غدیر میں بیعت:
غدیر کے دن حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کو بہ عنوان ''امیرالمؤمنین'' سلام کریں اور علی کے ہاتھوں بیعت کریں ۔ یہ بات کتب فریقین میں آئی ہے۔
از جملہ طبری نے کتاب الولایہ میں زیدبن ارقم سے نقل کی ہے کہ : حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ غدیر کے اختتام پر فرمایا:
اے لوگو! کہیں ہم نے دلو جان سے آپ سے عہد کیا ہے اور زبان سے آپ سے پیمان باندھ لیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے آپ سے بیعت کرلی ہے اور اس خبر کو ہم اپنے فرزندوں اور خاندانون تک پہنچائیں گے اور اس میں کوئی ردوبدل نہیں کریں گے ۔ آپۖ اس بات کے گواہ رہئے خداوند عالم اس بات کے شاہد کے لئے کافی ہے جو کچھ میں نے کہا ہے اس کہو، اور علی کو امیرالمؤمنین کے لقب سے سلام کرے اور کہے خدا کا شکر ہے جس نے امر میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ گویا خداہی سننے والا اور دلوں کے خیانت سے آگاہ ہے جو بھی عہد کو توڑدے اپنی زبان سے توڑدی ہے جو بھی خداکے عہد وپیمان پر وفادار رہے اس کے لئے خداوند کریم کے ہاں اجر عظیم ہے ۔
زید بن ارقم کہتا ہے اس موقع پر تمام لوگوں نے اپنی اپنی حمایت اور بیعت کا اعلان کیا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں بیعت کرنے والوں میں ابوبکر، عمر ، عثمان ، طلحہ وزبیر تھے۔ باقی انصار ومہاجرین اور باقی لوگوں نے بھی بیعت کی۔
النشر والطی نامی کتاب میں آیا ہے ! لوگ بلند آواز میں کہنے لگے جی ہاں ! جی ہاں! ہم نے سن لیا اور دل وجان سے قبول کیا ۔ اس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کرنے لگے۔
اولو الا مر کون ؟
مقام عظمٰی ولا یت کی شناخت کا حصول اورکسب معرفت امام زمانہ علیہ السلام واجب ترین ارکان اسلامی میں سے ایک ہے بغیر معرفت امام زمانہ علیہ السلام انسان کمال مطلوب تک نہیں پہنچ سکتا ،کیونکہ امام زمانہ علیہ السلام ایمان کے ابواب میں سے ایک باب ہے ۔امانت دار خداوند متعال، چراغ ہدایت ، معدن علم و حکمت اور باب رحمت ، مایہ برکت زمین و آسمان ہیں۔ امام سے منہ پھیر نا دین سے خارج ہونااور امام کی اطاعت و پیروی کرنا حقیقت تک پہنچنے کی علامت ہے۔امام سے چشم پوشی اور دور ی با عث ہلاکت اور نا بودی ہیں ۔
ہمارے مکتب و مذہب میں امام کی معرفت اس قدر حساس اور مہم ہے کہ رسالت اورنبوت بغیر ولایت علی علیہ السلام کے اعلان کے نا مکمل رہ جاتی ہیں اور یہ عقیدہ او ر نظریہ حقیقت میں قرآن ہی کا نظریہ ہے اور لوگوں کے صحیح مسلمان اور مؤمن بننے کے لئے ضروری ہے کہ ولایت اور امامت حضرت علی علیہ السلام کو قبول کریں اور اس کی اطاعت و فرمان بر داری عین واجبات میں سے ہیں۔ اسی لیے قرآن میں فرمایا ۔یَا اَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ ......(١)آیہ شریفہ واضح طور پر اس بات کااعلان کرتی ہے کہ بغیر ولایت و امامت علی علیہ السلام کے رسالت خطرہ میں ہے یا یوں کہئے روح کے بغیر جسم کی مانند ہے ۔
حدیث رسول گرامی اسلامۖ ہے مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہ مَاتَ مَیْتَةَ الْجَاھِلِیَّةِ(١)جو بھی بغیر معرفت امام زمانہ علیہ السلام مرجائے گو یا اس نے جا ہلیت کی موت مرا ہے ۔
..............
