اہل بیت کے شیعہ
 

مدد اور انتقام

ولاء بہت سخت مسئلہ ہے ،صلح میں، ناچاقی میں، کشائش و تنگی میں ساتھ رہنا بہت دشوار ہے اگر صرف کشائش میںہوتا تو ولاء کا مسئلہ آسان ہو جاتا اور پھر اس سخت ولاء کا اقتضا مدد کرنا اور انتقام لینا بھی ہے اور اگر مدد نہ کی جائے تو ولا ء ہی ختم ہو جائے گی خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(وَالَّذِینَ آوَوْا وَ نَصَرُوا أولٰئِکَ بَعضُھُم أولِیَائُ بَعضٍ) (٢)
اور جن لوگوںنے پناہ دی اور نصرت کی وہ ایک دوسرے کے سرپرست و ولی ہیں۔
اسی طرح ولاء ایک حق ہے جو خون خواہی اور انتقام سے جدا نہیں ہو سکتا۔ بیشک جو ولاء اپنے حامل کو جنگ و قتل ،قطع تعلقی ،روابط اور نفع وضرر پر نہ ابھارے در حقیقت وہ ولاء نہیں ہے بلکہ وہ ولاء کی صورت ہے ۔
زیارت عاشورہ میں ہم یہ تمنا کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں پاک خونوںکا انتقام لینے والوں میں قرار دے جو کہ ظلم و ستم سے کربلا میں بہائے گئے۔
..............
(٢) انفال: ٧٢۔
''فأسأل اللّٰہ الذی اکرم مقامک و اکرمن بک ان یرزقن طلب ثارک مع امام منصور من اہل بیت محمدۖ''۔
پس میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ جس نے آپ کے مرتبہ کوبلند کیا اور آپ کے ذریعہ مجھے عزت بخشی کہ وہ مجھے محمدۖ کے اہل بیت میں امام منصور کے ساتھ آپ کے خون کا بدلہ لینے والا قرار دے۔
زیارت عاشورہ ہی میں ہے :
''واسألہ أن یبلِّغنی المقام المحمود لکم عند اللہ، و أن یرزقن طلب ثارکم مع مام ھدی ظاہر ناطق بالحقّ منکم''
میں اس سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس مقام محمود تک پہنچا دے جو خدا کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ ہے اور مجھے آپ میں سے ہادی ، ظاہر اور حق کے ساتھ بولنے والے امام کے ساتھ انتقام لینے والا قرار دے۔
اور زیارت جامعہ میں مکمل طور پر مدد کرنے کی طاقت کا اعلان کرتے ہیں، و نصرتی لکم معدَّة، اور میری مدد آپ کے لئے تیار و حاضر ہے ۔

محبت و مودت
یہ ولاء اہل بیت کی بنیاد ہے۔
اس سلسلہ میں قرآن مجید میں آیت نازل ہوئی ہے جو ہر زمانہ میںلوگوں کے سامنے پڑھی جاتی ہے ۔
(قُل لاَ أسئَلُکُم عَلَیہِ أجرًا لاَّ الْمُوَدَّةَ فِی الْقُربیٰ) (١)
رسولۖ ان سے کہدیجئے کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔
قرابتداروں سے مراد، بلا اختلاف رسولۖ کے اہل بیت ہی ہیں۔
اس واجب محبت کی طرف زیارت جامعہ میں وارد نص بھی اشارہ کر رہی ہے :
''ولکم المودة الواجبة و الدرجات الرفیعة''
آپ کے لئے واجب محبت اور آپ کے لئے بلند درجات ہیں۔
طاعت اور محبت ہی ولاء کی روح یا اور اس کا جوہر ہیں، امام جعفر صادق سے دریافت کیا گیا :کیا محبت دین کا جزء ہے ؟امام نے فرمایا:کیا دین محبت کے علاوہ کچھ اور ہے ، اگر انسان پتھر سے بھی محبت کرے گا تو خدا اس کو اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیںکہ محبت کا تعلق مقولۂ توحید سے ہے۔
پس جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ رسولۖ سے بھی محبت کرتا ہے اور ان کے اہل بیت سے بھی محبت کرتا ہے اور جو رسولۖ اور آپ کے اہل بیت سے محبت کرتا ہے وہ خدا سے بھی محبت کرتا ہے ۔
پہلے جملہ کے بارے میں رسولۖ سے منقول ہے:
..............
