سرچشمۂ معرفت
 

امام کی معرفت کا طریقۂ کار:
فرق اسلامی کے ہاں امامت وخلافت کی اہمیت اور ضرورت کے حوالہ سے مختلف عقلی ونقلی دلائل بیان کئے گئے ہیں اس حوالہ سے مختلف نظریات ثبت وضبط ہوئے ہیں۔ امام کے وجود اور خلیفہ رسول ہونے کی جوشرائط ، صفات ، خصوصیات اور کیفیات بیان ہوئی ہیں ان سب کو یہاں تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البتہ ہم ایک مسلمان ہونے کے اعتبار سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہونے کے ناطے خود پیغمبر اکرم ۖ کی سیرت طیبہ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے خلافت وامامت کے حوالہ سے کیا پیغام دیا ہے؟
ہم اسے یہاںچند نظریات کی صورت میں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ انشاء اللہ جس سے صاحبان عقل وفہم کے ہاں اسکی حقیقت وواقعیت واضح ہوجائیں گے۔

پہلا احتمال:
ایک احتمال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ نے امامت وخلافت کے بارے میں نہ کچھ فرمایا اور نہ ہی کسی قسم کا اظہار کیا ہے بلکہ اس حوالہ سے کسی قسم کی راہ وروش اور اثر نہیں چھوڑا ہے۔اس معاملہ کو مکمل طور پر تقدیر کے سپرد کردیا ہے ۔
یہ احتمال اور نظریہ کئی جہات سے باطل ہے ۔ کیونکہ یہ عقل ودرایت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالکل ساز گار نہیں اور نہ ہی آپ کے لطف وکرم سے میل کھاتا ہے۔آپ اپنی امت کو اپنے بعد کسی سرپرست اور ولی کے بغیر چھوڑجائیں اور ان کو تقدیر وسرنوشت کے حوالہ کردیں درحالیکہ آپۖ اس حقیقت سے مکمل آگاہ تھے۔ کہ دوستوں کے درمیان بہت سارے منافقین موجود ہیں جو اسلام کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔ یہ لوگ آپ کی رحلت کے انتظار میں تھے تاکہ آپۖ کی رحلت کے بعد اسلام کو ختم کرکے یا اسلام کے اندر تحریفات پیدا کرکے اسے کمزور بناکر اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ بازیاب کرسکیں۔
دوسری طرف اسلام کے خارجی دشمن اس تاک میں تھے کہ مہلت ملنے پر اسلام پر حملہ آور ہوکر اسے نابود کیا جائے۔ آپ اس بات کو بھی جانتے تھے کہ کوئی بھی قوم ومعاشرہ رہبر ورہنما کے بغیر اپنے اجتماعی زندگی کو جاری و ساری نہیں رکھ سکتے ۔
یہ وہ قطعی شواہد ہیں جن کا انکار کرنا ناممکن امر ہے۔ اس حوالہ سے آپ جانشینی کے مسئلہ کوبے حد اہمیت دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ خلفاء کے دور میں بھی شدت کے ساتھ اس مسئلہ کی طرف ان کی توجہ مبذول رہی۔ یہاں تک کہ عبداللہ بن عمرو حضرت عائشہ اور حضرت عمر نے یہ تاکید کی کہ وہ امت کو بغیر چرواہے کے نہ چھوڑے جائیں(١)۔ مسئلہ جانشینی کس قدر اہمیت کی حامل ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتاہے کہ معاویہ بن ابی سفیان اپنے بعد یزید پلید کو جانشین بنا کر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ امت محمدی بغیر چرواہے کے چھوڑ جاؤں(٢)۔
کیا اس مسئلہ کو جاننے کے لئے یہی کافی نہیں ہے ؟ کہ خلفاء اور ان کے احباب اس مسئلہ پر بہت نگران اور پریشان تھے۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقل کل ہوتے ہوئے امت کو بغیر جانشین کے چھوڑ جائیں؟!!حاشا وکلّا یہ ہر گز ممکن نہیں ۔
ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند روز کے لئے مدینہ سے باہر جاتے تو اپنا جانشین اور نمائندہ بناکر جاتے ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ۖ دنیا سے مکمل چلے جائیں اور جانشین تعین کئے بغیر امت کو ایسے ہی چھوڑ جائیں۔!!

دوسرا احتمال:
دوسرا احتمال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلافت وامامت کو مورثی جانتے تھے اس لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان اس کو ارث کے طور پر لے جاتے!
یہ نظریہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ مقام ومنصب اتنی عظمت کے حامل ہیں کہ اگر ورثاء اس قابل نہ ہوں یا وہ اس مقام ومنصب کی صلاحیت ولیاقت نہ رکھتے ہوں تو قرآن مجید بھی اس نظریہ کو مردود شمار کرتا ہے ۔ جیساکہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوند عالم سے التماس کی اور
..............
(!) طبقات ابن سعد ج١، الامامة والسیاسة ج١ ص ١٥١
(٢) الامامة والسیاسة ج١ ص ٢٢
تقاضا کیا کہ میرے بیٹے بھی اس امامت کے منصب تک پہنچ جائیں! تو خداوند عالم نے فرمایا ''یہ عہدہ ظالمین اور ستمکاروں تک نہیں پہنچ سکتا۔
پھربھی اگربالفرض مورثی ہوتا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب اور بھی افراد موجود تھے جن کے مقابلے میں خلفاء کی نوبت پھر بھی بعد میں آتی۔

تیسرا احتمال:
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوچ یہ تھی کہ خلافت و امامت کو شوریٰ حل وعقد کے سپرد کیا جائے۔ شوریٰ حل وعقد سے مراد یہ ہیں کہ امت کے چند چیدہ چیدہ اور منتخب افراد۔
یہ نظریہ بھی باطل ہے کیونکہ اس حوالہ سے شیعہ یا سنی میں سے کسی ایک طریق سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی فرمان یہاں تک کہ کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا ۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکرو عمرکو اپنی عمر کے آخری حصے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کاش! خلافت کے بارے میں پیغمبر سے پوچھ لیا ہوتا!
اس سلسلہ میں کئی عجیب وغریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں جن کو یہاں ذکر کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا صاحبان عقل کے لئے اتنا ہی اشارہ کافی ہے۔

چوتھا احتمال:
آخری نظریہ یہ ہے کہ خلیفہ وامام کو خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معین اور منتخب فرمایا ہے اور اس سلسلہ میں نص صریح اور عقلی دلائل موجود ہیں ۔ اس نظریہ کو ''نص'' ونصب، ووصیت ، کہا جاتا ہے۔
یہ وہ نظریہ ہے جس کے شیعہ قائل ہیں اور اس نظریہ کی تاکید کے لئے بہت سی عقلی ونقلی دلیلیں موجود ہیں۔
اس واقعہ کی حقیقت کے بارے میں بہت سے تاریخی اسناد موجود ہیں ۔ مسلمانوں کے عظیم اور مایہ ناز فلسفی وسائنسدان ابوعلی سینا اس بارے میں کہتے ہیں کہ: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر واجب ہے کہ وہ اپنے بعد کے خلیفہ اور جانشین کو خود معین کریں اور ملت پر واجب ہے کہ اس کے حکم پر عمل کریں ورنہ امت کے درمیان تفرقہ واختلاف وجود میں آئیں گے۔