استشراق اور مستشرقین
 

تعدد ازواج
اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کا ایک ہدف تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے اسلامی تعلیمات کو اور خصوصاً آپ ﷺ کو شدید طریقے سے ہدف تنقید بنایا ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عیسائیت اور یہودیت کی طویل تاریخ میں عورتوں کے خلاف جو ظلم و ستم روا رکھا گیا ، یا انجیل و تورات کے اندر سینکڑ وں شادیوں ، اور بے شمار لونڈیوں کے ساتھ رفاقت کے جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔جب ہم یہودیت اور عیسائیت کی قدیم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہر دور میں خواتین کی حیثیت مردوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تر نظر آتی ہے۔ ان کو معاشرے میں نہایت گھٹیا مقام دیا جاتا تھا۔ اہل مذہب ان کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے تھے اور ان سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے تھے۔بائیبل میں بعض انبیا ء کی بھی سینکڑ وں بیویاں بیان کی گئی ہیں ، مثلاً حضرت سلیمان کے ایک رات میں اسی بیویوں کے پاس جانے کی کہانی یہودی اساطیر ہی سے اسلامی تفاسیر میں در آئی ہے۔ یونانی اساطیر میں ایک خیالی عورت پانڈورا (Pandora) کو تمام انسانی مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کی مذہبی خرافات میں حضرت حوا ؑ کو آدم کے جنت سے نکالے جانے کا باعث قرار دیا گیا تھا۔ یونانی اور ایرانی تہذیب میں بھی مرد و زن کے تعلقات اخلاقی رکاوٹوں سے آزاد ہو گئے تھے اور کثرت ازواج پر کوئی قدغن نہیں تھی۔مسیحی تعلیمات میں عورت کو ایک خطرہ، مصیبت اور غارت گر ایمان قرار دیا گیا۔مذہبی لوگ عورت سے دور رہنے کو تقویٰ ، تقدس اور اعلیٰ اخلاق کی علامت سمجھنے لگے۔اس طرح سے عورت اس معاشرے میں تیسرے درجے کی مخلوق بن گئی تھی۔چونکہ مذہبی طبقے کو معاشرے میں فوقیت حاصل تھی اور تمام قوانین اور ضوابط کا مرکز و محور یہی طبقہ تھا جو عورتوں کو تمام مصائب کی جڑ قرار دیتا تھا، لہٰذا عورتوں کو کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔عرب معاشرے میں بھی کثرت ازواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی۔ اسی طرح طلاق پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ اس قسم کے حالات میں اگر اسلام کی تعلیمات کو دیکھا جائے توہر سلیم الفطرت انسان یہ بات تسلیم کر لے گا کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں پہلی بار خواتین کو کسی نے برابر کے حقوق دیے ہیں۔جہاں شادیوں کی کوئی حد مقرر نہیں تھی وہاں اسلام نے چار کی تحدید کر دی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ان کے ساتھ انصاف کرنا لازمی ہے۔ایک اور بات جو پیش نظر رکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے شادی کے ارادے ، بیوی کے انتخاب، اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے معاملات کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے اور ریاست کو از خود اس میں مداخلت کا حق نہیں دیا۔البتہ ان معاملات میں اچھے اور برے کی تمیز ضرور کر دی ہے۔اسی طرح اسلام میں چار شادیاں کرنا لازمی بھی قرار نہیں دیا گیا ، بلکہ صحابہ کرام کے کثرت سے شہید ہونے اور شہداء کے اہل و عیال کی کفالت کے سلسلے میں معاشرتی مسائل اور منفی رویوں سے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت کے معاملے میں جن مسائل کا شکار ہیں ، ان سے بچنے کے لیے ان کی بیویوں سے شادی کر لیں۔اس اجازت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آیندہ بھی کبھی دنیا میں کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جب عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑ ھ جائے ، یا کسی شخص کو طبی یا معاشرتی بنیادوں پر دوسری شادی کرنی پڑ ے تو وہ کر سکے۔مثلاً کسی کی بیوی دائمی مرض میں مبتلا ہو، یا کسی گھر میں کسی ایک بھائی کی وفات ہو
جائے وغیرہ۔ اس پر بھی یہ پابندی لگا دی گئی کہ اگر بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کر سکتے تو ایک ہی شادی پر اکتفا کرو۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
و ان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتٰمیٰ فا نکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلٰث و ربٰع، فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ۔ ( سورۃ النساء ۴:۳)