(١) سورہ شوریٰ آیت ٢٣ دلائل الصدق ج٢ ص ١٢٠ تا ١٢٦ طبع قاہرہ میں ہے کہ یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے، نیز الغدیر ج ٢ ص ٣٠٦ تا ٣١٠ اور ج ٣ ص Klتہران.
''أحبونی بحب اللّٰہ و احبوا أہل بیتی بحبی''
خدا کی محبت کے سبب مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب میرے اہل بیت سے محبت کرو۔
دوسرے جملہ کے بارے میں زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے :
''من أحبکم فقد أحب اللّٰہ و من أبغضکم فقد أبغض اللّٰہ ''(١)
جس نے آپ سے محبت کی در حقیقت اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے عداوت رکھی اس نے خدا سے عداوت کی ۔
اسی طرح جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ مومنوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور جو مومنین سے محبت کرتا ہے وہ لا محالہ خدا سے محبت کرتا ہے ۔
خدا کی محبت اس بات کا باعث ہوتی ہے کہ نفسِ انسان میں محبت کے درجات کو بلند و قوی کردے، ضروری ہے کہ انسان کی حیات میں یہی محبت حاکم رہے تاکہ انسان خداکے علاوہ اور راہ خدا کے علاوہ کسی سے محبت نہ کرے۔
پہلے نکتہ کے بارے میں خدا فرماتا ہے:
(قُل ن کَانَ آبَاؤُکُم وَ أبناؤکُمأحَبَّ لَیکُم مِنَ اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ وَ جِہَادٍ فِ سَبِیلِہِ، فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأتِیَ اللّٰہُ بِأمْرِہِ، وَاللّٰہُ لا یَہدِ الْقَومَ الفَاسِقِینَ)(٢)
اے رسول کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے تمہیں خدا و رسولۖ
..............
(١) یہ فقرہ زیارت جامعہ میں دوبار واردہوا ہے.
(٢)توبہ: ٢٤۔
سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب و عزیزہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ خدا کا حکم آجائے اور خدا بدکاروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
(وَ الَّذِینَ آمَنُوا أشَدُّ حُباً لِلّٰہِ )(١)
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ خدا سے محبت میں شدید ہیں۔
اور دعا میں وارد ہوا ہے :
''اللھم اجعل حبک أحب الأ شیاء ل، و اجعل خشیتک أخوف الأشیاء عند، و اقطع عنحاجات الدنیا بالشوق الی لقائک''
اے اللہ! اپنی محبت کو میرے نزدیک تمام اشیاء کی محبت سے زیادہ کر دے اور اپنی خشیت کو میرے نزدیک ہر چیز سے زیادہ خوفناک قرار دے اور اپنی ملاقات کے شوق کے ذریعہ دنیا کی حاجتوں کو مجھ سے بر طرف کر دے۔
دوسرے نکتہ کے بارے میں تو رسولۖ اور ان کے اہل بیت سے وارد ہونے والی بہت سی حدیثوںمیں نص وارد ہوئی ہے ۔ ان ہی میں سے وہ حدیث بھی ہے جس کو امام محمد باقر نے رسولۖ سے نقل کیاہے :
''ألا و احب فی اللّٰہ و ابغض فی اللّٰہ و أعطیٰ فی اللّٰہ ، و منع ف اللہ، فھو من أصفیاء اللّٰہ المؤمنین عند اللہ، ألا و أن المؤمنین ذا تحابا فی اللّٰہ عز و
..............
