مکتب اہل بیت سے
منسوب ہونے کے طریقے
اب ہم اس بحث کے آخری نقطہ کو بیان کرتے ہیں اور یہ ولاء و برائت اور اس کے حصول کے طریقوں کی بلندی ہے۔
بیشک ولاء و میراث -تولیٰ و تبرّیٰ-انسان کے لئے معراج ہیں، تولیٰ و تبریٰ کے ذریعہ انسان خدا تک پہنچ جاتا ہے اور اس کی رضا حاصل کر لیتا ہے۔
تولا و تبریٰ کے بغیر انسان خدا کا تقرّب اور اس کی رضا حاصل نہیں کر سکتا ۔
ذیل میں ہم تولیٰ و تبریٰ کی بلندی کے بارے میں ائمہ اہل بیت سے وارد ہونے والی بعض حدیثوں کا ذکر کر رہے ہیں۔
دنیا و آخرت میں محمد ۖو آل محمدۖ کے ہمراہ
عبد اللہ بن ولید سے روایت ہے کہ انہوںنے کہا: مروان کے زمانہ میں ہم امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے دریافت کیا: آپ لوگ کون ہیں؟ ہم نے کہا: اہل کوفہ ہیں، آپ نے فرمایا: اہل کوفہ ہمیں سب سے زیادہ دوست رکھتے ہیں خصوصاً یہ گروہ، بیشک خد انے تمہاری اس چیز کی طرف راہنمائی کی ہے جس سے لوگ جاہل ہیں ، تم نے ہم سے دوستی کی جبکہ دوسروں نے ہم سے عداوت کی، تم نے ہمارا اتباع کیا اور لوگوں نے ہماری مخالفت کی ، تم نے ہماری تصدیق کی، لوگوں نے ہمیں جھٹلایا، خدا تمہیں اس طرح زندہ رکھے جس طرح ہمیں زندہ رکھتا ہے اور اس طرح موت دے جس طرح ہمیںموت دیتا ہے ،میں شاہد ہوں میرے باپ کہتے تھے۔ تم میں سے کسی شخص اور اس چیز کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ آنکھ ٹھنڈی ہوتی ہے یاجس پر غبطہ کیا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کا نفس یہاں تک پہنچ جاتا ہے ۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ فرمایا:
خداوند عالم نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا:
''وَلَقَد أرسَلنَا رُسُلاً مِن قَبلِکَ وَ جَعَلنَا لَھُم أزوَاجاً وَ ذُرِّیَّةً''
و نحن ذریة رسول اللّہ۔(١)
''اور ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں ان کے لئے بھی ہم نے بیویاں اور ذریت قرار دی تھی'' اور ہم رسولۖ کی ذریت ہیں۔
زیارت معروفۂ عاشورہ میں ہے:
''واحینا محیا محمد و آل محمد و امتنا ممات محمد و آل محمد''
ہمیں محمد و آل محمد کی حیات عطا فرما اور ہمیں محمد و آل محمدکی موت دے۔
خدا ان پر کرم کرتا ہے
رسول اللہ سے روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا:
..............
(١) بحار الانوار: ج٦٥ ص ٢٠ ۔ ٢١ ح ٣٤
''یقول اللّٰہ عزّ و جلّ لشیعتی و شیعة أہل بیت یوم القیامة ھلمّ یا عبادی لیّ لأنشر علیکم کرامتی، فقد أوذیتم فی الدنیا''۔
روز قیامت خدا وند عالم میرے اور میرے اہل بیت کے شیعوں سے فرمائیگا، میرے بندو! میرے پاس جلدی آئو تاکہ میں تمہیں اپنے کرم سے سر فراز کروں، یقینا تمہیں دنیا میں اذیت دی گئی ہے۔(١)
وہ ہم سے اور ہم رسولۖ سے تمسک رکھتے ہیں
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:میرے والدفرمایا کرتے تھے:
''ان شیعتنا آخذون بحجزتنا، و نحن آخذون بحجزة نبینا، و نبینا آخذ بحجزة اللہ''۔(٢)
ہمارے شیعوں نے ہمارا دامن ، ہم نے رسولۖکا دامن اور رسولۖ نے خدا کا دامن تھام رکھا ہے، مجلسی لکھتے ہیں:
''اخذت بحجز الرّحمان '' کا مطلب یہ ہے کہ میں خدا سے وابستہ ہوں۔ (٣)
امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
''اذا کان یوم القیامة أخذ رسول اللّٰہ بحجزة ربہ (اعتصم بہ) و أخذ علـ بحجزة رسول اللّٰہ ۖ،، و أخذنا بحجزة عل، و أخذ شیعتنا بحجزتنا، فأین
ترون یوردنا رسول اللہ''
..............
