڑکھڑاتے ھیں ، اور حسّ گرایان و مادہ پرستوں کی طرح خداوند عالم کی جسمیت کے قائل ھیں ( نعوذ بالله من ذالک ) ابن تیمیہ سے اس بات کی امید نھیں ھے کہ وہ الھیات اور دوسرے عقائد کے مسائل میں لغزشوں سے محفوظ رھے ۔ اس کے باوجود بھی ابن تیمیہ فلسفہ ، منطق اور علم کلام کے علماء سے مقابلہ کیلئے کھڑے ھوگئے، البتہ اس مقابلہ کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نھیں ھوا، اور چند مغالطوں ( دھوکہ ) کے علاوہ کچھ نھیں کرسکاکہ جو اس کی دقیق و عمیق نظرنہ ھونے پر دلالت کرتا ھے ، ابن تیمیہ منطق ، فلسفہ اور عرفان کے مقابلہ کرنے والوں میں سے ھے ، ھم نے اس جیسے افراد میں دقیق نظر رکھنے والے نھیں دیکھے ھیں ، ایسے لوگ فلاسفہ کی باتوں کو سمجھ نھیںپائے ھیں اور جو چیزیں ان کیلئے مبھم اور مجھول ھیں ان چیزوں میں مقابلہ کیلئے تیار ھیں !! [44] جبکہ بعض سادہ لوح افرادنے کہ جن کو خود علم منطق وفلسفہ کی صحیح معرفت نہ تھی ، ابن تیمیہ کومستقل فکر کا حامل ، آزادانہ فکر ، اندھی تقلید کا مخالف ، اور کسی بھی طرح کی گمراھی اور بدعت کا سخت مخالف کھاھے،بعض لوگوں نے کھا : وہ تقلید کے قید و بند سے آزاد تھا ، یھاں تک کہ اس کو اسلامی نہضتوں کا محرک کھا ، اور کھنے والوں نے اس کو ” مصلح اجتماعی “اور ” دین کو نئی حیات دینے والا “بھی کھا ” تمسک بہ قرآن “ اور فلسفہ یونانی اور منطق ارسطو سے مقابلہ جس کا نعرہ تھا۔ [45] لیکن ھماری نظر میں یہ فیصلہ انصاف و حقیقت سے بہت دور ھے ، اور اگرمجموعی طور پر تفکر اسلامی کی نگاہ سے خصوصاً مذھب حقہ تشیع کے فلسفی اصولوں کے تحت ابن تیمیہ کو دیکھا جائے تو وہ ایک ظاھری فکر ، سطحی اور جمودی فکر رکھنے والا ، متعصب ، بے ھودہ خیالوں کا اسیر، غلط بیانی کرنے والا ، خود پرست ، حقائق کا انکار کرنے والا ، مکر وفریب جیسی صفات رزیلہ کا حامل پایاھے ، اس صورت میں آزاد فکری اور مستقل نظر کا کس طرح دعویٰ کیا جاسکتا ھے ،جو شخص ” علماء کلام کے مارپیٹ “ کا حکم صادر کرے ، [46]یہ کس طرح فکری آزادی ھوسکتی ھے ؟جو وحدت اور عرفان کی بلند پرواز فکر (نہ کہ کفر آمیز وحدت)کو ،کہ جس کو قونوی ، ابن عربی [47] ، قیصری ، کاشانی ، ابن ترکہ ، سید حیدر آملی ، صدر المتالھین شیرازی ، علامہ طباطبائی (رضوان الله تعالی علیھم ) جیسے بزرگ علماء کرام نے بیان کیا ھے، جس کو ”فرعونی نظریہ “ کھا گیا ھے۔ [48] کیا یھی آزاد اندیشی ھے، اور جس کی فکر کی آخری منزل ” خدا کی جسمانیت کا قائل ھونا“ ھے، کیا وہ اھل غور و فکر ھوسکتا ھے ،اس وقت ھم ابن تیمیہ کی کج فکری اور گمراھی کی تفصیل بیان کرنانھیں چاہتے،اگر چہ مناسب تھا کہ فقھی ، تفسیری ، حدیثی ، تاریخی ، اصولی، فلسفی، منطقی اور عرفانی جیسے مباحث میں اس کے تمام نظریات کو بیان کرتے اور اس کا جواب بھی دیتے، تا کہ سب پر واضح ھو جائے کہ یہ حضرت شیخ الاسلام ! صرف ” زبان درازی “ اور زیادہ لکھنے کے عادی تھے، اور کسی مشکل کو آسان نھیں کیا ھے حالا نکہ اس کی بہت زیادہ اور بڑی بڑی کتابیں ھیں [49] ابن تیمیہ کے عقائد اورا قوال
ھم یھاں پر ابن تیمیہ کے بعض نظریات کو اجمالی طور پر ذکر کرتے ھیں ، تا کہ قارئین کرام پر واضح ھوجائے کہ ابن تیمیہ کے چند مرتبہ قید خانہ میں جانے اور علماء اسلام کی طرف سے اس پر کفر کا فتویٰ لگانے کی وجہ کیا ھے ، اور یہ بھی معلوم ھوجائے کہ ابن تیمیہ کے اصلاحی نظریات !! کو نسے ھیں ، اور کیوں ان کے ھم عصر علماء اسلام کی طرف سے اس کی مخالفتیں ھوئیں ۔
ابن تیمیہ کی نظرمیں مسئلہ توحید
ابن تیمیہ کہتا ھے: پیغمبروں نے جس توحید کو بیان کیا ھے صرف خدا کی الوھیت کو ثابت کرتی ھے ، اس طرح کہ انسان شھادت دے کہ اس خدا کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے ، اور صرف اسی کی عبادت کرے اور صرف اسی پر بھروسہ کرے ، اور صرف اسی کی رضایت و خوشنودی کیلئے کسی سے دوستی یا دشمنی کرے ، اور جو کچھ بھی انجام دے اسی کی خوشنودی کیلئے ھو ، یہ وہ توحید ھے جس کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنے لئے بیان کیا ھے ۔
لیکن خدا کو واحد ماننا یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ اس عالم کوخلق کرنے والا خدائے واحد ھے ، یہ توحید نھیں ھے، اور اسی طرح خدا کی صفات کا اقرارکرنا اور اس کو عیوب سے پاک و منزہ ماننا ، اور یہ اقرار کرنا کہ تمام موجودات کا خالق خداوند عالم ھے ، ایسا شخص موحد اور مسلمان نھیں ھے ،مگریہ کہ شھادت دے کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور اقرار کرے کہ صرف خدا ھی مستحق عبادت ھے۔ [50] یھاں یہ عرض کردینا ضروری ھے کہ ابن تیمیہ ، خدا کے علاوہ کسی نبی یااولیاء الله سے ھر قسم کے توسل اور استغاثہ ، نیز پیغمبر(ص) اور دوسرے صالحین کی قبروں کی زیارت ، ان کے قبروں کی نزدیک نماز پڑھنا ، اور قبروں پر نذر اور قربانی جیسے کاموں کو توحید کے مخالف اور موجب شرک جانتے ھیں۔ [51] اس بناپر ان کی نظر میں مسلمان وہ ھے جو کچھ طلب کرنا چاھے توخداوند عالم سے طلب کرے ، کسی کو بھی وسیلہ ، واسطہ اور شفیع قرار نہ دے ، اور غیر خدا پر بالکل توجہ نہ کرے ۔ [52] کفر و شرک کے معنی میں وسعت دینا
بعض وہ اعمال جن کوسارے مسلمان جائز بلکہ مستحب جانتے ھیں ، ابن تیمیہ کی نظر میں شرک اور بے دینی کا باعث ھیں ، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص صرف رسول اسلام(ص) کی قبر کی زیارت کیلئے سفر کرے اوراس کے سفر کا اصل مقصد زیارت ” مسجد النبی “ نہ ھو ، وہ شخص مسلمان نھیں ھے ، اور اگر کوئی شخص پیغمبر اکرم(ص) یا دیگر اولیاء کی قبروںکی زیارت کرے ، اس قصد ( ان سے حاجت طلب کرنا ) سے ان کو خدا کا شریک قرار دے اور ان سے کوئی چیز طلب کرے ، تو یہ سب کچھ حرام اور شرک ھے۔ [53]
اور جو شخص ( اھل ) قبور سے فائدہ اور نفع کی امیدکرے ، اور ان کو بلا دور کرنے والا جانے ، وہ بت پرستوں کے حکم میں ھے ، جو ان کی طرح بتوں کے فائدہ اور نقصان پھونچا نے کے قائل ھیں ، اور جو لوگ (قبروں ) کی زیارت کیلئے جاتے ھیں ، ان کا مقصد بھی مشرکین کے قصد جیسا ھے جوبتوں سے اپنی حاجات طلب کرتے ھیں ، جبکہ ایک موحد اور مسلمان شخص صرف خدا سے طلب حاجت کرتا ھے ، اور اس طرح کہتے ھیں کہ جو کوئی غیر خدا کو پکارے اور غیر خدا کے لئے حج (قبروں کی زیارت کے لیئے سفر کرے ) کے لئے جائے اور مردوں کو پکارے چاھے وہ پیغمبر ھویا ان کے علاوہ ، اس نے خدا وند عالم کی ذات اقدس کے ساتھ شرک کیا ھے۔ [54]ابن تیمیہ کی نظر میں کفر و شرک کا دائرہ اس سے بھی زیادہ وسیع ھے کہ وہ کہتے ھیں کہ جو شخص مسجد کا ھمسایہ ھے ، اگر اپنے مشغلہ کی وجہ سے نماز جماعت میں حاضر نھیں ھوتا ، اس پر توبہ کرنا واجب ھے اور اگر توبہ نھیں کرتا تو اس کا قتل واجب ھے [55] مذکو رہ بیان کی وضاحت
ابن تیمیہ اور فرقہ وھابیت کا طرف دار ” شوکانی “ کہتا ھے :
وہ چیزیں جو صاحب نجد ( ابن تیمیہ ) کے حوالہ سے ھم تک پھونچی ھیں ان میں سے ایک یہ ھے کہ جو شخص نماز جماعت میں شریک نہ ھو اس کا خون بھانا جائز ھے ، جبکہ یہ بات شریعت کے خلاف ھے ،اھل سنت کے چاروں فرقے کے امام و رھبر اور دوسرے مذاھب اسلامی کے امام بھی واجب نمازوں کو اپنے گھر یا مسجد کے علاوہ پڑھا کرتے تھے ، منجملہ فرقہ مالکی کے امام، امام مالک شروع میں مسجد میں جا کر نماز پڑھا کرتے تھے پھر کچھ مدت کے بعد مسجد میں جانا چھوڑدیا اور اپنے گھرھی میں نماز پڑھنے لگے ، اور جب اس سلسلے میں لوگوں نے مذمت کرنا شروع کی ، تب فرماتے تھے کہ اس چیز کی میں کیا دلیل بیان کروں اس طرح احمد ابن حنبل ، جس وقت ان پر خلیفہ غضب ناک ھوا ، مسجد جانا چھوڑ دیا اور نماز و غیر نماز کیلئے مسجد میں جانا بند کردیا۔ [56] اسی طرح ابن تیمیہ کی نظر میں وہ شخص بھی کافر تھا جو نماز ظھر کو مغرب تک اور نماز مغرب کو آدھی رات تک نہ پڑھے ، اورجو شخص اس کام کو کفرنہ جانے وہ بھی واجب القتل ھے ،ابن تیمیہ کی نظر میں وہ شخص جوبالغ ھواور نماز پنجگانہ نہ پڑھے ، نماز کے کسی واجب کو ترک کرے ، اس کو توبہ کرانی چاھیئے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ بھی واجب القتل ھے، [57]ابن تیمیہ کی نظرمیں غیر خدا کی قسم کھانا اور غیر خدا کیلئے نذر کرنا بھی شرک ھے۔ [58] خدا کے دیدارکے سلسلے میں ابن تیمیہ کا عقیدہ اور اس کی تحقیق
ابن تیمیہ کی مشھور و معروف کتابوں میںکتاب ”منھاج السنہ “ ھے جس کو شیعوں کے عظیم عالم مرحوم علامہ حلی (رہ) کی کتاب ” منھاج الکرامة فی اثبات الامامة “ کی رد میں لکھا گیاھے ، جس میں شیعوں کے اعتقادات کے بارے میں علامہ حلی (رہ) کے اقوال کو ایک ایک کرکے نقل کیا اور ان کو رد کرنے کی کوشش کی ، جس میں علامہ حلی (رہ) کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد کہ ” خداوند تبارک و تعالی ٰ کا دیدار نھیں ھو سکتا اور کسی بھی حواس کے ذریعہ اس کو درک نھیں کیا جاسکتا ، کیونکہ خداوند عالم خود فرماتا ھے: ”لَا تُدرکُہُ الَابصارُ وَ ھوَ یُدرِکُ الابصارِ“ اور اسی طرح علامہ حلی (رہ) کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد کہ ، خداوند عالم کیلئے کو ئی جہت (سمت ) و مکان نھیں ھے ، اس طرح رقمطراز ھیں : علماء اھل سنت کا اتفاق ھے کہ خدا دکھائی دے سکتا ھے ، اور گذشتہ علماء کا اس بات پر اجماع ھے کہ روز قیامت ان آنکھوں کے ذریعہ خداوند عالم کا دیدار ھوگا لیکن اس دنیا میں دیدار نھیں ھوسکتا ، اور پیغمبر اکرم(ص) کے بارے میں اختلاف ھے ( کہ آنحضرت(ص) نے اس دنیا میں خدا کا دیدار کیا ھے یا نھیں ) اور مذکورہ آیت کے بارے میں کہتے ھیں کہ رویت خدابغیر کسی ادراک کے ممکن ھے۔ [59]
ابن تیمیہ خدا کے دیدار اور اس کیلئے جہت ( سمت ) کو ثابت کرتے ھیں اور آیات و روایات کے ظواھر سے استدلال کرتے ھےں ،اس نے رسالہ ” حَمَویة “ کو اس مسئلہ میں تحریر کیا ھے ، کہ تمام نصوص اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ خداوند عالم عرش اعلیٰ اور آسمان کے اوپر رہتا ھے ، اور انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیاجاسکتا ھے ، اور قیامت کے دن اس کا دیدار ھوگا ، اور یہ کہ خداوند عالم ھنستا ھے ، اور اگر کوئی خدا کے آسمان پر ھونے کا معتقد نہ ھو تو اس کو توبہ کرنے کے لئے کھا جائے اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کو قتل کردیا جائے ۔ اور اس طرح لکھتا ھے کہ آیات کے ظواھر کے مطابق خداوند عالم اعضاء و جوارح رکھتا ھے ، لیکن خدا کی صفات اور اس کے اعضاؤ جوارح کو مخلوقات کے اعضاء و جوارح سے موازنہ نھیں کیا جاسکتا اور اس سلسلے میں جو تاویلات کی گئی ھیں مثلاً آیہ ٴمبارکہ ” اَلرَّحمٰن ُ عَلَی العَرشِ اِستَویٰ“ استویٰ کے معنی استولیٰ کے ھیں اس طرح کی تاویلات باطل ھیں ، اور اس طرح کی تاویلات دوسری زبانوں کی کتب ضلال ( گمراہ کن کتابوں ) سے ترجمہ ھوکر متکلمین کے ذریعہ عربی زبان میں داخل کی گئی ھیں ! [60] ”خدا کا آنکھوں کے ذریعہ دیدار “کے بارے میں ابن تیمیہ کے نظریہ کی رد ّ
اگر چہ ابن تیمیہ کے نظریات خودھی تناقض گوئی پر مشتمل ھیں اور ان کے رد کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ [61]
