|
یہ بھی ولاء کے دو رخ ہیں یعنی صاحبان امر کے ساتھ کس طرح پیش آئیں ،سلام اس لگائو کا سلبی رخ ہے اور نصیحت اس لگائو کا ایجابی رخ ہے ،اس کی تشریح ملاحظہ فرمائیں:
صاحبان امر(رسول خداۖ اور اہل بیت)پر سلام بھیجنا جیسا کہ زیارات کی نصوص میں وارد ہوا ہے یہ سلام مقولہ خطاب سے نہیں ہے بلکہ سلام کا تعلق مقولۂ ارتباط و علاقہ سے ہے اور خطاب کو علاقہ اور ارتباط سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
صاحبانِ امر پر جو سلام بھیجا جاتا ہے اس کے باریک معنی یہ ہیں کہ ہم انہیں اپنے افعال و اعمال کے ذریعہ اذیت نہ دیں کیونکہ وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں جیساکہ سورۂ قدر اور دوسری روایات اس کی گواہی دے رہی ہیں۔
ان کے دوستوں کے برے اعمال اور ان کا گناہوںاور معصیتوں میں آلودہ ہونا انہیں تکلیف پہنچاتا ہے اسی طرح ان دو فرشتوں کو رنجیدہ کرتا ہے جو ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے دوستوں کے نیک و صالح اعمال انہیں خوش کرتے ہیں ،ہم صاحبان امر پر سلام والی بحث کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے ہیں۔
ان پر سلام سے متعلق زیارتیں معمور ہیں، زیارت جامعہ غیر معروفہ میں ،کہ جس کو شیخ صدوق نے ( کتاب من لا یحضرہ الفقیہ )میں امام رضا سے نقل کیا ہے ، سلاموں کا سلسلہ ہے ہم ان میںسے ایک حصہ یہاں نقل کرتے ہیں:
''السلام علیٰ أولیاء اللّٰہ و أصفیائہ ، السلام علیٰ أمناء اللّٰہ و أحبّائہ، السلام علیٰ أنصار اللّٰہ و خلفائہ، السلام علیٰ محالّ معرفة اللّٰہ، السلام علیٰ مساکن ذکر اللّٰہ، السلام علیٰ مظھر أمر اللّٰہ و نھیہ، السلام علیٰ الدعاة الیٰ اللّٰہ، السلام علیٰ المستقرّین فی مرضاة اللّٰہ، السلام علیٰ المخلصین فی طاعة اللّٰہ، السلام علیٰ الأدلاّء علیٰ اللّٰہ، السلام علیٰ الذین من والاھم فقد والیٰ اللّٰہ، و من عاداھم فقد عادی اللّٰہ، و من عرفھم فقد عرف اللّٰہ، و من جھلھم فقد جہل اللّٰہ، و من اعتصم بھم فقد اعتصم باللّٰہ، و من تخلی عنھم فقد تخلیٰ عن اللّٰہ۔''
سلام ہو خدا کے دوستوں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر، سلام ہو خدا کے امین اور اس کے احباء پر ، سلام ہو خدا کے انصار اور اس کے خلفاء پر ، سلام ہو معرفتِ خداکے مقام پر سلام ہو، ذکرِ خدا کی منزلوں پر ،سلام ہو خدا کے امرو نہی کے ظاہر کرنے والوں پر، سلام ہو خدا کی طرف بلانے والوں پر، سلام ہو خدا کی خوشنودی کے مرکزوں پر، سلام ہو طاعتِ خدا میں خلوص کرنے والوں پر، سلام ہو خدا کی طرف راہنمائی کرنے والوں پر، سلام ہو ان لوگوں پر کہ جو ان سے محبت کرے تو وہ محبت در حقیقت خدا سے ہو اور جو ان سے دشمنی کرے تو اصل میں اس کی دشمنی خدا سے ہو، جس نے انکو پہچان لیا اس نے خد اکو پہچان لیا اور جس نے ان کو نہ پہچانا اس نے خدا کو نہ پہچانا ، جو ان سے وابستہ ہو گیا وہ خدا سے وابستہ ہو گیا اور جس نے ان کو چھوڑ دیا اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔
نصیحت
نصیحت صاحبانِ امر سے محبت و عقیدت کا دوسرا رخ ہے صاحبانِ امر کا خیر خواہ ہونا مقولۂ توحید سے ہے یہ بھی خدا و رسولۖ سے مخلصانہ محبت کے تحت آتا ہے، یہ ان تین سیاسی قضیوں میں سے ایک ہے جن کا اعلان رسولۖنے حجة الوداع کے موقعہ پر عام مسلمانوں کے سامنے مسجد خیف میں کیا تھا۔
