وہابیت کے چہرے | |||||
١۔ پیغمبر اکرۖم نے فرمایا ہے: ''مَن زَا رَنِی بَعدَ مَماتِی فکأنَّما زا رنی فی حیاتی'' جو شخص میری وفات کے بعد میری (قبر کی) زیارت کے لئے آئے گویا اس نے میری زندگی میںہی مجھ سے ملاقات کی ہے۔ ]سنن دارقطنی، ج٢، ص٢٧٨، ح ١٩٣[ ٢۔ پیغمبر اکرۖم کا ارشاد ہے: ''مَن زارنی الیٰ المدینة کنتُ لہ شہیداً و شفیعاً یوم القیامة'' جو شخص میری زیارت کے لئے مدینہ آئے گا میں روز قیامت اس کا گواہ اور شفیع بنوں گا۔ ]سنن ابو داؤد ج١، ص١٢،جیسا کہ ابن ابی دنیا نے کتاب وفاء الوفاء میں ص١٣٤٥ پر نقل کیا ہے[ ٣۔ پیغمبر اکرۖم نے فرمایا ہے: ''مَن زارنی مُحتسِباً الیٰ المدینة کان فی جواری یومَ القیامة'' جو شخص قرب خدا کے لئے میری زیارت کرنے مدینہ آئے وہ روز قیامت میرے جوار میں رہے گا۔ ]سنن کبریٰ: بیہقی، ج٥، ص٢٤٥[ ٤۔ پیغمبر اکرۖم نے فرمایا ہے: ''مَن زارَ قبری وجبتْ لہ شفاعتی'' جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت ضرور کروں گا۔ ]سنن دارقطنی، ج٢، ص٢٧٨، ح١٩٤[ ٥۔ امام مالک نے کہا ہے: ''جب بھی کوئی شخص پیغمبرۖ کی زیارت کے لئے آئے تو پیغمبرۖ کی طرف رخ کر کے پشت بقبلہ کھڑا ہوجائے پھر آپ کے اوپر درود بھیجے اوردعا کرے'' ] رؤوس المسائل :نووی، وفاء الوفائ، ص ١٣٧٧[ ٦۔ امام شافعی کے اصحاب سے نقل ہوا ہے: ''زائر اس طرح پشت بقبلہ کھڑا ہو کہ اس کا چہرہ ضریح اقدس کی طرف ہو یہ امام احمد بن حنبل کا قول ہے'' ]وفاء الوفاء ص١٣٧٨[ ٧۔ امام احمد بن حنبل کی کتاب العلل و السوالات سے نقل ہوا ہے: ''وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ برکت حاصل کرنے کی نیت سے رسول خداۖ کے منبر پر ہاتھ پھیرنا، یا اسے چومنا،یا اسی طرح خدا سے اجر و ثواب حاصل کرنے کی غرض سے آپ کی قبر مبارک پر یہی کام انجام دینا کیسا ہے؟۔ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ہے۔ ]وفاء الوفائ، ص١٤٠٤[ ٨۔ محب طبری کہتے ہیں: ''قبر کو چھونا اور اسے چومنا جائز ہے اور یہ علماء و صلحاء کا عمل ہے۔ ]وفاء الوفائ، ص١٤٠٦[ ٩۔ امام جعفر صادق نے اپنے اجداد طاہرین سے یہ روایت نقل کی ہے: ''جناب فاطمہ زہرۖا ہر جمعہ کو جناب حمزہ کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتی تھیں۔ ]تفسیر قرطبی، ج١٠، ص٢٤٨[
توسل
١۔ پیغمبر اکرۖم کی دعا: ''خدا یا! میں تجھے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو سوال کرنے والوں کا تیرے اوپر (حق) ہے۔ ]عمل الیوم و اللیلہ: ابن سنی، ص٨٢[٢۔ ساوی حنبلی اپنی کتاب ''المستوعب '' میں، زیارت قبر پیغمبرۖ کے بارے میں یوں تحریر کرتے ہیں: ''زائر قبر کے پاس آئے اور اس کے روبرو ،پشت بقبلہ ہوکر منبر کے دا ہنی طرف کھڑا ہو جائے۔ اس کے بعد انہوں نے سلام اور دعا کا یہ طریقہ ذکر کیا ہے ،کہ یوں کہے: ''أللّٰہم اِنک قلتَ فی کتابک لنبیّکۖ (وَ لَو أَ نَّہُم اِذ ظَلَمُوا أَنفُسَہُم جَاؤُوکَ فَاستَغفَرُوا اللّٰہَ وَ استَغفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ...) و اِنِّی قد أتَیتُ لِنَبِیِّک مُستَغفِراً فأسألُکَ أن تُوجِبَ لِیَ الْمَغفرَة کما اَوجَبْتَہا لِمَن أَتاہُ فی حیاتہ. أللّٰہُمّ اِنِّی أتوجَّہ اِلیک بنبیّک صلَّی اللّٰہ علیہ و آلہ'' پروردگارا! تو نے اپنی کتاب میں اپنے پیغمبرۖ سے فرمایا ہے: ''اورکاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور اپنے گناہوں سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے …''(سورۂ نساء آیت٦٤) چنانچہ اب میں تیرے نبی کے پاس استغفار کی غرض سے آیا ہوں اور تجھ سے میرا سوال ہے کہ مجھے اسی طرح بخش دے جس طرح تو انہیں بخش دیتا تھا جو آنحضرۖت کی حیات میںان کے پاس آتے تھے، بار الٰہا! میں تیری بارگاہ میں تیرے نبی کے وسیلہ سے حاضر ہوا ہوں.... ٣۔ صحیفۂ سجادیہ میں امام زین العابدین کی یہ دعا بھی ہے: ''وخَلعتَنِی یاربِّ بحق محمد و آل محمد مِن کلِّ غَمّ'' پروردگار! میں تجھے محمد و آل محمدۖ کے حق کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے ہر قسم کے ہم و غم سے نجات عطا فرما ۔ ]صحیفۂ سجادیہ، دعا٣٠[ ٤۔ ابو علی خلال، حنبلیوں کے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ: ''جب کبھی مجھے کوئی اہم ضرورت پیش آتی تھی تو میںجناب موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جاکر آپ سے توسل کرتا تھا اور اپنی حاجت حاصل کرلیتا تھا'' ]تاریخ بغداد، ج١، ص١٢٠[ ٥۔ امام شافعی لکھتے ہیں: ''میں ہر روز امام ابو حنیفہ کی قبر پر جاتا ہوں، اسکے وسیلہ سے برکت پاتاہوں اور جب کوئی حاجت ہوتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جاتا ہوں اور وہاں خدا سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں اور وہ کسی تعجب کے بغیر پوری ہو جاتی ہے''۔ ]تاریخ بغداد، ج١، ص١٢٣، مناقب ابی حنیفہ ،مؤلفہ: خوارزمی، ج٢، ص١٩٩[ ٦۔ ابوبکر محمد بن مؤمل کہتے ہیں: ''ایک روز میں اہل حدیث کے امام ابوبکر بنی خزیمہ اور ان کے ساتھی ابو علی ثقفی اور دوسرے متعدد بزرگوں کے ساتھ تھا ہم سب لوگ حضرت علی رضا کی قبر پر (طوس میں) گئے وہاں ہم نے ابن خزیمہ کو آپ کے روضہ میں آپ کی قبر کے سامنے نہایت ادب و احترام اور تواضع کے ساتھ اس طرح گریہ کر تے دیکھا کہ اس سے ہم سب کو حیرت ہو رہی تھی''۔ ]تہذیب التہذیب، ج٧، ص٣٣٩، علی بن نزار بن حیان اسدی کے حالات زندگی[ ٧۔ ابن تیمیہ نے تحریر کیا ہے: ''امام احمد بن حنبل سے کتاب (منسک المروزی) میں پیغمبر اکرۖم سے توسل اور (آپ کی قبر کے پاس)دعا نقل ہوئی ہے ۔ابن تیمیہ نے اس کو ابن ابی دنیا سے اتنے ذریعوں سے نقل کیا ہے جو اس کی صحت کی بہترین دلیل ہیں۔ ]التوسل و الوسیلہ: ابن تیمیہ، ص٦۔١٠٥[ جو کچھ ذکر کیا گیا ہے یہ دریا کے ایک قطرہ کی مانند ہے ورنہ بزرگوںکی سیرت و اقوال میں اس موضوع سے متعلق بے پناہ ذخیرہ موجود ہے۔ |