(١)بقرہ: ١٦٥
جل، و تصافیا فی اللّٰہ کانا کالجسد ذا اشتکی أحدھما من جسدہ موضعا، وجد الآخر أ لم ذلک الموضع''
دیکھو! جس نے خدا کے لئے محبت کی اور جس نے خدا کے لئے دشمنی کی اور خدا کے لئے دیا اور خدا کے لئے منع کیا تووہ خدا کے برگزیدہ و منتخب بندوںمیں سے ہے جو خدا کے نزدیک مومن ہیں اور دیکھو جب دو مومن خدا کے لئے محبت کرتے ہیں اور خدا کے لئے ایک دوسرے سے خلوص رکھتے ہیں تو وہ دونوں ایک بدن کی مانند ہو جاتے ہیں اگر دونوں میں سے کسی کے بدن میں کہیں تکلیف اور درد ہوتا ہے تودوسرا اپنے بدن میں اسی جگہ درد محسوس کرتا ہے ۔
محبت کی دو قسمیں ہیں، ایک سادہ اور ہلکی پھلکی محبت اوردوسری سوچ و سمجھ کر محبت کرنا یہ خدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے ، پہلی محبت کا تاریخ میں کوئی وقار نہیں اور نہ ہی انسان کی زندگی اور اس کی سر نوشت میں اس کاکوئی اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک قسم کی خواہش ہوتی ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے ،ہاں وہ محبت جو خدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے یہ وہی محبت ہے جس کو مودت اہل بیت کے ذیل میں بیان کر چکے ہیں ان کی محبت دوسری ہی چیز ہے وہ سادہ محبت نہیں ہے ، یہ ایسی محبت نہیں ہے جس کا انسان اپنی زندگی میں تجربہ کرتا ہے یہ وہ محبت ہے جوخدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے، اس محبت کی علا متیں اور خصلتیں مشہور اور نمایاں ہیں۔
اس محبت کی پہلی خصلت یہ ہے کہ یہ تبریٰ سے جدا نہیں ہوتی ہے ہر محبت کے ساتھ کچھ عداوت و بغض بھی ہوتا ہے اور ہر خوشی کے ساتھ ناراضگی و غضب بھی ہوتا ہے اور ہر تولا کے ساتھ تبریٰ ہوتا ہے اور جو محبت عداوت و بغض کے ساتھ جمع ہوتی ہے وہ سادہ اور ہلکی پھلکی محبت ہے ۔
ایک شخص امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں آپ سے بھی محبت کرتا ہوں اور آپ کے مخالف و مد مقابل سے بھی محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اس صورت میںتم کانے ہو ( تمہیں آدھا نظر آتا ہے) یا تم اندھے ہو یا دیکھتے ہو۔ زیارت میں وارد ہوا ہے ''موال لکم ولأولیائکم و مبغض لأعدائکم و معاد لھم'' میں آپ کا دوست ہوں اور آپ کے دوستوں کا دوست ہوں آپ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہوں اور ان کا دشمن ہوں۔
اس محبت کی دوسری خصلت: یہ محبت لوگوںکی محبت کے تحت ہوتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے پہلی محبت خدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے کیونکہ راہ خد امیں محبت کرنے کادائرہ وسیع ہوتا ہے اس میں خود اہل بیت سے بھی محبت ہوتی ہے اور ان کے دوستوں سے بھی محبت ہوتی ہے۔ ''موال لکم ولأولیائکم'' یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان کسی سے خدا کے لئے محبت کرے اور اس سے محبت نہ کرے کہ جس سے محبوب خدا کے لئے محبت کرتا ہے۔
اس محبت کی تیسری خصلت : یہ جنگ و صلح کے موقعہ پر عملی صورت اختیار کر لیتی ہے ، ''سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم''