شیخ صدوق نے اپنی کتاب خصال میں امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حجة الوداع کے موقعہ پر رسولۖ نے منی کے میدان میں مسجدِ خیف میں خطبہ دیا پہلے خدا کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: خد ا شاداب و خوش رکھے اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا اور محفوظ رکھا اور پھر اس بات کو اس شخص تک پہنچایا جس نے وہ بات نہیں سنی تھی کیونکہ بہت سے فقہ کے حامل فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ کے حامل اس شخص تک اسے پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے ،تین چیزوں سے مسلمان کا دل نہیں تھکتا ہے :
١۔ خدا کے لئے خلوص عمل سے۔
٢۔ مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواہی سے۔
٣۔ اور اپنی جماعت کے ساتھ رہنے سے۔
اس لئے کہ ان کی دعوت انہیں گھیرے ہوئے ہے ۔
اور مسلمان آپس میںبھائی بھائی ہیں،ان کا خون ایک ہی ہے اور ان کے ذمہ چیزوںکی ان کا چھوٹا بھی پابندی کرتا ہے اور وہ اپنے مخالف کے لئے ایک ہیں۔ (١)
اور صاحبانِ امر اور مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ مسلمان ان کی مدد کرے، ان کی پشت پناہی کرے ،انہیں محکم و مستحکم کرے، ان کا دفاع کرنے کی کوشش کرے، انہیں خیر خواہانہ مشورہ دے ان کی حفاظت کرے ان کے سامنے مسلمانوں کی مشکلیںاور رنج و غم کو بیان کرے یہ اس کی محبت و لگائو کا مثبت پہلو ہے ۔
..............
(١) بحار الانوار: ج٢٧ ص ٦٧۔
نمونۂ عمل اور قیادت
ولاء کے مفردات میں سے اہل بیت کی تاسی کرنا بھی ہے۔
بیشک خد اوند عالم نے پہلے ابراہیم کو اور ان کے بعد رسولۖ کو لوگوں کے لئے بہترین نمونہ عمل قرار دیا تھا اور لوگ ان دونوں کی اقتداء کرتے تھے اور خود کو ان کے لحاظ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ خداوند عالم کا ارشاد ہے :
( قَد کَانَتْ لَکُمْ أسْوَة حَسَنَة فِی بْراہِیمَ وَ الَّذِینَ مَعَہُ)(١)
یقینا ابراہیم میں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ان میں تمہارے لئے اچھا نمونہ ہے۔ نیز فرماتاہے:
(لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسوَة حَسَنَة)(٢)
رسولۖ کے بعدآپۖ کے اہل بیت اور آپۖکے خلفاء ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں، ہم اپنی زندگی میں، اپنی محبت میں ،اپنی عائلی زندگی میں، اپنے اہل و عیال سے محبت کرنے میں اور خود سے محبت کرنے میں اور ان سب سے پہلے خدا سے محبت کرنے میں ہم انہیں کی پیروی کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ تاسی، تعلم نہیں ہے ، اہل بیت ہمارے معلم اور نمونۂ عمل ہیں، ہم ان کی توجیہات اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں، ان کے راستہ پر گامزن ہوتے ہیں اور زندگی میں انہیں کی رسم و راہ اختیار کرتے ہیں،ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسی انہوںنے گزاری ہے ، عام لوگوں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ ایسے ہی رہتے ہیں جیسے وہ رہتے تھے۔
بیشک ائمہ اہل بیت معصوم ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انسانیت کے لئے کامل
..............