’’اگر تمھیں ڈر ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان کی ماؤں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے ، لیکن اگر تمھیں خدشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو۔‘‘
اسلام نے خواتین کو، تاریخ میں پہلی بار، شادی اور طلاق کے معاملے میں اختیار دیا۔ عورت کو معاشرے میں عزت و احترام کا مقام دیا۔اس کو کمانے اور جائیداد بنانے کا حق دیا۔بچوں کی پرورش اور ان کے بارے میں فیصلوں میں معاونت کا اختیار دیا۔ مردو عورت کو ایک دوسرے کا لباس اور سکون و اطمینان کا ذریعہ قرار دیا۔اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے مذہب کو مستشرقین یہ الزام دیں کہ اس نے خواتین سے زیادتی کی ہے۔
یہ تو عمومی طور پر مسلمانوں کے درمیان تعدد ازواج پر مغرب کے اعتراضات کا سرسری جواب تھا۔ اب ہم حضور ﷺ پر تعدد ازواج کے الزامات کی طرف آتے ہیں۔مستشرقین نے کثرت ازواج کی بنا پر آپﷺ کو جنسی طور پر حد سے تجاوز کرنے والے انسان کے طور پر پیش کیا ہے۔ان لوگوں نے آپ ﷺ کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہے جو علمی و تحقیقی معیار سے تو کوسوں دور ہے ہی، عام انسانی اخلاقیات بھی اس کے ذکر کی اجازت نہیں دیتے۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان بازاری اور بد زبان لوگوں کو سکالر اور محقق بھی کہا جاتا ہے۔ولیم میور آپ ﷺ کے بارے میں لکھتا ہے :
Mahomet was now going on to three-score years: but weakness for the sex seemed only to grow with age and the attractions of his increasing harem were insufficient to prove his passion from wandering beyond its ample limits.[1]
’’اب محمد( ﷺ) کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن جنس مخالف کی طرف میلان کی کمزوری میں عمر بڑ ھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔آپ کے بڑھتے ہوئے حرم کی کشش آپ کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے روکنے کے لیے کافی نہ تھی۔‘‘
آپﷺ پر جنس پرستی اور ہوس پرستی کا الزام لگانے والوں نے اپنے تعصب، تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے باعث بہت سے حقائق کو نظر انداز کر دیا ہے۔اگر تعدد ازواج کسی شخص کی جنس پرستی کا ثبوت ہے تو تاریخ عالم میں بہت سی شخصیات اس الزام کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔ان شخصیات میں عام لوگوں اور یہود و نصاریٰ کے قائدین کے علاوہ ان کے بہت سے انبیا ء بھی شامل ہیں۔مثلاً بائبل کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویاں اور تین سو لونڈیاں تھیں۔[۱] ۱۔ سلاطین۱۱:۳۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب کی چار چار بیویوں کا ذکر ملتا ہے۔
محمد ﷺ کی زندگی کا جائزہ لینے سے ہمیں واضح طور پر اس بات کے ثبوت مل جاتے ہیں کہ مستشرقین کے ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔آپ ﷺ نے زندگی کے اس دور میں جو جسمانی تقاضوں اور نفسانی خواہشات کے معاملے میں سنہری دور کہلاتا ہے ، ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ سے نکاح کیا۔ان کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ان کی وفات کے بعد، جب گھر میں بچیاں اکیلی تھیں اور آپﷺ نبوت کی ذمہ داریوں میں ان کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے تھے ، اس بنا پر آپ نے عمر رسیدہ بیوہ خاتون حضرت سودہؓ سے نکاح کیا۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی۔آپ ﷺ کا خاندان اور آپ کی شخصیت کا تاثر اتنا عمدہ تھا کہ آپ عرب کی جس خاتون سے چاہتے ، وہ آپ سے شادی کے لیے تیار ہو جاتی۔اس سے پہلے عرب آپ کو دعوت دین سے باز رہنے کے لیے عرب کی حسین ترین خاتون سے شادی کی پیش کش کر چکے تھے ، جسے آپ نے رد کر دیا تھا۔ آپ ﷺ نے زندگی میں ایک ہی کنواری خاتون حضرت عائشہؓ سے شادی کی۔اگرچہ آپ ﷺ کی ساری زندگی اللہ کے احکام کے مطابق ہی بسر ہوئی تھی اور تمام شادیاں بھی یقیناً اللہ کے حکم سے ہوئی تھیں ، لیکن اسلامی روایات کی رو سے آپ کی یہ شادی ، خالصتاً، اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوئی تھی۔حضرت عائشہؓ اللہ کی طرف سے خواتین کے معاملات میں نبوت کی ذمہ داریوں میں آپ کی معاون بنائی گئی تھیں۔