اہل بیت کی
محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں
انشاء اللہ ہم عنقریب اہل بیت کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ فقرے بیان کریں گے اور ان فقروںکو اہل بیت کی زیارت سے اخذ کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ جو زیارتیں اہل بیت سے مروی ہیں وہ ان کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کے مفہوم سے بھری پڑی ہیں۔ زیارت کے متن میں غور و فکر کر کے ہم محبت و بیزاری کے مکمل نظریہ کو ثابت کر سکتے ہیں، لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیںہے اور نہ ہی اس مقالہ میںمحبت و برات کی تحقیق اور ان سے متعلق نظریہ کی تشکیل کی گنجائش ہے، ہم تو یہاں زیارتوں اور اہل بیت کی دوسری حدیثوں سے کچھ ایسے فقرے پیش کرنا چاہتے ہیں جو محبت و عقیدت سے متعلق ہیں۔
مفہوم ولاء
یہ عناصر ولاء کا پہلا عنصر ہے اور جتنی معرفت ہوتی ہے اسی تناسب سے ولاء کی قیمت ہوتی ہے اور انسان جس قدر مفہوم ولاء کو اچھے طریقہ سے سمجھتا ہے اسی لحاظ سے وہ ولاء میں قوی اور راسخ ہوگا۔
زیارت جامعہ میں آیا ہے :
''اُشھِد اللّٰہ و أشھد کم أنی مؤمن بکم و بما آمنتم بہ، کافر بعدوّکم و بماکفرتم بہ، مستبصر بشأنکم، و بضلالة من خالفکم، مؤمن بسرکم و علانیتکم، و شاہدکم و غائبکم''۔
میں خدا کو گوا ہ قرار دیتا ہوں اور آپ حضرات -اہل بیت -کو گواہ بناتا ہوںکہ میں آپ پر اور ہر اس چیز پر ایمان لایا ہوں کہ جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں، میں آپ کے دشمن کا منکر ہوں اور ہر اس چیز کا دشمن ہوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ہے ، آپ کی عظمت و شان کا اور آپ کی مخالفت کرنے والے کی گمراہی کی بصیرت رکھنے والا ہوں، آپ کے پوشیدہ و عیاں اور آپ کے حاضر و غائب پر ایمان رکھتا ہوں۔
ہم اس معرفت پراور اس اپنے اعتماد و ایمان پر خدا اور اہل بیت کو گواہ قرار دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں ہمیں قطعاً شک نہیں ہوتا ہے ۔
مندرجہ بالا فقرہ میں ولاء کے دو پہلو ہیں:
ایک مثبت: میں آپ پر اور ہر اس چیز پر ایمان رکھتا ہوں جس پرآپ کا ایمان ہے ۔
دوسرا منفی: وہ ہے بیزاری، میں آپ کے دشمن کا منکر ہوںا ور ہر اس چیز سے بیزار ہوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ہے ، یہاں کفر کے معنی ٹھکرانے اور انکار کرنے کے ہیں تو اس لحاظ سے مذکورہ فقرے کے یہ معنی ہوںگے، میںنے آپ کے دشمنوںکو چھوڑ دیا ہے بلکہ ہر اس چیز کو چھوڑ دیا ہے جس کو آپۖ حضرات نے چھوڑ دیا ہے ۔
اس سے پہلے والے جملہ میں اور اس جملہ میں ولاء کی قیمت اثبات و نفی کے ایک ساتھ ہونے میں ہے۔ ایک کو قبول کرنے میں اور دوسرے کو چھوڑنے میں ہے انسان کو اکثر صرف قبول کرنے کی زحمت نہیں دی گئی ہے بلکہ اس کے ساتھ کسی چیز کو چھوڑ نے کی بھی تکلیف دی گئی ہے۔
اور قبول و انکار کو بصیرت و ذہانت کے ساتھ ہونا چاہئے ،تقلید کی بنا پر نہیں جیسا کہ لوگ ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہیں، مستبصر بشأنکم و بضلالة من خالفکم۔
میں آپ کی عظمت و رفعت اورآپ کے مخالف کی ضلالت اور گمراہی کی بصیرت رکھتا ہوں اس جملہ میں درجِ ذیل تین نکات ہیں۔
١۔ قبول عام ہے : ''مؤمن بسرکم و علانیتکم'' میں آپ کے پوشیدہ و ظاہر پر ایمان رکھتا ہوں۔
٢۔ انکار و ترک، اہل بیت کے تمام دشمنوں اور ان کی ٹھکرائی ہوئی تمام چیزوں کو شامل ہے۔ ''کافر بعدوکم و بما کفرتم بہ'' میں نے آپ کے دشمنوں اور آپ کی ٹھکرائی ہوئی تمام چیزوںکو ٹھکرا دیا ہے ۔
٣۔ یہ قبول وانکاربصیرت و معرفت ہی سے مکمل ہوتا ہے۔ ''مستبصر بشأنکم و بضلالة من خالفکم''میں آپ کی عظمت و رفعت کی اور آ پ کے مخالف کی ضلالت کی معرفت و بصیرت رکھتا ہوں۔
تصدیق
