اہل بیت کے شیعہ
 

اعتدال و میانہ روی اور موازنہ

اہل بیت کے شیعوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر چیز میں اعتدال سے کام لیتے ہیں، افراط و تفریط سے بچتے ہوئے میانہ روی کو اپنا شعار بناتے ہیں، عقل و فہم میں توازن رکھتے ہیں، غلو و زیادتی اور افراط و تفریط سے پرہیز کرتے ہیں ان کے اندر محبت و ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے ۔
عمر بن سعید بن ہلال سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام باقر کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت ہماری ایک جماعت تھی، آپ نے فرمایا: تمہیں میانہ رو ہونا چاہئے کہ حد سے آگے بڑھنے والا تمہاری طرف لوٹے گا اور پیچھے رہ جانے والا تم سے ملحق ہوگا ،اے اہل بیت کے شیعو! جان لو کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ خدا پر ہماری کوئی حجت ہے اور نہ طاعت کے بغیر خدا سے قریب ہوا جا سکتا ہے پھر جو خدا کا مطیع ہوگا اس کو ہماری ولایت فائدہ پہنچائے گی اور جو نافرمان ہوگا اسے ہماری ولایت کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی۔ اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ایک دوسرے کو دھوکا نہ دینا اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہونا۔ (١)
..............
(١)بحار الانوار: ج ٦٨ منقول از مشکوٰة الانوار: ص ٦٠
حفاظتی اور سیاسی ضوابط
اہل بیت کے شیعوں نے اموی اور عباسی عہد حکومت میں بہت سخت زندگی بسر کی
ہے ،ان سخت حالات کا اقتضا یہ تھا کہ شیعہ ایک حفاظتی اورسیاسی نظم و ضبط کے بہت زیادہ پابند ہو جائیں اور حفاظتی تعلیمات کا بھرپور طریقہ سے خیال رکھیں۔
اہل بیت بھی اپنے شیعوں کو حفاظتی دستورات پر عمل کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔ اگر اہل بیت کی تعلیمات نہ ہو تیں اور اہل بیت ان تعلیمات کا التزام نہ کرتے تو بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت اہل بیت کے مکتب فکر کو اسی وقت ختم کر دیتی اور یہ مکتب اپنی ثقافتی، فکری اور تشریعی میراث کے ساتھ اس عہدتک نہ آتا۔
ان ضوابط کی ایک اہم شق تقیہ ہے ، اور راز کو چھپانا ،گفتگو میں احتیاط سے کام لینا، خاموش رہنا ،تغافل سے کام لینا انہی تعلیمات کی اہم شقوں میں سے تھا۔
جو لوگ فردی و اجتماعی طور پر ان تعلیمات پر عمل نہیں کرتے تھے ان کی وجہ سے مکتبِ اہل بیت اور ان کے شیعوںکو نقصان پہنچتا تھا۔
اہل بیت نے اپنے شیعوںکو جو سیاسی وحفاظتی تعلیمات دی تھیں ہم اس کے کچھ نمونے بیان کرنا چاہتے ہیں: امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعوںکو نمازکے اوقات میں آزمائو کہ وہ کیسے اس کی پابندی کرتے ہیں؟ اور ہمارے دشمن سے ہمارے راز کو کس طرح محفوظ رکھتے ہیں۔(١)
سلیمان بن مہران سے منقول ہے کہ انہوںنے کہا: میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ کے پاس کچھ شیعہ موجود تھے اورآپ یہ فرما رہے تھے: ہمارے لئے باعث زینت بنو باعث ننگ و عار نہ بنو، اے شیعو! اپنی زبانوں پر قابو رکھو، فضول باتیں نہ کیا کرو۔(٢)
امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے شیعوں کی دو خصلتوں کو ختم کرنے میں اپنے ہاتھ کا گوشت فدیہ میں دے دیتا۔
..............
