سرچشمۂ معرفت
 

ائمہ اطہار معدن علم الہی
ہم زیارت جامعہ میں یہ جملہ پڑھتے ہیں: اَلسَّلَامُ عَلَےْکُمْ ےٰاخُزّانَ الْعِلْمِ(١) ہمارا سلام ہو آپ پر اے معدن علم الہی۔

خزان العلم کیا چیز ہے؟
ہمارے ائمہ کا ایک عظیم پہلو یہ ہے کہ وہ علم الہی کے خزینہ دار ہیں۔ یہ جملہ ہم مختلف زیارتوں میں بھی پڑھتے ہیں اور یہ جملہ معصومین علیہم السلام کے فرامین میں بھی ملتا ہے کہ خزّان علم وہ حضرات ہیں ۔خزان بر وزن رمّان خازن کی جمع ہے یعنی خزینہ دار اور علم کے عام معنی کبھی آگاہی ہے لیکن یہ چیز ضرور جاننا چاہیے کہ یہ علم کے خزانہ دار ہیں وہ کونسا علم ہے؟
مناسب سمجھتا ہوں کہ اس علم کی تفسیر اور تشریح کرنے سے پہلے چند روایات جو خود معصومین علیہم السلام کی طرف سے وارد ہوئی ہیں ذکر کروں:
١۔ حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ (نَحْنُ خُزّانُ عِلْمِ اللّٰہِ وَ نَحْنُ تَرَاجِمَةُ وَحْیِ اللّٰہِ)۔ہم خزانہ دار علم الٰہی ہیں ۔ہم ترجمان وحی خدا ہیں۔(٢)
٢۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں(نَحْنُ شَجَرَةُ الْعِلْمِ وَ نَحْنُ اَہْلُ بَےْتِ نَبِیّ اللّٰہِ وَ فی دَارِنٰا مَھْبِطُ جَبْرَئِےْلٍ وَ نَحْنُ خُزّانُ عِلْمِ الْعَامِّ وَ عَنْ مَعَادِنِ وَحْیِ اللّٰہِ...''(٣)
ہم علم کے درخت ہیں۔ ہم اھل بیت نبوت ہیں ۔ہمارا گھر ہی جبرئیل امین کی رفت و آمد کی جگہ تھی ۔ہم
..............
١: زیارت جامعہ کبیرہ مفاتیح الجنان ص ٦٩٩ ٢:منہاج البلاغہ خطبہ ٢٣٩ ٣: امالی شیخ صدوق ص ٢٥٢
خداوند عالم کے علم کے خزانہ دار ہیں۔ ہم معدن وحی الٰہی ہیں۔ جو بھی ہماری اطاعت کرے گاوہ نجات پائے گا اورجو بھی ہمارے حکم کی مخالفت کرے گا نابود ہوجائیگا، ہم ہی سنت خداوندی ہے۔
٣۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:لوگ ہماری فضیلت کاکیوں انکار کرتے ہیں؟ خدا کی قسم ہم ہی نبوت کے درخت ہیں۔ ہمار ے گھر رحمت کے گھر ہیں ، علم کے خزانے اور ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ ہیں۔
یہ چند روایات ہزاروں روایات میں سے چند نمونے ہیں جو اہل بیت رسالت کی طرف سے ہم تک پہنچے ہیں لہذا ان روایتوں میں علم کسی قید اور شرط کے بغیر ذکر ہوا ہے لہٰذا اس جملہ کی مناسب انداز میں تشریح اور تفسیر کی جائے۔

علم خداوندی:
لاریب خداوند عالم پوری کائنات کا عالم الغیب و الشہادت ہے ظاہر اور باطن سب کا جاننے والا ہے خداوند عالم کا علم، علم حضوری ہے ۔ پورے عالم کا علم خدا کے سامنے ہے بنی نوع انسان کا علم تو محدود ہے لیکن پروردگار عالم کا علم پورے جہان ہستی پر سایہ فگن ہے۔