ولاء تصدیق سے جدا نہیںہو سکتی ، ولاء کے لئے شک و شبہ سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز نہیں ہے ۔ خدا وند عالم نے راہِ ولاء میں کوئی پیچیدگی نہیں رکھی ہے ۔ بیشک رب کریم نے ولاء کو توحید سے جوڑا ہے اور ولاء کو فرد و امت کا محور قرار دیا ہے، چنانچہ توحید کے بعد اسی کی طرف لوگوں کی رغبت دلائی ہے ؛فرماتا ہے : (نَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رُسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا) اور فرماتا ہے : (أطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ أطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ أوْلِیْ الأمْرِ مِنْکُم)اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسولۖ اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ولاء تک پہنچنے کے راستہ کو واضح ہونا چاہئے تاکہ ولاء کے سلسلہ میں لوگوں کے پاس دلیل و حجت ہو ،اسی لئے ولاء تصدیق سے جدا نہیں ہے اور تصدیق یقین سے ہوتی ہے اور یقین دلیل و حجت سے ہوتا ہے ۔
اور زیارت جامعہ میں اہل بیت کو اس طرح مخاطب قرار دیا ہے: ''سعد من والاکم ، و ھلک من عاداکم ، و خاب من جحد کم و ضلّ من فارقکم و فاز من تمسّک بکم، و أمن من لجأ الیکم و سلم من صدقکم و ھدی من اعتصم بکم''
جو آپ کی ولاء سے سر شار ہوا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ سے عداوت کی وہ ہلاک ہو گیا۔ جس نے آپ کا اور آپ کے حق کا انکار کیا اس نے گھاٹا اٹھایا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ہو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیا اس نے اپنے مقصد کو پا لیا۔ اور جس نے آپ کی طرف پناہ لی وہ امان میں رہا اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ صحیح و سالم رہا اور جو آپ سے وابستہ ہو گیا و ہ ہدایت پا گیا۔
عضوی نسبت
١۔ ہم ان عناصر سے بحث کریں گے جن سے ولاء وجود میں آتی ہے اس کے لئے ضروری ہے پہلے اس لفظ کے حروف کی وضاحت کی جائے جیسا کہ اس عہد میں ہمارے ادبیات کا شیوہ ہے اور یہ بہت اہم بات ہے معمولی نہیں ہے۔ اجتماعی ربط و ضبط اور رسم و راہ سے ہمارے عہد کا ادب اس لفظ کے معنی کو بیان کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم خط افقی کے نہج سے لوگوں کے درمیان بحث کا اس جیسا رشتہ نہیں پاتے اور دوسری طرف خط عمودی کے اعتبار سے سیاسی قیادت ،اور ثقافتی مرجعیت اور طاعت و پیروی ہے جیسے ولاء اوران دونوں خطوںکے لحاظ سے ولا کا تعلق امت سے منفرد ہے :
١۔ خدا و رسول اور صاحبان امر سے امت کا ربط خط عمودی کے اعتبار سے ہے، جو کہ طاعت ، محبت ، مدد ، خیر خواہی اور اتباع کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اس ربط کااوپر سے سلسلہ شروع ہوتا ہے : جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے : (أطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ أطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ أوْلِیْ الأمْرِ مِنْکُمْ) اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول ۖ کی اطاعت کرو اور تم میں سے جولوگ صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو اور نیچے کی طرف سیادت و حاکمیت اور اطاعت ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے : ( نَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرُ سُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا الَّذِینَ یُقِیْمُونَ الصَّلٰاةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَ ھُم رَاکِعُونَ ) یہ خط عمودی ہے اس کا سلسلہ او پرسے شروع ہوتا ہے ۔
خط صعودی سے ہماری مراد امت کا اپنے صاحبان امر سے محبت کرنا ہے اور خط نزولی سے مراد صاحبان امر کا امت سے محبت کرنا ہے ، اس کے ایک سرے پر حاکمیت اور دوسرے پر رعایہ ہے .
