تفسیر خزان علم:
اس ترتیب کے ساتھ خزائن علم کی تفسیر واضح اور روشن ہوئی کہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام ذات پروردگار عالم کے خزینہ علم ہیں لہٰذا خداوند عالم نے علم غیب کی چابی کو (جو علم خصوصی کے سوا) باقی تمام علوم غیب پر مشتمل ہے اہل بیت علیہم السلام کے ہاتھوں میں دیا اسی لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
''اَناَ مَدِےْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیّ بَابُہَا ''(١) میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں لہذا ضروری نہیں ہے کہ جو علوم انبیاء کو عطا ہوئے اور جو علم شب قدر میں نازل ہوا ہے انہی دو علوم پر منحصر اور محدود کریں بلکہ چند نقطے قابل ذکر ہیں توجہ فرمائیں:۔
١۔ آگاہی انتخابی:
یہ آگاہی انتخابی اور اختیاری ہے یعنی جہاں اور جس وقت ارادہ کریں آگاہی حاصل ہوجاتی ہے حضرت امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:۔
اِنَّ الْاِمَامَ اِذَا شَائَ اَنْ ےَّعْلَمَ عَلِمَ۔یعنی بتحقیق امام جہاں اور جس وقت ارادہ کرے جان لیتا ہے
..............
١:کنز العمّال ج ١٢ ص ٢٠٣ ح ١١٥٢
دوسری روایت میں آیا ہے کہ عمار ساباطی کہتے ہیں حضرت امام صادق علیہ افضل صلواة سے سوال کیا۔ اَلْاِمَامُ ےَعْلَمُ الْغَےْبَ؟ کیا امام علم غیب رکھتا ہے؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا۔ (وَ لٰکِنْ اِذَا اَرَادَہ اَنْ ےَّعْلَمَ الشَّیْئَ اَعْلَمَہُ اللّٰہُ ذٰلِکَ) جی ہاں . جس وقت کسی چیز کوجاننے کا ارادہ کریں تو خداوند عالم انہیں آگاہ فرماتا ہے اس ترتیب کے ساتھ اس سوال کا جواب بھی دیتے ہیں کہ کیا حضرت علی علیہ السلام شب ہجرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پر زندہ رہنے یا مرنے کے بارے میں علم رکھتے تھے؟
تو عرض کروں گا حضرت علی علیہ السلام نے اس بارے میں جاننا ہی نہیں چاہا ورنہ معلوم ہوجاتا . چونکہ آپ پیغمبر ۖ پر قربان ہونا چاہتے تھے۔لہٰذا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک قربانی طلب شخص اپنے زندہ رہنے یا مرنے کی فکر میں رہے البتہ آپ پیغمبر اسلام ۖ کی جان کی فکر میں ضرور تھے اسی لیے آپ نے سوال کیا یا رسو ل اللہ میرے سونے سے آپ ۖ کی جان بچ جائے گی؟ تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :یا علی میری جان بچ جائے گی۔ ہمارے ماں باپ آپ کے اوپر قربان ہوجائیں یا علی مرتضٰی ہزاروں درود و سلام ہوں آپ کے ایثار اور فداکاری پر.
ب: علم افاضی:
بہر حال ہم نے مان لیا کہ یہ علم کوئی مستقل علم نہیں ہے بلکہ پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوتا ہے لہٰذا ایک طرف ہم دیکھتے ہیںکہ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں اس قدر روتے ہیں کہ آنکھیں سفید ہوجاتی ہیں (وَ ابْےَضَّتْ عَےْنٰاہُ مِنَ الْحُزْنِِ )ظاہر ہے اگر حضرت یعقوب اپنے فرزندیوسف کے بارے میں جانتے کہ وہ زندہ یا صحت وسلامت ہیں اس قدر نہ روتے، گریہ نہ کرتے، آنکھیں سفید نہ ہوتیں۔ دوسری طرف کچھ عرصہ کے بعد آپ فرماتے ہیں: ۔کہ مجھے یوسف کی بو آرہی ہے اگرتم لوگ مجھے نادانی اور کم عقل ہونے کا الزام نہ لگاؤ؟اِنِّی لَاَجِدُ رِےْحَ ےُوسُفَ لَوْلَا اَنْ تُفَنِّدُوْن(١)
لہٰذا خداوند عالم نے حضرت یعقوب کو معنوی ترقی اور امتحان الٰہی کے حوالے سے یوسف کے بارے میں علم غیب نہ د یاہو بہر حال آخر کار یوسف کے بارے میں علم غیب عطا کیاگیا۔
ج: علم غیب انسان کی ہدایت کے حوالے سے:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ہمیں یہ چیز ملتی ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے علم غیب اور ولایت تکوینی دونوں کے حوالے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ بہ الفاظ دیگر معصومین علیہم السلام علم غیب پر بھی اورولایت تکوینی پر بھی تصرف رکھتے ہیں یعنی جہاں جہاں مناسب سمجھا کہ ان علوم کے استعمال سے انسان ہدایت یافتہ ہوجائے وہاں وہاں تصرف کیا البتہ معصومین علیھم السلام نے کبھی بھی شخصی کاموں میں علم غیب اور ولایت تکوینی کا سہارا نہیں لیا۔ سختی، زندان ، مصیبت، بیماری اور شہادت کوقبول اور برداشت کیا لیکن قدرت خداوندی کو جو انھیں عطا شدہ تھی استعمال نہیں کیا حتی کہ حادثہ کربلا اور روز عاشور کے دن اگر حضرت ابا عبد اللہ امام حسین علیہ السلام ارادہ فرماتے تو آپ کے پائے اقدس کے نیچے سے چشمے ابل پڑتے لیکن امام حسین علیہ السلام نے نہیں چاہا کہ قدرت الٰہی کو استعمال میں لائیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے اسی طرح زندگی کی جس طرح عام انسان زندگی کرتے ہیں بقول حضرت امام صادق علیہ السلام (ےَصْلَحُ وَ ےَمْرِضُ)امام بھی بیمار ہوتے ہیں اور صحت یاب ہوتے ہیں (ےَاْکُلُ وَ ےَشْرَبُ)۔ کھاتے بھی ہیں اورپیتے بھی ہیں(وَ ےَفْرَحُ وَ ےَحْزُنُ) خوشی اور غم دونوں لاحق ہوتے ہیں(و ےَضْحَکُ وَ ےَبْکِی) ۔ ہنستے بھی ہیں روتے بھی ہیں۔
..............
