استشراق اور مستشرقین
 

قرآن مجید
اسلام کے رخ روشن کو دھندلانے کی سعی و جہد میں آپ ﷺ کے ذات گرامی کے بعد مستشرقین کا سب سے بڑ ا ہدف قرآن مجید ہے۔یہ لوگ اچھی طرح سے جان گئے ہیں کہ جب تک مسلمان قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے تب تک ان کو صراط مستقیم سے ہٹانا نا ممکن ہے۔ولیم جیفورڈ بالگراف نے اس راز کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
’’جب قرآن اور مکہ کا شہر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ ہم عربوں کو اس تہذیب میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے دیکھ سکیں جس تہذیب سے ان کو محمد( ﷺ)اور ان کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی۔‘‘ [۲] ۲۔ضیاء النبی، ج۶، ص۲۵۳۔
چنانچہ مسلمانوں کو ان کی بنیاد سے ہٹانا مستشرقین کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری تھا۔انھوں نے اس عظیم الشان کلام پر ایسے اعتراضات کیے جو اس سے پہلے کسی کے خواب و خیال میں نہیں آئے تھے۔قرآن کے مخاطبین ، جن کی اپنی مادری زبان میں قرآن نازل ہوا تھا ، انھیں اس پر اعتراض کی جرأت نہیں ہوئی۔زبان و بیان کے ماہر عرب جو اپنے علاوہ پوری دنیا کو عجم یعنی گونگا قرار دیتے تھے ، قرآن مجید نے ان کی قوت بیان کو متحیر کر دیا ۔قرآن نے انہیں چیلنج کیا اگر تم قرآن کو کلام الٰہی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو تو اپنی زبان اور قوت بیان کو ، جس پر تم اتنا فخر کرتے ہو، استعمال کر کے قرآن مجید کے مقابلے میں کلام لے آؤ:
و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاْتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین۔فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ، اعدت للکٰفرین۔(البقرۃ۲:۲۴۔۲۳)
’’اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو پھر تم ویسی ہی ایک سورت بنا کر لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ پس اگر تم ایسا نہ کر سکو، اور (یقیناً)تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے ، تو پھر آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لیے تیا رکی گئی ہے۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ زبان و بیان کی قوتیں جس ہستی کی بخشی ہوئی تھیں ، وہ جو نطق اور فواد کا خالق ہے ، اس کا مقابلہ کون کر سکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کلام مجید ، آپ کی نبوت کی تائید میں ، بطور معجزہ عطاء فرمایا تھا۔اس کی معجزانہ خصوصیات کے بارے میں وہی لوگ جان سکتے تھے ، جن کی زبان عربی مبین تھی، یا جو زبان و بیان کے ماہر تھے۔اللہ تعالیٰ کا طریقہ انبیائے کرام کے معاملے میں یہ رہا ہے کہ جس امت میں ان کو مبعوث کیا ، ان کے حالات کے لحاظ سے ، اتمام حجت کے لیے معجزات بھی عطاء فرمائے۔تاکہ وہ قوم یقین کامل حاصل کر لے کہ یہ شخصیت اللہ کی طرف سے ہے اور اسے اس معاملے میں کوئی شک نہ رہے۔مثلاً حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادو کا شہرہ تھا۔سینکڑ وں ماہرین فن مصر کے طول و عرض میں موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا معجزہ عطا کیا جس کا تعلق اسی فن سے تھا، لیکن درحقیقت اس کی نوع الگ تھی جسے صرف ماہرین فن جادوگروں نے پہچانا اور اس کے بعد اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب و حکمت کا فن عروج پر تھا۔ اللہ نے آپ کو اس فن سے متعلق معجزات عطا کیے تھے۔ مثلاً آپ اندھوں کو بینائی ، کوڑھیوں کو صحت یابی اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندگی بخش دیتے تھے۔حضرت محمد ﷺ کے مخاطبین میں شعر و خطابت اور زبان و بیان کا چرچا تھا۔اس لیے اللہ نے آپ کی نبوت کی تائید میں قرآن مجید کو ایک معجزانہ کلام کی صورت میں نازل کیا تاکہ زبان و بیان کے ماہر عرب یہ بات آسانی سے جان لیں کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ یہ کلام الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عربوں کی زبانیں گنگ کر دیں۔