٢۔خط افقی، یعنی لوگوں کا اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے محبت کرنا۔ اسی کو قرآن مجید نے اختصار کے سا تھ اس طرح بیان کیا ہے ''نما المؤمنون اخوة'' امام حسن عسکری نے آبہ اور قم والوں کے سامنے اس لفظ کی وضاحت اس طرح فرمائی، ''المؤمن أخو المؤمن لأمہ و أبیہ''(١)یعنی مومن، مومن کا مادری و پدری بھائی ہے ،یہ ایک ایسا لگائو اور محبت ہے کہ جس کی مثال دوسری امتوں، اور شریعتوں میں نہیں ملتی ہے۔
رسولۖ فرماتے ہیں: مومنین بھائی بھائی ہیں ان کا خون برابر ہے اور وہ اپنے غیر کے لئے ایک ہیں۔ اگر ان کا چھوٹا کسی کو پناہ دیتا ہے تو سب اس کا خیال رکھتے ہیں۔(٢)
..............
(١)بحار الانوار: ج ٥ ص ٣١٧
(٢)امالی مفید: ص ١١٠۔
امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ ''مومن ، مومن کا بھائی ہے دونوں ایک بدن کے مانند ہیں کہ اگر بدن کے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کا دکھ پورے بدن کو ہوتا ہے ۔ ''(١)
امام جعفرصادق مومنوں کو وصیت فرماتے ہیں: ایک دوسرے سے ربط و ضبط رکھو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرو، ایک دوسرے پررحم کرو، اور بھائی بھائی بن جائو جیسا کہ خدا وند کریم نے تمہیں حکم دیاہے(٢) یہ ہے ولاء کا خط افقی۔
اس سے قوی، متین اور مضبوط رشتہ میں دوسری امتوںمیںکوئی نظر نہیں آتا ہے ۔ اس وضاحت کے اعتبار سے ولاء عبارت ہے اس عضوی نسبت سے جو کہ ایک رکن کو خاندان سے ہوتی ہے ایک رکن وستون پوری عمارت کو روکے رکھتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے سیسہ پلائی ہوئی عمارت ،جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، ایک خاند ان کے افراد کا آپس میں جو رشتہ ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بدن کے اعضاء کا ہوتاہے،یہ اخوت کا رشتہ اس رشتہ سے کہیں مضبوط ہوتا ہے جو ایک خاندان کے افراد کے درمیان ہوتا ہے ۔
اس صورت میں یہ محبت اور لگائو ارتباط و علاقہ سے جدا ایک رشتہ ہے جوامت میں داخل ہے جس کو عضوی نسبت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جیسے فرد کا رشتہ خاندان سے اور عضو کا بند سے ہوتا ہے ۔
اور جب ولاء کا دارومدار خط افقی میں تعاون، ایک دوسرے سے ربط و ضبط، خیر خواہی ، نیکی، بھائی چارگی، احسان و مودت، ایک دوسرے کی مدد، ایک دوسرے کی ضمانت اور
..............
