سرچشمۂ معرفت
 

شیعہ تاریخ کے اوراق میں:
انسان اس دنیا میں جسم وروح ،ظاہر و باطن اور ملک و ملکوت سے مرکب ہے۔ ظاہراً انسان کی زندگی کاآغاز پیدائش کے دن سے ہوجاتا ہے اور مرنے کے دن ختم ہوجاتی ہے۔
لیکن یہ انسان کی حقیقت نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا آغاز نہ دنیا کی پیدائش ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے چونکہ دنیا کی حیات و زندگی کی حیثیت تو ایک مسافر کی سی ہے کہ جو اس دنیا کے مسافر خانہ میں مہمان ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے انسان کا وجود تھا اور اس دنیا کی حیات کے بعد بھی انسان کا وجود باقی رہے گا لیکن انسان کوکامیابی اور ناکامی اسی حیات دنیوی سے ہی حاصل کرناہے اور انسان کا وجود معنوی عالم ذر سے ہے جس کا وہاں وعدہ لیا گیا ہے۔
(اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی)(١)
شیخ الرئیس ابو علی سینا قصیدہ ہائےة میں کہتے ہیں:
(ہَبَطْتُ اِلَےْکَ مِنَ الْمَحَلِّ الْاَرْفَعِ وَرُقَائُ ذَاتِ تُعَزِّزْ وَتَمْنَعْ)(٢)
مرغ باغ ملکوتم نہ یم از عالم خاک
چند روزی قفسی ساختہ اند از بدنم (مولانا )
روح جب جسم انسان سے خارج ہو کرآزاد ہوجاتی ہے تو بدن انسان کو خاک میں دفن کردیا جاتا ہے جسم انسان خاک میں مل جاتا ہے لیکن روح با قی رہتی ہے موت تو روح کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہیں گویا جسم انسان و حیاتِ جسم انسان ختم ہوجاتی ہے لیکن روح انسان کو زندگی اور بقاء حاصل ہے۔
..............
١:سورہ مبارکہ الاعراف ١٧٢ ٢: شرح نہج البلاغہ ج٧ ص ٣٩٩
حجاب چہرہ جان می شود غبار تنم
خوشا دمیکہ از این چہرہ پردہ برفکنم
چنین قفس نہ سراے چو من خوش الحانی است
روم بہ گلشن جنت کہ مرغ آن چمنم
لیکن یہ انسان کی ناسمجھی ہے کہ انسان اس دنیا میں حیات مادی کوہی اپنی اصل حیات سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ انسان کی حقیقت تو اس سے بالاتر ایک اورشے ہے۔ ایک عالَم کو حیات دنیا کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور ایک عالَم میںموت کے بعد جانا ہے اگر حضرت انسان اپنی زندگی میںسیر تکوینی کو جذب کر لیتا ہے تو انسان اپنے اندر خدا کی بہت سی آیات و نشانیاں پاتا ہے اس موقع پر انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم نے بنی نوع انسان کی پیدائش پر مبارکبادی کیوں دی تھی!
(فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِےْن)(١)
مولائے موحّدین امیر المومنین فرماتے ہیں:۔
اے لوگو! تم یہ نہ سمجھناکہ تم ایک چھوٹاسا جسم مادی رکھتے ہیں بلکہ تم اپنے اندر ایک بہت بڑا جہان رکھتے ہیں اور عجائب خداوند عالم اور اسرار خداوند ی کے معدن و خزانہ ہیں او رتمہارے اندر عالم کے عجیب و غریب اسرار پوشیدہ ہیں۔
دَوَائُکَ فِےْکَ وَ مَا تَشْعُرُ
وَدَائُکَ مِنْکَ وَلَا تَنْظُرُ
أَ تَزْعَمُ اَنَّکَ جِرْم صَغِےْر
وَفِےْکَ انْطَوٰی الْعَالَمُ الْاَکْبَرُ
وَ اَنْتَ الْکِتَابُ الْمُبِےْنُ الَّذِی
بِاَسْطَارِہ ےَظْہَرُ الْمُضْمَرُ(٢)
..............
١:سورہ مومنون، ١٤
٢: ہزار ویک داستان ص ٥٥١
اس تما م گفتگو پر غور و فکر کریں تو اس نتیجہ تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں کہ تاریخ شیعہ کا تعلق فقط دنیا سے ہی نہیں ہے (جیسا کہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کی تشریف آوری پروجود میں آیا ہے) حالانکہ تاریخ شیعہ کا وجود اس عالم دنیا سے پہلے بھی تھا جس کو ہم تاریخ نوری شیعہ یا شیعہ کی نورانی تاریخ سے تعبیر کرتے ہیں. اگرچہ شیعہ اسی دنیا کے شیعہ کو کہا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے جس کی وضاحت اجمالی طور پر ہدیہ قارئیں کرتے ہیں پس تاریخ شیعہ کودو حصوں میں بیان کیا جا سکتا ہے.
١۔ تاریخ نوری شیعہ
٢۔ تاریخ ظاہری شیعہ