(١) سورہ ممتحنہ: ٤
(٢)سورہ احزاب: ٢١
نمونہ ہیں، خدا نے انہیں میزان و معیار قرار دیا ہے ، ہم خود کو انہیں کے معیار پر پرکھتے ہیںپس ہماری جو گفتار و کردار، ہماری خاموشی اور ہماری حرکت و سکون اور ہمارا اٹھنا بیٹھا ان کی گفتار و کردار اور ان کے حرکت و سکون کے مطابق ہوتا ہے وہ صحیح ہے اور جو ان سے مختلف ہے وہ غلط ہے ، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ اس میں کوئی فرق نہیں ہے ، اور زیارت جامعہ میں نقل ہونے والے درج ذیل جملے کے یہی معنی ہیں:
''المتخلف عنکم ھالک و المتقدم لکم زاھق واللازم لکم لاحق''
آپ سے روگردانی کرنے والا فانی اور آپ سے آگے بڑھنے والا مٹ جائیگا اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ہوگا ۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اہل بیت کی سیرت اورسنتوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہمارا کرداران کے کردار کے مطابق ہو جائے ،حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں: تم میں اس کی طاقت نہیں ہے لیکن تم ورع و کوشش سے میری مدد کرو۔
زیارت جامعہ میں ائمہ کی توصیف میں بیان ہوا ہے : وہ بہترین نمونے ہیں اور بہترین نمونے ہی معیار ہیں اور جہاں تک ہو سکے لوگ خود کو ان ہی معیاروں پر پرکھیں۔
رسولۖ کے اہل بیت نے حضرت ابراہیم اور خود آنحضرتۖ سے اقدار و اخلاق، عبودیت و اخلاص اور طاعت و تقویٰ کی میراث پائی ہے ۔
جو شخص انبیاء کی ہدایت پانا اور ان کے راستہ پر چلنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اہل بیت کی اقتدا ء کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے۔
زیارت جامعہ میں یہ دعا ہے :
''جعلنی اللّٰہ ممن یقتصّ آثارکم و یسلک سبیلکم و یھتدی بھداکم''
خدا مجھے ان لوگوں میں قرار دے کہ جو آپ کے راستہ پر چلتے ہیں اور آپ کی ہدایت سے ہدایت پاتے ہیں۔
رنج و مسرت
رنج و مسرت ولاء کی دو حالتیں ہیں اور یہ دونوں محبت کی نشانیاں ہیں کیونکہ جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کے غمگین ہونے سے غمگین ہوتا ہے اور اس کے خوش ہونے سے خوش ہوتا ہے ۔ امام صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ ہم ہی میں سے ہیں انکو وہی چیز رنجیدہ کرتی ہے جو ہمیں رنجیدہ کرتی ہے اور انہیں وہی چیز خوش کرتی ہے جو ہمیں خوش کرتی ہے ۔(١)
صحیح روایت میں ریان بن شبیب معتصم عباسی کے ماموں سے نقل ہوا کہ امام رضا نے اس سے فرمایا: اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنتوںکے بلند درجوں میں ہمارے ساتھ رہنا پسند کرتے ہو تو ہمارے غم میںغم اور ہماری خوشی میں خوشی منائو اور ہماری ولایت سے متمسک ہو جائو کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت کرے گا تو خدا قیامت کے دن اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔(٢)
..............