١:یوسف ،٩٤
چنانچہ قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں یہ آیت ملتی ہے ( قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَر مِّثْلُکُمْ) لہذا مذکورہ تین اقوال اس حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ امام شناسی ایک انتہائی مہم اور حساس معاملہ ہے اس ضمن میں دو خطرات کو مد ّ نظر رکھنا نہایت ضروری ہے:
(١) سب سے بڑا خطرہ غلو ہے:
امام شناسی کے حوالے سے انسان کہیں امام کو خدا کی حد تک نہ لے جائے یا امام کو پیغمبر ۖ نہ کہہ بیٹھے۔
(٢) دوسرا خطرہ:
امام کی شخصیت اور مقام کو ایک عام انسان کی سطح تک نہ لے آئیں بہ الفاظ دیگر امام کے صحیح مقام اور مرتبہ کو نہ پہچا ننا، ان کی شخصیت واقعی کی معرفت حاصل نہ ہونا۔ بہر حال وہ انسان ہیں لیکن عام انسان نہیں بلکہ خداوند عالم کے منتخب اور برگزیدہ بندے ہیں لہذا اسی آیت کے تسلسل میں فرماتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مجھ پر خداوندمتعال کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔
در جھانی ہمہ شور و ہمہ شر
ھا علی بشر کیف بشر
امید واثق ہے خداوندکریم و مہربان ہمیں محمد و آل محمد علیھم السلام کی صحیح معرفت حاصل ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔
اَللّٰھُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَّمْ تُعَرِّفْنَی نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ نَبِےَّکَ اَللّٰھُمَّ عَرِّفْنِی رَسُوْلَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُوْلَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ اَللّٰھُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِےْنِی (١)
..............
١:مفاتیح الجنان صفحہ ٩٦٧ انتشارات آستان قدس رضوی
زیارت جامعہ کبیرة
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یٰا اَہْلَ بَیْتٍ النُّبُوَّةِ وَمَوْعِضَ الرِّسَالَةِ وَمُخْتَلَفَ الْمَلَائکَِةِ وَمَھْبِطَ الْوَحْیِ وَمَعْدِنَ الرَّحْمَةِ وَخُزّٰانَ الْعِلْمِ وَمُنْتَہٰی الْحِلْمِ وَاُصُوْلَ الْکَرَمِ وَقَادَةَ الُامَمِ وَاَوْلِیَائَ النِّعَمِ وَعَنَاصِرَالْاَبْرَارِ وَدَعَائِمَ الْاَخْیَارِ وَسَاسَةَ الْعِبَادِ وَاَرْکَانَ الْبِلَادِ وَاَبْوَابَ الْاِیْمٰانِ وَاُمَنَائَ الرَّحْمٰنِ وَسُلَالَةَ النَّبِیِّیْنَ وَصَفْوَةَ الْمُرْسَلِیْنَ وَعِتْرَةَ خِیَرَةَ رَبَّ الْعٰالَمِیْنَ
وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ
ترجمہ
اے اہل بیت نبوت، اور مقام رسالت ، اور منزل ملائکة ، اور مقام وحی، اور معدن رحمت، اور علم کے خزانے، اور حلم کے انتہائی مقام، اور کرم کے اصول، اور امتوں کے قائد ، اولیاء نعمت، اور ارکان ابرار، اور نیکوں کے منزل اعتماد، اور بندوں کے قائد ، اور شہروں کے ارکان ، اور ایمان کے دروازے ، اور رحمان کے امین ، اور نبیوں کے فرزند، اور مرسلین کے برگزیدہ، اور رب العالمین کے نیک بندوں کی عترت
سلام ہو آپ پر اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں بھی ۔
|