تاریخ نوری وظاہری شیعہ
١۔ تاریخ نوری شیعہ کا آغاز اس وقت ہے کہ جب خالق تھا لیکن مخلوق نہ تھی۔ شیعوں، پیشواؤںاور اماموں سے اس کائنات کی تخلیق کا آغاز ہوا جس کے ثبوت میں چند احادیث نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں:۔
١۔ پیغمبر اسلام ۖ نے فرمایا:
اَوَّلُ مٰا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِی (١) کُنْتُ نَبِیاً وَّ آدَمُ بَےْنَ الْمٰائِ وَ الطِّےْنِ(٢)
سب سے پہلی مخلوق جو وجود میں آئی وہ میرا نور ہے جبکہ ابھی آدم کی تخلیق بھی نہ ہوئی تھی میںمقام نبوت پر فائز تھا۔
٢۔رسول اکرم ۖ کی طرح امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب نے فرمایا ہے :(کُنْتُ وَلِیاًوَّ آدَمُ بَےْنَ الْمٰائِ وَ الطِّےْنِ(٣) کہ میں اس وقت مومنین کا امیر و امام تھا کہ جب آدم ابوالبشر آب و گل کے درمیان تھے.
..............
١:بحار الانوار جلد، ١، ص ٩٦، ینابیع المودة ، جلد ١، ص ٤٥
٢:بحار الانوار جلد، ١، ص ٩٦، ینابیع المودة ، جلد ١، ص ٤٥ ٣:جامع الاسر ا ر ٤٦٠
پیغمبر اسلام ۖ نے فرمایا: (اگر لوگ یہ جان لیتے کہ علی کب سے امیر المؤمنین ہیں تو فضائل علی کا انکار نہ کرتے اس لیے کہ علی اس وقت امیر المؤمنین تھے کہ جب آدم کی خلقت بھی نہیں ہوئی تھی۔
٣۔ عالم اہلسنت سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا کہ حضرت آدم ابوالبشر کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے خداوند عالم نے میرے اور علی کے نور کو خلق کیا اور ہم خداوند متعال کے ذکر میں مشغول تھے اس سلسلہ کے اوربھی بہت سی احادیث ہیں لیکن ہم انہیں پر اکتفا کرتے ہوئے انہیں احادیث پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔

اول:
پیغمبرۖ کا نوراور علی کا نور ایک ہے تو یہ نورعظمت الہی سے خلق ہوا۔ ( اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَ الْاَرْضِ(١)۔
رسولۖ اور علی کا نور میں متحد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ رسول ۖ مقام نبوت میں اول ہیں اور علی مقام امامت میں اول ہیں اور یہ دونوں فضائل اور کمالات سے پر ہیں امیر المؤمنین نفس رسول اور عین رسول ہیں جیساکہ قرآن مجید میں خدا وند عالم سورہ آل عمران میں ارشادفرمارہا ہے :
''فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَ نِسَائَکُمْ وَ اَنْفُسِنَا وَ اَنْفُسَکُمْ''(٢)
جب رسول گرامی اسلام ۖ نصارائے نجران سے مباہلہ کے لیے چلے تو رسول خدا ۖ نے فرمایا کہ علی نفس رسول ہیں.
..............
١:سورہ نور، ٣١
٢:سورہ مبارکہ آل عمران، ٦١
اس آیت کی تفسیر میں شیعہ سنی دونوں فرقوں نے متفق علیہ لکھا ہے کہ نفس سے مراد ذات علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے۔
روایت میں ہے کہ جب رسول خدا ۖسے درخواست کی گئی کہ آپ اپنے ممتاز اصحاب اور شاگردوں کا تعارف کرائیں تو رسول اکرم ۖ نے اپنے چند اصحاب و شاگردوں کا نام لیا لیکن علی کا نام نہیں لیا۔ تو راوی نے سوال کیا کہ آپ نے علی کا نام نہیں لیا؟ رسول ۖ نے فرمایا کہ تو نے اصحاب و شاگردوں کے بارے میں سوال کیا تو میں نے جواب دے دیافرما یا: علی میری جان ہے علی میرا نفس ہے علی میری آنکھ ہے، عرب کے مشہورشاعر مرحوم اذری اس مقام پر کہتے ہیں :
(ہُمَا ظُہْر الشَّخْصَےْنِ وَ النورُ وَاحِد
بِنَصِّ حَدِےْثِ النَّفْسِ وَ النُّورِ فَاعْلَمَنَّ)
شیخ عطار نیشاپوری کہتے ہیں
تو نور احمد و حیدر یکی دان
کہ تا گردد بہ تو اسرار آسان
حکیم سنائی کہتے ہیں۔
ہر دو ز یک صدف بودند
ہر دو پیرایہ شرف بودند.

دوم:
سب سے پہلے پیغمبر اسلام ۖ کا نور خلق ہوا اور باقی تمام موجودات عالم کی خلقت اسی نورکی برکت سے ہوئی ۔ لہذا شیخ سلیمان قندوزی حنفی کہتے ہیں کہ: سب سے پہلے پیغمبر اسلام ۖ کا نور مقدس پیدا ہوا اس نور نے تمام عالم ملکوتی اور جبروت پر احاطہ کر لیا۔ اس لیے افضل الانبیاء ختمی المرتبت کامل ترین فرد اور دین محمد دین اسلام ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔
علامہ دیار بکری علماء اہلسنت میں سے ایک جید عالم ہیں کہتے ہیں: کوئی پیغمبر اسلام ۖ جیسا صاحب کمال پیدا نہیں ہوا ہے اورہر نبی نے پیغمبر اسلام ۖکے ملکوتی نور سے کسب فیض کیا ہے۔

سویم:
خاتم الانبیأ و خاتم الاوصیاء علی ابن ابی طالب ایک ہی نور میں متحد ہیں تو جس طرح سب سے پہلے نور رسول ۖ خلق ہوا اسی طرح سب سے پہلے علی کا بھی نور خلق ہوا۔ رب العزت نے سب سے پہلے نورمحمد ۖ و نور علی کو خلق کیا ہے او ر انہیں کے نور کے طفیل میں تمام کائنات کی خلقت ہوئی ہے لہذا تمام ہستی نے اسی نور کی برکت سے خلقت پائی ہے۔
(لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ وَ لَوْلَا عَلِیّ لَمَا خَلَقْتُکَ وَ لَوْلَا فَاطِمَةُ لَمَا خَلَقْتُکُمَا)(١)
آدم سے عیسیٰ تک تمام کے تمام انبیاء انھیںہستیوں کے نمک خوار ہیں۔ رزق مادی ہو یا معنوی انہیں کی برکت سے ملتا ہے۔