(١)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٤٩
(٢) گذشتہ حوالہ ص ١٥١۔
امام صادق ہی فرماتے ہیں : کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں ان کا امام ہوں ، خدا کی قسم میں ان کا امام نہیں ہوں کیونکہ میں نے جتنے پردے ڈالے تھے انہوں نے سب کو چاک کر دیاہے۔ میں کہتا ہوں ایسا ہے وہ کہتے ہیں ایسا ہے ۔ (١)
امام محمد باقر سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اے میسر! کیا میں تمہیں اپنے شیعوں کے بارے میں بتائوں؟ میں نے عرض کیا: میں قربان ضرور بتائیے ؛فرمایا: وہ مضبوط قلعے ہیں، محفوظ سر حدیں ہیں، قوی العقل ہیں وہ رازوں کو افشا نہیں کرتے ہیں وہ کھرّے اور اجڈ نہیں ہیں، شب کے راہب اور دن کے شیر ہیں۔(٢)
امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا سے ڈرو! اور تقیہ کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت کرو۔(٣)آپ ہی کا ارشاد ہے : خدا کی قسم کسی چیز سے خدا کی عبادت نہیں کی گئی کہ جو خبٹی سے زیادہ خدا کے نزدیک محبوب ہو، دریافت کیا گیا کہ خبٹی کیا ہے ؟ فرمایا: تقیہ۔(٤)
امام زین العابدین نے فرمایا: خدا کی قسم میری تمنا ہے کہ اپنے شیعوں کی دو خصلتوں کے لئے میں اپنے بازو کے گوشت کے برابر فدیہ کروں.ایک ان کا طیش اور دوسرے، راز کو کم پوشیدہ رکھنا۔ (٥)
امام جعفر صادق نے فرمایا: لوگوںکو دو خصلتوں کا حکم دیا گیا تھا لیکن انہوں نے انہیں ضائع کر دیا۔ پس ان کے پاس کوئی چیز نہ رہی اور وہ ہیں صبر اور راز چھپانا۔(٦)
سلمان نے خالد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفرصادق نے فرمایا:
اے سلمان تمہارے پاس ایک دین ہے جو اسے ( مخالفوں اور دشمنوں سے) چھپائے
..............
(١) بحار الانوار: ج ٢ ص ٨٠
(٢) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٨٠
(٣) امالی مفید: ص ٥٩
(٤) اصول کافی: ج٢ ص ٢١٨
(٥)اصول کافی: ج٢ ص ٢٢١ بحار الانوار: ج ٧٥ ص ٧٢ خصال صدوق: ص ٤٤
(٦)اصول کافی: ج٢ ص ٢٢٢
گا ، خدا اسے عزت عطا کرے گا اور جو اس راز کو فاش کرے گا خدا اسے ذلیل کرے گا۔ (١)
امام محمد باقر سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم مجھے اپنے اصحاب میں وہ بہت زیادہ محبوب ہے جو ان میں زیادہ پاک دامن ، زیادہ سمجھ دار اور فقہ کا زیادہ جاننے والا اور ہماری باتوں کو زیادہ چھپانے والا ہے ۔ (٢)
امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم وہی کہو جو ہم نے بیان کیا ہے اور جس کے بارے میں ہم نے لب کشائی نہیں کی ہے اس کے بارے میں تم بھی زبان نہ کھولو۔
آپ ہی کا ارشاد ہے : جس شخص نے ہماری باتوں اور حدیثوں کا راز فاش کر دیا اس نے ہمیں غلطی و خطا سے قتل نہیں کیا ہے بلکہ ہمیںجان بوجھ کر قتل کیا ہے ۔یہ عجیب تعبیر ہے جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔(٣)
جو لوگ دنیائے اسلام میں بسنے والے اہل بیت کے پیرئوں کے راز کو فاش کرتے
تھے اور یہ کام وہ اس وقت انجام دیتے تھے جب بنی عباس کی حکومت کا ظلم اپنے عروج پر تھا گویا یہ جان بوجھکر حکومت کو شیعوں کی طرف متوجہ کرتے تھے۔اگر چہ یہ کام وہ غلط نیت سے انجام نہیں دیتے تھے بلکہ وہ لوگوں سے اہل بیت کی حدیثیں بیان کرتے تھے تاکہ لوگ اہل بیت سے وابستہ ہو جائیں اور ان کے مکتب کو تسلیم کر لیں اور شیعیت پھیل جائے ،یہ سب محبت و عقیدت ہی میں ہوتا تھا ،لیکن ان چیزوںکی نشر و اشاعت ان کی ذمہ داری نہیں تھی۔
..............
(١)اصول کافی: ج ٢ ص ٢٢٦
(٢)بحار الانوار: ج٧٥ ص ٧٦
(٣) بحار الانوار: ج٢ ص ٧٤