|
خواجہ نصیر الدین طوسی:
خواجہ نصیر الدین طوسی نے ضرورت اور وجوب امام کے بارے میں بیان کرنے کے بعد شرائط امام مثلاً عصمت وافضلیت امام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : وَالْعِصْمَةُ تَقْتَضی النَّصّ وَسِیْرَتُہ۔
علامہ حلی فرماتے ہیں:
امام میں شرط عصمت تقاضا کرتی ہے کہ خلافت وامامت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہو۔ کیونکہ عصمت ایک ایسا امر باطنی ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہی ذات پروردگار حق وحقیقت ہے جوا پنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور پیغمبر اکرم ۖ بھی لوگوں کو امام کے بارے میں آگاہ فرماتے ہیں اسی طرح سیرت عملی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ آسان سے آسان تر احکام مثلاً صحت وصفائی ، کھانے پینے کے طریقے، سونے جاگنے کے طریقے اور قضائے حاجت وغیرہ کے بارے میں لوگوں کو بیان فرماتے رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے ایک اہم ترین رکن اور مسلمانوں کی آئندہ کی زندگی کے بارے میں یعنی اپنے جانشین کے بارے غفلت برتیں اور اس اہم مسئلہ سے چشم پوشی کرئے؟!!
پس ناگزیر ہے کہ اس بات کو قبول کرلیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وظیفہ شرعیہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی سیرت طیبہ کے ذریعے اپنے جانشین وخلیفہ کو خود معین فرماگئے ہیں۔
روایات میں بھی امام کی شناخت اور معرفت کی ضرورت پر کافی زور دیا ہے جیساکہ شیعہ وسنی دونوں طریقوں سے درج ذیل احادیث نقل ہوئی ہیں جو امام وخلیفہ کی معرفت کو ہرزمانے کی نسبت واجب قرار دیتی ہیں چنانچہ پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا:
مَنْ مٰاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمٰانِہ مٰاتَ مَیْتَةَ الْجٰاہِلِیَّةِ
جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
ہم یہاں ایک نظر دین مبین اسلام پر کرتے ہیں ۔ اسلام کا سیاسی و اجتماعی نظام اگر اس کے فردی و عبادی نظام سے زیادہ نہیں ہے تو کمتر بھی نہیں ہیں ۔
ہم اگر تھوڑی سی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کریں کہ اسلام کے احکام اور شریعت الٰہی کو ایک ایسے محافظ کی ضرورت ہے جو اسے تحریف ہونے سے بچائیں تو دوسری طرف ایک مفسر اور مبین کی بھی ضرورت ہے جوآنے والی نسلوں کے لئے اس کی حقیقت کو واضح اور روشن کرسکے ۔ جیسا کہ خود پیغمبر اکرم ۖ کے زمانے میں بھی قانون اسلام کو بیان کرنے کے لئے ایک مفسر اور قانون دان کی ضرورت تھی اور وہ خود ذات گرامی پیغمبر اکرمۖ تھے ۔ اسی طرح ہر زمانے میں ان قوانین اسلام کو بیان کرنے والا قانون دان اور مفسّر ومبیّن ہونا چاہئے جو معصوم عن الخطاء ہو۔نیز فردی و اجتماعی اختلافات کو دور کرنے کے لئے ایک مرکز ومحور کی ضرورت ہے اس طرح اسلامی معاشرہ ہمیشہ کے لئے اپنی سیاسی واجتماعی مشکلات کو دور کرنے کیلئے ایک مشکل کشا کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں جس کے لئے ایک عظیم رہبر و رہنما کی ضرورت ہے جو عالم ہو ، عادل ہو، حق پرست ہو، حق گوہواور دلسوز و مہربان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے طمع ولالچ سے مبرا ہو اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرنے والا نہ ہو۔ ایسے ہی رہبر ورہنما کشتی کو کنارے تک پہنچا سکتے ہیں۔اورامت کو نجات دلاسکتے ہیں ۔
