مشخصات کتاب
نام کتاب ...........................سرچشمۂ معرفت
مؤلف......حجة الاسلام والمسلمین شیخ محمد حسین بہشتی
کمپوزینگ............................سید سجاد اطہر کاظمی
ناشر...................................................
طبع...............................................اوّل
تعداد طبع........................................٥٠٠
سال طبع................٢٠٠٩ء بمطابق ١٤٣٠ھ ق

تقریظ:
سراپا اخلاق ، ذہین وفطین دانشمند، زیرک انسان، متحرک اور فعّال شخصیّت، شگفتہ رو ، برگزیدہ خو، علم اور اہل علم پر والہ وشیدا، ادب اور ادیبوں کے عاشق، فکر جس کی عمیق، نظر جس کی گہری ، کردار جس کا پہلو دار، سوچوں اور خیالوں کی پرتو اور تہوں میں جسکی علمیّت پنہاں، تحقیق وجستجو کے حد درجہ دلدادہ،
حالی کا شعر جس پر صادق آئے
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
منزلیں قبول نہ کرنے والے رہ نور دِشوق، کوئی بھی محمل لیلائے مقصود کے حصول پر قبول نہ کرنے والے مسافر بمصداق شعر اقبال
تورہ نوردِشوق ہے منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول
زمانے کی پابندیاں قبول نہ کرنے والے زمانہ شاز اہل کمال ۔ راقم کے اس شعر کے مفہوم پر عمل پیرا
ہوتے نہیں پابند زمانہ اہل کمال ان کے اپنے پاس زمانے ہوتے ہیں
خطابت جس کا معمول ، تحریر جس کی زبان، تقریر جس کابیان، تدریس جس کی پہچان، کثیر المشرب اور مجلسی انسان، حسن سلوک کامجسمہ، پیکر حلم وحیاء ، پر تو مہر ووفا، سعی مسلسل اور عمل پیہم کی علامت ، فکر وفن جس کے سلامتِ آزاد روی کی سچی ضمانت ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جس کی عبادت ، تبلیغ دین اور احترام آدمیّت کا درس جسکی سلامت روی کی شہادت ، جسکی زندگی کابنیادی مقصد ہدایت ہی ہدایت،جس کی ہر حرکت وسکون ریاضت ہی ریاضت اور جس کاہر قول وفعل قائدانہ صلاحیّت کی عملی تصویر ، میری مراد ہے دوست محترم ، برادر گرامی حجّة الاسلام والمسلمین جناب شیخ محمّد حسین بہشتی ۔
شیخ موصوف کا تعلق کے ٹو اور سیاچن کی سرزمین ، سیّاحوں کی جنّت ارض بلتستان کے صدر مقام سکردو کے علاقہ ژھونگ دوس(سندوس) سے ہے۔
عرصے سے مشہد مقدس اسلامی جمہوریہ ایران میں حصول تعلیمات دینیہ میں مشغول ہیں اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ تحقیق وجستجو کے میدان میں بھی شہسواری کرتے ہیں ۔ خطابت اور تحریر وتقریر کے ساتھ ساتھ گلستان زبان وادب کے بھی بلبل خوش نوا ہیں۔
بہشتی صاحب نے فارسی اور اردو زبانوں میں کئی تحقیقی کتابیں لکھی ہیں ۔ جب کہ مختلف النوع موضوعات پر پُر مغز مقالات بھی لکھے ہیں ، جن کی قدر دانی اور اعتراف میں انہیں اہم اسناد بھی عطا ہوئی ہیں۔
زیر نظر کتاب ''سرچشمۂ معرفت'' ان کے اردو مقالات کا مجموعہ ہے ، ان مقالات کے عنوانات یہ ہیں۔ ١۔ مکتب تشیع ٢۔ ائمہ علیہم السلام معدن علم الٰہی ٣۔ قرآن اور علی ٤۔سب سے پہلا مسلمان ٥۔دین اور غدیر ٦۔اولی الامر کون؟ ٧۔ علی ای ہمائی رحمت۔
ساتواں اور آخری مقالہ نہایت سبق آموز ، ایمان افروز اور روح پرور مقالہ ہے۔ اس مقالے میں اس حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے کہ فکری پاکیزگی ، روحانی بلندی اور ریاضت سے انسان کتنا بلند مقام حاصل کرتا ہے۔ اور اس کی سوچوں کے دریچے کس طرح کھل جاتے ہیں، علی ای ہمائے رحمت ، استاد شہریار نے حضرت علی مرتضیٰ کی شان میں جو منقبت لکھی ہے یہ منقبت فصاحت وبلاغت کے اصولوں کو جاننے والوں ، حسن کلام کی باریکیاں جاننے والوں اور معانی ومفاہیم کے معارف پر گہری نظر رکھنے والوں کے نزدیک الہامی ، عرفانی اور لافانی کلام ہے ۔ اس کلام کے محاسن اور اس میں پنہاں فلاسفہ وحکمت اور وجدانیت دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ۔ شاعر کاربطہ براہ راست خدا سے اور اس کے برگزیدہ ترین محبوب بندہ علی مرتضیٰ سے ۔
قارئین سے امید کی جا تی ہے کہ وہ '' علی ای ہمائی رحمت '' استاد شہریار کی حضرت علی کی شان میں لکھی گئی منقبت کو دقّت نظر اور فکری گہرائی کے ساتھ پڑھیں گے یقیناً اس کے مطالعے کے نتیجے میں خداوند عالم ان کے عرفانیات اور توفیقات میں بھی اضافہ فرمائے گا۔
بالخصوص شعراء اس کلام سے بے پناہ فیض حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے مطالعے سے شعراء کی صلاحیّتیں اور فکری توانائیاں یقیناً معراج تک پہنچ جائیگی ۔ اس سلسلے میں راقم اپنی نعت کا یہ ایک شعر پیش کرکے قارئین کے شوق کو مہمیز کرنا چاہتا ہوں۔