” دیدار خدا “ کے بارے میں اس چیزسے بحث نھیں ھے کہ شیعہ معتقد ھیں کہ ” خدا کا دیدار آنکھوں سے ممکن نھیں ھے “ یعنی خدا کو سرکی آنکھوں سے نھیں دیکھا جاسکتا ، کیونکہ روشن ھے کہ دیدار کے لئے ضروری ھے کہ آنکھ اور جس چیز کا دیدار کرنا ھے اس کے درمیان وضع محاذات (کسی چیز کا مقابل ھونا) ھو اور محاذات اس چیزسے مخصوص ھے کہ جو ذاتی طور پر جہت (سمت) رکھتی ھو جیسے آنکھ یا عرضی طور پر جیسے رنگ و شکل ، اور ظاھر ھے کہ خداوند کریم ھرگزجہت نھیں رکھتا ۔ زخیال برتر است این تو خیال رامرنجان ز جہت بود مبرّا مطلب بھیچ سو یش ! لہٰذا اشاعرة ( اور ان کے ھم خیالوں کی) دلیل کمزور اور مردود ھے ، اور جن آیات اور روایات کے ذریعہ اشاعرہ اور ان کے ھم فکر لوگوں نے دلیل قائم کی ھے ، اس فرض کے ساتھ کہ ان آیات و روایات کا ظھور ان کے مقصد کو بیان کرتی ھیں ، اور حکم عقل سے چشم پوشی کرتے ھوئے ، دوسری آیات و روایات سے ٹکراتی ھیںکہ جن میں خدا کے دیدار کی نفی کی گئی ھے ، لہٰذا مجبوراً ان آیات وروایات کی صحیح تاویل اور توجیہ کریں ۔ اشعریوںاور ان کے ھم فکر لوگوں کی دلیل کی کمزوری ظاھر ھونے کیلئے ان کی ایک عقلی دلیل کو بیان کرکے اس کو رد کرتے ھیں : خدا کے دیدار پر اشعریوں کی دلیل
کہتے ھیں : کسی چیز کے دیکھنے کا معیار اس کا موجود ھونا ھے ،بس جو چیز موجود ھو اس کو دیکھا جا سکتا ھے ، اور جس چیز کو دیکھنا ممکن نہ ھو ، تو وہ چیز موجود نھیں ھے ۔
ھمارا جواب
ظاھر ھے یہ دعویٰ بغیر دلیل کے ھے چونکہ ان کا یہ دعویٰ کہ جو چیز موجود ھے اس کو دیکھنا بھی ممکن ھے ، یہ معیار اور ملاک مادی اور حادث چیزوں کا تو ھو سکتا ھے ۔
(خدا کے بارے میں یہ معیار صحیح نھیں ھے ) اور ان کا یہ دعویٰ باطل ھے اور اسی وجہ سے مادیین (مادہ کے قائل ) منحرف ھوئے ھیں ، کہ انھوں نے خدا کا انکار کردیا کیونکہ جو چیز ھوتی ھے وہ دیکھائی بھی دیتی ھے اور چونکہ خدا دکھائی نھیں دیتا ،لہٰذا خدا ھے ھی نھیں ، جبکہ یہ دعویٰ عقلی لحاظ سے باطل ھے ، کیونکہ ھر عاقل انسان واضح طور پر تصدیق کرتا ھے کہ خدا ان چیزوں میں ھے جو موجود ھے لیکن دکھائی نھیں دیتا ! اور اسی طرح انسان کاضمیر گواہ ھے کہ انسان کی باطنی چیزیں مثلاً بھوک وپیاس ، محبت و غصہ موجود ھیں لیکن دکھائی نھیں دیتیں ! ، اور آج کے سائنس نے محکم دلیلوں کے ساتھ ثابت کیا ھے کہ زمین حرکت کرتی ھے اور اس حرکت کی بھی قسمیں ھیں لیکن دکھائی نھیں دیتیں ۔ اشاعرہ اور اس کے ھم فکروں کی اس دلیل کے باطل ھونے کے لئے اتنا کافی ھے ،اشاعرہ نے اوربھی آیات و روایات کے ذریعہ دلیلیں قائم کی ھیں ، جو سب کی سب کمزور اور باطل ھیں ، اور دامن کتاب میں گنجائش نھیں کہ ان کو بیان کیا جائے ، یہ ایک نمونہ ھی قارئین کرام کے لئے کافی ھے ۔ مزید معلومات کیلئے مفید اور بہترین کتاب ” علم کلام “ تالیف مرحوم سید احمد اصفھانی کا مطالعہ فرمائیں اور ھم نے بھی اس مطلب کو اسی کتاب سے تھوڑابہت فرق کے ساتھ تحریر کیاھے۔ کامل انسانوں کےلئے خدا کا قلبی دیدار ممکن ھے
تا کہ یہ گمان نہ ھو کہ خدا سے ارتباط اور اس سے ملاقات ” لقاء“ کا کوئی راستہ ممکن نھیں ھے ، عرض کرتے ھیں کہ جو چیز شرعاً اور عقلاًباطل اور محال ھے وہ خدا کاحسّی دیدار ھے یعنی سر کی آنکھوں سے خدا کا دیدارھونا ممکن نہںی ھے ، لیکن دل کے ذریعہ خدا کادیدار اور شھود ، حسّی دیدار سے الگ ھے ، یہ ایک طریقہ سے کشف حقیقت ھے کہ جس کا راز گناھوں سے دوری ھے اور یہ ممکن بھی ھے ،بلکہ بزرگوں کیلئے ایسا بھی ھوا ھے ۔
خدا ” نور السموات و الارض “ ھے مخفی اور پوشیدہ نھیں ھے اگر ھمارے گناھوں کا پردہ نہ ھو (جیسا کہ احادیث میں ھے ) خدا کے خاص بندے دل کی آنکھوں سے اس کا دیدار کرسکتے ھیں ۔ مرحوم فیض کاشانی اپنی کتاب ” کلمات مکنونہ “میں ایک حدیث بیان کرتے ھیں جس کا مضمون یہ ھے : ”مَا مِنْ عَبْدٍ اِلَّا وَلَہُ عَینَانِ ، اِذَا اَرَادَ اللهْ بِعَبْدِہِ خَیراً فَتَحَ عَینَ قَلْبِہِ“ ھر انسان کی دو طرح کی آنکھیں ھوتی ھیں:سرکی آنکھ اور دل کی آنکھ، جس وقت خدا اپنے بندے کو خیر اور نیکی عطا کرتا ھے اس کے دل کی آنکھ کو روشن کردیتا ھے ، تاکہ جو چیز سر کی آنکھ سے نھیں دیکھ سکتا دل کی آنکھ سے دیکھ سکے ، ھمارے یھاں احادیث کی کتابوں میں اس طرح کی حدیثیں بہت زیادہ ھیں ، منجملہ حارثہ بن زید کی حدیث کہ جس کو ”اصول کافی باب حقیقت ایمان “میں بیان کیا گیا ۔ خرد را نیست تاب دید آن روی برو از بھر روی چشمی دگر جوی چو نور او ملک را پر بسوزد خرد را جملہ پاو سر بسوزد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ کامل حضرات کہ جنھوں نے زندگی بھر خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت کی ھے دل کی آنکھوں سے حق کا مشاھدہ کیا ھے ، جیسا کہ رئیس العارفین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ھیں : ” لَو کُشِفَ الغِطَاء مَا ازدَدتُ یَقیناً“ اگر میرے سامنے سے پردہ ہٹا لیا جا ئے تو بھی میرے یقین میں اضافہ نھیں ھوگا ، کیونکہ وہ بغیر کسی پردہ کے حقائق کو دیکھتے تھے ایک حدیث کے ضمن میں ” ذعلب یمانی“ سے آنحضرت (ص) نے سوال کیا : ”ہَل ْ رَایتَ ربک“ کیا تم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ؟ ذعلب نے جواب دیا ، ” وَ یُحَکَ اِنَّیِ لَم اَکُنْ اَعبُدُ ربّاً لَم اَرَہُ“ میں اپنے رب کو بغیر دیکھے عبادت نھیں کرتا ، اس کے بعد آنحضرت(ص) نے اس وجہ سے کہ حاضرین بزم آور آئندہ آنے والی نسل ” خدا کے دیدار حسّی“ کے شبہ میں گرفتار نہ ھوجائیں، فرمایا : ” لَا تُدْرِکْہُ الَابُصَارُ بِمُشَاہِدَةِ العَیَان ، وَ لٰکَنُ تُعْرَفُہُ القُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْایْمَانِ “ ھماری ظاھری آنکھیں خدا کو نھیں دیکھ سکتیں، لیکن انسان حقیقت ایمان کو پا کر دل کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ھے ، دلی کز معرفت نور و صفا دید زھر چیزی کہ دید اول خدا دید ! ”جس دل میں خدا کی معرفت اور اس کا نور ھو ،اس نے سب سے پھلے خدا کا دیدار کیا“ آنحضرت(ص) نے اس موقع پر فرمایا : ” مَا رَاٴیْتُ اللهَ قَبلَہُ وَ مَعَہُ وَ بَعْدَہُ “ میں نے کسی چیز کو نھیں دیکھا مگر اس سے پھلے ، اس کے ساتھ ، اور اس کے بعد ، خدا کودیکھا کہ یہ وھی شھود قلبی اور دلی دیدار ھے کہ صرف عقل اس کے جواز کا حکم کرتی ھے ، بلکہ خدا کے خالص اور نیک بندوں کیلئے خدا کا دیدار ھوا ھے ۔ تو مگو ما را بدان شہ بار نیست با کریمان کارھا دشوار نیست اس بحث کی شرح انشاء الله کسی اور موقع پر عرض کریں گے ، آپ حضرات اس مختصر گفتگو سے تفصیلی نتیجہ نکال سکتے ھیں ۔ لیکن پھر بھی ھم ایک اشارہ کرتے ھیں ، کہ ابن تیمیہ کہ اس قول کا لازمہ یہ ھے کہ خداوند عالم کی ذات پاک جسم و مکان رکھتی ھو ، اور اعضاء و جوارح سے مل کر بنا ھے گویا خداوند عالم کی ذات ( اعضاء و جوارح سے ) مرکب ھے اور یہ واضح ھے کہ ھر مرکب چیز اپنے بقاء میں اجزا کی محتاج ھو تی ھے ، لہٰذاجو چیز مرکب ھوتی ھے وہ محتاج ھوتی ھے اور خدا محتاج نھیں ھو سکتا ، کیونکہ خداوند عالم ھر چیز سے بے نیاز ھے تمام چیزیں اس کی محتاج ھیں ، جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے : ” وَ اللهُ غَنَیُّ عَنِ العَالَمِیْن“ یا یہ آیت ” یَا اَیُّہَا النَُاسُ اَنْتُم الفُقراءُ اِلَی اللهُ وَاللّٰہُ ہْو الغَنِیُّ الحَمِیدُ“ ان لوگوں نے قرآنی آیات کے ذریعہ دلیل قائم کی ھے کیا ان آیات کو جو ھماری خدا سے نیاز و فقر کو اور خداوند عالم کی بے نیازی کو بیان کرتی ھیں قرآن مجید میں نھیں دیکھا ھے ، کیا قرآن مجید خداوند عالم کو ھر چیز سے بے نیاز اور غنی نھیں بتاتا ھے ؟! ھم فلسفی بحث نھیں کرتے ، کیونکہ ابن تیمیہ جیسا شخص علماء فلاسفہ بزرگ شیعہ مثل صدر المتالھین ، محقق طوسی ، محقق داماد ، فیض کاشانی ، محقق لاھیجی و حکیم مقالہ سبزواری [62]وغیرہ کی بلندی فکر تک نھیں پھونچ سکتا ۔ حکمت عالیہ اسلامی اور شیعہ عمیق فلسفہ جس کی بنیاد بڑے بڑے حکماء اور فلسفی حضرات ا۔ ” خدمات متقابل اسلام و ایران “ تالیف استاد علامہ شھید مطھری۔ ۲۔ ” اعیان الشیعہ “ سید محمد امین (رہ) ۔ ۳۔ ” روضات الجنات “ مرحوم خوانساری ، اور دوسری تراجم و رجال ۔ کے ذریعہ رکھی گئی ھے ، اور صدیوں سے اس کو مستحکم تر کیا گیا ھے اور اس وقت اپنے اوج و کمال پر پھونچا ھوا ھے ، خداوند عالم مجرد بلکہ یوں کھا جائے کہ ھر لحاظ سے لامتناھی ھے [63] اور اثبات کرتی ھے کہ خدا وند عالم کی ذات مبارک میں کسی بھی طرح کی کوئی جہت اور محدودیت اور ترکیب نھیں ھے، نہ ترکیب وجود وماھیت ، نہ ترکیب مادہ و صورت ، نہ ترکیب جنس و فصل ، خداکاجسم سے کیا مطلب ؟ ”این التراب و رب الارباب“ ھم خاکی بندے کھاں اور رب الارباب کی ذات اقدس کھاں ، لیکن ابن تیمیہ قائل ھے کہ اگر کوئی شخص یہ اعتقاد رکھے کہ خداوند عالم آسمانوں کے اوپر عرش پر مستقر ھے ، اور اپنی مخلوقات سے جدا ھے ، یہ معنی صحیح اور درست ھیں ، چاھے اس کو مکان کھا جائے یا نہ کھا جائے۔ [64] یہ مطلب واضح اور روشن ھے ،کہ مذکورہ معنی خدا کیلئے مکان ثابت کرتا ھے ، اس نے تویھاں تک کہہ دیاکہ اس کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جاسکتا ھے ، اور اگر خدا کی طرف حسّی طورپر اشارہ کیا جاسکتا ھے تو پھر اس کے لئے مکان ھونا ضروری ھے ، اور اگر خدا کے اعضاء و جوارح ھاتھ، منھ اور آنکھیں ھیں تو حتماًپھر جسم بھی ھونا چائیے ،تَعَالَی اللهُ عَمَّا یَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُواً کَبِیراً ۔ شیعہ فلسفی حضرات نے اس بات کو ثابت کیا ھے کہ خداوند عالم کا وجود” صرف بحُتِ بسیط “ ھے ، اور اس میں کسی بھی طرح کی ترکیب اور ماھیت نھیں ھے ، وَ الحَقَّ مَاہِیَةُ اِنّیتة ، اذمقتضی العروض معلُولِیَةُ [65] اس کا وجود صرف اور ” صرف الوجود “ و ” حقیقة الحائق “ ھے جبکہ بسیط ھوتے ھوئے ساری خصوصیات اس میں پائی جاتی ھیں ،جس کا کوئی ” غیر “ اور ”ثانی “ اس کی سنخیت سے نھیں ھے ، اور ھر چیز کا مبداء اور ھر چیز کو فیضیاب کرنے والا اور ھر کمال کاپیدا کرنے والا ھے ۔ کوئی شی چیز اس کی قدرت سے باھر نھیں ھے ، ” بکل شيءٍ قدیر “ اور اس کا علم ھرچیز پرچھایا ھوا ھے “ و قد احَاطَ بکلِّ شَيءٍ علماً “ اور دوسری جگہ فلسفہ اسلامی میں ثابت ھے کہ جسم و جسمانیت موجودات کے سب سے نیچے درجہ کی خصوصیت ھے ، اور عالم مادی جسم وجسمانیت کا ظرف ھے ، اور وجود کا سب سے پست درجہ ھے ۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے :جس وقت سے میںنے اجسام (جسموں ) کو خلق کیا ان پر نظر رحمت نھیں کی ھے ، ” مَا نَظرتُ اِلَی الَاجْسَامِ مُذُ خَلَقْتُھا “ یہ ھے مادہ اور جسم کی شان ، اس حالت میں خداوند عالم کو جسم سے توصیف کیا جاسکتا ھے ،! جبکہ وہ عرش اعلیٰ پر مستقر ھے اور آنکھ کان ، ھاتھ ، پیر اور دیگر اعضاء و جوارح رکھتا ھے ؟ یہ وھی دینی مادہ گرایی ھے کہ جس کا ذکر ، ھم نے پھلے بھی کیا ھے ۔ ھمارے نظریہ کے مطابق ،ابن تیمیہ اور ابن قیّم اور اس کے سارے ھم خیال اور وھابی اس جال میں پھنس گئے ھیں ، اور یہ ساری گمراھی اور کج انحراف اعتقادی مسائل میں غور و فکر نہ کرنے ، عقل سے کام نہ لینے اور فلسفہ اور حکمت سے دوری کا نتیجہ ھے۔ چنانچہ اسی ابن تیمیہ کے نظریات ، محمد ابن عبدالوھاب کیلئے سرچشمہ بن گئے ، اور فرقہ وھابیت بننے کا سبب پیدا ھوگیا ، محمد ابن عبد الوھاب نے اپنے عقائد میںکوئی نئی چیز پیش نھیں کی، بلکہ ابن تیمیہ کے نظریات کو الفاظ بدل کر دوسرے طریقوں سے بیان کیا ھے ۔ خدا کا دنیا کے آسمان پر اُترنے کا عقیدہ
” ابن بطوطہ “ اپنے سفرنامہ میں دمشق کی توصیف کرتے ھوئے لکھتا ھے :
