|
استشراق کی لغوی تحقیق
’’استشراق‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا سہ حرفی مادہ ’’شرق‘‘ ہے ، جس کا مطلب ’’روشنی‘ ‘اور’’ چمک ‘‘ ہے۔اس لفظ کو مجازی معنوں میں سورج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح شرق اور مشرق ، سورج طلوع ہونے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ابن منظور لکھتے ہیں :
’’الشَّرْق: الضوء والشرق الشمس
وروی عمرو عن ابیہ انہ قال الشرق الشمس بفتح الشین والشِّرق الضوء الذی
یدخل من شق الباب۔
شرقت الشمس تشرق شروقا وشرقا طلعت و اسم الموضع المشرق‘‘۔
لفظ ’’شرق۔‘‘ کو جب باب استفعال کے وزن پر لایا جائے تو’’ ا، س، ت‘‘ کے اضافے سے ’’ استشراق ‘‘ بن جاتا ہے۔اس طرح ا س کے اندر طلب کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔گویا ’’استشراق ‘‘ سے مراد مشرق کی طلب ہے۔ عربی لغات کی رو سے مشرق کی یہ طلب علوم شرق ، آداب ، لغات اور ادیان تک محدود ہے۔یہ ایک نیا لفظ ہے جو قدیم لغات میں موجو د نہیں ہے۔انگریزی زبان میں ’’شرق‘‘ کے لیے "Orient" اور ’’استشراق ‘‘ کے لیے "Orientalism" اور مشتشرقین کے لیے۔"Orientalists"کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔اردو زبان میں اس کے لیے ’’شرق شناسی‘‘ کی اصطلاح اختیار کی گئی ہے ، جو اس کے مفہوم و مقصد کو پوری طرح سے واضح کرنے کے قابل نہیں ہے۔مغربی لغات میں استشراق صرف جغرافی مفہوم میں مشرق کی طلب کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ روشنی ، نور اور ہدایت کی طلب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی نے لفظ ’’Orient‘‘کے بارے میں سید محمد شاہد کی تحقیق کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے :
’’شرق’’Orient‘‘ انہ یشار الی منطقۃ الشرق المقصودہ بالدراسات الشرقیہ بکلمۃ۔ تتمیز بطابع معنوی و ھو’’Morgenland‘‘ و تعنی بلاد الصباح ، و معروف ان الصباح تشرق فیہ الشمس، و تدل ھذہ الکلمۃعلی تحول من المدلول الجغرافی الفلکی الی الترکیز علی معنی الصباح الذی یتضمن من النور والیقظۃ، وفی مقابل ذالک نستخدم فی اللغۃ کلمۃ’’Abendland‘‘ وتعنی بلاد المساء لتدل علی الظلام و الراحۃ۔۔۔وفی اللاتینیۃ تعنی کلمۃ ’’Orient‘‘ یتعلم او یبحث عن شیء ما، و بالفرنسیۃ تعنی کلمۃ ’’Orienter‘‘ وجہ او ھدیٰ او ارشد۔‘‘
استشراق کا مفہوم
استشراق کا عام فہم اور فوری طور پر ذہن میں آنے والا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کے رہنے والے علماء و مفکرین جب مشرقی علوم و فنون کو اپنی تحقیق و تفتیش کا مرکز و محور بنائیں گے تو اسے استشراق کہا جاتا ہے۔عام طور پران علوم و فنون میں ہر قسم کے علوم شامل کیے جاتے ہیں۔مثلاً ، عمرانیات، تاریخ ، بشریات، ادب، لسانیات، معاشیات ، سیاسیات، مذہب وغیرہ۔ اگرچہ بظاہر استشراق میں کوئی منفی مفہوم نہیں پایا جاتا ، اور مغربی مفکرین اس سے مشرقی علوم و فنون کا مطالعہ اور ان کی تحقیق و تفتیش ہی مراد لیتے ہیں۔ جیسے کہ ایڈورڈ سوید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
’’شرق شناسی (استشراق)ایک سیاسی موضوع ہی نہیں یا صرف ایک شعبہ علم ہی نہیں ، جس کا اظہار تمدن، علم یا اداروں کی صورت ہوتا ہے۔ نہ یہ وسیع و عریض مشرق کے بارے میں کثیر تعداد میں منتشر تحریروں پر مشتمل ہے اور نہ یہ کسی ایسی فاسد مغربی سازش کی نمائندگی یا اس کا اظہار ہے جس کا مقصد مشرقی زمین کو زیر تسلط رکھنا ہو بلکہ یہ ایک جغرافی شعور ، معلومات اور علم کا جمالیاتی اور عالمانہ، معاشی، عمرانی، تاریخی اور لسانیات کے متعلق اصل تحریروں میں ایک طرح کا پھیلاؤ ہے۔‘‘