(١)بحار الانوار: ج٧٤ ص ٢٦٨
(٢) اصول کافی: ج ٢ ص ١٧٥
تکامل وغیرہ پر ہے ۔ تو خط عمودی میں ولا کا دار و مدار، طاعت، تسلیم و محبت ، نصرت و پیروی ، وابستگی، اتباع، تمسک اور ان سے اور ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے قطع تعلقی اور برات و بیزاری کرنے پر ہے ۔
اس نکتہ کے آخر میں ہم یہ بیان کر دیں کہ، محبت کرنا اور بیزار ہونا کوئی تار یخی قضیہ نہیں ہے کہ جو ہماری سیاسی زندگی اور آج کی تہذیب سے جدا ہو۔
اور امام جعفر صادق نے ولاء کی جو تعریف کی ہے اس کے لحاظ سے وہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیںہے جس کا ہماری اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے جس میں زندگی گزارتے ہیں۔امام کا ارشاد یہ ہے : جتنی اہمیت ہم ولا کو دیتے ہیں اتنی کسی چیز کو نہیں دیتے ہیں۔
ولاء یعنی طاعت، محبت، نسبت،بیزاری ، صلح و سلامتی اور جنگ اور ہماری موجودہ سیاسی و اجتماعی موقف ہے۔
جب تک کہ ولاء وبیزاری ہمارے عقائد کو حرکت و عمل کی طرف نہ بڑھائے اور شرعی ولایت کے طول میں سیاسی میدان میں جنگ و صلح میں نمایاں نہ ہواس وقت تک ولاء و بیزاری کی وہ اہمیت نہیں ہوگی جو کہ ہم اہل بیت سے وارد ہونے والی نصوص میں بیان ہوئی ہے ۔
اب ہم انشاء اللہ ولاء سے متعلق ان فقروں کو اختصار کے ساتھ بیان کریں گے جو زیارتوں میں اہل بیت سے نقل ہوئے ہیںیہ زیارات ولاء کے مفہوم سے معمور ہیں۔
برات و بیزاری
ولاء و محبت کا ایک پہلو، برات و بیزاری ہے اور ولاء و برات ایک ہی قضیہ کے دو رخ ہیںاور وہ نسبت ہے اوراور یہ برات قضیہ کی نسبت میں بہت ہی دشوارپہلو ہے اور برات کے بغیر ولاء ناقص ہے ، ایک شخص نے امیر المومنین کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ سے بھی محبت کرتا ہوں اور آپ کے دشمن سے بھی محبت کرتا ہوں۔ ( یہی ناقص ولاء ہے جس کو ہم بیان کر چکے ہیں) امیر المومنین نے اس سے فرمایا: تو اس صورت میں تم بھینگے ہو( بھینگے کو پوری چیز نظر نہیں آتی ہے) اگر تم اندھے ہو( اس صورت میں برات و بیزار ی کے ساتھ ولاء بھی ختم ہو جاتی ہے) یا تم دیکھتے ہو ( تو ولاء و برات جمع ہو جاتی ہیں)۔
زیارت جامعہ میں آیا ہے : میں خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں اور آپ حضرات کو گواہ بناتا ہوں کہ آپ پر ایمان لایا اور ہر اس چیز پر ایمان لایا ہوںجس پر آپ کا ایمان ہے ، آپ کے دشمن سے بیزار ہوں اور ہر اس چیز سے بیزار ہوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ہے، میں آپ کی عظمت کی اور آپ کے مخالف کی گمراہی کی بصیرت رکھتاہوں، میں آپ کا دوست اور آپ کے دوستوں کا دوست ہوں ،میں آپ کے دشمنوں سے بغض رکھنے والا ہوں اور ان کا دشمن ہوں۔
زیارت عاشورہ میں تو خدا کے دشمنوں سے کھلم کھلا اور شدت کے ساتھ بیزاری کا اظہار ہوا ہے:
''لعن اللّٰہ أمة قتلتکم ، و لعن اللّٰہ الممھدین لھم بالتمکین لقتالکم برئت الیٰ اللّٰہ و الیکم منھم و من أشیاعھم و أتباعھم و أولیائھم''۔
خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ کو قتل کیا، خدا لعنت کرے ان لوگوں پر کہ جنہوں نے جنگ کرنے کے لئے زمین ہموار کی، میں خدا کی بارگاہ میں اور آپ کی خدمت جناب میں ان سے ، ان کے پیروئوں، ان کا اتباع کرنے والوں اور ان کے دوستوں سے بیزار ہوں۔
اس زیارت میں صرف خدا کے دشمنوں ہی سے بیزاری کا اظہار نہیں ہوا ہے بلکہ خدا کے دشنوں کی پیروی واتباع کرنے والوں اور ان سے خوش ہونے والوں سے بھی بیزاری ہے اور جس طرح ہم اولیاء خدا کی محبت کے ذریعہ خدا سے قریب ہوئے ہیں اسی طرح ہم خدا کے دشمنوں اور ان کے دوستوں کی دشمنی سے بھی خدا سے قریب ہوتے ہیں۔ زیارت عاشورہ ہی میں ہے :
''انی اتقرب الیٰ اللّٰہ و الیٰ رسولہ بموالاتکم وبالبرائة ممن قاتلک و نصب لک الحرب وبالبرائة ممن أسس أساس ذلک و بنیٰ علیہ بنیانہ''
میں آپ کی محبت و دوستی کے ذریعہ خدااور اس کے رسولۖ کا تقرب حاصل کرتا ہوں اور ان لوگوں سے کہ جنہوں نے آپ سے قتال و جنگ کی ہے ان سے بیزارہوں اور جس نے اس کی بنیاد رکھی اور پھر اس کی عمارت بنائی اس سے بھی بیزاری کے ساتھ خدا کا تقرب چاہتا ہوں۔
ولاء اور توحید کا ربط
ولاء توحید ہی کے تحت ہے اس کو ہم پہلے بھی کئی بار بیان کر چکے ہیں ،اسلام میں ولاء کی قیمت یہ ہے کہ اس کا سوتا توحید کے چشمہ سے پھوٹتا ہے اور توحید کے طول میں آتی ہے ، کسی غیرِ خدا سے کوئی محبت نہیں ہے مگر یہ کہ خدا کے اذن اور اس کے حکم سے کی جا سکتی ہے خدا وند عالم فرماتا ہے : ( أللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا) خدا ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے ہیں۔ اس کے بعد رسولۖ خدا اور صاحبان امر کی ولایت خدا کے حکم سے واجب ہوتی ہے، جس نے خدا سے محبت کی اس نے رسولۖ سے محبت کی اور جس نے رسولۖ سے محبت کی اس نے صاحبان امر سے محبت کی، واضح رہے رسولۖ کی ولایت کو خدا کی ولایت سے اور اہل بیت کی ولایت کو رسولۖ کی ولایت سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
خدا وند عالم فرماتا ہے :( نَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا الَّذِیْنَ یُقِیمُوْنَ الصَّلاةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَ ھُمْ رَاکِعُوْنَ)(١)
تمہارا ولی صرف خدا ، رسولۖ اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواة دیتے ہیں۔
روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے اور '' یقیمون الصلٰوة و یؤتون الزکٰوة و ھم راکعون''سے حضرت علی ہی مراد ہیں۔
یہ ولایت، خدا اور اس کے رسولۖ اور ان لوگوںکی ہے جو ایمان لائے ہیں اور جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکواة دیتے ہیں وہی مسلمانوںکے ولی امر ہیں۔
اس لحاظ سے رسولۖ اور آپۖ کے اہل بیت کی ولایت خدا کی ولایت ہی کی کڑی ہے جیسا کہ رسولۖ اور آپ ۖ کے بعد مسلمانوں کے ولی امر کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت ہی کی کڑی ہے ۔ اور ولایت و طاعت ہی کی طرح محبت بھی ہے۔
..............
