|
اہل بیت کون ہیں
اس گفتگو کے آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سوال پیش کئے جائیں جو کہ گذشتہ بحث سے پید اہوتے ہیں۔
اور وہ یہ کہ اہل بیت کون ہیںکہ جن کو سیاسی امامت اور فقہ و ثقافت کی مرجعیت رسولۖ سے قیامت تک کیلئے میراث ملی ہے؟
جواب: مسئلہ اس سے کہیں واضح ہے کہ انسان اس کے بارے میں غور و فکر کرے، بیشک رسولۖ کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ حلال و حرام، اصول و فروع میں امت کی مرجعیت قیامت تک کے لئے غیر معین جماعت کے حوالے کر دیں ا س جماعت کو معین ، واضح اور مشہور ہوناچاہئے اور ہمیں پوری تاریخ میں رسولۖ کے اہل بیت میں سے ائمہ اثنا عشر، کہ جن کو شیعہ امام مانتے ہیں ،کے علاوہ کوئی ایسی مشہور جماعت نہیں ملتی کہ جس نے تاریخ میں اپنی امامت اور مسلمانوںکی مرجعیت کا اعلان کیا ہو اور تاریخ اسلام میں ہی رسولۖ کے اہل بیت مشہور ہیں، انہیں کا علم و جہاداورفہم و میراث ہم تک سینکڑوں جلدوں میں پہنچی ہے ، جس کو اس مکتب کے بلند مرتبہ علما ء ایک دوسرے سے نسلاً بعد نسل میراث میں لیتے رہے ہیں، یہی سیاسی و فقہی امامت میں خود کو رسولۖ کا وارث سمجھتے ہیں اور رسولۖ کے بعد یہی معصوم ہیں۔
رسول کے بارہ امام ہوں گے
رسولۖ سے ایسے صحیح طریقوں سے کہ جن میں شک نہیں کیا جا سکتا یہ بیان ہوا ہے کہ رسولۖکے بعد امامت راشدہ بارہ امیروںمیں منحصر ہوگی اور وہ سب قریش سے ہوںگے اور یہ روایتیں محمد بن اسماعیل بخاری کے نزدیک صحیح ہیں۔(١)اورمسلم بن حجاج نیشاپوری نے بھی اپنی صحیح میں (٢) ترمذی نے اپنی صحیح میں۔ (٣) حاکم نے مستدرک الصحیحین(٤) اور احمد بن حنبل نے مسند میں متعدد مقامات پر اور بہت سے حدیث نبوی کے حفاظ نے بھی ان حدیثوں کو نقل کیا ہے اور تاریخ اسلام میں ہمیں ایسے بارہ عادل امام و امیر نہیں ملتے ہیںکہ جو ایک دوسرے کے بعد ہوئے ہیں:
یہ امر ختم نہیں ہوگا یہاں تک کہ ان کی تعداد مکمل ہو جائیگی اور دین ایسے ہی قائم رہے گا ، یہاں تک کہ ان میں سے بارہ ہوںگے، ان کی تعداد اتنی ہی ہوگی کہ جتنی بنی اسرائیل کے نقباء کی تعداد تھی اس کے علاوہ اور بھی صحیح روایتیں وارد ہوئی ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ تاریخ اسلام میں اس واضح صفت کے حامل ہمیں بارہ امام و امیر، ائمہ اہل بیت کے ان مشہور بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے ہیں کہ جن کی امامت سے شیعیان اہل بیت وابستہ ہیں،اگر ہم ان کی امامت کا انکار کر دیں تو رسولۖ کی حدیث صحیح نہیں رہے گی اور اس کا کوئی مصداق نہیں ملے گا اور ایسی بات قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والا نہیں کہے گا۔
آیت تطہیر
ہماری اس بات کا دوسرا ثبوت سورۂ احزاب کی آیت تطہیر ہے:(اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ُ ُلِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَھلَ البَیتِ وَ یُطَہِّرَکُم تَطہِیرًا)(٥)
..............