لہٰذا ہر عاقل و مدیر ومدبّر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد جانشین کا تعین حتماً کرکے گئے ہیں ۔ چنانچہ گذشتہ انبیاء کی راہ وروش بھی یہی رہی ہے۔
ابھی تک جتنے فوائد بیان کئے گئے وہ ظاہری تھے لیکن اس کے باطنی ومعنوی فوائد کا اندازہ صاحبان بصیرت ہی کرسکتے ہیں۔
امام پیغمبر کی طرح حجّت خدا ہوتے ہیں اور حجت خدا ہی زمین وآسمان کے امن وسلامتی کا ضامن ہوتے ہیں ۔ انہیں کے توسط سے ہی ہم تک رزق وروزی پہنچ جاتے ہیں ۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ جسے ہم جانتے نہیں۔ انہیں حجت خدا کے ذریعہ انسان کامل ہوسکتے ہیں ، عروج حاصل کرسکتے ہیں ، یہی راز خلقت بشریت ہے ، یہی مقصد خلقت انسان ہے اور یہی اشرف مخلوقات کاضامن ہے ۔
آج کے دور میں بعض چھوٹے بڑے پیرومرشد کے ذریعہ ، بعض چھوٹے موٹے عارف وحکیم کے ذریعہ اور بعض فقط خدائی نعرے لگا کر گمراہ اور ضلالت کے گہرے سمندر میں غرق ہورہے ہیں اس لئے انسان کو چاہئے کہ حجت خدا ، حقیقی جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام کی معرفت اور شناخت حاصل کریں۔
نص ونصب:
لغت میں نص سے مراد واضح اور روشن ہونا ہے۔ نص ونصب علم کلام اور علم اصول کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ: ہر سخن صریح وروشن جو کسی اور معنیٰ میں قابل تاویل وتعبیر نہ ہو۔ نصب بھی کسی چیز کو اٹھا نا اور کسی جگہ کی علامت گزاری کرنا ہے بہ الفاظ دیگر نص سے مراد کھلے الفاظ میں کسی کا تعارف کرانا ہے اور نصب سے مراد کسی کا عملی وفعلی اور پریکٹیکل طریقے سے تعارف کراناہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر شیعہ وسنی مصادر میں جتنی بھی کتابیں ہیں ان تمام کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے جانشین معین کرکے جانے پر نصوص پائے جاتے ہیں ۔ ہم یہاں چند نصوص کا ذکر کرتے ہیں:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس دن دعوت اسلام کو واضح وآشکار فرمایا تو آپ نے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو گھر پر دعوت دی ۔ اسلام کے آئین کو ان کے سامنے بیان فرمایا ۔ وہیں پر حضرت علی علیہ السلام کی وفاداری اور ایثار کو دیکھتے ہوئے سب کے سامنے اعلان کیا کہ میرے بھائی علی آج کے بعد میرا وصی اور جانشین ہیں۔
اسی طرح جب آپۖ آخری حج کے لئے تشریف لے گئے تو حج سے واپسی پر غدیر خم کے میدان میں حضرت علی کی خلافت وامامت کا اعلان فرمایا۔ اس سے بھی آگے بڑھکر جب آپ ۖ اپنی عمر کے آخرین لمحات گزاررہے تھے توشدت علالت ، کمزوری، اور تب میں مبتلا ہونے کے باوجود علی کی خلافت وامامت کے بارے میںتاکید فرمائی۔ آپ نے قلم دوات منگوایا تاکہ تحریری صورت میں باقی رہ سکیں ۔ مگر ایک گروہ کی مخالفت کی وجہ سے اسے ضبط تحریر میں نہ لاسکے ۔
حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد ہر مہم موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی خلافت وامامت کا ذکر فرمایا۔
حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے وہ نصوص جو حضرت علی علیہ السلام کی خلیفہ بلافصل ہونے اور آپ کے اولاد معصومین علیہم السلام کے بارے میں وارد ہوئے ہیں ان میں سے چند نصوص کا یہاں ذکر کرتے ہیں۔
حدیث عصمت وطہارت ، حدیث اخوت وبرادری، حدیث محبت ، حدیث منزلت، حدیث ثقلین ، حدیث مع الحق، حدیث سفینہ ، حدیث امان ، آخر میں حدیث ولایت (حدیث غدیر)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کے جتنے فضائل بیان کئے ہیںان احادیث کی تعداد بے شمار ہے۔ ابن شہر آشوب مازندرانی اپنی کتاب'' مناقب ''لکھ رہے تھے تواسوقت ان کے سامنے فضائل حضرت علی کے بارے میں ایک ہزار کتابیں موجود تھیں ۔ ان میں نہ صرف شیعوں کی کتابیں ہیں بلکہ اہل سنت کی بھی کتابیں ہیں۔ ہم یہاں پر نمونے کے طور پر چند مہم ، موثق اور ثقہ احادیث کا ذکر کریں گے جو حضرت علی کی عظمت اور ان کی امامت وخلافت بلافصل پر بیّن دلیل ہیں۔
١۔ حدیث منزلت : اِرْجِعْ یٰا اَخی بِاَنَّ الْمَدِیْنَةَ لاٰتَصْلَحُ اِلَّا بی وَبِکَ فَاَنْتَ خَلِیْفَتیْ فی اَھْلِ بَیْتی وَدَار ھِجْرَتی وَقَوْمی اَمٰا تَرْضیٰ اَنْ تَکُوْنَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی اِلَّا اَنَّہ لَا نَبِیَّ بَعْدی (١)۔
یٰا عَلی اِنَّمٰا اَنْتَ مِنّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ اِلَّا اَنَّہ لَانَبِیَّ بَعْدی(٢)
یعنی اے علی تیری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسیٰ سے ہے(کہ جانشین وبرادر موسیٰ
تھے) البتہ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
..............
(١) اعلام الوریٰ ص١٢٣ ، ارشاد شیخ مفید ص ٧٩،٨١
(٢) امالی شیخ صدوق ص ١٠٤، ١٠٥
٢۔ حدیث ثقلین:اِنِّیْ تٰارِک فیِْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتی اَھْلُ بَیْتی اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدی اَبَداً وَاَنَّہُمٰا لَنْ یَّفْتَرِقٰا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض بتَعْلَمُوْا مِنْھُمْ وَلَا تَعْلَمُوْھُمْ فَاِنَّھُمْ اَعْلَمُ مِنْکُمْ(١)۔
میں تمہارے درمیان دوگرانبہاچیزیںچھوڑے جارہاہوں اگران سے متمسک اورمرتبط رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوجاؤگے ، ایک اللہ کی کتاب (قرآن مجید) دوسری میری عترت و اہلبیت ۔
٣۔ حدیث مع الحق: عَلِیّ مَعَ الْحَقِّ فَمَنْ تَبِعَہ فَھُوَ عَلٰی الْحَقِّ وَمَنْ تَرَکَہ تَرَکَ الْحَقِّ عَھْدًا مَعْھُوْرًا(٢)
حدیث دوم : عَلِیّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ وَلَنْ یَّفْتَرِقٰا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ یَوْمَ الْقِیَامَة(٣)
یعنی علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی الگ نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ روز قیامت میرے پاس پہنچ جائیں ۔
٤: حدیث عصمت وطہارت: اَللّٰھُمَّ ھٰؤُلاٰئِ اَھْلُ بَیْتی وَخَاصَّتی فَاذْھَبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَہَّرَہُمْ تَطْہِیْراً (٤)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن و حضرت امام حسین علیہم السلام کو چادر میں جمع کیا اور فرمایا: خداوندا! یہی میرے اہل بیت ہیں پس ان سے ہر قسم کی پلیدی اور رجس کو دور فرما اور ان کو پاک وطاہر بنادے۔
..............