١: مائدہ ٦٢ ٢:بحار الانوار ج ٣٢ ص ٣٢١ وسائل الشیعہ ج ١٦ ص ٢٤٦
وہ معروف اور مشہور ترین دعا جوغیبت امام زمانہ علیہ السلام میں پڑ ھتے رہنا چا ہیے وہ یہ ہے: اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنی نَفْسَکَ اس دعا کے حوالے سے ہم یہ جانتے ہیں کہ: یہ دعا اس بات کی حقیقت کی عکاس ہے کہ ا گر انسان اپنے وقت کے امام کو نہ پہچانے یا معرفت حاصل نہ کرے تو وہ گمراہ ہے اگر چہ وہ تو حید شناس اور نبوت شناس ہی کیوں نہ ہو . چونکہ وہ حجت شناس نہیں ہے اسی لیے وہ گمراہ ہے . ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنی۔ وہ دین جس میں توحید نبوت اور معاد بھی ہو لیکن اس میں حجت اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہو وہ دین دین نہیں ہے ۔
لہذا دین در حقیقت ضرورت انسان ہے اور انسان اپنی ضرورت کو صحیح طور پر پورا کرے آدھ دین لیں اور آدھ نہ لیں ایسا نہیں ہو سکتے پھر ہر زمانے میں ایک اما م کا ہو نا ضروری ہے جو انسانوں کی ضرورت دین کو پورا کر سکے ۔
لہذا ہم ان نورانی کلمات کے ساتھ کچھ عرا ئض آپ کی خدمت میں پیش کر نیکی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ےٰا اَھْلَ بَےْتٍ النُّبُوَّةِ ۔۔۔اَہْلَ الذِّکْرِ وَاُولی الْاَمْرِ وَبَقِیَّة اللّٰہِ
ہمارے ہزار وں دور دو سلام ہوں ان مقدس ہستیوں پر جو اہل ذکر اور اولو الامر اور بقیة اللہ ہیں ۔
بقیةاللہ سے مراد کون ہے ؟ بقیةاللہ یعنی خداوند کریم کے باقی ماندہ حجت اور جو اللہ کی طرف سے لو گوں کی ہدایت کے لیے معین ہوا ہے اور خدانداور مخلوق خدا کے درمیان رابطہ اور واسطہ کا کام کرتا ہے یہ عظیم ہستیاں جو یکی بعد دیگر ی آتی رہیں اللہ کے احکام بندوں کو بتاتے رہے یہاں تک کہ جناب سرکار ختم مرتبت کے تشریف لانے کے بعد آپ کے بر حق جا نشین علی ابن ابی طالب علیہ السلام و باقی آئمہ معصومین علیہم السلام انہی احکامات خداوندی کو بندوں تک پہنچاتے رہے نیزخدا اور بندوں کے درمیان دین مبین اسلام کو بیان کر تے رہے ۔
وحی تشریعی اور وحی تبیینی !
البتہ وہ ارتباط اور تسلسل جسے وحی تشریعی کہتے ہیں پیغمبر اکرم ۖ کی رحلت تک ہے آپ کی رحلت عظمی پر یہ وحی تشریعی اختتام کو پہنچی ۔البتہ یہ ارتباط وحی تبیینی کی شکل میں با قی رہے اور اس عظیم ذمہ داری اور رسالت کو آئمہ ہدی ٰ طاہرین و معصومین انجام دیتے رہے اور شریعت محمدیہ کو ان معصوم آئمہ نے تبین یعنی بیان کرتے رہے۔ جس طرح انبیا ے کرام علیہم السلام وحی تشریعی کو عالم غیب سے وصول کرتے آئیں اسی طرح آئمہ معصومین وحی تبینی کو عالم غیب سے وصول کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں قسم کی وحی کے لیے عصمت کا ہونا شرط ہے تا کہ کسی قسم کے سہو و نسیاں اور غلطی و غیرہ سے مبرا اور محفوظ رہ سکیں یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکر مۖ کے سچے جانشین اس عظیم ذمہ دار ی کو انجام دیتے رہے ۔ حضرت خاتم الاوصیا حضرت امام زمان بقیةاللہ فی الارضین آج اس عظیم ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں اور آپ خدا کے فضل و کرم سے زندہ وسلامت بندوں کے کاموں کو خدا کی طرف سے انجام دے رہے ہیں اور خدا اور بندوں کے درمیان رابطہ کا کام کر رہے ہیں۔ ویسے تو ہر معصوم اپنے زمانے کی حجت خدا اور بقیة اللہ ہیں لیکن اس وقت امام زمان علیہ السلام حجت خدا اور بقیة اللہ اعظم ہیں۔ کلمہ بقیہ اللہ قرآن مجید میں حضرت شعیب علیہ السلام کے قصہ میں آیا ہے کہ اس وقت کے لوگ با غی طاغی اور نافرمان اور گنہگار تھے۔ خاص طور پر کم فروشی میں مشہور تھے اسی حوالے سے حضرت شعیب نے ان کو ڈرایا اور فر ما یا :وَ یٰا قَوْمُ اَوْفُوْ الْمِکْیٰالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوْا النَّاسَ أَشْیَائَھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیْرلَّکُمْ اِنْ کَنْتُمْ مُؤْمِنِیْن (١)آیہ شریفہ میں بقیت اللہ سے مراد وہی مال حلال ہے جو کسب حلال کے ذریعہ اس کے لئے با قی رہ جاتا ہے ۔
بقیة اللہ کے سب سے بڑے مصداق اور اصل مراد آئمہ معصومین علیہم السلام خصوصا امام زمان
..............
١: سورہ ہود آیة ٨٥، ٨٦
علیہ السلام ہیں ،روایت میں آیا ہے َاوَّلُ مٰا یَنْطِقُ بِہ الْقَائِمُ حِیْنَ ا لْفَرَجِ بَقِیَّةُ اللّٰہِ خَیْرلَّکُمْ ۔
سب سے پہلے جو کلمہ ظہور پر نور کے موقع ادا فرما یئں گے یہی آیت ہے بعد میں آپ فرمائیں گے۔ اَنا بَقِیَّةُ اللّٰہِ وَ حُجَّتُہ وَ خَلِیْفَتُہ عَلَیْکُمْ (١)
میں ہی بقیة اللہ ، حجت اللہ اور خلیفة اللہ ہوں۔ دوسرے مؤمنین بھی آپ کو سلام اس طرح کرینگے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یٰا بَقِیَّةُ اللّٰہِ فی اَرْضِہ ، اہل ذکر ہو نا اہلبیت کی خصوصیات میں سے ایک ہے ۔
اہل یعنی جو بھی اُس سے مربوط اور کنٹیکٹ ہو یا جو بھی اس سے وابستہ اور سر وکار میں ہو تو اس وقت کہتے ہے کہ میں اس سے فلان چیز سے متعلق سرو کار ررکھتا ہوں یامیںفلان وجہ سے وابستہ ہوں آئمہ طاہرین علیہم السلام اہل ذکر اور پیغمبر اکرم ۖ سے وابستہ اور آپ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔
ذکر قرآن مجید میں چند معنوں میں استعمال ہوا ہے: ۔
سب سے پہلے خود قرآن ذکر کے معنی میں آیا ہے ۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحٰافِظُوْنَ (٢)ہم نے خود اس ذکر( قرآن) کو نا زل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے پس قرآن ذکر ہے یعنی یاد آور ی کرانے والا ۔ اور غافلوں کو ہوش اور تو جہ میں لانے والا (یعنی جن کے دل مردہ ہو چکے ہیں ان کوزندہ کرنا) خاندا ن بھی اہل قرآن اور اہل ذکر اور کتاب مکنون ہیں اِنَّہ لَقُرْآن کَرِیْم فِی کِتَابٍ مَّکْنُوْن لَا یَمَسُّہ الَّا الْمُطَہَّرُوْنَ(٣)
تنہا پاک لوگ ہی قرآن کو چھونے کا حق رکھتے ہیں۔ جو پاک نہ ہو وہ ہر گز قرآن سے مس نہیں ہوسکتا ۔پس حقیقت میں وہ مطہر کون ہے؟ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْ ہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِوَیُطَھِّرَّکُمْ تَطْھِیْراً(٤)وہی لوگ اہلبیت نبوت ہیں۔ جو خدا کی چا ہت اور ارادہ کے مطا بق طہارت مطلقہ سے بر خوردار ہیں اسی لیے ہم کہتے ہیں فَا سْئَلُوا اَہلَ الذِّکرِْ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْن(٥) اہل ذکر اور
..............