جو لوگ زبان و بیان کے ماہر تھے انھیں قرآن پر ایسا کوئی اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ کام اجڈ اور جاہل دیہاتی عربوں اور عربی زبان و ادب سے ناواقف مستشرقین نے کیا ہے۔ ان لوگوں نے قرآن مجید کو کبھی محمدﷺ کی اپنی تخلیق اور کبھی کسی عیسائی پادری اور یہودی عالم سے مستعار لیے گئے خیالات قرار دیا۔اور کبھی یہ الزام لگا دیا کہ یہ کتاب منتشر خیالات کا مجموعہ ہے جن کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے مشہور مستشرق جارج سیل (George Sale)(1697-1736)نے قرآن مجید کے بارے میں اپنے سنہری خیالات کا اظہار اپنے ترجمہ قرآن (The Koran)کے مقدمے میں اس طرح سے کیا ہے :

That Muhammad was really the author and chief contriver of the Quran is beyond dispute, though it be probable that he had no small assistance in his design from others, as his countrymen failed not to object to him. However, they differed so much in their conjectures to the particular person who gave him such assistance, that they were not able, it seems, to prove the charge; Muhammad, it is to be presumed, having taken his measures too well to be discovered. Dr. Prideaux has given the most probable account of this matter, though chiefly from Christian writers, who generally mix such ridiculous fables with what they deliver, that they deserve not much credit. [1]
1.The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill, London,1882,P107.
’’اس حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کے مصنف یا موجد محمد(ﷺ)ہیں ، اگرچہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آپ کو اس منصوبے میں دوسروں سے جو مدد ملی وہ کم نہ تھی، جیسے کہ آپ کے ہم وطنوں نے آپ پر یہ اعتراض کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔البتہ ان کو اس قسم کی مدد مہیا کرنے والے مخصوص شخص کا تعین کرنے میں ان کے مفروضے اتنے متضاد ہیں کہ وہ محمد(ﷺ) کے خلاف یہ الزام ثابت نہ کر سکے۔یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ محمد(ﷺ) نے اس معاملے کو خفیہ رکھنے کے لیے اتنے عمدہ اقدامات کیے جن کی وجہ سے اس راز کا انکشاف ممکن نہ تھا۔ڈاکٹر پیریڈیکس نے اس مسئلے کی ایسی تفاصیل بیان کی ہیں جو حقیقت کے زیادہ قریب ہیں۔یہ تفاصیل اکثر عیسائی مصنفین کی کتب سے لی گئی ہیں ، جو اپنے بیانات میں بعض مضحکہ خیز قصوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی اعتبار کے قابل نہیں رہتے۔‘‘
مستشرقین نے آپ ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے قرآن مجید انجیل ، تورات اور اہل کتاب کی روایات سے اخذ کیا ہے۔چونکہ اس بات سے انکار کرنا مشکل تھا کہ آپ ﷺ روایتی تعلیم اور کتابت سے ناآشنا تھے ، لہذا ان لوگوں نے یہ شوشا چھوڑ ا کہ آپ ﷺ ورقہ بن نوفل ، بحیرہ راہب، شام کی سرحدوں پر آباد عیسائیوں ، مقامی میلوں میں آنے والے اہل کتاب اور عیسائی غلاموں سے واقعات اخذ کر کے قرآن مجید تخلیق کرتے تھے۔آپ ﷺ کی ادب اور زبان و بیان سے نا آشنائی ان لوگوں کے لیے بہت مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ یہ سراسر آ پ کی اپنی تخلیق ہے ، اس لیے بھی مشکل ہے کہ آپ کا امی ہونا ہر لحاظ سے ثابت ہے۔جب کہ دوسری
طرف قرآن مجید کا کلام معجز پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔جارج سیل (George Sale)(1697-1736) بھی قرآن مجید کی اس خصوصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے :
Muhammad seems not to have been ignorant of the enthusiastic operation of rhetoric of the minds of men, for which reason he has not only employed his utmost skill in these his pretended revelations to preserve that dignity sublimity of style which might seem not unworthy of the majesty of that being whom he gave out to be the author of them and to imitate the prophetic manner of the old testament.[1]The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill, London,1882,P105.