آپ کی تمام شادیاں نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف مقاصد کے تحت انجام پائی تھیں۔مثلاً حضرت خدیجہ ؓ ان حالات میں جب پورا عرب آپ کے خلاف تھا، آپ کی ممد و معاون بنیں اور اپنی ذات ، اپنا مال اور اپنی اولاد ہر چیز اسلام اور نبی کریم ﷺ کے لیے وقف کر دیا۔اسلام کے راستے میں پہلی شہادت حضرت حارث بن ابی ہالہ کی تھی، جو حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے آپ کی واحد اور نرینہ اولاد تھے ، اور نبی ﷺ کی گود میں پل کربڑ ے ہوئے تھے۔حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح کی وجہ یہ تھی کہ خواتین کے خصوصی معاملات میں کسی خاتون کی معاونت ضروری تھی۔ فطری شرم کی وجہ سے خواتین ایسے مسائل مردوں کے سامنے ذکر نہیں کر سکتیں۔حضرت سودہ سے نکاح بچیوں کی کفالت کی غرض سے ہوا۔حضرت زینب بنت جحش سے نکاح تشریعی مقاصد کے لیے ، متبنی کی بیوی سے نکاح کی حرمت ختم کرنے کے لیے ، جو کہ عربوں نے اللہ کے حکم کے خلاف خود پر مسلط کر لی تھی، کیا گیا۔معاشرتی مقاصد کے لیے اسلام کی خاطر قربانیاں دینے والے ساتھیوں کی دلجوئی اور ان سے تعلقات میں مضبوطی لانے کے لیے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم سے قریبی رشتہ داریاں قائم کی گئیں۔سیاسی مقاصد کے لیے آپ نے بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہؓ سے شادی کی، جس کے نتیجے میں ایک کٹر مخالف قبیلہ اسلام کا حامی بن گیا۔یہود اسلام اور نبیﷺ کے شدید دشمن تھے۔غزوہ خیبر میں یہود کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ اسیر ہوئیں تو آپﷺ نے ان کو نکاح کی پیش کش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔یہود کی مقامی روایات میں داماد کے خلاف لڑائی کرنا برا سمجھا تا تھا، اس نکاح کے باعث یہود نے مسلمانوں کے خلاف کوئی لشکر کشی نہیں کی۔اسی طرح حضرت ابو سفیانؓ کی بیٹی حضرت ام حبیبہ ؓ سے شادی کے ذریعے اسلام کے ایک بہت بڑ ے مخالف اور عربوں میں تقدس اور احترام کے حامل شخص کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا۔حضرت زینب بنت خزیمہ کے یکے بعد دیگرے دو شوہر حضرت عبیدہ ؓبن حارث اور عبداللہؓ بن جحش شہید ہوئے تو ان کی دل جوئی اور انھیں مسائل سے بچانے کے لیے آپﷺ نے ان سے نکاح کیا۔اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال تھی۔حضرت ام سلمہ ؓہند بنت ابی امیہ کے خاوند حضرت عبداللہؓ بن عبدالاسد حضورﷺ کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے۔ان کی شہادت کے بعد آپﷺ نے ان کی بیوہ کو لا وارث چھوڑ نے کے بجائے ان کو نکاح کا پیغام دیا۔حضرت میمونہ بنت حارث بھی ایک بزرگ بیوہ خاتون تھیں ، جن کی آٹھ دیگر بہنیں عرب کے اہم لوگوں کی زوجیت میں تھیں۔حضرت عباس ؓ کی ترغیب کے بعد آپ ﷺ نے ان سے نکاح کیا جس کے نتیجے میں آپ کی رشتہ داری بہت اہم خاندانوں سے ہو گئی۔اسلامی نقطہ نظر کے لحاظ سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کے مقابلے میں نکاح کے معاملات میں خصوصی مراعات بھی دیں اور کچھ اضافی پابندیاں بھی لگائیں ، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیات ۵۰تا ۵۲ میں کیا ہے۔

مسئلہ غلامی
ایک اور اہم معاملہ جسے مستشرقین نے اپنے طنز و تضحیک کا ہدف بنایا ہے ، وہ اسلام میں غلامی کا تصور ہے۔مستشرقین نے عام طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام غلامی کو تحفظ دیتا ہے۔اس غلط تاثر کی بنیادی وجوہات میں جہاں مستشرقین کی اسلامی احکام کے نزول کے طریق کار اور اسلامی تاریخ سے نا واقفیت اور تعصب کارفرما ہیں ، وہیں بعض اسلامی سلاطین کی طرف سے اسلام کے احکام سے روگردانی بھی ہے۔اسلامی احکام اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظر تدریج کے اصول پر نازل فرمائے ہیں۔معاشرے میں پھیلی ہوئی بعض برائیاں جن کی جڑ یں کسی معاشرے میں بہت دور تک پھیل جائیں ، ان کو یک لخت ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس طریقے سے معاشرے میں بجائے خیر کے ، انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اسلام کے احکام میں تدریج کا باعث یہی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کے احکام بھی اسی طرح سے نازل فرمائے تھے۔چونکہ عرب میں غلامی ایک ادارے کی صورت پر موجود تھی، اور ایک ایک آدمی کے پاس بیس ، تیس اور سو تک غلام ہوتے تھے۔اسلام نے اس لعنت کا آغاز نہیں کیا تھا، بلکہ یہ لوگ صدیوں اور نسلوں سے اسی طرح کام کر رہے