١ : تفسیر نورالثقلین ج٢ ص٣٩٢
٢:حجر آیة ٩
٣: واقعہ آیة ٧٧،٧٩
٤:نحل آیة ٤٣
قرآن سے وابستہ افراد کی طرف بڑ ھو اور جو کچھ نہیں جانتے انہیں سے پوچھو۔ بیگانوں اور غیر وں کے پیچھے مت دوڑو جن کو کچھ بھی نہیں آتا اَللّٰہُمَّ الْعَنْ اَوَّلَ ظَالِمٍ ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔خداوند ا !ان لوگوں کے اوپر لعن کر جنہوں نے قرآن اور اہلبیت کے اوپر سب سے پہلے ظلم روا رکھا اور اسلام اور مسلمین کو مصائب وآلام سے دوچار کیا اور اسلام کی جمعیت کو پرا کندہ کیا۔ آج جب ہم مکہ ّ جا تے ہیں تو اتنے بڑے لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کررشک آتا ہے جوظاہرا ً وہا ں جمع ہیں مگر باطن میں یہ سب ٹکروں میں بٹے ہوئے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اہل ذکر اور اہل قرآن اور اہل بیت کے پیچھے جا نے کے بجا ئے بیگانوں کے پیچھے ہولئے اور غیروں کے پاس جا نے کی وجہ سے آج مسلمان تہتر ٧٣فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ورنہ اہل بیت کے دامن سے وابستہ ہو تے تو اتنے فر قے نہ بنتے اور مسلمان تر قی اور بلندیوں تک پہنچ جاتے ۔چونکہ وہ تنہا اہل ذکر ہیں اور اہلبیت ہی حا فظ قرآن و شریعت ہیں (اَہْلُ الْبَیْتِ اَدْرٰی مٰا فی الْبَیْتِ)صاحب خانہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ گھر میں ہو تا ہے ۔اگر کوئی چو ر کسی گھر میں داخل ہو جائے تووہ کیا جانے گھر میں کیا ہے کیانہیں ؟قرآن تو انہی کے گھر میں نازل ہو ا ہے۔ قرآن کے صحیح مخاطب رسول اکرمۖ ہیں۔ قرآن کی بلندی اور عظمت اور اس کے معنی و مفاہیم پیغمبر ۖ اور انکے اہلبیت ہی جانتے ہیں دوسرے لوگوں کو چاہئے جو کچھ پوچھنا ہے ان حضرات مقدس سے پو چھیں چو نکہ قرآن کے اصل وارث اور معلم قرآن یہی ہستیاں ہیںاور حقیقت قرآن سے یہی حضرات آگاہ ہیں ۔
ذکر کے دوسرے معنی ذات اقدس رسول اکرم ۖ ہیں ۔
قران مجید میں ذکر کے دوسرے معنی خود ذات گرامی پیغمبر اکرمۖ ہیں چنانچہ ہم پڑ ھتے ہیں
فَا تَّقُوا اللّٰہَ یٰااُولی الاَلْبَابِ الذین آمنوا قد انزل اللہ الیکم ذکرا رسولا یتلوا علیکم آیات اللہ مبینات(١) اس آیہ مبارکہ میں بعض تفاسیرکے مطابق رسولاً عطف بیان ہے
..............