علم غیب کی اقسام:
حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے :خداوند عالم کا علم دو قسم کا ہے (اِنَّ لِلّٰہِ تَعٰالٰی عِلْماً خَاصّاً وَ عِلْماً عَامّاً) خداوند عالم کا علم دو قسم پر مشتمل ہے :
١۔علم مخصوص ٢۔علم عام
(فَاَمَّا الْعِلْمُ الْخَاصُّ فَالْعِلْمُ الَّذی لَمْ ےَطَّلِعْ عَلَےْہِ مَلَائِکَةُ الْمُقَرِّبِےْنَ وَ اَنْبِےَائُ الْمُرْسَلِےْنَ)۔
علم خاص و ہ علم ہے جو صرف پروردگار عالم تک محدود ہے یہ علم فقط ذات رب العزت سے تعلق رکھتا ہے لیکن علم عام وہ علم ہے جس سے ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین آگاہی رکھتے ہیں اور یہی وہ علم ہے جو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہم تک پہنچا ہے۔
وہ روایات جو علم غیب فقط پروردگار عالم سے تعلق رکھنے پر دلالت کرتی ہیں وہ علم خاص کے بارے ہیں نہ کہ علم عام کی بابت ۔یہاں پر بعض متکلمین اور دانشمندوں نے اشتباہ کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے در میان علم غیب سے متعلق شبھہ پیدا ہوا اور کہا کہ غیب کا علم فقط ذات پروردگار کو ہے۔
انشاء اللہ یہاں پر دونوں علوم کے بارے میں قرآنی آیات اور احادیث کا ذکرکریں گے.
١۔(وَ عِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَےْبِ لَا ےَعْلَمُہَا اِلَّا ہُوَ)(١)
٢۔(قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ )(٢)
٣۔(قُلْ لَا ےَعْلَمُ مَنْ فی السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ الْغَےْبَ اِلَّا اللّٰہ)(٣)
٤۔(فَقُلْ اِنَّمَا الْغَےْبُ لِلّٰہِ)(٤)
ترجمہ: ١۔اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنھیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
٢۔کہہ دیجئے !کہ علم تو بس خدا کے پاس ہے۔
٣۔کہہ دیجئے !کہ تما م غیب کا علم پروردگار کو ہے۔
٤۔تو آپ کہہ دیجئے! کہ تمام غیب کا علم پروردگار کو ہے ۔
دوسری آیات بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔
یہی وہ آیات ہیں جو علم حضوری اور علم خاص کے بارے میںہیں جن میں علم غیب کوخداوند کریم میں حصر کیاگیا ہے مالک حقیقی وہی ہے وہ جسے چاہے دے اورجسے چاہے نہ دے
..............
١:انعام، ٥٩
٢:احقاف، ٢٣
٣:نمل ، ٦٥
٤:یونس، ٢٠
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ ےُؤتِےْہِ مَنْ ےَّشَآئُ وَ اللّٰہُ ذُو فَضْلٍ عَظِےْم(١) ۔اس علم کے زمام دار خداوند قدوس ہے اس کی ملکیت اورسلطنت سے باہر نہیں جا سکتا مگر یہ کہ وہ جس کے اوپر ظاہر کرنا چاہے مثل (کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیاً)کے ظاہر فرما دیتا ہے۔
دوسرا قسم: علم عام وہ علم ہے جو خداوند عالم اپنے برگزیدہ اور مصطفی بندوں کو عنایت کرتا ہے۔
( عَالِمُ الْغَےْبِ فَلاَ ےُظْہِرُ عَلٰی غَےْبِہ اَحَداً اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَسُوْل)(٢)
خداوند عالم علم غیب سے آگاہ ہے اور کسی بندے کو نہیں بتا تا مگر یہ کہ اپنے مرتضے اور مصطفے بندوں کو عنایت فرماتا ہے۔ اور دوسری آیت میں بھی ذکر ہے۔ (وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِےُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَےْبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ےَجْتَبی مِنْ رُّسُلِہ مَنْ ےَّشَاء )(٣)
اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ،ہاں اپنے نمائندوں میں سے بعض لوگوں کو اس کام کیلئے منتخب کر لیتا ہے۔
پروردگاراپنے مخصوص بندوں کو غیب کے حالات سے باخبر کرتا رہتا ہے لیکن انھیں یہ ہدایت رہتی ہے کہ اس علم کو صرف مخصوص مواقع پرہی استعمال کرناہے اور باقی سارے کام ظاہری قوانین کے مطابق انجام دیناہے۔
بنیادی طور پر ہمارے آئمہ معصومین علیہم السلام خداوند رب العزت کی اجازت سے غیب پر علم رکھتے ہیں اور یہ ہمارے دین کے بنیادی عقائد میں سے ہے اس حوالے سے یہاں پر نمونے کے طور پر چند مثالیں عرض کردینا ضروری ہے:
١۔حضرت نوح علیہ السلام کی پیشن گوئی جو اپنی قوم کے بارے میں اظہار فرمایا کہ: یہ قوم دوبارہ
..............
١:سورہ جمعہ آیت ٤ ٢:سورہ جن، آیت ٢٦ ٣:سورہ آل عمران آیت ١٧٩
ہدایت یافتہ نہیں ہوگی اگر باقی زندگی رہی بھی تو یہ لوگ کفر او ر الحاد میں زندگی بسر کریں گے.
سورہ نوح آیت نمبر ٢٧ اور ٢٨،سورہ انعام آیت نمبر ٨٥،سورہ یوسف آیت نمبر ٤ اور ٦
سور ہ یوسف آیت نمبر ٤١ اور ٣٦،سورہ ہود آیت نمبر ٦٥،سورہ نمل آیت نمبر ١٦، ١٨، ١٩
حضرت ابراہیم کی زمین اور آسمان کے متعلق آگاہی
حضرت یعقوب کا یوسف کے بارے میں آگاہی رکھنا
حضرت یوسف کا آئندہ زندان میں جانے کے حوالے سے خبردار کرنا
حضرت صالح کی پیشن گوئی کہ ناقہ صالح کے مارنے کے بعد تین دین سے زیادہ زندہ نہ رہنا،
حضرت سلیمان کا حیوانات سے گفتگو کرنا بھی علم غیب میں شامل ہے
حضرت عیسی کی معلومات جو لوگ گھروں میں کھانے یا ذخیرہ و غیرہ کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔
حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آئندہ کے بارے میں علم غیب سے آگاہی اور پیشن گوئی کرنا جن میں سے چند ایک درجہ ذیل ہیں:۔
١۔انسان طاقت نہیں رکھتا کہ اس قرآن کا مثل لیکر آئے۔
٢۔رومیوں کا ایران پر غلبہ اور تسلط حاصل کرنا۔
٣۔خداوند عالم اپنے پیغمبرکو ہر قسم کے شر سے محفو ظ رکھے گا۔
٤۔منافقین کی حرکات اور سکنات کے بارے میں خبر دینا۔
٥۔قرآن مجید کبھی بھی محرّف نہیں ہوگا۔
٦۔اسلام پورے عالم پر حکومت کرے گا۔
یہ وہ نمونے اور مثالیں ہیں جنہیں قرآن مجید نے بیان کیا ہے اور یہ علم غیب کے بارے میں ہیں۔
البتہ غیب کے بارے میں خبر دینے کا ذکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے بہت زیادہ کتابوں میں درج ہے مثلا اس حوالے سے تین جلد کتابیں بعنوان الاحادیث الغیبہ لکھی گئی ہیں۔