دمشق کے فقھاء حنبلی میں ایک تقی الدین ابن تیمیہ تھے ، کہ جنھوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی ، اور منبر سے اھل دمشق کو وعظ ونصیحت کرتے تھے، اچانک ان کے منھ پر ایک بات آئی ، کہ جن کو اس وقت کے فقھاء نے انکار کیا اور اس کو برا سمجھا اور مصر کے بادشاہ ملک ناصرکو اطلاع دی ، ملک ناصر نے حکم دیا کہ اس کو قاھر ہ کی طرف روانہ کردیا جائے ، اور ملک ناصر کے ساتھ فقھاء اور قضات قاھرہ میں جمع ھوئے اور شرف الدین زواوی مالکی نے آغاز سخن کیا اور ابن تیمیہ کے نظریات کو بیان کیا ، تب ملک ناصر نے حکم دیا کہ اس کو قید میںڈال دیا جائے ، ابن تیمیہ نے چند سال قید خانہ میں زندگی گذاری ، اور اسی مدت میں ایک ۴۰ جلدی کتاب بنام ” البحر المحیط “ تالیف کی ، قید سے رھائی کے بعد دوبارہ اسی طرح باتیں کی جن کو علماء نے ماننے سے انکار کردیا ۔ میں (ابن بطوطہ ) اس وقت دمشق میں موجود تھا ،جمعہ کے دن ابن تیمیہ مسجد جامع میں منبر پرگئے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اس وقت میں بھی مسجد میں موجود تھا، اس نے اپنی گفتگو کے دوران اس طرح کھا کہ خداوند عالم دنیا کے آسمان( پھلا آسمان ) پر نیچے اترتا ھے ، جس طرح میں نیچے اتر تا ھوں اور منبر کے ایک زینہ نیچے اتر کردکھایا ، اور جیسے ھی اس کی زبان پر یہ جملہ جاری ھوا ، ابن الزھرا نامی مالکی فقیہ اس کی مخالفت کیلئے کھڑا ھوگیا ، اور اس کی بات کا انکار کیا ، لوگوں نے اس فقیہ پر حملہ کردیا، مار پٹائی شروع کردی اور اس پر جوتے بر سا ئے گئے ، یھاں تک کہ اس کے سر سے عمامہ بھی گرگیا ، اس کے عمامہ کے نیچے سے ایک حریر کی ٹوپی نکلی ، لوگوں کو اس فقیہ پر حریر کا لباس معیوب لگا، اس کو حنبلیوں کے قاضی عزالدین بن مسلم کے پاس لے گئے ، قاضی نے اس کو سزائے قید سنادی ، اور اس کو شرعی تنبیہ بھی کی ، شافعی اور مالکی علماء کو اس قاضی کا فیصلہ پسند نھیں آیا ، اور یہ اطلاع ملک الامراء سیف الدین تنکیز تک پھونچائی ، سیف الدین نے اس مسئلہ کو اور ابن تیمیہ کے دوسرے موضوعات کے سلسلہ میں ایک تحریر جس پر چند قاضیوں اور عادل گواھوں کے دستخط تھے ملک ناصر کو بھیجی ملک ناصر نے حکم دیا کہ ابن تیمیہ کو جیل بھیج دیا جائے ، اور اس کے بعد ابن تیمیہ آخر عمر تک قید میں رھے [66] اگرچہ بعض افرادنے ابن بطوطہ کی گذشتہ باتوں میں شک و تردید کی ھے ، اور ان واقعیات کو جعلی بتا یا ھے ، لیکن خود ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العقیدة الحمویة الکبریٰ “میں ان باتوں کی تصدیق کی ھے ، جیسا کہ کہتا ھے : خداوند عالم عرش اعلیٰ پر رہتا ھے اور کبھی کبھی وھاں سے پھلے آسمان پر آتا ھے ،وہ اس بارے میں کہ خدا آسمان پر رہتا ھے بغیر کسی تاویل و تفسیر کے حقیقت میں قائل ھیں اور اس چیز کا جواب کہ خدا کی صفات کو ظاھر پرحمل کیا جا سکتا ھے ، تشبیہ کا انکار کرتے ھیں ۔ اور یہ کہ عورتیں بھی جنت میں خدا کا دیدار کریں گی ، اور اس طرح کے دوسرے مسائل میں چند عدد کتابچہ بھی لکھے ھیں [67] انبیاء کی بعثت سے قبل ان کے غیر معصوم ھونے کاعقیدہ
ابن تیمیہ نے علامہ حلی (رہ) کی اس بات کا کہ انبیاء کرام(ع) اول عمر سے آخر تکز ھر طرح کی خطاو غلطی اور گناہ چاھے گناہ صغیرہ ھو یا کبیرہ سے پاک ھوتے ھیں ( یعنی وہ معصوم ھوتے ھیں ) اور اگر معصوم نہ ھوں تو ان کے کھنے پر اعتماد اور بھروسہ نھیں کیا جاسکتا ، جواب دیتے ھوئے کہتا ھے :
انبیاء کا پیغمبری پر مبعوث ھونے سے قبل ان کا گناھوں اور خطاوٴں سے پاک ھونا ضروری نھیں ھے ، اور اپنے اس دعوی کے ثابت کرنے کیلئے چند دلیلیں بھی بیان کی ھیں۔ ” ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ انبیاء کی عصمت فقط تبلیغی امور میں ھونا ضروری ھے“ اور اس سلسلے میں ایک مقالہ بھی لکھا ھے ! انبیاء علیھم السلام کی عصمت و طھارت پر ایک تفصیلی وقت درکار ھے، جس کو ھم انشاء اللہ کسی مناسب موقع پر بیان کریں گے۔ اور یہ بحث اعتقادی اور فلسفی و کلامی مباحث کے اھم ترین اورتفصیلی بحثوں میں سے ھے ، مغربی اور روشن فکروں نے اس بحث میں ایک ھنگامہ بر پا کیا ھے ، اور بہت سے شبھات ایجاد کیئے ھیں ، اور اس سلسلے میں اشاعرہ ، معتزلہ ، خوارج اور حشویہ و غیرہ فرقوں نے اپنی اپنی رائے بیان کی ھے ،لیکن ھم اس وقت ان کے بیان کرنے کا ارادہ نھیں رکھتے ، اس وقت صرف یہ عرض کردینا چاہتے ھیں کہ شیعوں کا اعتقاد یہ ھے ( اور حق بھی یھی ھے ) کہ نبی اول عمر سے آخرعمر تک گناہ اور خطا سے پاک ھوتا ھے، کیونکہ جو شخص اپنی زندگی میں گناہ کبیرہ اور صغیرہ کا مرتکب ھوتا رہتا ھے انسان ایسے شخص کا مطیع او رفرمانبردار نھیں ھو سکتا ، اور اگر کسی نبی سے لوگ نفرت کریں اور اس کو قبول نہ کریں ، اور اس کے بتائے ھوئے پر عمل نہ کریں ، تو پھر لوگوں کی ھدایت کس طرح ممکن ھے ، اس طرح تو ھدف اور مقصد ِ بعثت انبیاء(ع)ختم ھو جاتا ھے ۔ خداوند عالم اپنے مقام ربوبیت کی وجہ سے تمام موجودات کو ھدایت کرنے والا ھے اور تمام موجودات کی ھدایت خاص طریقے سے انجام دی ھے ۔ اگر لوگ انبیاء کی اطاعت نہ کریں ، ان کو قبول نہ کریں تو پھر ھدایت نھیں پاسکتے ، اور اس حالت میں خداوند عالم کا مقصد(بعثت انبیاء) ختم ھوجاتا ھے ، لہٰذا انبیاء کرام کو ھر جہت سے ، چاھے وحی سے قبل ھو یا وحی کے بعد ،معصوم ھونا چاھیئے۔ [68] عصمت انبیاء کے بارے میں علامہ طباطبائی کا نظریہ
علامہ طباطبائی (رہ) صاحب تفسیر المیزان فرماتے ھیں :
پھلی قسم :۔ نبی کووحی کے سلسلہ میں خطاء سے پاک ھونا چاہئے۔ دوسری قسم :۔ تبلیغ اور رسالت کے کاموں میں خطاء اور غلطی سے پاک ھونا چاہئے۔ تیسری قسم :۔ نبی کو ھر لحاظ سے معصوم ھونا چاہئیے ، یعنی اس میں خدا کی مخالفت اور خطاء کا تصور بھی نہ پایا جائے ۔قرآن مجید انبیاء کے ھر طرح سے معصوم ھونے پر دلالت کرتاھے ۔ ھم اس بحث کو اسکی اھمیت کی وجہ سے ، قرآن مجید کی روشنی میں جو ابن تیمیہ او راس کے ھم فکر لوگوں کو بھی قبول ھے ،بیان کرتے ھیں ، تا کہ روشن ھوجائے کہ ابن تیمیہ اور اس کے ھم فکر لوگوں کا نظریہ ، قرآن کریم سے بہت دور ھے ، یہ لوگ بے فائدہ کوشش کرتے ھیں کہ اپنے غلط نظریات کو قرآن مجید کی طرف نسبت دیتے ھیں، اور اپنے غلط نتائج کو قرآن سے مرتبط کرتے ھیں، جبکہ قرآن کریم ان تمام چیزوں سے پاک و منزہ ھے ۔ انبیاء کی عصمت کے تین مرحلے
ھم نے عرض کیا کہ انبیاء علیھم السلام کی عصمت کے تین مرحلے ھیں ۔
پھلا مرحلہ :۔ القاء وحی ،یعنی پیغمبر کا دل اس طرح ھو کہ وحی کے نازل ھوتے وقت خطا نہ کرے ، اور وحی جس طرح ھے اس طرح سے اخذ کرے ، اور اس میں کم و زیادتی نہ کرے ، پیغمبر کا دل اس کی حقیقت کو تبدیل نہ ھونے دے۔ دوسرا مرحلہ :۔ وحی کو لوگوں تک پھونچانا ، یعنی جس طرح وحی نازل ھوئی ھے اسی طرح سے لوگوں تک پھونچائے ، اور وحی کو پھونچائے میں خطا و غلطی نہ کرے وحی کو نہ بھولے ، یا اس کے پھونچانے میں کمی یازیادتی نہ کرے ،یعنی وحی کی حقیقت کو لوگوں تک پھونچائے ۔ تیسرا مرحلہ :۔ گناہ اور نافرمانی سے پاک، یعنی کوئی ایسے کام انجام نہ دے جو خدا کی عبودیت اور اس کے احترام کے خلاف ھو ، چاھے زبانی طور پر ھویا عملی طور پر ، مجموعی طورپر ان تینوںمرحلوں کو ایک جملہ میں خلاصہ کیاجاسکتا ھے ، اور وہ یہ کہ خدا نبی کو خطا اور گناہ سے محفوظ رکھے۔ لیکن عصمت ان تینوں مرحلوں کے علاوہ بحث سے خارج ھے مثلاً امور خارجیہ میں وہ خطا ، جیسے کہ انسان اپنے حواس میں اشتباہ اور غلطی کرتا ھے یا امور اعتباریہ میں خطا کرنا ، جیسے نفع و نقصان اصلاح و فساد وغیرہ میں خطا کرنا۔ اور عصمت کے ان تینوں مرحلوں پر قرآن مجید کی آیات دلالت کرتی ھیں : ارشاد خداوند عالم ھوتا ھے : ” کَانَ النَّاسُ اٴُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیّنَ مُبَشُِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِینَ وَ اٴَنْزَلَ مَعَہْمُ الکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَینَ النَّاسِ فِیمَااخْتَلَفُوا فِیْہِ وَ مَا اَخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الّذِیْنَ اٴُوْتُوہُ مِِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ تْہُمُ البَیَّناتُ بَغیاً بَیْنَہُمْ فَہَدَی اللهُ الَّذیْنَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ وَ اللهُ یَہْدِی مَنْ یشَاءُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیم“ [69] یہ آیت دلالت کرتی ھے کہ انبیاء علیھم السلام کا ھدف بعثت اور نزول وحی کا مقصد لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا ھے ، اور اختلافی مقامات پر چاھے فعل ھو چاھے قول اور چاھے اعتقادی مسائل ، لوگوں کو راہ حق کی جانب رھنمائی کرنا ھے، یہ ھے انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاھدف اور مقصد، کیونکہ خداوند عالم اپنے مقصد میں خطاء و غلطی نھیں کرتا۔ کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے : ” لَا یَضِلُّ رَبّی ولایُنسیٰ“ [70] ”میرا پروردگار نہ بھکتا ھے اور نہ بھولتا ھے “ اور یہ کہ خدا اپنے مقصد میں کامیاب ھے اور اس کے لئے کوئی مانع اور رکاوٹ نھیں ھے ، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے : ” اِنَّ اللهَبالَغُ اَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِکلِّ شَيءٍٍ قَدْرَاً “ [71] بے شک خدا اپنے کام کو پورا کرکے رہتا ھے ، خدا نے ھر چیز کاایک اندازہ مقرر کررکھاھے ۔ اور یہ آیہ شریفہ : وَ اللهُ غَالِبٌ عَلیٰ اَمْرِہ“ [72] اس بناپر لازم ھے کہ نزول وحی اور اس کی تبلیغ میں پیغمبر کو ھر طرح کی خطا اور غلطی سے محفوظ رکھے ، کیونکہ اگر نزول وحی میں پیغمبر کا دل خطا و غلطی کرے ، رسالت کا مقصد پورا نھیں ھوسکتا ، کیونکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد حق کی طرف دعوت ھے ۔ جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے : ” وَ اَنزَلَ مَعَہُمُ الکِتَابَ بِالحقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسَ فیَما اْخْتَلَفُوا فِیہِ“ [73] ”اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کریں“ لہٰذا غلطی ھونے کی صورت میں یایہ کہ خداوند عالم نے رسول کے انتخاب اور نبی کے دل پر نزول وحی کے طریقہ میں غلطی کی ھے یا پھربھول چوک ھوئی ھے ، یا اس مقصد میں جو حق کی دعوت تھی، اس میں کمی بیشی ھوگئی ھے، لیکن پیغمبر کے دل پرنزول وحی کے وقت تبدیلی اور خطاء ھوگئی ، یہ تمام چیزیں ” لَا یَضِلُّ رَبِّی وَلَا یَنسیٰ“ کے پیش نظر صحیح نھیں ھےں ۔ جبکہ نبی کا مقصد اور ھدف خدا کی طرف لوگوں کو دعوت دینا تھا ، اور اس نے تبلیغ وحی میں بھی کوئی غلطی نھیں کی ، لیکن کسی دوسرے مانع کی وجہ سے خدا کا ھدف پایہ ٴ تکمیل تک نہ پھونچ سکا، اور اس میں مانع ایجاد ھوگیا ، یہ بھی ” اِنَّ اللهبَالغُ اَمْرِہِ “ اور ” والله غالب علیٰ امرہِ“ کی روسے محال ھے ۔ ان تمام چیزوں کے پیش نظر خداوند عالم پر ضروری ھے کہ پیغمبر کو ھر طرح کی خطا نہ کرنے سے روکے اور انبیاء (ع) کے دلوں کو اس طرح پاک و پاکیزہ قرار دے تا کہ وحی کے نزول کے اثر سے نبی کے دل میں کوئی ایسی گھبراہٹ پیدا نہ ھو ،جس کی وجہ سے وحی کی کیفیت اور اس کی حقیقت تبدیل ھوجائے ، اور کسی بھی طرح کا کوئی اضطراب و پریشانی اور تاریکی وجود میں نہ آئے جس سے حق وحقانیت کی تاویل وتفسیرمیں غلطی کا امکان رہ جائے،اور یھی عصمت کے دو نوںمنزلوں (نزول وحی اور اس کی تبلیغ) کے حقیقی معنی ھیں۔ تیسرا مرحلہ: انبیاء علیھم السلام کاگناھوںسے پاک ومحفوظ ھوناممکن ھے ، ضروری ھے کہ یھاںپر ایک اور بات بیان کی جائے تاکہ مذکورہ آیت کی دلالت کامل اور واضح ھو جا ئے ،اور وہ یہ ھے کہ اگر کوئی پیغمبر گناہ و معصیت کرے اور اپنے اس فعل سے کسی کام کے جائز اور مباح ھونے کو عملی طورپر بتائے کیونکہ ایک عقلمند انسان کسی کام کو انجام نھیں دیتا ، مگر یہ کہ وہ کام اس کی نظر میں پسند ھو،تو اگرنبی سے کوئی معصیت اورگناہ سزرد ھو جب کہ زبانی طور پر وہ اس کے خلاف حکم کرے تویہ بات تضادگوئی ھوگی، یعنی اپنے قول وفعل سے دو متناقض چیزوںکی تبلیغ کررھاھے ،اپنے قول سے لوگوں کو کسی چیز سے روک رھاھے اوراسی کام کو عملی طورپر اپنی امت کے لئے جائزھو نے کو ثابت کر رھاھے، اوریہ بات واضح و روشن ھے کہ دو متناقض چیزوں کی تبلیغ حق نھیں ھو سکتی،کیونکہ ان میں سے ھرچیز ایک دوسرے کو باطل قرار دیتی ھے ،اور وہ خدا جس نے پیغمبروں کو حق وحقیقت کی تبلیغ کے لئے بھیجا ھے وہ انبیاء (ع)کو متناقض چیزوں کی تبلیغ کے لئے نھیںبھیج سکتا ، بلکہ ان کو غیر مناسب افعال اور ھر طرح کی معصیت وگناہ سے محفوظ رکھتا ھے ، کیونکہ دین الٰھی کی تبلیغ گناھوں سے پاکیزگی کے بغیر، کامل نھیں ھوسکتی۔ ھمارے اس بیان سے واضح اور روشن ھوچکاھے کہ مذکورہ آیت انبیاء کی عصمت پردلالت کرتی ھے (عصمت کے تینوں مرحلوں: نزول وحی، تبلیغ وحی، اور معصیت وگناہ)۔ لیکن انبیاء علیھم السلام کی عصمت مطلق اور مادام العمر عصمت سے بحث (جیساکہ شیعہ معتقدھیں ) ایک مناسب فرصت چاہتی ھے جو اس وقت ھمارے پاس نھیں ھے ۔ [74] غیر خدا کی قسم کے سلسلہ میں ابن تیمیہ کا نظریہ