چوتھی خصلت: محبت خدا کے لئے ہوتی ہے اور عداوت بھی خدا کے لئے ہوتی ہے ،یہ دونوں اجتماعی لگائو کا کامل نقشہ کھینچتے ہیں۔

اثبات و ابطال
اہل بیت سے محبت کرنے میں یہ واجب ہے کہ ہم ان کی ثقافت اور ان کے معارف سے دفاع کریں، جس کا انہوںنے اثبات کیا ہے اس کا ہمیں اثبات کرنا چاہئے اور جس کا انہوں نے ابطال کیا ہے ہمیں ا س کا ابطال کرنا چاہئے کیونکہ تاریخِ اہل بیت میں ثقافتی اور علمی روایتوں پر دشمنوں نے ہر چیز سے زیادہ حملے کئے ہیں چنانچہ فقہائے اہل بیت اور ان کے مکتب کے علماء نے ان کے معارف و ثقافت، ان کی فقر اور ان کی اسلام شناسی سے دفاع کیا ہے ۔
اس دائرہ میں اثبات و ابطال بھی ہے جو کہ جہاد و جنگ اور صلح و قطع تعلقی کے میدان میں ہوتا ہے ، زیارت جامعہ میں آیا ہے :
''سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم ، محقق لما حققتھم، مبطل ما أبطلتم''۔
جس سے آپ کی صلح ہوگی میں اس سے صلح کروںگا اور جس سے آپ کی قطع تعلقی ہوگی میرا اس سے کوئی تعلق نہیںہوگا۔ جو آپ نے ثابت کیا ہے میں اسی کو ثابت کروںگا اور جس کو آپ نے باطل قرار دیا ہے میں اس کو باطل قرار دونگا۔

میراث و انتظار
کوئی زمانہ ایسا نہیں تھا جس میں ولاء نہ رہی ہو اور یہ مستقبل میں بھی رہے گی، تاریخ کے آغاز سے، حضرت آدم اور حضرت نوح سے لے کر،تاریخ کی انتہاء تک ولاء رہے گی یہاں تک کہ آل محمدۖ میں سے حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور فرمائیںگے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور زمین کو ظالموںکے تسلط سے آزاد کرا لیں گے تاکہ خدا کا وہ وعدہ پورا ہو جائے جو اس نے تو ریت و زبور میں کیا ہے۔
(وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِأنَّ الأرضَ یَرِثُھَا عِبَادَِ الصَّالِحُونَ)(١)
..............
(١)انبیاء: ١٠٥
ہم نے توریت کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ہے کہ زمین خدا کی ہے ہم اس کو اپنے نیک بندوں کو عطا کریں گے۔
یہ توریت و زبور میں خدا کا وعدہ ہے اور تاریخ میں ہے کہ اہل بیت نے انبیاء اور صالحین سے میراث پائی ہے ، ان سے نماز و ذکر، زکواة ، حج اور خدا کی طرف بلانے کی میراث پائی ہے ۔
زیارت امام حسین ( زیارت وارث) میں اس علمی و ثقافتی اور جہادی میراث کو امام حسین سے مخصوص کیا گیا ہے جو کہ آپ کو انبیاء سے ملی ہے،یہ زیارت تہذیبی اور علمی مفاہیم کی حامل ہے ۔
''السلام علیک یا وارث آدم صفوة اللّٰہ ، السلام علیک یا وارث نوح نب اللّہ، السلام علیک یا وارث براھیم خلیل اللّہ، السلام علیک یا وارث موسیٰ کلیم اللّٰہ، السلام علیک یا وارث عیسیٰ روح اللّٰہ ''
اے آدم کے وارث آپ پر سلام، اے نبیِ خد انوح کے وارث آپ پر سلام، اے خلیلِ خدا ابراہیم کے وارث آپ پر سلام ، اے کلیمِ خدا موسیٰ کے وارث آپ پر سلام اے روحِ خدا عیسیٰ کے وارث آپ پر سلام
یہ میراث طول تاریخ میں آدم و نوح سے لے کر رسولۖ خدا اور علی مرتضیٰ تک جاری رہی۔
امام حسین نے کربلا میں روز عاشورہ اس علمی ،ثقافتی، تہذیبی اور جہادی میراث کو مجسم کر دیا ،ولایت کی تاریخ بہت عمیق ہے ، تاریخ میں اس کی جڑیں گہری ہیں، اہل بیت نے انبیاء سے نیک و طویل راستہ میراث میں پایا ہے اور ہم نے ان سے ان کی میراث پائی ہے ۔