نہیں معراج ان کی انتہائے رتبۂ عالی
عروج عالم امکان سے برتر محمّد ۖ ہیں
ان سات مقالات سے ان کی تحقیقی صلاحیّت ، علمی بصیرت ، اور تحریر ی قوّت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ قارئین سے راقم کی گزارش ہے کہ وہ بہ نظر عمیق اور نہایت ذوق وشوق عرفان سے ان کا مطالعہ فرمائیں۔ میری دعا ہے کہ خداوند عالم بہشتی صاحب کی بہشتی فکر سے ہم سب کو فیض حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائیں۔
کمال فکر وفن کے راستوں میں یہ کہا ہم سے
ہمیں مشکل سے پاؤگے کہ آسان ہم نہیں ہونگے

فقط آپ کا مخلص ودعا گو!
حشمت علی کمال الہامی
فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو


حرفے چند:
کسی زمانے میں جب مسودے ہاتھ سے لکھے جاتے تھے اور کتابیں ہاتھ سے نقل ہوتی تھیں ، اس وقت قلم ، قلم کار اور کتاب ایک مثلث کے تین اضلاع کہلاتے تھے۔ لیکن ! چھاپ خانے کی ایجاد کے بعد اس مثلث میں ایک ضلع کا اضافہ مطبع یا ناشر کی شکل میں ہوا ۔ اس طرح سے یہ مثلث نکل کر مربّع بن گیا۔ آج کے زمانے میں اب قلم کی جگہ کمپیوٹر اور ناشر وکتاب کی جگہ انٹر نٹ اور سی ڈیز وغیرہ نے لے لی ہے۔ یعنی پھر سے وہی مثلث قائم ہوگیا ۔ لیکن تخلیق کا ر اب بھی وہی انسان ہے قلم کارکی جگہ کوئی نہیں لے سکا ہے ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کتاب کا متبادل نہ پہلے تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کیوں لکھتا ہے ؟ عالمی دانشوروں اور ماہرین نفسیات کے مطابق اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی نظریات ، اعتقادات ، معلومات ، تجربات اور مشاہدات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے اور یہ سب کچھ آنے والی نسلوں کو ورثے میں دینا چاہتا ہے ۔ اور یہی لکھنے کا سب سے بڑا محرّک بتا یا جاتا ہے۔ لکھنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انسان لا فانیت کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے ہر انسان چاہتا ہے کہ موت کے بعد وہ ایک ایسا خلا اپنے پیچھے چھوڑ جائے جس کو بڑی کوششوں کے بعد بھی پُر کرنا ممکن نہ ہو اور موت کے بعد بھی جاودانی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتا ہے پس ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیق اور ترقی کے پس پشت انسان کا یہی فطری رجحان کا ر فرما رہا ہے۔ اس طرح سے دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں کتابیں وجود میں آئیں اور انہی کتابوں کے ذریعے علم کا نور چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ یوں انسانی تہذیب میں قلم ، قلم کار اور کتاب کے مثلث کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ اسی مثلث نے انسانی زندگی کی تاریک راہوں کو روشن کیا ہے زخمی دلوں پر پھاہا رکھا ہے ۔ لیکن گاہے بگاہے کچھ دل آزار اور اشتعال انگیز کتابوں اور تحریروں نے ہنگامہ بھی کھڑا کیا ہے۔خون خرابہ بھی ہوا ہے اور انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
پس اس پوری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں انسانی معاشرے پر سب سے زیادہ مثبت اور منفی دونوں اثرات کتابوں نے مرتب کئے ہیں ۔ کتابوں ہی کے ذریعے ایک مکتب فکر نے اپنے اعتقادات کو نہ صرف اپنے اندر راسخ کرنے بلکہ دوسرے مکاتب فکر تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔
زیر نظر کتاب کے خالق محترم شیخ محمّد حسین بہشتی صاحب ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیان مقرر اور صاحب قلم بھی ہیں۔ راقم کو ان سے علم اور قلمی تعلق کے ساتھ ساتھ نسلی اور خونی رشتہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ مجھے ان کی کامیاب علمی وعملی زندگی پر فخر ہے ۔ شیخ صاحب کی زیر نظر کتاب کا مسودہ دیکھنے کے بعد مجھے بڑی خوشی ہوئی اور یہ احساس ہوا کہ اس نوجوان قلم کار نے علم کے کتنے مدارج طے کئے ہیں ۔ ان کی یہ کتاب انسانی تہذیب کے ارتقائی سلسلے کی ایک ایسی کڑی ہے جو صدیوں سے انسانی زندگی میں تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے۔
برادر محترم شیخ محمد حسین بہشتی نے پہلے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ۔ آپ گورنمنٹ کالج کراچی سے عربی فاضل اور جامعہ امامیہ کراچی سے ممتاز الواعظین کے سند یافتہ بھی ہیں۔ اب گذشتہ پندرہ برسوں سے حوزۂ علمیہ مشہد مقدس ایران میں زیر تعلیم ہیں ۔ دنیا میں ہر انسان بہ یک وقت طالب علم بھی ہوتا ہے اور استاد بھی ۔ شیخ محمد حسین بہشتی صاحب بھی اسی فارمولے کے تحت ایک طرف تحصیل علم میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اردو وفارسی زبانوں میں مضامین ، مقالے اور کتابیں لکھ کر علم بانٹ رہے ہیں ۔ چند ایک فارسی کتابوں کے اردو میں ترجمے بھی کئے ہیں جبکہ چند ایک علمی ، ادبی اور ثقافتی مجلوں کو منظر عام پر لانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اقبالیات آپ کا سب سے مرغوب موضوع ہے اور اس موضوع پر آپ بیس سے زیادہ مقالے لکھ کر ایران کی مختلف یونیورسٹیوں میں منعقدہ کانفرنسوں میں پیش کر چکے ہیں ۔ آپ کی ان قلمی خدمات کے صلے میں ایران کے مختلف علمی اداروں کی جانب سے آپ کو '' لوح تقدیر'' یعنی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے ۔
زیر نظر کتاب شیخ بہشتی صاحب کا اثر خامہ ہے جو مختلف عنوانات پر لکھے گئے ان مقالوں کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب میں تاریخ تشیع ، ائمہ علیہم السلام معدن علم الٰہی ، قرآن اور علی، سب سے پہلا مسلمان، دین اور غدیر، اولوالامر کون؟ اور علی ای ھمایٔ رحمت جیسے موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ مجھ جیسے طالب علموں کے لئے یقیناً اس کتاب کے ذریعے مذکورہ موضوعات سے متعلق خاطر خواہ مواد حاصل ہوگا۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

محمد حسن حسرت
ریجنل ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سکردو

تقریظ
(ترجمۂ متن فارسی)
بسمہ تعالیٰ
اتحاد بین المسلمین اسلام کے ایسے اہم ترین اصول میں سے ایک ہیں جن میں اسلام کی پائیداری اور مسلمانوں کی شان وشوکت پنہاں ہیں۔ اس کو محض ایک ٹیکنیک کے طور پر نہیں بلکہ ایک اسٹراجیک کے طورپر مدّ نظر رکھنا چاہئے ۔
خداوند رب العزّت جل ّشانہ ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید اس عنوان وحدت کے محور ومرکز شمار ہوتے ہیں۔
حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی عظیم ذات گرامی بھی تمام فرق اسلامی کے درمیان مورد اتفاق شخصیت ہیں اور مرکزی محور میں اہم کرادر اداکرتے ہیں۔
برادر عزیز گرامی جناب حجة الاسلام والمسلمین آقای محمد حسین بہشتی ایک مخلص محقق اور جستجو گر شخصیت ہیں ۔ اس اہم مسئلے کے اثبات کے درپے ہیں ۔
امید ہے کہ مورد تائید وعنایات حضرت بقیة اللہ الاعظم ارواحنافداہ قرار پائیں۔

السلام علی عباداللہ الصالحین
محمد حسین مھدوی مہر
رئیس جامعة المصطفیٰ العالمیہ مشہد مقدس