(١)امالی طوسی: ج ١ ص ٣٠٥
(٢) امالی صدوق: ص ٧٩ مجلس ٢٧
مسمع سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا: اے مسمع! تم عراقی ہو! کیا تم قبرِ حسین کی زیارت کرتے ہو؟ میںنے عرض کی: نہیں ، میں بصری مشہور ہوں، ہمارے یہاں ایک شخص ہے جو خلیفہ کی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے اورناصبی اور غیر ناصبی قبائل میں سے بہت سے لوگ ہمارے دشمن ہیں مجھے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ لوگ سلیمان کے بیٹے سے میری شکایت نہ کر دیں او روہ میرے در پے ہو جائیں، آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں یاد ہے کہ اس پر کیا احسان کیا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں۔ پھر فرمایا: کیا تم اس پر غم کا اظہار کرتے ہو؟ میںنے عرض کی : جی ہاں۔
میں اس پر اس قدر آنسو بہاتا ہوں کہ میرے اہل و عیال میرے چہرہ پر اس کا اثر دیکھتے ہیں۔ میں کھانا نہیں کھاتاخدا آپ کے آنسوئوں پر رحم کرے
جو ہماری خوشی میں خوشی اور ہمارے غم میں غم مناتے ہیں اور ہمارے خوف میں خوف زدہ ہوتے ہیں اور جب ہم امان میں ہوتے ہیں تو وہ خودکوامان میں محسوس کرتے ہیں۔ تم مرتے دم دیکھوگے کہ تمہارے پاس میرے آباء و اجدادآئے ہیں اور تمہارے بارے میں ملک الموت کو تاکید کر رہے ہیں اور تمہیں ایسی بشارت دے رہے ہیں کہ جس سے مرنے سے پہلے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ نتیجہ میں ملک الموت تمہارے لئے اس سے زیادہ مہربان ہو جائے گا کہ جتنی شفیق ماں بیٹے پر مہربان ہوتی ہے۔(١)
ابان بن تغلب سے مروی ہے انہوںنے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
..............
(١) کامل الزیارات: ص ١٠١
ہمارے اوپر ہونے والے ظلم پر رنجیدہ ہونے والے کی سانس تسبیح ،ہمارے لئے اہتمام کرنا عبادت اور ہمارے راز کو چھپانا راہِ خدا میں جہاد ہے ۔(١)
ہم اسی خاندان سے ہیں ،ہم عقیدہ ، اصول، محبت، بغض ، ولاء اور برأت میں ان کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ اور اس محبت و ولاء کی علامت ان کی خوشی و غم میں خوش اور غمگین ہونا ہے ۔لیکن ہم اپنے اس رنج و مسرت کو کیوں ظاہر کرتے ہیں اور اس کو دل و نفس کی گہرائی سے نکال کر نعرہ زنی کی صورت میں کیوںلاتے ہیں اور اس کو معاشرہ میں دوستوں اور دشمنوںکے در میان کیوں ظاہر کرتے ہیں۔
اور اہل بیت کی حدیثوں میں اس رنج و بکا خصوصاً مصائب حسین کے اظہار کی کیوں تاکید کی گئی ہے ۔
بکر بن محمد ازدی نے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے کہ آپۖ نے فضیل سے فرمایا: تم لوگ بیٹھتے اور گفتگو کرتے ہو؟ عرض کی: میں آپ پر قربان، ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ فرمایا: میں ان مجلسوں کو پسند کرتا ہوںلہٰذا تم ( ان مجلسوںمیں) ہمارے امر کو زندہ کرو، خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے ہمارے امرکو زندہ کیا۔(٢)
یہ اظہارغم اور نعرہ زنی ہماری ایمانی کیفیت کا اعلان ہے ( یہ ہماری تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی وابستگی کا اظہار ہے ) یہ اعلان و اظہار اور نعرہ زنی اہل بیت سے ہماری وابستگی کا اعلان ہے۔یہ وہ چیز ہے جس کی ہم نے مرور زمانہ میں حفاظت کی ہے جس کو ہم نے سیاسی و ثقافتی حملوں سے آج تک بچایا ہے ۔
..............
(١)امالی مفید: ص ٢٠٠ بحار الانوار: ج ٤٤ ص ٢٧٨
(٢)بحار الانوار: ج ٤٤ ص ٢٨٢
| |