|
شاید لفظ ہمراہی و معیت مکتب اہل بیت سے منسوب ہونے کے لئے بہترین لفظ ہے، خوشحالی و بدحالی ،تنگی و کشادگی،اور صلح و جنگ میںہم انہیں کے ساتھ ہیں،یہ لفظ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے گویا ترانۂ ولاء کا ایک جملہ ہے ''معکم معکم لا مع عدوکم..'' میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ، آپ کے دشمن کے ساتھ نہیں ہوں زیارت کا یہ ٹکڑا بعض روایاتوں میں وارد ہوا ہے : لا مع غیرکم -اوریہ جملہ لا مع عدوکم '' کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے ۔
ثقافتی اتباع
ولاء میں اتباع کا مفہوم زیادہ وسعت رکھتا ہے ۔
یہ مفہوم جنگ و صلح، محبت و عداوت، فکر و ثقافت اور معرفت و فقہ میں اتباع کو شامل ہے۔
ہم اس سلسلہ میںآزاد ہیں کہ مشرق و مغرب میں جہاں بھی ہمیں علم ملے اسے حاصل کریں لیکن یہ بات جائز ہے اور نہ صحیح ہے کہ ہم سر چشمہ وحی کو چھوڑ کر معرفت و ثقافت دو سرے مرکز سے حاصل کریں اور اہل بیت نے معرفت و ثقافت کو وحی کے چشمے سے حاصل کیا ہے، کیوںنہ ہو وہ نبوت کے اہل بیت اور رسالت کی منزل ہیں، فرشتوںکی آمد و رفت کامرکز ہیں ،وحی کے اترنے کی جگہ ہیں اور علم کے خزینہ دار ہیںجیسا کہ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے ۔
ثقافت اور علم کے درمیان فرق ہے علم براہ راست انسان کے چال چلن، عقیدہ ، طرز فکر، طریقہ ٔ عبادت، محبت، معاشرت، تحرک، اجتماعی و سیاسی سر گرمی و فعالیت وغیرہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے ،لیکن ثقافت انسان کے چال چلن اس کے افکار، طریقۂ معیشت و معاشرت اور عبادت، خدا، کائنات اور انسان سے متعلق نظریہ و تصور پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔
اورعلوم بے پناہ ہیں، جیسے ، دوا سازی و دوا فروشی ،تجارت، اقتصاد یات، محاسبہ، ریاضیات، انجینئری و معماری، الکٹرون ، ایٹم ، جراحت، طبابت ، میکانک، فزکس وغیرہ، لوگ آزاد ہیں کہ جہاں بھی انہیں علم ملے اسے حاصل کر لیں، یہاں تک کہ کافر سے بھی حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ علم ایک قسم کا اسلحہ اور طاقت ہے اور مومنین کو چاہئے کہ وہ کافروں اور اپنے دشمنوں سے اسلحہ و طاقت لے لیں ۔
ثقافت جیسے اخلاق ، عرفان، فلسفہ، فقہ و عقیدہ، دعا، تربیت، تہذیب، طرزمعاشرت اجتماعی معیشت و کردار کے زاوئے اور ادب وغیرہ۔
ثقافت علم کی مانند نہیں ہے اور نہ ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ہم ثقافت (معرفت) وحی کے سرچشمہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ثقافت انسان کے چال چلن اور کردار، اس کے طرز فکر، اس کی معیشت ، خدا اور لوگوں اوراپنے نفس اور دوسری چیزوں سے محبت و لگائو کی کیفیت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔ ثقافت علم کو محدود رکھتی ہے خصوصاً جب علم صالح ثقافت سے متصل نہ ہو۔ ممکن ہے علم تخریب و فساد کا آلۂ کار بن جائے۔ جبکہ ہدایت کرنے اور راہ دکھانے والی ثقافت علم کو لگام لگاتی ہے اور اس سے انسان کی خدمت کے لئے مفید و نفع بخش کام لیتی ہے۔
قرآن مجید، انسان کی زندگی میں ،کتاب( ثقافت و معرفت) ہے ، جس کو خدا نے انسان کی فکر و کردار کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے ۔ یہ کتاب علم نہیں ہے، اگر چہ علماء نے قرآن مجید میں فلک ، نجوم ، نباتات ، حیوانات، طب اور فلسفہ سے متعلق بے پناہ علوم پائے ہیں۔ اس کے باوجود قرآن کتابِ ثقافت و ہدایت ہی رہا ۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم قرآن کے ساتھ کتاب علم کا سا سلوک کریں گو یا وہ علم کی کتاب ہے جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگ اس کے ذریعہ فزکس، کیمیا اور نباتات وغیرہ کا علم حاصل کریں۔ بلکہ وہ ثقافت و معرفت کی کتاب ہے ، جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ ہمیں طرز زندگی ، خدا، کائنات اور انسان کی معرفت کا طریقہ، تصور خدا اور تصور کائنات و انسان کی کیفیت بتائے کہ ہم خدا، لوگوں ،اپنے نفسوں اور دوسری اشیاء کے ساتھ کس طرح پیش آئیں اور اشیاء کی بلندیوں اور افکار و افراد کا کیسے اندازہ لگائیں۔
خداوند عالم فرماتاہے :
(شَہرُ رَمَضَانَ، الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ، ھُدًی لِلنَّاسِ، وَ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الھُدیٰ وَ الفُرقَانِ)(١)
رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے ، جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کے ساتھ حق و باطل کے امتیاز کی نشانیاں بھی ہیں۔
دوسری جگہ فرماتا ہے :
( وَاذْکرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیکُمْ ، وَمَا أنْزِلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکْمَةِ، یَعِظُکُمْ بِہِ) (٢)
اور تمہارے اوپر خدا نے جو نعمتیں نازل کی ہیں ان کو یاد کرو اور تمہارے اوپر کتاب و
..............