اگر ہم اس بات کو مان بھی لیں کہ استشراق کا مقصد صرف مشرق ، اس کے علوم ، روایات اور انفرادی و اجتماعی رویوں کا مطالعہ ہے تو ان مذکور شعبہ جات کی حد تک یہ رائے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ لیکن جیسے ہی اسلام کا ذکر آتا ہے تو مغرب کی ساری اخلاقیات، علمی روایات، انصاف ، رواداری سب کچھ آن واحد میں کہیں کھو جاتا ہے۔ اور اس بات سے بھی مفر نہیں کہ مشرق اور اسلام کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔ نہ مشرق کا ذکر اسلام کے بغیر ممکن ہے اور نہ اسلام کا ذکر مشرق کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے۔ اس لیے استشراق کے تمام مراحل میں مغربی مفکرین کا سابقہ اسلام سے پڑ تا رہا اور وہ اس کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرتے رہے۔’’ استشراق ‘‘کا یہ لفظ اختیار کرنے کے پس پشت اگرچہ کوئی خاص مقصد یا سوچ کارفرما نہیں تھی، لیکن اتفاق سے یہ لفظ مستشرقین کے لیے بے حد موزوں اور ان کی نیتوں کی صحیح وضاحت کرتا ہے۔ باب استفعال کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ثلاثی مجرد کو مزید فیہ میں لایا جائے تو اس کے اندر تکلف کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔یعنی کسی کا م یا امر کو بتکلف سر انجام دیا جائے اور پس منظر میں کچھ منفی مقاصد بھی ہوں۔
عام طور پر استشراق کا جو مفہوم اہل علم میں مشہور ہے وہ یہی ہے کہ مغربی مفکرین کا مشرقی علوم کے مطالعے اور تحقیق و تفتیش کا نام استشراق ہے۔جدید لغات میں بھی اس کا یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ورڈ ویب انگلش ڈکشنری کے مطابق:
"The scholarly knowledge of Asian cultures and languages and people"
’’ایشیائی ثقافت اور زبانوں کے عالمانہ مطالعے کا نام استشراق ہے۔‘‘
عربی زبان کی لغت’ المنجد ‘کے مطابق:
العالم باللغات والاٰداب والعلوم الشرقیۃ والاسم الاستشراق۔
’’مشرقی زبانوں ، آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے اور اس علم کا نام
استشراق ہے۔‘‘
ان تمام تعریفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی علوم و ثقافت اور ادب کا مطالعہ استشراق کہلاتا ہے۔لیکن اگر اس مفہوم کو مان لیا جائے تو چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت اسلام کے علاوہ دو بڑ ے مذاہب یہودیت اور عیسائیت ہیں۔ ان دونوں مذاہب کے انبیاء اور ان کے ابتدائی پیروکاروں کا تعلق مشرق سے ہے۔تورات و انجیل میں بیان کیے گئے تمام حالات و واقعات اور مقامات کا تعلق بھی مشرق سے ہے۔ لیکن اس کے باوجود بائیبل یا عیسائیت و یہودیت کے عالمانہ مطالعے کو کوئی بھی استشراق کے نام سے موسوم نہیں کرتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استشراق کی اس تحریک کے مقاصد سراسر منفی ہیں ، مستشرقین اپنے ان مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کی تعلیمات کا صرف تحقیقی مطالعہ نہیں ، بلکہ ان تعلیمات کو شکوک و شبہات سے دھندلانا، مسلمانوں کو گم راہ کرنا اور غیر مسلم لوگوں کے سامنے اسلام کا منفی تصور پیش کر کے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکنا ہے۔ لفظ استشراق کی کوئی قدیم تاریخ نہیں ہے۔ یہ ایک نیا لفظ ہے جو پرانی لغات میں موجو د نہیں ہے۔اے جے آربری (Arthur John Arberry۱۹۰۵۔۱۹۷۹)کے مطابق لفظ استشراق ’’Orientalist‘‘ پہلی بار۱۶۳۸ء میں یونانی کلیسا کے ایک پادری کے لیے استعمال ہوا۔
میکسم روڈنسن’’Maxime Rodinson‘‘(۱۹۱۵۔۲۰۰۴)کے مطابق استشراق کا لفظ انگریزی زبان میں ۱۸۳۸ء میں داخل ہوا اور فرانس کی کلاسیکی لغت میں اس کا اندراج ۱۷۹۹ء میں ہوا۔
|
|