’’کلام میں لفاظی حاضرین کے ذہنوں پر جو اثر ڈالتی ہے ، محمد(ﷺ) اس سے بے خبر نہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے ان نام نہاد الہامات میں اسلوب بیان کے اس وقار اور رفعت کو قائم رکھنے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں استعمال کی ہیں ، جو اس ذات کے شایان شان ہو جس کی طرف وہ اس کو منسوب کرتے ہیں اور اس اسلوب کو اختیار کیا ہے جو عہد نامہ قدیم کے پیغمبرانہ اسلوب سے ہم آہنگ ہو سکے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مخالفین کی اس جسارت کا جو آغاز اسلام سے لے کر اب تک اور اب سے لے کر یوم حساب تک ، نہایت عمدہ جو اب دیا ہے۔جو لوگ اس کلام کو کبھی کسی راہب سے ملاقاتوں کا نتیجہ اور کبھی آپ کی اپنی کاوش اور کبھی کسی بلعام لوہار، مغیرہ کے غلام یعیش اور عیش و جبرنامی لوگوں کی تعلیم قرار دیتے ہیں [۲] ، ان سے اللہ نے فرمایا ہے :
ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین۔ (سورۃ النحل۱۶:۱۰۳)
’’اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے۔حالانکہ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں ، عجمی ہے اور قرآن فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے۔‘‘
یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کو مشرکین اور مستشرقین، دونوں نبی کریم ﷺ کے استاد قرار دے رہے ہیں وہ عجمی الاصل ہیں اور ان میں سے کسی کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ اس عظیم الشان کلام کو، جس کی تاثیر ، قوت اور عظمت کا اقرار عرب کے تمام مسلم اور غیر مسلم اہل زبان و ادب کر چکے ہوں ، ایسے لوگوں کی طرف منسوب کرنا جہالت اور نادانی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔اور قرآن کی سچائی اور اعجاز کے لیے یہی کافی ہے کہ چودہ سو سال سے ہر علم و فن کے ماہر اسی سے رجوع کر رہے ہیں اور سینکڑ وں ، بلکہ ہزاروں علوم و معارف کا استنباط اس سے کر چکے ہیں۔لاکھوں غیر مسلم کسی تبلیغی مشن کے نتیجے میں نہیں ، بلکہ اس کتاب عظیم کے مطالعے کے نتیجے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔مثلاً ڈبلیو ایچ کویلیم، رسل ویب، ڈاکٹر مارٹن لنگز، ڈاکٹر آرتھر کین، جان سنٹ، جرمن مفکر علاء الدین شلبی، علامہ محمد اسد، خالد شیلڈرک، مریم جمیلہ وغیرہ۔ڈاکٹر موریس بوکائیلے نے اپنی کتاب (The Bible, The Quran And Science)میں بائیبل سے بیسیوں ایسی آیات نقل کی ہیں جو آپس میں متناقض ، سائنسی نظریات کے متعارض اور تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔لیکن انھیں قرآن مجید کا ایک بھی بیان ایسا نہیں ملا جو مسلمہ عقلی اور سائنسی نظریات کے خلاف ہو۔ موریس بوکائیلے لکھتے ہیں :
The ideas in this study are developed from a purely scientific point of view. They lead to the conclusion that it is inconceivable for a human being living in the Seventh century A.D. to have made statements in the Qur'an on a great variety of subjects that do not belong to his period and for them to be in keeping with what was to be known only centuries later. For me, there can be no human explanation to the Qur'an.[1]

1.The Bible, The Quran And Science, Maurice Bucaille,Dar Al Ma'arif Cairo, Egypt,P125
’’قرآن کا سائنسی طریق سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن میں بیان کیے گئے مختلف النوع بیانات دے سکے جواس کے زمانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور جن کے بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد کوئی حتمی رائے قائم کی گئی۔میرے نزدیک قرآن کی کوئی انسانی توجیہ ممکن نہیں ہے۔‘‘