(١) سورہ مائدہ: ٥٥ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے اس کو فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں سورہ مائدہ کی آیہ انما ولیکم اللہ کے ذیل میں بیان کیا ہے اور شبلخجی نے نور الابصار ص ١٧٠ پر زمخشری نے کشاف میں سورہ مائدہ میں مذکورہ آیت کے ذیل میں ابو السعود نے مذکورہ آیت کے ذیل میں اسی طرح بیضاوی نے اس کو متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے سیوطی نے در منثور میں اسی آیت کے سلسلہ میں متعدد طریقوں سے روایت کی ہے . واحدی نے اسباب النزول ص ١٤٨ پر ،متقی نے کنزل العمال ج٦ ص ٣١٩ پر اور ج ٧ ص ٣٠٥ پر ہیثمی نے مجمع الزوائد: ج٧ ص ١٧ پر، طبری نے ذخائر العقبیٰ ج٨ ص١٠٢ پر اور فیروز آبادی نے فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ ج٢ ص ١٨ و ٢٤ پر اس کی روایت کی ہے.
رسولۖ سے روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا: خدا سے اس لئے محبت کرو کہ اس نے تمہیں اپنی نعمتوں سے سر شار کیا ہے اور مجھ سے خدا کی محبت کی بدولت محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میری محبت کے باعث محبت کرو۔ (١)
آپۖ ہی کا ارشاد ہے : خدا سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں اپنی نعمت سے سرشار کیا ہے اور مجھ سے خدا کی محبت کی وجہ سے محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میری محبت کے سبب محبت کرو۔(٢)
بنا بر ایں جو شخص خدا سے محبت کرے گا وہ ان حضرات سے بھی محبت کرے گا اور جو خدا کی اطاعت کرے گا وہ ان کی اطاعت کرے گا اور جو خدا سے محبت کرے گا وہ ان سے محبت کرے گا۔
یہ توحیدی میزان کا ایک پلہ اور دوسرا پلہ یہ ہے کہ جو ان سے تولیٰ کرے گا وہ خدا سے تولیٰ کرے گا اور جو ان کی اطاعت کرے گادر حقیقت وہ خدا کی اطاعت کرے گا اور جو ان سے محبت کرے گا وہ در حقیقت خدا سے محبت کرے گا۔ اس طرح یہ دوستی وولاء اور توحید کے پلے برابر ہو جائیں گے۔
اس سلسلہ میں درج ذیل روایتوں کو ملاحظہ فرمائیں جو کہ ترازو کے دوسرے پلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
..............
(١) صحیح ترمذی: ج ١٣ ص ٢٦١ تاریخ بغداد: ج٤ ص ١٦٠ اور اس کو ان دونوں سے علامہ امینی نے اپنی گراں قیمت کتاب سیرتنا و سنتنا میں تحریر کیا ہے.
(٢)صحیح ترمذی کتاب المناقب باب مناقب اہل البیت مستدرک حاکم: ج٣ ص ١٤٩ اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے.