ابن تیمیہ کہتا ھے :اس بات پر علماء کا اتفاق ھے کہ باعظمت مخلوقات ،مثلاً عرش وکرسی، ملائکہ اور خانہ کعبہ کی قسم کھانا جائز نھیں ھے ۔
حضرت رسول اکرم(ص) کی قسم کھانے کے سلسلہ میں امام مالک، ابوحنیفہ اور احمد ابن حنبل مخلوقات کی قسم نافذ نھیں ھے ،(یعنی یہ قسم شرعی حکم نھیں رکھتی) یعنی ایسی قسم کو توڑنے سے کفارہ بھی واجب نھیں ھوتا،کیونکہ صحیح روایت کے مطابق آنحضرت(ص) نے فرمایا: خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم نہ کھاؤ۔ اور دوسری روایت میں وارد ھوا ھے کہ : جو شخص قسم کھانا چاہتا ھے اس کو چاہئےے کہ خدا کی قسم کھائے یا پھر قسم نہ کھائے۔ ایک دوسری جگہ نقل ھوا ھے کہ خدا کی جھوٹی قسم کھانا ، غیر خدا کی سچّی قسم سے بہتر ھے ، اور یہ کہ غیر خدا کی قسم شرک ھے ۔ جبکہ بعض علماء نے پیغمبر(ص) کی قسم کو استثناء کیا ھے یعنی آنحضرت(ص) کی قسم کھانے کو جائز قرار دیاھے ، احمد بن حنبل کے دوقولوں میں سے ایک یھی ھے ، اور احمد کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو قبول کیا ھے۔ اسی طرح بعض دوسرے علماء نے دوسرے تمام انبیاء کی قسم کو بھی جائز مانا ھے ،لیکن مشھور قول یہ کہ مخلوق کی قسم کھانا بغیر کسی استثناء کے منع ھے ، اور یھی قول صحیح اور بہتر ھے ۔ ابن قیّم جوزی (شاگرد ابن تیمیہ) کہتا ھے : خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھانا گناہ کبیرہ ھے ، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایاکہ جوشخص بھی غیر خدا کی قسم کھاتا ھے وہ خدا کے ساتھ شرک کرتا ھے اسی وجہ سے غیر خدا کی قسم کھانا گناھان کبیرہ کی سر فھرست میں ھے ۔ [75] غیر خدا کی قسم کے سلسلہ میں وضاحت
اور ابن تیمیہ کے نظریہ کی ردّ
مرحوم علامہ امین صاحب کتاب ارزشمند ”اعیان الشیعہ“ بیان فرماتے ھیں: صاحب رسالہ کا وہ قول جس میں غیر خدا کی قسم کھانے سے بالاتفاق علماء نے منع کیا ھے ،حقیقت سے بہت دور ھے کیونکہ اس نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے فقط ابوحنیفہ، ابویوسف، ابن عبدالسلام اور قدوری جیسے افراد کا قول نقل کیا ھے ، اور تعجب تو یھی ھے کہ عالم اسلام کے تمام علماء کو انھیں چار لوگوں میں منحصر کیا ھے، اور پھر شافعی ، امام مالک، احمد ابن حنبل کے فتووں کو نقل کرنے سے کیوں اجتناب کیا گیاھے، اور بہت سے بے شمار علماء کے فتووں کو کیوں نھیں بیان کیا ان علماء کے فتوے کہ جن کو خدا کے علاوہ کوئی نھیں جانتاھے ؟!
حق تو یہ ھے کہ غیر خدا کی قسم کھانا نہ حرام ھے اور نہ ھی مکروہ، بلکہ ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ھے جیسا کہ اس سلسلہ میں روایات بھی وارد ھوئی ھیں : اس کے بعد مرحوم امین(رہ) نے صحاح ستہ سے چند روایتیں نقل کی ھیں،اس کے بعد دوسری جگہ کہتا ھے کہ : غیر خدا کی قسم کھانا، خدا وررسول(ص) ، صحابہ تابعین اور تمام مسلمانوں سے ، زمانہ قدیم سے آج تک دیکھی گئی ھے ، خدا وندعالم نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اپنی مخلوق کی قسم کھائی ھے ، پیغمبر اور صحابہ وتابعین کی گفتگو میں بہت سے ایسے مورد پائے جاتے ھیں کہ جھاں اپنی جان کی قسم کھائی گئی ھے، نیز دوسری چیزوں کی بھی قسم کھائی ھے۔ [76] پیغمبر اسلام(ص) سے توسل واستغاثہ کرنا اور ا ن کو شفیع قرار دینا اور ان سے حاجت مانگنا
ابن تیمیہ ان مسائل کے بارے میں کہتا ھے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت(ص) کی زیارت کو جائے اور اس کا قصد دعا وسلام نہ ھو بلکہ زیارت ِپیغمبر(ص) ھو، اور ان سے طلب حاجت کے لئے جائے اور اسی قصد سے اپنی آواز پیغمبر کی قبر منور کے پاس بلند کرے ، تو ایسے شخص نے پیغمبر(ص) کو اذیت دی ھے اور خدا کے ساتھ شریک کیا ھے ، اور خود اپنے اوپر ستم کیا ھے ۔
ابن تیمیہ نے ان حدیثوں کو جن کا مضمون یہ ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا: جو شخص میری رحلت کے بعد میری زیارت کرے ، ایسا ھے کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ھو، ان احادیث کو جعلی او رمن گھڑت بتایاھے ۔ ابن تیمیہ صاحب قبور سے توسل کے سلسلہ میں کہتا ھے : بعض زائرین کی زیارت کا مقصد یہ ھوتا ھے کہ ان کی حاجتیں پوری ھوجائیں، کیونکہ صاحب قبر کو خدا کا مقرب بندہ مانتے ھیں اور اس کو خدا کے حضور میں واسطہ اور وسیلہ مانتے ھیں اور اسکے لئے نذر وقربانی کرکے صاحب قبر کو ھدیہ کرتے ھیں ، اور بعض زائرین اپنے اموال کو صاحب قبر کے لئے نذرکرتے ھیں ،اور بعض زائرین شوق اور محبت کے جذبے میں صاحب قبر کی زیارت کے لئے آتے ھیں اس قصد سے کہ ان کی قبر کی طرف سفر کرنا، گویا ایسا ھے کہ ان کی زندگی میں خود ان کی زیارت کے لئے سفر کیا ھو، اور جب صاحب قبر کی زیارت کرلیتے ھیں اپنے اندر ایک طرح کا سکون واطمینان محسوس کرتے ھیں ، لہٰذا اس طرح کے لوگ بت پرستوں کی طرح ھیں جو بتوں کو مثل خدا جانتے ھیں ۔ [77] پیغمبر(ص) سے توسل اور وسیلہ کے سلسلہ میں وضاحت
اور ابن تیمیہ کے قول کا جواب
ھم خدا وندعالم کے لطف وکرم اور اس کی مدد سے، توسل اور وسیلہ کے سلسلہ میں ابن تیمیہ کے نظریات کی بعد میںتنقید کریں گے لیکن یھاں پر مختصرطورپرعرض کرتے ھیں کہ: یہ توسل کا مسئلہ شرع مقدس کے ذرہ برابر بھی منافی نھیں ھے ، بلکہ یہ ایک معقول امر ھے ۔
”سھمودی“ نے ”سُبکی“ سے نقل کیا ھے کہ کھبی کبھی محبوب کا ذکر، دعا کے قبول ھونے میں سبب بنتا ھے ، اور اسی کا نام توسل ھے اور کبھی اس کو استغاثہ اور تشفّع (شفاعت طلب کرنا) بھی کھا جاتا ھے ، کبھی انسان اپنے سے کسی بزرگ ھستی سے اپنی عظمت اور مقام کی وجہ سے متوسل ھوتا ھے۔ رسول اسلام(ص) کی زندگی میں توسل کا مسئلہ بارھا پیش آیا ھے ، ترمذی او رنسائی نے عثمان بن حنیف سے روایت کی ھے کہ: حضرت رسول اسلام(ص) نے ایک نابینا شخص کو حکم دیا کہ اس طرح دعا کرو: ” اللّٰھمَّ انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمة، یامحمد انی توجھتُ بک الیٰ ربّی فی حاجتی لتقضِ لی ، اللّٰھمَّ شفّعہ لی“ اے پروردگار! میری تجھ سے التجا ھے اور تیرے پیغمبر(ص) کہ جوپیامبر رحمت ھے کے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں متوجہ ھوتا ھوں، اے محمد(ص)! میں آپ کے توسل سے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ھوتا ھوں تاکہ خدا آپ کے ذریعہ سے میری حاجت روائی فرمائے، اے خدا ! حضرت محمد(ص) کو میرا شفیع قرار دے ۔ طبرانی نے اس طرح کی حدیث اس شخص کے بارے میں بیان کی ھے کہ جو رسول اسلام(ص) کی وفات کے بعد عثمان بن عفان کے زمانے میں کچھ حاجت رکھتا تھا اور انھیں عثمان بن حُنیف نے یھی مذکورہ دعا پڑھنے کے لئے کھا،(اور اس کی حاجت پوری ھوگئی) اس طرح کی ایک روایت ”بیہقی“ نے نقل کی ھے کہ جس وقت عمر کے زمانے میں قحط پڑا(اور بارش نہ ھوئی) تو لوگوں نے حضرت رسول اسلام(ص) سے توسل کیا، اور ایک شخص آنحضرت کی قبر منور کے سامنے کھڑا ھوکر عرض کرتا ھے : یَا رَسُوْلُ اللّٰہ اِسْتَسْقِ لِاُمَّتِکَ فَاِنَّھُمْ قَدْ ہَلَکُوا“(یعنی اے رسول اللہ(ص)(ص) آپ خدا سے اپنی امت کے لئے بارش طلب کیجئے،کیونکہ آپ کی امت ھلاک ھونے جارھی ھے ) اس طرح یہ روایت کہ قحط سالی کے وقت عمر نے حضرت رسول خدا(ص) کے چچا جناب عباسۻ کے ذریعہ بارگاہ خدا وندی میں توسل کیا اور کھا: الٴَلّٰہُمَّ کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِینَافَتُسْقِینَا، اِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِینَا فَاسْقِیْنَا“ یعنی اے خدا ھم لوگ قحط سالی کے وقت اپنے پیغمبر(ص)کے ذریعہ توسل کیا کرتے تھے اور تو ھمیں سیراب کردیتا تھا (اور چونکہ اب پیغمبر نھیں ھیں ) ھم تیری بارگاہ میں تیرے نبی(ص)کے چچا کے ذریعہ متوسل ھوتے ھیں ، تو ھمارے لئے باران رحمت نازل فرما۔ ایک اور روایت کے مطابق عمر نے کھا: ”جناب عباسۻ کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دو“ خود ابن تیمیہ کہتا ھے کہ اصحاب پیغمبر خود آنحضرت(ص) کے زمانے میں آپ سے توسل کرتے تھے، اور آپ کی وفات کے بعد جس طرح سے آنحضرت سے متوسل ھوتے تھے ، اسی طرح آپ کے چچا عباس ۻکے ذریعہ بھی متوسل ھوتے تھے۔ ایک دوسری جگہ کہتا ھے کہ: احمد ابن حنبل نے اپنی دعاؤں میں پیغمبر اکرم(ص) سے توسل کیا ھے اور یہ کہ (احمد بن حنبل) اپنی دوروایتوں میںسے ایک میں آنحضرت(ص) کی قسم، اور ان سے توسل کو جائز مانتے ھیں ، مذکورہ چیزیںاور ان کی طرح دوسری چیزیں صحاح ستہ اور اھل سنت کی دیگر دوسری معتبرکتابوں میں موجود ھونا خود اس بات کی دلیل ھے کہ حضرت پیغمبر اسلام(ص) سے توسل کرنا اور ان سے شفاعت کی درخواست کرنا نیز آنحضرت(ص) کے چچا عباس سے توسل کرنا گذشتہ اصحاب کی سیرت رھی ھے ۔ [78] جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ابن تیمیہ کے نظر یات کے سلسلہ میں بحث بہت تفصیلی ھے ھم یھاںپرصرف اس کے چندایک انحرافی عقیدوں پربحث کی ھے، اور امیدوار ھیں کہ خداوندعالم ھمیں توفیق دے تاکہ ابن تیمیہ کے نظریات اور ان کی تنقید کے سلسلہ میں ایک تفصیلی بحث کرسکیں۔ [79] ابن تیمیہ کی شخصیت اور اسکے نظریات کے بعد، ایک اور مشھور شخصیت کے بارے میں بحث کرتے ھیں کہ جو ابن تیمیہ کا ھم فکر ، شاگرد اور اس کے قریبی ساتھیو ں میں سے تھا یعنی ابن قیّم جوزی جس سے محمد ابن عبد الوھاب کی فرقہٴ وھابیت کی ایجاد کے سلسلے میں بہت متاٴثر ھوئے ھیں ۔ ابن قیّم جوزی کے حالاتِ زندگی
محدث قمّی(رہ) ، صاحب مفاتیح الجنان اپنی گرانقدر کتاب ”الکنی والالقاب“ میں تحریر کرتے ھیں: ”اس کا نام محمد بن ابوبکر حنبلی تھا اس کی وفات ۷۵۱ھ قمری میں ھوئی ، اس کی ایک کتاب بنام ”زاد المعادفی ھدی خیر العباد“ تھی، اس نے علم فقہ کو ابن تیمیہ کی شاگردی میں حاصل کیا۔