(١) احقاق الحق ج ٩ ص ٣٤٢
(٢) مجمع الزوائد ج٩ص١٣٤،صواعق محرقہ ص ١٢٢
(٣) تاریخ بغداد ج١٢ ص ٣٢١، غایة المرام ص ٥٣٩
(٤) سبیل الھدی والرشاد ص ١٢
٥: حدیث سفینہ: مَثَلُ اَھْلِ بَیْتی کَمَثَلِ سَفِیْنَةِ نُوْحٍ مَنْ رَکِبَھٰا نَجٰی وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْھٰا غَرِقَ وَھَوٰی(١)
٭اَلَا اِنَّ مَثَلُھُمْ فِیْکُمْ کَمَثَلِ سَفِیْنَةِ نُوْحٍ مَنْ رَکِبَھٰا نَجیٰ وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْھٰا غَرِقَ وَمِثْلُ بٰابِ حِطَّةٍ فی بَنی اِسْرَائِیْل
٭ فَمَنْ رَکِبَ ھٰذِہ السَّفینَةِ نَجیٰ وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْھٰا فَغَرِقَ (٢)
میرے خاندان کی داستان ، داستان کشتی نوح علیہ السلام کی طرح ہے جو بھی سوار ہوگا نجات ملے گی اور جو سوار ہونے سے کترئے گا ڈوب جائے گا اور غرق ہوجائے گا۔
٦: حدیث ولایت: اِنَّ ھٰذا اَخی وَوَصِیّی وَخَلِیْفَتی فِیْکُمْ فَاسْمَعُوْ لَہ وَاَطِیْعُوْا (٣)
٭ مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَعَلِیّ مَوْلاٰہُ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ (٤)
اے علی میرے بعد آپ تمام مؤمنوں کا ولی اور سرپرست ہیں جس کا میں مولا ہوں اسکے آپ بھی مولا ہیں
٧: حدیث امان: اَلنُّجُوْمُ اَمَان لِاَھْلِ الْاَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَاَھْلُ بَیْتی اَمَان لِاُمَّتی مِنَ الْاِخْتِلَافِ فَاِذَا خَالَفَتْھٰا قَبِیْلَة مِّنَ الْعَرَبِ ، اِخْتَلَفُوْا....(٥)
میرا خاندان زمین والوں کا مامن ہے جیسا کہ ستارے اہل آسمان کا ماّمن ہیں۔
..............
(١) عیون اخبار الرضا ج١ ص ٢١١
(٢) بحار الانوار ج ١٥
(٣) تاریخ طبری ج ٢ ص ٦٢،٦٣
(٤) امالی شیخ صدوق ج ١ ص ٢٦٠
(٥) صواعق محرقہ ص٩١ ، مسند احمد ج ٥ ص ٩٣ ، ینابیع المودة ص ٢٩٨
اس طرح کی بہت ساری احادیث بطور نص موجود ہیں جو حضرت علی کی فضائل بیان ہیں۔
مذید معلومات Information کے لئے درج ذیل کتابیں موجود ہیں مراجعہ فرمائیں
المراجعات علامہ سید شریف الدین حق الیقینعلامہ مجلسی
الغدیر علامہ امینی معالم المدرستینعلامہ عسکری تلخیص الشافی سید مرتضیٰ
الامامة من الضلال والاختلافآیة ..صافی گلپائیگانی
داستان غدیر:
غدیر کے حوالہ سے بھی حضرت علی علیہ السلام کی ولایت وخلافت کے بارے میں نص صریح وبیانات لفظی موجود ہیں جب ایک لاکھ سے زائد حاجیوں نے علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں بیعت کی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام عید غدیر کے حوالہ سے فرماتے ہیں : عید غدیر ، عید قربان اور عید فطر سے زیادہ محترم اور اہمیت کی حامل ہے جس دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو رہبری اور رہنمائی کے لئے منصوب فرمایا۔