(١)البقرة : ١٨٥
(٢)البقرة: ٢٣١
حکمت نازل کی ہے جس کے ذریعہ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے۔
نیز فرماتا ہے :
(ھٰذا بَیَان لِلنَّاسِ وَ ھُدیً وَّ مَوعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ)(١)
یہ لوگوںکیلئے ایک بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت و نصیحت ہے ۔
نیزفرماتا ہے :
(یَا أیُّھَا النَّاسُ قَد جَائَ کُم بُرھَان مِّن رَّبِّکُم، وَ أنزَلنَا لَیکُم نُورًا مُبِینًا) (٢)
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی ہے اورہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے ۔
نیز فرماتا ہے:
(وَ لَقَد جِئْنَاھُم بِکِتَابٍ فَصَّلْنَاہُ عَلیٰ عِلْمٍ، ھُدیً وَّ رَحْمَةً لِقَومٍ یُؤمِنُونَ)(٣)
ہم تمہارے پاس ایسی کتاب لائے جس کی ہم نے علم کے لحاظ سے تفصیل کی ہے اور یہ ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ۔
پھر فرماتا ہے :
(ھٰذا بَصَائِر مِن رَّبِّکُمْ وَ ھُدیً وَّ رَحْمَة لِقَومٍ یُؤمِنُونَ) (٤)
یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل اور ایمان لانے والوںکے لئے
..............
(١) آل عمران : ١٣٨
(٢)سورة النسائ: ١٧٤
(٣)سورہ الاعراف: ٥٢(٤)سورہ الاعراف: ٢٠٣
ہدایت و رحمت ہے۔تو قرآن کتاب ثقافت ہے اور لوگوں کی زندگی میں نور ہے، لوگوں کے لئے دلائل ، ہدایت اور نصیحت ہے اور ہمارے لئے یہ صحیح ہے کہ ہم کسی بھی سر چشمہ سے علم حاصل کر سکتے ہیں اور کسی بھی ذریعہ سے علم حاصل کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی علم حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم معصوم کے سر چشمہ کے علاوہ کسی اور سے ثقافت لیں کہ وہ اس ثقافت کو ہماری طرف وحی کے سر چشمہ سے نقل کرتا ہے کیونکہ ثقافت میں ذرہ برابر بھی خطا مشقت کا باعث ہے جبکہ علم ایسا نہیں ہے ۔
رسولۖ معصوم، سر چشمہ ہیں ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ اسے ہم تک پہنچاتے ہیں، رسولۖ کے بعدوحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا لیکن رسولۖ نے اپنے اہل بیت کے خلفاء کو ، جو کہ قرآن کے ہم پلہ ہیں، ہمارے درمیان اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے ، اہل بیت نے ثقافت و معرفت کو رسولۖ ہی سے لیا ہے اور معرفت و ثقافت، خدا کے حدود و احکام، حلال و حرام، سنن آداب و اخلاق اور اصول و فروع کی میراث آنحضرتۖ ہی سے پائی ہے اور ان چیزوں میں رسولۖ انہیں اپنے بعد نسلاً بعد نسل مسلمانوں کا مرجع اور قرآن کا ہم پلہ قرر دیا ہے یہاں تک کہ خدا وند عالم انہیں زمین اور روئے زمین کی تمام چیزوں کا وارث بنا ئیگا اور اس کا ثبوت حدیث ثقلین ہے جو فریقین کے نزدیک صحیح ہے۔ اس حدیث میں رسولۖ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ میرے بعد تم قیامت تک قرآن اور اہل بیت سے رجوع کرنا اور آنحضرت ۖ نے ان دونوں سے تمسک کرنے کو گمراہی و ضلالت سے امان قرار دیا ہے ۔(١)
..............