تھے۔عرب کے طول و عرض اور عراق ، شام اور مصر کی ریاستیں فتح ہوئیں تو اس سارے علاقے میں کروڑوں غلام کام کر رہے تھے۔چنانچہ اگر ان سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو معاشرے میں بدنظمی اور انتشار پھیل جاتا۔لاکھوں خواتین، مرد اور بچے بے گھر اور لا وارث ہو جاتے۔چوروں ، ڈاکوؤں ، بھکاریوں اور بدکاروں کی وہ فوج منظر عام پر آتی جسے سنبھالنا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔
چنانچہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یہ نکا لا کہ مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد یہ پابندی لگا دی کہ جو خود کھاؤ ، پہنو ان کو بھی وہی کچھ دو۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم پر اس انداز سے عمل کیا کہ آقا و غلام میں تمیز کرنا مشکل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ غلاموں اور لونڈیوں کی اچھی تربیت کرو۔لونڈیوں کو آزاد کر کے ان کے ساتھ شادی کو دہرے اجر کا باعث قرار دیا۔غلاموں کو آزاد کرنے کو اسلام نے سب سے بڑ ی نیکی قرار دیا۔ اس کے بعد مختلف گنا ہوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔پھر مکاتبت کا اصول قرآن نے دیا ، جس کی رو سے جو غلام آزاد ہونا چاہتا وہ اپنے مالک سے رقم طے کر کے قسطوں میں ادا کر کے آزاد ہو سکتا تھا۔اسی طرح قرآن نے نیک اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیا۔انسانی غلامی کے سارے طریقوں اور انسانوں کی خرید و فروخت سے روک دیا گیا۔ان سارے احکام کے بعد انسان کو غلام بنانے کی صرف ایک صورت رہ گئی تھی کہ جو لوگ جنگ کی صورت میں قید ہو جائیں ان کو غلام بنا یا جاتا تھا۔چنانچہ آخر میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ محمد میں اس چیز پر پابندی لگا کر غلامی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ قرآن میں ارشاد ہے :
فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب، حتیٰ اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فامامنا بعدُ واما فداء حتی تضع الحرب اوزارھا۔(سورۃ محمد۴۷:۴)
’’تو جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو گردنوں پروار کرو۔جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تواب خوب مضبوطی سے گرفتار کرو۔(اس کے بعد تمھیں اختیار ہے )خواہ احسان کر کے چھوڑ دو یا فدیہ لے کر، تاوقتیکہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔‘‘

نتیجہ بحث
اس ساری بحث میں بنیادی نکات جن کے متعلق ہر مسلمان کو جان لینا چاہیے ، وہ درج ذیل ہیں :
۱۔ استشراق کا مفہوم صرف مشرقی علوم و معارف کا مطالعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پست مسلمانوں کے ساتھ چودہ سو سال کی دشمنی کی تاریخ ہے جسے یہود و نصاریٰ ہر گز نہیں بھولے ہیں۔اس تحریک کی بنیاد میں یہی مقاصد کارفرما ہیں ، چاہے ان کو بظاہر علم و تحقیق کا لبادہ اوڑھا لیا جائے۔
۲۔ مستشرقین کا بنیادی مقصد اسلامی علوم میں تحقیق نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مقصود دین کے بنیادی ماخذ نبی کریم ﷺ کی ذات کو معاذاللہ دھندلانا ، ان کی نبوت کو مشکوک کرنا ، صحابہ کرام کی توہین، قرآن مجید کو انسانی کاوشوں کا شاہ کار ثابت کرنا ، اسلام کے چہرے کو داغ دار کرنا
اور اسلامی احکام و معارف پر شکوک و شبہات کی دھند ڈالنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو واضح طور پر ہدایت دے دی ہے کہ یہود و نصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح سورہ بقرہ ۲:۱۲۰میں فرما دیا کہ تم سے ہرگز خوش نہیں ہوں گے یہود و نصاریٰ یہاں تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگیں۔اسی طرح سورہ آل عمران میں فرمایا کہ اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمھیں خرابی پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔وہ تو وہ چیز پسند کرتے ہیں جو تمھیں ضرر دے۔پھر سورہ ممتحنہ میں مسلمانوں پر زیادتی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں کو دوست بنانے سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے میں مدد دی۔اور جو انھیں دوست بناتے ہیں تو وہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔
*************