حضرت علی علیہ السلام کوامامت کے لئے منصوب کرنا اورلوگوں کا ان کے دست مبارک پر بیعت کرناایک ایسی روشن دلیل ہے جس کی وجہ سے حدیث غدیر اور داستان غدیر وواقعہ ٔ غدیر کے حوالہ سے تاویل وتوجیہہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انجام دیا ۔ یہی وجہ ہے آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی یہ واقعہ آسمان حق وحقیقت پر سایہ فگن ہے جس کے نور سے ہزاروں تشنہ گان ہدایت صراط مستقیم پر گامزن ہورہے ہیں۔ اگر منحرفین ومعاندین معنی ٰ ولایت کو سرپرستی اور زمامداری کے بجائے معنای دوستی مراد لیں تو پھر بھی خطبۂ غدیر اور حجت الوداع میں لفظ ولایت سے پہلے اور لفظ ولایت کے بعد کے جملوں پر توجہ دیتے تو خطبہ کے قرائن حالیہ و مقالیہ ، سیاق وسباق اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قولی اور عملی کرداراور پھر لوگوں کی بیعت کو دیکھا جائے تو مسئلہ واضح اور روشن ہوجائے ۔ اس سلسلے میں مخالفین کو مخالفت کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے ۔ ابن عباس کے مطابق علی کی ولایت وامامت مسلمانوں کی گردن پہ ہمیشہ واجب ہے۔
معنای بیعت:
ابھی معنیٰ بیعت اور اجتماعی کردار پر بحث کی ضرورت ہے ۔
عربوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جب کوئی خرید وفروخت ہوتی یا معاملہ کیا جاتا تو صیغہ معاملہ پڑھا کرتے تھے اور بعد میں ایک دوسرے کو ہاتھ ملا تے تھے اور یہی تکمیل معاملہ کی علامت سمجھی جاتی تھی اور بعد میں یہ معنیٰ عام ہوا کہ جب بھی طرفین میں قرار دار ہوتی ہاتھ ملاتے تھے تاکہ معلوم ہوجائے ۔ لہٰذا جو بھی عہدوپیمان طرفین میں ہوجاتا تھا بیعت کے لئے ہاتھ ملاتے تھے اسی وسیلہ سے ہرا یک بیعت کرنے والا خود کو دوسرے کے مقابل میں ذمہ دار اور مسئول سمجھتا تھا اس حوالہ سے قرار داد یا عہد وپیمان کو توڑنے کا حق نہیں رکھتے تھے اگر کسی دلیل کے بغیر بیعت کو توڑ دیں تو اس کو ایک قسم کی سنگین خیانت تصور کرتے تھے ۔یہ بیعت کبھی کسی اعلیٰ اہداف کے لئے مثلاً اطاعت وپیروی، حمایت، نصرت وغیرہ کے لئے بھی انجام دیتے تھے۔
١۔ سب سے پہلے بیعت عقبہ میں:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مسلمانوں کے بارہ افراد مدینہ سے حج کی غرض سے مکہ آئے ۔ عقبہ منیٰ کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کیا کہ ہم کبھی شرک ، چوری، زنا، اور اپنے اولاد کو قتل نہیں کریں گے۔
٢۔ دوسری بیعت عقبہ میں:
دوسرے سال حج کے موسم کے موقع پر مدینہ کے مسلمانوں نے جن کی تعداد ٧٣ افراد پر مشتمل تھی پہلے قرارداد اور عہد وپیمان کی طرح اپنے خاندان کی حمایت کے ساتھ اور مددکرنے کے حوالہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کیا۔
٣۔ بیعت رضوان بیعت شجرة:
ہجرت کے چھٹے سال پیغمبر اکرمۖ مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ عمرہ کے لئے تشریف لے گئے اور حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ نے آپۖ کا راستہ روک دیا اور مکہ جانے سے روک دیا۔ اسی مقام پر مسلمانوں نے ایک دفعہ پھر عہد وپیمان یعنی بیعت کی ۔ یعنی آخری دم تک کفار مکہ کے خلاف صلح پر منتج ہوگیا اور اس صلح کا نام تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے ۔