صاحب ”الدرر الکامنہ“ تحریر کرتے ھیں کہ ابن قیّم جوزی پرابن تیمیہ کی محبت اس قدر غلبہ کرچکی تھی کہ اس نے کبھی بھی ابن تیمیہ کے نظریات کی مخالفت نہ کی ، بلکہ اپنے تمام نظریات میں اسی ھی کے نظریات پر اکتفا کی، اس ابن قیّم جوزی نے ابن تیمیہ کی کتابوں کی تحقیق کی اور ان کو نشر کیا، مصر کے دولت مندلوگوں نے اس کو نوازا، ابن قیّم جوزی ابن تیمیہ کے ساتھ گرفتار کئے گئے اور قید خانہ میں بھی رھے ، ایک مدت کے بعد اس کو ذلیل ورسوا کیا گیا او راس کو ایک اونٹ پر بٹھاکر مارتے ھوئے شھر میں گھمایاگیا ،اور جس وقت ابن تیمیہ کا انتقال ھوا تب اس کو کچھ سکون ملا۔ ایک مرتبہ اور بھی ابن تیمیہ کے فتاوای نقل کرنے کی وجہ سے ابن قیّم جوزی کو آزار واذیت دی گئی، یہ اپنے زمانے کے علماء سے بھرہ مند ھوتا تھا او رعلماء بھی اس کو مستفید کرتے تھے۔ [80] ”داشنامہٴ ایران واسلام“میں ابن قیّم جوزی کے سلسلہ میں اس طرح تحریر ھے : شمس الدین ابوبکر محمدبن ابی بکر زرعی ایک حنبلی متکلم او رفقیہ تھے، تاریخ پیدائش ۷صفر ۶۹۱ھ، مقام پیدائش دمشق ، اور تاریخ وفات ۷۵۱ھ ،اور جائے وفات دمشق ھے ۔ ابن قیّم جوزی ایک درمیانی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس کا باپ قیّم تھا او رمدرسہ جوزیہ کے برابر میں رہتا تھا یہ مدرسہ ٴجوزیہ وھی مدرسہ ھے کہ جس میں حنبلی قاضی القضات قضاوت کیا کرتے تھے۔ ابن قیّم جوزی نے اعلی تعلیم حاصل کی، اس کے اساتید میں قاضی سلیمان بن حمزہ اور شیخ ابوبکر محدث ابن عبد القائم کے بیٹے کا نام لیا جاتا ھے ، لیکن خصوصی طور سے ۷۱۳ھ سے ابن تیمیہ کی شاگردی کی او راسکے خاص اور ھونھار شاگردوں میں شمار ھوتا تھا، اور یہ بات یقین کے ساتھ کھی جاسکتی ھے کہ ابن قیم نے ابن تیمیہ کے تمام افکار او رعقائد کو قبول کیا تھا ، اور اپنی شخصیت کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان عقائد کونشر کرنے میں مشغول رھا، اپنے استاد کی طرح اپنے زمانہ کے تمام علوم مثلاً تفسیر قرآن، حدیث،اصول ، اورفروع فقہ میں مھارت رکھتا تھا، اور جس وقت ایک انجمن کے ذریعہ کہ جو عربی کے نظریات کے تحت اس کی تعلیمات کے سلسلہ کو جاری رکھا گیا تو ابن قیّم جوزی نے بہت مخالفت کی لیکن اسکے برخلاف تصوف(صوفیت) سے بہت زیادہ متاٴثر تھا ، ”منازل السائرین“خواجہ عبد اللہ انصاری“ جو ممالیک کے زمانہ میں مشھور تھاابن قیّم جوزی اس سے خاص اُنس رکھتا تھا۔ [81]مناظرہ میں اپنے استاد سے کم تھا لیکن وعظ ونصیحت میں اپنے استاد سے کھیں زیادہ، اس کا طرز تحریر ابن تیمیہ کے خشک وتلخ روش کے برخلاف تھا، ۷۲۶ھ میں ابن قیّم جوزی بھی ابن تیمیہ کے ساتھ دمشق کے زندان میں گیا اور ابن تیمیہ کے مرنے کے بعد ابن قیّم جوزی کو رھائی ملی۔ ۷۳۱ھ میں حج کے لئے گیا،کھا جاتا ھے کہ امیر عز الدین آبیک کی سرپرستی میں جوقافلہ شام سے گیا تھا جس میں بہت سے فقھاء ومحدثین اس کے ھمراہ تھے۔ ابن قیّم جوزی کے کارنامے کوئی بہت زیادہ عمدہ نھیں تھے ، کیونکہ ممالیک کی حکومت کی طرف سے ابن تیمیہ کے جدید حنبلی مذھب پر بہت سی ممانعت تھیں۔ دوسری رجب ۷۳۶ھ میں پھلی مرتبہ اس نے اس مسجد میں خطبہ دیا جس مسجدکو نجم الدین بن خالیخان نے دمشق کے بیرونی دروازے کے پاس ایک باغ میں بنوایا تھا۔ ۶صفر ۷۴۳ھ میں مدرسہٴ ”صدریہ“ میں اپنا پھلا درس پڑھانا شروع کیااور عمر بھر اسی مدرسہ میں تدریس کرتارھا۔ اس زمانہ سے ابن قیّم جوزی کا تقی الدین سُبکی دمشق کے شافعی قاضی القضات سے دو مرتبہ اختلاف ھوا، لیکن کبھی کوئی جھگڑا نہ ھوا۔ محرم ۷۴۶ھ میں ابن قیّم جوزی کا سُبکی سے اختلاف یہ تھا کہ تیر اندازی یا گھوڑا سواری کے مقابلے میں شرکت کرنے والے ایک مبلغ شرط بندی کے لحاظ سے معین کریں او رکوئی تیسرا شخص بعنوان محلل(بغیر مبلغ دئے مسابقہ میں شرکت کرنے والا ) مقابلہ میں شرکت نہ کرے، تو کیا اس طریقہ کار کی بناپر وہ مقابلہ میں شرعی جواز رکھتا ھے یا قُمار اور جوے کا نام دیا جائے گا؟ ابن قیّم جوزی کا طرز تفکر اور طریقہٴ استدلال بھی ابن تیمیہ کی طرح تھا، یہ نظریہ پیش کیا کہ ایسے مقابلوں میں محلِل کی ضرورت نھیں ھے اسی بناپر قاضی القضات نے اس کو حاضر کرلیا، (اور اس کی توبیخ کی) جس کی بنا پر اس کو اکثریت کی پیروی کرنی پڑی۔ کچھ مدت بعد، سُبکی سے ابن قیم کا دوسرا اختلاف طلاق کے بارے میں ھوا کہ اس نے ابن تیمیہ کے نظریات کے مطابق فتویٰ دیا لیکن امیر سیف الدین بن فضل بدوی نے ان دونوں کے درمیان صلح کرادی۔ ۲۳رجب المرجب ۷۵۱ھ کو ابن قیّم جوزی کا دمشق میں انتقال ھوگیا، اس کو باب الصغیر نامی قبرستان میں اپنے باپ کے برابر میں دفن کردیاگیا ، اس کے بعد اس کا بیٹا جمل الدین عبد اللہ مدرسہ صدریہ کا مدرس بن بیٹھا۔ ابن قیّم جوزی کی ادبی اور اعتقادی تالیفات بہت زیادہ ھیں ” کتاب مدارج السالکین “ جو ”منازل السائرین“ خواجہ عبد اللہ انصاری کی شرح ھے ، اس کتا ب کومذھب حنبلی میں تصوف کا شاھکار کھا جاسکتا ھے ، ”اعلام الموقّعین“ یا ”راھنمائی کامل مفتی“ نامی کتاب اصول فقہ میں بھی ابن تیمیہ کے نظریات کے مطابق تحریر کی۔ سیاست میں بھی ابن تیمیہ سے الھام لیا کہ جس کا نمونہ کتاب ”حسبہ“ او رکتاب ”السیاسة الشرعیة“ ھے ، اصول دین کے سلسلہ میں ”قصیدہ نونیہ“ تحریر کی، جو ایک اعتقاد نامہ ھے جس کی”عقیدہ اتحادیہ“ کے نام سے ردبھی لکھی گئی ھے ۔ اس طرح ایک کتاب ”الصوارق المرسلة“ ابن قیّم جوزی نے لکھی جس کا طرز استدلال جدَلی ھے اور یہ کتاب”جھمیہ“ کی رد ھے ۔ زمانہٴ ممالیک میں ابن قیّم جوزی کے چند شاگرد فقیہ اورمجتھد بنے یا یہ کھیں کہ ان شاگردوں میں کم وبیش ابن قیّم جوزی کے نظریات سے متاٴثر ھوئے اور اس کے نظریات کو قبول کیا، انھیں میں شافعی محدث مورخ ابن کثیر ، زین الدین بن رجب، قرن وسطیٰ میں مذھب حنبلی کے آخری نمائندے ، اور ابن حجر عسقلانی ھیں اس زمانہ میں بھی ابن قیّم جوزی کی کتابیں نہ یہ کہ وھابیوں کے درمیان بلکہ گذشتہ زمانہ سے آج تک پڑھی جارھی ھیں خصوصاً شمالی افریقہ میں اس کی کتابوں کے پڑھنے والوں کی تعداد کافی مقدار میں مل جائے گی۔ [82] خیر الدین زرکلی صاحب کتاب الاعلام نے ابن قیّم جوزی کو اصلاح اسلامی کا ایک رکن اورعلماء بزرگ میں اس کاشمار کیا ھے ، زرکلی کہتا ھے : (ابن قیّم جوزی) اپنے استاد ابن تیمیہ کے نظریات سے آگے نھیں بڑھتے تھے بلکہ اس کی تائید وتکمیل کرتے تھے اس کی کتابوں کی نشرواشاعت کیا کرتے تھے، اور لوگوں کے درمیان نیک سیرت سے مشھور تھے، اس کے بعد اُس کی تالیفات کی فھرست تحریر کی ھے ۔ [83] (ابن قیّم جوزی )نے ابن تیمیہ سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا ھے اور اس کے نظریات کو مکمل طورپر قبول کیا ھے او راسکے افکار اور نظریات کو نشر کیا ، او راس کا فکری وعملی لحاظ سے ساتھ دیا ھے ، زندان میں بھی اس کے ساتھ گئے اور ان کی خاطر دوسروں سے مقابلہ کیا کرتے تھے او رتوھین واذیت کو برداشت کرتے تھے، ھمیشہ کتابوں میں مشغول رہتے تھے، او راپنے استا دکی موت کے بعد ان کی کتابوں کی تحقیق وتہذیب میں مشغول رھے ۔ [84] ڈاکٹر نزار رضا ابن قیّم جوزی کی کتاب ”اخبار النساء“ جس کو اس نے تحقیق وتصحیح کیا ھے اس کے مقدمہ میں ابن قیّم جوزی کے حالات زندگی کو مختصر طور پر بیان کیا ھے ، کہتاھے: ابن قیّم جوزی کی کتاب ”روضة المحبین ونزھة المشتاقین“ جس کی تصحیح وتحقیق صابر یوسف نے کی وہ اس کے مقدمہ میں کہتا ھے: ابن قیّم جوزی ایک فقیہ،دینی رھبر،آزاد فکر کے مالک، اھل اجتھاد واستنباط اور اندھی تقلید کے مخالف تھے، اور وہ فقط قرآن وسنت کی تقلید کیا کرتے تھے اور کسی ایک مذھب سےوابستہ نھیں تھے یہ ایسے شخص تھے کہ جس کی ھمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ مطلب کی گھرائی تک پھونچاجائے اور حقائق کو عمیق نظر اور ظریف نگاہ سے دیکھے اور ان کی گھرائی تک پھونچے، اس کے بعد اس کے بارے میں ان مختلف علماء کے اقوال نقل کرتا ھے کہ جنھوں نے اس کو صاحب بیان ، زبان سلیس، عالم فقیہ،محدث ، مفسر، اصولی، نحوی او ردینی خدمت گذار کھا ھے ، اس کے بعد ان مشکلات اورمصائب کا ذکر کرتا ھے کہ جو ابن قیّم جوزی نے اپنی زندگی میں برداشت کئے ھیں او راس کے بعد ابن قیم کے اساتید او رشاگردوں کے نام بیان کرتا ھے اس کے اساتید میں ان ناموں کو بیان کرتا ھے : ابن عبد الدائم، عیسیٰ المطعّم، قاضی تقی الدین بن سلیمان، ابن الشیرازی، الشھاب النابلسی، اسماعیل بن مکتوم۔ اسی طرح عربی علوم کے اساتید میں علی بن ابی الفتح اور المجد التونسی کا نام تحریر کیا ھے ، علم اصول کو علی صفی ھندی اور علم فقہ کو علی مجد حرّانی اور تقی الدین ابن تیمیہ سے حاصل کیا ھے ۔ ابن قیّم جوزی کی تالیفات
ابن قیّم جوزی کی تالیفات کو یوں تحریر کیا ھے :
”اعلام الموقّعین عن رب العٰالمین، بدائع الفوائد، اخبار النساء، اغاثة اللہفان من مکائد الشیطان، اغاثة اللہفان فی حکم طلاق الغضبان والسکران، التبیان فی اقسام القرآن، جلاء الافھام فی الصلاٰة والسلام علی خیر الانام، الجواب الکافی لمن ساٴل عن الدّواء الشافی، ھادی الارواح الی بلاد الافراح، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد، کتاب الصلوٰة وحکم تارکھا، عدة الصابرین وذخیرة الشاکرین، الکلم الطیب، تفسیر المعودتین، مدارج السالکین، الطرق الحکمیہ ، الوابل الصیّب من کلم الطیّب، الصواعق المرسلة علی الجھمیة والمعطّلة، روضة المحبین ونزھة المشتاقین“ [85] ان تمام تعریفوں کے باوجود کہ جو بعض معاصر موٴلفین نے ابن قیّم جوزی کی وسیع اطلاع اوروسیع مطالعہ کے سلسلہ میں کی ھیں ، اگر کوئی صاحب بصیرت او رعقلمند انسان اس کی کتابوں کا مطالعہ کرے تو یھی نتیجہ نکالے گاکہ: ابن قیّم جوزی بھی اپنے استاد ابن تیمیہ کی طرح اعتقادی مسائل میں بہت سی خطا اور لغزشوں کا شکارھوا ھے ، مثلاً ”خدا کا حسّی دیدار“ کا مسئلہ کہ جس کو ھم نے پھلے بھی بیان کیا ھے او راس کا غلط ھونا بھی ثابت کیا ھے ،یہ بھی ابن قیّم جوزی کے اعتقادات میں شامل ھے ، اس نے خود ”کافیة الشافیة“نامی طویل قصیدے میں صاف صاف اس عقیدہ کو قبول کیا ھے ۔بھر حال ھماری نظر میں ابن قیّم جوزی اپنے فکری معلم (ابن تیمیہ ) کی طرح بہت سے اعتقادی مسائل میں لغزشوں او رانحرافات کا شکار ھوا ھے لیکن اس وقت ان تمام لغرشوں او ر انحرافات سے بحث کرنے کا موقع نھیں ھے ۔ ------------------------------------------------------------------------------ [1] قارئین محترم ! آپ حضرات جانتے ھیں کہ ۸سالہ ایران عراق جنگ میں سعودی عرب نے صدام کی پھر پور مدد کی ھے ، چاھے وہ مالی مدد ھو یا سیاسی اور فوجی مدد ھو ، اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نھیں ھے کہ یہ سب سے بڑے مالک امریکہ کے اس طرح کے نوکر ھیں جو بغیر اس کی اجازت کے ایک قدم بھی نھیں اٹھا سکتے ، جو کچھ ” استاد ازل“ کہتا ھے یہ اسی کو انجام دیتے ھیں ، جیسا کہ مکہ کے خونین سانحہ میں سیکٹروں حجاج کا قتل عام ھوا ھے ، اور جیسے جیسے وقت گذر تا ھے ان جنایتوں کے پیچھے امریکہ کا ھاتھ ھونا دنیا والوں پر روشن ھوتا جاتا ھے ، ظالم اور ان کے ساتھی ذلیل اور رسوا ھوتے جاتے ھیں : ”لھم خزی فی الدنیا و فی الآخرة عذاب شدید “ یہ خدا کا وعدہ ھے اور خدا کا وعدہ ھر گز خلاف نھیں ھوسکتا ۔ [2] نجف اور کربلا کے مومنین کا قتل اور روضہ مبارک امیرالمومنین اور امام حسین علیھم السلام کے زائروں کے قتل اور قبرستان بقیع میں ائمہ معصومین (ع) کی قبروں کا انھدام نیز مکہ معظمہ میں حجاج کرام کا قتل کرنا، نیز دوسرے دیگر ملحدوں اور مشرکین ِخاندان آل سعود کی شرمناک جنایتوں کو ان مشرک ، ملحد اور بت پرست خاندان آل سعود جو خود کو توحید او رخداپرستی کا مدعی مانتا ھے ، کی دیگر شرم ناک جنایتوں کو کتاب کے آئندہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے ، انشاء الله۔ [3] قارئین کرام کے لئے قابل توجہ ھے کہ وھابیت اور آل سعود کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام یہ بھی ھے کہ تمام دنیا اور اسلامی ممالک کے خائن اور ایجنٹ مولفین کے قلم کو لاکھوںڈالروں کے بدلے [4] یھاں پھونچنے کے بعد انسان شیراز ی مشھور عارف کے اس شعر کو یاد کرتا ھے : [5] استعمار ھر روز اپنے مختلف چالوں کے ذریعہ اپنے ناپاک اور نحس مقاصد تک پھونچناچاہتا ھے ، [6] اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے ” آلبر ممی “ کی کتاب “ چھرہ استعمار گر چھرہ استعمارزدہ جس کا ترجمہ ھما ناطق نے کیا ھے ،اور ” فرانتش فانون “کی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں ۔ [7] اس موقع پر بزرگ شاعراور فلسفی علامہ اقبال لاھوری نے قرآن کی اھمیت اور اس کی انقلابی فکر کے بارے میں بہت جامع اور دقیق اشعار کھے ھیں : [8] قارئین کرام کو یاد ھوگا کہ انقلاب اسلامی ایران کے آغاز کے وقت دنیا بھرکی سوپر طاقتیں ، بلیک ھاوس ( وھایٹ ھاوس ) کے حکمر اں نیز فلسطین کے غاصبین ، سب کا یھی نعرہ تھا کہ ھم کمیونیزم کے خطر ے کو اسلامی خطرے کے مقابلہ میں خطرہ نھیں سمجھتے ھیں ،آپ اس بات سے اندازہ لکا سکتے ھیں کہ اسلام سے ان کی دشمنی کس قدرزیادہ ھے اور اسی وجہ سے ھر ایک کا فریضہ بنتا ھے کہ ساری آزادی بخش تحریکوں کی ھر ممکن مدد کریں۔ [9] اصول کافی ج ۲ ص ۶۴ا” باب الاہتمام با مور المسلمین “ [10] سورہ ممتحنہ آیت ا ول۔ [11] سورہ نساء آیت ا۴ا۔ [12] سورہ آل عمران آیت ۸ا۔ [13] سورہ آل عمران آیت ۰۳ا۔ [14] ھر طرح کی قبیلہ پرستی کو ختم کرکے آج اسلام نے افریقہ اور امریکہ کے کالوں کے دل میں جگہ بنالی ھے ، اور اپنی طرف جذب کرلیا ھے اگر اسلام کی نظر میں کسی چیز کی اھمیت ھے تو وہ اطاعت خدا ، عبادت اور تقوی الہٰی ھے ، نہ کہ حسب و نسب ، قوم قبیلہ اور جغرافیائی رھن سھن اور نہ ھی دوسری جاھلانہ چیزیںاسلام کے نزدیک کوئی اھمیت رکھتی ، اور اسی وجہ سے ھم کہتے ھیں : دین اسلام ایک عالمگیر مذھب ھے ، اور تمام دنیا بھر کے انسانوں کیلئے ھرھر قدم پر پیغام لئے ھوئے ھے ، اور اسلام کی ھمیشگی بقاء کا راز یھی عالمی اور جھانی ھونا ھے ۔ [15] سورہ فتح آیت ۲۹۔ [16] سورہ صف آیت ۴۔ [17] اصول کافی ، ج ۲ ص ۶۶ا” باب اخوة المومنین بعضھم لبعض “ [18] دو مذھب ص ۶۴ ، ڈاکٹر مصطفی خالد ، نقل از ” التبشیر والاستعمار فی البلاد العربیہ “ اور اس سلسلے میں اسلام کی بنیادی عجیب و غریب معلومات کیلئے جناب حسن صدر کی کتاب ” الجزائر و مردان مجاھد “ کم نظیر انقلابی مولف” فرانتش فانون“کی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔ [19] الجزائر کے مسلمانوں کی کامیابی کے علاوہ ھندوستان میں مسلمانوں کی کا میابی اور استعمار کو نکالنے [20] استعمار کے ظلم و تشدد سے مزید آگاھی کیلئے کتاب ” گفتاری در باب استعمار ” تالیف شاعر و مؤلف مبارز افریقی ” امڈ پیزر “سے کچھ اقتباسات نقل کرتے ھیں تا کہ صاحب تمدن استعمارگروں ! کی خبیث اور گندی حرکتوں سے پردہ فاش ھو سکے ! وہ اپنی کتاب میں اس طرح لکھتا ھے : [21] خاطرات ھمفرے بند ۶ ص ۸۰ ،اور اسی کتاب کا ترجمہ بنام ”وھابیت ایدہ استعمار “ کے نام سے فارسی (اور اردو)میں بھی ھوا ھے کہ جو انگلینڈ کے مشھور جاسوس ھمفرے کی خاطرات ھیں ، ھم قارئین کرام کو اس کتاب کے دقیق مطالعہ کی پیش کش کرتے ھیں ، اگر چہ بہت سی جگہ ترجمہ نارسا ھے اور ضروری تھا کہ بعض جگہ حاشیہ اور توضیح کا سھارہ لیا جاتا ، امید ھے کہ مترجم صاحب اس طرف توجہ کریں تا کہ دوسرے ایڈیشن میں یہ خامیاں نہ رھیں ۔ [22] قصص العلماء ص ۵۲ تا۵۳ ۔ [23] امام شناسی ، تالیف سید محمد حسین تھرانی ج ۵ ص ۸۴۔ [24] یہ بات صرف الزام نھیں ھے بلکہ کتاب کے آیندہ صفحات میں ھم دلیل کے ساتھ واضح طور پر بیان کریں گے کہ وھابیت انگلینڈ کے انگر یزوں کی ایجاد ھے ، اور اس وقت بھی امریکہ جیسے خونخوار کی حمایت میں ھے، اور جیسا کہ خاندان سعود کی خیانت اور ظلم و تشدد نے سب پر واضح کردیا ھے ،ھمیں بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے۔ [25] اس سلسلے میں ماھنامہ ” حوزہ “ نمبر ۶ا شھریور ۳۶۰ا سے کافی تغیرات کے ساتھ استفادہ کیا ھے ۔ [26] امام شناسی ج ۵ ص ۸۳ا۔ [27] ازالہ شبھات ص ۲۰۔ ضمناً عرض کیا جاتا ھے :کتاب مذکور محمد ابن عبد الوھاب کی کتاب ” کشف الشبھات“ کا ترجمہ ھے جس میں تمام مسلمانوں پر تھمتیں لگائی گئیں اور ان کو برا بھلاکھا گیا ، اور اکثر مقامات پر فرقہ وھابی کے علاوہ ، مشرک ، کافر ، بت پرست ، جاھل اور ضد توحید کھا گیا ، جبکہ کتاب کے شروع اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتا ھے !! [28] یہ کتاب حضرت رسول اسلام(ص) کے دفاع اور ان کی حمایت میں لکھی گئی ھے ،کتاب کے شروع میں لکھا ھے کہ حضرت رسول(ص) کی شان میں گستاخی کرنے والے کو چاھے وہ مسلمان ھو یا کافر قتل کردیا جائے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں بیان کرتا ھے جو خود اس کے اور وھابیت کے عقائد سے ٹکراتی ھیں اور جس کی وجہ بھی بیان نھیں کرسکتے ھیں مثال کے طور پر مذکورہ کتاب کے صفحہ ۹۳ پر ” حضرت رسول اسلام(ص) “کی وفات کے بعد ان کا احترام اور زیادہ ھوناچاھیئے اور اس بارے میں توجہ کرنی چاھیٴے کے بعد مذکورہ مطالب بیان کئے ھیں کہ حضرت رسول اسلام(ص) کا ادب و احترام ان کی زندگی سے بھی زیادہ ھونا چاھیئے ، جبکہ یھی ابن تیمیہ اور اس کا فکری شاگرد محمد ابن عبد الوھاب ، حضرت رسول اسلام(ص) کی زیارت کے سفر کو ” سفر معصیت “ اور آنحضرت(ص)کی قبر کو ” بڑابت “ کہتے ھیں ، اور آپ(ص) کی قبر کے پاس نماز پڑھنے کو ” بت پرستی “ کہتے ھیں ، محمد ابن عبد الوھاب واضح طور پر کہتا ھے : [29] اور اسی وجہ سے ابن تیمیہ کی اتباع کرنے والے یعنی وھابی بھی شیعوں کے سب سے زیادہ دشمن ھوگئے اور محمد ابن عبد الوھاب جو اس فرقے کا بانی ھے ، شیعوں کے خلاف ایک مستقل کتاب بنام ” الرّد علی الرافضہ “ لکھی اور شیعوںکو ” رافضی‘ ‘ یعنی دین سے خارج ھونے والے اور ان کو کافر اور مشرک کھا ، واقعاً ایسے استاد (ابن تیمیہ) کا شاگرد بھی ایسا ھی ھونا چاہئیے ، کہ جس نے شیعوں کی مخالفت ان سے دشمنی اور شیعہ کُشی ،اپنے استعماری فرقہ وھابیت کے سب سے اھم پروگراموں میں قرار دیا تھا ، اور اسی وجہ سے محمد ابن عبد الوھاب کی اولاد یعنی ظالم و جابر آل سعود ، انقلاب اسلامی کے مقابلہ کیلئے کھڑے ھوگئے وہ انقلاب کہ جس نے آج عالم اسلام کو عزت و عظمت عطا کی ھے ، اس وقت آل سعود، مشرک ، کافر اور ملحدوں او رخونخوار جلادوں مثل صدام سے مل کر ” توحید “ اور رافضیوں سے جنگ کے نام پر جمھوری اسلامی ایران سے جنگ کررھے ھیں اور ” کفر و شرک اور بت پرستی سے جنگ کا نعرہ دیتے ھیں ۔ [30] کتاب واسطیہ میں ابن تیمیہ نے” واسطہ فیض در عالم ھستی“ کا انکار کیا ، اور یھی اعتقاد آج وھابیوں کا بھی ھے ، یہ لوگ خدااور بندے کے در میان واسطہ اور واسطوں کو شرک ، کفر اور بت پرستی مانتے ھیں ، ھم اسی کتاب میں اس مطلب پر بھی بحث کریں گے لیکن یھاں صرف اشارہ کرکے گذرجائیں گے ،اگر یہ طے ھو کہ عالم وجود میں واسطے نہ ھوں ، اور خدا اور مخلوق کے درمیان ” واسطوں “ کااعتقاد رکھنا کفر ھو ، تو سب سے پھلے خدا کافر ھے !!( نعوذ بالله) کیونکہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ملائکہ کے بارے میں بیان فرمایا ھے کہ خدا انھیں ملائکہ کے ذریعہ اور دوسرے اسباب کے ذریعہ تمام کام انجام دیتا ھے ۔ عزرائیل کو روح قبض کرنے کی ذمہ داری دی ھے ، اور دوسرے ملائکہ بھی اسی طرح کوئی نہ کوئی ذمہ داری رکھتے ھیں ، جن کے ذریعہ خدا وند عالم کا ارادہ اس عالم ھستی میں جاری و ساری ھوتا ھے، پس معلوم یہ ھواکہ خدا بھی واسطوں کا قائل ھے اور اسباب کے ذریعہ اپنے امور انجام دیتا ھے ، وھابیوں کو اس بات کا جواب دینا چاھیئے ، یا فرشتوں کا انکار کردیں ، لیکن انکاربھی نھیں کرسکتے کیونکہ قرآن مجید کے واضحات کی مخالفت ھوگی ۔ اور معاملہ ظاھری طور پر ختم ھو چکا تھا ، لیکن شافعی قاضی ابن ضرضری محمود اصفھانی کے شاگرد نے دوبارہ مسئلہ کو اٹھایا اور ابن تیمیہ کے چند شاگردوں کو تازیانے لگائے اور محدث فرّی کوجیل میں ڈلوادیا،سلطان کے حکم سے اس مسئلہ کی رسیدگی ۷ /شعبان ۷۰۵ھ معین ھوئی اور حاکم نے اس تاریخ میں ” واسطیہ “ کو محکوم نھیں کیا ، جس کی وجہ سے ابن ضرضری نے اپنے کام سے استعفا ء دیدیا ۔ [31] ابن تیمیہ اور اس کے ھم خیال لوگ یعنی وھابی حضرات کا یہ دعویٰ ھے کہ بدعت کفر و شرک ، اور بت پرستی سے مقابلہ کیلئے ھماری تمام کوششیں صرف ھیں ، اور اس راستہ میں اتنی زیادہ شدت اختیار کی کہ ان کی نظر میں وھابیوں کے علاوہ ھر مسلمان کافر ، مشرک اور بت پرست ھے اور صرف اپنے کو ” اھل توحید “ جانتے ھیں ، اور ایک طریقہ کا ” فکری لحاظ سے منحصر ھونا “ اور خود کو افضل اور حق پر ماننے پر بضدھیں ، جبکہ حقیقت تو یہ ھے کہ دوسروں پر تھمتیں لگانے اور دوسروں کو کفر اور زندقہ سے متھم کرنے میں استاد ھیں ، گویا وھابیوں کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی مسلمان اورموحد نھیں ھے اور تمام شیعہ سنی کافر ھیں !! [32] ابن تیمیہ جو فکر وھابیت کا استاد ھے اور وھابیوں کی ایک خاص صفت یہ بھی ھے کہ یہ عرفان اور عرفاء ، نیز عرفانی لطیف نظریات کی مخالفت کرتے ھیں ، کیونکہ یہ ظاھرپرست اور ظاھری فکر رکھنے والوں نے عرفان کے دقیق اور لطیف مطالب کو درک ھی نھیں کیا ھے اور جاھلوں کے طریقہ سے عرفان کا مقابلہ کرنا شروع کردیا ، ھم آئندہ صفحوں میں اس بارے میںبھی بیان کریں گے۔ [33] یہ عرض کرنا ضروری ھے کہ ابن تیمیہ اور اس کے ھم خیال لوگ اور تمام وھابی حضرات کا توسل اور استغاثہ پر کوئی عقیدہ نھیں ھے ، اور اس کو کفر و شرک کہتے ھیں ، اور اس سلسلے میں عجیب وغریب تناقض گوئی کرتے ھیں ، اور ایسی گفتگو کرتے ھیں جس کو کوئی بھی عاقل انسان قبول نھیں کرسکتا ،ان کے قول کے مطابق یہ لوگ حضرت رسول اسلام(ص) کی چھوٹی سی بے حرمتی بھی برداشت نھیں کرسکتے چاھے رسول اسلام(ص) کی وفات کے بعد ھو،اور آپ(ص) کی زندگی سے بھی زیادہ آپ(ص) کی وفات کے بعد آپ(ص) کے احترام کے قائل ھیں جیسا کہ اس سلسلے میں ابن تیمیہ کے اقوال کو بیان کیا جاچکا ھے کہ حضرت نبی اکرم صلی الله علیہ و آلہ و سلم سے توسل اور استغاثہ کرنا کفر و شرک ھے ،اور کہتے ھیں : ” محمد قدمات “ محمد مرچکے ھیں ، اور اب وہ کچھ بھی نھیں کر سکتے ! ان ظاھر پرست اور تنگ نظروں کا اعتقاد یہ ھے کہ انسان کی حقیقت صرف اس کا ظاھری بدن اور مادی ودنیاوی جسم ھے ، ان کو یہ نہ معلوم ھوسکا کہ انسان کی حقیقت اس کی روح ھے ، مجرد اور ھمیشہ باقی رھنے والا ھے، اور اس جسم مادی کی موت سے ختم نھیں ھوتا ، انسانی موت کے بعد یہ جوھر نہ صرف یہ کہ نابود نھیں ھوتا بلکہ اور زیادہ طاقتوار اور آزاد ھو جاتاھے ، اور ” حجاب بدن“ سے چھٹکارا پا کراس کی قید و بند سے آزاد ھوجاتا ھے اسی وجہ سے اس کی زندگی اور زیادہ طاقتور اور اس کی قدرت توانائی ،علم و بصیرت اور زیادہ ھوجاتی ھے ،لہٰذا اس حال میں ایسی موجود کیلئے یہ کھنا کہ یہ کسی بھی کام کے کرنے سے عاجز ھے ،کیسے ممکن ھے ؟ نہ صرف یہ کہ دنیا وی امور انجام دینے سے عاجز و مجبور نھیں ھے بلکہ قدرت روح کی وجہ سے اور بدن کی قید و بند سے رھائی کی وجہ سے اس کی طاقت کئی گناھوجاتی ھے ، تاکہ پروردگار کی مشیت کے مطابق اور اس کی اجازت سے حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے ، اور مدد طلب کرنے والوں کی مدد کرے ، اور گمراہ لوگوں کی ھدایت کرے ، یہ شیعہ فلاسفہ کا عمیق نظریہ ھے ، ابن سینا (رہ)سے لیکر علامہ طباطبائی (رہ)اور حضرت امام خمینی (رہ)جیسے عظیم فلاسفہ نے ان مسائل کو ثابت کیا ھے اور ” جوھریت نفس “ ” تجرد روح “ اور اس کی بقاء جیسے اھم مسائل کو بہترین دلائل اور برھان کے ذریعہ ثابت کیا ھے ۔ لیکن ظاھر پرست اور تنگ نظر وھابی جن کی فکرعالم مادہ سے آگے نھیں بڑھ سکی اور اسی بناپر بے ھودہ اور غیر منطقی باتیں کھنے پر مجبور ھوگئے ،نیز ان مسائل کو سمجھنے سے قاصر رھے ، جبکہ معلوم ھونا چاھیئے کہ اسلامی معارف میں کچھ اور ھی گھرایی پائی جاتی ھے ، کہ اس سمندر کی غوطہ ور ھی اس میں تیر سکتے ھیں اوروھی اس سے جواھر نکال سکتے ھیں یہ کام ھر ایک کے بس کی بات نھیں ھے : شاعر کہتا ھے : تو کز سردی طبیعت نمی روی بیرون کجا بگوئی حقیقت گذر توان کرد ؟! ”جب تم عالم طبیعت ھی کو نھیں سمجھ سکتے تو پھر عالم حقیقت کو کیا سمجھ پاؤگے “ [34] وھابیوں کی ایک صفت ، منطق اور فلسفہ ومنطق اور غور وفکر سے دشمنی اس منحرف فرقے کی اھم خصوصیات میں سے ھے ، جس کی بناپر ابن تیمیہ نے اپنے گمان سے علم منطق اور علماء منطق سے مقابلہ کرنا شروع کردیا اور علماء منطق کی رد میں کتابیں لکھیں لیکن اس کتاب میں جو استدلال اور دلیلیں پیش کی ھیں ان کے ذریعہ ثابت کردیا کہ علم منطق ضروری ھے اور اس علم شریف کی ضرورت کو ثابت کیا ۔ [35] ایسے جاھل اور سادہ لوح مرید ایسے کج فکر کو ایک ” مستقل مجتھد “ تصور کرتے تھے ، کہ جو اسلامی معرفت کے الف ، ب،بھی سمجھنے سے قاصر رھا ، شیخ الا سلام کے اجتھاد اور فکری استقلال اور اس کی بچکانہ سوچ اور تناقض گوئی میں سازگاری نھیں ھے ، یھاں پر انسان شاعر کے اس شعر کو یاد کرتا ھے [36] محقق گرانقدر مرحوم علامہ امینی (رہ) صاحب کتاب الغدیر جلد سوم صفحہ ۴۸ا پر منھاج السنہ کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں : [37] ھم اسی کتاب میں ، ابن تیمیہ کے زیارت اور دوسرے موضوعات کے بارے میں غلط نظریات کو بیان کرکے ان کی رد بھی کریں گے تا کہ واضح و روشن ھو جائے کہ شیخ الاسلام صحیح مطالب اور عقائد اسلامی کی شناخت سے کس قدر دور ھے اور کس قدر انحراف و کج فکری کا شکار ھے ۔ اولیاء کرام کی زیارت ، ان کی تقدیس اور ان کی پرستش نھیں ھے ، یہ عقیدہ تو کوئی عام مسلمان بھی نھیں رکھتا ، بلکہ اولیاء الھی ، درگاہ خداوندی کے مقرب بندے اور خدا نمائی آئینہ ھیں ۔ ان کی زیارت انسان کو خدا کی یاد دلاتی ھے اور یہ عجیب بات ( اولیاء الھی کی قبروں کی زیارت اور ان کی تعظیم و تکریم حرام ھونا) اس کی زبان سے نکلے کہ جس نے ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ نامی کتاب لکھی ھو جس میں اس شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کیا ھے کہ جس نے پیغمبر اسلام(ص) کو ( ان کی وفات کے بعد ) اھانت یا ان کی شان میں گستاخی کی ھو ، واقعاً تعجب کا مقام ھے کہ اولیاء الھی کا احترام کرنا حرام ھے چونکہ یہ ان کی پرستش کا سبب ھے ۔ لیکن ابن تیمیہ کی طرف سے۶۰۰ صفحہ پر مشتمل کتاب حضرت رسول اسلام(ص) کے دفاع میں، کہ ایک نادان یھودی نے جھالت کی بناپر آنحضرت(ص) کی شان میں ناز یبا الفاظ کھنے پر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کرنا ۔ کیا یہ رسول اسلام(ص) کی تعظیم و تکریم اور احترام نھیں ھے ۔ اور کیا ان کی پرستش کا باعث نھیں؟! قارئین کرام فیصلہ آپ کے ھاتھوں میں ھے ۔ [38] دانشنامہ ایران و اسلام جلد ۳ ص ۴۶۳ ، یھاں پر یہ عرض کرنا ضروری ھے کہ یہ کتاب بعض غلط آمیز ، خوش بین ، خود غرض اور شبہ انداز شخصیتوں کے بارے میں لکھی گئی ھے ۔ اس کتاب میں بعض منحرف و خائن و غرب زدہ اسلام دشمن اور سیاسی فاسد لوگوں کی ،کہ نہ عالم ھیںاور نہ ھی ایرانی شخصیت (مثل کمال اتاترک ) ان کی شرح زندگی بیان کی گئی ھے ، ھم امید کرتے ھیں کہ ذمہ دار افراد اس کتاب کی اصلاح و تصحیح کے بعد دوبارہ اس کتاب کو چھیوا نے کی کوشش کریں ۔ [39] البتہ صرف دعویٰ کرنا آسان ھے ۔ لیکن اس کو عملی جامہ پھنانا بڑا مشکل کام ھے ۔ ابن تیمیہ کے ”اصلاح کا دعویٰ“ سے بہت سے معاصرین و مؤلفین نے ظاھر ی الفاظ سے دھوکہ کھایا ، او راس کو ایک مجاھد، عالم ، اور عظیم مصلح کے عنوان سے لوگوں کے سامنے پیش کیا ، لیکن انسان کے فیصلہ کر نے کے لئے ایک معیار ھونا چائیے ۔ اور ان کے غلط افکار کے نتائج پر توجہ کرنی چاہئےے ،شیعوںکے خلاف ِجھوٹی اور ناروا تھمتوں کو دقت سے مطالعہ کرکے اس کی غلط فکر کے برے اثرات کو مد نظر رکھتے ھو ے فیصلہ کر نا چائیے اور پھر دیکھیں کیاپھر بھی اس کو ”مصلح“ کھا جاسکتا ھے؟! [40] الاعلام ، تالیف خیر الدین زرکلی جلد اول ص ۴۴ا۔ [41] نشریہ معارف ، دورہ اول شمارئہ ۳، آذر اسفند ۳۶۳اھ ش ص ۶۷۔ [42] اور صرف ابن تیمیہ ھی ”میٹریالیزم “ کا قائل نھیں تھا بلکہ فرقہ وھابیت کی اصل بنیادی ھی اسی نظریہ پر قائم ھے چونکہ یہ لوگ خدا اور اس عالم حقیقت کی جس طرح تفسیر کرتے ھیں اس کا نتیجہ ھی خالص میٹریالیزم ھے ، اور مادہ گرایی کے ھولناک دلدل میں پھنس گئے ھیں ، ھم اس بارے میں اسی کتاب میں تفصیل سے بحث کریں گے ۔ [43] مزید اطلاع کیلئے مصطفی حسینی طباطبائی کی کتاب ” متفکران اسلامی در برابر منطق یونان “ پر رجوع کریں۔ [44] ھم نے ابن تیمیہ کی بعض کتابوں خصوصاً منطق ، فلسفہ اور عرفان کی کتابوں کامطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پھونچے کہ ابن تیمیہ منطق کے مقدمات اور فلسفہ کے کلیات تک بھی نہ سمجھ سکا ، اور عرفان کو بالکل بھی نھیں سمجھ پایا، اسی وجہ سے فلاسفہ اور عرفاء حضرات کی جان کے پیچھے پڑگیا اور مسلسل ان کے کفرو شرک کا فتویٰ دیتا رھاھے ، یھاںتک کہ متکلمین حضرات کے مارپیٹ کا حکم بھی صادر کردیا ، یعنی وہ لوگ جو شریعت مقدس کے دفاع اور اصول عقائد کی تفسیر کرنے والے تھے ان کو بھی حفظ و امان میں نھیں رکھا ، تمام وہ اعتراضات کہ جو اس نے علماء منطق و فلاسفہ اور عرفاء پر کیئے ھیں مناسب اور محکم جواب رکھتے ھیں ،لیکن یھاں پر اس بحث کو نھیں لایا جاسکتا، بلکہ یہ ایک الگ موضوع ھے کہ جس کے لئے دامن کتاب میں گنجائش نھیںھے ۔ [45] تاریخ فلسفہ در اسلام، مؤلف میاں محمد شریف جلد دوم ص ۲۸۹، چاپ مرکز نشر دانشگاھی۔ [46] تاریخ فلسفہ در اسلام ، مؤلف میاں محمد شریف جلد دوم ص ۳ا۳ ، چاپ مرکزنشر دانشگاھی۔ [47] قارئین کرام ان عرفاء کو پہچاننے کے لئے جامی کی کتاب ” نفخات الانس “ کا مطالعہ فرمائیں، تاکہ ان بزرگوں جیسے عارف بزرگ محی الدین ابن عربی اور صدر الدین قونوی جیسے افرادکی قدر و منزلت کو پہچان سکیں،اگرچہ بعض کم فھم اور عرفان کے مخالف، کہ جو خدا کی معرفت اور شناخت کے بارے میں اھل بیت علیھم السلام کے معارف کی گھرائیوں تک نھیں پھونچ پائے ھیں عرفان اور عرفاء پر معترض ھوئے ھیں ۔ ھم یھاں پر رھبر کبیر انقلاب، حکیم بزرگ ، اسلام کے عارف نامدار، عرفان کے کم نظیر متخصص ، حضرت امام خمینی (رہ) جن کے شریعت کے پابند ھونے میں کسی کو چون و چرا نھیں ھے ، اقتداء کرتے ھیں اور ھم اس عارف کامل ،فقیہ اعظم، عالم بزرگ ، امت اسلامی کے بیدار رھبر( کہ خدا ان کا سایہ امت اسلام اور مستضعفین عالم کے سروں پر باقی رکھے ) سے الھام لیتے ھیں ۔ جو شخص عرفان کے نظریات کی گھرائی تک نہ پھونچا ھو ، اور اس فن کے اساتید کی خدمت میں شرف تلمذ حاصل نہ کیا ھو ، حتماً وہ شخص محی الدین جیسے عارف کے نظریات کی مخالفت کرے گا ،لیکن بزرگ عرفاء مثل امام خمینی(رہ) علامہ طباطبائی (رہ) ، مرحوم آیت الله میرزا احمد آشتیانی (رہ) ، میرزا مھدی آشتیانی (رہ) ، مرحوم آیت اللہ فیض قزوینی (رہ) ، اور دوسرے بہت سے فقھاء اور عرفاء نے ، محی الدین کی تعریفیں کی ھیں ، اور اس کی عظمت بیان کی ھے اگر چہ ان کے بعض نظریات کی رد بھی کی ھے لیکن چون کہ ھم جانتے ھیں کہ خطا و غلطی سے پاک و منزہ رھنامقام عصمت و طھارت سے مخصوص ھے اس کے علاوہ کوئی بھی ھو خطا ونسیان سے محفوظ نھیں ھے لیکن انسان کی خوبیوں کو بھی دیکھا جائے ، اور ان تمام خوبیوں اور ظریف مطالب کو چھوڑ کر صرف چند اشتباہ و غلطیوں کو اچھالا جائے ، جن کے بارے میں معلوم نھیں کہ خود محی الدین کے نظریات تھے، یا ان کی کتابوں کو لکھنے والوں کی طرف سے تھے یا یہ محی الدین کی بعض چیزیں تقیہ کی بناپرتھی جیسا کہ بعض علماء بزرگ کہتے ھیں، ایسے بزرگ عارف پر کفر کے فتویٰ لگائے جائیں،؟! نظریات پر تنقید کرنا آزاد ھے ،اور علمی زندگی بحث و نقد پر موقوف ھے لیکن تنقید ادب و احترام کے دائرے میں ھونی چاہئے نہ کہ گالی اور نازیبا الفاظ میں ! جو شخص استدلال چاہتا ھے اس کو نازیبا اور فسق و کفر جیسے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نھیں ھے ، اور جو شخص نازیبا الفاظ اپنی زبان پر جاری کرتا ھے ، اس کا اخلاق و ادب ظاھر ھوجاتا ھے ، حضرت امام خمینی ۻکی یہ کتابیں ھمارے لئیے اور دوسرے مسلمانوں کیلئے حجت رکھتی ھیں، یہ امام خمینیۻکی” شرح دعاء سحر“ اور ”مصباح الھدایہ “ جیسی گرانقدر کتابیں کہ جن میںبہت سے مقامات پر محی الدین، ابن عربی ، قیصری، قونوی ، عبدالرزاق کاشانی ، قاضی سعید قمّی اور ان کے استاد مرحوم شاہ آبادی (رہ) کا بہت ھی ادب و احترام کے ساتھ نام لیا ھے اور ان کی تعریف وتمجید کی ھیں ، اور انھیں کی کتاب ” سِرُّ الصلواة“ جس میں عرفان کے دقیق و عمیق مطالب بیان کیئے گئے ھیں ، اور اسی طرح کتاب ”تفسیر سورئہ حمد “ اور اگر کوئی اھل تحقیق ھو ،تو وہ ان کتابوں کا مطالعہ کرے ، اور عرفان اور عرفاء کے بارے میں اپنے نظریہ کی تصحیح یا تثبیت کرے ۔ اور اسی طرح علامہ شھید مرتضی مطھری (رہ) جو امام خمینی ۻ کے خاص شاگردوں میں سے تھے جن کے بارے امام خمینی ۻ نے فرمایا :” مطھری میرا جسم کا حصہ اور میری عمر کا ماحصل تھے “ وہ فرماتے ھیں :”جناب محی الدین صاحب عرفان نظری اور عرفان علمی دونوں میں شیخ العرفاء ھیں ، اور جن لوگوں نے ان کو ” شیخ اکبر “ کا لقب دیا ھے وہ حق بجانب ھےں“مزید معلومات کرنے والے حضرات علامہ مطھری (رہ) کی کتاب ” تماشا گہ راز “ اور ” شرح مبسوط منطومہ“ اور حضرت آیت الله استاد حسن زادہ آملی اور ھمارے استاد حضرت آیت الله جوادی آملی ( روحی فداہ) کی کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ھیں ، اور جناب محی الدین صاحب کی شخصیت کے بارے میں ان حضرات کہ جو علم و عمل ، معقول ومنقول، فلسفہ اور عرفان میں جامع شخصیت رکھتے ھیں ، ان کے بیان سنیں ، اور اس کے بعد محی الدین اور دوسرے عرفاء کے بارے میں قضاوت کرےں، البتہ ھم یہ نھیں کہتے کہ ھروہ چیز کہ جو عرفاء کہتے ھیں” وحی منزل“ اور خطا و غلطی سے دور ھے ، ھرگز کوئی ایسا دعوی نھیں کرسکتا ، بلکہ اس کے بر عکس عرفان کے بعض نظریات کی تنقید کے ساتھ ساتھ ھمیں ان کو بالکل نظر انداز نھیں کرنا چاہئیے ، ھماری عرض صرف یھیں ھے اور بس۔ مزید معلومات کیلئے استاد شھید مطھری کی دواھم کتابوں ” آشنائی با علوم اسلامی ، کلام ، عرفان “ و”خدمات متقابل اسلام و ایران “ جس میں عرفاء کی احوال زندگی کے تحت محی الدین کے حالات بیان کے گئے ھیں، کے مطالعہ کی دعوت دیتے ھیں ۔ [48] تاریخ فلسفہ در اسلام تالیف میاں محمد شریف جلد دوم ص ۲ا۳ چاپ مرکز نشر دانشگاھی۔ [49] ھم خداوند کریم سے توفیقات طلب کرتے ھیں تا کہ آئندہ ابن تیمیہ کے نظریات پر ایک جامع رد لکھیں ، تا کہ پانی کو سرچشمہ ھی سے بند کردیا جائے چونکہ جو کچھ بھی بنام وھابیت ، محمد ابن عبدالوھاب کی طرف سے پیش ھوا ھے اس ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیّم کے نظریات کی مرھون منت ھے ، اسی وجہ سے ھم نے اس کتاب میں ان دونوں کے بارے میں بحث کی ھے ۔ [50] اسلامی فلسفہ وکلام کے علماء و عرفاء نے اپنی اپنی روشوں کے اختلاف کے ساتھ ساتھ ، توحید کے اقسام اور درجات بیان کیئے ھیں ، اور ان کی مشھور تقسیم اس طرح ھے : ا۔ توحید ذاتی ۲۔ توحید افعالی ۳۔ توحید صفاتی ۴۔ توحید عبادی یا توحید در عبادت اور یہ بات واضح ھے کہ توحید کی پھلی قسم اعتقاد اور یقین سے متعلق ھیں ، اورچو تھی قسم انسان کے عمل اور رفتار سے تعلق رکھتی ھے ۔ ابن تیمیہ اور وھابیت عموماً توحید کو اسی چوتھی قسم میں خلاصہ کرتے ھیں ، اور کہتے ھیں کہ اسلام نے یھی چوتھی قسم بیان کی ھے ، اور پھلی تین قسمیںدوسرے ادیان میں بھی نھیں اور جو چیز توحید قرآنی کو دوسرے ادیان کی توحید سے جدا کرتی ھے یھی چوتھی قسم ھے، یعنی توحیدعبادی اور توحید در عبادت کوبھی اس طرح تفسیر کرتے ھیں اور اس کادایرہ اتنامحدود کردیتے ھیں کہ بہت سے وہ شرعی مراسم و مناسک جو صدیوں سے رائج اور مرسوم تھے جس کی کسی نے بھی مشروعیت اور جواز میں کبھی کوئی شک وتردید نھیں کیا، ان کو بھی توحید سے خارج اور ضد توحید کہہ ڈالا ، مثال کے طور پر اولیاء الله سے حاجت روائی کی درخواست ، ائمہ معصومین علیھم السلام سے طلب شفاعت حتی حضرت رسول اسلام(ص) سے بھی طلب شفاعت ” ائمہ اور اولیاء الله“ کی قبروں کی زیارت ، شھداء اسلام کے لئے عزاداری اور حضرت رسول اکرم(ص) اور ائمہ (ع) کی یوم ولادت پر خوشی کا اظھار کرنا ، ائمہ اور اولیاء الله کے لئے نذر اور قربانی کرنا ، ائمہ اور اولیاء الله کی قبروںپر گنبد بنانا ، پیغمبر اسلام(ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے توسل اور استغاثہ کرنا ، اور دوسرے شرعی آداب و رسوم ،البتہ ھم ان تمام شبھات کے جواب آئندہ اسی کتاب میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے ، تا کہ قارئین کرام ! توحیدکا نعرہ لگانے والوں کی من گھڑت اور خودساختہ توحید سے آگاہ ھو جائیں ، اور ان کی توحید ، قرآن اور اسلامی تحریفات کی گھرائیوں سے با خبر ھوجائیں۔ [51] ھم اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ ان مسائل پر بحث وبررسی کریں گے ، اور بیان کریں گے کہ خود اھل سنت کے بزرگ علماء ان شرک آلود بدعتوں و ضد توحید ، جیسے خرافات کے مخالف نھیںھیں ، اور انبیاء و اولیاء الله کی قبروں کی زیارت اور ان سے توسل اور شفاعت کو شرعی وظیفوں میں شمار کرتے ھیں ، وھابی نہ سنی ھیں اور نہ شیعہ بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ یہ کسی بھی فرقے میں شامل نھیں ھےں،زبردستی خود کو اھل اسلام تصور کرتے ھیں ، جبکہ یہ لوگ خونخوار ، جنایت کا راور تحریف کرنے والے ملحد ھیں ، اور روز اول سے آج تک اسلام اور مسلمانوں کو نقصان و ضرر پھونچا نے کے علاوہ اور کوئی کام نھیں ھے۔ [52] وھابیان ، تالیف علی اصغر فقھی ص ا۵ ، انتشارات اسماعیلیان۔ [53] اگر چہ ھم اسی کتاب میں زیارت کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں گے لیکن اس وقت قارئین کی خدمت میں مختصر طور پر عرض ھے کہ پیغمبر(ص) یا ائمہ معصومین (ع) یا کوئی عظیم مذھبی شخصیت کی قبروں کی زیارت کرنادنیا کے ھر مذھب و ملت میں رائج ھے ، اور خود حضرت رسول اکرم(ص) کے زمانے میں بھی یہ مقبول سنت تھی ، حضرت رسول خدا(ص) جب حجة الوداع کے موقع پر جب مقام ”ابواء“ میں پھونچے وھاں پر اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی اور آنحضرت(ص) سے روایت ھے کہ آپ(ص) نے فرمایا : مجھے خداوند عالم کی طرف سے اجازت دی گئی کہ میں اپنی مادر گرامی کی ( قبر ) زیارت کروں ، صحیح مسلم جلد ۳ ص ۶۵ و سنن ابی داوود جلد ۳ ص ۲ا۲ ، اور بعض روایتوں میں وارد ھوا ھے کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے جب اپنی والدہ کی قبر کو دیکھاتو حضرت(ص)کی انکھوں سے اشک غم جاری ھو گئے ، اور حاضرین نے بھی آپ کو دیکھ کر روناشروع کردیا۔ (نقل از ” شوق دیدار “ تالیف ڈاکٹر مھدی رکنی ص ۵ا۲) [54] خدا کے علاوہ ، اولیاء الله کو پکارنے کے سلسلے میں وھابی فرقہ بہت زیادہ مغالطوں کا مرتکب ھوا ھے اور قرآنی آیات سے غلط نتیجہ نکالاھے ، کہ اولیاء اللهسے شفاعت اور مغفرت کا طلب کرنا ، شرک ھے ،جبکہ کوئی بھی مسلمان ایسا عقیدہ نھیں رکھتا ، بلکہ ان حضرات کی بارگاہ میں جو عظمت اور بزرگی ھے اس کی وجہ سے ان کو وسیلہ قرار دیتے ھیں ، ھم ” عالم ھستی میں واسطہ “ کے تحت اس بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔ [55] نقل از ”شوق دیدار “‘ڈاکٹر مھدی رکنی “ ص ۵ا۲ [56] نقل او ” شوق دیدار “ ڈاکٹر مھدی رکنی ص ۵۴۔ [57] نقل از ” شوق دیدار “ڈاکٹر مھدی رکنی ص ۵۵۔ [58] البتہ ابن تیمیہ کو اپنا یہ مدعاثابت کرنا چاھیئے کہ کیونکر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ھے ، جبکہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر خود خداوند عالم نے مخلوقات کی قسم کھائی ھے، اگر چہ تمام جگھوں کو بیان کرنا اس وقت مناسب نھیں ھے صرف سورئہ ” شمس“ میں خدا نے ۹ چیزوں کی قسم کھائی ھے مثلاً سورج ، دن، رات، آسمان، زمین، روح انسان، وغیرہ اور اسی طرح بعض سوروں میں مثلاً ” والعصر “ ” النازعات “ ” الذاریات “ ”القلم“ ” الطارق “ ” فجر “ ” الطور “ اور دوسرے سوروں میں بہت سی چیزوں کی قسم کھائی ھے ، اور اگر یہ کام شرک ھے تو پھر خداوند عالم نے یہ کام کیوں کیا ھے ؟! [59] صرف یھی مسئلہ کافی ھے تا کہ اس ظاھر پرست شخص کی دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکے ، حتی بچے بھی ایسی کوئی بات اپنی زبان پر نھیں لاتے کہ جس کا نتیجہ خدا کی جسمانیت اور اسکی محدودیت کا باعث ھو ، قارئین کرام توجہ رکھیں کہ ” قلبی دیدار “ جس کے علماء عرفان قائل ھیں ”حسی رویت “ ( آنکھوں سے دیکھنا ) جیساکہ وھابی حضرات اور ابن تیمیہ قائل ھیں، ان دونوں میں زمین تا آسمان فرق ھے ، اسی وجہ سے ھم کہتے ھیں کہ فرقہ وھابی فلسفی اور مستحکم استدلال اور عقلی بنیادوں پر قائم نھیں ھے ، اسی وجہ سے اسلامی معارف اور شناخت جھان کے اھم مسائل کو سمجھنے سے قاصر ھے ، اور یہ لوگ ناچار ھوکر تناقص گوئی کا شکارھو گئے ھیں۔ [60] نقل از” شوق دیدار “ تالیف ڈاکٹر مھدی رکنی ص ۵۵۔ [61] ” خدا کے دیدار “ کا مسئلہ علم کلام کے اھم اور دقیق مسائل میں سے ھے اور فرقہٴ اشاعرہ اس کا معتقد ھے اور اس پر تاکید کرتا ھے ، اور قرآن مجید سے اس مسئلہ کو ثابت کرتے ھیں ، قارئین کرام کیلئے اس مسئلہ کو قدرے بیان کرتے ھیں اگر چہ اس کی تفصیل ھماری آئندہ آنے والی کتاب ” درسھای از شرح تجرید “ جو” باب ھادی عشر“ کی شرح ھے ، کامطالعہ کریں ۔ [62] قارئین کرام ان حضرات کی حالات زندگی سے آگاھی کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ [63] یہ تعبیر حکیم مقالہ اسلامی ، الحاج ملاھادی سبزواری (رہ) صاحب کتاب ” غرر الفوائد “ جو ”شرح منظومہ “ سے مشھور ھے ، کہ جو مدتوں سے شیعوں کے حوزات علمیہ میں فلسفہٴ اسلامی کی اھم کتابوں سے ھے تدریس ھوتی ھے ۔ [64] گذشتہ مدرک ۔ [65] منظومہ سبزواری ، چاپ موسسہ مطالعات اسلامی ۔ [66] منظومہ سبزواری ص۶۴۔ [67] منظومہ سبزواری ص ۶۶۔ [68] وھابیان، علی اصغر فقیھی ص ۶۶۔ [69] سورہ بقرہ آیت ۳ا۲۔ [70] سورہ طہ آیت ۵۴۔ [71] سورہ طلاق آیت ۳۔ [72] سورہ یوسف آیت ۲۱۔ [73] سورہ بقرہ آیت ۳ا۲۔ [74] قارئین کرام مذکورہ موضوع سے متعلق مزید آگاھی کے لئے، شیعوں کی کلامی کتابوں کی طرف رجوع فرماسکتے ھیں ، منجملہ: ”باب حادی عشر“ ”شرح تجرید“ گوھر مراد“ ”سرمایہ ایمان“ ”انوار الملکوت فی شرح الیاقوت“ ”قواعد المرام فی علم الکلام“ ”ارشاد الطالبین“ ”انیس الموحدین“ ”حق الیقین فی معرفة اصول الدین“ مولفہ سید عبد اللہ شُبّر(رہ) “ [75] امام شناسی ، تالیف سید محمد حسین تھرانی جلد اول ص ۱۰، قارئین کرام مزید آگاھی کے لئے ”تفسیر المیزان“ و”تفسیر نمونہ“ اور مذکورہ شیعہ کلامی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ [76] کتاب وھابیان ، علی اصغر فقیھی ص ۱۱۳۔ [77] کتاب وھابیان ص۱۱۴۔ [78] وھابیان ص۱۱۳۔ [79] وھابیان ص۱۳۰، قارئین کرام اس سلسلہ میں مزید آگاھی کے لئے عالم مجاھد مرحوم علامہ امین (رہ) کی کتاب ”کشف الارتیاب“ کی طرف رجوع فرمائیں۔ [80] ھماری نظر میں ابن تیمیہ اور اسکے ھم فکروں کے نظریات کے سلسلہ میں تنقید کرنا آج کے معاشرے کے لئے بہت ضروری ھے کیونکہ وھابیوں کی تبلیغات کے علاوہ خودھم شیعہ حضرات میں بعض افراد پائے جاتے ھیں کہ جو فکری لحاظ سے ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ھوئے نظر آتے ھیں، جبکہ خود کو شیعہ کہتے ھیں ، لیکن ظاھر بینی ، منجمد افکار او رعلوم عقلی وفلسفہ اورعرفان کی مخالفت میں ابن تیمیہ کے شاگرد خلف ھیں ، او ران مقدس مآب ،ظاھر پرست اور عقل وفکر وتحقیق کے مخالفوں کا ضرر اور نقصان وھابیوں کی تبلیغات سے کم نھیں ھے ، لہٰذا ھم کو چاہئےے کہ ایسی فکر (ظاھری دید، عقل واستدلال سے مخالفت اور فلسفہ وعرفان کے صحیح افکار سے مقابلہ) کرنے والوں سے مقابلہ کریں کیونکہ یہ حضرات بھی وھابیوں کے بھائی ھیں ۔ [81] مشاھیر دانشمندان اسلام، الکنی والالقاب کا ترجمہ، تالیف مرحوم شیخ عباس قمی(رہ) ج۲ص ۳۰۸۔ [82] یہ بھی وھابیت کے آشکار تناقضات میں سے ھے ،یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ جوشخص ظاھر ی فکر رکھنے والا اور منطق وفلسفہ وعرفان کا مخالف ھو، اور ابن عربی کی طرح عرفان کے نظریات کاسر سخت مخالف ھو ،عرفان کا طرفدار ھوجائے اور اپنے اصول اوربنیادی نظریات کا (کہ جس کی اصل ھی عرفان کی مخالفت پر قائم ھو) وفادار باقی رھے ۔ [83] دانشنامہ ایران واسلام ج۶ص ۸۰۳۔ البتہ ھم یہ کہہ سکتے ھیں کہ جو لوگ افریقہ میں اسلام سے آشنا ھوئے ھیں وہ سعودی اور آل سعود کے تیل کے ڈالروں کی بھر پور حمایت اور ان کے وھابی مبلغین کے ذریعہ اسلام لائے ھیں ، اور واقعاً انسان کا دل دکھتا ھے کہ ایک باطل ،خرافی اور استعماری فرقہ اپنے تمام تر امکاناتِ مالی وفرھنگی(کلچر) کے ذریعہ افریقہ میں دن بدن نفوذ کررھا ھے اور نورانی وپاک پاکیزہ مذھب تشیع خود اپنے ھی ماننے والوں میں ناشناختہ ھے ، او رھم نے اپنے اسلامی معاشرے میں بعض اسلامی مسائل پر ایک بھی محکم کتاب لوگوں تک نھیں پھونچائی ھے ، او رجس طرح ھمیں اس مقدس مذھب کی تبلیغ کرنی چاہئےے تھی اس طرح ھم نے تبلیغ نہ کی اور صحیح طریقہ سے پڑھے لکھے اور جوان طبقہ تک اسلام کو نھیں پہچنوایا، ھم امیدوار ھیں کہ دلسوز علماء کرام اور مربوط ادارجات اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں، انشاء اللہ۔ [84] الاعلام ،خیر الدین زرکلی،ج۶ص ۵۶۔ [85] اخبار النساء تالیف ابن قیّم جوزی ،تحقیق ڈاکٹر نزر رضا، چاپ دار مکتبة الحیاة، بیروت۔ کتاب ”خلاصة الکلام“ میں اس طرح بیان ھواھے کہ: محمد ابن عبد الوھاب ۱۱۱۱ھ میں پیدا ھوا ، او ر ۱۲۰۷ھ میں اس دنیا سے چلا گیا، اس کی عمر ۹۶سال تھی۔ |