(١) مسلم نے اپنی صحیح میں فضائل صحابہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے اور ترمذی نے اپنی صحیح میںج ٢ ص٣٠٨ احمد نے اپنی مسند میں متعدد مقامات پر اس حدیث کو نقل کیا ہے دارمی نے اپنی سنن کی ج٢ ص٤٣١ پر کئی سندوں سے نقل کیا ہے حاکم نے مستدرک میں اسے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے اور شیخین کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے. ج٣ ص ١٠٩ سنن بیہقی ج٢ ص ١٤٨ ج٧ ص٣٠ صواعق محرقہ ص ٨٩ اس نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اصحاب اسد الغابہ ج٢ ص ١٢ وغیرہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے اس حدیث کی سند بیان کر کے ہم اپنی بات کو طول نہیں دینا چاہتے کیونکہ امر اس سے کہیں زیادہ اہم ہے. اس سلسلہ میں صحیح مسلم و ترمذی ہی کافی ہیں.
نص حدیث یہ ہے:
''نی تارک فیکم الثّقلین کتاب اللّٰہ و عترتی أہل بیتی، و أنّھما لن یفترقا، حتی یردا علیّ الحوض، ما ن تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی''۔
میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا، دوسری میری عترت جو کہ میرے اہل بیت ہیںیہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگے جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہوگے اس وقت تک میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔
کتابوں میں اس حدیث کے الفاظ ملتے جلتے ہیں، جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اختلاف ہے اس حدیث کو رسولۖ نے بہت سے موقعوںپر بیان فرمایا ہے انہیں میں سے غدیر خم بھی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں زید بن ارقم سے نقل ہے،رسول خداۖ نے فرمایا:
''مثل أہل بیت مثل سفینة نوح من رکبھا نجا، و من تخلّف عنھا غرق''۔
میرے اہل بیت کی مثال کشتیِ نوح کی سی ہے جو اس پر سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ ڈوب گیا۔(١)
نیز فرمایا:''اھل بیت امان لأمت من الختلاف''۔
..............
(١) اس کو حاکم نے مستدرک ج٢ ص ٣٤٣ پر نقل کیا ہے اور مسلم کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے کنز العمال ج٦ ص ٢١٦ مجمع الزوائد ہیثمی ج ٩ ص ١٨ حلیة الاولیاء ابو نعیم ج٤ ص ٣٠٦ تاریخ بغداد خطیب : ج ١٢ ص ١٩ درمنثور سیوطی سورہ بقرہ کی درج ذیل آیت: و اذ قلنا ادخلوا ہذہ القریة فکلوا منہا حیث شئتم، کشف الحقائق مناودی ص ١٣٢ صواعق محرقہ طبری فضائل الخمسہ فیروزآبادی ج٢ ص ٦٧ تا ٧١
میرے اہل بیت میری امت کے لئے اختلاف سے امان میں رہنے کا باعث ہیں۔(١)
اس کے علاوہ اوربہت سی حدیثیں ہیں جن کی صریح اور واضح دلالت اس بات پر ہے کہ رسولۖ مسلمانوںکو یہ وصیت فرماتے تھے کہ میرے بعد تم میرے اہل بیت سے رجوع کرنا اور اپنے دین کے دستور و معارف انہیں سے لینا، اسی طرح خداکے بیان کردہ حدود، اس کے نبیۖ کی سنت اور حلال و حرام انہیں سے معلوم کرنا۔
فیروز آبادی نے اپنی گرانقدر کتاب''فضائل الخمسة من الصحاح الستة'' میں ان حدیثوں میں سے کچھ حدیثیں بیان کی ہیں، بحث طویل ہو جانے کے خوف سے ہم ان سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
بیشک اہل بیت، مرکز رسالت، ملائکہ کی جائے آمد و رفت، وحی اترنے کی منزل ، علم کے خزینہ دار ،تاریکی میں چراغ، تقوے کی نشانیاں، ہدایت کے امام، انبیاء کے وارث اور دنیا والوں پر خدا کی حجت ہیں۔ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے : وہ معروف خدا کے مرکز، حکمتِ خداکے معادن، کتاب خدا کے حامل ، اس کی حجت، اس کی صراط اور اس کا نور و برہان ہیں جیساکہ زیارت جامعہ میں وار دہواہے ۔
اس صورت میں جو بھی ان سے جدا ہوگا وہ لا محالہ بھٹک جائیگا،خواہ وہ ان سے آگے بڑھ جائے یا ان سے پیچھے رہ جائے کیونکہ خدا کی صراط ایک ہے متعدد نہیں ہے، پھر جو ان کے راستہ پر چلے گا وہ خدا کی طرف ہدایت پائے گا اور جو را ہ میںان سے اختلاف کرے گا وہ اس
(١)مستدرک صحیحین ج ٣ ص ١٤٩ اور انھوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے . صواعق محرقہ: ص ١١١١ مجمع الزوائد ہیثمی: ج ٩ ص ١٧٤ فیض القدیر مناوی ج٦ ص ٢٩٧ کنز العمال متقی: ج٧ ص ٢١٧ فیروز آبادی فضائل الخمسة من الصحاح الستہ ج٢ ص ٧١ تا ٧٣ اس کو بہت سے طریقوں سے نقل کیا ہے.