١: طلاق آیة ٩، ١٠
خود رسول اکرم ۖ ذکر ہیں۔ جب رسول ذکر ہوا تو رسول کے خاندان اور اہلبیت بھی ذکر میں شامل ہو گئے بنا بر این کلمہ ذکر قرآن مجید میں قرآن کے لیے بھی آیا ہے اور رسول کے لیے بھی آیا ہے۔
اولوالامر کا مقام قرآن کی نگاہ میں:
اولوالامر صاحبان حکم ،صاحبان فرمان، ہم یہاں چند آیتوں کو نقل کریں گے تا کہ اولو الامر کے معنیٰ اورمفہوم و اضح ہو سکیں ۔
ایک آیت میں اسطرح آیا ہے کہہ دیجئے !حقیقت میں ہر حکم اورفرمان صرف خدا کے لیے ہے پوری کائنات میں حکم بس خدا کا ہے لیکن یہ امر اور حکم خدا کیا چیز ہے ؟اِنَّمَا اَمْرُہ اِذَا اَرَادَ شَیْئًااَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْن(١)خدا کا حکم یہ ہے جو کام انجام دینا چاہے تو وہ کہتا ہے ہو جا تو ہو جا تا ہے کائنات کی تمام مو جود ات اس کے کنٹرول میں ہیں ۔
آسمان اور زمین اس کے حکم کے مطابق قا ئم ہیںالشَمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرَاتٍ بِّاَمْرِہ (٢) سورج چاند ستارے خدا کے حکم سے مسخر ہوئے ہیں ۔اس وقت فر ماتا ہے ۔ وَ جَعَلْنَا ہُمْ اَئِمَّةًیَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا(٣) ان رہنما ؤں کو جن کو ہم نے امام قرار دیا ہے ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں .و ہی حکم جو ان اَلْاَمْرُ کُلُّہ لِلّٰہِ بیشک تمام اختیار ات اور امر خدا سے متعلق ہے کہ اِذَا اَرَدْنَاہُ اَنْ نَقُولَلَہ کُنْ فَیَکُوْن(٤)جی ہاں! ہم نے ان حکموں کو ان اماموں کے ہاتھوں میں دیا ہے کہ یَہْدُوْنَ بِأَمْرِنَا لہذا یہ آئمہ اولو الامر ہیں پس جو اولو الامر ہو گا ان کی اطاعت واجب ہے جسطرح خدا اور رسول کی اطاعت واجب ہے اس طرح ان اماموں کی اطاعت او رفر مان برداری واجب ہے ۔یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آٰمَنُوْااَطِیْعُوْاللّٰہ واَطِیْعُوا الْرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ(٥)اے صاحبان ایمان اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور اولو الامر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں ۔
..............
١: یٰسن آیة ٨٢
٢: اعراف آیة ٥٤
٣: انبیاء آیة ٧٣
٤: نحل آیة ٤٠
٥: نساء آیة ٥٩
علماء کرام نے اس آیت مبارکہ کے حوالے سے امام ہو نے کے لیے عصمت کو شرط قرار دیا ہے یہاں اولو الامر کی اطاعت کو مطلقا واجب قرار دیا گیا ہے اور یہی وجوب اطاعت مطلق اس بات کاگواہ ہے کہ امام کیلئے عصمت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اگر جائز الخطا ہونگے تو ایک قسم کا تنا قض لازم آئے گا۔ کیونکہ گنہگار کی اطاعت کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے ۔لہذا جسطرح خدا اور رسول ۖپاک ہیں۔ اسی طرح اولو الامر اور امام بھی پاک ہیں اور یہ امام اور اولو الامر من جانب اللہ ہیں نہ کہ لو گوں کے انتخاب سے ۔
دنیا کی محبت ایک بڑ ی بیمار ی ہے جو انسان کے لیے ہلاکت اور نابودی کا باعث بنتی ہے!