ہم نے ان سے نماز، روزہ، حج، زکوٰة ، نیکیوںکی ہدایت کرنا، برائیوں سے روکنا، جہاد، خدا کی طرف بلانا، اور ان سے ذکر و اخلاص اور توحید کے تمام اقدارکی میراث پائی ہے ،چنانچہ ہم خدا کے اس قول(فَخَلَّفَ مِن بَعدِھِم خَلف أضَاعُوا ْالصَّلاةَ) پس ان کے بعد وہ لوگ جانشین ہوئے جنہوںنے نماز کو ضائع کر دیا، ہم نماز کی حفاظت کرتے ہیں اور اسے قائم کرتے ہیں، لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں، بالکل اس طرح جیسا کہ پہلے ہمارے بزرگوں نے حفاظت کی ہے ، انشاء اللہ ہم ان لوگوں میں قرار پائیں جو خدا کے اس قول پر عمل کرتے ہیں: (وَأمُر أھلَکَ بِالصَّلاةِ وَ اصْطَبِر عَلَیْھَا) اپنے خاندان والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی ادا کرتے رہو۔ چنانچہ ہم اپنے معاشرہ اور اپنے خاندان میں خدا کی اس عظیم میراث کی حفاظت کرتے ہیں کہ جس کو ہم نے اپنے بزرگوں سے نسلا ً بعد نسل میراث میںپایا ہے۔
یہ ہے طول تاریخ میں ولاء کا سلسلہ اور زمانۂ آئندہ میں ولایت کا سلسلہ ہے، جس کے لئے ہم آل محمدۖ میں سے امام مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں اور ان کے ظہور کے ساتھ کشائش و کامیابی کے منتظر ہیں اور اس عالمی انقلاب کے منتظر ہیں جس کی خدا نے ہمیں اپنی کتاب میں اور اس سے پہلے توریت و زبور میں خبر دی ہے ۔
(وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ أنَّ الأرضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ)
ہم نے توریت کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کی میراث صالح بندے پائیں گے۔
انتظار کے معنی منفی و سلبی نہیں ہیں جیسا کہ لوگ چاند و سورج گہن لگنے کا انتظار کرتے ہیں بلکہ انتظار کے معنی مثبت ہیں جیسا کہ انتظار سے متعلق حدیثوں سے سمجھ میں آتا ہے ، اور وہ سیاسی، ثقافتی اور عملی تیاری تاکہ ظہور مہدی اور روئے زمین پر آنے والے عظیم انقلاب کے لئے راہ ہموار کریں۔
انتظار کے معنی اس مثبت مفہوم کے لحاظ سے ، نیک باتوں کا حکم دینا، بری باتوں سے روکنا، خدا کی طرف بلانا، ظالموں سے جہاد کرنا، کلمة اللہ کو بلند کرنا اور روئے زمین پر خدائی تہذیب و ثقافت کو نشر کرنا، نماز قائم کرنا اور بہت سی چیز یں ہیں جو کائنات میں آنے والے انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
یہ ہے ولاء کا مستقبل اسی کی طرف زیارت جامعہ میں اشارہ کیا گیا ہے ، منتظر ''لأمرکم مرتقب لدولتکمحتی یحیی اللّٰہ تعالیٰ دینہ بکم، و یردّکم فی أیامہ، و یظھرکم لعدلہ، و یمکنکم فی أرضہ''۔
آپ کے امر کا منتظر ہوں، آپ کی حکومت کی طرف آنکھ لگائے ہوئے ہوںیہاں تک کہ خدا آپ کے ذریعہ اپنے دین کو زندہ کر دے اور آپ کو اپنے زمانہ میں واپس لائے اور اپنے عدل کے لئے آپ کو غالب کر دے اور اپنی زمین پر آپ کو قدرت عطا کر دے۔
آخری لفظ سورہ قصص کی ابتدائی آیتوں کی طرف اشارہ ہے:
(وَ نُرِیدُ أن نَمُنَّ عَلیٰ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الأرضِ وَ نَجعَلَھُم أئِمَّةً، وَ نَجعَلَھُمُ الوَارِثِینَ، وَ نُمَکِّنَ لَھُم فِی الأرضِ)
ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین پر کمزور کر دیا گیا ہے اور انہیں امام بنا ئیں اور انہیں وارث قرار دیں اور زمین پر انہیں قدرت عطا کر دیں۔
اور یہ انتظار، عمل، جد و جہد، صبر و مقاومت، تعمیر، دین ِ خدا کے لئے زمین ہموار کرنے کی کوشش، روئے زمین پر حکومت خدا کے قائم کرنے کے لئے لوگوں کو حاضر کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے نیز:
لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیں، نیک باتوں کا حکم دیں،بری باتوں سے روکیں ، باطل سے جنگ کریں اور کفر کے سر غنائوں سے جہاد کریں۔
اب ہم آپ کے سامنے دعائے ندبہ کے کچھ جملے پیش کرتے ہیں،جس کو پڑھ کر مومنین اپنے امام کے فراق اور ان کی کشائش کے انتظار میں آہ و زاری کرتے ہیں۔
''أین بقیة اللّٰہ التی لا تخلو من العترة الھادیة؟
کہاں ہے وہ بقیة اللہ جس سے ہدایت کرنے والی عترت رسولۖ سے دنیاخالی نہیں ہو سکتی ۔
أین المعدّ لقطع دابر الظلمة؟
کہاں ہے وہ جس کو ظلم کی جڑکاٹنے کے لئے مہیا کیا گیا ہے ۔
أین المنتظر لاقامة الامت و العوج؟ این المرتجیٰ لازالة الجور و العدوان؟
کہاں ہے وہ جس کا انتظار کجی نکالنے اور انحراف کو درست کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے ۔ کہاں ہے وہ جس سے ظلم و جور کو دفع کرنے کی امیدیں کی جارہی ہیں۔
أین المدخر لتجدید الفرائض و السنن؟
کہاں ہے وہ جس کو فرائض و سنن کی تجدید کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے۔
أین المتخذ(١) لعادة الملّة و الشریعة؟
کہاں ہے وہ جس کو مذہب و شریعت کو لوٹانے کے لئے منتخب کیا گیا ہے ۔
..............
(١) اکثر نسخوں میں (أین المتخیّر) آیا ہے.
أین المؤمّل لأحیاء الکتاب و حدودہ؟
کہاں ہے وہ کہ جس سے کتاب خدا اور اس کے حدود کو زندہ کر نے کی امید ہے۔
أین محی معالم الدین و أہلہ؟
کہاں ہے دین اور دینداروں کو زندگی دینے والا۔
أین قاصم شوکة المعتدین؟
کہاں ہے ستمگاروں کی کمر توڑنے والا۔
أین ھادم أبنیة الشرک و النفاق؟
کہاں ہے شرک و نفاق کی بنیادیں اکھاڑنے والا۔
أین مبید أہل الفسوق و العصیان و الطغیان؟
کہاں ہے فاسق و عاصی اور سر کشوںکو ہلاک کرنے والا۔
أین قاطع حبائل الکذب و الفترائ؟
کہاں ہے جھوٹ و افتراء کی رسیوں کو کاٹنے والا ۔
أین مبید العتاة و المردة، و مستأصل أھل الفساد والتّضلیل و اللحاد؟
کہاں ہے اختلاف کی شاخیں تراشنے والا، کہاں ہے انحراف و خواہشات کے آثار کو مٹانے والا، ، کہاں ہے سر کشوں اور باغیوں کو ہلاک کرنے والا، کہاں ہے عناد و الحاد و گمراہی کے سر غنائوں کو جڑ سے اکھاڑنے والا۔
أین معزّ الأولیاء و مذلّ الأعدائ؟
کہاں ہے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوںکو ذلیل کرنے والا۔
أین جامع الکلمة علیٰ التقویٰ؟
کہاں ہے سب کو تقوے پر جمع کرنے والا۔
أین باب اللّٰہ الذی منہ یؤتیٰ؟
کہاں ہے وہ باب خدا کہ جس سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہوا جاتا ہے۔
أین صاحب یوم الفتح و ناشر رایة الھدیٰ؟
کہاں ہے چہرۂ خدا کہ جس کی طرف دوست رخ کر تے ہیںِ،کہاں ہے وہ سبب جو زمین و آسمان کا اتصال قائم کرتا ہے ،کہاں ہے وہ جوروز فتح کا مالک اور پرچمِ ہدایت کا لہرانے والا.