(١)بحار الانوار: ج٦٥ ص ١٩ ح٢ عیون اخبار الرضا سے مختلف ہے، ج ٢ ص ٦٠
(٢)بحار الانوار: ج٦٥ ص ٣٠ ح ٦٠ محاسن ١٨٣
(٣)بحار الانوار: ج٦٥ ص ٣٠
جب قیامت کا دن ہوگا تو رسولۖ ،خدا سے لولگا ئیں گے اور علی رسول کے دامن سے وابستہ ہوںگے اور ہم علی کا دامن تھام لیں گے اور ہمارے شیعہ ہمارے دامن سے وابستہ ہوں گے پس دیکھنا کہ رسول ۖ ہمیں کہاں پہنچائیں گے۔(١)
علی بن الحسین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ورع و اجتہاد کا زیادہ حقدار وہ ہے جو خدا کیلئے محبت کرتا ہے اور خدا کیلئے راضی ہوتا ہے اوصیاء اور ان کا اتباع کرنے والا ہے کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ اگر آسمان سے کوئی خوفناک چیز ظاہر ہو تو ہر گروہ اپنی پناہ کی طرف دوڑتا ہے اور تم ہماری طرف پناہ لیتے ہو اور ہم اپنے نبیۖ کی پناہ لیتے ہیں، ہم اپنے نبی کے دامن کو تھام لیتے ہیں اور ہمارے شیعہ ہمارے دامن سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔
..............
(١)بحار الانوار: ج٦٨ ص ٣٠ ح ٦١ محاسن ١٨٣
جو چیز خدا انہیں آخرت میں عطا کرے گا
جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ایک روز میں رسولۖ کی خدمت میں حاضر تھا آپۖ علی بن ابی طالب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے ابو الحسن ! کیا میں تمہیں بشارت دوں؟ عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ ضرور دیجئے ،فرمایا: یہ جبریل ہیں جو خدا کی طرف سے یہ خبر لائے ہیں کہ اس نے تمہارے شیعوںاورمحبوں کو نو خصلتیں عطا کی ہیں:
١۔ موت کے وقت، نرمی و شفقت
٢۔ وحشت و تنہائی میں ، انس
٣۔ تاریکی میں نور
٤۔ خوف و خطر کے وقت امن
٥۔ اعمال تولتے وقت وافر حصہ
٦۔ صراط سے گزرنا
٧۔ تمام لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہونا
٨و٩۔ ان کے نور کا ان کے سامنے اور دائیں طرف چمکنا
علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
ہماری ولایت کے قائل لوگ روزِ قیامت اپنی قبروں سے اس حال میں اٹھیں گے کہ ان کے چہرے درخشاںہوںگے، ان کی شرم گاہیں چھپی ہوئی ہوں گی، ان کے دل مطمئن ہوںگے، سختیاں ان سے برطرف کر دی جائیں گی، ان کے وارد ہونے کو آسان کر دیا جائیگا، لوگ خوف زدہ ہوںگے لیکن انہیںکوئی خوف نہیں ہوگا ،لوگ رنجیدہ ہوںگے لیکن انہیں کوئی غم نہیںہوگا۔(١)
ابن عباس سے روایت ہیکہ انہوں نے کہا: میں نے رسولۖ سے خدا کے اس قول (وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أولٰئِکَ الْمُقَرَّبُونَ فِ جَنَّاتِ النَّعِیمٍ) کے معنی دریافت کئے تو آپ نے فرمایا: جبریل نے کہا ہے کہ وہ علی اور ان کے شیعہ ہیں وہی جنت کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور وہ خدا سے اس کرامت کے ذریعہ قریب ہوںگے جو خدا نے انہیں عطا کیا ہے ۔(٢)
..............
(١)بحار الانوار: ج٦٨ ص ١٥ ح ١٧(٢)بحار الانوار: ج٦٨ ص ٢٠ ح ٣٣
|