(١)صحیح بخاری: کتاب الاحکام
(٢)صحیح مسلم: کتاب الامارة : ج١٢ ص ٢٠١ ٢٠٤ شرح نووی طبع ١٩٧٢
(٣)صحیح ترمذی: ج٧ ص ٣٥ کتاب الفتن
(٤)مستدرک الصحیحین: ج٤ ص ٥٠١
(٥)احزاب: ٣٣
اہل بیت خدا کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم کوہر رجس سے پاک رکھے اور ایسے پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔
اس میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ رسولۖ نے علی ، فاطمہۖ، حسن و حسین کو کساء کے نیچے جمع کیا ان کے علاوہ کسی غیر کو آنے کی اجازت نہیں دی، تو یہ آیت:(اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ) نازل ہوئی۔(١)
رسولۖ کی حدیثیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیںکہ رسولۖنے انہیںکو اہل بیت قرار دیا ہے ،چنانچہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت آپۖ نے حضرت علی، فاطمہ ، حسن و حسین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا:''اللّھم ھولاء أہل بیتی، فاذھب عنھم الرّجس و طہّر ھم تطہیرً'' اے اللہ یہی میرے اہل بیت ہیں ، ان سے رجس کو کثافت کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جیسے پاک رکھنے کا حق ہے ۔ ام سلمہ نے کہا: اے اللہ! کے رسولۖ میں بھی ان میں سے ہوں۔تو آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر رہو، تم خیر پر ہو۔(٢)
جو روایتیں اہل بیت کو پنج تن پاک میں محدود و منحصر کرتی ہیں ان کے غیر کو نہیں ، ان روایات میں بہت سی صحیح بھی ہیں، ان میں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہے، ان کو ترمذی ، طہاوی، ابن اثیر جزری نے اور حاکم نے مستدرک میں اور سیوطی نے در منثور میں بہت سے طریقوں سے نقل کیا ہے، یہ صحیح روایات ان اہل بیت کی تعیین و تشخیص میںہیںجن کے بارے میں مسلمانوںکے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جن کو رسولۖ نے کساء کے نیچے جمع کیا تھا۔
اس کے بعد رسولۖ جب صبح کی نماز کیلئے نکلتے تو فاطمہ زہرا کے دروازہ پر جاتے اور فرماتے تھے:
..............
(١) صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل الحسن و الحسین، مستدرک الصحیحین: ٣ سنن بیہقی:١٤٩٢ وغیرہ
(٢)صحیح ترمذی: ٢ ٢٠٩
''الصلوٰة یا أھل البیت،(اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ُلِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَھلَ البَیتِ وَ یُطَہِّرَکُم تَطہِیرًا)''۔(١)
سیوطی نے اپنی کتاب در منثور میں اس آیت: ( وَأمُر أھلَکَ بِالصَّلوٰةِ ) کی تفسیر کے سلسلہ میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوںنے کہا: جب یہ آیت : (اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ) نازل ہوئی تو حضرت رسالت مآب آٹھ ماہ تک نماز صبح سے پہلے حضرت علی کے دروازہ پر آتے اور کہتے تھے:''الصلاة رحمکم اللّہ''۔
نماز، خد اتم پر رحم کرے:(نَّمَا یُرِیدُ اﷲ ُلِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَھلَ البَیتِ وَ یُطَہِّرَکُم تَطہِیرًا)(٢)اور آپۖ کے اس عمل کو اصحاب دیکھ رہے تھے۔
رسولۖ یہ چاہتے تھے کہ وہ اہل بیت معین ہو جائیں کہ جن سے خد انے رجس کو دور رکھا اور ایسے پاک رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ہے ، چنانچہ جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اہل بیت کون ہیں؟اور ان سے خد انے رجس کو دور رکھا ہے اور اس طرح پاک رکھا ہے جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے ،تو ہمیں یہ معلوم ہوجائیگاکہ اہل بیت کون ہیں اور امامت اور فقہی مرجعیت آخری زمانہ تک انہیں میں محدود رہی، یہی پنجتن ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے جیسا کہ قرآن گواہ ہے وہ حق اور سچ کہتے ہیں جیسا کہ قرآن گواہ ہے اور امامت اور فقہی و ثقافتی مرجعیت ان سے ہی متصل رہے گی، جیسے زنجیر کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی رہتی ہیں ، امام سابق کی وصیت سے، یہاں تک کہ اس کا سلسلہ پہلے امام حضرت علی تک پہنچ جائیگا ۔ اس سے بارہ ائمہ معین ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں رسولۖ کی حدیث میں اشارہ ہو اہے۔
..............
(١)صحیح ترمذی: ٢ ٢٠٩
(٢) تفسیر درمنثور میں سورہ طٰہٰ ، آیت: ١٣٢ کے ذیل میں.
| |