چہارم:
تمام انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام خداوند کریم کے مقرب بندے ہیں انہیں قرب الہی کا کمال حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی مرتضی علیہ الصلوة والسلام کے برکت سے ملا ہے علامہ قندوزی اور
..............
١:فاطمة بھجة قلب نبی، علامہ مرندی، ملتقی البحرین ص ١٤
علامہ بکری اہل سنت کے دو بزرگ علماء ہیں ان کے مطابق تمام انبیاو اور اوصیاء کو کمالات رسول گرامی خدا اور علی مرتضی کی وجہ سے حاصل ہو گئے ہیں۔ پس ثابت ہوا نور محمدۖ اور نور علی دونوں ایک ہیں اورتمام انبیاء و اوصیاء و اولیاء مکتب علی بن ابی طالب کے شاگرد اور مطیع و فرمانبردار ہیں پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا : شب معراج خداوند عالم کے پیغمبر وں نے مجھ سے سوال کیا۔ آپ نے کونسا عمل انجام دیا جس کی وجہ سے آپ کو معراج کے شرف سے مشرف کیا گیا اور آپ ۖ کو خدا نے روئے زمین پر افضل الناس اور سید المرسلین قرار دیا؟تو رسول گرامی اسلام نے انبیاء ما سلف کے سوالوں کے جواب میں فرمایا:کہ میں نے خداوند رب العزت اور آپ سبھی انبیاء کرام اور ولایت علی ابن ابی طالب کو اپنے لئے سرلوحہ عقیدہ اور راہ عمل قرار دیا۔
مرحوم شیخ کاظم ازری نے اس روایت کو اس طرح سے تحریر کیا ہے۔
وَ اَسْأَلُ الاَنْبِےَائَ تُنْبِئُکَ عَنْہُ
اَنَّہ سِرُّھَا الَّذِی نَبَّاَھٰا
وَ ھُوَ عَلَامَةُ الْمَلَائِک فَاسْأَلْ
رُوحَ جَبْرَئِےْلَ عَنْہُ کَےْفَ ھَدَاھٰا(١)
فواد کرمانی کہتے ہیں۔
زنسیم فیض کریم تو
دم عیسی آمدہ جانفزا
بہ کف کلیم زقدرتت
دگر آن عصا شدہ اژدھا
بتو یونس آمدہ ملتجی
کہ خلاص گشتہ ز ابتلا
زتوجہ تو خلیل را شدہ نار برد مبردا
..............
١: دیوان ص ٦١
میرزا محمد قمی نے کتنا خوبصورت شعر کہا ہے۔
سرخوش از ساغر سرشار ولایت چو شدیم
پیر ما ختم رسل ساقی ما مولا بود.
شجر طور ولایت علی عمرانی
کہ تجلی رخش راہبر موسی بود
مژدہ مقدم جانپرور او داد مسیح
دم قدسیش از آنروے روان بخشا بود
نہ ہمین یار نبی بد کہ بھر دور معین
انبیاء را ہمہ از آدم تا عیسی بود
نوح را ہمت او داد نجات از طوفان
ورنہ تا روز جزا رہسپر دریا بود