عام طورپر تاریخ اسلام میں حق وباطل کی بیعت آنکھوں سے گزرتی ہے وہ بیعت جو معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید لعین کے لئے لوگوں سے لی۔ وہ بیعت باطل وناحق تھی۔ اور جس کی کوئی قدروقیمت نہیں کیونکہ اسلام کے اندر کچھ شرائط ہیں بیعت کیلئے جسمیں سے ایک اہم شرط طرفین کی رضا مندی ہے باطل اور طاغوت سے کبھی بیعت نہیں ہوسکتی یاکسی کو ڈرادھمکاکے بیعت نہیں لی جاسکتی ۔
بیعت کی اہمیعت:
بیعت وہ عہد وپیمان ہے ، جو بیعت کرنے والے اور بیعت لینے والے کے درمیان انجام پاتا ہے جس پر عمل کرنا اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں۔ اسلام میں جتنی عہدو پیمان پر وفاکی تاکید کی گئی ہے کسی اور چیز کے بارے میں اتنی تاکید نہیں کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔
سورۂ اسراء میں خداوند رب العزت ارشاد فرمارہا ہے : واوفوا بالعقود ان العھد کان مسئولاً ، اور اپنے عہد وپیمان کی وفاکرو بتحقیق عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
حضرت علی کی ولایت کا انکار کرنے والے اس دن کیا کریں گے جب کانوں سے اعلان غدیر کے سننے، آنکھوں سے دست پیغمبر پر علی کے بلندہوتے ہوئے دیکھنے اور زبان سے مولائیت کے اقرار کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
قرآن مجید میں نیک کام کرنے والوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا:
والموفون بعھدھم اذاعاھدوا ، اور جوبھی عہد کریں اسے پورا کریں،()
عہدو پیمان شکن کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
الذین ینقضون عہد اللہ من بعد میثاقہ ، جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑدیتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تین چیز باعث ہلاکت بنتی ہیں۔
١۔ بیعت توڑنے والا
٢۔ سنت کو چھوڑنے والا ٣۔ جماعت سے جداہونے والا۔
حضرت امام ہشتم علی بن موسیٰ الرضا علیہماالسلام فرماتے ہیں۔
بیعت توڑنے والے کی عاقبت بہت خطرناک ہوتی ہے ۔ مولا مذید فرماتے ہیں : جوبھی اپنے امام سے بیعت توڑدے قیامت کے دن دست بریدہ بارگاہ خداوندی میں محشور ہوگا۔
حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لادین لمن لاعہد لہ()
جو عہد وپیمان کا پاسدار نہ ہو اس کا کوئی دین نہیں ہوتا۔ جس قوم وملت کی نظر میں عہدو پیمان کا احترام ہوتا ہے اسکی فردی واجتماعی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جوبھی ملت وقوم اس سرمایہ عظیم کو اپنے ہاتھ سے جانے دیتی ہے وہ بڑا نقصان اٹھاتی ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے اسلام کی عظیم اور زرین اصول اس بات کی سختی سے تاکید کرتی ہیں جو عہد وپیمان دشمن سے باندھا جائے اس پر مکمل عمل کیا جائے ۔ یہاں تک خود دشمن اگر خیانت کرے عہد وپیمان کو توڑدے تو اس صورت میں وفادار رہنا ضروری نہیں ہے۔
حضرت امیرا لمؤمنین علی علیہ السلام اپنے عہد نامہ میں مالک اشتر کو لکھتے ہیں اگر تم نے اپنے دشمن کے ساتھ کوئی عہد وپیمان باندھا جائے یاامان دیا جائے تو اپنے عہد وپیمان کی نسبت وفادار رہیں اور اپنے امان کو محترم جان لیں ۔ کیونکہ خداوند متعال کے واجبات میں سے کوئی حکم مانن عہد وپیمان محترم شمار نہیں کیا گیا ہے اگرچہ لوگوں کے درمیان اختلاف ور عقیدہ ونظریات کی کشمکش کیوں نہ موجود ہو۔()
|
|