منزل تک نہیں پہونچ پائیگا جس کو خدا چاہتا ہے، اس بات کا رسولۖ نے کئی موقعوں پر اعلان فرمایا ہے ان میںسے ہم نے ایک حدیث ثقلین میں بیان کیا ہے۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک و وابستہ رہوگے اس وقت تک گمراہ نہ ہوگے۔
یہ کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں بعض لوگ ہدایت پا جاتے ہیں اور بعض لوگ بھٹک جاتے ہیں ،ہدایت یافتہ کو دوہرا ثواب دیتا ہے اورخطا کرنے والے کو ایک ہی دیتا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں۔
نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کرنا صحیح نہیں ہے اور رسولۖ نے اس سلسلہ میں نص فرمائی ہے کہ میرے بعد جس چیز میں تمہارے درمیان اختلاف ہو اس میں تم میرے اہل بیت سے رجوع کرنا۔ زیارت جامعہ میں آیا ہے ۔
''فالراغب عنکم مارق و اللازم لکم لاحق ، و المقصّر ف حقّکم زاھق، و الحقّ معکم و فیکم و منکم والیکم و أنتم معدنہ و فصل الخطاب عندکم، و آیات اللّٰہ لدیکم، و نورہ و برہانہ عندکم''۔
آپ سے رو گردانی کرنے والا دین سے خارج ہے اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ہے اور آپ کے حق میںکو تاہی کرنے والا مٹ جانے والا ہے، حق آپ کے ساتھ، آپ کے درمیان ، آپ سے اور آپ کے لئے ہے ، اورآپ حق کے معدن ہیں، فصل خطاب آپ کے پاس ہے ، ..خدائی آیتیں آپ کے پاس ہیں، اور اس کا نور و برہان آپ کے پاس ہے ۔
پس جو شخص خدا کی رضا، اس کا طریقہ ، اس کی ہدایت اور اس کا راستہ چاہتا ہے وہ لامحالہ انہیں سے لے گا اور انہیں کے راستہ پر چلے گا، کیونکہ اہل بیت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نہیں بلاتے ہیں اور نہ غیر کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اسی زیارت میں وارد ہوا ہے :
''الیٰ اللّٰہ تدعون، و علیہ تدلون و بہ تؤمنون، و لہ تسلمون، و بأمرہ تعملون، والیٰ سبیلہ ترشدون، و بقولہ تحکمون، سعد من والاکم، و ھلک من عاداکم، و خاب من جحدکم، و ضلّ من فارقکم، و فاز من تمسک بکم، و امن من لجأ الیکم، و سلم من صدقکم، و ھدی من اعتصم بکم''۔
آپ خد اکی طرف دعوت دیتے ہیں، اسی کی طرف راہنما ئی کرتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے راستہ کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور اس کے قول کے موافق حکم دیتے ہیں، جس نے آپ سے محبت کی اس کی قسمت سنور گئی اور جس نے آپ سے دشمنی کی وہ ہلاک ہو گیا، جس نے آپ کا انکار کیا وہ گھاٹے میں رہا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ہو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیاوہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ کے پاس پناہ لے لی وہ محفوظ رہا، جس نے آپ کی تصدیق کی و ہ صحیح وسالم رہا اور جس نے آپ کا دامن تھام لیا وہ ہدایت پاگیا۔
| |