زیارت جامعہ میں آیا ہے :
'' من والاکم فقد و ال اللّٰہ ،و من عاداکم فقد عادی اﷲ''
جس نے آپ سے محبت کی در حقیقت اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی۔
اسی زیارت میں آیا ہے :
''من أطاعکم فقد أطاع اللّٰہ و من عصاکم فقد عصی اﷲ''
جس نے آپ کی اطاعت کی در حقیقت اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے آپ کی نافرمانی کی در حقیقت اس نے خدا کی نافرمانی کی۔
اسی زیارت میں آیا ہے :
''من أحبکم فقد احب اﷲ و من أبغضکم فقد أبغض اللّٰہ''
جس نے آپ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا۔
اور ہم ان کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کے ذریعہ خداسے قریب ہوتے ہیں۔ چنانچہ زیارت عاشورہ میں ہے :
'' انی اتقرب الیٰ اللّٰہ بموالاتکم و بالبرائة ممن قاتلک و نصب لک الحرب''
میں آپ کی محبت اور اس شخص سے بیزاری کے ساتھ خدا کاتقرب چاہتا ہوں کہ جس نے آپ سے قتال کیا اور آپ سے جنگ کی۔
رسولۖ سے روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا:
''من أطاعنی فقد أطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ و من عصی علیاً فقد عصانی''۔ (١)
جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی( اسی طرح ) جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوںنے کہا: نبیۖ نے علی کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے علی! میں دنیا و آخرت میں سید و سردار ہوں تمہارا دوست میرا دوست ہے اور میرا دوست خدا کا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔(٢)
اسلام میں تولیٰ اور تبری کے مفہوم کے باریک نکات میں سے یہ بھی ہے کہ ہم ولایت خدا اور ولایت اہل بیت کے درمیان جومحکم توحیدی ربط ہے اسے دقیق طریقہ سے سمجھیں اور دونوں ولایتوں کے درمیان توحیدی توازن کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ اسلام میں جو بھی ولایت ہے وہ خد اکی ولایت کے تحت ہی ہوگی ورنہ وہ باطل ہے اور جو بھی اطاعت ہے اسے بھی خدا کی اطاعت ہی کے تحت ہونا چاہئے اور اگر خدا کی طاعت کے تحت نہیں ہے تو وہ باطل ہے اور ہر محبت کو خدا کی محبت کے تحت ہوناچاہئے ورنہ خدا کے میزان میں اس کی کوئی قیمت و حیثیت نہیں ہوگی۔
..............
(١) حاکم نے مستدرک الصحیحین ج ٣ ص ١٢١و ١٢٨ پر بیان کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے. ریاض النضرة محب الطبری ج٢ ص ١٦٧ . فیروز آبادی کی فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ ج٢ ص ١١٨
(٢) مستدرک الصحیحین ج٣ ص ١٢٧ اور حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے خطیب نے تاریخ بغداد: ج ٣ ص ١٤٠ پر ابن عباس سے سے پانچ طریقوں سے اس کی روایت کی ہے. اور لکھتے ہیں:من احبک فقد احبنی و حبی حب اللہ جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور میری محبت خدا کی محبت ہے اور محب نے ریاض النضرة ج٢ ص ١٦٦ پر فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ للفیروز آبادی ج٢ ص ٢٤٤ پر اور اس حدیث کے متعدد طرق نقل کئے ہیں.
اس سیاق میں یہ بھی ہے کہ اہل بیت خدا کی طرف راہنمائی کرنے والے اور اس کی طرف بلانے والے ہیں اور اس کے امر سے حکم کرنے والے ہیں، اس کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اورخداکے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں۔
یہ قضیہ کا ایک پہلو ہے ، اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کو چاہتا ہے اور اس کے راستہ، اس کی مرضی اور اس کے حکم و حدود کو دوست رکھتا ہے اسے اہل بیت کے راستہ پرچلنا چاہئے اور انکے عمل کو اختیار کرنا چاہئے ،اس توحیدی معادلہ کے دونوں اطراف کو ملاحظہ فرمائیں:
زیارت جامعہ میں آیا ہے : الیٰ اللّٰہ تدعون و علیہ تدلون و بہ تؤمنون ولہ تسلمون و بأمرہ تعملون و الیٰ سبیلہ ترشدون و بقولہ تحکمون۔
آپ اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اسی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اسی کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے راستہ کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور اس کے قول کے مطابق حکم دیتے ہیں۔
یہ قضیہ کا ایک سرا ہے اور اس کا دوسرا سرا یہ ہے :
''من اراد اللّٰہ بدء بکم و من وحدہ قبل عنکم و من قصدہ توجہ بکم''
اس کی تاکید ایک بار پھر کردوں کہ ہم ولاء کو خدا کی ولایت کے تحت اسی توحیدی طریقہ سے سمجھ سکتے ہیں، اگر اہل بیت کی ولایت ، طاعت اور محبت ولایت خدا کے تحت نہیں ہے تو وہ اہل بیت کی تعلیم اور ان کے قول کے خلاف ہے ۔
|