ہجرت کے دسویں سال :
وہ حج جسے متعدد نام سے جاناجاتاہے حجة الوداع ،حجة الاسلام ، حجة البلاغ ،حجة الکمال ، حجة التمام۔ غدیر خم میں جو مقام جحفہ سے پہلے جہاں سے مختلف ملکوں کے لوگ جدا ہو جاتے ہیں عراق ، مدینہ ، مصر، و غیرہ یہ جگہ تاریخ بشریت میں ایک عجیب جگہ ہے جس کو ہم انسانیت کی سعادت اور سر بلند ی کا نام دے سکتے ہیں جس میں قیام قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت کی ضمانت اور گارنٹی موجود ہے اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کو ضلالت اور گمراہی سے نجات کا سیسٹم موجود ہے۔ روشنی ہی روشنی اور نور ہی نور ہے۔ اس حوالے سے حادثہ غدیر خم تا ریخ انسانیت کا ایک قصہ نہیں جس کا زمانہ گذر گیاہو اور نہ ہی یہ حادثہ اور واقعہ صرف ایک شخصی مسئلہ ہے جس میں پیغمر گرامی اسلامۖ نے حضرت علی علیہ السلام کو
اپنا جانشین اور وصی بنایا ہو ! جیسے شیعوں کا کہنا ہے۔ اسطرح اسلامی معاشرے کے معروف و مشہور ترین شخص حضرت علی علیہ السلام (جسیے اہل سنت کا کہنا ہے ) انٹرو ڈیوس (تعارف )کر وایا ہو جسکا فائدہ اور استعمال کا وقت اور تاریخ گذر چکا ہو۔ نہیں! بلکہ غدیر خم کا معاملہ پوری تا ریخ بشریت سے مربوط ہے اور ان اما موں کی امامت پوری تا ریخ بشریت کے لیے بیان ہوئی ہے یہ وہ حقیقت ہے جس کا آغاز ولایت اور امامت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب سے ہوا ہے اور اس ولایت اور امامت کاتسلسل حضرت امام مہدی آخرزمان علیہ السلام تک جا پہنچا ہے اور یہ بات ولایت اور امامت کے مخالفین نے اچھی طرح سے سمجھ لی ہے اس لیے آغاز ہی سے ان لو گوں نے اس چیز کو دبا نے اور محدود کرنے کی کو شش کی جس میں یہ لوگ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے کہ کسی نہ کسی طریقے سے واقعۂ غدیر کی تاویل ہو۔ البتہ اگر وہ ولایت اور امامت حقہ حضرت علی علیہ السلام تک محدود اور منحصر ہوتی تو ممکن تھا ان مخالفین کے لیے قبول کرنے میں کو ئی اعتراض اور پریشانی نہ ہو لیکن مسئلہ اور پریشانی کی اصل وجہ ولایت اور امامت کا تسلسل اور تداوم تھا جس میں ان کے لیے سخت پریشانی اور اضطراب مو جود تھا جس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے اَلْیَوْم یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا………یہ لوگ جو آج ولایت اور امامت علی علیہ السلام کے بعد مایوس ہو گئے ہیں۔ در واقع وہ تمام دشمنان اسلام جو حالات سے مجبور ہو کر اسلام لائے تھے اور کسی مصلحت کے تحت مسلمانوں کی صف میں کھڑے ہوئے تھے اورکسی مناسب مو قع کے انتظار میں تھے کہ اسلام پر کاری ضرب لگائیں اس کے لیے مناسب موقع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تھی۔ اس حوالے سے دشمنان اسلام اور منافقین نے ملکر کئی دفعہ دہشت گر دی کے ذریعے پیغمبر اکرمۖ کو شہید کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ان کے منصوبے ناکام ہو گئے۔ یہ بات پیغمبر اکرم ۖ بھی صحیح طرح سے جانتے تھے۔ اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا: امامت کا تسلسل جاری ہے ۔ ثُمَّ مِنْ بَعْدِی عَلِی وَلِیُّکُمْ وَاِماَمُکُمْ بِاَمْرِاللّٰہِ رَبِّکُمْ ثُمَّ الْاِمَامَةُ فی ذُرِّیَّتِہ مِنْ اَوْلاَدِہ اِلٰی یَوْمٍ تُلْقُوْنَ اللّٰہُ عَزَّ اسْمُہ وَرَسُوْلَہ ۔(١)۔
خداوندعالم کے فرمان کے مطابق میرے بعد علی تمہارے ولی اور امام ہیں اس کے بعد امامت کا سلسلہ میری نسل اور علی کے فرزندوں سے شروع ہو کر قیامت میں خدا اور رسول سے ملاقات
..............