أین مؤلف شمل الصلاح و الرضا؟
کہاں ہے وہ جو نیکی و رضا کے منتشر اجزا کو جمع کرنے والا ہے۔
أین الطالب بذحول الأنبیاء و أبناء الأنبیائ؟
کہاں ہے انبیاء اور اولاد انبیاء کے خون کا بدلہ لینے والا۔
أین الطالب بدم المقتول بکربلا ؟
کہاں ہے شہید کربلا کے خون کا مطالبہ کرنے والا۔
أین المنصور علیٰ من اعتدی علیہ و افتریٰ؟
کہاں ہے وہ کہ جس کی ہر ظالم اور افترا پر داز کے مقابلہ میں مدد کی جائے گی۔
أین المضطر الذی یجاب اذا دعیٰ؟
کہاں ہے وہ مضطر کہ جس کی دعا مستجاب ہے خواہ جب بھی کرے۔
أین صدر الخلائق ذو البرّ و التقویٰ؟
کہاں ہے ساری مخلوقات کا سر براہ، صاحب صلاح و تقویٰ۔
أین ابن النبیّ المصطفیٰ و ابن علّ المرتضیٰ و ابن خدیجة الغراء و ابن فاطمة الکبریٰ؟
کہاں ہے فرزندرسول مصطفی ، پسر علی مرتضیٰ، نور نظر خدیجہ اور لخت جگرفاطمہ۔ (١)
انتظار،آہ و زاری ،نالہ و شیون اورامر بالمعروف، نہی عن المنکر، اور امام مہدی کے ظہور و قیام اور آپ کی کشائش کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے ظالموں سے جہاد کی نہایت کوشش کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔
یہ بین اور آہ و زاری مومنین کے دلوںکو کام و کوشش، قیام و انقلاب، ثابت قدمی و مقاومت ،محاذ لینے، جہاد کرنے، اسلام کی طرف بلانے، بنانے بگاڑنے اور امام زمانہ کے ظہور اور آپ کی آفاقی حکومت کے قیام و تشکیل کے لئے زمین ہموار کرتی ہے کہ جس کا خدا نے اپنی کتاب میں وعدہ کیا ہے :
(وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ)
اس میں شک نہیں ہے کہ امام مہدی کا ظہور اس نسل کے گزر جانے کے بعد ہوگا جو آپ کے ظہور و قیام کے لئے زمین ہموار کرے گی کیونکہ اس سلسلہ میں اسلامی نصوص تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں، یہی وہ نسل ہے کہ امام مہدی کے ظہور و قیام کے لئے زمین ہموار کرے گی، اس صورت میں انتظار کے یہ معنی ہوں گے کہ امر بالمعروف، کوشش و عمل میں جلدی اور تیزی کے ساتھ زمین ہموار کی جائے۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں، ولاء میراث اور انتظار ہی ہے ، میراث ہمیں انبیاء و صالحین کے راستہ پر چلنے کی ترغیب کرتی ہے اور انتظار ہمیں امیدکی اس درخشاں کرن کو کھولنے پر ابھارتی ہے کہ جس کو خدا ہمارے لئے مستقبل میں کھولے گا۔
لیکن اس امید کے لئے واجب ہے کہ وہ ہمیشہ کوشش وجانفشانی اور تگ ودو سے متصل ہو، یہا ں تک کہ خدا کے اذن سے یہ وعدہ پورا ہو جائے، انتظار و امیدعلامات کانام نہیں ہے ۔
..............
(١) دعائے ندبہ