پنجم:
تمام انبیاء اور اولیا ء الٰہی حضرت آدم ابو البشرسے لیکر قیامت تک جو بھی زیور وجود سے مزین ہوگا وہ نور پیغمبر ۖ اور علی کی برکت سے خلق ہوگا اور جس کو جس قسم کے بھی کمالات حاصل ہونگے وہ محبت و ولایت اہلبیت محمد ۖکی وجہ سے حاصل ہونگے لہذا پیغمبر اسلام اور علی ابن ابی طالب دونوں شیعہ ہیں چنانچہ آیہ شریفہ اِنَّ مِنْ شِےْعَتِہ لَاِبْرَاہِےْم(١) کے ضمن میں حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا : ای مِنْ شِےْعَتِہ لَاِبْرَاہِےْم(٢) یعنی حضرت ابراہیم خلیل اللہ جو اولوالعزم پیغمبر ۖ تھے حضرت علی کے شیعہ و پیرو کار تھے۔ یہ حضرت ابراہیم کے لیے
..............
١: صافات ، ٨٣ ٢: تاویل آیات طاہرہ ص٤٨٥، البرھان ج٤، بحار ج ٣٦ حدیث ١٣١
سب سے بلند مرتبہ اور افتخار و امتیاز ہے کہ ابراہیم علی کے شیعہ ہیں اس بات کے ثبوت وتصدیق میں عجیب و غریب واقعات نقل ہو ئے ہیں یہاں پر زیادہ تفصیل کی گنجایش نہیں ہے .
حضرت امام صادق نے فرمایا کہ: حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو حضرت علی کی عظمت و بلند مرتبہ کا علم ہوا اور شیعیان حیدر کرار کی فضیلت اور علامت معلوم ہوئی تو ابراہیم نے بارگاہ خداوندی میں ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کی کہ خداوندا! مجھے بھی شیعیان حیدر کرار علی ابن ابی طالب میں سے قراردے خدا نے ابراہیم کی یہ دعا قبول کی جس کا قرآن مجید میں بھی خداوند عزوجل نے اعلان کیا ہے (اِنَّ مِنْ شِےْعَتِہ لَاِبْرَاہِےْم)
ہست ابراہیم در وحی مبین
شیعہ مولا امیر المومنین

ششم:
تمام انبیاء اور اولیاء الٰہی کے ساتھ ساتھ تمام عام انسان بھی عالم ذر میں خداوند متعال کی وحدانیت پیغمبراسلامۖ کی نبوت و رسالت اور علی ابن ابی طالب کی ولایت و محبت و مودت کو قبول کرکے علی کے شیعہ ہو گئے تھے۔

روز نخست این گل مرا کہ سر شتند
نام نکوی تو بر دلم بنوشتند
اس لیے امام صادق نے فرما یا ہے کہ: قیامت کے دن جو نجات پائیں گے وہ ہمارے شیعہ ہیں جنھیں پیغمبر اسلام اور ہم ائمہ اطہار کی وجہ سے نجات دی جائے گی اور تما م افراد اہل عذاب اور اہل ہلاکت ہونگے کہ قیامت کے دن صرف پیغمبر اسلام، ہم آئمہ طاہرین اورہمارے شیعہ ہی نجات پائیں گے۔
حدیث کے معنی یہ ہیں کہ تمام انبیاء اور اولیاء موحدین حضرت آدم سے لیکر حضرت عیسی تک حضرت ختمی المرتبت اور اہل بیت محمد ۖ کے شیعہ ہیں لہذا نجات کا استحقاق رکھتے ہیں۔
اس مختصر سی کتاب میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی بندہ ناچیز میں اتنی جرأت ہے کہ اس علم و عرفان کے سمندر میں غوطہ زن ہو سکوں۔
اس وقت اتنے ہی بیان پر اکتفا کرتا ہوں پھر کسی موقع پر فرصت کے میسر ہونے پر مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کی تائید و نصرت سے اس گلستان روح افزا میں سیر کریں گے اور بوستان گل آل محمد ۖ کی نکہت و خوشبو سے اپنے دل و دماغ و عقیدہ کو معطر کریں گے فی الحال اپنے قارئیں کرام سے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ طالب رخصت ہوں۔
شیعہ یک موسی است در دریاے نیل
شیعہ یک کعبہ است پیش قوم فیل
شیعہ در درےای آتش چو خلےل
بے نےازی می کند از جبرئیل
شیعہ ہر جا پاگذارد با علی است
اول و آخر کلامش یا علی است

......