١:بحار الانوارجلد٣٧ ص ٢٠٧۔٢٠٨
ہونے تک جاری رہے گا۔ اس وقت جو آپکے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ قرآن مجید کی آیات ہیں جن سے غدیر خم میں خطبہ غدیر کے حوالے سے امامت حضرت علی اور دوسرے آئمہ کے با رے میں استدلال کیا گیا ہے۔ انشا ء اللہ ثمرہ واضح ہو جائے گا:۔
(١)وہ نکتہ جو حدیث غدیر اور واقعہ غدیر کے بارے میں ہے۔
ہم خطبہ اور حدیث غدیر اور قبل اور بعد واقعۂ غدیر کے بارے میں ایک نگاہ ڈالیں گے جس سے با ت واضح اور روشن ہو جائے گی کہ امامت حضرت علی اور اس کے تسلسل کے بارے میں کیا بات تھی ۔
(٢)پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ٩٠ ہزار سے ایک سو بیس ١٢٠ ہزارافرد تک کو مقام جحفہ میں سخت ترین گرمی کی حالت میں روکنا اہمیت کا حامل ہے ۔
اپنے خطبہ کو ان الفاظ کے ساتھ آغاز کرتے ہیںکہ: میں عنقریب اس دنیا سے رحلت کرنے والا ہوں اورجلدی خداوند کریم کی آواز کو لبیک کہنے والا ہوں یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ آپ اپنے بعد کے جانشین کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں ۔
(٣) رسول گرامی اسلام نے لوگوںسے اس بات کی گواہی طلب کی کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے اعتقادات، احکامات اور اعمال تھے تم لوگوں تک پہنچائے یا نہیں ؟ تو لوگو ں نے اعتراف کیا ۔بعد میں خدا کو گواہ اور شاہد بنایا اس بات کا جو ان لوگوں نے اقرار کیا تھا ۔
(٤)حدیث ثقلین کودوبارہ لوگوں کی یاد آوری و یاد دہانی کے لئے دہرایا: اگر تم لوگ گمراہ ہو نا نہیں چاہتے تو قرآن اور اہلبیت سے جدا نہ ہو جائیں یہ ایک مقدمہ ہے جوکہ بعد کے لیے ہے۔
(٥) اس کے بعدحضرت علی کے ہا تھوں کو اوپر اٹھایااورلوگوں سے اقرار لیا کہ خدا اور رسول ان کے اوپر ولایت رکھتے ہیں اس کے بعد فرمایا : مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَہٰذَا عَلِیّ مَوْلَاہُ۔
جس کا میں مو لا ہوں اس کا علی مو لا ہے ۔ یعنی جو ولایت پیغمبر اکرم کے لیے ثابت ہے وہی علی کے لیے بھی ثا بت ہے ۔
(٦)جملۂ من کنت مولاہ ……کو احمد بن حنبل کے قول کے مطابق چا ر بار تکرار فرمایا تا کہ لوگ فراموش نہ کریں ۔
(٧)اُن لوگوں کے حق میں نفرین کی جنہوں نے ولایت علی کو قبول نہ کیا ۔
(٨)قرآن کی مختلف آیات کو خصوصاً آیہ تبلیغ، آیہ اکمال و غیرہ کو استدلال اور گواہ کے طور پر پیش کیا جن کے بارے میں بعد میں بحث کریں گے ۔
(٩)لوگوں کو ولایت علی پر مبارک باد دینا اور وہاں موجود تمام مر د وزن سے بیعت لینا حضرت علی کی امامت اور اس کے تسلسل اور تداوم کے بارے میں گواہی دیتا ہے۔ حضرت علی کی امامت اور اس کے تسلسل اور تداوم کے بارے میں توجہ کے ساتھ یہ بات عرض کر تا چلوں کہ خطبہ غدیر اور واقعہ غدیر کے بعد اور اس سے قبل نازل ہونے والی آیات کواستدلا ل کے طور پر ذکر اور مورد بحث قرار دیں گے۔
(١٠)آیہ تبلیغ یا اعلان امامت :حمد اورثنا ی پر ور دگار کے بعد فرما یا : فَاَوْحٰی اِلی …یٰا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْخداوند کریم نے جوکچھ آپ کے اوپر نازل کیا ہے لوگوں تک پہنچا دیجئے اگرایسا نہ کیا تو آپ نے کار رسالت ہی انجام نہ دیا ۔ خداوندآپ کو لوگوںکے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اسی دوران آپ نے بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا :جبرئیل ابھی تین مرتبہ نازل ہواکہ خداوند عالم کا حکم ہے اس بڑ ے مجمع میں اعلان کروں :اِنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طَالِبٍ اَخی وَ وَ صِیّ وَخَلِیْفَتی وَ الْاِمَامُ بَعْدی حقیقت میں یہ علی ابن ابی طالب میرے بھا ئی ،میرے وصی اور میرے جانشین ہیں۔
|